نئی دہلی:عالمی تنظیم برائے فضلائے ازہر انڈیا کے زیر اہتمام فارغین جامعہ ازہر کی نمائند ہ تنظیم ، عالمی تنظیم برائے فضلائے ازہر قاہر ہ مصر کے مرکزی دفتر سے پندرہ روزہ آن لائن علمی ودعوتی ٹریننگ کا آٖغازہوا،افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ ازہر کے سابق وائس چانسلر ممتاز عالم دین ڈاکٹرابراہیم صلاح ہدہد نے کہا کہ جامعہ ازہر اسلام كا ايك مستحکم اور مضبوط قلعہ ہے، جو سالہا سال سے اپنی ضیاء پاشیوں سے دنیا کو منو ر کئے ہوئے ہے ،جسے ہزار سال کی زياده مدت سے پوری دنيا کے مسلمانوں كے لئے مرجع ہونے کا شرف حاصل ہے ، یہ اپنے نام اور وصف کیساتھ دنیا کا سب سے بڑا مذہبی مرجع و ماخذ ہے ، اسکا منہج افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال و سطیت پر مبنی ہے ، اس عظیم ادارے کو قبلہ علم بھی کہا جاتا ہے ، اسکے علاوہ یہ اپنے قیام کے دور ہی سے مرجع خلائق خاص وعام رہا ہے ،جہاں دنیا کے ہر کونے سے تشنگان علوم نبوت اپنی پیاس بجھانے کیلئے اسکا رخ کرتے رہے ہیں، یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ میں سے ہر دور میں اپنے وقت کے جید محدثین ، مفسرین ، متکلمین ،فلاسفہ ، اطباء ، علماءء ، فضلاء ، داعیان و مبلغین ، اور مفتیان کرام کی عظیم جماعت رہی ہے ، جنہوں نے دینی ،مذہبی ، ملی ،سماجی ، سیاسی ، علمی ،فکری ، دعوتی ، تبلیغی ،تصنیفی ،تالیفی ،تدریسی اور ثقافتی میدانوں میں نمایاں اور کلیدی کردار اداکیا ہے ، اور بحمدہ تعالی اب بھی وسیع پیمانے پر متعدد شعبوں میں اپنی گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے ، اور بالخصوص معتدل فكر اور وسطيت كى نشر و اشاعت میں اسكا بہت اہم كردار ہے ،امن و سلامتی كے قيام، مذہبی رواداری كے فروغ اور مختلف اديان و مذاہب كے درميان گفتگو کے اہتمام میں اسكى كوششيں اور كاوشیں قابل صد تحسين ہیں،یہ دین ودنیا کی تعلیم کا حسین سنگم ہے ۔
اس موقع پر عالمی تنظیم برائے فضلائے ازہر انڈیا کے نائب جنرل سکریٹری اورٹریننگ کوآرڈینیٹر مولانا فضل الرحمن ندوی ازہری نے بتایا کہ عزت مآب پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر کی ایماء پر کورونا وائرس میں لاک ڈاؤن کے دوران فاصلاتی تعلیم کے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئےاس آن لائن ٹریننگ کاآغاز کیا گیا ہے،اسکا مقصد علماء کرام کو علمی وفکری اور دعوتی نقطہ نظر سے عصری اور تراثی معرفت سے ہم آہنگ کرنا ہے تاکہ وہ موجودہ دور میں علمی وفکری اور دعوتی قیادت کے لئے تیار ہو سکیں اور اپنے فرائض کو موجودہ دور میں بصیرت کیساتھ انجام دے سکیں ،اس ٹریننگ میں بھارت کے مختلف علاقوں سے 63 علماءاور خطباء حضرات شرکت کر رہے ہیں ، انہوں نے مزیدکہا کہ جامعہ ازہر کے چیدہ علماء کرام اور شیوخ اس میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ اپنے قیمتی محاضرات پیش کریں گے ، اور ہر لکچر کے بعد سوال وجواب کا بھی موقع ہوگا ،اور ٹریننگ کے اختتام پر مشارکین کو عالمی تنظیم برائے فضلائے ازہر قاہر ہ کی جانب سے توصیفی سند سے بھی نوازا جائیگا ۔
15 جون, 2020
قومی اردو کونسل کے کمپیوٹر کورس کو وزارت برائے اسکل ڈیولپمنٹ سے منظوری ملی
اس سے اردو طلبہ و طالبات کے لیے کامیابی کی مزید راہیں کھلیں گی:ڈاکٹر شیخ عقیل احمد
نئی دہلی:اردو زبان کے طلبہ و طالبات کو کمپیوٹر اور جدید انفارمیشن ٹکنالوجی سے مربوط کرنے اور اس شعبے میں کریئر بنانے کا موقع فراہم کرنے کے لیے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تحت کمپیوٹر اپلی کیشنز،بزنس اکاؤنٹنگ اینڈ ملٹی پل ڈی ٹی پی کا ایک سالہ ڈپلوما کورس کروایا جاتاہے۔ جس سے اب تک پورے ملک کے لاکھوں طلبہ و طالبات استفادہ کرچکے ہیں اوراس سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں ملازمت کے حصول میں بھی کامیاب رہے ہیں۔واضح رہے کہ کونسل کا یہ کورس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی(نیلیٹ)چنڈی گڑھ(وزارت برائے الیکٹرانکس و انفارمیشن ٹکنالوجی) کے اشتراک سے چل رہاہے اور اب اس کورس کو وزارت برائے اِسکل ڈیولپمنٹ کے تحت چلنے والے ادارہ نیشنل اسکل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے منظوری مل گئی ہے،جس سے اس کورس سے مستفید ہونے والے طلبہ و طالبات کے لیے کامیابی اور سرکاری و غیر سرکاری ملازمتوں کے امکانات مزید وسیع ہوگئے ہیں۔اس موقعے پرخوشی کا اظہار کرتے ہوئے کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کہاکہ یہ قومی کونسل کی بڑی حصولیابی ہے اورکونسل کے کمپیوٹر کورس کو اسکل ڈیولپمنٹ منسٹری سے منظوری ملنے کے بعد اس کورس کو مکمل کرنے والے طلبہ وطالبات کے لیے کامیابی کی راہیں مزید روشن ہوگئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ پہلے بھی کونسل کا کمپیوٹر کورس مکمل کرنے کے بعداس کے سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر پرائیویٹ اور متعدد ریاستی حکومتوں کے اداروں میں ملازمت مل جاتی تھی مگر اب اس سے تمام ریاستوں اور مرکزی حکومت کے مختلف شعبوں میں بھی ملازمت کا حصول ممکن ہوگا۔ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ قومی کونسل شروع سے ہی اردو دنیا کی ہمہ جہت ترقی کے لیے کوشاں ہے اور کونسل کے تحت چلنے والا کمپیوٹر کورس اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے،اس وقت پورے ملک میں کونسل کے پانچ سو سے زائد سینٹرز چل رہے ہیں جہاں سے ایک لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات ڈپلوما ان کمپیوٹر اپلی کیشن،بزنس اکاؤنٹنگ اینڈ ملٹی لنگول ڈی ٹی پی کرکے اپنا کریئر بنا چکے ہیں۔ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ کونسل اردو دنیا کوعصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور اردو کے طالب علموں کے روشن مستقبل کی تعمیر کے سلسلے میں اپنے مقاصد و اہداف کے حصول کے لیے پابندِ عہد ہے اور ہم مسلسل ایسی کوششیں کررہے ہیں جن سے اردو زبان کی ترقی بھی ہو،ساتھ ہی اردودنیا کو کمپیوٹر اور جدید ٹکنالوجی سے بھی مربوط کیا جائے اور اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں اور بچیوں کے لیے ترقی و کریئر کی نئی نئی راہیں بھی ہموار کی جائیں۔
جی صفورا زرگرکشمیری خاتون آہن، اعلیٰ تعلیم یافتہ، طلبہ لیڈر، قوم کی انقلابی بیٹی، بیدار مغز، غیرت مند، جرأت مند، حوصلہ مند، باہمت ، بے باک، نڈر، بے خوف، دلیر، باکردار،باحیاء، پاک دامن، وفاشعار ، پیکر امن، محب وطن، بچپن سے پاکستانی ہونے کا طعنہ سننے والی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پی ایچ ڈی اسکالر، جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کی رکن، سی اے اے جیسے کالے قانون کے خلاف آواز اُٹھانے والی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے درودیوار سے انقلاب وانقلاب وانقلاب اور آزادی کا نعرہ بلند کرکے پورے ملک میں سی اے اے تحریک کو پروان چڑھانے والی جامعہ کی آواز، انقلاب پسند، حق کے لیے لڑنے والی، اقلیتوں کے مستقبل کے لیے فکر مند، آزاد ہند میں عوامی آزادی کے لیے ، عوام کے حقوق کےلیے، آئین مخالف کالے قانون کے خلاف آواز اُٹھانے کے جرم میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی، مجبوروبے کس، معصوم ہوتے ہوئے گنہ گار، سازشوں کی شکار، دہلی میں فساد بھڑکانے کے الزام میں کئی ماہ سے تہاڑ جیل کی کال کوٹھری میں ننھی جان کو کوکھ میں لیے پابند سلاسل صفورا زرگر ہوں۔
میری پیدائش ۱۹۹۳ میں کشمیر کے کشتواڑ میں صابر حسین زرگر کے یہاں ہوئی، پیدائش کے کچھ برسوں بعد والد محترم کے فرید آباد ٹرانسفر ہوتے ہی دہلی آگئی اور یہیں اول تا آخر تعلیم وتربیت ہوئی۔ مختلف کالجوں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد دیارِ شوق اور شہرِ آرزو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی انقلابی سرزمین پر علم میں پختگی کے لیے قدم رکھی، فی الحال جامعہ کی ایم فل کی طالبہ ہوں۔ ۶؍اکتوبر ۲۰۱۸ کو دوران طالب علمی صبور احمد شروال کو رفیق منتخب کیا اور نکاح کے مقدس بندھن میں بندھ کر وفا شعار بیوی بن گئی۔ ہاں میں وہی صفورا زرگر ہوں جسے شاہین باغ کی دنگائی اور جامعہ کی غیر شادی شدہ طالبہ کہا جارہا ہے، جس کے حاملہ ہونے کا مذاق اڑایاجارہا ہے، جسے برے القابات سے نوازا جارہا، اور برے اطوار والی لڑکی بتایا جارہا ہے، یہ سب کچھ کرنے والے وہ لوگ ہیں جو انسانیت سے عاری ہیں، جو انسان نما بدزبان جانور ہیں۔ حیوانیت جن کا شیوہ ہے۔ نفرت جن کا پیشہ ہے۔ عداوت جن کا مذہب ہے۔ انسانیت دشمنی جن کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ جنہوں نے جنین کو ماں کا پیٹ چاک کرکے نکالا اور نیزے پر اچھال کرکے خوشیاں منائی ہیں۔ ایسے ظالم و جابر اور متعصبانہ ذہن رکھنے والے نفرت کے سوداگر، بے ضمیر لوگوں نے میری کوکھ میں پل رہے جنین کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی معطون کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ ان ارذل الخلائق کی پشت پناہی کرنے والے وہ نام نہاد مہذب اور دانشوران ہیں جو دوسروں کو عورت کی عزت کرنے کا گیان بانٹتے ہیں۔ حاملہ ہتھنی کی موت پر مگر مچھ کے آنسو رونے والے انسانیت دشمن اندھ بھکت میرے حاملہ ہونے کے باوجود جیل میں بند ہونے پر خوشیاں منارہے ہیں۔ انسانیت کی یہ کون سی صفت ہے جس میں جانور کی موت پر واویلا مچایا جائے اور ایک حاملہ طالبہ کے قید و بند پر خوشیوں کے نغمات گنگنائے جائیں۔ عورتوں کی عزت وتوقیر سے عاری، ماں بہن بیوی اور بھائی کے حدود وقیود سے آزا د، بنا شادی کے بچے پیدا کرنے والے سلیبرٹیوں کو مبارکبادی دینے والے اور لینے والے مجھ پر الزام تراشیاں کررہے ہیں کہ میں بنا شادی کے ماں بن گئی ہوں۔ اخلاق سے نابلد مجھے اخلاق کا درس دینے کی کوشش کررہے ہیں؛ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ میں شادی شدہ، پاکدامن اور عفت مآب وفاشعار خاتون ہوں اور اہل حق سے ہوں اس لیے مجھ پر الزامات لگ رہے ہیں؛ کیوں کہ اہل حق پر الزامات آج سے نہیں زمانہ قدیم سے ہی لگتے چلے آئے ہیں، جب ہماری اماں عائشہؓ صدیقہ پر الزام عائد کیاجاسکتا ہے تو پھر میں کون ہوتی ہوں۔ مجھے اس بات کا غم نہیں ہے۔ میں کل بھی مضبوط تھی اور آج بھی مضبوط ہوں۔ میں کل بھی فسطائیت کے خلاف بلند آواز تھی اور آج بھی دنگائیوں کے خلاف بلند دیوار ہوں۔ نہ تو کل میں نے ظالموں کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہیں اور نہ آئندہ ظلم کے سامنے ہمت ہار جاؤں گی۔
ہاں میں وہی صفورا زرگر ہوں جس نے ۱۵؍دسمبر کو شہر آرزو میں طلباء کو پولس کی بربریت کا شکار ہوتے دیکھا، لائبریری میں پڑھ رہے طلبا کو خون میں لت پت پڑے دیکھا، لڑکیوں کے ہاسٹل میں ان کے نازک جسموں سے خون رستے دیکھا، میں خود ۱۵؍دسمبر کو ظلم کا شکار ہوئی ،خوف سے بے ہوش ہوئی؛ لیکن مجھے ہی شکار کرلیاگیا ، مجرم جب منصف بن جائے تو وہ مظلوم کو ہی ظالم بناکر پیش کرتا ہے میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ہے، میں نے آئین کے تحفظ کی بات کی ، میں نے شہریت قانون کے خلاف آواز اُٹھائی ، دہلی فساد متاثرین سے ہمدردی کی تو جیل کی قید و بند بطور انعام ملی اور جنہوں نے دہلی فساد کو بھڑکایا، جنہوں نے ’گولی مارو سالوں‘ کا نعرہ دیا، جنہوں نے بولی کی بھاشا نہ سمجھنے پر گولی کی بھاشا سمجھانے کو کہا، جنہوں نے کرنٹ لگانے کی بات کی وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔ جنہوں نے سر عام پولس کی موجودگی میں فساد بھڑکانے کی بات کی وہ دلارے بنے ہوئے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ ابھی حاکم ہیں، وہ گنہ گار ہوتے ہوئے بھی معصوم ہیں اور میں اور مجھ جیسی دیگر لڑکیاں اور لڑکے جو انصاف کے علمبردار ہیں، جو آئین وقانون کی بات کرتے ہیں وہ مجرم ہیں؛ اس لیے وہ پابند سلاسل کیے جارہے ہیں۔ ظالموں کو عہدوں سے نوازا جارہاہے، معصوموں کو جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہے۔ گولی چلانے والوں کو ضمانت مل رہی ہے اور دستور کی دہائی دینے والوں کی درخواست ضمانت رد کی جارہی ہے۔ آگ لگانے والے آزاد گھوم رہے ہیں اور آگ بجھانے والوں کو مجرم بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ نفرت آمیز تقریر کرنے والے آرام سے گھوم رہے ہیں اور محبت کا گیت گانے والے قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ دستور کی خلاف ورزی کرنے والے معصوم بن گئے اور دستور کے تحفظ کیلئے احتجاج کرنے والے مجرم بنا دیئے گئے ہیں۔
ہاں میں وہی صفورا زرگر ہوں جس نے عید سے قبل جیل کی سلاخوں میں بند رہتے ہوئے درد سے بھرا خط اپنی ماں عزیز واقارب ، جامعہ اور ملک کےلیے لکھا،خط میں والدین کی شفقت ، ماں کی ممتا، بہن کی محبت کو یاد کرکے روئی، طلبہ کی ڈھارس بندھائی، اپنے قریبی طلبہ لیڈر میران حیدر، آصف اقبال اور شفاء الرحمان وغیرہ جنہیں بھی کال کوٹھری میں ڈال دیاگیا ہے یاد کی ، خط میں خود کے صبر اور ملک کی سلامتی کےلیے اور ملک کے روشن مستقبل جامعہ کے لیے دعا کی اپیل کی ۔ ہاں میں وہی صفورہ زر گر ہوں جو جیل میں اپنی کوکھ میں پل رہے معصوم کے ساتھ صبر آزما حالات سے دوچار ہوں، دردوکرب میں ہوں؛ لیکن خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں، مجھے امید ہے کہ جس طرح خدا نے محمد بن قاسم کو بھیج کر دیبل کی جیل سے بے قصور مسلم خواتین کو آزاد کروایا تھا اسی طرح یہاں بھی کسی قاسم ومحمود کی اولاد کو بھیج کر نفرت وظلم کی شکار مجھ جیسی لاکھوں مظلومین کی مدد کرے گا ۔ کیوں کہ ‘دیبل سے لے کر تہاڑ تک’ ظالموں کا ایک ہی گروہ ہے اور مظلوموں کے خلاف ایک ہی رویہ ہے صرف مظلوں پر ظلم وزیادتی اور ظلم زیادہ دن تک قائم نہیں رہتا، اللہ جلد ہی ظالموں کو نشان عبرت بنادیتا ہے اور مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ جلد ہی وہ دن آنے والا ہے: ‘جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔(فیض احمد فیض)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
(پروفیسر محمد سجاد،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)
قسط:14
بابری مسجد کے انہدام (1992) اور گجرات فسادات (2002) کے بعد مسلم نوجوانوں کے ایک حصے کے لئے مشکلیں بڑھتی چلی گئیں۔ اس دوران ایک طرف زعفرانی سیاست کا شدید عروج شمالی اور مغربی ہندوستان سے پھیل کر جنوبی ہند کے کئی علاقوں میں ہوا۔ جنوبی کرناٹک کے ساحلی ضلعوں (منگلور اور اطراف) میں خاص طور پر اس کا عروج ہوا۔ اس عمل کی تفصیل اگلی قسط میں دی جائے گی۔ اس دوران 2004 سے 2014 تک مرکز میں کانگریس کی حکومت رہی۔ یہ وہ عہد تھا جب وزیر اعظم کا تعلق سکھ اقلیت سے تھا، اس سے قبل کی این ڈی اے حکومت نے ایک مسلمان، اے پی جے عبدالکلام کو صدر جمہوریہ بنا یا تھا، حکمراں پارٹی کی سربراہ کا تعلق عیسائی اقلیت سے تھا، ان کے سیاسی مشیر کا تعلق مسلم اقلیت سے تھا، کئی علاقائی اتحادی پارٹیوں پر مسلم نواز ہونے کا ہی تاثر تھا وغیرہ۔ اس کے علاوہ مرکز کی یو پی اے حکومت میں وزیر اعظم کی راجندر سچر کمیٹی رپورٹ (2006) کے ذریعے مسلمانوں کے تعلیمی و اقتصادی میدان میں لگاتار پچھڑتے جانے کی بات کو اب سرکاری دستاویز اور ثبوت کی شکل دے دی گئی اور رنگ ناتھ مشرا کمیٹی رہورٹ کے ذریعے اس کے نفاذ کی تیاری کا اعلان بھی ہونے لگا۔
اس کے بعد وہ حکومت لگاتار کچھ ایسی پبلک پالیسی بنانے کے اعلانات کرتی رہی (مثلا مواقع میں مساوات کے لئے بھی ایک کمیشن بحال کیا گیا اور فرقہ وارانہ فسادات روکنے کے سلسلے میں بھی ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا)، جس سے ہندوؤں کی بڑی آبادی کو یہ لگنے لگا کہ یہ ملک صرف مسلم اقلیتوں کا ہو کر رہ گیا ہے۔
ہندوؤں کی اونچی ذات پہلے ہی منڈل کمیشن کے نافذ ہونے سے پریشان ہو چکی تھی۔ ساتھ ساتھ او بی سی اور دلت فہرست کی نچلی ذاتوں کی بڑی آبادی کو کوئی بڑا فائدہ ملتا دکھائی نہیں دے رہا تھا، خاص طور پر سیاسی اقتدار کے میدان میں اور اقتصادی نج کاری اور عالم گیریت کے نتیجے میں جو بھی نوکریاں اونچی ذاتوں کے نوجوانوں کو مل رہی تھیں وہ 2008 کی اقتصادی مندی کے بعد بہت مشکل ہونے لگی تھی۔ جب بی ٹیک اور ایم بی اے والے نوجوان بھی معمولی سرکاری نوکریوں کی طرف مڑنا چاہے، تو انہیں منڈل ریزرویشن کے نتیجے میں اپنی جگہ بنانا مزید مشکل نظر آنے لگا۔
سیاسی اقتدار میں، مسلمانوں کی مدد سے اقتدار میں بیٹھی علاقائی پارٹیوں کو شکست دینا ان اونچی ذاتوں کے لئے لگاتار مشکل ہو چکا تھا اور ہوتا جا رہا تھا۔ اس سے بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنتا جا رہا تھا۔
جب کہ مسلمانوں میں عرب ممالک کی نوکریوں کی وجہ سے اور مسلمانوں میں ہنر مند دست کار نوجوانوں کی بڑی تعداد ہونے کی وجہ سے اقتصادی کھلے پن کا خوب فائدہ ملا۔ ٹیکسی ڈرائیور، مو ٹر میکانک، بجلی مستری، راج مستری، پینٹر، ویلڈر، پنچر اور ٹائر ٹیوب کی تجارت اور دیگر چھوٹی تجارتوں میں مسلمانوں کا حصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ ان کی تعلیمی ترقی بھی ہو رہی تھی، خاص طور سے آئی ٹی آئی، ڈپلو ما انجنیرنگ، صنعتی حفاظتی شا رٹ ٹرم کورس کے ذریعہ اور ان کو عرب ممالک میں نوکریاں ملتی جا رہی تھیں۔ ان سب کا مظاہرہ محلوں میں مسجدوں کی عمارتوں (اونچے گنبد، اونچے مینار) کے معرفت ہو رہا تھا۔ اور علاقے کے بازاروں میں ان کی قوت خرید میں آئے اضافہ کا بھی مظاہرہ ہو رہا تھا، مذہبی تیوہاروں کے ذریعہ بھی ہو رہا تھا۔ ان کی بڑی آبادی کی نمائندگی بلدیاتی اداروں میں بڑھتی جا رہی تھی۔ ان سب کے رد عمل کے طور پر ہندوؤں کی بڑی آبادی میں اب حسد اور اس سے بڑھ کر نفرت کا عنصر آنے لگا تھا۔ اس حسد اور نفرت کا سب سے واضح مظاہرہ پاپولر میڈیا میں ہونے لگا۔ 2000 کی دہائی میں ہی، پارلیمنٹ پر حملے کے ساتھ، مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑا جانے لگا اور اس کو عالمی طور پر تقویت ملی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے (ستمبر 2001) میں مسلمانوں کے ملزم ہونے کی وجہ سے ۔
ادھر یو پی اے حکومت اقلیتی فلاح کا صرف اعلان کرتی رہی۔ اس کے نفاذ کے عمل میں یا تو سرکاری اداروں میں بیٹھے با اثر لوگوں نے رکاوٹیں پیدا کیں یا کانگریس خود بھی عمل کے بجائے اعلان میں ہی یقین رکھتی رہی۔ اس پہلو پر اعداد و شمار سے لے کر تجزیاتی تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں بی ون کم کی کتاب ، دی اسٹرگل فار ایکولیٹی: انڈیاز مسلمس اینڈ ری تھنکنگ دی یو پی ایز ایکسپیرئنس (2019)۔
نفاذ کی سطح پر اس کوتاہی اور مبینہ طور پر مسلم نواز علاقا ئی حکومتوں، (خاص طور سے بہار، اتر پردیش، اور مغربی بنگال کی حکومتوں کے خلاف بھی سچر اور دیگر صوبائی رپورٹوں نے ایسا ہی انکشاف کیا کہ کمیونسٹ اور آر جے ڈی، سماج وادی، بہوجن سماج پارٹی، کی حکومتوں نے بھی مسلمانوں کو پیچھے ہی رکھنے کا کام کیا ہے)، کے خلاف مسلمانوں میں بھی ایک ایسا ہی تاثر بنتا گیا۔ لہذا اسی دوران آسام میں بدرالدین اجمل کی اے آئی یو ڈی ایف پارٹی، اتر پردیش میں بھی کئی چھوٹی چھوٹی "مسلم "پارٹیاں وجود میں آئیں۔ (ان میں سے کچھ کا ذکر پچھلی کسی قسط میں ہو چکا ہے)- سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (آیس ڈی پی آئی)، پیوپلس ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی، کیرل)، ویلفئیر پارٹی آف انڈیا (ڈبلیو پی آئی)، ویمین پرسنل لا بورڈ، پسماندہ تحریک وغیرہ بھی وجود میں آئیں اور سر گرم ہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، پچھلی دو دہائیوں میں ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان بھی کچھ تعلیم یافتہ مڈل کلاس میں اضافہ ہوا ہے۔ مسلم ویلفئر، یعنی فلاحی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں، سماجی تحریکیں، وغیرہ وجود میں آئی ہیں۔ ان میں علما بھی تعلیمی تحریکیں، بیداری لانے والی اشاعتیں، نوجوانوں اور عورتوں کی تنظیمیں، ترقیاتی کاموں کی تنظیمیں وغیرہ بنانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ دیگر مسلمان بھی ان سے مقابلہ کرتے ہوئے اس طرح کے اقدام کرنے لگے ہیں۔ تاکہ بیروکریسی، پولیس، عدلیہ، بلدیاتی اداروں میں مسلم نمائندگی میں اضافہ ہو۔
ان سب کے علاوہ ایک خاص قسم کا سیاسی نظریہ رکھنے والی کچھ تنظیمیں بھی وجود میں آئیں۔ ان سب میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا، یعنی، پی ایف آئی کا ذکر ضروری ہے۔ اس تنظیم نے خاص طور سے عدالتی لڑائیاں لڑنا اپنی ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔ آکسفورڈ یونی ورسٹی کی آرنڈٹ ایمریچ نے 2019 میں ایک تحقیقی مضمون بھی اس تنظیم پر شائع کیا ہے۔ اس قسط میں اس مضمون سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔
یوں تو اس تنظیم کو ملک گیر پیمانے پر زیادہ توجہ 2017 میں ملی جب کیرل کی لڑکی ہادیہ کی شادی (پی ایف آئی کے ایک مسلمان کارکن سے) اور اس لڑکی کے تبدیلیِ مذہب کا معاملہ سامنے آیا۔ جھارکھنڈ کی بی جے پی حکومت نے بھی پی ایف آئی پر پابندی لگا دیی تھی۔
لیکن جنوبی ہند، بالخصوص کیرل میں یہ تنظیم 1990 کی دہائی میں ہی وجود میں آ چکی تھی۔
پی ایف آئی کی بنیاد کی فوری وجہ تو یہ بتائی جاتی ہے کہ 1980 کی دہائی میں جنوبی ہند میں بڑے پیمانے پر چھوٹے بڑے فسادات ہوئے جن میں مجرموں کے خلاف کو ئی قانونی کارروائیاں نہیں کی گئیں۔ ساحلی کرناٹک اور کیرل میں ہندوتو کی تحریک 1990 کی دہائی کے اخیر سے شدت اختیار کرنے لگی۔ فسادات بھی متواتر ہونے لگے، پولیس کا مسلم مخالف تعصب اور عدلیہ کی کو تاہیاں نمایاں ہونے لگیں، کہا جاتا ہے کہ تب جا کر ان کے رد عمل کےطور پر پی ایف آئی وجود میں آئی ۔
کہا جاتا ہے کہ پی ایف آئی کے تین لاکھ سے زائد ممبر ہیں، دس لاکھ سے زیادہ حمایت کرنے والے لوگ ہیں۔ اس کا انتخابی محاذ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) ہے۔ میسور کے جولائی 2009 کے فسادات کے بعد پی ایف آئی کی سر گرمیوں میں زیادہ تیزی آئی ، جب پی ایف آئی نے یہ سوچا کہ مسلم عوام اور نوجوانوں میں قانونی حق و اختیارات کے تئیں بیداری لا کر قانونی لڑائیاں لڑ کر ہی امتیازی برتاؤ، سماجی مظالم وغیرہ کے خلاف انصاف حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
ان کا صدر دفتر اب دہلی میں ہے۔ بائیس صوبوں میں ان کی سر گرمیاں ہیں۔ ان کے رہنما اور کارکنوں کی بڑی تعداد کا تعلق جدید تعلیم یافتہ طبقے سے ہے۔ ان میں سے بیشتر کا روزگار فارمل سیکٹر میں ہے۔ سافٹویئر پروفیشنل، انجینئر، ٹیچر، ڈاکٹر، اور پڑھے لکھے تاجر وغیرہ ان کے کارکن ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا روزگار عرب ممالک میں ہے۔ کچھ سینئر لیڈروں کا تعلق ایس آئی ایم آئی سے بھی تھا۔ پی ایف آئی نے خود کو سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں، ترقیاتی کاموں سے منسلک تنظیموں، آل انڈیا امام کونسل، نیشنل کنفیڈیریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائیزیشن، کیمپس فرنٹ آف انڈیا، نیشنل ویمینس فرنٹ، ری ہیب انڈیا فاؤنڈیشن، وغیرہ سے اپنا تعلق بنایا ہوا ہے۔
پی ایف آئی نے آیس آئی ایم آئی کی کئی سرگرمیوں کی تنقید بھی کی ہے، (خاص طور سے ان کی آئین مخالف سر گرمیاں اور اسلامی حکومت قائم کرنے کے منصوبے کو مسترد کیا ہے)- پی ایف آئی کی لیڈرشپ اور کارکن کے برعکس اس کے حمایتیوں میں بیشتر کا تعلق انفارمل سیکٹر کی معیشت سے ہے۔
پولیس اور سرکاری خفیہ ایجینسیوں نے اس تنظیم کو شدید شبہ کی نظر سے دیکھنا شروع کیا ہے اور اسے ایک تیزی سے بڑھنے والی تنظیم قرار دیا ہے۔ ان کے کارکنوں پر شدید الزامات بھی عائد کئے گئے ہیں مثلا سیاسی ہنسا، مخالفین کا قتل، بیرونی ممالک سے فنڈ حاصل کر کے دہشت گردی پھیلانا، نوجوانوں کو تشدد کی طرف مائل کرنا، اور ہندو رائٹ ونگ تنظیموں کی طرز پر ساحلی کرناٹک اور اطراف میں کلچرل پولیسنگ کرنا۔ غیر قانونی ہتھیار رکھنا، اغوا کر کے رقم اینٹھنا، خوف و دہشت کا ماحول بنانا وغیرہ جیسے الزامات بھی ان پر عائد کئے گئے، جن کی تردید بھی ان کی جانب سے ہوئی۔ ویکیپیڈیا پر ان کی تفصیلات اور ان کے حوالے دستیاب ہیں، گرچہ اس کی باضابطہ تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔
ان تمام الزامات کے پیش نظر اس تنظیم نے لگا تار یہ کوشش کی ہے کہ اس کو اینٹی نیشنل اور اسلامی طرز حکومت قائم کرنے والی تنظیم (اسلامسٹ) کے طور پر نہ دیکھا جائے، بلکہ اسے آئینی و قانونی حقوق، اختیارات، اور انصاف کی لڑائی لڑنے والی تنظیم کے طور پر ہی دیکھا اور برتا جائے۔ کاؤنٹر ٹیررزم سے متعلق بنائے گئے قوانین کے مسلم نوجوانوں کے خلاف بیجا اور جارحانہ استعمال کو لے کر بیداری اور پروپیگینڈا کا کام ان کی ترجیحات میں خاص طور سے شامل ہے۔ اس کے لئے پی ایف آئی نے سروے رپورٹوں کی اشاعت ایک بڑی تعداد میں کی ہے۔ رشوت خوری، بد عنوانی، پولیس بربریت، افلاس اور امتیازی برتاؤ سے متعلق ملکی و غیر ملکی تحقیقی اداروں و تنظیموں کی رپورٹوں کو عام کرنا، ان کا اہم کام ہے۔ سوشل میڈیا کا بھی استعمال ان کاموں کے لئے بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔
تنظیم کی پلورلسٹ شبیہ بنانے کی خاطر یوگا، آیور وید، ہندی،سنسکرت، قومی جھنڈا کا استعمال و مظاہرہ پر بھی خاصا زور دیا جاتا ہے۔
جولائی 2009 کے میسور فسادات کے بعد پی ایف آئی نے پولیس کے خلاف مظاہرے اور مظلوموں کے انصاف کے لئے عدالتی لڑائیاں اور چند متعصب پولس افسروں پر مقدمے بھی دائر کئے۔ ان میں پیش پیش رہنے والے رہنماؤں کو جیل بھی کیا گیا لیکن عدالت کی معرفت ، پولیس کی اس کارروائی کے خلاف ان کارکنوں کو ہرجانے بھی حاصل ہوئے۔ اس طرح شہریت مضبوط کرنے کی سیاست، عوامی مظاہرے، حق واختیار کی قانونی و جمہوری لڑائی ان کے کاموں کا طریقہ ہے۔ سوشل ڈیموکریسی، حکومت کا فلاحی کردار بحال کرانا، نیو لبرل معیشت اور اکثریت پرست سیاست کی مخالفت ان کا نصب العین ہے۔ قانون، تاریخ، سیاسیات و سماجیات کے مطالعے، قانون و صحافت کے طلبا کو مالی امداد پہنچانا، اور قدرتی آفات ، مثلا کشمیر زلزلہ (2013) میں امداد رسانی، مظفر نگر فسادات (2013) میں سروے کرنا، عدالتی جنگوں کے لئے ثبوت اکٹھا کرنا، فلاحی کام کرنا، وغیرہ پر ان کی خاص توجہ ہے۔ ان تمام طرح کی سر گرمیوں میں مذہب کو نجی حلقے میں محدود رہنے دینے پر بھی ان کا خاصا زور ہے۔ رنگ ناتھ مشرا رپورٹ کے نفاذ کا مطالبہ یہ اشارہ کرتا ہے کہ پسماندہ محاذ کی تحریک سےشاید ان کا اختلاف یا ان کی دوری ہے؟ بہار میں پی ایف آئی کی باضابطہ شاخ ہے یا نہیں، یہ مجھے معلوم نہ ہو سکا۔
جنوری 2004 میں بنگلور میں اور نومبر 2005 میں حیدرآباد میں انہوں نے سرکاری نوکریوں، پرائیویٹ سیکٹرمیں نوکریوں اور قانون سازیہ میں مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کی مانگ کی تھی۔
کرناٹک میں 2001 سے ہی ایک تنظیم، کرناٹک فورم آف ڈگنیٹی کام کر رہی تھی۔ تامل ناڈو میں منی تھا نیتھی پاسارائی گوا میں سیٹیزنس فورم، راجستھان میں کمیونٹی سوشل اینڈ ایجوکیشنل سوسائیٹی، مغربی بنگال میں ناگرک ادھیکار سو رکچھا سمیتی، منی پور میں لیلونگ سوشل فورم اور آندھرا پردیش میں ایسو سی ایشن آف سوشل جسٹس، کے ناموں سے ان کی تنظیمیں کام کرتی ہیں۔ 2009 میں یہ ساری صوبائی تنظیمیں، پی ایف آئی میں ضم ہو گئیں۔ان کا نعرہ ہے نیا کارواں ، نیا ہندوستان۔
شدت پسندی کے الزامات سے قطع نظر، کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم مظلوموں کے حقوق و اختیارات کی جمہوری، قانونی لڑائیاں لڑنے والی اور تعلیمی و اقتصادی فلاح کے لئے اقدام کرنے والی یہ تنظیمیں، مسلمانوں کے درمیان شہریت کی تحریک کو مضبوط کر تے ہوئے، ہندوستان کی جمہوریت کو توانائی بخش رہی ہیں؟ کیا ایسی تنظیمیں مسلم نوجوانوں کو شدت پسندی کی جانب مائل ہونے سے نہیں روک رہی ہیں؟ کیا ان تنظیموں سے مسلمانوں میں بھی دائیں بازو کی شدت پسند سیاسی رحجان پیدا ہو رہی ہیں؟ ایسے کئی اہم سوالات ہیں جن پر تحقیق، غو رو فکر، بحث کی ضرورت ہے۔ جلتین عبدالحلیم کی کتاب، انڈین مسلمس اینڈ سیٹیزن شپ (روٹلیج، 2016)، نے ان سوالات سے کسی حد تک بحث کی ہے۔ ان پر مزید تحقیق اور بحث کی ضرورت ہے۔
اگلی قسط (15) میں جنوبی کرناٹک کے ساحلی علاقوں کے زعفرانیت زدہ ہونے کی تفصیلات پیش کی جائیں گی۔
( جاری)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
جمہوریت کی سب سے بڑی طاقت گفتگو ہے۔مذاکرات ہیں، افہام اور تفہیم کا عمل ہے۔ کسی اور نظام میں اس بات کی گنجائش نہیں ہوتی کہ عوام کا ہر طبقہ اپنی رائے دینے اور سمجھانے کا حق دار ہو، اسی لیے جمہوریت اپنے بہت سارے نقائص کے باوجود ماضی کے دیگر نظاموں سے زیادہ پائیدار اور خوبصورت نظر آتی ہے۔ لیکن اس خوبصورتی اور پائیداری کو بڑی آسانی سے بدلا بھی جا سکتا ہے، اگر جمہوریت میں افہام وتفہیم کو، گفتگو اور مذاکرے کو محض ووٹ حاصل کرنے اور عوامی حمایت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جائے تو مذاکرات کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے، مذاکرات فورا پروپیگنڈا بن جاتے ہیں۔ مذاکرات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام ہر مرتبہ زیادہ معیاری، زیادہ مبنی بر معلومات، زیادہ مدلل گفتگو کر سکیں اور سن سکیں۔ مذاکرات اور گفتگو ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ بجائے خود ایک مقصد ہے، گفتگو کرتے رہنا خود ایک ضرورت ہے، کوئی بھی تبدیلی گفتگو کرتے رہنے کی ضرورت کو ختم نہیں کر سکتی۔ اگر دنیا میں سب سے مثالی حکم رانی قائم ہو جائے تب بھی معیاری استدلال اور بہتر مذاکرے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ ہندوستان میں بد قسمتی سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ملک اپنے سب سے بہتر دورِ حکم رانی میں پہنچ گیا ہے اس لیے اب استدلال والی گفتگو اور مذاکرے کی بجائے محض قصیدہ خوانی یا مذمت سازی ہی میڈیا کا کام رہ گیا ہے۔ یہی عقیدہ جمہوریت کا دشمن ہے اور استبدادی فکر کا پہلا کلمہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمان اس ملک میں اپنے دستوری حقوق کی حفاظت کیسے کریں؟ اپنی جان مال اور عزت وآبرو کو میڈیا کے ذریعے پیدا کیے جانے والے خطرات سے کیسے بچائیں؟ مسلمانوں کو پاکستانی یا جہادی کہہ کر مارے جانے کا خوف ستا رہا ہو، مسلم خواتین کو اپنی اسلامی شناخت کی برقراری پر ستائے جانے کا خدشہ ہو اور جب ماں باپ اپنے بچوں کے سفر پر جانے اور نوکریوں پر جانے میں تشدد کے شکار ہو جانے کا خوف محسوس کر رہے ہوں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ میڈیا آپ کی دشمنی کے سارے سامان فراہم کر چکا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ ایک دو سیمینار کر لیے جائیں اور سو پچاس ٹوئٹر ٹرینڈ چلا کر اور ایک دو صحافیوں پر بھڑاس نکال کر مطمئن ہو لیا جائے، یہ جمہوری نظام کی ایک اہم بنیادی کمی کو بہت سستے میں حل کرنے کے مترادف ہوگا۔
مسلمان ایک شدید دشمنانہ رویہ رکھنے والے میڈیا کے سامنے اپنے آپ کو کیسے محفوظ کریں؟
مسلمانوں کے شہری حقوق کی نمائندگی کرنے والا ایک بھی ٹی وی چینل نہیں ہے اور ایک بھی قومی اثر کا اخبار نہیں، اس بات کے لیے تو مسلمان سرمایہ داروں کو بھی قصور وار ٹھیرانا چاہیے، لیکن یہ رونا تو سبھی شعبوں میں ہے، مسلمان تاجر لمبی دوری کی دوڑ پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ کیا اب مسلمان اپنا چینل قائم کر سکتے ہیں؟ نہیں! کیا انہیں کوشش کرنا چاہیے؟ بالکل! لیکن اس کوشش کے سہارے انتظار نہیں کیا جا سکتا ماضی میں کئی کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔ لیکن اگر مسلمان چاہیں تو اس ملک میں ایک الگ قسم کا میڈیا انقلاب برپا کر سکتے ہیں، لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ اور ہے تو کیسے؟ زیرِ نظر مضمون میں اسی سمت میں توجہ دلانے کی ایک کوشش کی جا رہی ہے۔
میڈیا خود ایک مسئلہ بھی ہے اور حل بھی۔ مذاکرات وگفتگو اور میڈیا، دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ جس زمانے میں یہ بات کہی گئی تھی کہ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے وہ زمانہ لَد گیا۔ جمہوریت میں جس میڈیا کی ضرورت ہوتی ہے اس میں معاشرے کا ہر طبقہ اپنی بات کہنے کا حق دار ہوتا ہے اور اسے موقع بھی دیا جاتا ہے، یہی نہیں بلکہ بات کہنے کے ساتھ بات سننے کا بھی حق حاصل ہوتا ہے، لیکن ہندوستانی میڈیا کو دیکھ کر کوئی بھی آسانی سے بتا سکتا ہے کہ یہاں کہنے والے بہت کم ہیں، اور دوسروں کو تو کہنے کا کوئی موقع ہی نہیں ہے اور اگر وہ متبادل میڈیا میں بولتے بھی ہیں تو انہیں سُنے جانے کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔ جمہوری میڈیا کی اہم صفت یہ ہے کہ افہام وتفہیم کا مقصد عوام کو صائب الرائے بنانے میں مدد کرنا اور اقتدار کو عوام کی بات سننے اور عمل کرنے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔ ہندوستانی میڈیا ہندوستان کے صرف دس کروڑ دولتمند، سیاستداں اور اونچی برادری کے طبقے کا میڈیا ہے۔ دلت اینکر، دلت رپورٹرز، دلت طبقے کے میڈیا مالکان، سکھ طبقے کے اینکرز، میڈیا مالکان، آدی واسی طبقے کے میڈیا پروفیشنلز، اور اسی طرح سے سماج کے سبھی طبقات کی نمائندگی کرنے والا میڈیا ہندوستان میں کہیں نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا ہندوستان میں جمہوریت کے تحفظ کو سب سے بڑا خطرہ اگر کسی سے ہے تو وہ اسی دس فیصد طبقے کے میڈیا سے ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میڈیا کو ہندوستانی تعدیت کا نمائندہ بننے کی کوئی تحریک چلتی، غیر نمائندہ میڈیا کی ریٹنگ کی جاتی، انہیں غیر پیشہ ور قرار دے کر حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کے اشتہارات سے محروم کر دیا جاتا، لیکن اس کے بجائے ان پر انعام واکرام کی بارش کی جا رہی ہے۔ ہندوستانی میڈیا کو شفاف اور جوابدہ بنانے کی نہ کوئی تحریک موجود ہے اور نہ قانونی اور پیشہ وارانہ ضوابط ہیں۔ دوبارہ عرض ہے کہ ملک کا موجود میڈیا، ماڈل جمہوریت کے لیے، مسلمانوں کے وجود کے لیے، محروم طبقات کے حقوق کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ میڈیا کو شفاف بنانا، اسے سبھی طبقوں کی آواز کی برابری کے ساتھ نمائندگی کرنے والا بنانا، اسے جمہوری قدروں کے سامنے جواب دہ بنانا سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے۔ اب میڈیا عوام اور اقتدار کے درمیان مذاکرات کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اقتدار کا آلہ کار ہے جو عوام پر اقتدار کا موقف مسلط کرنے کے لیے وجود میں آیا ہے۔ اس کا معاشی ماڈل ہی ایسا ہے کہ وہ شفّاف اور عوام کو شامل کرنے والا مذاکراتی طرزِ گفتگو زیادہ دیر تک چلا ہی نہیں سکتا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو میڈیا اور پبلک ڈومین میں جس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے اس کی اہمیت اور سنجیدگی سے ایک بڑا اور سنجیدہ طبقہ بھی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ میری بات کو زیادہ آسان طریقے سے سمجھنے کے لیے آپ قیاس کریں کہ بیس کروڑ مسلمانوں کا اگر ایک ملک ہوتا اور اسے اپنے بچوں کی تربیت، نوجوانوں کی تعلیمی ترقی، خواتین میں بیداری اور اپنے معاشرے کی کمیوں کو دور کرنے کے لیے اگر میڈیا ادارے قائم کرنے ہوتے تو اب تک کون کونسے ادارے، چینلس، اخبارات اور ویب سائٹس وغیرہ قائم ہو چکے ہوتے؟ ہندوستان میں ہماری کچھ ضرورتیں دیگر میڈیا سے پوری ہو جاتی ہیں لیکن بہت ساری نہیں ہو پاتیں مثلاً اخلاقی تربیت، تعلیمی بیداری، معاشرتی بیداری، دعوت اور تبلیغ اور ملکی سیاست میں اپنے موقف کو موثر طریقے سے واضح کرنے کے لیے جس میڈیا کی ضرورت ہے وہ تو کوئی پوری نہیں کر سکتا۔ اتنا ہی نہیں اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی جو ایک منظم انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے جو وہاٹساپ سے شروع ہوتی ہے اور لائیو ٹیلی کاسٹ کے ذریعے ہر روز ہر پل، لاکھوں الفاظ، لاکھوں مختصر پیغامات، کارٹونس اور فرضی فوٹوز کی شکل میں ملک کے پبلک ڈومین میں یا یوں کہیے کہ ملک کے خون میں داخل ہوتی ہے۔ اگر دس بیس مسلمان اس منظم کوشش کا جواب دینا بھی چاہیں تو یہ نا ممکن ہے۔ یہ غیر سطحی کوشش اس کوشش کا مقابلہ نہیں کر سکتی جس کے پشت پر پوری ریاست کی طاقت لگی ہوئی ہے۔ کوئی مسلم ادارہ اس طوفانِ بلا خیز کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ جن لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ کچھ ویب سائٹس بنا کر دو چار یو ٹیوب ویڈیوز بنا کر اس چیلنج کا جواب دیا جا سکتا ہے تو انہیں دو نکات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
اول، ڈیڑھ ارب کے قریب کی آبادی والی جمہوریت میں جہاں انتخابات قومی، ریاستی اور بلدیاتی سطح پر ہوتے ہیں وہاں پبلک اوپینین یا رائے عامہ سب سے اہم چیز ہوتی ہے۔ کسی بھی خبر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے نہیں لگایا جاتا کی وہ کتنی حقیقت پر مبنی ہے اس کی اہمیت صرف اس بات سے طے پاتی ہے کہ وہ کتنے بڑے طبقے کو متاثر کر سکتی ہے۔ میڈیا، ملک میں حکم راں اور ایلیٹ طبقے اور زیادہ سے زیادہ محدود اور بے ضرر قسم کی اپوزیشن کے درمیان ہی محدود رہے، جسے اصطلاح میں Eco Chamber کہتے ہیں جس میں خاص قسم کی ہی بحثیں ہوتی رہتی ہیں جو دیکھنے میں کبھی حکومت مخالف بھی لگتی ہیں لیکن در اصل وہ حکومت کےحق میں حمایت کو مزید پھیلانے میں مدد کرتی ہیں۔ جو لوگ اسی اِکو چمبر میں شور مچانے کو ہی کافی سمجھتے ہیں وہ در اصل حکومت کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ جیسا کہ کچھ مسلمان مولوی نما افراد آج کل ٹی وی پر مسلمانوں کی بے عزتی کا سمبل بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس قسم کے جال سے نکلنے کے لیے سب سے بہتر تدبیر یہ ہے کہ اس اکو چمبر کو ہی توڑ دیا جائے، بحث کا ڈائریکشن اور اس کے موضوعات وہ نہ ہوں جو اقتدار اور اس کا میڈیا طے کرتا ہے بلکہ وہ ہوں جو آپ چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ سوال کہ مسلمان وطن پرست ہیں یا نہیں؟ آسان جواب یہی ہے کہ ہاں یقیناً ہیں اور فوراً مسجدوں ومدرسوں میں ترنگے لہرانے لگیں۔ یہ ٹریپ ہے، اگر آپ یہ بحث کرانا چاہیں کہ وطن پرستی نام کا کوئی جذبہ نظری اعتبار سے پیدا ہی نہیں ہو سکتا تو شاید آپ بحث سے باہر نکال دیے جائیں۔ پہلے سوال کے جواب کے لیے کسی محنت کی ضرورت نہیں ہے لیکن دوسرے سوال کے جواب میں آپ بحث کا راستہ بدل رہے ہیں اس لیے آپ کو زیادہ گہرے مطالعے کی اور زیادہ سنجیدہ فکر کی ضرورت ہوگی۔ آپ کو طے کرنا ہوگا کہ آپ ملک میں خود کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ملک کو کیا دینا چاہتے ہیں۔ اگر اور زیادہ آسان طریقے سے کہیں تو یہ سمجھیں کہ جمہوریت کا کھیل رائے عامہ کی شطرنج پر کھیلا جاتا ہے، ماہر کھلاڑی کو ہمیشہ معلوم ہوتا ہے کہ شطرنج انفرادی طاقت دکھانے کا کھیل نہیں بلکہ وہ سبھی کھلاڑیوں کے کامیاب کوآرڈینیشن سے ہی جیتا جاتا ہے، اس میں پیادے کھوئے جاتے ہیں سامنے والے کو لالچ دلانے کے لیے۔ یہ سمجھنا کوئی مشکل سائنس نہیں ہے کہ ہندوستان کی شطرنج کی بساط پر ملت اسلامیہ کا ہر کھلاڑی اکیلے خود کو طرم خان سمجھ کر اپنے آپ کو قربان کر رہا ہے، اور ملت صرف اور صرف دفاعی کھیل کھیل رہی ہے، مجال ہے کہ ملت کے قائدین اپنی حکمت عملی کو ایک دوسرے کے تعاون سے طے کرنے کے لیے مل بیٹھیں؟
دوسری طرف صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ آپ کی شاندار گفتگو ایک ارب انسانوں کی آبادی والے ملک میں صرف بیس پچیس ہزار لوگوں کے درمیان ہی محدود ہو، یعنی آپ خود ہی لکھ لیں خود ہی شائع کر لیں اور خود ہی پڑھ لیں۔ اس سے تو اچھا ہے کہ آپ کوئی دوسرا بزنس شروع کریں۔ مسلمانوں کے زیادہ تر میڈیا کی حالت کچھ ایسی ہی ہے۔ لاکھوں لاکھ خرچ کرتے ہیں لیکن وہ اپنی پہنچ بڑھانے میں کامیاب ہی نہیں ہو پاتے، وجہ بہت سادہ سی ہے، جس بات کو دوسرے لوگ تین منٹ میں کہہ دیتے ہیں اس کو ایک روایتی مسلمان آدھے گھنٹے میں بھی نہیں کہہ پاتا۔ میں بہت سے شاندار مقررین کو جانتا ہوں جو اگر ذرا سا بھی اپنے طریقے میں تبدیلی پیدا کر لیں تو صرف مسلمانوں ہی میں نہیں غیر مسلموں میں بھی مقبول ہو جائیں۔ ان کے ویڈیوز کی افادیت کو معمولی سے تکنیکی اصلاحات کا استعمال کرکے کئی گنا بڑھایا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کے بیشتر میڈیا ہاؤسز اور بیشتر مقررین اور مصنفین حضرات اس بات سے بے نیاز رہتے ہیں کہ کوئی ان کی بات کو چاہے تو پڑھے یا نہ پڑھے، ان کا کام تھا کرنا سو کر دیا۔ نہیں جناب! یہیں آپ غلط ہیں، آپ کا کام صرف کہنا نہیں ہے بلکہ اس کو بھی یقینی بنانا ہے کہ آپ کا کہا ہوا ہزاروں اور لاکھوں لوگوں تک پہنچے، اور اس کے لیے جو ضروری تبدیلی اور تکنیک سیکھنے کی ہے وہ فوراً سیکھیں اور کریں۔
تیسرا، مسلمانوں کو اس ملک میں سب سے زیادہ نقصان میڈیا سے ہی ہو رہا ہے کیسے؟ رائے عامہ میں ان کے مسائل کو پیش کرنا تو دور کی بات ہے خود مسلمانوں کو ہی سب سے بڑا مسئلہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ جمہوریت میں سب سے اہم کام ہے کہنا اور سننا، کہنے دینا اور سننے دینا اور مسلمانوں سے یہ حق چھینا جا چکا ہے۔ وہ بولتے ہیں تو ان کی آواز میں دم خم نہیں رہتا جس کی وجہ سے ان کو سنا بھی نہیں جاتا۔ مسلمانوں کی بیروزگاری، غربت، جہالت، تربیت اور تعلیم میڈیا کے نزدیک تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ملک کے کسی اہم کام میں مسلمانوں کی بھی کچھ رائے مفید ہو سکتی ہے اس کا بھی میڈیا کے پاس کوئی تصور نہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کا جمہوری عمل سے باہر ہو جانا اور بے وقعت ہو جانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ ہاں یہ پہلے بھی ممکن تھا اور آج بھی ہے کہ مسلمان خود کا مضبوط میڈیا ہاوس بنائیں، اچھا برا چھوٹا بڑا جیسا بھی ہو انہیں تجربہ تو ضرور ہی کرنا چاہیے۔ لیکن انہوں نے اچھے تجربے بہت کم ہی کیے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں انہوں نے تجربے کیے اور کافی حد تک کامیاب ہوئے، تجارت میں بھی کامیاب ہوئے، لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ میڈیا میں کامیاب نہ ہوں۔ اگر مسلمانوں کی سیاسی پارٹی قائم کرنا ضروری ہے تو ٹی وی چینل اور اخبارات اور سوشل میڈیا بھی ہونے چاہئیں، اسی لیے میں نے اس مضمون کو میڈیا انقلاب کا نام دیا ہے کیوں کہ اب مسلمانوں کو میڈیا کے میدان میں بہت ہی بڑے خلا کو پورا کرنا ہے۔ میڈیا میں مسلمانوں کی بے توجہی سے تین قسم کے مسائل پیدا ہوئے ہیں جن کے حل کے لیے مسلمانوں کو سنجیدگی سے غور وفکر اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پہلا، تربیتی میڈیا کا خلا، دوسرا، برادرانِ وطن سے تعلقات ورشتے استوار کرنا اور تیسرا ملک کے جمہوری مکالمے میں حاشیے پر آ جانا۔
تربیت:
مسلمان اپنے بچوں کی جس طرح کی تربیت کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے ضروری مواد میڈیا میں موجود ہو، یہ مواد صرف اردو اخبارات ہی میں نہیں بلکہ تربیت کے تمام جدید وسائل میں موجود ہو۔ کچھ لوگ صرف ترکی کے ڈرامے ارتغرل کو دیکھ کر اور کچھ لوگ سعودی عرب اور پاکستانی پروگرامس دیکھ کر اس ضرورت سے بے نیاز ہو گئے ہیں لیکن انہیں سوچنا ہوگا کہ ان کو ہندوستان میں کیسے مفید بنایا جائے۔ جو مفید چینلز اور ان کے کچھ مفید پروگراموں کو دیکھنے دکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مسلمانوں کو سوشل میڈیا پر اپنے خود کے تربیتی پرگرامس پیش کرنے اور انہیں مقبول بنانے سے کسی نے نہیں روکا ہے۔ اس طرح کی کوششوں کے لیے مدارس اسلامیہ میں اب باقاعدہ دو تین ہفتوں کے کورس ہونے چاہئیں۔ ہر عالم دین اور حافظ قران کو سوشل میڈیا کے مفید استعمال اور اسلامی تعلیم کی نشر واشاعت اور اپنے مصلیوں، طلبہ اور اپنے علاقے کے افراد کو بہتر تربیت دینے میں سوشل میڈیا کے استعمال کی ٹریننگ دینے کے مختصر کورس سے ضرور گزارنا چاہیے، مگر کافی یہ بھی نہیں ہے کیوں کہ کوئی بھی بچہ ہیری پوٹر اور چوں چوں ٹی وی کو چھوڑ کر آپ کے بور پروگرامس کبھی نہیں دیکھے گا اس لیے آپ کا چیلنج اس معیار کی creativity سے ہے۔ زیادہ تر مسلمان مربیوں اور مقرروں کے یو ٹیوب ویڈیوز بس اس قیاس پر بنائے گئے ہیں کہ مسلمان بچوں میں زیادہ پر لطف اور مزیدار پروگرام دیکھنے کا شوق اور ذوق ہوتا ہی نہیں، اس لیے ہمارے علماء اور مربیان کو فکر کرنی ہوگی کی ان کے پروگرامس انسانی ذوق کو اپنی طرف کھینچنے میں کیسے کامیاب ہوں اور یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کی ایک عملی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پہلے علماء اور مربیان creativity کے میدان میں دوسروں سے زیادہ بہتر بنیں، پھر اپنے پروگرام ڈیزائن کرنے کے لیے اس میدان کے ماہرین کی خدمات لیں اور ان کاموں کے لیے اہلِ خیر حضرات سے بھی مدد لیں اور اہلِ خیر حضرات بھی چندے دیتے وقت پروگراموں کی کامیابی کی رپورٹس، TRP ویورشپ دیکھ کر فنڈنگ کریں، نئی صلاحیتوں کے تجربے کرنے کے لیے ضروری فنڈز فراہم کیے جائیں، جماعتوں اور تحریکوں کو ایسے افراد اور پروجیکٹس کی سرپرستی کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ میں نے یہاں پروگراموں کے موضوعات پر جان بوجھ کر بات نہیں کی ہے کیوں کہ یہ مسلمانوں کے ہر طبقے کے لیے الگ الگ ہو سکتے ہیں، لیکن کوئی بھی چاہے وہ کسی بھی فرقے اور جماعت کا ہو اس کو میدان میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت تو حاصل کرنی ہی ہوگی۔
دعوت:
دعوت سے مراد وہ پروگرام ہیں جن کے مخاطب مسلمان نہیں بلکہ برادرانِ وطن ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ مسلمان علماء وفضلاء نے عربی اور فارسی کی کتابوں کے ترجموں کے ڈھیر لگا دیے ہیں لیکن یہ نہیں سوچا کہ ہندوستان میں قرآن کا اور اللہ کے رسول کا تعارف کرانے کا انداز مصر، ترکی اور سعودی عربیہ سے الگ ہونا چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہندوستان کے غیر مسلم قارئین کے اشکالات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی تفسیر اور کوئی سیرت کی کتاب آزاد ہندوستان میں لکھی گئی ہو؟ یہ تو ظاہر ہے کہ ہندوستان میں کوئی ٹی وی چینل اس مقصد کے لیے نہ تو مسلمان کھولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ حکومت کھولنے دینے کی اجازت دے گی۔ ایک ایسے ماحول میں جس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی سیلاب کی مانند برپا ہے مسلمانوں کی ذاتی کوششیں اور جماعتوں کی اجتماعی کوششیں بے خبری، بے بسی اور بےحسی کا شکار ہیں، ہزاروں کی تعداد میں مدرسے ہیں لیکن وہ دین کے موضوع پر منظم اور حکمت وموعظت پر مبنی کوئی کوشش شروع نہیں کر سکے ہیں، وہ کر سکتے ہیں لیکن ان کی ترجیحات کا فہم اتنا ہی ناقص ہے جتنا تاتاریوں کے حملے کے دوران بغداد کے علماء کا تھا۔ مدارس میں غیر مسلم طلبہ کی تعلیم کا سلسلہ شروع کرنا تو بہت دور کی بات ہے غیر مسلم نوجوانوں میں اسلام کے بنیادی اور ضروری تعارف کرانے کے بنیادی عمل کو بھی وہ نفل عمل کے برابر نہیں سمجھتے۔ہندوستان میں اسلام کی دعوت کے سلسلے میں تین بڑی مشکلات ہیں، پہلی مسلمانوں کے تعلق سے سیاسی اور سماجی سطح پر خطرناک غلط فہمیاں۔ دوسری، مسلمانوں کی تاریخ کو زہر آلود کیا گیا۔ اور تیسرے، خود مذہب اسلام کے سلسلے میں بد ترین قسم کا پروپیگنڈا۔ دعوت دین ان تینوں کو الگ الگ طریقوں سے مخاطب کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ جب آپ اسلام کی طرف دعوت دیں تو آپ کے مخاطب انسان کے قلوب ہوں، ان کے جذبات ہوں، ان کی خوبیاں ہوں۔ لیکن جب آپ مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمی دور کرنے کا کام کر رہے ہوں تو اس میں سیاسی اور سماجی بصیرت شامل ہونا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں جب آپ تاریخ میں مسلمانوں کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا ازالہ کر رہے ہوں تو اصل مخاطب ذہن ہوں گے، جہاں دلائل، شواہد اور نظری استدلال آپ کے وسائل ہوں گے۔ مسلمانوں میں یہ فیشن عام ہے کہ ایک ہی شخص یہ تینوں کام وہ بھی ایک ہی نسشست میں اور اتمام حجت کے ساتھ کر دینا چاہتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جو لوگ اس کام میں لگنا چاہتے ہیں انہیں سمجھنا چاہیے کہ ہر آدمی سارے کام نہیں کر سکتا اور نہ ہی کرنا چاہیے۔ یہ زمانہ علوم میں اختصاص کا زمانہ ہے، اس زمانے میں تجدید کا کام ایک فرد نہیں کر سکتا بلکہ مختلف افراد اور صلاحیتوں کا حامل مجموعہ ہی کر سکتا ہے۔ سوشل میڈیا میں دعوتی عمل کا میدان خالی پڑا ہے اگر اگلے چند سالوں میں بیس پچیس ہزار گھنٹوں پر مبنی پروگرامس پروڈیوس کر دیے جائیں تو آپ اس طوفان کو روک بھی سکتے ہیں بلکہ جدید تاتاریوں کو اسلام کی محبت سے فتح بھی کر سکتے ہیں۔ نوجوان اور علماء اپنی ذاتی کوششوں سے سوشل میڈیا پر بیحد موثر ومقبول اور دلنشیں پروگراموں کی مہم چلائیں۔ ٹک ٹاک والے پندرہ بیس سال کے لڑکوں میں اگر creativity ہو سکتی ہے تو کیا پچاس ساٹھ سال کے مسلم علماء اور اسلامی ذہن رکھنے والے جدید تعلیم یافتہ نوجوان مقبول عام ویڈیوز نہیں بنا سکتے؟ یہ بہت ممکن ہے لیکن ابھی اس کے لیے حوصلہ افزائی، مقابلہ آرائی اور سرپرستی کا ماحول نہیں بنا ہے۔ کوئی ان کے اوپر معمولی رقم بھی لگانا نہیں چاہتا۔ کیا ہوا اگر کوشش کامیاب نہ ہو، ناکامی بھی تو کامیابی کا حصہ ہے اس کے بغیر کون آگے بڑھتا ہے؟ ایسا کیوں ممکن نہیں کہ اگر ایک نوجوان عالم دین ایک کامیاب ویڈیو بنا کر پیش کرتا ہے تو اسے بعض ادارے اس کے بغیر مانگے ہی اسے انعام واکرام سے نواز دیں؟ اشتہار بازی کے بغیر ایسے نوجوانوں کو تعاون دیا جائے، مسلم نوجوانوں میں نئے تجربات کرنے والوں کی کہیں سے حوصلہ افزائی نہیں ہوتی، جب سے مودی کی سرکار بنی ہے میں اپنے ندوی بھائیوں سے جا جا کر کہہ رہا ہوں کہ حضرت! تحریکِ پیامِ انسانیت کے اہم پیغامات سوشل میڈیا میں ہندی اور انگلش زبانوں میں وائرل ہونے چاہئیں، میں نے ان سے مدد مانگی، میں نے کہا میں ان کی تقاریر سے اہم پیراگراف نکالنے کی ذمہ داری لیتا ہوں، آپ کتابیں منگوائیں اور ایک ڈیزائنر کا انتظام کریں، لیکن مایوسی ہوئی۔
جمہوری مکالمہ:
میڈیا کے اس طوفان میں سب سے زیادہ کمی اس بات کی ہے کہ میڈیا میں روزآنہ ایک ہزار لوگ ٹی وی پر، اخبارات میں، ویب سائٹس میں، تھنک ٹینک میں، علمی سیمیناروں میں اور ملک کی سماجی معاشی خارجہ اور سلامتی پالیسیوں پر گفتگو کرتے ہیں، لیکن جب مسلمانوں کا معاملہ آتا ہے تو ان کی شرکت صرف مسلمانوں سے متعلق موضوعات پر ہی کیوں محدود رہتی ہے؟ الا ماشا الله، یہ تاثر کیوں اور کیسے عام ہوگیا کہ غیر مسلم حضرات مسلمانوں کے ساتھ صرف بریانی، غزل، گنگا جمنی تہذیب، غالب اور جگجیت پر ہی بات کریں؟ جیسے ہندوستان کا ہر شہری ہندو رہتے ہوے بھی سبھی مسائل پر اپنی رائے دینے میں قابل قبول ہے ویسے ہی مسلمان بھی ہونا چاہیے۔ لیکن ایسے تاثر کی جائز وجوہ موجود ہیں، پہلی وجہ تو یہی ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کی فہرست سب سے طویل ہے اس لیے مسلمان اپنے مسائل میں زیادہ الجھے رہتے ہیں، لیکن ایک دوسری وجہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ملک کے اہم مسائل پر ماہرانہ اور غیر جانب دارانہ اور علمی تجزیہ کرنے والے افراد کی کافی کمی ہے، جو ہیں وہ اکثر سوشلسٹ اور لبرل نظریات کے حامل ہیں اور کئی بار وہ خود کو زیادہ غیر جانب دار ثابت کرنے کے لیے مصنوعی طور پر مسلمانوں کو بھی بے وجہ تنقید کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ حجاب، طلاق، خواتین، نماز روزے، پرسنل لا، مدرسے اور اسلامی تعلیم وغیرہ جیسے موضوعات پر وہ عموماً مسلمانوں کے دیندار طبقے کو برا بھلا کہہ کر خود کو لبرل ثابت کرنے کا کوئی موقع استعمال کرنے سے نہیں چوکتے۔ لیکن یہ بات بھی افسوس کے ساتھ قبول کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کا دیندار طبقہ بھی ملکی مسائل میں رائے رکھنے اور دینے کا اہتمام نہیں کرتا۔ اہتمام کا مطلب یہ ہے کہ اچھے خاصے سنجیدہ علماء بھی اس بات کا اہتمام نہیں کرتے کہ ملک کے مسائل کو ملکی تناظر میں سمجھنے کے لیے ضروری کتابوں، ماہرین اور وسائل سے استفادہ کیا جائے۔ وہ نہ خود کے تھنک ٹینک بناتے ہیں اور نہ ملک کے تھنک ٹینک میں حصّہ لیتے ہیں، نہ اپنے طلبہ اور اپنے فالوورس کو اس کے لیے تیار کرتے ہیں۔ لہٰذا انہیں ملکی مسائل میں بلانے کا ویسا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ مسلمانوں میں اور خاص طور پر دیندار طبقے میں صرف دو کلاس پائے جاتے ہیں ایک مقررین اور دوسرا سامعین۔ ان کے یہاں بولنے والے سے سوال کرنے والا ان کا دشمن اور مخالف ہے۔ غیر مسلم معاشرے میں اس طبقے کے علاوہ دوسرے طبقے بھی موجود ہیں جو بولتے ہیں تو ایکسپرٹ کی حیثیت سے، اور سننے والے انہیں سننتے ہیں تو صرف پوچھنے اور جاننے کی نیت سے۔ یہ لوگ خوش ہی اسی بات سے ہوتے ہیں کہ ان کے سیمینار میں ان سے کتنے زیادہ اور کتنے سخت سوالات کے جاتے ہیں۔
معاف فرمائیں مسلمانوں کے اہل علم طبقے کا حال افسوسناک ہے، مدارس کے معمولی اساتذہ کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ جب وہ چلیں تو زمانہ ان کے پیچھے چلے، الا ماشا اللہ۔ اس ماحول نے مسلمانوں میں مکالمہ کرنے کا مزاج ختم کر دیا ہے، اس ماحول نے مسلمانوں کے مسائل پر غیر جانبداری سے تجزیہ کرنے اور دلائل کی بنیاد پر مکالموں میں شرکت کرنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا ہے۔ دنیا کے ہر موضوع کے ماہر انہیں کے پیر انہیں کے مرشد، انہیں کے ناظم اور انہیں کے ذمہ دار ہیں، باہر سے کسی مسلمان ماہر کو بلانا اور اس سے استفادہ کرنے کی صرف ایک شرط ہے کہ وہ انہی کے جیسا ہو، کوئی ندوی کسی بریلوی کے ادارے میں مہمان مقرر نہیں بن سکتا، کوئی بریلوی کسی قاسمی کے یہاں ماہر مقرر بن کر نہیں جا سکتا۔
مکالمہ کی طاقت
جمہوریت کی اصل اور اس کی بنیاد مکالمے کی طاقت پر ہے، اور مکالمے کی طاقت کوئی مصنوعی طاقت نہیں ہے بلکہ یہ ایک معاشرتی، ثقافتی بلکہ عوامی طاقت ہے۔ جن قوموں میں مکالمے کا صحتمند ماحول برقرار ہے ان کے افراد رائے عامہ کو متاثر کرنے میں ہر اعتبار سے کامیاب ہیں، جس کی مثال یہودی قوم ہے۔ اگرچہ یہ بات پھیلائی جاتی ہے کہ یہودیوں نے عالمی میڈیا کو کنٹرول کر رکھا ہے لیکن اس بات کا اعتراف نہیں کیا جاتا کہ یہودی معاشرے میں شدید اختلافات رکھنے والے گروپوں کے درمیان بھی مکالمہ کی روایت بہت ہی شاندار طریقے سے قائم ہے۔ اسرائیل کے قیام سے اب تک وہاں شاید ایک یا دو مرتبہ ہی مکمل اکثریت کی حکومت بنی ہے ورنہ ہمیشہ الائنس حکومت ہی بنتی رہی ہے لیکن ان سبھی گروپس میں مکالمے کی روایت اتنی شاندار ہے کہ ہر طبقے کو پورا یقین ہوتا ہے کہ وہ فریقِ مخالف کے ساتھ اتحاد کرکے بھی اپنے مفادات اور اختلاف دونوں کا تحفظ کر سکتا ہے۔ اس کے بر عکس مسلم معاشروں میں اختلاف رائے شدید اور بے اعتمادی اور بد ظنی کا مظہر ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل ان کی بقا اور تحفظ اور ان کے افکار کی مقبولیت کا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ مسلمان بحیثیتِ قوم اپنی آراء اور اپنے موقف کو کتنے مدلل طریقے سے ہندوستان کی اکثریت تک پہنچانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا
کچھ دنوں پہلے میں نے فرسٹ پوسٹ میں یہی لکھا تھا کہ شاہین باغ جیسی تحریکات نے مسلمانوں کی مکالمات کی قوت میں اضافہ کیا ہے اور مسلم سیاستدانوں اور ملّی قائدین کو اس کو ایک موقع غنیمت جان کر ملت کے اندر مذاکرات کی بہتر روایات قائم کرنا چاہیے تھا۔ اب یہ کام کیسے ہوگا؟ آئیڈیل طریقہ تو یہ تھا کہ مسلمان ملکی میڈیا اور اخبارات میں سبھی قسم کے مسائل میں برابر کی شرکت کرتے ہوئے نظر آتے لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے، اب جب کہ میڈیا کے اپنے موضوعات محدود ہوتے جا رہے ہیں تو اب مسلمانوں کو متبادل راستے تلاش کرنے ہوں گے، ویب سائٹس سوشل میڈیا کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور کوشش یہ کرنی ہوگی کہ ان کی آواز مکمل آڈینس تک پہنچے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان سوشل میڈیا کا استعمال اس یقین کے ساتھ کریں کہ اس ملک میں ان کی بقا اور تحفظ صرف اور صرف ان کی طاقت اور مضبوط میڈیا نمائندگی سے ہی ممکن ہے، اور سوشل میڈیا ان کے لیے ویسے ہی مضبوط ذریعہ بن سکتا ہے جیسے یہ مصر اور تیونس کے انقلابات کے لیے تھا۔ جب آپ اس طرح سے سوچیں گے تو آپ سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ بہتر حکمت عملی کے ساتھ کر سکیں گے ورنہ فکری طاقت کے بغیر سُپر کمپیوٹر بھی خرید لیا جائے تو بے فائدہ ہے۔
مسلمانوں نے فکر اور تنوع فکر کی سرمایہ کاری میں بخل سے کام لیا ہے۔ The World is Flat کے مصنف کو میں نے دلی کے ایک سیمینار میں کہتے سنا تھا کہ گلوبلائزیشن میں انسان کا مقابلہ خود اپنے آپ سے ہے اور آپ کے تخیل اور تنوع کی طاقت سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے کے لیے کمپیوٹر انجینئر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ بہترین آئیڈیاز کا ہونا ضروری ہے، مسلمانوں کو جس میڈیا کے انقلاب کی ضرورت ہے وہ محض سافٹ ویر یا ہارڈ ویر کا علم نہیں ہے بلکہ اس کو کنٹرول کرنے والی ذہنی اور فکری صلاحیت بھی درکار ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوستان کی رائے عامہ بنانے والے عمل میں اپنی شرکت اور موجودگی درج کرانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ صرف مسلمانوں کے اپنے مسائل کی نمائندگی کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام اہم مسائل پر اپنی فکر مندی، تجاویز، تحقیق اور اپنے نقطہ نظر سے اہل وطن کو قائل کرانے کے لیے بھی ضروری ہے۔ یہ کام جو کوئی مین اسٹریم میڈیا میں جاکر کر سکتا ہے وہ وہاں ضرور جائے، جو وہاں تک نہیں پہنچ سکتا وہ پہنچنے کی کوشش کرے اور جس کی کوشش کامیاب نہ ہو وہ خود کو سوشل میڈیا کے وسائل پر اس طرح پیش کرے کہ سارے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہو۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں مکالمہ کرنا، بار بار کرنا اور ہر بار الگ طریقے سے کرنا، اپنی بات کو الگ الگ فورمیٹس میں رکھنا، نیوز، تجزیہ، کہانی، ناول، ڈرامہ، کامیڈی، سٹائر، مختصر کہانی، کارٹون، میمس وغیرہ سارے طریقے آزمانا اور نئے نئے طریقے ایجاد کرتے رہنا خود کو کامیاب کرانے کے لیے ہے حد ضروری ہے۔ جمہوری نظام میں کوئی آپ سے یہ پوچھنے کے لیے نہیں آئے گا کہ آپ آج کل کیا سوچ رہے ہیں؟ یہاں کہنے کے مواقع چھینے جاتے ہیں، ان کے لیے مقابلہ کیا جاتا ہے، اس لیے آپ خیال کی کوالٹی، زبان کی چاشنی، فارمیٹ کا نیا پن، پیشکش کی کشش اور آڈینس کی بھیڑ لگا دینے والا فارمولا تلاش کریں کیونکہ ان سب کے امتزاج سے ہی آپ اپنے مکالمے کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ بہت سارے ہمارے نوجوان سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں، بہت سارے مذہب پسند نوجوان بھی سرگرم ہیں لیکن ان سبھی کو اس مکالمے میں کامیاب ہونے کی دوڑ میں شامل ہونا ہوگا۔
( عمیر انس جواہر لعل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں اور ترکی کی ایک یو نیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، انہیں omairanas@ پر فالو کیا جا سکتا ہے ۔)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
کوروناکے خوف سے نتیش کمارباہرنہیں نکلے،لوگ ووٹ دینے گھرسے کیسے نکلیں گے:پرشانت کشور
پٹنہ:جے ڈی (یو) کے سابق لیڈر اور انتخابی پالیسی ساز پرشانت کشور (پی کے) نے بعد اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو کے بعدوزیراعلیٰ نتیش کمارپرحملہ کیاہے۔پرشانت نے ٹویٹ کیاہے کہ نتیش ، جنہوں نے کورونا کے خوف کی وجہ سے تین مہینے اپنی رہائش گاہ نہیں چھوڑی ، وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو گھر چھوڑنے اور انتخابات میں حصہ لینے کاکوئی خطرہ نہیں ہے۔ ملک میں بہارمیں سب کم جانچ ہوئی ہے۔ اس کی شرح 7 سے 9 فیصد ہے اور 6 ہزار سے زیادہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ، بہار میں کورونا کی بجائے انتخابات کی بات ہو رہی ہے۔سب سے کم جانچ کے باوجود مثبت کیس شرح 6 ہزار سے زیادہ ہے۔بہار میں کورونا کی بجائے انتخابات پر تبادلہ خیال کیا جارہاہے ۔انھوں نے ٹوئٹ کیاہے کہ نتیش کمار ، جوکورونا کے خوف کی وجہ سے تین مہینوں سے اپنی رہائش گاہ سے باہر نہیں نکلے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو گھر چھوڑنے اور انتخابات میں حصہ لینے سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔پی کے سے پہلے تیجسوی یادونے نتیش کو بھی گھر سے باہر نہ جانے پر نشانہ بنایا تھا۔تیجسوی یادو نے ٹویٹ کیاہے کہ وزیراعلیٰ نے غریب مزدوروں کی حالت جاننے کے لیے کورونا کے خوف سے 84 دن گھرنہیں چھوڑے نتیش ایسا کرنے والے ملک کے واحد وزیر اعلیٰ ہیں۔ اگر آپ کو ڈر لگتا ہے تو ، میں آپ کے ساتھ آگے بڑھوں گالیکن اب آپ گھرسے باہر جائیں۔
پٹنہ:بہارمیں انتخابی ہلچل جاری ہے ۔شور شرابا سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر دیکھا جارہا ہے۔ اتوار کے روز ، حزب اختلاف کے لیڈرتیجسوی یادو نے وزیراعلیٰ نتیش کمار سے بہت سارے سوالات پوچھے اور کہاہے کہ ہم حکومت سے کچھ سوالات پوچھے ہیں۔ امیدہے کہ حکومت ان جائز سوالوں کا جواب ہمیشہ کی طرح نہیں دے گی۔تیجسوی یادونے بہار حکومت سے کہاہے کہ وہ بتائیں کہ 15 سالوں میں کتنے لوگوں کو بہار میں ملازمت ملی۔ حکومت میں پندرہ سالوں میں تقرریوں کی کل تعداد کے ضلع وار اور ذات پات کے اعدادوشمار کیا ہیں؟ یعنی حکومت کو بتانا چاہیے کہ کس ضلع اور کس ذات کے لوگوں کو نوکری ملی ہے۔انہوں نے مزیدپوچھاہے کہ پچھلے 15 سالوں میں کتنے بے روزگار لوگوں نے بہارمیں روزگار کا اندراج کیا ہے۔ پچھلے 15 سالوں میں کتنے لوگ بہار سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ 15 سالوں میں بہارمیں کتنی صنعتیں اور کارخانے لگے ہیں۔ نتیش کمار کے 15 سالہ دور میں ، دیگر ملوں کے ساتھ ، کتنی شوگر ، جوٹ اورپیپر ملوں کو پہلے ہی بند کردیا گیا ہے۔ ان کے بند ہونے کی وجہ سے بہار کو کتنا نقصان اٹھانا پڑا ، کتنا محصول-روزگار ضائع ہوا۔تیجسوی یادویہاں نہیں رکے ، انہوں نے مزید پوچھا کہ پچھلے 15 سالوں میں تعلیم اور ادویہ کے نام پر کتنے لاکھ کروڑ روپئے دوسرے ریاستوں میں گئے۔ یعنی ان لوگوں نے کتنا پیسہ خرچ کیا جو بہار سے تعلیم حاصل کرنے یا علاج کروانے نکلے تھے۔ بہارکے انسانی وسائل کا کتنا فیصد بہار اور دیگر ریاستوں میں ملازمت کرتا ہے۔ یعنی بہارکے کتنے لوگ کام کر سکتے ہیں ، ان میں سے کتنے بہار میں کام کر رہے ہیں اور کتنے لوگ دوسرے ریاستوں میں کام کر رہے ہیں۔
نئی دہلی:کورونا بحران کے بارے میں دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور لیفٹیننٹ گورنر انیل بیجل سے ملاقات کے بعد مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ دہلی میں کورونا ٹیسٹنگ میں اضافہ کیا جائے گا۔امت شاہ نے کہا کہ مودی حکومت ملک کے دارالحکومت دہلی میں کورونا انفیکشن کی روک تھام کے لئے پرعزم ہے۔ دہلی میں کورونا کی روک تھام کے لئے آئندہ دو دن میں کورونا کی جانچ دوگنی کی جائے گی اور 6 دن کے بعد ٹیسٹ کو بڑھا کر تین گنا کردیا جائے گا۔ امیت شاہ نے کہا کہ کچھ دن بعد کنٹینمنٹ زون کے ہر پولنگ اسٹیشن پر جانچ کا سسٹم شروع کردیا جائے گا۔ دہلی کے چھوٹے اسپتالوں تک کورونا کے لئے صحیح معلومات اور ہدایات دینے کے لئے مودی سرکار نے ایمس میں ٹیلی فونک رہنمائی کے لئے سینئر ڈاکٹروں کی ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ بہترین نظاموں کو نچلے حصے تک پہنچایا جاسکے۔ اس کی ہیلپ لائن نمبر کل جاری ہوجائے گی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ دہلی کے کنٹینمنٹ زون میں کنٹیکٹ میپنگ کو اچھی طرح سے ہوسکے اس کے لیے صحت سے متعلق گھر گھر جاکرجائزہ لیا جائے گا، جس کی رپورٹ 1 ہفتہ میں آئے گی۔ نیز اچھی نگرانی کے لئے سیٹو ایپ ہر شخص کے موبائل میں ڈاؤن لوڈ کیا جائے گا۔دہلی کے نجی اسپتالوں میں کورونا کے علاج کے لیے نجی اسپتالوں کے کورونا بیڈ میں سے 60 بیڈ کم قیمت میں مہیا کرانے ، علاج ، کورونا کی ٹیسٹنگ کی قیمت طے کرنے کے لیے ڈاکٹر پا ل کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو 15 مئی تک اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔امیت شاہ نے کہا کہ مرکزی حکومت نے دہلی حکومت کو اس وبا سے لڑنے کے لئے ضروری وسائل جیسے آکسیجن سلنڈر، وینٹی لیٹر، پلس آکسیمٹرز اور دیگر تمام ضروریات کو پورا کرنے کی پوری یقین دہانی کرائی ہے۔
نئی دہلی:ایک ٹویٹ میں کانگریس کے جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے یوپی کی یوگی حکومت سے محکمہ تعلیم میں فراڈ پر سوال پوچھا ہے۔ پرینکا نے ٹویٹ میں لکھاکہ اگر محکمہ تعلیم میں بہت سارے فراڈ ہو رہے ہیں تو کیا یہ محکمہ کے وزیر کی معلومات میں نہیں تھا؟ کیا وزیراعلیٰ کے دفتر کو بھی اس کے بارے میں معلوم نہیں تھا؟پرینکا گاندھی نے مزید لکھاکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹال رنس کی بات کرنے والے بڑی مچھلیوں کی بدعنوانی کو برداشت کر رہے ہیں۔ یہ ساری تقرری کس کے دور میں ہوئیں اور اب تک یہ کیسے جاری رہیں؟اس سے قبل پرینکا گاندھی نے ٹویٹ میں یوپی حکومت کو نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ کستوربا اسکول کی تقرریوں میں گھپلے کے بعد محکمہ تعلیم میں دیگر گھوٹالوں کا راز فاش ہونا شروع ہوگیا ہے۔ یہ تقرریاں 2018 میں ہوئیں۔ یہ دو سال تک جاری رہا۔ کیا حقیقت سامنے آنی چاہئے یا نہیں؟پرینکا گاندھی نے لکھاکہ یوپی حکومت کے نظام تعلیم کے ذریعے بدعنوانی کے معاملات مسلسل سامنے آرہے ہیں۔25 جعلی تقرریوں، اسکولوں کی جعلی تقرریوں کے بعد اب مین پوری کے کستوربہ گاندھی اسکول میں جعلی تقرریوں کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
نئی دہلی:کانگریس اورترنمول کانگریس جیسی اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم کیئرس فنڈکے بارے میں مسلسل سوالات اٹھاتی رہی ہیں۔ان جماعتوں کا سب سے بڑا اعتراض فنڈکے آڈٹ کے بارے میں رہا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ملکی مفادمیں وزیر اعظم کیئرس فنڈ میں عطیہ کیا تھا۔وزیراعظم کیئرزفنڈکے بارے میں اپوزیشن کی طرف سے لگائے جانے والے مستقل اعتراضات کے درمیان فنڈ کو آڈٹ کرنے کا راستہ صاف ہوگیاہے۔ فنڈ کے آڈٹ کے لیے ایک آڈیٹربھی مقررکیاگیا ہے۔ یہ معلومات پی ایم کیئرس فنڈ کی ویب سائٹ پر دی گئی ہیں۔ اس کے مطابق،دہلی میں چارٹرڈاکاؤنٹنگ فرم میسرز۔ سارک اینڈ ایسوسی ایٹس کو فنڈکی آڈٹ کرنے کے لیے آڈیٹرمقررکیاگیا ہے۔ اس فرم کو تین سال کے لیے اس فنڈکاآڈیٹر مقرر کیا گیا ہے۔آڈیٹر کے تقرر کا فیصلہ 23 اپریل کو کیرنس فنڈکے ٹرسٹیوں کی میٹنگ میں لیاگیاتھا۔ ہر مالی سال کے اختتام پر پی ایم کیئرس فنڈکاآڈٹ کیاجائے گا۔