صفدرا مام قادری
صدر شعبہ اردو، کا لج آف کا مرس،آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ
شہریت ترمیماتی قانون اور اس طرح کی دوسری عوام مخالف سرگرمیوں کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کو بے نقاب کرنے کی غرض سے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہوئی عوامی تحریک قومی سطح پر پھیل چکی ہے اور وہ اپنے دائرہئ کار میں اتنے موضوعات اور موجودہ حکومت کی ناکامیوں کے ابواب شامل کرچکی ہے۔ جسے آسانی سے روکنا اور اس کے رخ کو موڑنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ہرچند انتظامیہ اور عدالت کی فرقہ پرست مداخلت اور مفاد پرست عناصر کی رخنہ اندازیوں کے اندیشے بھی برابر نظر آتے ہیں مگر اندازہ یہی ہے کہ یہ تحریک عوامی بیداری کے کام کو اپنے انجام تک پہنچانے میں بہر طور کامیابی حاصل کرے گی۔ مختلف صوبائی حکومتوں اور مرکز کے انتظام کاروں نے آغاز میں جس ظالمانہ انداز سے ان آوازوں کو کچلنے کی کوشش کی، اب عوامی شراکت کی وجہ سے ان کی بھی براہِ راست ایسی ہمت نہیں کہ وہ ان تحریک کاروں کو بہ زورِ بازو ملیامیٹ کر دیں۔
یہ درست ہے کہ ہندستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف سیاسی پارٹیوں میں مقابلے کی طاقت نہیں ہے۔ سب سے بڑی سمجھی جانے والی کانگریس کا حال ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ وہ نریندر مودی اور امت شاہ سے آر پار کی لڑائی کرنے کے موڈ میں ہے۔ سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور اب پرینکا گاندھی؛ ان کے نقلی چہرے اور قومی مسئلوں پر رٹے رٹائے بیانات ڈرائنگ روم سیاست سے کچھ زیادہ اثر نہیں رکھتے۔ ملک کے لیے یہ سب سے افسوس ناک گھڑی ہے کہ کانگریس نہ اپنی قیادت کو موثر بنانے کی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی صوبائی سطح پر وہ توجہ دے رہی ہے جس سے عوام کے اس احتجاج کو مزید پھیلنے کے مواقع ملیں حالاں کہ کانگریس بھارتیہ جنتا پارٹی کے مخالفانہ ماحول کا جگہ جگہ فائدہ اٹھاتی رہی ہے او راس کی اپنی یا یو۔پی۔اے۔ کی کئی سرکاریں تحفے میں مل چکی ہیں مگر اس کا اعتماد اب بھی اتنا کمزور ہے جس سے کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے ابھی ہمیں اور انتظار کرنا ہوگا۔
شہری ترمیماتی قانون سے بے شک سب سے پہلے ہندستان کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ نشانہ انھی کی طرف ہے جس سے انھیں میدان میں آنا ہی تھا۔ اس سے پہلے جموں وکشمیرمیں تین سو ستر دفعہ کے خاتمے اور وفاقی ڈھانچے میں جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی نے چھیڑ چھاڑ کی اور پھر بابری مسجد کے سلسلے سے عدالتِ عالیہ کا جو فیصلہ آیا —اس سے ہندستانی مسلمانوں کو یہ سمجھنے کا موقع مل چکا تھا کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارادوں کو سمجھیں اور اپنے وجود کی جنگ کے لیے میدانِ عمل میں آئیں۔ اس لیے اولاً احتجاج تھوڑے سیکولر لوگوں اور مسلم جماعتوں کی طرف سے ہوا۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے اس میں پہل کی اور اپنی تحریک سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے ملک کے مزاج اور مقدر کی تعمیر و تشکیل میں اپنا حصہ اور اپنی قربانیوں کی شمولیت سے دریغ نہیں کریں گے۔ ان کے خون اور ان کے زخم مندمل نہیں ہوئے اور فصیلِ وقت پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہندستان اور دنیا کو وہ ذوقِ عمل کی ترغیب دے رہے ہیں کہ قومی زندگی کے زہر کو امرت بنانے کے لیے جب ہمارے نونہال میدانِ کارزار میں ہوں تو دوسروں کو خوابِ غفلت میں نہیں ہونا چاہیے۔
اس تحریک سے طلبا اور نوجوانوں کی انجمنوں کو پھر سے زندہ اور سرگرم ہونے کا موقع ملا ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی حلقوں میں بھی سرگرمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ نئے نئے گانے، پرانی نظمیں اور جانی انجانی زبانوں کے نعرے اور شعر فضا میں تیر رہے ہیں مگر ہندستان کی تاریخ میں پہلے جو نہ ہوا تھا، نیا وہ ہوا یعنی مجاز کے لفظوں میں ہماری ماؤں بہنوں بیٹیوں نے اپنے آنچل کا پرچم بنالیا۔ کمال یہ کہ اقلیت آبادی کے گھروں سے سب سے زیادہ لڑکیاں اور عورتیں نکل کر سامنے آئیں۔ انھیں کسی نے امورِ خانہ داری سے باہر قدم بڑھاتے ہوئے بہت کم دیکھا تھا۔ خلافت تحریک کے زمانے میں جب محمد علی اور شوکت علی گرفتار ہوگئے تو ان کی ناخواندہ ماں پردے کی زندگی تیاگ کر عوامی جلسوں میں آگئیں۔ آج بھی ان کو یاد کرتے ہوئے یہ جملے تاریخ کی کتابوں میں جگ مگ جگ مگ کرتے نظر آتے ہیں:
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
گیا کی کانفرنس میں جب بی اماں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا کہ محمد علی اور شوکت علی ہی ابھی جیل گئے ہیں۔ لوگوں کو اس کی تیاری کرنی چاہیے کہ کل گاندھی جی کو انگریز جیل میں ڈالیں گے، اس کے بعد بھی جنگِ آزادی کی تحریک کیسے چلے گی؟ ان کا وہ جملہ کون بھول سکتا ہے کہ محمد علی اور شوکت علی میرے دو بیٹے ہیں۔ خدا نے اگر ایسے ہزار بیٹے دیے ہوتے تو انھیں بھی ملک پر نچھاور کردیتی۔ ہندستان کی تاریخ کے بعض روشن ابواب ایسی خواتین سے بھی مکمل ہوئے ہیں جنھوں نے اپنی قربانیوں اور سیاسی سوجھ بوجھ سے تاریخی کام انجام دیے ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی چوٹ کھائی ہوئی لڑکیاں اپنے جسمانی اعذار سے بے پروا ہوکر قوم کے دکھوں کے علاج کے لیے عوام کے سامنے آئی تھیں۔ انھیں اس بات سے بھی اب طاقت مل رہی ہوگی کہ جواہر لال نہرو کی یونی ورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کی صدر فرقہ پرستوں کی لاٹھیوں سے زخم کے ٹانکے لگائے ہوئے میدان سے ایک لمحے کے لیے نہیں ہٹیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پڑوس میں جو محلہ آباد ہے، اس کو نہ جانے کس عالم میں شاہین باغ سے موسوم کیا گیا تھا۔ ہم اردو والے اقبال کے شیدائی ہیں تو شاہین کا مطلب ہمیں معلوم ہے۔ پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرتے ہیں اور پلٹنا اور جھپٹنا اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ شاعرِ مشرق کو جس نے نہ پڑھا ہو، وہ بھی شاہین باغ محلے کی سڑکوں پر دسمبر اور جنوری کی سرد راتوں اور کپکپاتی ہوئی زندگی میں لہو گرم کرنے کا قومی بہانہ کیا ہوتا ہے، وہ آکر دیکھ سکتا ہے۔ آج ایک اندازے کے مطابق ملک میں سو جگہوں سے زیادہ ایسے مستقل مظاہرے ہو رہے ہیں جہاں ہماری گھریلو عورتیں اور پردہ نشیں خواتین فرقہ پرستی اور جمہوریت کو بچانے کی جنگ میں سڑکوں پر بے خوفی کے ساتھ میدان میں آئی ہوئی ہیں۔ انھیں کسی نے نہ انقلاب کی تربیت دی اور نہ ہی قانون اور حقوق کے اسباق پڑھائے۔ مگر یہ مہینے ڈیڑھ مہینے میں اتنا سیکھ چکی ہیں کہ اب ایوانِ حکومت کو اپنی صاف صاف باتیں کہہ رہی ہیں۔
۷۵۸۱ء کے انقلاب کی اس وقت پسپائی کے جو مختلف اسباب بیان کیے جاتے ہیں، ان میں مستحکم قیادت کا فقدان سرِ فہرست ہے۔ آج یہ سوال سب کے سامنے ہے کہ شہریت ترمیماتی قانون اور اس سے پیدا شدہ مسائل کے خلاف نبردآزمائی میں پورے ملک میں جو تحریک چل رہی ہے، اس کی واضح قیادت نظر نہیں آتی۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اس تحریک میں باوجود کوشش کے سیاسی جماعتوں اور مذہبی طبقوں کو صفِ اول میں جگہ نہیں ملی سکی اور انھیں زیادہ سے زیادہ گیسٹ آرٹسٹ کے طور پر ہی ہم دیکھ رہے ہیں۔ اسے اس تحریک کا بعض افراد سیاہ پہلو قرار دے سکتے ہیں مگر یہ حقیقی طور پر اس تحریک کی طاقت ہے کیوں کہ پیشے ور سیاست دانوں سے اب ہماری قوم کا بھلا ہونے والا نہیں۔ جنوبی افریقہ سے جب گاندھی ہندستان پہنچے تو انھیں تھوڑے لوگ جانتے تھے اور وہ بھی ہندستان کو کچھ زیادہ نہیں سمجھتے تھے۔ مگر چمپارن ستیہ گرہ اور اس کے بعد اچانک ان کی قبولیت میں جو تیزی آئی، اسی سے اس ملک کا سیاسی نقشہ بدلا تھا۔ مطلب واضح ہے کہ قیادت اپنے آپ پیدا ہوجاتی ہے اور وہ پرانی قیادتوں کو بے اثر کرکے منزل تک پہنچ جاتی ہے۔ اس تحریک سے بائیں جماعت کے افراد اور دانش مندانہ فکر رکھنے والے آزاد ذہن کے لوگوں کو بھی اپنی آواز اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ اس تحریک میں بھارتیہ جنتا پارٹی ہی نہیں اس کی مخالف نام نہاد غیر فرقہ پرست سیاسی جماعتوں کے تضادات اور مفادات بھی طشت از بام ہورہے ہیں۔ یہ سب مستقبل کے ہندستان کے لیے خوش آیند ہے۔ نیا ہندستان نئے لوگوں کے خواب اور ان کی کوششوں سے بنے گا۔
اب اس تحریک کا دائرہئ کار بڑھنا چاہیے۔ بھوک اور غریبی، بے روزگاری اور عدم مساوات کے سوالوں کو جوڑ کر اقلیت آبادی کے مسائل مزید روشن کیے جاسکتے ہیں۔ جمہوری اداروں کو عوامی کنٹرول میں کیسے رکھا جائے، اس کے لیے نئے سوالوں کو غور و فکر کا حصہ بنانا ہوگا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اس تحڑیک کی آڑ میں اپنے ووٹ کو مزید مشتعل کرنے کی مشق بھی کررہی ہے۔ ہمیں اپنی محاذ آرائی سے مخالف کو یکجا نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اس کے لیے نئے ایجنڈے کی تلاش اور تعلیم یا روزگار کے مسائل کو رفتہ رفتہ سرِ فہرست لانا ہوگا۔ اسی میں کوئی نوجوان قیادت اپنے آپ سامنے آجائے گی جسے نہ راہل گاندھی کی ضرورت ہوگی اور نہ مایاوتی یا تیجسوی یادو کی۔ چار برس ابھی وقت ہے اور ہماری یہ بھی حکمتِ عملی ہونی چاہیے کہ آیندہ پارلیمنٹ کے الیکشن تک یہ بساطِ رقص اور بھی بسیط ہو اور صدائے تیشہ کامراں ہو او رکوہ کن کی جیت ہو۔
19 جنوری, 2020
الحاج ڈاکٹر عبدالرؤف
ڈائرکٹر دانشگاہ اسلامیہ ہائی اسکول
ہاٹن روڈ، آسنسول
ہندوستان کے مایہ ناز سپوت مجاہد آزادی اور ملک کے پہلے وزیرتعلیم حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ نے فرمایا تھا کہ
”عورت اگر کسی بات کا عزم کرلے تو اس کے عزائم کو ہمالیہ جیسی چٹان، اٹھتا ہوا طوفان اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بھی پامال نہیں کر سکتا۔“
دنیا ئے انسانیت کی تاریخ میں ایسی متعدد خواتین ہستیاں گذر چکی ہیں۔ جو اپنے عزائم کی تکمیل میں تاریخ ساز کا ر نامہ انجام دیا ہے۔ ہمارے ملک میں مہارانی لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، بی اماں، بیگم رقیہ وغیر ہم جیسی خواتین نے قومی عزائم لئے انگریزوں سے معر کہ لیا، یہی وجہ ہے کہ اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نجات ملی تھی۔ اب ایسا ہی منظر شاہین باغ دہلی میں درپیش ہے۔
گذشتہ 16 / دسمبر 2019 ء سے شاہین باغ کی خواتین این آر سی (NRC) سی، اے، اے (CAA) اور این پی آر (NPR) کے خلاف اس کپکپاتی سردی کے زمانے میں دھرنے پر بیٹھی ہیں اور اس تحریر کے قلمبند ہونے تک تقریباً ایک ماہ سے زائدکا عرصہ گذرگیا لیکن ان خواتین کے عزائم میں کسی طرح کی کمی نہیں ٗ حوصلے بلندہیں اور اس ملک کے دستور اساس کو بچانے کیلئے وہ پرامن احتجاج کر رہی ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف دن کے ایام میں یہ خواتین دھرنے پر ہیں بلکہ دہلی کی سرد راتوں میں بھی وہ اپنی زندگی کو ہتھیلی پر لے کر تکلیف اُٹھارہی ہیں اس میں پندرہ دن سے لے کر چھ ماہ کی شیر خوار بچوں کے ساتھ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بھی موجود ہیں۔ گھریلو خواتین، دفتروں میں سروس ٗ اعلیٰ عہدیداران ٗ کالج ویونیورسیٹیوں کی طالبہ بھی شامل ہیں۔ یہ دھرنامحض ضمیر کی آواز نے انہیں مجبور کیا ہے۔ ان کا کوئی قائد نہیں کوئی لیڈرشپ نہیں۔
مزید برآں اس دھرنے میں قومی یکجہتی کا یہ زبر دست نظارہ بھی چشم فلک نے دیکھا ہے۔ جسے شوشل میڈیا نے وائرل کیاہے۔ 12 / جنوری 2020 ء شاہین باغ اسکوائر کے خواتین کی اس دھرنے میں صرف مسلم خواتین ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کی خواتین بھی شریک ہیں۔ جس میں عبادات و ریاضت کا عجیب منظر دکھا یا گیا ہے۔ اس کھلے میدان میں لاکھوں مرد و خواتین موجود ہیں اللہ کے دربار میں سر بہ سجود ہیں جبکہ ہندوہون کر رہے ہیں۔ سکھ گرنتھ صاحب کے پاٹھ پڑھ رہے ہیں اور کرسچن اپنی عبادات میں مصروف ہیں۔یہ ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی پہچان یکجا ہیں۔ ملک کے جس دستور نے پوری قوم کو ایک ہی لڑی میں پر ودیا تھا۔ آج اس کا سماں ہے۔
ذرا تاریخ کے صفحے کو پلٹ کر دیکھیں اس کی پہچان یہاں موجود ہیں۔ کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک کچھ سے لے کر کامروپ تک پھیلاہوا ہمارا ملک ایک ارب پچیس کروڑ انسانی آبادی پرمشتمل ہے جس میں سینکڑوں ہزاروں نظریات رہن سہن کے ہزاروں طریقے زندگی گذارنے کے ہزاروں فلسفے، عبادات و ریاضات کے مختلف طریقے کوئی مندر ٗ مسجد ٗ گرودوارہ ٗ چرچ جاتا ہے کوئی پانچ گز کی دھوتی تو کوئی پانچ گز کی پگڑی باندھتا ہے۔ کسی کو خشکی پسند تو کسی کو تری پسند ہے کوئی چاول کا رسیاکوئی روٹی کا دلدادہ غرضیکہ مختلف رنگارنگ تہذیب وتمدن کے اس گہوارہ کو دستور کی ایک ہی لڑی میں پرودیا گیا تھا۔
آج اسی دستور کی حفاظت کے لئے ہماری مائیں ٗ بہنیں بیٹیاں میدان میں ہیں حیرت ہے جب ساری دنیا یکم جنوری 2020 ء کی رات 12 بجے نئے سال آنے کا جشن منارہی تھی۔ قوم کی بیٹیاں اپنے معبود حقیقی کے سامنے ملک کی سلامتی ٗ آئین کی حفاظت کی پراتھنا ئیں کر رہی تھیں۔ دعائیں مانگ رہی تھیں۔
اس کالے قانون کے خلاف خواتین کی اس جراتمندانہ اقدام پورے جنوبی ہندو شمالی ہند میں پھیل گئے ہیں۔ دہلی کے شاہین باغ سے لیکر کولکاتا تک پوری ریاستوں میں بلا تفریق مذہب وملت خواتین سڑکوں پر آگئی ہیں۔
جنوبی ہند میں تامل ناڈو، مہاراسٹر ٗ کرنا ٹک ٗ آندھراپردیش ٗ تلنگانہ جیسی ریاستوں میں بلا تفریق مذہب وملت خواتین صدائے احتجاج بلند کررہی ہیں دھرنے دے رہی ہیں۔
آج پورے ملک میں اس کالے قانون کے خلاف خواتین اُٹھ کھڑی ہیں جو ملک کی نصف آبادی کہلاتی ہیں۔ انہوں نے کمانڈ اپنے ہاتھوں میں لیا ہے خواتین قدرت کا بیش بہا عطیہ ہے۔ انہیں کی آغوش میں نسلیں بنتی ہیں بڑھتی ہیں۔ اسے صنف نازک بھی کہا جاتا ہے دنیا کا کوئی بھی دھرم اس صنف پر ظلم وبربریت روا نہیں رکھتا۔ غور و فکر کی بات اس ٹھٹھرتی ہوئی سردی کی راتوں میں ان صنف نازک کو کس نے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ یہی ہے کہ ملک سے محبت ٗاس کے
دستور سے محبت اس ملک کی مٹی سے محبت جہاں صدیوں صدیوں سے انسان امن وبھائی چارگی سے رہتے آئے ہیں۔ ان کے دلوں نے اسی بات پر مجبور کیا کہ اس کا لے قانون نے ہمارے دلوں کو بانٹنے کی کوشش کی ہے۔ لہٰذانفرت کی اس دیوار کو ڈھانے کے لئے وہ سب کچھ قربان کرکے دھرنے پر بیٹھی ہیں …………!پوری قوم خواتین کے عزائم کو سلام پیش کرتی ہے۔
اس کالے قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ کے طلباء و طالبات نے پر امن احتجاج کیا تھالیکن حکومت کی مشنری نے اسے پرتشدد بنادیا جس کی آواز پورے ملک میں سنی گئی اور ملک کی سبھی یونیورسیٹیوں کے طلبہ جامعہ کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
اس احتجاج میں کتنی ہی زندگیاں قربان ہوگئیں کتنی ہی خواتین کا سہاگ اُجڑ گیا۔ کتنی ہی ماؤں کا سہارا اولاد چھین لیا جو اس حکومت کی تاریخ کا سیاہ باب کہلائے گا پہلے حکومت کا جواز تھا کہ پر تشدر احتجاج کے جواب میں حکومت کو تشدد اختیار کرنا پڑا۔
لیکن ہماری معصوم خواتین تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصہ سے عدم تشددکی راہ اپنا کر پر امن احتجاج کر رہی ہیں لیکن وائے افسوس کہ اب تک وزیر داخلہ کے بیان میں نرمی نہیں آئی وہ اب بھی اعلان کر رہے ہیں کہ ہم اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
کسی بھی جمہوری ملک کے لئے یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ 33 فیصد ووٹوں سے جولوگ اقتدار پر آئے ہیں انہیں 67 فیصد آبادی کی آواز کو دبا یا نہیں جاسکتا ہے۔ کم سے کم انسانیت کے ناطے …………! ماناکہ آپ ایک آئیڈیولوجی کے تحت حکومت کے تخت وایوان پر براجمان ہیں لیکن انسانی ہمدردی ٗ خواتین ٗ شیر خوار بچے یہ سبھی تو ہمارے ہی ملک کی دھرتی میں جنم لئے ہوئے ہیں۔
اگر اللہ نے آپ کو چھ انچ کے گوشت پوست کا ٹکڑا دل دیا ہے۔ اس میں سوز و گداز، نر میت، رحمدلی کا جذبہ بھی پیدا کیجئے صرف آئیڈیولوجی سے حکومتیں نہیں چلتی ہیں تاریخ شاہد ہے۔
انسانیت سے ہمدردی کا جذبہ ایک الگ شئے ہے اگر شاہین باغ کی خواتین سے وزیر اعظم خود جاکر انہیں چند کلمات سے نوازدیں کہ حکومت ان کی باتوں پر بالضرورغور کرے گی تو عوام میں پھیلی ہوئی بے چینی دور ہوگی ملک میں امن وسکون قائم ہوگااور زندگی اپنی سابقہ ڈگرپر رواں دواں ہوجائے گی۔
انوار الحسن وسطوی، حاجی پور
رابطہ:9430649112
13جون 2020 (سوموار) روزنامہ قومی تنظیم کے”ادب نامہ“ میں محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کے ایک حکم نامہ کے حوالے سے جواں سال ادیب، شاعر اور صحافی جناب کامران غنی صبا کی تحریربعنوان ”اردو کے لیے کم سے کم اتنا تو کیجیے“ نظر نواز ہوئی۔ جس میں انہوں نے مذکورہ حکم نامہ کا حوالہ پیش کرتے ہوئے اس کی صراحت کی ہے۔ کابینہ سکریٹریٹ کا حکم نامہ یہ ہے کہ تمام سرکاری دفاتر کے اعلیٰ افسران کے ناموں کی تختی (Name Plate)، سرکاری منصوبوں کے بینر، سرکاری عمارات کا سنگِ افتتاح، ہورڈنگ، دعوت نامے وغیرہ ہندی کے ساتھ ساتھ ریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو میں بھی آویزاں / شائع کیے جائیں۔ کامران غنی صباؔ نے اس حکم نامے کو مشتہر کرنے کے لیے باضابطہ ایک تحریر رقم کی اور اسے اخبار میں شائع بھی کرایا۔ بلاشبہ موصوف کی یہ کاوش ان کی اردو دوستی کی دلیل ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ گرچہ یہ ہدایت نامہ حکومتی احکام ہے لہٰذا متعلقہ افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ بہار کے ہر اضلاع میں اس سرکاری حکم نامے پر عمل درآمد ہوگا ہی۔ اس حکم نامے کے عمل درآمد کے لیے انھوں نے عوامی بیداری کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ موصوف کے اس خیال سے بھی عدم اتفاق کی کوئی گنجائش نہیں کہ ”ہم اردو والوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم آواز اُٹھانا اور دباؤ بنانا نہیں جانتے۔ ہم آواز وہاں اٹھاتے ہیں جہاں ہمارا ذاتی مفاد ہوتا ہے۔“ انھوں نے اس ضمن میں بہار اردو اکادمی کے کاموں کی مثال دیتے ہوئے صحیح تحریر فرمایا ہے کہ ”جب اکادمی فعال تھی تو لوگ اس کے کاموں پر تنقید کرتے تھے۔ آج جب اکادمی غیر متحرک ہے تو اس کے خلاف کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ اکادمی کی مخالفت کرنے والے لوگ چین کی نیند سو رہے ہیں۔“میں عزیز موصوف کو ان کے لڑکپن اور طالب علی کے زمانہ کی ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ ٹھیک یہی سلوک ماضی میں انجمن ترقی اردو کے ساتھ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پروفیسر عبدالمغنی کی قیادت میں انجمن جمہوری طریقے سے چل رہی تھی۔ صوبائی سطح پر مجلس عاملہ کی تشکیل ہوتی تھی۔ سال میں کم سے کم ایک دفعہ انجمن کی ریاستی مجلس عاملہ کی نشستیں منعقد ہوتی تھیں جن میں پورے بہار سے ممبران شریک ہوتے تھے۔ تجاویزمنظور کی جاتی تھیں۔ جن کی کاپی حکومت اور متعلقہ محکموں کو بھیجی جاتی تھیں۔ ضرورت پڑنے پر صدر انجمن وزیر اعظم ہند، گورنر، وزیر اعلیٰ اور وزراء کو مراسلے ارسال کرتے تھے۔ مشورہ پر حکومت حسبِ توفیق عمل بھی کرتی تھی۔ انجمن کے زیر اہتمام ایک رسالہ ”مریخ“ شائع ہوتا تھا جو انجمن کا ترجمان بھی تھا۔ اس رسالہ کو نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری اردو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اتنے کاموں کے باوجود لوگ صدر انجمن (پروفیسر عبدالمغنی)کو ہدف تنقید بنایا کرتے تھے اور انجمن کو ’ٹو مین کمیٹی‘ کے لقب سے نوازتے تھے۔ ایسا کہنے والوں میں ابھی بھی کچھ لوگ زندہ ہیں بلکہ پورے ہوش و حواس میں ہیں۔ میں ان کا نام لے کر ان سے جھگڑا ول لینا نہیں چاہتا لیکن ان سے میرا یہ سوال ضرور ہے کہ انجمن میں اب کوئی خامی یا خرابی انھیں کیوں نظر نہیں آتی ہے؟ کیا اب انجمن ان لوگوں کی توقعا ت کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہی ہے؟ اگر نہیں تو مجھے معاف فرمائیں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ شال اور گلدستے کی چاہت نے لوگوں کی زبان کو گنگ کر رکھا ہے۔ لوگ اپنے مفاد کی خاطر ایمان کی بات بولنا نہیں چاہتے ہیں۔
کامران غنی صباؔ کی مذکورہ تحریر کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ”جس طرح دوسرے شعبہئ حیات میں نوجوان بڑھ چڑھ کر تحریک کا پرچم بلند کر رہے ہیں اسی طرح اردو تحریک کو بھی نوجوان اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔“ موصوف کی اس تجویز کو پڑھ کر مرزا غالبؔ کا یہ شعر بے ساختہ میرے ذہن میں آ گیا:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
واقعی کامران غنی صباؔ نے میرے دل کی بات کہہ دی ہے۔ میری بھی یہی تجویز ہے کہ بغیر وقت ضائع کیے اب نوجوان آگے بڑھ کر اردو تحریک کی کمان سنبھال لیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں بہار میں اردو تحریک کی کمان سید محمد ایوب ایڈوکیٹ، الحاج غلام سرور، پروفیسر عبدالمغنی، مولانا بیتاب صدیقی، شاہ مشتاق احمد، سید تقی رحیم، پروفیسر قمر اعظم ہاشمی جیسے مجاہدین اردو نے عالمِ ضعیفی میں نہیں بلکہ ایامِ جوانی میں ہی سنبھالی تھی اور لمبے عرصے تک اردو کی لڑائی لڑی تھی جس کے نتیجے میں بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوا تھا۔ میرا بھی یہ ماننا ہے کہ ریاست میں اردو کے عملی نفاذ کے سلسلہ میں اگر نئی نسل کے لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور تاریخ کو دہرائیں گے تو ان شاء اللہ ضرور کامیابی حاصل ہوگی اور اردو کے مسائل ضرور حل ہوں گے۔ میں کامران غنی صباؔ کے اس خیال کی سو فیصد تائید کرتا ہوں کہ ”آج جس طرح ملکی سطح پر نوجوانوں نے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی قیادت اور رہبری کا انتظار کیے بغیر تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا ہے اسی طرح اردو تحریک کو بھی جواں اور گرم خون کی ضرورت ہے اور جس دن نوجوانوں نے اردو تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں لے لیا اُس دن سے انقلاب کی ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا۔“ عزیزی کامران غنی صباؔ کا یہ جذبہ اور حوصلہ قابلِ قدر اور لائقِ تائید ہے۔
رافعہ زینب
اک وقت پرانا ایسا تھا
جب علم پہ لاکھوں پہرے تھے
حق پڑھنے،بڑھنے کے خالص
کچھ خاص کے ہاتھ ہی ٹھہرے تھے
تب ساوتری نے ٹھانی تھی
یہ رسم بدلنی ہوگی اب
اور چلن بدلنے کی کوشش
عورت کوہی کرنی ہوگی اب
زنجیریں توڑ کے جب نکلی
وہ وقت نہایت مشکل تھا
طعنے،دھکے اور دشنام
اس کام کابس یہ حاصل تھا
ظلمت کے سیاہ اندھیرے میں
اک چنگاری پھر بھڑکی تھی
اک پھولے کے خواب کی خوشبوپھر
اک شیخ کے گھر میں مہک اٹھی
عورت ہی عورت کی دشمن
یہ کہنے والے کب سمجھے
دوعورتوں نے کل ذات کی خاطر
کتنے دردنہیں جھیلے!
گرآج برابرحق ہیں ملے
تواس کی بانی عورت ہے
اک دریاہے یہ انقلاب
اوراس کی روانی عورت ہے
وہ اپنی ضد پر قائم ہیں
تم اپنی بات سے ہٹنامت
کردار،شرافت،ہمت میں
تم کسی طرح سے گھٹنامت
ہے جنگ جہالت سے اپنی
سوعلم کو اپنی ڈھال رکھو
اے اہلِ وطن ان دونوں کا
یہ ورثہ خوب سنبھال رکھو!
مولانا احمد حسین قاسمی
روزروشن کی طرح اب یہ بات بھارت کے عوام کے سامنے واضح ہوگئی ہے کہ مودی حکومت ایک وسیع پس منظر میں CAA(سیٹیزن شپ امینڈ منٹ ایکٹ) کے ذریعہ عوام کو گمراہ کر رہی ہے،اس قانون کے تیر سے وہ بیک وقت کئی شکار کرنا چاہتی ہے،جن کے خد وخال ملک کے تعلیم یافتہ شہریوں کے ساتھ عوام پر بھی ظاہر ہو چکے ہیں، خصوصیت کے ساتھ ایک بات اب زبان زد ہوچکی ہے کہ: حکومت صرف اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے یہ قانون لائی ہے ”ظاہر ہے کہ جہاں حکومت کی سیاست کا اصول ہی سراسر منفی اور غلط ہو وہاں ترقی ممکن ہی نہیں، اوربہت دنوں تک ایسی حکومت قائم بھی نہیں رہ سکتی ہے۔ادھرچند دہائیوں سے سیاست میں ایک ناپاک روایت در آئی ہے، جس کے چلن نے آج اصول وضابطہ کی شکل اختیار کر لی ہے:”عوام کے ذہن کو اہم ایشوز سے غیر ضروری ایشوز کی طرف کسی بھی ہولناک واقعہ یا حادثہ کے ذریعہ پھیر دینا“تاکہ عوام اسی میں الجھے رہیں، اور حکومت بہ آسانی اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کو چھپاتی رہے، ملک کے شہریوں کو کوئی ایسا موقع فراہم ہی نہ کیا جائے جس میں وہ حکومت کا گریبان پکڑ سکیں،اور ان سے جواب طلب کر سکیں،موجودہ حکومت کا اب تک یہی طریقہ رہا ہے۔
GST،نوٹ بندی،منصوبہ بند پلوامہ حملہ کے جواب میں سرجیکل اسٹرائیک،تین طلاق مخالف بل،کشمیر سے ۰۷۳ /ایکٹ کا ہٹانا،عدلیہ پر آستھاکادباؤبناکربابری مسجد، رام جنم بھومی کا غیر منصفانہ عدالتی فیصلہ اور ان تمام سے بڑھ کر جمہوریت کو پارہ پارہ کردینے والے، ملک کو دو نظریوں میں تقسیم کردینے والے اور مذہبی منافرت کی چنگاری کو ہوا دے کر ملک کو دہکتی آگ میں جھونک دینے والے CAAجیسے قانون نے حکومت کی قلعی کھول دی ہے، اس حکومت نے ہندوستان کی خارجی سیاست میں پاکستان کو محور بنایااور عوام کو اس میں الجھانے کی تمام کوششیں کیں، جن کا ماحصل جانی ومالی نقصانات کے سوا کچھ بھی نہیں۔
دوسری جانب داخلی سیاست میں اس نے مختلف طریقوں سے یہاں کی اقلیتوں کو نشانہ بنایا، یہ دونوں منفی طریقہئ سیاست اب رازہائے سر بستہ نہیں رہے، بلکہ ان دونوں موضوعات پر ملک کے ارباب بصیرت اور دنیا کے اہل فکرونظر نے کھل کر لکھا اورصاف وشفاف بیانات دئیے کہ ملک کو ترقی کی شاہ راہ پر لے جانے کے وہ نسخے ہرگز نہیں جن کو بی جے پی حکومت نے اپنامنشور بنارکھاہے۔
دنیا کے بے باک اہل قلم نے حکومت کے اس منفی رویے پر بہت کچھ لکھا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس ملک کی اپنی فضا ء، اپنی ضروریات،اپنی نفسیات،اپنا مزاج ومذاق،ترقی کے اپنے نوع بہ نوع تقاضے ہیں، مگر مودی حکومت ان مذکورہ حقائق سے بالکل مختلف لائحہ عمل پر کام کر رہی ہے، جوکسی بھی طرح ملک کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے،وہ اسٹر یٹجی اور طریقہ کار جو اس نے اسرائیل سے سیکھاہے، وہ اس عظیم جمہوری ملک کے لیے سم قاتل ہے، حکومت کے یکے بعد دیگرے ترتیب وار ماضی کے اہم فیصلے حکومت کے منفی ذہن کا واضح عکاس ہیں۔بدقسمتی سے نفرت کے سوداگر انگریز،”پھوٹ ڈالو اور راج کرو“ کے اصول پر ملک کو غلامی کی زنجیر میں جکڑے رکھنے کی ناپاک روایت دے کر چلے گئے، جس نفرت کا بیج انہوں نے بھارت کے عوام کے دلوں میں مذہبی بنیاد پر بویا تھا اب اس کی زمین کوتر کرنا اوراپنے زہریلے افکار ونظریات اور گفتار وکردار سے اس کے پودے کووجود بخشنا اور پھر اسے ایک تناور درخت کی شکل دینا کسی بھی طرح اس عظیم ملک کے حق میں سود مند ثابت نہیں ہوسکتا اورنہ ہی یہ ملک اس کا متحمل ہے۔انسانی سماج کے لئے نفرت زہرہلاہل ہے،کوئی بھی سماج نفرت کے ساتھ اجتماعی زندگی نہیں گذار سکتا ہے، نفرت تو انگریزوں نے آزادی کی صبح سے پہلے ہی پھیلا دی تھی،جس کا نتیجہ تقسیمِ ملک کی شکل میں ظاہر ہوا۔ دوسری جانب انگریزوں سے لڑنے والے ملک کے بہادر سپوت اس نفرت کے سایہ میں خودبا ہم لڑ پڑے، جس سے اس وقت ملک کو بڑے پیمانے پر مصیبتوں سے دو چار ہو نا پڑا۔اس کے بعد تقسیم اور فرقہ وارانہ تباہی کے زخموں سے چور اس بھارت کو اطمینان وسکون اور دلداری کی ضرورت تھی، طویل غلامی کے بعداسے اپنی آزادی کی فضا، خوشحالی وترقی اور سماجی زندگی میں باہم اخوت ومحبت اور مسرت وشادمانی درکار تھی،جس کا بعض پیش رو حکومتوں نے خیال بھی رکھنا چاہا، مگر سیاست کے بھیڑیوں اور تخت وتاج کے حریصوں نے وقفہ وقفہ سے فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے بھارت کے پرانے زخم پر نمک پاشی کا مستقل کام کیا۔خصوصا جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے ملک کی صورت حال اب تر ہوتی جارہی ہے۔وہ لگاتار ایسے مہلک اور خطرناک فیصلے لینے لگی جس سے ملک میں انارکی پھیلی، ملک اوراس کے عوام ترقی کیاکرتے،اپنی تجارت وملازمت،گوناگوں مصروفیت اور سکون زندگی چھوڑ کر سڑکوں پر آگئے،جس سے طلبہ وطالبات کی تعلیم اورعوام کے روزمرہ کے معمولات زندگی بے حدمتاثر ہوئے۔
CAA کا پس منظر اب یہاں کے شہریوں کے سامنے پورے طور پر آچکا ہے، RSSکا ہندوتوا نظریہ بھی پوری دنیا میں معروف ہوچکا ہے، اس کی تہ در تہ حقیقتیں بھی طشت از بام ہوچکی ہیں، دنیا کی سب سے خفیہ ترین سمجھی جاے والی تنظیم آر ایس ایس(RSS) اب کسی سے مخفی نہیں رہی، ملک اور ملک سے باہر اس کے نظریا ت کی وسیع پیمانے پر تشریح ہو رہی ہے، موجودہ ملکی حالات کے پیش نظرپوری دنیا کا یہ کہناہے کہ یہ ملک گول والکر، ساورکر او ر گوڈ سے کے متشدد نظریہ پر ہر گز نہیں چل سکتا، جن کی ملک کی آزادی میں کبھی کوئی حصہ داری اور شراکت نہیں رہی ہے، ان کے نظریات کے حاملین اس ملک میں صرف اور صرف برہمن ہیں جو منوواد کے قائل اور منواسمرتی کا نفاذ چاہتے ہیں،ان کی تاریخ رہی ہے کہ یہ ہمیشہ سیکولرزم اور جمہوریت کے دشمن رہے ہیں، یہاں کا دستور روز اول ہی سے ان کی آنکھوں کا کانٹا بناہوا ہے، جنہیں ترنگا سے سخت نفرت ہے، آج تک انہوں نے آرایس ایس کی مرکزی آفس میں ہندوستان کے ترنگا کی پرچم کشائی نہیں کی۔ برسر اقتدار حکومت کے بڑے بڑے سورما بشمول مودی اورا میت شاہ ان کے ہی ترجمان ہیں،جنہوں نے یہ ٹھان لیاہے کہ ملک کہیں جائے،اس کی معیشت کا دیوالیہ ہوجائے،تعلیم گاہیں بند ہوجائیں،ترقی کے سارے نقشے دھرے رہ جائیں،ملک کی چھوٹی بڑی صنعتیں برباد ہوجائیں،کسانوں کی خودکشی عام ہوجائے،مقامی مصنوعات دھول کی نظر ہوجائیں،بے روزگاری سرچڑھ کر بولے،مہنگائی آسمان چھولے،شہریوں کی زندگیاں تباہ ہوجائیں،بیٹیوں کی عصمتیں تارتار ہوجائیں،ملک میں بڑھتی غربت کی شرح کا گھٹاٹوپ اندھیرا پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے اورفرقہ وارانہ فسادات سے پورا ملک جل اٹھے،مگر ہمیں وہی کرنا ہے جس کی آرایس ایس نے ہمیں تعلیم دی ہے، جس سے ہماری سیاست کا بازارگرم رہے، ہماری حکومت قائم ودائم رہے اوراپنے فانی اورختم ہونے والے عارضی تخت وتاج کے لئے پورے ملک کو اگر نفرت کی بھٹی میں جھونکنابھی پڑے توہم اس کے لئے تیار ہیں،حکومت کے اعلیٰ عہدہ داروں اورامیت شاہ کے حالیہ بیانوں سے توایساہی لگتاہے۔حالانکہ ایشیا کے اندر ایسے بہت سے ممالک ہیں جو ہرطرح کی ترقیات سے مالامال ہیں، حکومت کی نظر میں وہ نہیں ہیں۔ وہاں کی تعلیمی،اقتصادی، معاشی اورسماجی نقطہ ہائے نظر سے استفادہ کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل مرتب کرے اوران ممالک کی نئی ترقیات،تعلیمی منصوبہ بندیوں،معاشی حصولیابیوں اوروہاں کے شہریوں کو حاصل شدہ بنیادی ضروریات زندگی اورمیسر آسائش حیات کو اپنے حکومتی منشور میں شامل کرنے لئے ان کا حقیقت پسندانہ مطالعہ کیاجائے، حکومت کو ان امورپر توجہ دینی چاہئے،ترجیحی بنیادپر ایک ایک کرکے پہلے اہم عوامی ضرورتوں کی تکمیل کی جائے اورعوام کو روزگار کے اہم مواقع اورمعیشت کے ضروری میدان فراہم کئے جائیں اورملک کے نوجوانوں کی خاطرخواہ حوصلہ افزائی کی جائے۔ دیکھاجائے تواس کے لئے حکومت کے پاس کوئی فکری اورارادی قوت نظرنہیں آتی۔بھارت جیسے کثیرالمذاہب والے ملک میں اجتماعی ہم آہنگی اورسماجی اتحاد بنیاد کے پتھر کی مانند ہے، جس کی فکراہل حکومت کو سب سے پہلے کرنی چاہئے،ملک میں سکون وعافیت اورامن وامان کا قیام مختلف نظریات کے حامل شہریوں کے لئے اولین ترجیح کادرجہ رکھتاہے، عقلمند حکومت ہمیشہ ان اصولوں کو مقدم رکھتی ہے،حکومت سے بھارت کے عوام کا پرزور مطالبہ ہے کہ وہ کوئی بھی ایسا کام نہ کرے جس سے اسے شرمسارہونا پڑے،پوری دنیا میں حکومت کی جگ ہنسائی توہوہی رہی ہے ساتھ میں اس سے ملک کی اعلیٰ شبیہ بھی خراب ہورہی ہے جس کے لئے حکومت جوابدہ ہے۔
(مضمون نگار امارت شرعیہ کے معاون ناظم ہیں)
حافظ محمد ہا شم قادری مصباحی جمشید پور
َِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ جان سے زیادہ پیارا ہمارا ملک ہندوستان آج انتہائی مشکل دورسے گزر رہا ہے۔خواہ وہ مالی خسارے کے اعتبار سے ہو،یا لا قانونیت کے اعتبار سے ہو،مہنگائی ہو، عوامی بے چینی ہو وغیرہ۔ اہل علم ودانش سے لیکر سبھی طبقہ کے لوگ پوری طاقت سے چلا رہے ہیں، لیکن انتہائی فکر کی بات یہ ہے کہ حکمراں طبقہ بالکل توجہ نہیں دے رہا ہے، فاشزم،ضد، ہٹ دھر می اور غرور میں چور یہ حکومت(جسے اصل میں آر ایس ایس چلا رہی ہے) اپنے عزائم سے پیچھے ہٹنے کو ذرا بھی تیار نہیں ہے، ہوم منسٹر کا غرور بھرا بیان آچکا ہے کہ این آر سی،سی اے اے، این پی آر سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
جاں گسل،صبرآزما اور پر عزیمت جدو جہد، اللہ کی جانب سے خصوصی حما یت ونصرت ملے تبھی اس ملک گیر متحدہ مزاحمتی جدو جہد کو کا میابی مل سکتی ہے،”ان شا ء اللہ تعالیٰ ضرور ملے گی“۔غریب ودر میانی طبقہ،ہرذات ومذہب کا انسان کراہ رہا ہے لیکن موجودہ حکومت اس طرف توجہ نہ دینے کی قسم کھا کر پوری طاقت سے ہندتوا کے ایجنڈے پر اور آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی کو نافذ کر نے پر تلی ہوئی ہے، ایک دو ہوں تو گنا یا جائے، دوچار دس ہوں تو رونا رویا جائے۔ تین طلاق، کشمیر، بابری مسجد،NRC-National Rejgister of Citizens,CAA-Citizenship Amendment Act NRP-National Population Register,لاکر مسلما نوں کے سینے میں خنجر گھونپ دیا، ساتھ میں غریب،دلت و پچھڑے طبقے کے براد رانِ وطن کو بھی پریشانی میں لا کھڑا کیا اور سب سے بڑی بات ہندوستان کے سمْوِد ھان کو بدلنے کی جسارت ہی نہیں کی بلکہ پوری قوت سے سمْوِ دھان پر حملہ بول دیا ہے۔ اورہندتوا کے ایجنڈے پر پوری طرح سے عمل شروع کر دیا ہے، تاکہ جو ملکی مسائل ہیں ان کی طرف کسی کا دھیان نہ جائے۔ یہ طریقہ بہت تشویش ناک ہے۔
ملک کی گرتی معیشت اور حکمرانوں کی ہٹ دہر می:سوال یہ ہے کہ آخرعوام کرے تو کیا کرے، بے روز گاری سے لیکر گرتی معیشت آزادی کی بعد سے سب سے نچلی سطح پر چلی گئی ہے، کسانوں کی خود کشی کے بڑھتے واقعات کا مسئلہ، دلتوں اور مسلمانوں پر بڑھتے موب لنچینگ و مظالم کا مسئلہ،تعلیمی شعبے میں فیس کا زبر دست اضافہ، عورتوں پر بڑھتے مظالم خاص کر اعلیٰ عہدوں پر براجمان نیتا وعہدیداران کی طرف سے زنا کاری جیسے شرم ناک واقعات پر افسوس و شرم کے اظہار کے بجائے مظلوم کی جان اس کے وکیل ورشتے دار تک کوجان سے مار دے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستا ن کے غریب دلت و مسلمانوں کے سکون کو غارت کردیا ہے۔ حکومت کسی کی بھی آواز سن نہیں رہی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سن کر بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی طرح عوام کی ہر بات کا جواب سختی سے دے رہی ہے،مظلوموں کے بولنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ ظاہر سی بات ہے جب چاروں طرف سے کسی پر مار پڑے گی تووہ گھبرا جائے گا اور مایوس ہو جائے گا۔ جب سے بی جے پی کی حکومت اقتدار میں آئی ہے آئے دن نت نئے فتنوں سے، دلتوں پچھڑوں، آدی باسیوں اور آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی کی مخالفت کرنے والوں خصوصاً مسلما نوں پر یلغار(حملہ، دھاوا،) کر دیا ہے، تین طلاق، کشمیر کی دفعہ370 کو ختم کرنا، بابری مسجد کا فیصلہ اپنے حق میں کراکر انصاف کا قتل کر نا اور اب تو ظلم کی ساری حدیں پار کر کے غریبوں،کمزوروں، آدی باسیوں،پچھڑوں اور مسلمانوں پر این آر سی۔NATIONAL REGISTER OF CITIZENSَ َ,سی اے اے،CITIZENSHIP AMENDMEEND ACT این پی آر، NATIONAL POPULATION REGISTR, جیسے کالے قوانین کو لاکر پورے ملک کے چین و سکون کو غارت کر دیا ہے۔ زر خرید غلاموں جسے عرف عام میں گودی میڈیا کہا جاتا ہے ان سے جھوٹ کو سچ،سچ کو جھوٹ پھیلانے میں لگا دیا ہے، گودی میڈیا نے پوری طاقت جھونک دی ہے۔ اور بی جے پی، آ ئی ٹی سیل کی ٹیم،واٹس ایپ یونی ورسٹی کے غلام اور بی جے پی حکومت کے وہ نمک (حلال×)حرام تنخواہ دار جو دن رات جھوٹ کو سچ بتانے کے لیے نوکری میں رکھے گئے ہیں، لاکھوں مدح سرا اور پرستار بے روز گاروں کو ملک گیر سطح پر دوسو سے لیکر ایک ہزار روپیے یومیہ کی مز دوری پر روز گار دے رکھا ہے،اُچھلنے کود نے، دنگا کرنے،ٹرول کرنے، لنچینگ کرنے،غیر فاشسٹ دانشوروں، انقلابیوں، نیز مخلص ومحب وطن باشندوں کو غدارِ وطن، ملک دشمن، اور قسم قسم کے گندے اور تذلیل تبصرے وگالیاں دینے اور زمین پر ان کا صفایا کر نے کے لیے (اپنے بھگتوں) کو تو روز گار بی جے پی نے دے دیا ہے، بقیہ عوام کو روز گار کیوں دیں؟ انھوں نے ووٹ تو دیا نہیں تھا، نہ ہی وہ حکومت کے مدد گار ہیں، نہ ہی دنگا فساد کا اہم ومفید کام کر رہے ہیں، یہ مسلمان، دلت، کمزور طبقہ کے لوگ اپنے حق اور دستور(CONSTITUTION) کی بات کرتے ہیں، تو ایسے ناسمجھوں اور دیش درو ہیوں کو ایک راشٹر وادی سر کار، نسل پرست سر کار، ارب پتیوں کی غلام سر کار، بھلا سب کو روز گار کیوں دے؟
ووٹ کا حق چھیننے کی سازش: آرایس ایس کے پلان کے مطابق مسلمانوں،دلتوں،پچھڑوں،آدی باسیوں سے ووٹ کا حق چھین لیا جائے اور انھیں DETENTION CENTRE میں ڈال دیا جائے۔ طرح طرح کے مظالم کر کے ان کو ڈمرا لائز کر دیا جائے اور ملک کے دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے اور یہ کام موجودہ حکومت بہت منصوبے کے تحت کر رہی ہے۔ این آر سی، سی اے اے، این پی آر جیسے کالے قانون اسی لیے لائے گئے ہیں،اللہ خیر فر مائے۔
شبِ دیجور کے بعد، صبح نو ضرور آئے گی اِن شا اللہ!: پورے ملک ہی نہیں پوری دنیا میں NCR,CAA, NPR, قا نون کے خلاف زبر دست احتجاج ہو رہا ہے۔جامعہ ملیہ دہلی اور شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین و معصوم بچوں اور بوڑھی دادیوں نے تو انقلاب بر پا کر دیا ہے۔ ایک سو اٹھارہ سال ریکارڈ توڑ 2 ڈگری درجہ حرارت میں، ان انقلا بی خواتین کی ہمت نے پورے ملک کو جگا دیا اور اسوقت پورے ہندوستان میں 20 سے زیادہ جگہوں پر شدید احتجاج جاری ہے اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے،ان شاء اللہ اور اضافہ ہو گا۔ حالات جتنے خراب ہوں کسی کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، خاص کر اہل ایمان کو۔اسلامی تاریخ کا مطالعہ فر مائیں، کتابِ ہدایت قرآن مجید واحادیث طیبہ کا مطالعہ فر مائیں،مدد لیں،واضح ہدایات موجود ہیں، روشنی ومدد ملے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
ایم ودود ساجد
این ڈی ٹی وی نے بتایا ہے کہ آج شاہین باغ کے احتجاج میں 80 کی دہائی کے ‘اجڑے’ ہوئے کچھ پنڈت پہنچ گئے ۔انہوں نے ہاتھوں میں بینر لے رکھے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ انہیں آج ہی کے دن یعنی 19 جنوری کو کشمیر سے اجاڑ دیا گیا تھا۔
یہ پنڈت شاہین باغ اس لئے نہیں پہنچے تھے کہ انہیں مظاہرین سے اظہار یکجہتی کرنا تھا،وہ تو CAA کی مخالفت ہی نہیں کرتے اور اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فلم اداکار سوارا بھاسکر نے آج شاہین باغ میں جشن شاہین منانے کا اعلان کیا تھا جس میں کچھ غزل سرائی اور شعروشاعری کا منصوبہ تھا۔ اس پر فلم ساز وویک اگنی ہوتری نے ٹویٹ کرکے کہا تھا کہ آج ہی کے دن کشمیری پنڈتوں کو اجاڑا گیا تھا اور آج جشن شاہین منایا جارہا ہے لہذا آج شام کو پانچ بجے کشمیری پنڈت شاہین باغ پہنچ کر اس کے خلاف مظاہرہ کریں ۔وویک اگنی ہوتری کی مودی نوازی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔
این ڈی ٹی وی کو ایک کشمیری پنڈت نے بتایا کہ ہم سی اے اے کی حمایت کرتے ہیں اور یہاں ہم اپنے اجڑنے کی داستان سنانے آئے تھے۔ایک کشمیری پنڈت خاتون کچھ زیادہ ہی جوش میں تھی۔اس نے کہا کہ ان لوگوں نے (شاہین باغ کے مظاہرین نے) غلط اعلان کیا کہ ہم ان کی حمایت کرنے آئے ہیں ۔وہ کچھ اور کہتی اس سے پہلے ہی دوسرے پنڈت نے بات سنبھال لی۔اس نے کہا کہ شاہین باغ والوں نے ہمیں اپنی بات کہنے کےلئے اپنا اسٹیج پیش کیا اور ہمارا درد سن کر ہم سے اظہار یکجہتی کیا۔
مشہور کشمیری پنڈت اے کے رینا نے تو اسٹیج پر یہاں تک کہہ دیا کہ گو کہ ہم سی اے اے کی حمایت کرتے ہیں لیکن آپ لوگ اتنے دنوں سے یہاں جمع ہیں تو ہم آپ کا بھی درد سمجھتے ہیں ۔
تو وزیراعظم صاحب!
اب تو کچھ شرم کرلیجئے۔جن پنڈتوں کا نام لے کر آپ نے 80 لاکھ کشمیریوں کا دم گھونٹ دیا ہے وہ بھی اپنی بپتا سنانے کے لئے اُس اسٹیج کا سہارا لینے پر مجبور ہیں جو آپ کے مخالفین نے سجایا ہے۔۔۔ یہ پنڈت کتنے بھولے’ سادہ مگر مجبور ہیں کہ ہندوستان کے جس بڑے طبقے کی مخالفت کر رہے ہیں اسی کے پروگرام کو اپنی داستانِ رنج والم سنانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔ شاید انہیں بھی اب احساس ہوگیا ہے کہ ان کی بات دنیا اسی اسٹیج سے سنے گی جہاں سی اے اے کے خلاف ہزاروں خواتین ایک مہینہ سے سینہ سپر ہیں ۔
معصوم مرادآبادی
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پورے ملک میں جاری بے نظیر احتجاجی تحریک نے جہاں ایک طرف حکومت کے ہاتھ پاؤں پھلا دیئے ہیں‘ وہیں دوسری طرف اس تحریک میں شامل لوگوں کے جوش و جنون کو دیکھ کر بی جے پی لیڈروں کے اوسان خطا ہوگئے ہیں۔اس تحریک سے وہ اس حد تک خوفزدہ ہیں کہ انہیں اپنی زبان اور ہوش و حواس پر بھی قابو نہیں رہ گیا ہے ۔وہ ایسے اول فول بیانات دے رہے ہیں کہ ان کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔یوں تو بی جے پی میں ایسے لیڈروں کی ایک پوری بٹالین موجود ہے، جو آگ اگلنے اور خون تھوکنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔ لیکن حالیہ دنوں میں ان لیڈروں نے جو زبان اور لب ولہجہ اختیار کیا ہے‘ اسے دیکھ کر واقعی ان کی ذہنی حالت پرترس آنے لگا ہے۔ اب بی جے پی کی مغربی بنگال اکائی کے صدر دلیپ گھوش کو ہی لے لیجئے۔ انھوں نے کلکتہ اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کے بے مثال احتجاج کو دیکھ کر اپنا آپا کھودیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ دیدی(ممتا بنرجی)کی پولیس ان لوگوں پر کوئی کارروائی نہیں کرتی، جو پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچاتے ہیں، کیونکہ وہ ان کے ووٹر ہیں۔ اترپردیش ، آسام اور کرناٹک میں ہماری سرکار ایسے لوگوں کو کتوں کی طرح گولی ماردیتی ہے۔‘‘
دلیپ گھوش نے یہ بیان گذشتہ اتوار کو ایک ریلی کے دوران نادیا میں دیاتھا اور مرکزی وزیر بابل سپریو نے گھوش کے بیان پرپارٹی کی طرف سے صفائی دیتے ہوئے کہاتھا کہ’’ دلیپ گھوش نے جوکچھ کہاہے‘ اس سے پارٹی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘ لیکن حیرت انگیزبات یہ ہے کہ اتنا شرمناک بیان دینے کے باوجود پارٹی نے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کی بجائے بحیثیت صدر گھوش کی مدت کار میں مزید تین سال کی توسیع کردی ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرکے ملک کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اس نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف جوسفاکانہ پالیسی اختیار کی ہے ، وہ درست ہے اور وہ ایسی تمام آوازوں کو خاموش کردینا چاہتی ہے‘ جو اس کے کسی بھی عمل کے خلاف اٹھ رہی ہیں۔ جو لوگ اس معاملے میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی بے حسی پر تنقید کررہے ہیں ، انھیں بھی اسی طرح مخاطب کیا جارہا ہے ۔اترپردیش کے وزیر محنت رگھو راج سنگھ نے گذشتہ اتوار کو علی گڑھ میں شہریت ترمیمی قانون کے حق میں منعقدہ ریلی کے دوران مسلمانوں کو دھمکاتے ہوئے کہا کہ’’ اگر آپ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف نعرے لگاتے ہیں تو میں آپ کو زندہ دفن کردوں گا۔‘‘
دلیپ گھوش کے معاملے میں اتنا تو ہوا کہ بی جے پی نے ان کے بیان سے خود کو الگ کرلیا، لیکن رگھوراج سنگھ کے معاملے میں اتنا تکلف بھی گوارا نہیں کیا گیا۔ ہاں الٹے وزیر موصوف نے اس معاملے میں ایک ایف آئی آر درج کراکے یہ کہا ہے کہ انھیں ایک مشتبہ نمبر سے دھمکی آمیز کالیں موصول ہورہی ہیں۔ان کی اس شکایت پر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ تو درج کرلیا ہے لیکن کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ آخر انھوں نے لوگوں کو زندہ دفن کرنے کی بات کیوں کہی تھی۔
حیرت انگیزبات یہ ہے کہ حکمراں طبقے اور پولیس کا یہ طرز عمل ان لوگوں کے خلاف ہے‘ جن کے ہاتھوں میں دستور کی کاپیاں ہیں،امبیڈکر کی تصویریں اور قومی پرچم ہیں اور جن کے لبوں پر قومی ترانہ ہے یافیض احمد فیـض اور حبیب جالب کے اشعار ہیں۔ حیرت ہے کہ خود کو دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور پریوار قراردینے والی حکومت اوراس کے کارندے نہتے لوگوں سے اتنا ڈرگئے ہیں کہ وہ انھیں کہیں کتوں کی موت مارنے اور کہیں زندہ دفن کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔دراصل بی جے پی لیڈران کو حاکمانہ غرورنے اس بھیانک غلط فہمی میں مبتلا کیا ہے کہ وہ اسپین کی طرح اس ملک سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹادیں گے۔ مسلمانوں کو کتوں کی طرح مارنے اور انھیں زندہ دفن کرنے کی باتیں اسی لئے کہی جارہی ہیں کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں۔حالیہ عرصے میں اترپردیش، دہلی اور کرناٹک میں جس طرح عوامی احتجاج کو کچلنے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے پولیس فورس کا جارحانہ استعمال کیا گیا ہے ، اس کی مثال آزاد ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تو اعلانیہ طور پر مسلمانوں سے ’انتقام‘ لینے کی بات کہی تھی اور اسی لئے ان کی بہادر پولیس نے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ بی جے پی سرکاریں اس احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لئے جتنی زیادہ طاقت کا استعمال کررہی ہیں، اتنی ہی تیزی سے یہ تحریک آگے بڑھ رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ انھوں نے آزاد ہندوستان میں اتنی بڑی عوامی تحریک نہیں دیکھی۔
ایک آزاد جمہوری ملک کے حکمرانوں کا فرض یہ ہونا چاہئے کہ اگر کسی قانون سے ملک کے عوام ناراض ہیں یا ان میں غم وغصہ ہے تو انھیں اس پر توجہ دینی چاہئے اور زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھناچاہیے۔ کیونکہ جمہوریت میں ایک شخص کی بات بھی بہت اہمیت رکھتی ہے، لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ حکومت اپنے علاوہ کسی اور کی بات سننا ہی نہیں چاہتی اور وہ اقلیتوں سے چونکہ خدا واسطے کا بیر رکھتی ہے، اس لئے ان کی باتوں پر توجہ دینا اس کے لئے سب سے بڑی توہین کا کام ہے۔
جن بی جے پی لیڈروں کے اوپر اس وقت ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا بھوت سوار ہے ‘وہ دراصل یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس ملک کی اقلیتوں کو وہ نرم چارہ سمجھ کر چبا جائیں گے۔ لیکن وہ اس معاملے میں سخت غلطی پر ہیں کیونکہ مسلمان اس ملک میں تر نوالہ نہیں ہیں ۔ اس ملک میں مسلمانوں کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ سنگھ پریوار کے لوگ ان کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔ مسلمان اس ملک میں ہزاروں سال سے آباد ہیں۔ یہاں کا کلچر اور تہذیب ان کی مرہون منت ہے۔ جن مسلمانوں نے ہندوستان کی سرزمین پر دنیا کے سب سے بڑے سامراج سے لوہا لیا اور برادران وطن کے شانے سے شانہ ملاکر انگریز سامراج کو 1947 میں جڑوں سمیت اکھاڑ پھینکا، ان کے لئے ایک متعصب، تنگ نظر حکومت سے لوہا لینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ کیونکہ آج بھی وہی برادران وطن ان کے شانہ بشانہ ہیں جن کے ساتھ انہوں نے آزادی کی لڑائی لڑی تھی۔
شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف دہلی کے شاہین باغ سے لے کر پٹنہ کے سبز ی باغ تک جو تحریک چل رہی ہے ، اس کی قیادت قوم کی غیور ماؤں، بہنوں اور نوجوان طلباء اور طالبات کے ہاتھوں میں ہے جنھیں خوف زدہ کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ اب وقت آگیاہے کہ حکمراں جماعت کے لوگ کتے اور بلیوں کی دھمکیاں دینے اور لوگوں کو زندہ درگور کرنے جیسی بزدلانہ زبان بولنے کی بجائے نوشتہ دیوار کو پڑھنے کی کوشش کریں۔
کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں سنگھ پریوار کے لیڈروں نے اسپین جاکر اس بات کا مطالعہ کیا تھا کہ وہاں سے مسلمانوں کا نام ونشان کس طرح مٹایا گیاتاکہ یہ لوگ اسی راستے پر چل کر ہندوستان سے بھی مسلمانو ں کو حرف غلط کی طرح مٹادیں ۔ جولوگ اسپین کی طرز پر ہندوستان سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے کے خواب دیکھ رہے ہیں ، انھیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اسپین میں رہنے والے مسلمانوں نے نہ تو وہاں کے کلچر کو اپنایا تھا اور نہ ہی وہاں کی زبان اختیار کی تھی۔ وہ عربی زبان بولتے تھے اور اپنے کلچر پر عمل پیرا تھے۔ ہندوستان کا مسلمان ملک کے جس علاقے میں رہتا ہے ‘وہ وہاں کی زبان بولتاہے اور وہ پوری طرح علاقائی کلچر میں رچا بسا ہواہے۔وہ ہندوستان سے اسی طرح پیوست ہے جس طرح جسم سے کھال پیوست ہوتی ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کی مذہبی شناخت جداگانہ ضرورہے لیکن وہ ہندوستانی تہذیب کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ انھیں ہندوستان سے جدا کرنے والے تو جدا ہوسکتے ہیں لیکن وہ مسلمانوں کو قیامت تک ہندوستان سے جدا نہیں کرسکتے ۔ یہ بات سنگھ پریوار کے لوگوں کی سمجھ جتنی جلد آجائے اتنا ہی ان کی صحت کے لئے بہتر ہوگا۔