نئی دہلی:
کرکٹ کو فروغ دینے کے مقصد سے آئی سی سی نے بھلے ہی بہت سے ممالک کو انٹرنیشنل سطح پر ٹی 20 اور ون ڈے کرکٹ کھیلنے کی منظوری دے دی ہے۔لیکن اب یہ ٹیمیں اس سطح پر کرکٹ کھیلنے کو تیار نہیں دکھ رہیں۔بدھ کو نیپال کے دارالحکومت کاٹھمانڈومیں نیپال اور امریکہ (یو ایس اے ) کے درمیان ون ڈے میچ کھیلا گیا۔امریکی ٹیم یہاں صرف 35 رن پر آل آؤٹ ہو گئی، جو ون ڈے کرکٹ کی تاریخ کا سب سے چھوٹا اسکور ہے۔اس کی وجہ سے 50-50 اوور کا یہ میچ صرف 17.2 اوور میں ہی ختم ہو گیا۔ون ڈے کرکٹ کی تاریخ میں یہ دوسرا موقع تھا جب کوئی ٹیم صرف 35 رنز پر ہی ڈھیر ہو گئی ہو۔امریکہ سے پہلے زمبابوے کی ٹیم سال 2004 میں سری لنکا کے خلاف اتنے ہی اسکور پر آل آؤٹ ہوئی تھی۔اب امریکہ اور زمبابوے ون ڈے کرکٹ میں سب سے کم اسکور بنانے کے معاملے میں مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔نیپال اور امریکہ کے درمیان کرکٹ ورلڈ کپ لیگ 2 زمرے کے تحت یہ میچ کھیلا گیا۔یہاں میزبان نیپال نے ٹاس جیت کر مہمان امریکہ کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی۔لیکن امریکی ٹیم یہاں پوری طرح فیل ثابت ہوئی۔امریکی ٹیم نے نیپال کے لیگ اسپنر سندیپ لامچھانے کے سامنے نہیں ٹک سکیا۔ سندیپ نے 6 اوور پھینک کر 1 میڈن کے ساتھ 16 رن خرچ کئے اور انہوں نے 6 وکٹ اپنے نام کئے۔ون ڈے تاریخ میں یہ ان کی بہترین کارکردگی ہے۔سندیپ کے علاوہ باقی 4 وکٹ لیفٹ آرم اسپنر سشان بہاری (4/5) نے اپنے نام کئے۔دوسرے اوور سے ان کا پہلا وکٹ گرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو اس نے رکنے کا نام ہی نہیں لیا اور 12 اوور تک امریکی ٹیم محض 35 رنز بنا کر آل آؤٹ ہو گئی۔امریکی ٹیم کا صرف ایک بلے باز جیویر مارشل (16) دوہرے ہندسے میں پہنچ سکا۔ جبکہ کپتان سمیت اس کے 4 بلے باز اپنا اکاؤنٹ بھی نہیں کھول پائے۔36 رنوں کا یہ آسان سا ہدف نیپالی ٹیم نے 5 اوور میں ہی اپنے نام کر لیا۔حالانکہ ہدف کا تعاقب کرنے اتری نیپالی ٹیم کی بھی شروعات اچھی نہیں رہی اور اس کے دونوں اوپنر پہلے دو رنوں تک پولین لوٹ گئے تھے۔لیکن بعد میں پارس کھڑکا (20) اور دیپیدر سنگھ یری (15) کی بدولت 8 وکٹ سے یہ میچ اپنے نام کر لیا۔نیپال کی ٹیم نے یہ آسان جیت 268 گیندیں باقی رہتے ہوئے اپنے نام درج کی ہے۔ون ڈے کرکٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ گیندیں باقی رہتے ہوئے جیت درج کرنے کے معاملے میں یہ چوتھی سب سے بڑی جیت ہے۔سب سے زیادہ گیند باقی رہتے ہوئے ون ڈے جیت کا ریکارڈ انگلینڈ کے نام ہے۔انگلینڈ نے مانچسٹر کے میدان پر 13 جون 1979 میں کینیڈا کے خلاف 277 بال باقی رہتے ہوئے جیت (ٹارگیٹ 46 رنز) اپنے نام کی تھی۔
12 فروری, 2020
یہ بات بہت تکلیف دہ بھی ہے اور حساسیت سے بھری ہوئی بھی۔ کہ دنیا بھر میں اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ خصوصا مسلمان ظلم و ستم کی داستانوں کے ایسے عنوان بنے ہوئے ہیں جن کو سن کر اور جان کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔سری لنکا میں تمل ،چائنا،برما اور ہندوستان میں مسلمان سرکاری ظلم و جبر کی ایک غمناک داستان عبرت ہے۔کو نسا ظلم ایسا ہے جو ان اقلیتوں پر روا نہ رکھا گیا ہو۔ آگ اور خون کے تمام دریاؤں سے یہ اقلیتیں گزریں اور ابھی تک گررہی ہیں۔ آخر کیا وجوہات ہیں اس بربریت کی ،اس اندھے پن کی؟ اس سوال پر بھی کیا کبھی غور ہواہے، کبھی سوچا گیا ہےکہ آخر ان اقلیتوں کا قصور کیا ہے؟ تو شاید جواب ہو گا نہیں! ویسے یہ سوال یقیناًحساس اور بے حد سنگین ہے،اس کا جواب اس مختصر سے مضمون میں دینابہت مشکل ہے۔لیکن پھر بھی ان وجوہات کو جاننے کی کوشش کریں گے۔
دنیا کی تاریخ میں جس اہم اور معنی خیز چیزکوہم نے چھوڑا ہے وہ انسانیت نوازی اور انسانی ہمدردی کا وہ عنصر ہےجس کے تصور کے بغیر اس دنیا اور سماج کا وجود ہی بے معنی ہے ۔سماج میں اگر انسانیت مرجاۓ اور انسانی اقدار کا خون ہو جاۓ تو پھرجینے نے کے لیے بہت کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔
یوروپ کی نشأة ثانیہ کا سفر دراصل انسانیت دشمنی سے ہی شروع ہوا ہے۔اور اس تصور کو انہوں نے اپنی نئی نسل کے اندر ایک بڑی جدوجہد کے ساتھ بھرا ہے۔ کیونکہ اگر اہل یوروپ اس تصور کو ان کے اندر نہ سموتے تو انہیں اپنے مشن میں دشواریاں پیش آتیں ،اس لیے پہلے منظم پلاننگ کے تحت اس کام کو گیا ہے اور اس پر خوب محنت ہوئی اورجب یوروپ کے نوجوانوں کے اندر سے مذہب اور انسانیت کا یہ تصور ختم ہوگیا اور ساتھ ہی ان کے ذہن سے یہ بات مکمل طور سے نکل گئی کہ انسانی زندگی کی بقاء کے لیے مذہب اور انسانیت کی کوئی حیثیت نہیں۔ تو پھر یوروپ کی تاریخ میں وہ سب کچھ ہوا جس کا انسانوں سے بحیثیت انسان کے تصور بھی محال ہے۔
یوروپین تاریخ کے جدید فلاسفر بلکہ انسانیت کے دشمن مدت سے اس بات پر محنت کررہے تھے کہ اسٹیٹ کی بقاء کے لیے مذہب اور انسانیت کا تصور ختم کیے بغیر اسٹیٹ کی ترقی ناممکن ہے۔اس لیے انہوں نے کچھ ایسے انسانیت سوز ضابطے طے کیے جن کاکسی بھی مذہب کی تاریخ میں کو ئی تصور نہیں تھا۔روح اقبال کا مصنف ان نظریات کی وضاحت کرتے ہوۓ لکھتاہے جو یوروپ کے فلاسفروں نے اسٹیٹ کی ترقی کے لیے پیش کیے ہیں:
;یوروپ کی نشأة ثانیہ کا خمیر جن بھیانک اور
سیاہ ترین اصولوں اور ضابطوں کے درمیان تیار ہواہے ان میں میکیاویلی کے سخت گیر نظریات کو اولیت کا درجہ حاصل ہے، مکیاویلی کے نظریات مملکت کے حوالے سے یہ ہیں کہ اسٹیٹ کو ترقی دینے کے لیے اگر لوگوں کے خون کی ضرورت پڑے تو اسٹیٹ کی ترقی اور اس کے استحکام کی خاطر اس سے گریز نہ کیا جائے۔غرض اسٹیٹ کی بقاء کے لیے ہر ناجائز کام کرنا اس کی تھیوری میں شامل تھا۔ ساتھ ہی اس کی دلیل یہ تھی کہ اصل چیز مقصد ہے نہ کہ ذریعہ۔آگے میکیاویلی لکھتا ہے اگر کوئی مدبر اپنے اخلاقی اصول کی وجہ سے مملکت کو کوئی نقصان پہنچاۓ تو وہ مجرم ہے۔
یوروپ کی اس حیوانیت نوازی پر دنیا کی زمین ہزاروں مرتبہ بے گناہوں کے خون سے سر خ ہوئی لیکن وہ اس نظریہ سےایک لمحے کے لیے بھی ہٹنے کو تیار نہیں ہوۓ۔بلکہ مسلسل بے گناہوں کے خون کو ظالم بھیڑ یے کی طرح پیتے رہے۔انسانیت روتی رہی ،سسکتی رہی لیکن ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔مزید یہ ہوا کہ دنیا کی دوسری قومیں ان کے ان نظر یات کی سختی کے ساتھ پابند ہوگئیں۔اور انہوں نے بھی اپنی مملکت کا رخ اسی سمت کی طرف پھیر دیا۔پھر اس زہریلے وائرس کے نتیجہ میں کمزوروں خصوصا مسلمانوں پر ہر طرح سے ظلم وستم کے پہاڑ تو ڑے گئے۔انسانیت اور انصاف کا بالکل قتل کردیا گیا۔اس میں خاص بات یہ بھی رہی کہ یہ سارا کھیل مسلمان اقلیتوں کے ساتھ کی گیا۔حالاں کہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور اقتدار ان کے ہاتھ میں ہے وہاں کی اقلیتیں نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ خوشحال بھی ہیں۔مثال کے طور مصر میں یا اسی طرح دیگر مسلم ملکوں میں خاص طور پر افریقہ وغیرہ میں جو عیسائی یا یہودی اقلیت میں ہیں وہ نہ صرف خوشحال ہیں بلکہ ان کو وہاں کے سماج میں ہرطرح کی عزت اور اعتبار بھی حاصل ہے۔
اہل یوروپ سے اس بات کی امید لگانا کہ وہ انسانیت کے احترام میں اپنے نظریے پر غور کرکے اپنے ماضی کے گناہوں سے توبہ کریں گے،اور پھر انسانیت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں گے نہ صرف فضول ہے بلکہ انسانیت کے حوالےسے احترام کی تمام باتیں ان کے نزدیک بے معنی ہیں۔ہاں اسلام کے نظریہ حیات ،اور اس کی تعلیم میں انسانیت کی عزت و وقار کے حوالے سے جو چیزیں موجود ہیں ان کو اپنا کر گرتی اور مرتی ہوئی انسانیت کو بچا یا بھی جاسکتاہے۔اور اس کے احترام میں چار چاند لگاۓ جا سکتے ہیں۔
اقلیتوں کو اپنے تحفظات کے لیے خودکچھ اقدامات کی ضرورت ہے۔انہیں اول مرحلے میں اپنے مزاج کو تحریکی بنانا ہوگا ،پھر اس تحریکی مزاج کے ساتھ سماجی ،سیاسی اور فلاحی کاموں میں اپنے عمل سے زیادہ اپنے کردار اوراخلاقیات سے لوگوں کو اپنی شخصیت کا تعارف کرانا ہوگا۔اقلیتوں میں جو صاحب حیثیت ہیں انہیں اپنے مال سے اقلیتوں کا تعاون ان کی ضروریات کےمطابق خصوصا تعلیم وغیرہ میں خود مختار ہوکر کرنا ہوگا۔غرض بات مختصر یہ ہے کہ تحریکی مزاج اور فکر آپ کو ایک نہ ایک دن معاصر قوموں کے شانہ بشانہ کھڑا گردیگا ۔دنیا میں بہت ساری اقلیتیں ہیں جو ملکوں کو چلارہی ہیں۔شرط مضبوط ارادہ اور مضبوط اعصاب ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
تحریر: مسعود جاوید
ہندوستان ١٩٤٧ میں آزاد ہوا۔ اس ملک کو انگریزوں کی استعماریت سے آزاد کرانے میں ہر طبقے ،بلا تفریق مذہب ملت ذات برادری عورت مرد، کا کم و بیش رول تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس گاندھی جی کی قیادت میں آزادی کی جدو جہد کی تحریکوں میں سب سے اہم پارٹی تھی۔ اس پارٹی کے چوٹی کے قائدین گاندھی نہرو پٹیل اور آزاد کے نام بہت نمایاں اور زبان زد عام تھے۔ تقسیم ملک کے المیہ کے دوران ان قائدین کی ہندو مسلم یک جہتی قائم رکھنے کی جدو جہد نے لوگوں کے دل و دماغ پر اچھے نقوش چھوڑا اور اس طرح ١٩٤٧ -٦٤ کے دور کو سنہرا دور اور نہرو کو نۓ ہندوستان کا معمار کہا جاتا ہے۔
نام کی سیاست : اس میں شک نہیں کہ مابعد آزادی کے شروعاتی دور کے چیلنجوں اور مشکلات کے باوجود نہرو دور کی کئ حصولیابیاں قابل فخر و ستائش ہیں ۔ نہرو کے بعد لال بہادر شاستری جو ١٩ ماہ بعد ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس کے بعد اندرا گاندھی گرچہ گاندھی کا لاحقہ ان کے شوہر ایک پارسی مذہب کے فیروز گاندھی سے شادی کی وجہ جوڑا گیا ہے لیکن ملک اور بیرون ملک بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ اندرا گاندھی کا مہاتما گاندھی سے خاندانی نسبت ہے۔ بہر حال کانگریس، گاندھی، نہرو پٹیل اور آزاد کے نام کا سکہ ایسا چلا کہ دوسری کوئی متحرک سیاسی پارٹی ابھرنے کی جرأت نہیں کر سکی۔ ہندو مہاسبھا اور جن سنگھ آر ایس ایس کے نظریات پر مبنی ہونے کی وجہ سے عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اور اس طرح کانگریس ،اپنی کارکردگی پر کم اور آباء و اجداد کے نام پر زیادہ، سالہاسال اقتدار میں آتی رہی۔ یہاں تک کہ بغیر کسی چیلنج کے اقتدار میں رہنے کے زعم نے اندرا گاندھی کو مطلق العنانیت کی راہ پر ڈال دیا اور اسی مطلق العنانیت کی سے مغلوب انہوں نے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد ملک میں اس سیاہ قانون کے خلاف بغاوت اور اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔
ذات کی سیاست : ١٩٧٩ – ١٩٩٠ اس دور میں ملک نے ذات برادری کی سیاست دیکھا۔۔ دستور ہند میں دی گئی درج فہرست قبائل و طبقات کے لئے خصوصی مراعات اور ریزرویشن کے حامی اور مخالفین کے ما بین خونی تصادم۔ اور اس کے نتیجے میں ذات برادری کی بنیاد پر سیاست اور سماج میں بالخصوص انتخابات کے دوران ذات کی بنیاد پر لام بندی polarization.
مذہب کی سیاست : ١٩٩٠ سے ہندوستان میں ایک مخصوص طبقے نے متشدد مذہبی سیاست کی از سر نو شروعات کی۔ رتھ یاترا کے ذریعے ہندو مسلم منافرت کا زہر گاؤں گاؤں پروسا گیا اور بابری مسجد شہید کی گئی۔ اس کے بعد سے اب تک بتفاوت شدت یہ عمل جاری ہے بالخصوص انتخابات کے زمانے میں مذہبی منافرت اور لام بندی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن جیتنے کے اجزاء ترکیبی ingredients کا سب سے اہم جزء مذہبی منافرت ہی ہے۔ الیکشن کا دن ایک قومی تہوار کے طور خوشی خوشی منانے اور اپنےدستوری حق کے استعمال کے بارے میں سوچنے کی بجائے ماحول اس قدر زہر آلود بنا دیا جاتا ہے کہ ہر شخص اس عرصے میں سہما ہوا محتاط نقل و حرکت پر مجبور ہوتا ہے۔
کام کی سیاست : دہلی میں اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم کے دوران ماحول بگاڑنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی۔ بی جے پی کی تقریر و تحریر کا محور ہندو مسلم منافرت آخر تک رہا، شاہین باغ، پاکستان، دہشت گردی، ہندوؤں کو شاہین باغ والوں سے خوفزدہ کرنا وغیرہ فرقہ وارانہ نعروں نے دہلی کے عام لوگوں کو بی جے پی سے متنفر کر دیا۔
اس کے مقابل عام آدمی پارٹی نے ہر اس جملے سے احتراز کیا جس سے فرقہ پرستی کا تاثر ملے۔ بی جے پی اور میڈیا والوں کے ذریعے ورغلانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود کیجریوال اور عام آدمی پارٹی کے لیڈرز ہندو مسلم سے متعلق حساس موضوعات پر کسی طرح کی بیان بازی سے باز رہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ یہ ایک ریاستی الیکشن ہے ہمیں اس ریاست سے متعلق موضوعات پر گفتگو کرنی چاہئے۔ ہم نے پچھلے پانچ سالوں میں اسکول، محلہ کلینک، بجلی پانی سڑک بس سروس سی سی ٹی وی کیمرے وغیرہ جیسے کام کۓ ہیں جن سے عوام بالخصوص متوسط و ادنی طبقے کے لوگ بخوبی مستفید ہو رہے ہیں ۔ اگر ہماری پارٹی کی حکومت نے کام کیا ہے تو کام کی بنیاد پر ہمیں ووٹ دیں تاکہ وہ کام حسب معمول جاری رہ سکیں اور اگر آپ نے ایک بار پھر موقع دیا تو ہم مزید کام کر کے دہلی کو ایک اچھا ویلفیئر اسٹیٹ بنا سکیں گے۔ جو کام آنے والے پانچ سالوں میں ہمیں کرنا ہے وہ محض انتخابی منشور کے کھوکھلے وعدے نہیں ہوں گے اسی لئے ہم مینی فیسٹو کی بجائے آپ کو گارنٹی کارڈ دے رہے ہیں۔
میرے خیال میں یہ عین وقت ہے کہ ہر شہری اپنی اپنی ریاستوں میں اس طرز پر "کام کی سیاست” کی بنیاد رکھے۔ "کام کی سیاست” کی پارٹی تشکیل دے یا موجودہ پارٹی اور حکومت کو کام کی سیاست کی کسوٹی پر پرکھے۔ ہندو مسلم ، مسلم، یادو، دلت، اگاڑی پچھڑی بیک ورڈ فارورڈ اقلیت اور اکثریت کی سیاست کو بائ بائ کہ کر نۓ دور کا آغاز کرے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
دہلی الیکشن کے نتائج آنے کے بعد سوشل میڈیا میں یوں طوفان برپا ہوگیا ، جیسے یہ عام انتخابات (لوک سبھا) کے نتائج ہوں۔ مہاراشٹر اور جھاڑ کھنڈ کے فیصلوں کے بعد بھی اتنا جوش خروش نظر نہیں آیا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ملک بھر میں CAA، NPR اور NRC کے خلاف تحریکوں اور اس کے ردعمل میں مرکزی حکومت کے سخت رویے کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف صوبوں بطور خاص اتر پردیش میں جس طرح احتجاج کرنے والوں پر یوگی سرکار کا قہر برسا، اس نے ہندوستان کی عوام کے اندر عدم تحفظ کا احساس بھر دیا۔اگر یہ کہا جائے کہ دہلی ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کا مرکز رہا تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ایک طرف جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں دہلی پولیس کی بربریت ، پھر جے این یو کے طلبا پر نقاب پوشوں کا حملہ ، شاہین باغ کے مظاہرے کا قیام، گوپال شرما اور کپل گجر کے ذریعہ جامعہ اور شاہین باغ پر گولی باری جیسے کئی واقعات پے درپے ہوئے تو دوسری طرف اسی دہلی میں مرکزی سرکار کے وزرا اور بی جے پی نے مظاہرین کا حوصلہ پست کرنے اور انھیں بدنام کرنے کے لیے کئی چرکے لگائے، بطور خاص شاہین باغ کو ٹارگیٹ بنا لیا گیا۔ اس اختلاف میں بی جے پی نے اپنے ترکش کے تمام تیر آزمالیے، تمام اخلاقی حدود توڑ دیے ، حتیٰ کہ عوامی نمائندوں نے اپنے عہدوں کے وقار تک کو اپنے ہی پاؤں تلے روند دیا۔ کبھی وزیر داخلہ نے شاہین باغ کو کرنٹ لگانے کی بات کی، کبھی اس کے مرکزی وزرا نے "گولی مارو” کے نعرے لگا کر اپنے بھکتوں کو فرقہ وارانہ دنگوں کے لیے اُکسایا، کبھی شاہین باغ کو منی پاکستان کہا گیا اور کبھی انھیں ریپسٹ اور لٹیرا کہا گیا۔ اس پورے پس منظر میں مرکزی سرکار، خود وزیر اعظم اور دہلی پولیس کی خاموشی اور بے حسی نے نفرت کے ان شعلوں کو ہوا دینے میں کلیدی رول ادا کیا۔ نتیجتاً شاہین باغ ظلم و جبر کے خلاف پورے ملک میں ایک استعارہ بنتا چلا گیا اور اس طرح پورے ملک کی عوام دہلی سے جذباتی طور پر جڑتی چلی گئی۔ یہ وابستگی روز بہ روز اتنی بڑھتی چلی گئی کہ ایک وقت آیا جب دہلی سے ہزاروں کیلو میٹر دور بیٹھا شخص بھی خود کو شاہین باغ کی عورتوں اور جامعہ ملیہ کے طلبا کے ساتھ کھڑا ہوا محسوس کرنے لگا۔ دہلی کی ہر چیخ میں اس کی آواز شامل ہوتی چلی گئی ، حتیٰ کہ ملک کے مختلف شہروں سےلوگ بھی یہاں پہنچنے لگے جن میں پنجاب کے سکھ مردوں اور عورتوں پر مشتمل سینکڑوں لوگ بھی شامل ہیں۔اس صورت حال کو دیکھ کر مرکزی حکومت اور بی جے پی لیڈروں کے اوسان خطا ہوگئے ، انھوں نے بوکھلاہٹ میں دہلی الیکشن کو "ہندوستان بنام پاکستان” قرار دے دیا ، امیت شاہ نے شاہین باغ کے نام پر ووٹ مانگنا شروع کردیا، یہاں تک کہ نریندر مودی نے بھی شاہین باغ کو دہلی الیکشن کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اپنے وزارت عظمیٰ کے وقار کو خاک میں ملادیا۔ اس پس منظر میں اب دہلی کا الیکشن صرف دہلی کا نہیں رہا، پورے ہندوستان کا بن گیا۔ اب یہ کوئی صوبائی الیکشن نہیں رہا بلکہ دو بیانیوں (Narratives) کے درمیان کی جنگ ہوگئی جس کا فیصلہ 11 فروری کو ہونا تھا کہ اس ملک کو کس طرف جانا ہے اور کیسے جانا ہے؟ چنانچہ تماشہ ہوا اور خوب جم کر ہوا، پورا ملک سانس روکے اس تماشے کو دیکھ رہا تھا جس میں بی جے پی نے فتح حاصل کرنے کے لیے اپنے تمام اہم لیڈروں کو جھونک دیا ، یعنی خود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے علاوہ اپنے 200 سے زائد پارلیمنٹ ممبر، مختلف صوبوں کے 11وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعلیٰ اور متعدد مرکزی وزرا کی فوج کو اپنے قریبی حریف اروند کیجری وال اور ان کی عام آدمی پارٹی کے مقابلے میں کھڑی کردی۔ بی جے پی نے ایسا زبردست محاذ نہ مہاراشٹر میں کھڑا کیا تھا، نہ جھاڑ کھنڈ میں؛ اس کی وجہ صاف ہے کہ دہلی کا اسمبلی الیکشن صرف کسی ایک صوبے کو جیتنے سے زیادہ تھا، یہ الیکشن بی جے پی کے نظریاتی وجود کی بقا سے منسلک ہوچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس الیکشن کے نتائج سامنے آئے اور اروند کیجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی کو شاندار فتح نصیب ہوئی تو صرف دہلی میں ہی اس کا جشن نہیں منایا گیا بلکہ ہندوستان کی عوام نے اطمینان کی لمبی سانس چھوڑی اور اس کا چہرہ گلنار ہوگیا۔
نتائج آنے کے بعد مختلف چینلوں اور سوشل میڈیا میں اس پر گفتگو کا دور شروع ہوا، مختلف نقطہ نظر سے ان نتائج کے تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ان میں سے کچھ تجزیے مختلف و متضاد دلائل پر مبنی ہیں لیکن زیادہ تر بحثیں جذباتی اور ہنگامی ہیں ۔ اگر ان تمام بحثوں اور دعوؤں کو نچوڑا جائے تو اس سے تین بڑے سوال ابھر کر سامنے آتے ہیں:
(1) کیا دہلی کے الیکشن کے نتائج نے بی جے پی کے بیانیے کو ختم کردیا ہے یا اس پر لگام لگا دیا ہے؟
(2) کیا عام آدمی پارٹی کی جیت میں شاہین باغ کے مظاہرے کی شراکت صفر تھی؟
(3) کیا ان نتائج نے اروند کیجریوال کو ہندوستانی سیاست میں ایک متبادل کے طور پر مستحکم کیا ہے؟
فی الحال ہم انھی تین سوالوں کو اس تجزیے کی بنیاد بناتے ہیں ، بقیہ ضمنی نکات پر پھر کبھی ہم گفتگو کرلیں گے۔
پہلے سوال کے جواب میں صرف یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ دہلی الیکشن کے نتائج نے نہ تو بی جے پی کے بیانیے کو ختم کیا اور نہ اس پر لگام لگائی ہے اور نہ بی جے پی دوسرے صوبوں میں ہونے والے انتخابات پر اپنا لائن آف ایکشن بدلنے والی ہے اور نہ وہ بیانیہ جس پر اس کا وجود قائم ہے۔ اس کا ایک ثبوت تو خود دہلی کے نتائج ہی ہیں۔ عام آدمی پارٹی کو بلاشبہ 62 سیٹیں ضرور ملی ہیں لیکن 2015 کے مقابلے میں 5 سیٹیں کم ہیں اور ووٹ میں ایک فیصد کی کمی بھی آئی ہے۔ اس کے برعکس بی جے پی کو 2015 کے مقابلے اس الیکشن میں 5 سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے اور اس کے 5 فیصد ووٹوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے دہلی کی ان سیٹوں پر ہی زیادہ تر کامیابی حاصل کی ہے جہاں اترپردیش ، بہار اور جھاڑ کھنڈ کے لوگوں کی اکثریت ہے، گویا بی جے پی کی ان سیٹوں پر جیت بتا رہی ہے کہ وہ بے شک دہلی الیکشن میں ہار ضرور گئی ہے لیکن ملک گیر سطح پر اس کا بیانیہ کمزور نہیں پڑا بلکہ اسے قدرے مضبوطی بھی ملی ہے۔مذہبی بنیادوں پر بی جے پی کی سیاست نے اس الیکشن میں اروند کیجریوال کو بھی متاثر کیا اور انھیں بھی اپنی دفاع میں "جے شری رام ” کے سامنے "بجرنگ بلی” کو کھڑا کرنا پڑا۔ یہ ضرور ہے کہ انھوں نے بی جے پی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ایسا کیا لیکن بہرحال انھیں بیک فٹ ہو کر اپنا بچاؤ اسی قسم کی سیاست سے کرنا پڑا جو صرف بی جے پی کے لیے مخصوص ہے۔ گویا نہ چاہتے ہوئے بھی اروند کیجریوال کو بی جے پی کے بیانہ میں شراکت کرنی پڑی اور انھیں خود کو ہندو ثابت کرنے کے لیے "ہنومان چالیسا” تک پڑھنا پڑا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بی جے پی نے اروندکیجریوال کا وہی حشر کیا جو کافی پہلے اس نے انھی خطوط پر چل کر کانگریس کا کیا تھا ۔
یاد کیجیے ان دنوں کو،جب بی جے پی نے کانگریس پر حملہ بولا کہ وہ ہندو مخالف پارٹی ہے اوروہ صرف مسلمانوں کے ووٹ بینک کی سیاست کرتی ہے تو کانگریس کے لیڈر کس قدر پریشان ہوگئے تھے کہ ان کے پاؤں کے نیچے سے اکثریتی ووٹ کی زمین کھینچی جارہی ہے ۔چنانچہ کانگریس کو اپنی امیج کو درست کرنے کے لیے کانگریس کو صفائی دینی پڑی تھی کہ یہ افواہ ہے، وہ مسلم پارٹی نہیں ہے اور اس کے بعد اس نے آنے والے دنوں میں مسلمانوں اور ان کے مسائل کو نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا۔ کانگریس کے ان اقدام سے اس نظریے کو تقویت ملی کہ ایک جمہوری ملک میں مسلمانوں یا کسی دوسری اقلیت کے حقوق کے لیے لڑنا کسی سیاسی پارٹی کا لڑنا شرمندگی اور بدنامی کا باعث ہے۔ چنانچہ کانگریس اپنی امیج بدلنے کی کوشش کے دوران ہندوستانی مسلمانوں کا یقین کھوتی چلی گئی جو اب تک وہ بحال کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ بی جے پی نے بالکل اسی طرح کا وار دہلی کے الیکشن میں اروند کیجریوال کے ساتھ کیا، انھیں پاکستانی دلال کہا، آتنک وادی کہا، شاہین باغ میں بریانی پہنچانے والا ، ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا سرپرستی کرنے والا کہا وغیرہ وغیرہ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اروند کیجریوال بھی بیک فٹ پر ہوئے اور انھوں نے یہاں تک بیان دے دیا کہ اگر دہلی پولیس ان کی ماتحتی میں ہوتی تو وہ دو گھنٹے میں شاہین باغ خالی کراسکتے تھے۔ شاہین باغ کی عورتوں کے دل ٹوٹے لیکن یہ سوچ کر صبر کرلیا کہ ممکن ہے کہ ان کی یہ چناوی حکمت عملی ہو۔ لیکن جب نتائج سامنے آگئے تو میڈیا نے عام آدمی پارٹی کے قد آور لیڈر سنجے سنگھ کا دل ٹٹولتے ہوئے پوچھا کہ اب نتائج سامنے آچکے ہیں تو پھر کیا اروندکیجریوال شاہین باغ جائیں گے؟ اس کے جواب میں سنجے سنگھ صرف آئیں بائیں شائیں کرکے رہ گئے۔ واضح رہے کہ اروند کیجری وال نے 7 صوبوں کی اسمبلیوں کی طرز پر دہلی کی اسمبلی میں CAA، NPRاور NRCکے خلاف قرار داد پاس کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اروند کیجریوال نے دہلی میں جامعہ، جے این یو اور شاہین باغ پر ہونے والے تشدد کی مذمت بھی کی، سرکار اور دہلی پولیس کو ٹوئیٹ کرکے پھٹکار بھی لگائی لیکن زمینی سطح پر اسے محض رسمی کاروائی ہی سمجھا جائے گا ۔ اس کے برخلاف پرینکا گاندھی کا ردعمل ذرا مختلف نظر آیا ، وہ نہ صرف جامعہ کے طلبا سے ملیں، انھوں نے دھرنا دیا ، صدر جمہوریہ ہند کو میمورنڈم دیا، فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی تشکیل کی اور اتر پردیش کے مختلف علاقوں میں گھوم گھوم کر زخمیوں اور مقتولین کے پریواروں سے ملاقات بھی کی اور انھیں فوری راحت بھی پہنچائی۔
اروند کیجریوال ، عام آدمی پارٹی کے دوسرے لیڈر اور اسی رو میں بہہ جانے والے ان کے حمایتی بھی چناؤ کے درمیان یہی تاثر دینے لگے کہ شاہین باغ کا اس الیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ ان کے لیےکوئی ایشو ہے۔ اسے بھی عام آدمی پارٹی کی چناوی حکمت عملی سے تعبیر کیا گیا ، جب کہ اس کے برخلاف بی جے پی نے دہلی الیکشن شاہین باغ کے ہی ایشو پر لڑا۔ نتائج آنے کے بعد سنجے سنگھ کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کا داؤ الٹا پڑا اور لوگوں نے شاہین باغ کو خواہ مخواہ ایشو بنانے پر عام آدمی پارٹی کوو وٹ دے دیا۔ گویا ناک گھما کر پکڑی جارہی ہے۔ اگر شاہین باغ ایشو ہی نہیں تھا تو داؤ کیسے الٹا پڑا؟ شاہین باغ پر بی جے پی کے جارحانہ اسٹینڈ کی مخالفت میں عوام کا غصہ بھی تو شامل تھا جو دہلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کے ووٹوں کی شکل میں کیش ہوا۔ جن گالیوں کے زہر کا گھونٹ شاہین باغ کی عورتوں نے صبر سے پی لیا تھا، جس طرح جامعہ اور جے این یو کے طلبا کو پاکستانی،غدار، ٹکڑے ٹکڑے گینگ کہہ کر پولیس نے ان پر جم کر تشدد کیا، جس طرح کھلے عام گوپال شرما اور کپل گجر کی گولیوں کے جواب میں ہاتھوں میں ترنگا لہراتا رہا اور زبان پر انقلاب زندہ بعد کے نعرے ہی گونجتے رہے، کیا واقعی اس کا دہلی کے ووٹروں پر کوئی اثر نہیں پڑا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ صرف اوکھلا میں، جہاں جامعہ اور شاہین باغ کے علاقے واقع ہیں، وہاں 80 فیصد ووٹنگ ہوتی ہے جو دہلی کے تمام علاقوں میں ہونے والی فیصد سے کافی زیادہ ہے، حتیٰ کہ خود اروند کیجریوال کے علاقے میں ووٹ کی فیصد بھی اوکھلا کی فیصد سے کم تھی اور دوسری طرف دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش ششودیا تو بیچارے ہارتے ہارتے بچے، اور بہت کم ووٹوں سے انھیں کامیابی ملی۔ خود اروندکیجریوال کی عام آدمی پارٹی کے امیدوار امانت اللہ خان نے اوکھلا علاقے میں ایک کافی بڑے فرق سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد کھل کر اعتراف کیا کہ یہ شاہین باغ کی جیت ہے، لیکن آخر یہ ہمت اور یہ اعتراف عام آدمی پارٹی کے بڑے نیتاؤں میں کیوں نہیں نظر آ رہی ہے، وہ شاہین باغ کو Discredit کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انھوں نے دہلی میں کام کیا اور بنیادی طور پر اپنی رپورٹ کارڈ کے بل پر ہی انھیں کامیابی ملی ہے لیکن انھیں اتنی شاندار کامیابی ہرگز نہ ملتی ، اگر اس میں شاہین باغ ، جامعہ اور جے این یو کے اثرات کی شراکت نہ ہوتی۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اگر اروند کیجریوال کو الیکشن سے پہلے ، اس کے پرچار کے دوران اور الیکشن کے بعد کناٹ پیلس کے ہنومان مندر جا کر اور نیشنل میڈیا میں ہنومان چالیسا سنانے سے عار نہیں ہے تو شاہین باغ جانے میں کیسی قباحت ؟ کیا شاہین باغ کسی مسجد کا نام ہے، کیا شاہین باغ میں کوئی مذہبی اجتماع چل رہا ہے؟ کیا اروند کیجریوال نہیں جانتے کہ پنجاب کے سینکڑوں سکھوں اور وہاں ہَون کرانے والے ہزاروں ہندوؤں، کشمیری پنڈتوں، چرچ کے نمائندوں کی موجودگی نے شاہین باغ کو ہندوستان کی یک جہتی کا ایسا استعارہ نہیں بنادیا جو ایک طرح سے اب پورے ہندوستانی عوام کے لیے "تیرتھ استھان” کا روپ دھارتا چلا جا رہا ہے۔ پرینکا گاندھی جامعہ کے زخمی طلبا کی عیادت کرنے دہلی کے اسپتال کا دورہ کرسکتی ہیں، اتر پردیش جا کر زخمیوں سے ملاقات کرسکتی ہیں، مقتولین کے پسماندگان کی دلجوئی کرسکتی ہیں لیکن آپ دہلی کے وزیر اعلیٰ بلکہ ایک انسان ہونے کے ناطے بھی جامعہ اور جے این یو کے زخمی طلبا کی عیادت کرنے دہلی کے اسپتال تک پہنچنے کی زحمت نہیں اٹھا سکتے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اروند کیجریوال کی پوری سیاست صرف ووٹ کی سیاست کے گرد گھومتی ہے جو ظاہر ہے موقع پرستی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے؟ اروند کیجریوال اور ان کے حمایتیوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ایک الگ قسم کی سیاست سے ہندوستان کو متعارف کرایا ہے ، خود کیجریوال نے اس سیاست کو نام دیا ہے: "کام کی سیاست۔” اسی بنیاد پر اب کچھ مبصرین یہ دعویٰ بھی کرتے نظر آ رہے ہیں کہ دہلی کے الیکشن کے نتائج نے اروند کیجریوال کا چہرہ مرکزی سیاست میں متبادل کے طور پر پیش کردیا ہے، یعنی وہ نریندر مودی کا ایک مضبوط متبادل ہوسکتے ہیں۔ چلیے اس پر بھی تھوڑی بات کرلیتے ہیں۔
فیس بک میں موجود ایک تجزیہ کار پنکج مشرا کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ اروند کیجریوال "ٹی 20 "کے کھلاڑی ہیں، ٹیسٹ میچ کے نہیں، لہٰذا وہ ہمیں بہت مطمئن نہیں کرتے۔ بلاشبہ کیجریوال نے دہلی الیکشن میں ایک زبردست جیت حاصل کی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کی اس جیت سے narrative بدلنے والا نہیں ہے، چونکہ خود اروند کیجریوال نے محتاط طریقے سے اکثریت کی ہی سیاست کی ہے۔ عام آدمی پارٹی میں "اسٹریٹ اسمارٹ” قسم کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، لہٰذا بی جے پی انھیں بار بار اپنی طرف کھینچتی رہی اور وہ ہاتھ چھڑا کر پھر اسی پالے میں دوسری طرف کبڈی کبڈی کرنے لگے۔ بی جے پی کو اپنے "مرکزی بیانیے” پر کیجریوال کی خاموش سیاست عزیز ہے، مثلاً جس طرح وہ تین طلاق پر خاموش رہے یا گول مول اسٹینڈ لیا ، یا CAA کے معاملے میں کیا، یا پھر 370 کے وقت کیا۔ ریزرویشن جیسے ایشوز پر بھی کیجریوال کی خاموشی بی جے پی کو پسند ہے کیوں کہ ترقی یافتہ ہندو اور مسلم ووٹ تو بی جے کی مخالفت کے نام پر انھیں مل ہی جائیں گے جہاں وہ براہ راست مقابلے میں ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کے لیے کانگریس کے مقابلے میں عام آدمی پارٹی غنیمت ہے جو اس کے کلیدی narrative پر براہ راست اثر انداز نہیں ہونے والی۔ اس طرح بی جے پی کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں کم از کم ایک آواز کم ہوجاتی ہے۔
میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ خود عام آدمی پارٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ "اسٹریٹ اسمارٹ پارٹی” ہوگی۔ اس نے پروفیشنل اور تجربہ کار سیاستدانوں کے مقابلے "اسٹریٹ اسمارٹٗ "لوگوں کو ترجیح دی ہے۔ ایسے لوگ اقداری سیاست کی بجائے مقداری سیاست کرتے ہیں یعنی منافع پر مبنی سیاست کے خوگر ہوتے ہیں۔ لہٰذا پارٹی نے سب سے پہلے اقدار پر مبنی سیاست اور کسی حد تک نظریاتی سیاست پر یقین کرنے والے لوگوں کو کنارے کیا کیوں کہ وہ فوری منافع حاصل کرنے والی مقبولیت و شہرت پسند سیاست (Populist Politics) پر بغیر غور و فکر کیے مہر لگانے کے حق میں نہیں ہوتے ہیں۔
کیجریوال کے کام کے طریقوں سے اتنا واضح ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک آمر (Authoritarian) ہیں۔ انھیں سُر ملانے والے لوگ ہی پسند ہیں، لہٰذا انھوں نے جلدہی ٹھیک ٹھاک لوگوں کو ٹھکانے لگادیا۔
یہ درست ہے کہ انتخابی سیاست میں نیا ہونے کے ناطے، کیجریوال کو اگلی دس نسلوں کو سیاست کے ذریعے آباد کرنے کا کاروبار کرنا ابھی نہیں آتا۔ یہ خوبی دھیرے دھیرے ہی پروان چڑھتی ہے۔ ان میں بھی دھیرے دھیرے آ جائے گی۔ چونکہ انھوں نے ایمانداری کو اپنا USP بنایا ہے، لہٰذا وہ اور بھی زیادہ آہستہ آہستہ آئے گی۔ لیکن بہرحال اروندو کیجریوال نے جس طرح کی سیاست کا دامن پکڑا ہے، دیر سویر انھیں اسی سمت لے جائے گی، وہ کوئی نیا راستہ بنانے نہیں جا رہے ہیں۔
چونکہ یہ اسٹریٹ اسمارٹ لوگ ہیں ، لہٰذا انھیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اس ملک کی عوام کو اتنی بار دھوکا دیا گیا ہے، اتنا دبایا گیا ہے کہ وہ یہ تک بھول چکی ہے کہ جمہوریت میں عوامی حقوق کیا ہوتے ہیں۔ نتیجتاً لوگوں نے متفقہ طور پر تسلیم کرلیا کہ سب چور ہیں، سب ڈاکو ہیں، کوئی کچھ نہیں کرتا، سب اپنی جھولی بھرنے آئے ہیں، اور یہ کہ سیاست کا مطلب صرف عوام کو بیوقوف بنانا اور اپنا الّوسیدھا کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی بے یقینی کے ماحول میں اگر عوام کے ان مغالطوں کو سسٹم کے بنیادی ڈھانچے کو چھوئے بغیر اور بڑے کارپوریٹس سے ٹکرائے بنا تھوڑا بہت بھی دور کردیا جائے تو ظاہر ہے وہ ناامیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک چھوٹا سا چراغ جلانے کے مترادف ہوگا جو عوام کے لیے کسی مرکری ٹیوب لائٹ سے زیادہ روشن ہوگا۔
دہلی ایک متمول ریاست ہے جہاں پیسوں کی کمی نہیں ہے، لہٰذا کیجریوال کو ایسے کاموں کو عملی جامہ پہنانے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سرکاری اسکول، جو کبھی تعلیم کی ریڑھ کی ہڈی تھے،اسے بہتر کیا گیا،بجلی اور پانی جیسے بنیادی ضرورتوں میں بہتری لائی گئی، پرائمری ہیلتھ سنٹر کے منہدم ڈھانچے کو محلہ کلینک بنادیا گیا۔ وائی فائی، کیمرے وغیرہ اسی طرح کے مقبولیت پسند کام ہیں جن کی تشہیر کی جاسکتی تھی۔
آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ کیجریوال کس طرح کی متبادل سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خوابوں کا ملک کیسا ہے، وہ ملک کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں؟ ابھی وہ جو کچھ کررہے ہیں، وہ بنیادی طور پر ایک ایگزیکٹیویا زیادہ سے زیادہ نوکر شاہی (Bureaucracy) نوعیت کا کام ہے، وہ اپنی حدود میں اچھی انتظامیہ دے رہے ہیں، لیکن سیاست بنیادی طور پر قانون سازی اور نظری بصارت کا نام ہے جو ان میں نظر نہیں آتی ہے۔
اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی پر اس تنقید کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انھیں نااہل قرار دے دیا جائے یا دہلی میں ان کی شاندار جیت کو کمتر کرکے آنکا جائے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی انتخابی سیاست ہمیں "کم برے” (Better Evil) کا انتخاب کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ انتخابات؛ مختلف سیاسی پارٹیوں کے تقابلی مطالعے کے ایک موقعہ سوا کچھ نہیں ہیں۔ تقابلی طور پر دیکھیں تو فی الحال ایک طرف تفرقہ بازی کی سیاست ہے اور دوسری طرف ایک ایسی پارٹی ہے جو چھوٹے چھوٹے عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کی بنیاد پر قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔
انحطاط اور کرپٹ سیاست کے دور میں، جب دکھی عوام مایوسی اور سیاست کے ایک طویل عرصے سے گزر رہی ہو، تو ایسی چھوٹی چھوٹی سیاسی فلاحی جماعتیں بھی ایک بڑی راحت ہیں۔
یہ ضرور ہے کہ ایسی فلاحی سیاسی جماعتیں جو کام کریں گی، اس سے زیادہ اس کام کی تشہیر کریں گی، لیکن ان کی ضرورت عوام کو اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ سیاست میں کم از کم عوامی مفاد اور ان کی بہتر زندگی کو ایک ایشو کی حیثیت سے مضبوطی مل جائے گی۔ اگرعوامی مسائل سیاسی ایشو بنیں گے تو لوگوں کی امنگوں میں اضافہ ہوگا اورلیڈروں کو بھی اس پر قائم رہنا پڑے گا۔ یہ ایک جامع اور ہمہ گیر جمہوریت کے لیے نیک شگون ہوگا۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کم از کم اروند کیجریوال کی سیاست زہر کاشت کرنے والی نہیں ہے،معاشرتی ڈھانچے میں ہم آہنگی کوختم کرنے کے لیے بھی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ چالاک لوگ ہیں لیکن مکار نہیں ہیں۔ فی الحال یہی بہت ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
آج ملک ایک شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ مفاد پرست عناصر کی جانب سے فرقہ واریت کو ہوا دی جارہی ہے جس کی وجہ سے ملک کی فضا مسموم ہوچکی ہے۔ایک مخصوص طبقے کو مذہب کے نام پرمسلسل ٹارچر کیا جارہا ہے،ان کی ہر چیز اکثریتی طبقے کی آنکھوں میں چبھنے لگی اور ان میں سب سے زیادہ جو چیز کھٹکتی ہے وہ ہندوستان میں مدارس کا وجود ہے۔
اس میں ایک طرف جہاں مذہبی عصبیت کارفرما ہے وہیں دوسری طرف مدارس اور مدارس کے نصاب تعلیم میں کچھ ایسی خامیاں ہیں جن کی وجہ سے اکثریتی طبقے کو ان کا وجود بے معنی سا لگنے لگا۔عالم اسلام کم از کم تین سو برسوں سے فکری زوال کا شکار ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ بلا شبہ ہمارا تعلیمی نظام ہے،کیوں کہ اسلامی فکر کی تعمیر میں تعلیمی نصاب کا ایک بڑا کردار ہے۔یقینا ماضی میں مدارس نے اسلامی افکار کی ترویج اور ایک مہذب و باقار سماج کی تشکیل میں نمایاں کردار اداکیا۔لیکن موجود ہ دورمیں ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ مدارس نے اپنا وقار کھودیا ہے اور جس قیادت کی مدارس سے امید کی جاتی رہی ہے وہ اب ناپید ہوچکی ہے نیز مدارس کی اہمیت اور ان کی سرگرمیوں کا دائرہ مدارس کی چاردیوار ی تک ہی محدو د ہوکر رہ گیا ہے۔لیکن اس کے باوجود بعض روایتی علما اپنے مفاد کی خاطراب بھی مدارس کے ثنا خواں ہیں اور وہ ببانگ دہل یہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ اگر مسلمان دینی و دنیوی ترقی چاہتے ہیں تو انھیں مدارس کی اپنی جان سے بھی زیادہ حفاظت کرنی ہوگی اور ان کے نصاب میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی ہر گز برداشت نہیں کی جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مدارس کے نصاب میں ذرہ برابر بھی تبدیلی آئی تو یقینا مسلمانوں کی عاقبت خراب ہوجائے گی اور ان کا رشتہ اللہ سے ٹوٹ جائے گا۔لیکن جب یہی علمائے کرام مدارس کی چار دیواری سے باہر نکلتے ہیں اور عملی میدان میں آتے ہیں تو انھیں اپنی حقیقت اور کم مائیگی کاشدید احساس ہونے لگتا ہے۔
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مدارس کی اہمیت و افادیت کا انکارمقصود ہے لیکن ذمے داران مدارس سے شکوہ ضرور ہے کہ انھوں نے ان طلبہ کو جہاں بہت سارے علوم سے مستفید کیا وہیں انھیں بہت سارے علوم سے محروم بھی کر دیا۔مدارس کے طلبا اپنی زندگی کے دس، بارہ سال کے قیمتی اوقات مدارس کی چار دیوار میں گزارتے ہیں اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ان کی ذہنی نشو ونما بہتر طریقے سے ہوسکتی ہے۔لیکن انھیں مدارس کی چار دیواری تک ہی محدود کر دیا جاتا ہے۔اگر ان میں سے بعض خالی اوقات میں مدرسے کی چار دیواری کے باہر جدید علوم (انگریزی یا کمپیوٹر) سیکھنا چاہتے ہیں تو انھیں یہ موقع نہیں دیا جاتا۔بسا اوقات اس کام کو جرم عظیم سمجھا جاتا ہے اور ان کو مدارس سے خارج بھی کردیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں عموماً دو طرح کے مدارس ہیں۔ ایک وہ مدارس جو مکمل طور پر سرکاری مراعات سے دور ہیں۔ دوسرے ایسے مدارس جو ملک کی مختلف ریاستوں میں قائم مدرسہ بورڈ سے ملحق ہیں۔ اگر نصاب کی بات کریں تو بورڈ سے آزاد مدارس کے نصابات سے بورڈ سے ملحقہ مدارس کے نصاب قدرے بہتر ہے، مگر اکثر بورڈ کے مدارس میں بورڈ کے نصاب کا بہت زیادہ پاس ولحاظ نہیں رکھا جاتا، جس کی وجہ سے بورڈ سے ملحق مدارس بھی عصری تعلیم سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہو پاتے ہیں۔
اس سلسلے میں بہار مدرسہ بورڈ کے چیئرمین محترم عبد القیوم انصاری کے اقدامات قابل تعریف ہیں۔ انہوں نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی بورڈ سے ملحقہ مدارس میں جو اصلاحات کرنے کی کوشش وہ خوش آئند ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ برسوں سے چلی آرہیں روایات اور بدنظمیوں کو ختم کرنا یک لخت آسان نہیں اور ان میں بہت سی اصلاحات ابھی باقی ہیں۔ خصوصاً مدرسہ بورڈ کے طلبا کو قومی تعلیم کے دھارے سے جوڑنے اورانہیں اسکول کے طلبا کے مدمقابل کھڑا کرنے بلکہ برتر کرنے کے سلسلے میں یونیسیف (Unisef)کی رہنمائی لیتے ہوئے نصاب تعلیم میں تبدیلی کرکے این سی ای آرٹی (NCERT)سے جوڑا گیا وہ نہایت ہی قابل قدر ہے۔ جس میں وسطانیہ، فوقانیہ اور مولوی درجات کے نصاب تعلیم کو از سر نو کو مرتب کیا گیا ہے اوران کے ہی مطابق 2021کے امتحانات منعقد ہوں گے۔ اسی طرح اسکول کے طرز عمل پر مولوی آرٹس، مولوئی سائنس، مولوی کامرس اور مولوی اسلامیات کے نصاب بھی تیار ہیں۔
اورجہاں تک اساتذہئ کرام کو سہولیات فراہم کرنے کی بات ہے تو اس میں بھی بہت بہتری آئی ہے۔ لیکن پنشن (Pension) انکریمنٹ (increment)اور گریجویٹی(Gratuity)کی جانب توجہ دینے اور ان میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح قدرتی آفات وانتظامات (Desarter Managment)کی ٹریننگ کی شروعات، یواین ایف پی اے کے تعاون اور مدرسہ بورڈ کے اشتراک سے تعلیم نوبالغان پروگرام کا آغاز،مدارس کے پرنسپل کا ورکشاپ اور تعلیمی واصلاحی کانفرنس کا افتتاح، علاقائی دفتر کا قیام اور مدارس کو کمپیوٹر سے جوڑنے کے ساتھ آن لائن فارم بھرنے اور ایڈمیٹ کارڈ ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولیات قابل ذکر ہیں۔
ظاہر ہے ان خطوط پر اگر مدرسہ بورڈ گامزن رہے تو بہت جلد نمایاں کامیابیوں سے بورڈ کے فارغین لیس ہوں گے،لیکن ان عزائم اور اہداف کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے کام بھی ہیں جن پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ان کے بغیر تعلیمی نظام میں نہ شفافیت آسکتی ہے اور نہ ہی بورڈ کے تیارشدہ کارآمد نصاب سے خاظر خواہ فائدہ برآمد ہوسکتا ہے۔یقینا بورڈ کا نصاب اسی وقت مفید ہوگا جب اس کے پڑھانے والے بھی ذی فہم اور باشعور ہوں۔ نصاب میں موجودہ تبدیلی سے پہلے بھی بہار مدرسہ بورڈ کا نصاب بہترین تھا، مگر بورڈ کے اعلی عہدیدان نے حالات کے مدنظر جو اقدامات کیے ان سے بورڈ کا تعلیم نظام مزید بہتر ہوگا، کیوں کہ یہ تبدیلی وقت کا تقاضاہے، اس صورت حال میں لازمی کام یہ کہ بہترین اساتذہ کی تقرری عمل میں لائی جائے۔ بہترین اساتذہ کی تقرری کے لیے بورڈ کے افراد چند ہدایات بھی جاری کریں، تاکہ بورڈ سے ملحقہ مدارس انہیں مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ بحال کریں۔ اگر بہترین اساتذہ کی تقرری عمل میں آئے گی تو وہ وقت کی قدر وقیمت کو بھی سمجھیں گے۔ کیوں کہ وقت شناسی کے بغیر تعلیمی نظام کو مستحکم کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ مجھے امید ہے کہ اساتذہ کی تقرری میں جتنی شفافیت برتی جائے گی، ہمارا مدرسہ بورڈ اتنا ہی فعال ہوگا۔ جس طرح تعلیمی صحت کی بحالی کے لیے بہترین اساتذہ کی ضرورت ہے، اسی طرح ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے مڈڈے میل میں بھی بہتری لانا لازمی ہے۔ یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جن پر فوری توجہ درکار ہے، تاکہ نئے نصاب سے ہم زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکیں۔
موبائل:09013049075
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
توصیف القاسمی
مقصودمنزل، پیراگپور، سہارن
شاہین باغ احتجاج 15 دسمبر 2019سے جاری ہے اور آج جب راقم اس میں شریک ہورہاہے، 26؍جنوری 2020(یعنی 43واں دن) ہے۔
راقم کے ساتھ ایک نوجوان محمد وسیم تھے، جو ملت اسلامیہ کے مستقبل کے بارے میں کافی فکرمند رہتے ہیں، اس نوجوان کا تعارف مجھ پر قرض ہے، محمد وسیم پہلے بھی یہاں تین مرتبہ آچکے ہیں، انھوں نے میری کافی رہنمائی کی ہے، میں ان کا شکرگزار ہوں۔
شاہین باغ کا یہ احتجاج کالندی کنج ( Kalindi Kunj)مارگ پر تقریباً ایک کلومیٹر کے دائرے میں ہورہاہے۔ یہاں سے ’’جسولہ وہار شاہین باغ ‘‘ میٹرو اسٹیشن نزدیک ہوتاہے۔
شاہین باغ کا یہ احتجاج پورے ملک میں احتجاجوں کو جنم دینے والا احتجاج بن گیا ہے، اس احتجاج سے متاثر ہوکر پورے ملک میں تقریبا 120 مقامات پر احتجاج ودھرنا پردرشن ہورہے ہیں۔ کتنی ہی جگہوں پر خواتین گھروں سے نکل کر اقتدار سے ٹکراگئیں اور ہڈی گلادینے والی اس سردی کو بھی اپنےانقلابی نعروں ، ترانوں سے گرمادیا۔ شاہین باغ کا یہ احتجاج، شوق و جذبہ، ہمت و حوصلہ، جہد مسلسل، اتحاد ویگانگت اور مجبور ومظلوم کی ’’آہوں ‘‘ سے عبارت ہے۔جسکو فاشسٹ طاقتیں ”توہین باغ“ کہہ رہی ہیں۔
شاہین باغ احتجاج کی انتظامی یونٹوں نے اس بات کا پورا خیال رکھاہے کہ یہ احتجاج فرقہ پرستی کی نذر نہ ہوجائے یعنی ہندو مسلم مسئلہ نہ بن جائے، اسی لیے یہاں ہر فرقے ، ہر طبقے کے افراد کو آنے کی اور اپنی بات امن وامان سے کہنے کی مکمل آزادی ہے۔ 26؍جنوری 2020ء کی پرچم کشائی Flage Hosting کی تقریب میں دو مظلوم مائیں (روہت ویمولا کی ماں رادھیکا ویمولا اور JNUکےطالب علم نجیب کی ماں فاطمہ نفیس ) نمایاں شخصیات میں سے تھیں۔ شاہین باغ احتجاج کی قیادت خواتین کے ہاتھوں میں ہے، اس لیے یہاں کی فضا میں بعض بزرگ اور حوصلہ مند خواتین کے لیے ’’دبنگ دادی ‘‘ کی اصطلاح بھی رائج ہے۔
شاہین باغ احتجاج کی حقیقی صورت حال Ground Reality کو بیان کریں تو کچھ یوں ہے کہ احتجاج کا مخصوص علاقہ Special Areaکالندی کنج روڈ کا تقریباً ایک کلومیٹر کا حصہ ہے، اس حصّے میں دو بس اسٹینڈ (شاہین باغ اور کالندی کنج) ہیں، اس پورے ایریے میں مختلف طرح سے 24گھنٹے احتجاج چلتا رہتا ہے۔
احتجاج کا مرکزی حصہ :
یہ وہ حصہ ہے جہاں پر باقاعدہ اسٹیج ہے اور خواتین کے بیٹھنے کا انتظام کیا ہواہے۔ مرد مظاہرین اندر داخل نہ ہوسکیں اس کے لیے رسی سے گھیرائو Encircleکیاہوا ہے اور اوپر ترپال بھی تانی ہوئی ہے۔ اس کے اندر اس وقت (11:55 PM) ایک ہزار خواتین اور اطراف میں چار ہزار مرد حضرات موجود تھے۔ جگہ جگہ ترنگے لٹکے ہوئے تھے۔ بھیم رائو امبیڈکر، گاندھی جی، ابوالکلام آزاد کی تصویریں لگی ہوئی تھیں، مذہبی اتحاد کی علامت Symbolکے طورپر الگ الگ بینروں پر مختلف مذاہب اور فرقوں کی نشانیاں لگی ہوئی تھیں مثلاً صلیب، چاند ، اوم وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت کوئی صاحب ممبئی سے تشریف فرما تھے، جو مائک پر تھے وہ نظم پڑھ رہے تھے، اس نظم کے بعض مصرعے اس طرح ہیں:
ہندوستاں سے میرا سیدھا رشتہ ہے تم کون ہوبے
تم پہلے جاہل نہیں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے جائو میں نہیں بتلاتا
میں اپنے گھر جاتا ہوں
تم اپنے گھر جائونا
جگہ جگہ ایک تصویر میں ایک بوڑھی عورت تسبیح لیے بیٹھی تھی، اس پر ہندی میں لکھا ہوا تھا:
’’نہیں ہٹیں گے ‘‘۔
کنوینر خاتون باربار مہذب گفتگو کرنے کے لیے بول رہی تھیں، لیکن کون سنتاہے، طوطی کی صدا، نقار خانے میں۔
ہم یہیں پرتھے کہ ایک صاحب نے حبیب جالب کی نظم پڑھی:
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
میری خواہش تھی کہ میں بھی تقریر کروں مگر مجھے اس وقت جھٹکا لگا جب ایک صاحب نے مائک پر بتلایاکہ 3گھنٹے کے انتظار کے بعدمیرا نمبر آیا ہے۔
ایک جگہ ’’مہاپاٹھ ‘‘ کا بینر لگا ہوا تھا، اس میں پرامن احتجاج کے بارے میں لکھا ہواتھا کہ پرامن احتجاج سیکولرزم کا حصہ ہے، ایک جگہ لکھا ہوا تھا کہ 31-12-19 سے بھوک ہڑتال پر ہوں CAAکی واپسی تک رہوں گا۔ بہت سے نوجوانوں نے اپنے ناک پر ترنگا بنایا ہوا تھا۔ ایک جگہ لکھا ہوا تھاNo Account No Paytm No Cash۔ کسی بھی رضاکارکو پیسہ نہ دیں۔ ایک جگہ لکھا ہواتھا کہ لوگوں کی آوازوں کو دباکر تم ظلم کے محل تعمیر نہیں کرسکتے۔ ایک جگہ بھگت سنگھ (م 23مارچ 1931) کا قول لکھا ہوا تھا کہ ’’قانون کی پاکی تب ہی تک بنی رہ سکتی ہے جب تک وہ لوگوں کی آرزوئوں کی ترجمانی کرے۔ بھگت سنگھ کا ایک اور قول چسپاں تھا ’’انسانوں کو کچل کر وہ خیالات کو نہیں مارسکتے۔‘‘
نوجوانوں کی ٹولیاں:
جیساکہ بتلایاگیاکہ شاہین باغ میں 24گھنٹے کسی نہ کسی شکل میں احتجاج ہوتا رہتا ہے۔مرکزی احتجاج کے علاوہ پورے ایریے میں نوجوانوں کی ٹیم پھیلی رہتی ہیں، ان ٹولیوں میں جوان، بچے ، بوڑھے مرد و عورت سب ہی ہوتے ہیں۔ ہر دس قدم کے فاصلے پر یہ ٹولیاں انقلاب و آزادی کے نعروں سے گونج رہی ہیں، معصوم بچوں اور بچیوں کو یہ تمام نعرے حفظ یاد ہوگئے :
ہم لےکے رہیں گے ۔۔۔۔۔۔ آزادی
ہم چھین کر رہیں گے ۔۔۔۔۔۔ آزادی
ہے جان سے پیاری ۔۔۔۔۔۔ آزادی
تو کیسے نہ دے گا ۔۔۔۔۔۔ آزادی
تیرا باپ بھی دے گا ۔۔۔۔۔۔ آزادی
ہم نہیں رکیں گے ۔۔۔۔۔۔ آزادی
تم لے کر رہنا ۔۔۔۔۔۔ آزادی
میرے خون سے لکھنا ۔۔۔۔۔۔ آزادی
میری قبر پر لکھنا ۔۔۔۔۔۔ آزادی
یہ بچے مانگے ۔۔۔۔۔۔ آزادی
بسمل والی ۔۔۔۔۔۔ آزادی
بھکمری سے ۔۔۔۔۔۔ آزادی
ہے حق ہمارا ۔۔۔۔۔۔ آزادی
آزادی آزادی آزادی آزادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوجوانوں کی ایک ٹولی میں تقریباً 8سال کی بچی پورے حوصلہ و ہمت اور طاقت سے نعرے لگارہی تھی:
NRC پہ ہلہ بول۔۔۔۔ ہلہ بول
NPR پہ ہلہ بول۔۔۔۔ ہلہ بول
CAA پہ ہلہ بول۔۔۔۔ ہلہ بول
مودی تیری غنڈہ گردی نہیں چلے گی ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں چلے گی
امت شاہ تیری غنڈہ گردی نہیں چلے گی ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں چلے گی
یوگی تیری غنڈہ گردی نہیں چلے گی ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں چلے گی
جو ہٹلر کی چال چلے گا۔۔۔۔ وہ ہٹلر کی موت مرے گا۔
خیال رہے کہ ہٹلر نے اپنی بندوق سے خودکشی کرلی تھی۔
ایک جگہ روڈ پر بھارت کا نقشہ بناکر درمیان میں موم بتی Kendall روشن کی ہوئی تھی اور اس کے ارد گرد نوجوان نعرے بازی کررہے تھے۔ تقریباً 15سالہ طالبہ آئی اور اس نے گرج دار انداز میں اپنی ہاتھوں کو فضا میں بلند کرتے ہوئے کہا:
زور سے بولو ۔۔۔۔ آزادی
ہے حق ہمارا ۔۔۔۔ آزادی
JNUکیا چاہتی ہے ۔۔۔۔ آزادی
AMUکیا چاہتی ہے ۔۔۔۔ آزادی
JMI کیا چاہتی ہے ۔۔۔۔ آزادی
شاہین کیا چاہتی ہے ۔۔۔۔ آزادی
دادا لڑے تھے گوروں سے
ہم لڑیں گے چوروں
یوپی کی گلیاں سونی ہیں
وہاں پولیس خونی ہے
جب جب ظلمی ظلم کرے گا، ستّا کے گلیاروں سے
چپہ چپہ گونج اُٹھے گا، انقلاب کے نعروں سے
جامعہ تم سنگھرش کرو، ہم تمہارے ساتھ ہیں
ہر ٹولی میں ایک نوجوان تقریباً چیخ چیخ کر کہتا ہے: آواز دو۔۔ جواب میں نوجوان بیک آواز کہتے ہیں: ہم ایک ہیں۔ اور پھر انقلابی نعروں کا ایک تسلسل چل پڑتا ہے:
تم پولیس بلالو
تم ڈنڈے مارو
تم فورس بلالو
تم گولی چلائو
ہم یہی کہیں گے۔۔۔۔ آزادی ، آزادی
ارے مودی سن لے
ارے یوگی سن لے
ارے امت شاہ سن لے
RSS سن لے۔۔۔
BJPسن لے۔۔۔۔
تانی شاہی نہیں چلے گی۔۔۔۔ نہیں چلے گی۔
شاہین باغ احتجاج کے علاقے میں مندرجہ ذیل ممتاز چیزیں بھی ہیں جن سے اس احتجاج کی مقصدیت ظاہر ہوتی ہے۔
بھارت کا عظیم نقشہ :
یہ 40فٹ کا بھارت کا نقشہ ہے، جس پر لکھا ہوا ہے:
We the people of INDIA, Reject CAA, NPR, NRC
اس نقشے کے برابر میں دیوار احتجاج Wall Protest تھی، جس پر 100کے قریب تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ یہ تمام تصویریں CAAکے خلاف ہونے والے تصادم اور پولیس کی بربریت پر مشتمل تھی، یہ تمام تصویریں بھیانک، دلدوز اور انتہائی اشتعال انگیز تھیں۔ کہیں پولیس ڈنڈے برسارہی ہے، کہیں پر پولیس گاڑیوں کے شیشے توڑ رہی ہے، کہیں پر پولیس آگ لگا رہی ہے، کہیں پر پولیس باہر سےبائونڈری کے اندر توڑ پھوڑ کررہی ہے وغیرہ وغیرہ۔بعض تصویریں انتہاٸی حوصلہ افزا تھی جن میں امت کی دوشیزاٸیں فوجی بوٹوں اور بندوقوں کے ساٸے میں آزادی کے نعرے بلند کررہی تھی۔
مصنوعی ڈٹینشن کیمپ :
یہاں احتجاجی ایریے میں ایک مصنوعی ڈٹینشن کیمپ بھی بنایاگیا ہے، یہ ڈٹینشن کیمپ اوپر ی پل Flyover کے نیچے قائم ہے، اس کے اندر مہاتما گاندھی ، ابوالکلام آزاداور امبیڈکر کی تصویریں چسپاں تھیں، اس کی آہنی دیواروں پر NO NPR, No CAA, NO NRC لکھا ہوا ہے۔ اشعار اور دیگر نعرے بھی ہیں۔
مصنوعی انڈیا گیٹ :
یہاں پر گتوں سے بنا مصنوعی انڈیا گیٹ بھی ہے۔ CAAکے خلاف اٹھی تحریک میں شہید نوجوانوں کے نام ، اس پر لکھے ہوئے ہیں۔ انڈیا گیٹ کے چاروں طرف معصوم بچے اس وقت (11بجے شب) موم بتی لیے ہوئے بیٹھے تھے، ان کے رخساروں پر ترنگا بنا ہوا تھا ۔ دونوں معصوم بچیوں کے نام افرا اور شفا تھا۔ اسی کی برابر میں بڑی سی مشعل بھی ہے جس پر نعرے اور اشعار درج ہیں مثلا:
جو آج حق کی آواز ہیں:
وہی کل مسند کے حقدار ہوں گے
تیرے غرور کو جلائے گی وہ آگ ہوں
آکر دیکھ مجھے میں شاہین باغ ہوں
برج:
احتجاجی علاقے کے عین وسط میں یہ Flyover Bridge ہے، یہ پل مکمل طورپر آزادی اور انقلاب کے نعروں (NO NRC NO NPR NO CAA)سے ڈھکا ہوا ہے۔
احتجاج کی مختصر تاریخ،
CAA کی مکمل تفصیل مہاتما گاندھی کے اقوال وغیرہ چیزیں اس پل آویزاں تھی۔ یہ شعر بھی تھا:
جن کو ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں
یہاں ہیں ۔۔ یہاں ہیں ۔۔ یہاں ہیں ۔۔
پینٹنگ:
آرٹسٹ رئیس کی بنائی ہوئی غالباً 15پینٹنگ ہیں جو سڑک پر دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ہر پینٹنگ اپنے اندر ایک معنی ، ایک پیغام رکھتی ہے۔ کوئی پینٹنگ آزادی کو ظاہر کرتی ہے تو کوئی ظلم و جبر کو، کوئی تعلیم پر ’’مخصوص ذہن ‘‘ کےچھاجانے کو ظاہر کرتی ہے تو کوئی اقتدار کے غلط استعمال کو، کوئی پینٹنگ کثرت میں وحدت Unity in Diversity کو ظاہر کررہی ہے تو کوئی گنگا جمنی تہذیب کو۔
اب تقریباً رات کے 2:30بج چکے تھے، سخت سردی ہورہی تھی، مزید یہ کہ ٹھنڈی ہوا بھی ، کلینڈر بھی اب بدل چکا تھا یعنی (27؍جنوری 2020) ۔ جگہ جگہ نوجوان گروپ بناکر تاپ رہے تھے اور نعرے بازی کررہے تھے:
جب تک جنتا بھوکی ہے
یہ آزادی جھوٹی ہے
جب تک بہنیں تنگ رہیں گی
جنگ رہے گی جنگ رہے گی
آخری حقیقت:
ملک سے انگریزوں کے بوریا بستر باندھنے کے زمانے میں ہی ملک کے اندر ہندو راشٹ اورسیکولرزم کے دونوں نظریوں کی تخم ریزی ہوچکی تھی۔ آزادی کے بعد کے 72سالوں میں دونوں ہی نظریات پھلے پھولے ہیں، کوئی کم کوئی زیادہ۔ CAAبن جانے کے بعد ملک کی موجودہ صورت حال دونوں ہی نظریات کے لیے آخری معرکہ Final Stage کی حیثیت رکھتی ہے۔ دونوں ہی فریق آسانی سے پیچھے ہٹ جائیں، بہت مشکل ، بلکہ ناممکن ہے۔ دونوں ہی فریقوں (ہندو فاشسٹ اور سیکولر بھارت) کے لیے یہ زمانہ ’’کرو یا مرو ‘‘ (Do or Die) کا زمانہ ہے۔ یہ ایک ایسا زمانہ ہے جس میں ملک کی نئی تاریخ لکھی جارہی ہے۔ ایک ایسا زمانہ ہے، جس میں ہمارا ملک ’’نئے مستقبل ‘‘ کی بھٹی میں پک رہا ہے۔ دوبارہ آزادی کی جنگ لڑی جارہی ہے، فرق یہ ہے کہ اب کی بار عورتوں نے مورچہ سنبھالا ہوا ہے۔ شاہین باغ اس نٸی تاریخ و تحریک کا چشم دید گواہ ہے اور راقم شاہین باغ کا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)