عہدِ نبوی میں ایک جنگ (غزوۂ بنی مصطلق) کے موقع پر ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا _ جنگ سے واپسی پر مسلمانوں کے سردار (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم) کی بیوی انسانی ضرورت کی بنا پر قافلہ سے پیچھے رہ گئیں _ ایک صاحب ، جن کی ڈیوٹی ہی تھی کہ قافلہ کے پیچھے پیچھے دیکھ بھال کرتے ہوئے آئیں ، انہیں تنہا دیکھا تو اپنے اونٹ پر بٹھا لیا اور خود پیدل چلتے ہوئے انہیں اگلے پڑاؤ پر پہنچادیا _ اُس واقعہ میں کوئی انہونی بات نہ تھی _ لیکن فتنہ پردازوں نے اسے رائی کا پربت بنادیا _ مسلمانوں ، ان کے سردار اور اس کے اہلِ خاندان کو بدنام کرنے کے لیے طرح طرح کے الزامات لگائے اور جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے آسمان سر پر اٹھالیا _ اس موقع پر قرآن مجید میں سورۂ نور کی آیات نازل ہوئیں ، جن میں اس واقعہ پر بھرپور تبصرہ کیا گیا _ اسے صریح بہتان اور بے بنیاد الزام بتایا گیا ، صاف الفاظ میں کہہ دیا گیا : ” اسے پھیلانے میں جس نے جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا اور جس شخص نے اِس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا اس کے لیے تو عذابِ عظیم ہے _” ساتھ ہی مسلمانوں سے کہا گیا : ” اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو ، بلکہ یہ تمہارے لیے خیر ہی ہے _” بعد کے حالات نے مسلمانوں کے لیے خیر کے بہت سے پہلو واضح کردیے _ انھیں اپنے کھلے دشمنوں کا تو علم تھا ، لیکن چھپے دشمن بھی کھل کر سامنے آگئے، مسلمانوں کو ان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا علم ہوگیا اور ان کی صفوں میں مزید اتحاد و اتفاق پیدا ہواـ
تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین کے حوالے سے گزشتہ دو دنوں سے جو ہنگامہ آرائی جاری ہے اس پر قرآن مجید کا یہ تبصرہ پوری طرح صادق آتا ہے _ مرکزی حکومت ، ریاستی حکومت ، دہلی پولیس ، فرقہ پرست جماعتیں اور مذہبی منافرت پھیلانے والی تنظیمیں سب بے نقاب ہوگئی ہیں اور ان کے متضاد رویّے کھل کر سامنے آگئے ہیں _ ملک کا گودی میڈیا ان تمام شرانگیزیوں کا سرغنہ بنا ہوا ہے _ وہ زہر اگل رہا ہے اور مسلمانوں کو ملک دشمن ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے _ اس موقع پر مسلمانوں کو قرآن کی اس ندائے غیبی کو اسی طرح سننا چاہیے جس طرح عہدِ نبوی کے مسلمانوں نے سنا تھا : ” اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو ، بلکہ یہ تمہارے لیے خیر ہی ہے _”
تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین نئی دہلی میں یوں تو ہر وقت سیکڑوں لوگ رہتے ہیں _ وہاں روزانہ ملک و بیرونِ ملک سے چھوٹی بڑی جماعتوں کا آنا اور وہاں سے نکلنا لگا رہتا ہے _ خبروں سے معلوم ہوا کہ 13، 14 مارچ کو وہاں کوئی بڑا اجتماع ہوا تھا ، جسے کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے تناظر میں حکومتی احکام کی خلاف ورزی کہا جارہا ہے ، جب کہ اس کے کافی بعد تک خود حکومت مختلف اجتماعات کرتی رہی ہے _ 14 مارچ کو دہلی کے وزیراعلیٰ نے اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا ، جس میں 70 ارکانِ اسمبلی کے علاوہ ان سے دوگنی تعداد میں ان کے خدمت گار موجود تھے _ پارلیمنٹ کا اجلاس تو لاک ڈاؤن(24 مارچ) کے اگلے دن تک چلتا رہا ، جس میں ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں کے 800 ارکان کے علاوہ ان کی خدمت پر مامور کم ازکم 1600کا عملہ تعینات رہتا ہے _ ایک طرف سماجی فاصلہ (Social distancing) کے احکام دیے جا رہے تھے ، دوسری طرف مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت کو گرانے کے لیے جوڑ توڑ کی جا رہی تھی اور میٹنگ پر میٹنگ ہو رہی تھی _ پھر فلور ٹیسٹ کے لیے 200 سے زائد ارکان اسمبلی ہال میں جمع ہوئے _ ان کے خدمت گزاروں کی تعداد اس کے علاوہ تھی _ لاک ڈاون کے بعد 24 مارچ کو بھوپال میں دھوم دھام کے ساتھ وزیر اعلیٰ کی حلف برداری ہوئی ۔ تبلیغی جماعت کے مرکز میں جن دنوں اجتماع ہورہا تھا انہی دنوں اور ان کے آس پاس ملک کے مختلف حصوں میں حکومتی سرپرستی میں چھوٹے بڑے اجتماعات ہورہے تھے اور ان میں ‘سماجی فاصلہ’ کے اپنے ہی احکام کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں _ ایک اجتماع ہندو مہا سبھا نے دہلی میں واقع اپنے مرکز میں ‘گئو موتر’ (گائے کا پیشاب) پی کر کورونا کو بھگانے کے لیے منعقد کیا تھا ، جس میں 200 لوگوں نے شرکت کی تھی _ 20 مارچ کو کیرلا کے دار الحکومت میں واقع سری کرشنا سوامی مندر میں روایتی ’ارتوّ‘ کی تقریب کا انعقاد ہوا ، جس کے جلوس اور دیگر رسوم مثلاً مقدس تالاب میں ڈبکی میں ہزاروں لوگ شریک تھے _ وزیر اعلیٰ اترپردیش ، جو مرکزی حکومت کے احکام نافذ کرنے میں بہت پُرجوش رہتے ہیں ، 25مارچ کو رام للّا کی مورتی نئے مندر میں منتقل کرنے کے لیے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ایودھیا میں موجود تھےـ
لاک ڈاؤن کے بعد تبلیغی مرکز کے ذمے داروں نے دہلی پولیس اور حکومت کے دیگر اہل کاروں کو اطلاع دی اور مرکز میں پھنسے لوگوں کو وہاں سے نکال کر ان کے گھروں میں پہنچانے کے انتظامات کرنے کی درخواست کی ، جس کے ان کے پاس دستاویزی ثبوت موجود ہیں ، لیکن ان کی کچھ شنوائی نہیں کی گئی ، بلکہ اب اسی کو ان کا جرم قرار دیا جارہا ہے _ اگر اچانک لاک ڈاؤن کے بعد ویشنو دیوی کے مندر میں پھنس جانے والے مجرم نہیں ہیں تو تبلیغی مرکز کی بنگلہ مسجد میں پھنس جانے والے کیوں کر مجرم ٹھہرے؟! اور کیوں کر ان پر ‘کورونا جہاد’ کا لیبل چسپاں کرکے ان کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے؟!!
اس وقت مرکزی اور ریاستی حکومتیں تبلیغی مرکز کی آڑ میں کورونا سے نمٹنے میں اپنی مجرمانہ غفلت اور ناکامی کو چھپانے کی چاہے جتنی کوشش کرلیں اور گودی میڈیا ملک کے مختلف طبقات کے درمیان زہر گھولنے کے لیے چاہے جتنا زور لگالے، لیکن بہت جلد جب یہ دھند چھٹے گی تو حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی ، تبلیغی مرکز کے ذمے داران بے قصور ثابت ہوں گے اور فرقہ پرستوں کی شر انگیزی عیاں ہوجائے گی ـ
تبلیغی مرکز کے واقعہ میں شر سے خیر برآمد ہونے کا ایک پہلو یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کا تعارف اب تک صرف مسلمانوں کی حد تک تھا ، وہی اس کی سرگرمیوں اور خدمات سے واقف تھے _ اب میڈیا نے اسے زبان زد عام و خاص بنادیا ہے _ ہر اخبار اور ہر چینل پر وہ زیر بحث ہے _ اس طرح امید ہے کہ ملک کے تمام شہریوں میں اس کے بارے میں حقیقت جاننے کی جستجو پیدا ہوگی _ اب یہ تبلیغی جماعت کے کارکنان و وابستگان اور ان کے بہی خواہوں کی ذمے داری ہے کہ اس کا صحیح تعارف کرائیں اور اس کی مثبت خدمات سے عوام کو آگاہ کریں اور دوسرے مسلمانوں کی بھی ذمے داری ہے کہ اس کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈہ کے خلاف صف آرا ہوں اور ملّی اتحاد و اتفاق کا ثبوت دیں ـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)