Home تجزیہ 2020کا عالمی یومِ خواتین شاہین باغ کے نام-خان نشرح شاز

2020کا عالمی یومِ خواتین شاہین باغ کے نام-خان نشرح شاز

by قندیل

 

ہاں بھئی خواتین کے عالمی دن پر سب کو تجسس ہے کہ انڈین وومین کیا کرتی ہےـ سو لے چلتے ہیں کچھ دیر پچھلے سالوں کی طرف، پہلے ہم انڈین خواتین کی عمومی بات کریں بلاتفریق مذہب و ملت پھر خالص مسلم خاتون اور 2020 کے یوم خواتین پر آجائیں گے۔ اچھا
انڈیا میں خواتین کی کچھ درجہ بندیاں ہیں ـ وہ خواتین کیا عالمی دن جانیں جو اپنے خاندان کی پرورش کے لیے کما کر کھانے پر مجبور ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو اعلی تعلیم حاصل تو کرلیتی ہیں ذہانت اور دلچسپی کی بنیاد پر اور سر اٹھاکر ابھی زندگی کی راہ بھی طے کرنے کی عمر میں بھی نہیں ہوتی ہیں اس سے پہلے ہی کسی اچھے پروفیشن کے مقابلہ جاتی امتحان کامیاب کرکے جاب فیلڈ میں اتر جاتی ہیں اور وہ جاب انکے متعلقین کے لیے ضرورت بن جاتی ہے اس بات سے پرے کہ وہ کتنی دشواریاں فیس کررہی ہیں، چاہ کر بھی اس جاب سے نکل نہیں پاتی ہیں ۔کچھ وہ ہیں جو اعلی تعلیم کے باوجود اپنے شوہر کے مزاج میں ڈھل کر گھر گرہستی سے جڑی رہتی ہیں۔انکی شخصیت ہی انٹرورٹ ہوتو وہ اس حال میں بھی خوش رہتی ہیں اور بعض ایکسٹرورٹ ہوں اور گھر میں رکھا جائے تو شاکی نظر آتی ہیں ۔
بعض ناگہانی حالات کی وجہ سے کسی نہ کسی پیشے کو اختیار کرتی ہیں ۔بعض نے سٹیٹس کو بلند کرنے کے لیے کوئی پروفیشن اختیار کیا ہوتا ہے ۔
غرض یہ کہ خواتین اپنی مرضی سے جو چاہے،انڈیا کہ سندھی خواتین ، مارواڑی،بوہرہ، کھوجہ، میمن خواتین اکثر بزنس کرتی ہیں، مائیکرو فائنانس میں وہی چھائی ہوئی ہیں۔یہ کبھی آپ کو جاب میں نظر نہیں آئیں گی ۔
دلت خواتین ہر قسم کی جاب کے شعبے میں نظر آئیں گی ۔ایلیٹ کلاس کی وہ عورتیں جو فارغ وقت میں NGOs چلارہی ہوتی ہیں جو ایسے دن مناتی ہیں اور اس میں بھی ان کے سیاسی مفادات سے جڑی سرگرمیاں رہتی ہیں ۔
مسلم خواتین اعلی تعلیم کے باوجود بہت ہی کم جاب کرتی ہیں اس میں بھی ہر ریاست کا ریشو الگ ہےـ ساؤتھ انڈیا میں محنت کش کھلے مزاج کی خواتین ہیں سو ہر شعبے میں نظر آتی ہیں۔شمال بھارت میں خواتین نے معلم اور طب کے پیشے کو اپنا یا ہوا ہے ۔
رہی بات عالمی یوم خواتین کی تو جو فیلڈ میں ہیں وہ اپنے اپنے شعبےمیں اپنے انداز سے منالیتی ہیں، اکثر تو بات خواتین ریزویشن تعلیمی و سول سروسیز میں ہوتی ہے، چونکہ سیاست میں بھی 50 پرسنٹ ریزرویشن کی باتین چل نکلتی ہیں، تو کبھی رحم مادرمیں قتل کی روک تھام ۔بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم ، تو کبھی جہیز کے خلاف، قوانین کا اعلان اس دن ہوتا ہے۔اس میں وہ قوانین بھی پاس ہوئے جس میں قحبہ خانوں کو ریزرویشن دیئے گئے
ورنہ کہیں گے سب اچھا اچھا ہی بتارہی ہیں آپ ۔
سو اس دن پر بھی خواتین کی سرگرمیاں اپنے سیاسی ، سماجی ، و ثقافتی ، مذہبی مفادات پر منحصر ہوتی ہیں ـ مذہبی مفاد میں ہم لوگ بھی اس دن پروگرام رکھاکرتے ہیں۔اسلام کے عطا کردہ عورت کے حقوق سمجھایا کرتے،جو بھی ایشو ماحول میں چل رہاہوتا ہم مسلم خواتین اس موقع پر اسلام کاموقف پیش کرنے کی اپنی سی سعی کیاکرتے ہیں ـ تاہم اس کے باوجود مسلم خواتین پر تنقید کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا جو ہے اور چلا آرہا ہے ۔
مسلم خواتین تعلیم میں پیچھے ہیں،
مسلم خواتین پردہ کروا کر قید میں رکھی جاتی ہےـ مسلم خواتین کو آزادی نہیں ہے،مسلمان خواتین گھروں میں ظلم سہتی ہیں،ان کی آواز بند کردی گئی ہے اور شاید ہماری آواز جو ان کے جواب میں اٹھتی نقار خانے میں طوطی کے بول ہی تھی ۔ جس سے ملیں وہ یہی کہے گا اور ہم بساط بھر کوشش بھی کرتے اور کچھ مسکرا کر خاموش ہورہتے ۔
کچھ دن پہلے مبارک کاپڑی کا لیکچر سنا،فرمانے لگے ھندوستان میں موجود حالات نے ہر مسلم لیڈر اور ہر مسلم دانشور کو ہلا کر رکھ دیاکہ کیا فیصلہ کریں۔کشمیر مسئلے کے بعد بابری مسجد کے موقع پر نوجوانوں کو خاموش رکھا تو اب یہ قانون۔CAA ایک کے بعد دوسرے مسئلے اور حکومت کے متعصب وار نے دماغ کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔۔جامعہ کے حملے کے بعد وہ رات تو درد کے احساس کے ساتھ گزری کہ قوم کا ہر فرد اشارے کا منتظر ہے بتاؤ کیا کرنا ہے کچھ کہیں تو احساس تھا کہ نہتے نوجواں مار ڈالے جائیں گے ، کوئی اینٹی سوشل کام کچھ نہیں کرنا بھی ہے جیل بھردئیے جائیں گے ہر گھر میں صف ماتم بچھے گا ،، برسوں میں سنبھلے نوجواں راتوں رات صدیوں پیچھے دھکیلے جائیں گے۔کرب کی اس رات میں ہماری صبح خواتین کے شاہین باغ سے طلوع ہوئی ـ
ہمارا عالمی دن تو وہی تھا جب ہماری خواتین اپنی نسلوں اور خاندان کی بقا کے لیے میدان عمل میں اتر آئیں ہماری صبح تو اس دن طلوع ہوئی جب مسلم خواتین پر اٹھنے والے ہر سوال کا سراپا جواب پورے انڈیا کو دینے کے لیے ہر شہر ہر کو چے اور ہر گلے میں ایک شاہین باغ بن گیاـ
یہ جواب تھا ،مسلم خاتوں تعلیم یافتہ نہیں ہوتی ہیں۔یہ خواتین میڈیا پر بائٹ دے رہی تھیں سیاسی نکتے حکومت کو سمجھا رہی تھیں ۔
گودوں میں مسکراتی ہوئی بچیاں غماز تھیں کہ یہ کتنی چاہت سے بیٹیاں پالتی ہیں ۔
برقعہ انکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ حائل نہیں کرتا بلکہ انہیں علم کے میدان میں بھی آگے رکھے ہوئے بغیر کسی نقصان کے ۔
ہاں یہ باوجود تولیم یافتہ ہونے کے دہری ذمہ داریوں سے لدی ہوئی بھی نہیں ہشاش بشاش ہیں جب ان پر حکومت کے نئے بننے والے قانون پر کہا گیا کہ یہ خواتین ۔۔۔500 روپیئے کے لیے بیٹھیں تو بڑے طمطراق سے انہوں نے کہا کہ:ہم پانج ہزار اپنی گھر کی خانسماؤں کو دیتے ہیں ذرا گھرمیں آکر دیکھیں ۔
اس بات کی بھی تردید تھی کہ صرف نیو جنریشن پڑھی لکھی ہیں 90 اور 80 سال کی بوڑھیاں بھی اس شاہین باغ احتجاج کی روح رواں تھیں ـ
ہاں تواس سال خواتین کا عالمی دن ہندوستان میں مسلم شاہین بہنوں کے نام،جنھوں نے ایک نئی صبح کا آغاز کیاہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

1 comment

Rahat Ayesha 8 مارچ, 2020 - 03:23

بہت خوب!

Leave a Comment