قمرعباس قمر
یہ رت عزا کی ہے شہرِ حزیں سے گزرے گا
لٹے ہوؤں کا قبیلہ یہیں سے گزرے گا
مجھے بچالے مرے یار سوز امشب سے
کہ اک ستارۂ وحشت جبیں سے گزرے گا
تمام سنگ بدستوں میں میرا شیشۂ دل
خبر نہیں تھی کہ اتنے یقیں سے گزرےگا
زمینِ تنگ سے ہفت آسماں کی وسعت تک
میں ڈھونڈ لاؤں گا تجھ کو کہیں سے گزرے گا
دیارِ غیر ادھر آکے اس کی وسعت ناپ
اک آسمان مری سرزمیں سے گزرے گا
جو ایک بار تری راہ سے گزر جائے
پھر اس کی ضد ہے دوبارہ وہیں سے گزرے گا