دانش نقوی
عام طور پر متشاعرات بھی شاعرات کی طرح ہی ہوتی ہیں یعنی بظاہر ان میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا
یعنی متشاعرات بھی اوریجنل شاعرات کی طرح زیادہ خوبصورت بھی ہوسکتی ہیں کم خوبصورت بھی اچھے اخلاق کی مالک بھی ہو سکتی ہیں بد اخلاق بھی زیادہ میک اپ کی شوقین بھی ہو سکتی ہیں کم میک اپ کی بھی ـ
ایک عام انسان کے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہے جس کی بنا پر وہ فیصلہ کرے کہ مذکورہ کلام مذکورہ شاعرہ کا ہے بھی یا نہیں۔
سچائی جاننے کےلیے کافی ریسرچ اور مغز ماری کرنے کے بعد متشاعرات کی کچھ نشانیاں اکٹھی کی ہیں جو آج دوستوں کے ساتھ شئیر کرنے جا رہا ہوں اختلاف کرنا قارئین کا حق ہےـ
1 متشاعرہ کبھی بھی کسی شاعرہ سے اس حد تک دوستی نہیں کرے گی کہ اس سے کال پہ بھی بات ہو کیونکہ اگر اگلی اوریجنل شاعرہ ہو اور اس نے کال پہ شعر کے متعلق کچھ پوچھ لیا تو جواب کون دے گا؟؟؟
(کال پہ بات ہو بھی جائے تو شعر کے بارے بات نہیں ہوگی)
2وہ ہر وقت سنجیدہ کمنٹس کرے گی سنجیدہ پوسٹیں لگائے گی کیونکہ اس کے نزدیک شاعر ہونا کوئی ماورائی خوبی ہے جس کی بنا پر شاعر کو عام لوگوں کے سامنے سنجیدہ رہنا چاہیےـ
3 آپ کبھی بھی کسی متشاعرہ کی پوسٹ پر کمنٹ میں کوئی سوال پوچھ لیں اس کا جواب فورا نہیں ملے گا کیونکہ وہ "بھائی جان” سے پوچھیں گی اور "بھائی جان” آگے سے کچھ بتائیں گے تو ہی جواب ملے گا ناں۔
3اگر کاپی پیسٹ کرتے ہوئے کسی متشاعرہ کا شعر خارج از وزن ہوجائے اور آپ اسے بتا دیں گے کہ یہ خارج ہے تو وہ برا محسوس کر جائے گی اور "بھائی جان” سے پوچھ کر فورا آپ کو کوئی کرارہ سا جواب دے دے گی ـ
4متشاعرہ ہمیشہ صرف وہیں کمنٹ کرے گی جہاں اچھے اچھے شعرا نے کمنٹس کیے ہوں کیونکہ ظاہر اچھے شعرا برے شعر پر یا خارج از وزن شعر پر تو وااہ واااہ نہیں کریں گے ناں!
5 چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہوجائے لیکن متشاعرہ فی البدیہہ شعر کہنے کی حامی نہیں بھرے گی۔
6 اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ متشاعرہ نوجوان بھی ہو تو بھی اس کا کلام پرانے اسلوب کا ہوگا کیونکہ اس کے نزدیک بزرگ شعرا ہی اچھا شعر کہتے ہیں (تاہم نوجوان بھی اب پیش پیش ہیں)
7 زیادہ تر کلام ان کے اپنی حسن کی شان میں ہوگاـ
درج بالا نشانیاں مختلف قسم کی متشاعرات سے اخذ کی گئی ہیں ضروری نہیں کہ سبھی نشانیاں ہر ایک میں ہوں کسی میں دو کسی میں تین اور کسی میں تمام بھی پائی جا سکتی ہیں ـ واللہ علم
ستمبر 2019
یونائٹیڈ پروگریسو تھیٹر ایسوسی ایشن، میرٹھ نے ”اشوتھ تھاما ہتھو“ڈرامہ پیش کر کے دلوں کو جھنجھوڑ دیا
میرٹھ29/ستمبر 2019ء(پریس ریلیز)
میرٹھ کی معروف رنگ منچ تنظیم یونائٹیڈ پروگریسو تھیٹر ایسو سیشن ”اُپٹا“ نے ڈی۔این کالج،میرٹھ کے شنکر آڈیٹوریم میں ”اشوتھ تھاما ہتھو“ ڈرامہ پیش کیا۔ جس میں مہمان خصوصی کے بطور معروف سماجی کارکن سیٹھ دیا نند گپیا، مہمانان اعزازی سابق وزیر پربو دیال بالمیکی،اُمنگ اگروال، مہیش تیاگی اور معروف رنگ اداکار انل شرما شریک ہوئے۔ صدارت کے فرائض پروفیسر کے کے شرما اور نظامت کے فرائض ونود بے چین نے بحسن خوبی انجام دیئے۔ یہ ناٹک بھارت بھوشن شرما کی ہدایت اور پروفیسر اسلم جمشید پوری کی نگرانی میں تیار ہوا تھا۔ ناٹک میں اشوتھ تھاما کا کردار خود اُپٹا کے صدر بھارت بھوشن شرما، شری کرشن کا کردار سریندر شرما، یودھشٹر کا کردار ہیمنت گویل، دروپدی کا کردارروپالی، سنجے کا کردار دیپک جین، بھیم کا کردار نیشانت جورج، پگلی کا کردار پرینکا پال، کوئے کا کردار شاداب علی، (شعبہء اردو)نے نہایت اچھے ڈھنگ سے نبھایا کہ ناظرین کو بے ساختہ مہابھارت کی یاد آگئی۔ ”اُپٹا“ گروپ میرٹھ تھیٹر گروپ کا ایک ا یسامعروف نام ہے جس نے ڈراموں کے ذریعے ہمیشہ سماج کے اہم اور حساس موضوعات پر غور و خوض کرنے اور سماج میں بیداری لانے والے ناٹک کئے ہیں، مذکورہ ڈرامہ بھی دور حاضر کی بے راہ رو ہوتی سیاست کے تناظر میں تھا۔
اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سیٹھ دیا نند گپتا نے کہا اُپٹا گروپ اس اعتبار سے ایک اہم اور انفرادی گروپ ہے کہ وہ اپسی گٹ بندی سے دوررہ کرخاموشی سے سماجی خدمات انجام دے رہا ہے۔پروفیسر کے کے شرما نے اپنے صدارتی خطبے میں اُپٹا گروپ کے فنکاروں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ انکے کرداروں نے جو سما ں باندھا تھا وہ ہمیں مہابھارت کی یاد دلاتا ہے،اسی سے یہ بھی یاد ہوتا ہے کہ اُپٹا گروپ اپنے ڈرامے پیش کرنے سے پہلے سخت ریاض کرتا ہے۔
پروفیسر اسلم جمشید پوری نے اُپٹا کے ذریعے پیش کیے گئے ڈراموں پر تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ”اشوتھ تھاما ہتھو“ اُپٹا گروپ کے سابقہ روایت کی طرح عمدہ اور ناظرین کو جھنجھوڑ نے والا ڈراما ہے۔ ایسے ڈراموں کا اسٹیج کیا جانا آج وقت کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ میں خون بہانے کے بعد یدھشٹر کی ندامت کا اظہار یہ اور عیاری سے بولے گئے جھوٹ کا پیش خیمہ ہے۔انہوں نے مزید کہا ڈرامے ہماری زندگی کی سچائیوں کو پیش کرتے ہیں۔ پروفیسر بی ایس یادو نے کہا کہ اُپٹا گروپ نے پہلے بھی ہمارے آڈیٹوریم میں ڈرامے پیش کیے ہیں، میں محسوس کرتا ہوں اُپٹا کے ڈرامے عصری مسائل پر مبنی اور سماج میں بے داری لانے والے ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی یقین دھانی کرائی کہ اُپٹا کے سماجی مسائل پر مبنی ان ناٹکوں کے لئے ہمارے دروازے ہر وقت کھلے رہے نگے۔
اس موقع پر ڈاکٹر شاداب علیم، ڈاکٹر ارشاد علی،مدیحہ اسلم،ڈاکٹر مدھوشرما،سابق ایم ایل اے امت اگروال، ڈاکٹر وشال جین، ڈایرکٹرنوین گروپس، ڈاکٹر مینک اگروال،محترم آفاق احمد خان،شانتی ورما،انل کوشک اور متعدد طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔
ادارہ ادب اسلامی اور آئی ایف سی ریاض سعودی عرب کے زیر اہتمام ادبی نشست اورمشاعرہ کا انعقاد
ریاض (پریس ریلیز)ادارہ ادب اسلامی اور آئی ایف سی ریاض سعودی عرب کے زیر اہتمام ایک ادبی نشست اورمشاعرہ کا انعقاد عبد العزیز صاحب کی رہاش گاہ میں ۲۷ ستمبر کی شب ہوا،جس کی صدارت معروف افسانہ نگار تنویر تماپوری نے کی جبکہ نظامت کے فرائض منصور قاسمی نے انجام دئیے ۔مہمان اعزازی خواجہ مسیح الدین صاحب رہے ۔ عبداللہ نے تلاوت کلام پاک سے محفل کا آغاز کیا ، وسیم قریشی نے اپنا افسانہ ’’احساس ،، کے ذریعے بتایا کہ انسان تو انسان ہے، جانور وں کے ساتھ بھی ہمدردی اور انسیت کے ساتھ پیش آنا چاہئے ۔ زکریا سلطان نے فکاھیہ ’’گرینڈر،، میںسیل بٹہ کی ترقی یافتہ صورت سے آگاہی فراہم کی ۔جنید الرحمان کا افسانہ ’’درندگی کا مسلسل محاذ ہے قائم،، وحشی جانوروں کی انسانیت اور انسان کی حیوانیت کا عکاس رہا ۔ناہید طاہر کا افسانہ ’’شب دیجور ،،ان کے شریک ہمسفر طاہر بلال نے سنایا جو کے علامتی افسانہ تھا ،اس میں ننھی چڑیا کے پنجہء اجل میں جانے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔خواجہ مسیح الدین نے فکاہیہ ’’ رفیق حیات ،شریک حیات،،میںسیل فون کی حشر سامانیوں اور فتنہ پروازیوں پر دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی ۔ صدر نشست تنویر تماپوری نے اپنے خوبصورت افسانچے سنا کر سب کادل جیت لیا ۔ مختصر عشائیہ کے بعد شعری نشست کا آغاز ہوا جس کی صدارت ر یاض کے مقبول و مشہور شاعر ظفر محمود نے کی ۔ واضح رہے کہ یہ طرحی مشاعرہ تھا جس میں دو طرحیں دی گئی تھیں ’’ گیسو سے روٹھ کر خم گیسو کہاں گئے ’’ اور ’’ذرا سی لغزش سے توڑ لیتے ہیں سب تعلق زمانے والے ،،۔مشاعرہ میں شریک شعراء کرام کے منتخب اشعار نذرقارئین ہیں ۔
دیکھا ہے یوم عید لحد سے لپٹ کر وہ
کہتا تھا اک یتیم کہ ابو کہاں گئے
اسماعیل روشن
اخلاق کس وجہ سے مرا سب کو ہے خبر
اس کی خطا یہی تھی کہ وہ گوشت کھا گیا
امتیاز احمد
نہیں تماشا گری ہے آتی ہر اک کو لیکن یہ جانتا ہوں
ادا کے طلسم سے موہ لیتے ہیں من حقیقت چھپانے والے
ضیاء عرشی
جن کے اثر سے ہوئی تھیں مدہوش محفلیں
تیری نظر کے آج وہ جادو کہاں گئے
طاہر نسیم
گاؤں میں آ کے بس گئی شہروں کی زندگی
بچے سوال کرتے ہیں جگنو کہاں گئے
حسان عارفی
زر کی چمک میں کھو گئی اپنائیت کی خو
الفت کے وہ حصار ، وہ بازو کہاں گئے
سعید اختر اعظمی
تلوار کانپتی تھی کبھی جن کو دیکھ کر
اے نوجوان قوم وہ بازو کہاں گئے
سہیل اقبال
تڑپتے بچے بلکتی مائیں ، چلو درندو ! تمہیں دکھائیں
تمہارے گھر بھی جلیں گے اک دن غریب خانے جلانے والے
منصور قاسمی
بڑھتا ہی جا رہا ہے تغافل کا سلسلہ
وہ تیرے مان جانے کے پہلو کہاں گئے
طاہر بلال
رعنائیں تھیں رقص کناں جن کے فیض سے
جان نشاط بزم وہ مہ رو کہاں گئے
خواجہ مسیح الدین
خدایا مجھ کو تو ایسا نصیب کردے عطا
پڑے جو وقت تو میں ہر کسی کے کام آؤں
ظفر محمود
ناظم مشاعرہ کے کلمات تشکر کے ساتھ رات ساڑھے گیارہ بجے نشست اختتام پزیر ہوئی ۔
متاز ادیب و شاعر اور غالب بھارت انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر شاہد ماہلی کے انتقال پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے سیکرٹری صدیق الرحمن قدوائی اور ڈائریکٹر ڈاکٹر سید رضاحیدر نے اپنے شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاہد ماہلی جیسے متحرک اور فعال شخص کا ہمارے درمیان سے اتنی جلدی رخصت ہو جاناہم سب کے لیے کسی بڑے المیے سے کم نہیں ہے۔ تقریباً چالیس برسوں تک آپ غالب انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ رہےاور اپنی محنت اور دلچسپی سے غالب انسٹی ٹیوٹ کو بلند مقام پر پہنچایا بحیثیت ڈائریکٹرشاہد ماہلی نے کئی اہم قومی اور بین الاقوامی سمینار کا انعقاد کیا، خصوصاً بین الاقوامی سمینار میں پاکستان، ایران، تاجکستان، افغانستان، امریکہ، انگلینڈ اور دیگر ممالک کے اسکالرز غالب انسٹی ٹیوٹ تشریف لائے جس کی وجہ سے یہ ادارہ بین الاقوامی سطح پر شناخت حاصل کر سکا۔ آپ نے اپنی نگرانی میں غالبیات اور اردو زبان و ادب کے تعلق سے کئی اہم کتابوں کی اشاعت بھی کرائی ان کتابوں کو علمی اور ادبی دنیا میں کافی پذیرائی ملی۔ آپ کافی دنوں سے علیل تھے مگر اپنی علالت کے باوجود اردو زبان و ادب کو اپنی تحریروں اور تقریروں سے فروغ دیتے رہے۔ موت پر حق ہے اور ہر شخص کو اس کی گرفت میں آنا ہے مگر شاہد ماہلی کی موت ایک ایسا حادثہ ہے جسے بھلا پانا بے حد مشکل ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ایڈمنسٹریٹو آفیسر ڈاکٹر ادریس احمد، عبد التوفیق، یاسمین فاطمہ، محمد عمر اور پورے عملے نے اس موقع پر اپنے رنج و غم کا اظہار کیا۔ ہماری دعا ہے کہ پروردگار عالم ان کے لواحقین کو صبر دے اور ان کے درجات میں اضافہ کرے۔
ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی
نئی دہلی
ابو الکلام رحمانی صاحب پیشے سے معلم ہیں، البتہ اردو صحافت سے بھی ان کی گہری وابستگی رہی ہے ، اسی کے ساتھ ادب کی مختلف اصناف کے ساتھ ساتھ تحقیق و تصنیف سے بھی ان کا تعلق استوار رہا ۔ رحمانی صاحب کی تحقیق و تجزیہ اور انشائی ادب پر سات کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ اس وقت ان کے 23افسانوں کا مجموعہ ’ گناہ کی کھیتی ‘ میرے سامنے ہے ۔ افسانہ نگار نے اپنے گرد و پیش پھیلی سماجی نا ہمواریوں اور مذہب و سیاست کے چولے میں ملبوس دو رنگی چالوں کو بطورخاص اپنی کہانیوں میں سمونے کی کوشش کی ہے ۔ ذیل میں ان کے جملہ افسانوں کا ایک سرسری تجزیہ پیش ہے ۔
’ ہوئے مر کے ہم جو رسوا ‘ مجموعے کا پہلا افسانہ ہے ۔ اس کہانی میں تمثیلی پیرایے میں تقسیم ِ ملک کے کرب کا اظہار کیا گیا ہے۔ ’ نظروں کے دریچے میں نوجوانی کے الڑھ پنے کو بتایا گیا ہے ۔ ’خون کے رشتے ‘ میں جدید و قدیم تہذیبوں کا تصادم دکھایا گیا ہے ۔ ’گناہ کی کھیتی ‘ میں ایک سماجی حقیقت کو واشگاف کیا گیا ہے کہ ایک رئیس زادہ ایک غریب لڑکی کی عزت سے کس قدر کھلواڑ کرتا ہے اور اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیتا ہے؛ یہاں تک کہ لڑکی کو ماں بناکر کلنک کا ٹیکا بھی اس کے ماتھے پہ لگا دیتا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ اپنی باضابطہ شادی بھی کر لیتا ہے لیکن دو بچوں کی ماں بننے کے با وجود وہ غریب کنواری ہی رہتی ہے ۔ اس نا انصافی کے خلاف نہ کوئی ہندو کھڑا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مسلمان ، نہ کسی ایماندار و مالدار کو اس کی کوئی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی کسی دیندار کو ۔ افسانہ نگار ایک سوال قائم کر کے اپنی کہانی ختم کرتا ہے کہ ” آخر اس میں قصور کس کا ہے ؟ زہرہ کا یا افسر علی کا یا پورے سماج اور معاشرے کا ؟۔ ’ لا وارث ‘ میں بھی بڑے ہی لطیف انداز میں تحفظ ِ آبرو کے نام پر بے آبروئی کا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ ’ مہر فاطمی ‘ میں ان صاحبان ِ جبہ و دستار کو بے لباس کیا گیا ہے جو گفتار کے تو بڑے غازی ہوتے ہیں مگر کردار کی غازیت میں ان کی سطح صفر ہوتی ہے ۔ جہیز کی لعنت پر اس میں گفتگو کی گئی ہے ۔ ’ جنم جنم کے پھیرے ‘ میں سرسری ہی سہی تانیثیت کا راگ چھیڑا گیا ہے اور افسانہ نگار نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مرد اساس معاشرے میں عورتوں نے جب جب اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی ہے تب تب اس کی قیمت انھیں اپنی جانوں کی بھینٹ دے کر چکانی پڑی ہے۔ ’ افسانہ لکھ رہی ہوں ! ‘ دیگر افسانوں کے مقابلے ذرا طویل ہے اور بنت بہت ٹھوس ہے ۔ اس میں بھی جہیز کی بھینٹ چڑھنے والی حوا کی ایک بے بس بیٹی کا المناک قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ ’تماشہ ‘ میں آفات سماوی کے وقت مدد کرنے والوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایسے مواقع پر ایک گروہ کام کم کرتا ہے اور اس کی آڑ میں لیڈر بننے کی کوشش زیادہ کرتا ہے لیکن دوسری طرف ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو خالص اللہ کے لیے اللہ کے بندوں کی مدد کرتا ہے ، اس کے سامنے کوئی ہندو ہوتا ہے نہ کوئی مسلمان ، بس انسانی رشتے کی بنا پر وہ پورے خلوص اور تن من دھن کے ساتھ دوسرے انسان کی خدمت کرتا ہے ۔ ’ پُنر جنم ‘ افسانے کے علاوہ سب کچھ ہے ۔ اسے ایک انشائی مضمون یا رپورتاژ کے زمرے میں بھی رکھا جا سکتا ہے تاہم اسے افسانہ ماننے سے میرا اشہب ِ قلم منکر ہے ؛ ہاں اسے اردو زبان کی انتہائی البیلی اور اچھوتی سوانح عمری کا نام دیا جا سکتا ہے ۔’ سرخ سویرا ‘ میں بنگال کی اشتراکی حکومت کی منافقت کو بیان کیا گیا ہے ۔ فنی لحاظ سے یہ افسانہ انتہائی عمدہ اور قابل مطالعہ ہے ۔پلاٹ گٹھاہوا ، مکالمہ چست اور کہانی کا اٹھان فطری ہے ۔ ’میں اور تم ‘ میں انتہائی سرسری طور پر اشتراکیت اور مذہب کا ٹکراﺅ دکھایا گیا ہے ۔ ’ بٹوارہ ‘ اس کہانی میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ غلط فہمی سے کس طرح معمولی چنگاری شعلے کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور پوری آبادی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔ افسانہ اچھا ہے لیکن اسراف ِ الفاظ قدرے اکتاہٹ کا باعث ہے ۔ ’ دھوپ چھاﺅں ‘ میں ایک مختصر مگر پاکیزہ محبت کا بیان ہے ۔ ’ آئینہ ‘ میں دھرم پریورتن کے نام پر ہندو ﺅں اور مسلمانوں کو ٹھگنے والے پاکھنڈیوں کا پردہ فاش کیا گیا ہے ۔ ’ اور جب نقاب اٹھ گیا ‘ میں دو ایسے شخص کی کہانی بیان کی گئی ہے کہ ان میں سے ایک بظاہر انتہائی شریف النفس اور دوسرا رذیل دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت اس کے بر عکس تھا جس کا پردہ بہت بعد میں فاش ہوا اس لیے ہر چمکدار شئی سونا ہوجائے ضروری نہیں ۔ ’ خلیج ‘ میں فیملی پلاننگ پر روشنی ڈالی گئی ہے ، یہ عمل کس دھرم میں جائز ہے اور کس میں ناجائز ، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن جیتے جی بچوں کو بھوک سے تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے چھوڑ دینا تو کہیں بھی جائز نہیں ہے ۔ ’ میخانے سے مسجد تک ‘ میں بچوں کی بے جا حمایت اور مسجد جیسی پاکیزہ جگہ کا نماز کے علاوہ محض استنجا وغیرہ کے لیے غلط استعمال کو بتایا گیا ہے ۔ ’ ریزہ ریزہ زندگی ‘ جدیدیت سے متا ¿ثر ایک علامتی کہانی ہے۔ نہ سمجھے خدا کرے کوئی کچھ ۔ ’ سراب ‘ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ غربت اور مجبوری میں کیسی حسین و جمیل اور پڑھی لکھی لڑکی جاہل لڑکے کی بھیٹ چڑھ جاتی ہے ۔ ’ مقدمہ ‘ یہ ایک ڈرامائی افسانہ یا ڈراما ہی ہے ، اس میں کاتب ِ تقدیر کا ایک ماورائی دربار لگایا گیا ہے اور ایک بادشاہ سے اس کی سلطنت کے بارے میں بازپرس ہو رہی ہے اور نظام ِ مصطفی کے قیام کی کوششوں کی وجہ سے اسے شہیدوں کا درجہ عطا کیا جاتا ہے ۔ شاید جنرل ضیاءالحق کی طرف اشارہ ہے ۔ ’ میں بھی صاحب ِ کتاب ہوا ‘ اس مجموعے کی یہ سب سے لمبی تحریر ہے ، اسے بھی افسانہ کے بجائے انشائیے کا نام دیا جائے گا ۔ ادبی دنیا میں آج جو کچھ ہو رہا ہے اسے بڑی جرأت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ یہ انشائیہ محض ایک انشائیہ نہیں ؛ معاصر ادبی منظر نامے پر ایک تازیانہ بھی ہے ۔ ’ جھوٹ کا انعام ‘ افسانہ نگار کی یہ پہلی کہانی ہے جو ماہانامہ ” مسرت “ پٹنہ ، مارچ 1967میں شائع ہوئی تھی ، یہ ایک قدیم روایتی کہانی سے ماخوذہے اور بقول افسانہ نگار یہی کہانی بعد میں ان کی افسانہ نگاری کا زینہ ثابت ہوئی۔
ان افسانوں میں ’ لا وارث ‘ اور ’میں اور تم ‘ کو افسانے کے بجائے افسانچے کے زمرے میں رکھنا چاہیے ، اسی طرح ’ پُنر جنم ‘ اور میں بھی صاحب ِ کتاب ہوا ‘کو افسانے کی جگہ انشائیہ کہنا چاہیے ۔ مجموعی طور پر ان کہانیوں کا کینوس بہت وسیع نہیں ہے تاہم جو بات بھی کہی گئی ہے وہ بڑے سلیقے سے کہی گئی ہے ۔ ابو الکلام رحمانی کے افسانوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ بہت طویل نہیں ہوتے اور قاری بآسانی اسے پڑھ لیتا ہے بلکہ زبان کی شیرینی ایسی ہوتی ہے کہ کہانی خود کو پڑھوا لیتی ہے اور اختتام پر قاری کو ایک گونہ تشنگی کا احساس باقی رہ جاتا ہے ۔ان کہانیوں کا سب سے بڑا امتیاز ان کی تخلیقی زبان ہے ۔ زبان ایسی مانوس اور شستہ و رواں ہے کہ کہیں جھول محسوس نہیں ہوتا ۔ افسانے قابل مطالعہ اور افسانہ نگار لائق مبارکباد ہیں ۔
مشاہیر اکابرومعاصرین
مجموعۂ مضامین:مولانامفتی ظفیرالدین مفتاحی
ترتیب:مولانا احمد سجاد قاسمی
تبصرہ :نایاب حسن قاسمی
ماضی قریب کے باتوفیق اہلِ قلم علمامیں مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحی (1926-2011)کانام اہمیت کا حامل ہے۔مفتی صاحب کی چھ دہائیوںکو محیط عملی زندگی میں کافی تنوع تھا،انھوں نے ابتدادرس وتدریس سے کی اور ایک طویل عرصے تک اس عمل سے وابستہ رہے،مگر اس کے ساتھ ہی انھوں نے دیگر اہم علمی مشاغل سے بھی اپنا مضبوط تعلق رکھا۔خاص طورپربرصغیر کی عظیم دانش گاہ دارالعلوم دیوبندمیں ان کی خدمات کے نقوش نہایت تابناک و تواناہیں،وہاں انھوں نے نہ صرف تدریسی خدمات انجام دیں؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دارالعلوم کے کتب خانے کی ترتیب وتہذیب،دارالعلوم کے اولین مفتی ،حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی کے فتاوی کی تحقیق و تدوین اور ایک طویل عرصے تک تخصص فی الفقہ کے طلبہ کی تدریس اور فتاویٰ نویسی کے امور ان سے متعلق رہے،کم و بیش سترہ سال تک انھوں نے ماہنامہ دارالعلوم کی اداریہ نویسی کی خدمت بھی انجام دی۔اس طرح مفتی صاحب کی عملی زندگی نہایت مفید و بافیض رہی۔
ان کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایک محقق مصنف تھے اور زبردست قوتِ تحریر کے مالک تھے،اس راہ پر انھوں نے حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب،مفتی عتیق الرحمن عثمانی،پروفیسرمولانا سعید احمد اکبرآبادی،علامہ سید سلیمان ندوی،مولانا مناظر احسن گیلانی اور اپنے خاص استاذ ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی رہنمائی میں چلنا شروع کیا تھا،سو ان کے قلم میں نہ صرف علم ریزی،نکتہ وری،جزرسی اور تحقیق و تدقیق کا وصف پایاجاتا تھا؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فکر کا نور اور ذہن و دل کی پاکیزگی بھی ان کے ہم رکاب رہی،انھوں نے وقت کے سلگتے موضوعات پر سیکڑوں مقالات و مضامین لکھے،جو ہندوبیرونِ ہند کے رسائل و مجلات میں شائع ہوتے رہے،ان کے علاوہ مختلف اہم موضوعات پر انھوں نے مستقل کتابیں بھی لکھیں اورمولانا مناظر احسن گیلانی و علامہ سید سلیمان ندوی جیسے عباقرۂ وقت نے ان کی تحسین و تشجیع فرمائی۔ان کے ذوقِ تحقیق و تصنیف کو مہمیز کرنے میں ندوۃ المصنفین کے بانی مفتی عتیق الرحمن عثمانی جیسے مفکرِ وقت کا خاص دخل رہا،جنھوں نے اُس وقت مفتی صاحب کے مضامین ’’برہان‘‘جیسے معیاری رسالے میں شائع کیے،جب وہ تازہ تازہ میدانِ عمل میں وارد ہوئے تھے؛بلکہ ندوۃ المصنفین جیسے اس وقت کے مشہورطباعتی ادارے سے انھوں نے ہی ان کی پہلی باضابطہ تصنیف کی اشاعت کا نظم کیاتھا۔جو لوگ اعلیٰ ذہنی و علمی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور علم و قلم کے میدان میں کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں،ان کے لیے ابتدائی مراحل میں ایسے بڑے لوگوں کی حوصلہ افزائی سنگ میل کاکام کرتی ہے ، پھر وہ ساری عمر پیچھے مڑکر نہیں دیکھتے،مفتی صاحب کے حق میں ندوۃ المصنفین مشعلِ راہ ثابت ہوا، وہیں سے ان کے حوصلوں کو قوتِ پرواز ملی اور بعد میں ان کے قلم سے پچاس سے زائد کتابیں اور سیکڑوں مقالات منظر عام پر آئے۔
فی الوقت میرے پیشِ نگاہ ستر شخصیات پرلکھے گئے ان کے مضامین کا مجموعہ ہے،جسے ان کے فرزند محترم مولانا احمد سجاد قاسمی نے مرتب کیاہے۔کتاب کانام’’مشاہیر اکابر و معاصرین‘‘ہے۔کتاب کے دوحصے ہیں ،پہلے حصے کاپہلا مضمون بانیانِ دارالعلوم کے مرشدحاجی امداداللہ مہاجرمکیؒکی زندگی اور خدمات کے مختلف گوشوں پرمشتمل ہے اور قدرے مبسوط ہے،تیس صفحات کے اس مضمون میں نہ صرف حاجی صاحب کی زندگی کے اہم نقوش کو اجاگر کیاگیا ہے؛بلکہ ان کی علمی و تصنیفی خدمات کابھی تعارف کروایاگیاہے ۔دوسرا مضمون حضرت شیخ الہندکی علمی زندگی کی تصویر کشی کرتا ہے،اس میں مفتی صاحب نے تحقیقی انداز میں شیخ الہند کی علمی قدرو قیمت کو اجاگر کیاہے۔تیسرے مضمون میں بانی امارت شرعیہ ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد بہاریؒ کی مفکرانہ شان ،سیاسی بصیرت مندی اور ملی دردمندی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔چوتھامضمون دارالعلوم کے پہلے مفتی ،مفتی عزیز الرحمن عثمانی کے حالاتِ زندگی پر مشتمل ہے، کل35صفحات پر مشتمل ہے اوراس میں مفتی صاحب نے پیدایش سے لے کر وفات تک کے ان کے حالات کا احاطہ کیا ہے اور مفتی عزیز الرحمن عثمانی کی زندگی کاایک جامع مرقع پیش کردیا ہے۔ چھٹامضمون شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے کمالات کو بیان کرتا ہے،یہ مضمون اس اعتبار سے دلچسپ ہے کہ مفتی صاحب نے سنی سنائی باتوں کو دُہرانے کی بجاے اپنے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں مولانا مدنی کے علمی و عملی کمالات کا تجزیہ وتذکرہ کیاہے۔مولانا مناظر احسن گیلانی مفتی صاحب کے خاص ممدوحین میں سے تھے؛چنانچہ ان کی حیات و خدمات پر مفتی صاحب کی ایک مستقل کتاب بھی ہے،اِس کتاب کاساتواں مضمون انہی پر ہے،عنوان ہے’’علامہ گیلانیؒ‘‘۔اس میںمفتی صاحب نے اجمالی طورپر مولانا کے علمی و فکری کمالات،اخلاقی امتیازات اور مختلف خوبیوں کا اپنے مشاہدات کی روشنی میں جائزہ لیاہے۔ان کے علاوہ مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی،حکیم الاسلام قاری محمد طیب،امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی،مولانا حبیب الرحمن اعظمی،مولانا علی میاں ندوی،مولانا عبداللطیف نعمانی،امیر شریعت مولانا عبدالرحمن،مفکر ملت مفتی عتیق الرحمن عثمانی،مولانا ازہر شاہ قیصر،مولانا منظور نعمانی،مولانا محمد عثمان(نواسہ شیخ الہند)اورمولانا ارشاد احمد پر مضامین شاملِ کتاب ہیں،ان تمام مضامین کی خوبی یہ ہے کہ انھیں مفتی صاحب نے متعلقہ شخصیات میںسے زیادہ ترسے اپنے تعلقات ،مطالعات ،مشاہدات اور افادہ و استفادہ کی روشنی میں لکھاہے۔انھیں ان میں سے بیشتر بڑے لوگوں کی صحبت میں رہنے ،انھیںقریب سے دیکھنے،برتنے اورسمجھنے کاموقع ملا،ان میں سے زیادہ تر مفتی صاحب کے بھی بڑے تھے،جبکہ چند معاصرین کی صف کے اہل علم تھے۔
کتاب کے دوسرے حصے کو’’نقوشِ کارواں‘‘کا عنوان دیاگیاہے اوراس حصے میںاکیاون شخصیات پر شامل مضامین پہلے کے بالمقابل مختصر ہیں،اس حصے میں زیر تذکرہ شخصیات میں علما، دانشوران،سیاسی لیڈران اور قومی و ملی قائدین سبھی شامل ہیں۔مثال کے طورپراگر ایک طرف مولانا بدرعالم میرٹھی،علامہ ابراہیم بلیاوی،مولانا حمیدالدین،مولانا محموداحمد نانوتوی،مولانا عبدالصمد رحمانی،مولانا عامر عثمانی،مولانا فخرالدین مرادآبادی،مفتی شفیع عثمانی،مولانا یوسف بنوری،مولانا عبدالماجد دریابادی،مولانا محمد ادریس کاندھلوی،مولانا محمد میاںدیوبندی،مولاناامتیاز علی عرشی رامپوری،مولانا مصطفی حسن علوی اور دیگر علماکا تذکرہ ہے،تو دوسری طرف صدرجمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین،مصری حکمراں جمال عبدالناصر،قدآور سیاست داں ڈاکٹر سید محمود،سعودی سربراہِ مملکت شاہ فیصل،بشیراحمد ایڈووکیٹ اور بنگلہ دیش کے جنرل محمد ضیاء الحق جیسے سیاسی رہنماؤں پربھی شذرات لکھے گئے ہیں۔
مفتی صاحب کو جن لوگوں نے دیکھااورپڑھاہے،وہ جانتے ہوںگے کہ ان کے اسلوب میں ایک مخصوص قسم کی سادگی ہے،جو دراصل ان کی شخصیت کاپرتَوہے۔مفتی صاحب اپنی پرسنل زندگی میں بھی نہایت سادہ تھے،ان کا رہن سہن،روِش وپوشش اوراطوارواخلاق میں بے پناہ سادگی وبے تکلفی تھی۔وہ دیوبند میں اونچے درجے کے استاذاوربڑے مفتی تھے،مگر ان تک رسائی معمولی سے معمولی لوگوں کے لیے بھی بہت آسان تھی،ایک مخصوص نوع کی شان و شوکت اور ہماہمی جو عموماً بڑے لوگوں کا طرۂ امتیا زسمجھی جاتی ہے،اس سے وہ متوحش رہتے تھے،اسی کا عکس ان کی تحریروں پر بھی ہے،ان کی نگارشات میں بلا کی سادگی وبے ساختہ پن ہے،ایسالگتا ہے کہ وہ قلم برداشتہ لکھتے تھے اور لفظوں کی ترتیب،جملوں کی ترکیب میں انھیں کسی قسم کے تکلف وتامل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا،ایسا اس وجہ سے تھا کہ کم و بیش ساٹھ سال تک وہ مسلسل لکھتے رہے،تدریس اور دیگر مصروفیات کے باوجود ان کا قلمی سفرپوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا۔ سوانح نویسی میں تو ان کا قلم اور بھی رواں ہے،ان کے جملے چھوٹے چھوٹے اور عام فہم ہوتے ہیں،لفظوں کو موقع و محل کی رعایت سے برتنے میں انھیں حیرت ناک حد تک مہارت حاصل ہے۔وہ جملوں کی آرایش و زیبایش کی کوئی شعوری کوشش نہیں کرتے،جو خیال جس طرح ان کے ذہن میں آتاہے،اسی طرح اسے صفحۂ قرطاس پر اتاردیتے ہیں،مگر اس میں ایک خاص قسم کی شیرینی ہوتی ہے،ان کی تحریروں کی سادگی میں بوداپن نہیں ہے،انھیں پڑھتے ہوئے خشکی کا احساس نہیں ہوتا،طبیعت ملول نہیں ہوتی ،ذوق پربارنہیں محسوس ہوتا،ان کا قلم ایک موجِ خوش خرام کے مانند چلتا ہے اور قاری کواپنے ساتھ بہالے جاتا ہے۔پرتکلف طرزِ تحریر کے بالمقابل سادہ نگاری ایک مشکل کام ہے کہ اس میں ذراسی بے خیالی تحریرمیں ابتذال پیدا کردیتی اور وہ بہت جلد پامال ہوجاتی ہے۔مفتی صاحب کویہ کمال حاصل تھاکہ وہ سادہ ،مگر پرکشش لکھتے تھے۔میں نے ان کی خود نوشت ’’زندگی کا علمی سفر‘‘جو دوسوسے کچھ زیادہ صفحات پر مشتمل ہے،ایک نشست میں پڑھی ہے اور اس میں مفتی صاحب کے اسلوبِ تحریر کی اسی خوبی کا دخل تھا۔یہ کتاب ان کے اس اسلوب کی بھر پور نمایندگی کرتی ہے۔دوسری بڑی خوبی اس کی یہ ہے کہ اس میں مذکورشخصیات میں سے کئیوں پر بہت سے لوگوں نے لکھاہے،مگر مفتی صاحب نے اپنی دیدوشنید اور مشاہدات و تجربات کی روشنی میں ان شخصیات کی علمی و عملی زندگی کا جائزہ لیاہے،جس کی وجہ سے ان مضامین میں انفراد و امتیاز پیدا ہوگیا ہے اورمتعلقہ شخصیات پر بہت سی ایسی معلومات حاصل ہوتی ہیں،جو ان پر لکھی گئی دوسری تحریروں اور کتابوں میں نہیں ملتیں۔
دوسرے حصے کے تمام مضامین متعلقہ شخصیات کی وفات کے فوراً بعد ماہنامہ دارالعلوم میں شائع ہوئے تھے۔پہلے حصے کے مضامین ماہنامہ دارالعلوم کے علاوہ مختلف اوقات میں دیگر علمی و تحقیقی مجلات میں شائع ہوئے تھے،مولانا احمد سجاد نے ان مضامین کو جمع کرکے ایک بڑا کام کیاہے۔اس طرح نہ صرف مفتی صاحب کا یہ قیمتی تحریری سرمایہ محفوظ ہوگیاہے؛بلکہ مطالعہ و کتب بینی سے دلچسپی رکھنے والی نئی نسل کو ایک نعمتِ غیر مترقبہ مل گئی ہے۔کتاب اپنے مواد کے اعتبار سے جس قدر وقیع تھی،اس کی اشاعت بھی ویسی ہی عمل میں آئی ہے،ٹائٹل خوب صورت اور دیدہ زیب ہے اور عمدہ و معیاری کاغذپر طبع ہوئی ہے،کل صفحات 455ہیں ، قیمت 350روپے بالکل مناسب ہے۔مرکزی پبلی کیشنز دہلی نے اسے شائع کیاہے اورکتاب دہلی،ممبئی،لکھنؤاور دیوبند کے کتب خانوں سے بہ آسانی حاصل کی جاسکتی ہے، امیزون پر آن لائن بھی دستیاب ہے۔
فیاض احمدوجیہ
حقانی القاسمی دلی ایسے شہر میں جو بہ قول میرؔ عالم میںانتخاب ہے،آج بھی اس طرح ’رہتے ہیں‘ جیسے کسی گاؤں میں پیپل کی چھائوں۔اس مہانگر میں اکثر یہ خیال مجھے پریشان کرتا ہے کہ کوئی شخص کیسے اپنی لفظیات میں بیک وقت اتناکہنہ ہے اورجدید بھی۔ان کی خوشبو ،رنگ اور روشنی احساس،سطروں میں ان کا ذہنی اور نفسی وجود مجھے ایک ہی دکھائی پڑتا تھا،لیکن میری اس سوچ کو وصال ان ساعتوں میںنصیب ہوا جب میں نے ان کو اپنے بچوںکی ہنستی اور روتی ہوئی آنکھوں میں ’ماں ‘بنتے ہوئے محسوس کیا۔اُن ساعتوں کی سائکی میںتحیرکائنات کی خوشبو بھی تھی کہ ہنستی ،مسکراتی ،گنگناتی اور ملول ہوتی آنکھیں’ماں‘ کا عطیہ ہی ہوتی ہیں۔شاید انہی ساعتوں میں کسی لمحہ مجھ پر یہ رمزبھی منکشف ہوگیا کہ اس مہانگر میں اپنی پیشانی پر جو شخص دھوپ لیے نہ جا نے کب سے پھر رہا ہے ابھی تک اپنے گائوں کی دھول مٹی سے بھی کہاں نکلاہے۔اس کے بعد سے ہی میںبدن،مٹی اور ماں کی ایسی مقدس کتھائیں سن رہا ہوں جس کی سطریں گائوں کے پن گھٹ کی طرح ہی سچی ہیں ،اور جو کچھ بھی اس شہراورمہانگر میں اس کے مدمقابل ہے اس کی حیثیت Dancing Bear” "کی سی ہے۔اس کلچر میں کسی ایسے شخص کا وجود ہی تازیانہ ہے۔اس مصنوعی سماج کے سایہ میںزندہ رہنا شاید ہماری مجبوری ہے لیکن اس مقدس احساس سے الگ ہوکر ہم اپنی مجبوریوں کو موت کی گود میں سونپ دینا پسند کریں گے۔اس طورپر یہ واقعہ نہیں ہے کہ موت کی عذاب ساعتوں کا تسلط قائم ہو چکا ہے،لیکن یہ احساس تو ابدی ہے:
گویند مرا چو زاد مادر/پستان بہ دھن گرفتن آموخت/شب ھا برِگاھوارۂ من/بیدار نشست و خُفتن آموخت/دستم بگرفت و پا بہ پا بُرد/تا شیوۂ راہ رفتن آموخت/یک حرف و دوحرف بر زبانم/الفاظ نھاد و گفتن آموخت/لبخند نھاد بر لب من/بر غنچۂ گل شکفتن آموخت/پس ھستیِ من ز ھستیِ اوست/تاھستم و ھست دارمش دوست ——(نظم ’مادر‘)
ایرج میرزا(م:1926ئ)کی اس نظم کی تخلیقی سائکی بے پناہ ہے اور کہیں نہ کہیں اس میں وہ فطری تجربہ اور مشاہدہ سطح پرچلا آیا ہے جس کا شدید احساس حضرت انسان کو اس وقت ضرورہوتا ہے جب وہ خود اس رشتہ کی تقدیس وتجدیدکا شرف حاصل کرتا ہے۔وہ اپنے بچپن کی دھول مٹی میں اچانک اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور ایسے ہی کسی لمحہ میں اس کو کسی سایہ کی عظمت اُوڑھ لیتی ہے۔’رینو کے شہر میں‘ ھستیِ من ز ھستیِ اوست—— کا خالص فطری اورابدی تجربہ ایسے المیہ میں ڈھل گیا ہے کہ’ دل داغدار ماں کا مزار ‘بن گیا ہے ۔اسی تجربہ نے تھوڑی دھوپ اور اُوڑھی تو کائنات کا جمال بھی اس میں منقلب ہو گیا۔اس طوراحساس کی ایک نئی فرہنگ وضع ہوئی اورمعلوم ہوا کہ’ ماں کی قبر کی مٹی میں کائنات جمال کی جستجو ‘ہماری بھید بھری زندگی کا مقدس صحیفہ ہے ۔اس مقدس صحیفہ کی تشکیل اورپہلی قرأت حقانی القاسمی نے کی ہے۔اول تومٹی کا بھیدہی اپنی ماہیت میںعظیم ترین استعارہ ہے اور اس کے جمالیاتی وجدان میں خوشبو کا احساس(؟) شایدسلوک کی وہ منزل ہے جس کو باطن کی بینائی ہی محسوس کرتی ہے۔دراصل حقانی القاسمی نے اپنی سانسوں کو رات کے طویل سایہ میں تسخیر کیا ہے۔اس لیے ان کے ہاں وہی مشاہدہ ملتا ہے جو محمد حسین شہریار(م:1988ئ)کی ایک نظم—— ’ای وای مادرم‘کا تخلیقی کیف ہے۔ان کی اس طویل نظم کے بیانیہ میں ناستلجیائی احساس بھی گامزن ہے۔اس بیانیہ کا کردار بیمارہے ۔ اس کی نگہداشت اورتیمارداراس کی ماں ہے ،لیکن یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس کو ہم Dilemma کہہ سکتے ہیں۔دراصل اس Dilemma میںنشاط و غم کی اصل کیفیت اورٹریجڈی یوں نمایاں ہوتی ہے:
——’بردی مرا بہ خاک سپردی و آمدی؟‘/تنھا نمی گذارمت ای بینوا پسر/می خواستم بہ خندہ درآیم زاشتباہ/اما خیال بود/ای وای مادرم!
حقانی القاسمی نے بدن،مٹی اور اس عظیم ہستی کی جمالیات کو اپنے اندرون میں محسوس کیا ہے،اس لیے ان کا مسلسل احساس تخلیقی تجربہ میں ڈھل گیا۔یقین جانیے شکیل الرحمن کے جمالیاتی وجدان کے ادراک میں بھی روشنی اوراحساس کا یہ پہلاقطرہ فقط انتساب نہیں بلکہ جسم وجان کے اس عظیم سایہ کا ازلی گیت اور نوحہ ہے،ان کے ہاں ابدی موسیقی کی زبان مصوری میں ڈھل گئی ہے۔چوں کہ وہ ظاہری تشخص کی تہوں سے آزاد ہونے کے بعد بھی’ کسی‘ کی سانسوں میں مسلسل بسی ہوئی ہے۔ویسے اس شدت احساس کو TINCTURE OF MADNESSکہنے میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ اس کیفیت اور جذب و جنوںکو مہذب زبان کے کسی لفظ میں قید کرنا مجھ نارسا کے لیے محال ہے۔ایسے بھی یہ حضرت انسان کا شدید فطری رویہ ہی ہے کہ بہ قول صائب تبریزی (م:):
زگاھوارہ تسلیم کن سفینۂ خویش/میان بحر بلا در کنار مادر باش
حقانی القاسمی جمالیات کی تصریحات میں انفرادبھی اسی وجہ سے رکھتے ہیں کہ انہوں نے بدن،مٹی اور اس کے تحیرات میں کئی راتوں کا مسلسل سفر کیا ہے۔اس سفر کو حالت جنوں میں ہی طے کیا جاسکتا ہے ورنہ دن کی عذاب آنکھوں میں سطریں طلوع ہوتی ہیں اورنہ ہی بدن کا کوئی عضوہی سالم رہتاہے۔دن کا سایہ ایسا طویل ہے کہ ہر مسافت کے بعد کوئی نہ کوئی ٹوک دیتا ہے اور لفظوں کی پیشانی کی پروا کیے بغیر اپنی ڈراونی اور بے ہنگم آواز میں مسلسل پکارتا ہے اس آوارہ ذہن کو جلا وطن کرو——جلاوطنی ایسے ہی ذہنوں کا مقدرہے، حقانی القاسمی نے اس جلاوطنی کی پرستش کی ہے اس لیے ان کے ہاں دن اور رات کا مطلق وجود نہیں ملتا۔ان کی سوچ بھر سطروں، پر کان دھرنے کے لیے سماعتوں کا ’جوگی‘ ہونابھی ضروری ہے چوں کہ انہوں نے تحیرات کی کروٹوں میں الکھ جگایا ہے۔ان کروٹوں کو محسوس کرنے کے لیے بھی یک گونہ بے خودی درکار ہے۔ہم دن اور رات کے جس سایہ میں قید ہیںاس کا اپنا وجودہی جھوٹ ہے ایسے میں تحیرات کے ان ارتعاشات کا گزربھی کیسے ہو سکتا ہے۔ان تحیرات کو حقانی القاسمی نے اپنی قرأت کا مسلسل شیوہ ہی نہیں بنایا بلکہ جمالیات کے عظیم ترین سیاح شکیل الرحمن کے ہاں دریافت بھی کیاہے۔ہمارے ہاں جمالیات کی کوئی بھی بوطیقاان ذہنوں کو عنوان کیے بغیراپنے معراج سے محروم رہے گی۔دراصل یہ وہ شعریات نہیں جس کو ہماری فارمولہ تنقید مختلف عنوان میں پیش کرتی رہی ہے۔یہ نئی تنقید کا وہ اسلوب ہے جس کاجوہر فکشن اور فکشن کی سچائی ہے۔فکشن کی اس سچائی میں روزاول کی کہانی بھی شامل ہے اور ان ارتعاشات کی نایاب خوشبو بھی جن کو ہم اساطیر،لوک کتھااور تحیرات عشق کی مسلسل شکلوں میں دیکھ سکتے ہیں۔اس فکشن کی ایک بڑی سچائی مشرقی شعریات ہے لیکن مغربی شعریات سے اس کوگریز بھی نہیں۔ان باتوں کوحقانی القاسمی کے ہاں ملاحظہ کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ان کا ذہنی وجود نہ صرف اُن روایات سے چراغاں ہے بلکہ عربی شعریات،فارسی شعریات اور انگریزی شعریات کے علاوہ سائنسی علوم کے طبعیات اور حیاتیات کا جمالیاتی ادراک بھی ہے۔حقانی القاسمی کے اس تشخص کا تعین ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ شکیل الرحمن ایسے زیرک نقاد کی تصریحات میں کوئی دوسرا ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔چنانچہ نقد شکیل کی قرأت اس ’جوگی‘ کے ہاں بامعنی نظرآتی ہے۔ اس کے باوجود حقانی القاسمی ’در تہہ ہر حرف…‘میں لکھتے ہیں:
بڑی ہستیوں کا ذہنی نظام بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔ان کے جملہ ذہنی زاویوں کی تفہیم وتعبیر آسان نہیں ہے۔شکیل الرحمن کے تعلق سے تو یہ مشکل اوربھی بڑھ جاتی ہے کہ ان کے ذہنی تجسس اورتحرک نے ایک ایسا منطقہ دریافت کیا ہے جس کی منطق اردو کی عمومی تنقیدی روایت اور روش سے مختلف ہے۔
یہاںبہت سی باتوں کی ظاہرداری کے علاوہ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ نقد شکیل کا علمیاتی زمرہ ان متون میں خفی ہے جن کی قرأت اُردو میں بہت کم قائم ہوئی ہے۔دراصل اس کی مرتب اور غیر مرتب شعریات اس کائنات کا وہ عظیم واقعہ ہے جب ابھی پہلی دفعہ مرد نے عورت کو چھواتھااوراپنے ہی بدن کے تحیر میں ان کی آنکھیں سراپا حیرت تھیں۔اُن آنکھوں کی ہنسی اس شعریات کی پہلی کڑی تھی تو اُن کے آنسو اس شعریات کی ایک دوسری کروٹ۔اس تحیر آمیزسفر کا آغاز بدن سے ہوا اورکائنات کے ہرذرہ میں اس نے اپنے آہنگ کی دریافت کی اور ایک بار پھر اس سفر کامرجع بدن ہی قرار پایا۔اس مسلسل عمل کو مؤرخوں نے شماریات کی قواعد میں محفوظ کیا تو خلاق ذہنوں نے مصور اسلوب میں کوہ کنی کی، شاید اسی لیے تحیرات عشق کی کہانیاں تاریخ کی شماریات سے اکثرسچی معلوم ہوتی ہیں۔ہماری تنقید اپنے قالب میں ان باتوں سے اجنبی ہے کہ اس کی کل قواعد لفظوں کی ظاہری پیشانی سے مرتب کی گئی ہے۔اس میں Eternalization of thoughtکی گردان کو بھی خاصا دخل ہے۔ماضی قریب میں وزیرآغااورگوپی چندنارنگ ایسے نقادہیں جن کے مضامین(نظم/فکشن)میں لفظوں کے تحیرات کا درشن ہوتا ہے۔بلاشبہ ان تحیرات میں ہی جمالیات کا گزرہوا ہے۔گوپی چند نارنگ کے فکشن اساس مضامین کے مطالعات میںکتھا کہانی،اساطیر ،بدن کی سائکی اور بدن کے مصورمتون کے جمالیاتی سیاق کو محسوس کیا جا سکتاہے۔لیکن شکیل الرحمن اس مصور اسلوب کے سیاح اعظم ہیں کہ انہوں نے مثنویات/منظومات/بیانیہ غرض فنون لطیفہ کی ہر عبارت کو جمالیات کی ہمہ گیر اور مخصوص منطق میں قائم کیا ہے۔اس لیے حقانی القاسمی کا یہ مفروضہ محض نہیں کہ نقد شکیل کی منطق اردو کی عمومی تنقیدی روایت اور روش سے مختلف ہے۔شکیل الرحمن کی شعریات میں اس بات کو یوں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ ان کے ہاں تخلیقی متون کی قرأت ہرآن بدلی ہوئی نظرآتی ہے۔
شکیل الرحمن کی تنقید مشرقی شعریات کا اہم ترین حوالہ اس لیے بھی ہے کہ اس میں قدیم متون کاچہرہ اکثر روشن ہوگیا ہے۔یہ نقدشکیل کی تخلیقیت ہی ہے کہ اس میں فکشن کے لغوی مفہوم کو شدید نقصان پہونچاہے۔بدن اور مٹی کی تہوں میں اُترکر انہوں نے ہر اس آنچ کی شدت محسوس کی ہے جن کو مٹی اپنی کوکھ میں لیے کب سے پھر رہی تھی۔اس آنچ کی حرارت میں حقانی القاسمی نے سات قدم طے کیے ہیںاس لیے مجھ ایسے قاری کے حضوربھی اس کی سیاہ بوندیںشایدروشن ہوگئی ورنہ ان تحیرات کے ارتعاشات کی جلی عبارتوں میں بھی بھید بھری باتیں ہیں۔نقد شکیل کے تناظرات میں حقانی القاسمی کی غواصی کچھ یوں نمایاں ہوتی ہے:
}بین علومی مطالعات
}جمالیاتی اوصاف کا اظہار/اطلاقی جمالیات کی بلند ترین مثال
}تخلیق کے داخلی جمالیاتی تحرک کی تلاش
}شکیل الرحمن کی تنقیدبھی فکشن ہی ہے کہ یہی تنقید کا نقطہ عروج ہے۔
}شکیل الرحمن کی تنقیدمیںفکشن کے جوہر ہیں بالکل اسی طرح جیسے غالب کی اردو نثر میں داستانیت۔
}ان کی تحریروں سے جمالیاتی انبساط کے ساتھ ساتھ قاری کا کرہ علم وسیع سے وسیع تر ہوتا ہے۔
}شکیل الرحمن کی مطالعاتی وسعت اور تنقیدی فکر کی عظمت کی پہچان ان قدیم تصورات کی تعبیروتفہیم سے بھی ہوتی ہے جن سے اکثر اہل اردو ناآشنا ہیں۔
}شکیل الرحمن کی نے اساطیر کا مطالعہ اس کی کلیت اور وحدت کی تلاش کے لیے کیا ہے جو کائنات انسانی کی اساس ہے۔
}اسطوری اصطلاح میں نقد شکیل کو ’میتھن تنقید‘کہہ سکتے ہیں کہ اس میں متن اور مطالعہ اور تخلیق وتعبیر میں مکمل ہم آہنگی ہے۔
}انسان کی شعوری اور لاشعوری کیفیات کو مرتعش کرنے والی ایسی تحریریں اردومیں نہیں کے برابرہیں۔
}یہ محض ایک جمالیاتی مطالعہ نہیں ہے بلکہ عمرانیاتی اور ثقافتی علوم سے آگہی کا بھی ایک وسیلہ ہے۔ثقافتی مطالعات کے باب میں بھی ان کی تحریریں ان منزلوں تک پہچاسکتی ہیںجہاں ثقافت مرکوز مضامین بھی پہچانے سے قاصر ہیں۔
ان باتوں کے سیاق و سباق میں جائیے تو اندازہ ہوگا کہ جمالیات کا کرۂ علم کتنا وسیع اور ہمہ گیر ہے اور شکیل الرحمن اس سے کس قدر گوہر آب دار چن کرلائے ہیں۔بات یہ ہے کہ حقانی القاسمی نے اپنے مطالعات میں جنسی عمل ایسی ڈھٹائی اور ارتکاز کا ثبوت دیا ہے اس لیے زاویہ ہائے نظر کی صورتیں مل جا تی ہیں،یعنی ایک ہی وقت میں غیاب کی ان تہوں کا نظارہ جس کی ایک تہہ میں بھی اُترنا مشکل ہے۔
شکیل الرحمن کی تنقیدی رہ گزر وہ بھی نہیں ہے جو سیدھی حالی تک پہونچتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں ماخوذیت اور مستعاریت کا میلان نہیں ہے جو کہ آج کی تنقیدی عمومی روش ہے۔
حقانی القاسمی کی ان باتوں میں بت شکنی کا عمل ضرور ہے لیکن یہاں جذباتیت نہیں ہے۔دراصل انہوں نے ہماری تنقید کے اس سچ کو بیان کیا ہے جس کے پس پردہ یہ رجحان نظر آتا ہے کہ مطالعات اور مشاہدات کی نفی کرتے ہوئے کہیں نہ کہیں اپنے شخصی اور نفسی وجود کی نفی کی گئی ہے۔
حقانی القاسمی بعض جگہوں پر گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن ان علوم سے ذراسی بھی آشنائی کے لیے اُردو میں——’زبان ،فرہنگ ،اسطورہ [ژالہ آموزگار]،’فرھنگ اساطیر[محمد جعفریا حقی ]ایسی کتابیں بھی موجود نہیں اور نہ ہی ان کتابوں سے استفادہ کرنے والے اذہان ہی ہیں۔اس لیے ان کے اسلوب نقد کی نُکیلی سطریں بھی اپنا جواز رکھتی ہیں۔
l
نقدشکیل کی تصریحات میں حقانی القاسمی نے سات قدم طے کیے ہیں اور ان کا پہلا ہی قدم حافظ شیرازی کے جمالیاتی نگارخانہ میں نظر آتا ہے۔جن کے فنی مشاہدہ کے بارے میں کم سے کم ہم یہ جا نتے ہیں:
استادغزل سعدیست پیش ہمہ کس ھمہ/لیکن دارد غزلِ حافظ طرز و روشِ خواجو
نہ دیدم خوشتر از شعرِ تو حافظ/بہ قرآنی کہ اندر سینہ داری
حقانی القاسمی نے ان کے جمالیاتی نگار خانہ کی سیاحت کی ہے اور ان کی مظہریت پر لبیک کہا ہے ،اس لیے ان کی شاعری کو انہوں نے Ethereal beauty قرار دیا ہے۔ان کے اس سائنسی انکشاف میں ان کی شاعری کا بھید ہم پر زیادہ کھلتا ہے ۔اس طور پر حقانی القاسمی نے یہ احساس دلایا ہے کہ حافظ کے ہاں جمالیات کا اندرون کتنا بھید بھرا اور کیفیات و جذبات کا کیسامرجع ہے۔حقانی القاسمی کے مطالعات کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ کسی بھی متن کی تعبیر میں اپنے ذہنی وجود کو ضرور ٹٹولتے ہیں اور اس کے تکملہ میں ہی کسی کی باتوں پر کان دھرتے ہیں۔یہاں بھی انہوں نے کلام حافظ کے مطالعات کا درشن پہلے کیا ہے اس کے بعد شکیل الرحمن ایسے صاحب اسلوب نقاد کے اثبات میں قدم اُٹھایا ہے۔جس Ethereal beauty کا ذکر ابھی کیا گیا ہے اس کو نقد شکیل کی زبان میں انہوں نے اس طرح نقل کیا ہے:
جس خوشبو سے کبھی جھرجھری سی ہوتی ہے اور کبھی نسیم سحر کا سرور ملنے لگتا ہے۔جسم پر نشہ سا طاری ہوجاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ احساس کی اس جمالیات کو نفسی وجود کے عرفان اور مشاہدہ کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔
اس مضمون کے مطالعہ میں کہیں ایسا نہیں لگتا کہ حقانی القاسمی کلام حافظ کو شکیل الرحمن کی تعبیرات میں پیش کررہے ہیں ۔دراصل اس نوع کے مضامین میں حقانی نے متن کی گویائی،قاری کے مکاشفہ اور شکیل الرحمن کی تفہیمات کو اس طرح تحلیل کیا ہے کہ جمالیات کی وحدت نہ صرف روشن ہوگئی ہے بلکہ نقد شکیل کا انفرادی اسلوب بھی واضح ہو گیا ہے۔ایک طرح سے یہ مطالعہ بین علومی بھی ہے اور بین قرأت بھی۔
انہوں نے جہاں بھی نقد شکیل کی قرأت کی ہے کم وبیش ہر جگہ نقد شکیل کی مسلسل منطق میں ایک نئی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔اسی وجہ سے یہ کہنے کی پوری گنجائش ہے کہ نقد شکیل کی حقانیت، دراصل قرأت کی مسلسل منطق ہے جس میں متن اور قرأت کی سائکی کا انعکاس کسی تحدید کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔اس تنقید میں تاثرات نہیں بدن کی ہر آن بدلی ہوئی خوشبو ہے اس لیے ان کے ہاں اطلاقی تنقید کی صورتوں میں بھی شخصیت پرستی کا رجحان نہیں ملتا۔حقانی نے کلام حافظ اور نقد شکیل کے عرفان میں کسی بھی نوع کی دوئی کو پیدا نہیں کیا ہے۔انہوں فکشن کی حقانی مصطلحات میں اپنی تنقید لکھی ہے اس لیے اکثر جگہوں پر ’نامانوس‘ لہجہ کا گمان ہوتا ہے حالاں کہ یہ وہ اسلوب ہے جس کی تشکیل میں لفظوں سے زیادہ بدن کی ان تہوںکو دخل ہے جو صدیوں سے مٹی کا کرب اُٹھائے پھر رہی ہیں۔حقانی اپنی آنکھوں میں دور تک سفر کرتے ہیں اس لیے ان کے ہاں اس طرح کی باتوں پربھی شک نہیں ہوتا:
شکیل الرحمن نے حافظ کے خیال کی خلوت میں داخل ہوکر ان نکات کو تلاش کیا ہے جو حافظ سے ہی مختص ہیں۔انہوں نے حافظ کی اختراعی اور ابتکاری فکری جہتوں کا اس طرح اکتشاف کیا ہے کہ حافظ ،ان شارحین سے الگ شکل و صورت میں رونما ہوتے ہیں جنہوں نے حافظ کے کلام کی تشریح و تعبیرتو کی مگر ان کے شعری تخیل کی بازگشتPoetic Resonanceکو اپنے باطن میں محسوس نہ کرسکے۔شکیل الرحمن نے اپنے قلب میں حافظ کی اس قلقل مینا کو محسوس کیا ہے،اس لیے حافظ کو ایک نئی شکل دی ہے،بالکل مختلف اورمنفردشکل کہ شعر حافظ سے ایک والہانہ شیفتگی سی پیدا ہو جاتی ہے۔
یہاں بہت سی باتوں کے ذیل میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حقانی القاسمی تنقید کی اس فطرت کے داعی ہیں جو تخلیقی متون کا جمال ہوتے ہیں، یعنی تنقید اسی وقت بامعنی ہو سکتی ہے جب وہ تخلیق کے احساس میں ڈھل جائے۔نقد شکیل کی اسی خوبی کو انہوں نے شکیل الرحمن کا انفراد قرار دیا ہے۔اسطور کی زبان میںتخلیق و تنقیدکے اس ملاپ کو جنس کی معراج یعنی ’ میتھن ‘کہتے ہیں۔دراصل تنقید تجسس سے زیادہ سمبھوگ کے تحیر میں زندہ رہتی ہے۔اس لیے ان کے ہاں یہ محسوس ہوتا ہے کہ تنقید تخلیقی جذبوں کو زبان دیتی ہے۔تخلیقی جذبوں کو زبان دینے کا عمل فقط لسانی رویہ نہیں ہے بلکہ اس رقص ِمسلسل میں تحیرات بدن کی لہریں اکثر بلند ہوتی ہیں ۔
جنسی توانائی میں شونیہ کا احساس شکیل الرحمن اور حقانی القاسمی کو اس طور سے ہوا ہے کہ کائنات کا ہر ذرہ ان کے ہاں جمالیات کی وحدت میں ڈھل گیا ہے۔دراصل ہمارا وجود پرچھائیں ہی ہے جس کو جنس کے مقدس لمحات میں تسخیر کیا جاتا ہے۔اپنے بدن سے گزرنے کا یہ عمل فطری ہے لیکن اس کی ’تحدید‘ ان ذہنوں کا مقدر ہے جن کے تخیل میں تازہ خون’ نہیں‘ ٹپکتا۔نقد شکیل کی حقانیت تخیل کے تازہ خون کی بوندیں ہیں۔چنانچہ متن کی ظاہرداری میں جو مثلث نظر آتا ہے وہ اپنی فطرت میں تخیل کی لہریں ضرور ہیں لیکن ان لہروں کی مصوری میں خون کی بوندوں کاشمار بدن کو اپنی مٹی اور آتما سے الگ کرنا ہے۔
اس مضمون کے درون میں یہ بات شدت سے محسوس کرنے کی ہے کہ انہوں نے شکیل الرحمن کے تنقیدی جمال کو حافظ کے تخلیقی جمال میں دریافت کیا ہے۔حقانی القاسمی نے اپنے مضامین میں کئی طرح کے تجربے کیے ہیں اس مضمون میں بھی انہوں نے دیوان حافظ کی ابجدی ردیف کے التزام کی کوشش کی ہے اس کے باوجودکو مضمون کو متن کے تہذیبی سیاق اور اپنے مشاہدہ سے کہیں الگ نہیں ہونے دیا ہے۔ان کے ہاں اکثر نئی زمینوں کی تلاش کا عمل نظر آتا ہے اس لیے ان کے تخیل کے دائرہ کار میں جس نوع کی بھی لفظیات درآئی ہیں اس سے سرسری نہیں گزرا جا سکتا۔
l
اُردوفکشن میں پریم چند کا وجود تاریخی اور کسی قدر فکری بھی ہے حالاں کہ ان کے فنی رموز کو ہماری تنقید نے اپنے قالب میں جگہ نہیں دی۔دراصل قمررئیس ایسے نقاد ماہر پریم چند شمارکیے گئے۔واقعہ یہ ہے کہ پریم چند پر جتنے بھی اچھے مضامین لکھے گئے وہ سب کسی ماہر پریم چند نے نہیں لکھے۔(مثلاً گوپی چند نارنگ کا مضمون ’افسانہ نگار پریم چند[تکنیک میں آئرنی کا استعمال ]اس باب میں یاد گار ہے )اس لیے آج بھی پریم چند کے فکری سروکار کو ایک خاص عنوان میںاہمیت حاصل ہے ان کے فنی سروکار خواہ اس کی صورت بہت اچھی نہیں دیکھنے تک کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی۔بعض ایسے ہی محسوسات کی ترجمانی میں حقانی القاسمی لکھتے ہیں:
شکیل الرحمن نے اس پریم چند کو تلاش کیا ہے جس کی زندگی صحیفہ اخلاق نہیں ہے اور نہ ہی جس کی شخصیت ایک سیدھی لکیر ہے۔
اس بیان کے درون میں یہ بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ شکیل الرحمن کے ہاں پریم چند کی نفی سے پریم چند کا ظہور ہوا ہے ۔اس طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ جمالیات Eternalization of thoughtکے خلاف بھی ایک علمی رویہ ہے۔ حقانی القاسمی نے پریم چند تنقید کی صورتحال اوراس تعلق سے نصابی تنقید کو ان لفظوں میں نشان زد کیا ہے:
پریم چند کے باب میں یہ بھی عجب المیہ ہوا کہ ایک سیدھے سادے ہندوستانی اسکول ماسٹر کی تخلیق کے اسرارورموز،عصرجدید کے جیدپروفیسران بھی سمجھنے سے قاصر رہے تو پھر معمولی درجے کے پروفیسران کی بساط ہی کیا ہے۔اس لیے وہ منشی پریم چند کے ناولوں میں ہندوستان کی معاشرت ،تاریخ اور تہذیب ہی تلاش کرتے رہ گئے۔خارجی عوامل پر نگاہ کو اس قدر مرکوز کر دیا کہ داخلی کشمکش اورتصادم کو فراموش کر بیٹھے اور اس طرح ایک بڑا فن کار چھوٹے فریم میں قید ہوتا گیا۔
ان باتوں کو نشان زد کرتے ہوئے حقانی اُردو تنقید کی موہوم کمر کی طرف اشارہ نہیں کررہے ہیں ،اصل میں وہ نقد شکیل کے ان نشانات کو پیش کررہے ہیں جن سے پریم چند کی شناخت ہوتی ہے۔’فکشن کے فن کار پریم چند‘شکیل الرحمن کی ایسی کتاب ہے جس میں اردو تنقید کی صورتحال کا خوب خوب تجزیہ کیا گیا ہے اور ایک فن کار کے باطن کو براہ راست ٹٹولا گیا ہے۔اس کتاب کے مطالعات سے حقانی نے جن سطروں کو عنوان کیا ہے اس کے مندرجات کو کوئی بھی باذوق قاری نظر انداز نہیں کرسکتا:
}فن مقدم ہے،موضوع نہیں۔
}اصلاحی نظریہ حاوی ہوجاتا ہے ،فنکاری دب جاتی ہے۔
}موضوعات اور خارجی حقیقتوں کا بیان آرٹ نہیں بن سکتا۔
}خارجی حقائق اصل نہیں ہیں ،خارجی سچائیاں بدلتی رہتی ہیں۔
}اصلاحی مقصد سے ناول بڑا نہیں بن جاتا۔
}پریم چند کے ناول میں کرداروں کی تشکیل میں کمی ہے۔
}مکالموں میں تصنع ہے۔
}پریم چند جب بھی ماہر اخلاقیات بنے ہیں ،فکشن میں ان کا المیہ سامنے آیا ہے۔
}المیہ کے داخلی حسن کی تلاش ضروری ہے۔
اس طرح کی بہت سی باتیں جو نقد شکیل کا وجودی آہنگ ہیں ان کو عنوان کرتے ہوئے حقانی القاسمی نے پریم چند تنقید کی بت شکنی میں حصہ لیا ہے اور یہ باور کرایا ہے کہ کسی بھی ادب اور آرٹ کا مطالعہ تخلیقی نظام کے ہر ہر پہلو کا اکتشاف ہے ورنہ تنقید نہ صرف موہوم ہوگی بلکہ فن کا داخلی پورٹریٹ بھی ابھر کر سامنے نہیں آپا ئے گا۔حقانی القاسمی نے بہت واضح لفظوں میں لکھا ہے:
پریم چند کی تمام تخلیقی لہریں ،شکیل الرحمن کی تنقیدی فکر کا حصہ بن گئی ہیں اور یہی لہریں پریم چند کے احساس واظہار کے داخلی حسن کو نمایاں کرتی ہیں۔
اس طرح ا ن کے ہاں پریم چند کی جیسی بھی تصویر بنتی ہے اس کو قبول کرنا اور تفہیم و تعبیر کے دائرہ کار میں لانا ایک پریم چند کو رد کرنا ہے تو ایک نئے پریم چند کو محسوس بھی کرنا ہے۔
l
حقانی القاسمی کے مطالعات میں تخلیقی متو ن کا اکتشاف اصل میں تخلیقی جرثومہ کی تلاش وجستجو سے عبارت ہے ۔اس لیے ان کے ہاں تنقید سحرانگیز فکشن کے قالب میں بھی نظر آتا ہے ۔اس فکشن میں تخلیقی جمالیات کا صیغہ اپنی توانائی میں پیدا ہوتا ہے ۔اس کی ایک ساخت یوںبھی متشکل ہوتی ہے کہ نئی لفظیات اور اصطلاحات سے تنقیدی جمالیات کی بوطیقا’نامانوس‘ آہنگ اور فرہنگ میں ڈھل جاتی ہے اور کہیں نہ کہیں اس آہنگ میں ہمارے تخیل کا دائرہ نئی جہتوں میں صیقل ہوتا ہے۔اُردو تنقید میں یہ آہنگ ایک نوع کا اضافہ ہے ۔اس طورپر کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ہاں تصریحات کی منطق اپنی قرأت میں بے حد انفرادی ہے۔ان کے تجربات ومشاہدات سے یوں ہی گزرا نہیں جا سکتا کہ انہوں نے تخلیق کی تہوں میں اُتر کر علمیات کا تخلیقی صیغہ اور اپنے وجود کا خفی استعارہ اسالیب نقد میں دریافت کیا ہے۔اس لیے جب وہ شکیل الرحمن کی جمالیات میں غوطہ زن ہوئے ہیں تو انہوں نے ان کی تنقید اور تخلیقی متون کے مابین اپنے نفسی اور ذہنی وجود کو بھی ٹٹولا ہے ۔حقانی القاسمی کا یہ رویہ ان کی تنقید میں اس قدر نمایاں ہے کہ بعض دفعہ گمان ہوتا ہے کہ انہوں نے تفہیم وتعبیر کے محاورات ہی بدل دیے ہیں۔بلاشبہ اس نئے آہنگ کو قبول کرنا اُن ذہنوں کا مقدر نہیں جن کے تخیل کا محور ہی مشکوک ہے۔کسی بھی مطالعات میں مصنف کے ذہنی وجود سے زیادہ اپنے نفسی وجود کی تلاش ہی تنقیدی جمالیات کی بوطیقا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے مطالعات میں شکیل الرحمن اپنے ذہنی اورنفسی وجودکے ساتھ بیک وقت نمایاں ہوتے ہیں۔ حقانی القاسمی نے فراقؔ کی شعری جمالیات کی تفہیم میں بھی تنقید کے اس جوہر کو تسخیر کیا ہے۔اس طورپر یہ لکیر مستقیم ہو ہی نہیں سکتی،چوں کہ انہوں نے متن،مصنف اورقاری کے تناظرات کو ایک ہمہ گیر احساس میں ڈھال دیاہے۔تجمیل و تحمیل کی اس صورت میں فن کی تجریدشامل ہے لیکن اس کا سرچشمہ وہی اسطوری کتھاہے جس میں انسانی سائکی ایک حاملہ وجود قرارپاتی ہے۔اس طور پر کہہ سکتے ہیں کہ حقانی القاسمی نے شکیل الرحمن کے ذہنی اور نفسی وجود میں تخلیق کی دیوی اور اس کے تحیرات کا خوب خوب درشن کیا ہے۔یہ فکشن کی قرار واقعی سچائیوں سے کہیں بڑی اورعظیم سچائی ہے۔اس لیے اس فکشن میں حقانی القاسمی اور شکیل الرحمن کے ذہنی وجود کو الگ کرنا محال ہے۔مجھ ایسے قاری کے خیال میں Character displacementکی ایسی تمثیل اُردو تنقید میں نایاب ہے۔حقانی القاسمی کے اس استغراق میں شکیل الرحمن کی قرأت کیسی اُجلی ہوگئی ہے،اس کی مرقع اورمرصع لکیریں یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں :
}فراق کے یہاں نشاطیہ رومان کی جو کیفیات ہیں ،وہ معاصر اُردو شاعری میں خال خال ملتی ہیں۔
}فراق کی شاعری میں تہذیبی جمہوریت کے نقوش روشن ہیں اور اسی نے ان کی شاعری کو تنوع اور تجدد کی لہریں عطا کی ہیں۔
}جنس سے بڑی کوئی جمہوریت نہیں ہوتی۔
یہ بیانات نہیں بلکہ Aesthetic Sensibilityہے جو متن کی خفی ساخت ،نفسی وجود کی حرارت اور نقدشکیل کی توانائی کی تحمیل ہے۔اس لیے حقانی القاسمی کے ہاں فراقؔ حسن و عشق کے نئے عنوان میں نظر آتا ہے۔اس نوع کے مطالعات کو تصریحات کے ذیل میں نہیںرکھاجا سکتا،یہ جمالیات کا وہ دائرہ ہے جس کے مسلسل رقص کی انتہا ہی نہیں۔اس کی پرتیں ایسی ہیں کہ کسی ایک مدار میں اس کا اکتشاف نہیں ہوسکتا،اس لیے اس کو نقدشکیل کی حقانیت کا نام دیا جا سکتا ہے۔چنانچہ حقانی سطریں اپنی داخلیت میں نقد شکیل سے معطر ضرور ہیں لیکن اس کامدار مسلسل التوا میں ہے۔اس رقص میں غیاب ہی غیاب ہیں اور ان کی تہوں میں لپٹا ہو اوجودکبھی شکیل الرحمن ہے تو کبھی بدن کی دھوپ میں امرت کا متلاشی عبدالحق حقانی:
}’روپ‘ کی رباعیاں جنسی روحانیت کی بہترین تمثیل ہیں۔اس میں نسائی بدن کا بیان ہی نہیں بلکہ کلچر کی روح بھی ہے اور وہ ہے ہندی کلچر جہاں جنسیت میں بھی روحانیت کا تقدس ہے۔
}عورت اور رات کی رمزیت سے فراق کی شاعری روشن ہے۔
عبدالحق حقانی یعنی حقانی القاسمی کی اس تفہیم میں شکیل الرحمن کی طلسمی انگوٹھی لفظوں کی کس انگلی میں ہے؟اس کا ادراک اس وقت تک محال ہی ہے جب تک کہ نقدشکیل کی جمالیات کو مطالعات سے زیادہ مشاہدات میں شامل نہ کیا جائے۔اس مشاہدہ کے لیے اپنے نفسی وجود کا عرفان لازم ہے۔حقانی القاسمی نے اس باب میں بھی ایک قدم آگے کا سفر طے کیا ہے اس لیے ان کے ہاں عورت اور رات کی پرستش کا دیومالائی احساس بھی شدید ہے۔حقانی القاسمی نے ان سطروں کے طلوع معانی میں بھی اس بات کا بھرپور ثبوت دیا ہے:
}شکیل الرحمن نے چشم بینا سے فراق کے لفظوں میں پنہاں چہروں کو تلاش کیا اور قاری کے احساساتی وجود کو فراق کی شاعری میں نہاں سکوت نیم شبی کے لطیف اشاروں سے آشنا کیا۔
}شکیل الرحمن نے فراق کی تخلیقی حسیت اور شب کی رمزیت میں ایک ربط تلاش کیا ہے اور رات کو ان کے تخلیقی وجود کا حصہ قرار دے کر حسی کیفیات کے آئینہ میں ان کے اشعار کو معنی کے پیرہن عطا کیے ہیں۔
}شکیل الرحمن نے فراق کے خارجی جمال میں داخلی حسن کی جستجو کرکے تنقیدی جمالیات کی ایک نئی بوطیقا تشکیل دی ہے۔
}شکیل الرحمن نے فراق کے سات رنگوں کی پھوار کو تنقید کی نئی بہار عطا کی ہے اور اس کے لیے تھکے تھکے ذہن ،تھکے تھکے الفاظ نہیں بلکہ شکیل الرحمن جیسا جمالیاتی ذہن ہی چاہیے تھا۔
ان باتوں کی پیشانی کیسی اور کتنی سچی ہے اس کا ادراک بھی اسی وقت ممکن ہے جب نفسی وجود کے احساس کو حاملہ رات کی سیاہی میں بکھیرکر تسخیر کی کی کوشش بھی کی جائے۔دراصل فراقؔ گورکھپوری کی یہ ایسی تفہیم ہے جس میں تہذیب و ثقافت کی سائکی اور اسطوری کتھا کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔اس عمل میں شکیل الرحمن نے ’شب اور آہنگ شب کے شعری تجربوں میں ارضیت اور لذتیت ‘کی تلاش کی ہے تو حقانی القاسمی نے اس دریافت کے ذائقہ کو تسخیرکیا ہے اور ایک نئے جہان میں قدم رکھا ہے۔
l
حقانی القاسمی نے تحیرات بدن کی جستجو میں زندگی کے اسراراور بھید کو اپنے مشاہدات کا حصہ بنایا ہے۔ان کے ہاں تجسس کا عمل شدید ہے۔اس لیے انہوں نے منٹو کی تفہیم میں منٹوکے اس تخلیقی پرسونا کی نفی کی ہے جس میں تخلیق کی بالائی ساخت کو اکثر عنوان بنایا گیا ہے۔منٹو کی تجدید میں ان کے ہاں شعریات کن خطوط پر منکشف ہونے کی آرزومند ہے اس کی چند لکیریں یوں نمایاں ہوتی ہیں:
}وہ فریم سے باہر کے آدمی ہیں۔
}منٹو ہمیشہ ایک ’معمہ‘ بھی بنا رہے گا۔
}منٹو شناسی ایک دشوار عمل ہے۔ناقدین نے جیسا سمجھا ہے منٹو شاید اُن سے کچھ الگ تخلیقی وجود کا حامل ہے۔منٹو کے تخلیقی وجود کی معرفت کے لیے وہی ڈھب،وہی رویہ ،وہی روش،وہی زاویہ ،وہی نظر درکار ہے جو منٹو سے مخصوص ہے۔
اس طرح دیکھیے تو جہاں انہوں نے تنقید کی تحدید میں حصہ لیا ہے وہیں انہوں نے تخلیقی سائکی کی تجدید بیش از بیش کی ہے،اور یہ ایک مشروط عمل ہے۔حقانی القاسمی منٹو کوExperienceکرنا چاہتے ہیں اور اس میں وہ کامیاب بھی ہیں۔لیکن نقد شکیل کے باب میں ان کے معروضات کی حد بندی کو سمجھنا ضروری ہے :
شکیل الرحمن نے منٹو کی تفہیم کی بہ جائے اُن کو experienceکرنے پر اپنی توانائی صرف کی ہے ۔اسی لیے منٹو اپنی تمام تر خارجی و باطنی ہیئت وکلیت کے ساتھ اُن پر منکشف ہوا ہے۔
منٹو کو Experienceکرناآسان نہیں ہے۔لیکن شکیل الرحمن نے اس باب میں بھی ایک قدم طے کیا ہے۔میں ان کے اس قدم کو تفریدی جست نہیں کہہ سکتا چوں کہ ان کے ہاں عامیانہ باتیں زیادہ ہیں۔جمالیات کی پرپیچ وادیوں میں منٹو کے ساتھ ٹہلتے ہوئے جیسی باتیں نقد شکیل کا خواص بنی ہیں ،ان میں تہہ داری کم کم ہیں۔اس کے باوجود ان کے ہاں ایک نیا منٹو ملتا ہے۔منٹو کی نوتفہیم ہمارے ہاں ممتازشیریں کے بعد گوپی چند نارنگ کو نصیب ہوئی۔بو،ایسے افسانہ پرکی قرأت میں ہی گوپی چند نارنگ کے ہاں تفہیم کی جو پرتیں قائم ہوتی ہیں ،اس کی ہر تہہ میں ایک نوع کی رنگا رنگی ہے۔نقد شکیل میں ماجرانویسی کی دروں بینی کے علاوہ بہت کم باتیں ایسی ہیں جن کو منٹو کی تفہیم کا نام بھی دیا جا سکے۔حالاں کہ نقد شکیل اسی افسانہ کو بالخصوص اسطوری وجدان میں Experienceبھی کرسکتی تھی اور نئی عورت کی مرکزی حیثیت میں جمالیات کی نو بوطیقاکی دریافت بھی۔اس کے باوجود منٹو کی تفہیم کے کئی زاویہ ایسے ہیں جو پہلی بار ان کے ہاں نظر آتے ہیںشاید اسی لیے حقانی القاسمی نے یہ نکتہ فراہم کیا ہے:
}یہ منٹو کی نئی جستجو ہے یا منٹو کا re-creationہے۔
دراصل یہ ایسی باتیں ہیں جس میں ایک نوع کی سچائی ضرورہے لیکن نقد شکیل کی اساس میں شکیل الرحمن کی تنقیدی جمالیات کو ہم بہت دورتک محسوس نہیں کرتے۔ان کے ہاں اسطور ،تمثیل اور تلمیح کی صورتیں جہاں جہاں نمایاں کی گئی ہیںوہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہاں یہ منٹو کاre-creationہے۔بلا شبہ بعض ایسے ہی موقع پر منٹو ہمیں بھی منٹو نظر آتاہے۔
حقانی القاسمی نے ان کے تنقیدی اوصاف کو منٹو کے باب میں زیادہ عنوان بنایا ہے حالاں کہ وہ ان پہلوئو ں کو بھی نشان زد کرسکتے تھے۔شکیل الرحمن جمالیات کی جیسی سیاحی کرتے ہیں اس کی تحدید نہیں کی جا سکتی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے منٹو کو Experinenceکرنے میں بہت زیادہ کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔اس لیے حقانی القاسمی کی بعض ایسی ہی باتوں پر کان دھرنے کے لیے ایک نوع کا احتیاط بھی ضروری ہے:
جس طرح brain biologyپر منٹو کی گرفت بہت مضبوط ہے ،اسی طرح شکیل الرحمن نے بھی منٹو کے brain biologyکو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔اور ان کے نیوراتی نفس Neurotic Psycheکو بھی سمجھا ہے۔
دراصل حقانی القاسمی جب اس نوع کی تفہیم میں حصہ لیتے ہیں تو ان کو بھی کہیں نہ کہیں یہ احساس ہے کہ نقد شکیل میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی ہے،اس طورپر ان کے ہاں ایک محتاط رویہ بھی ہے کہ انہوں نے نقدشکیل کی انہی باتوں کو عنوان بنایا ہے جن کے سیاق میں اُردو تنقید کا قالب کشادہ معلوم ہوتا ہے اور ان کی تصریحات کو ایک جواز بھی فراہم ہوجاتا ہے۔ان کے اس رویہ کو ہم مصلحت پسندی کا نام نہیں دے سکتے البتہ ان سے یہ گلہ کرسکتے ہیں کہ ان کوان مقامات کی سیر بھی کرنا چاہیے تھی،جہاں شکیل الرحمن کی تنقید کا صیغہ اپنی توانائی میں ظاہر نہیں ہو اہے۔اس کے باوجودیہ اچھی بات ہے کہ حقانی القاسمی کے ہاں نقدشکیل کا بے جا اعتراف نہیں ملتا:
اگر منٹو کے افسانے ،للت راگنی یا مدھیامدی راگنی کی تصویروں میں بدلتے نظر آتے ہیں تو یہ صاف اشارہ ہے کہ اُن کی نظر اسطوری روایت پر تھی جہاں سیکس ممنوع نہیں بلکہ محترم اور مقدس ہے اور اس مصورانہ مطانقت کی جستجو کرکے شکیل الرحمن نے منٹو کی کہانیوں اور قدیم مصوری کے مابین ایک ایسا نقطہ اتصال دریافت کیا ہے جس کی طرف شاید ہی کسی کی نگاہ جا پاتی۔
یہ ایسی ہی باتیں ہیں جن کو ہم حقانی القاسمی کے اکتشاف کی روشنی میں شکیل الرحمن کے ہاں محسوس کرتے ہیں۔اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر منٹو کی ایک نئی تصویر بھی ان کے ہاں نظر آتی ہے:
سعادت حسن منٹو seductive techniquesسے بھی واقف تھے اور ان کی کہانیاں اسی طرحseduceکرتی ہیں جیسے ہیلن آف ٹرائی،قلوپطرہ،مارلن منرو،متاہری یا Maewest۔ان خواتین کے seductionمیں عارضی پن ہے جب کہ منٹو کا seductionابدیت کا حامل ہے۔
جس موہک تکنیک اور فریفتگی وشیفتگی کی ابدیت پر ان کو اصرار ہے اس کی تفہیم میں ہی منٹو کی شعریات کا درشن کیا جا سکتا ہے۔اس احساس کی حرارت نقد شکیل میں یوں تفرید یت کی حامل ہے:
منٹو کی تخلیقی لہروں (creative waves)جنہیں کچھ لوگ waves of pleasureسمجھتے ہیں،ان کی صحیح طورپر شناخت اور تشکیل ،شکیل الرحمن نے ہی کی ہے۔
ان باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حقانی القاسمی کو اُردو تنقید کی عمومی روش کا کس قدر احساس ہے۔لیکن ان کی تنقید بعض دفعہ جمالیات کی تہہ میں اس قدر ڈوب جاتی ہے کہ تنقید کا عمومی رویہ پس منظر میں چلا جا تا ہے اور اس کے بعد جو کچھ ہاتھ لگتا ہے وہ تازگی کا احساس ضرور دلاتا ہے۔
l
رومی کی روحانیت اورابدیت کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی دنیا اس کی آغوش میں پناہ لے رہی ہے۔دراصل رومی کی تخلیقی لہروں کا یہ وہ دائرہ ہے جن سے اپنے آپ یہ طے ہوجاتا ہے کہ نفسی وجود کا عرفان ان کے ہاں ہفت افلاک طے کرچکا ہے۔شاید اسی لیے حقانی القاسمی کی باتیں ہمارے احساس کو شدت عطا کرتی ہیں:
مولانا رومی کا تخلیقی پرسونا اس قدر بلند اور مرتفع ہے کہ بہت سے ادب شناسوں کے ذہنی مطاف میں سما ہی نہیں سکتے۔ان کی تخلیقی حسیت ،اساطیری بصیرت ،حکایتی رمزیت اور داستانی سریت کی کشفیت ایک ایسے ہی ذہن سے ممکن ہے جس کی وسعتوں میں کائنات کے اسرار کا ادراک بھی شامل ہے۔
بلا شبہ شکیل الرحمن کی عمرانیات اور جمالیات کے پیش نظر حقانی القاسمی نے ایک سچی بات کہی ہے۔ان کے اس معروضہ میں کہیں بھی احتیاط کا رویہ اور مصلحت کوشی نہیں ہے۔شکیل الرحمن نے اپنے بعض ایسے ہی مطالعات کی تشکیلات میں اُردو تنقید کو ایک نیا محاورہ دیا ہے۔ان کے اس نوع کے مطالعات کی تشکیلات میں عمرانیات اور جمالیات کی تحلیل کو حقانی القاسمی نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے:
رومی کی جمالیات کے تناظر میں شکیل الرحمن کا تنقیدی ادراک اور ادبی عرفان نہایت روشن تابناک اور رخشندہ نظر آتا ہے۔رومی کی جمالیت اپنی نوعیت کی ایسی منفرد کتاب ہے جو صرف رومی شناسی نہیں بلکہ تہذیب ،تمثیل اور تخلیق شناسی کی ایک نئی جہت کی تفہیم میں معاون ثابت ہوگی۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ شکیل الرحمن نے اپنی تنقید میں تخلیقی ریاضت کی مثال قائم کی ہے۔ان کے ہاں غیاب سے غیاب کا سفر ملتا ہے جو فکشن کے سحرانگیزاسلوب میں منقلب ہوتے ہی روشنی کے مینارمیں داخل ہو جا تا ہے۔ان کی تنقید کایہی وہ وصف ہے جن کو حقانی القاسمی نے اپنی تصریحات میں پھیلا دیا ہے،اور ان کی پذیرائی یوں کی ہے:
}شکیل الرحمن نے رومی کی جمالیات میں مختلف تمثیلی حوالوں سے مولانا رومی کی ذہنی دراکی ،طبعی ذکاوت اور فراست کے شواہد پیش کیے ہیں۔
}شکیل الرحمن ،مشرق و مغرب کے جمالیاتی فلسفوں اور رویوں کے رمز شناس ہیں۔
l
قلی قطب شاہ کی بارہ پیاریاں ہندوستانی تہذیب میں اسطور کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں۔اس کی کتھائیں ایسی روح پرور ہیں کہ کئی راتوں کی سیاہی سے مکالمہ کیا جا سکتا ہے۔حقانی القاسمی نے اپنے اکتشاف کی تجمیل میں نقد شکیل کی اس خوبی کوشدت سے محسوس کیا ہے اس لیے انہوں نے اس کو اسطوری اصطلاح میں پدمنی تنقید کا نام دیا ہے:
}یہ پدمنی تنقید ہے اور اس تنقید کی پیشانی پر عشق اور تپسیا کا قشقہ کھنچا ہوا ہے۔
عشق اور تپسیا کی روحانیت میں اس تنقید کا ایک تہذیبی سیاق بھی روشن ہوتا ہے جس کو بارہ پیاریوں کی تخلیقی جدت وندرت کی رہین کہہ سکتے ہیں۔یہاں ایک نقطہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ تنقید علم واحساس کی دیوی (لکشمی)ہے،جس کے قالب میں تخلیق کا صیغہ صیقل ہوتا ہے۔ بعض ایسے ہی اساطیری احساس سے منور تنقید کے ذیل میں یہ بات بھی کہنے کی ہے کہ مشرقی جمالیات کے مشاہدہ کے بغیرتنقید وتخلیق کی دوئی کو مٹایا نہیں جاسکتا۔عصری تنقید کی کم مایہ سطریں اس لیے بھی نمایاں ہیں کہ ان میں علمیات کی ہجویہ گردان اکثر کی گئی ہے۔شکیل الرحمن ایسے زیرک نقادکے ہاںجو علمیاتی زمرہ متشکل ہوا ہے اس کی ایک اہم وجہ تخلیقی شدت کی اثر پذیری کا رجحان بھی ہے۔اس لیے انہوں نے جب قلی قطب شاہ کی تخلیقی جمالیات میں پناہ تلاش کی تو ان کی تنقید پدمنی قرارپائی۔حقانی القاسمی نے اسی کیف کی تجدید میں یہ نکتہ فراہم کیا ہے:
}قلی قطب شاہ پر لکھا تو بہت کچھ گیا مگر اس کی رومینٹنگ روح تک رسائی شکیل الرحمن کو ہی نصیب ہوئی۔
Romanceکی اس تفہیم میں لذتیت کی عامیانہ منطق بالکل نہیں بلکہ eyebrow feminismکی نفی کا فطری اور تہذیبی تناظر ملتا ہے:
}نسائی شعوروثقافت کی تمجید کے تناظر میں دیکھا جائے تو قلی قطب شاہ پہلا ایسا فیمنسٹ شاعر ہے جس نے عورت کو مرکزیت دی۔
نسائی شعوروثقافت کی تمجید اصل میں عشق کا روحانی احساس ہے۔اس احساس میں عورت شے نہیں بلکہ تحیرات جمال کا استعارہ ہے۔اس کا ایک ایک روپ کائنات کی رگوں میں شامل ہے۔جب کہ اس عہد میں عورت محض بدن کا نام ہے جس پر بازار کی سرخی پوت دی گئی ہے۔اس لیے بھی قلی قطب شاہ ایسے خلاق ذہنوں کی مصوری کا مشاہدہ لازم ہے۔قلی کی تخلیقی روحانیت کیسی فطری ہے کہ وہ اپنی تنقید میں بھی اُترتی ہے۔
یہ تنقید بھی قلی قطب شاہ کی تخلیقی ambianceکا ایک حصہ معلوم ہوتی ہے کیوں کہ انہوں نے قلی قطب شاہ کے الفاظ و افکار کے شعلہ وشبنم اور حرارت و برودت کو صحیح طورپر محسوس کیا ہے اور ان کے ذہنی نظام کی تفہیم کی مکمل طورپر کوشش کی ہے۔
اس طور پر کہہ سکتے ہیں کہ حقانی القاسمی نے کسی بھی انفرادی متن کی تخلیقی سائکی کے بغیر شکیل الرحمن کی جمالیات کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔اس عمل میں انہوں نے علمیات کی نمائش بالکل نہیں کی ہے البتہ اپنے وجودی آہنگ کے ہرنشان کو کریدا ضرور ہے۔دراصل ان کے ہاں رہ جوگ کی خاصیت اور اس کا بنیادی فلسفہ ایک ہی ہے۔اس لیے ’تیاگ‘کا جذبہ ان کے مطالعات کو آبرومند بناتا ہے۔
117-Sutlej Hostel,
JNU,New Delhi-67
[email protected]
mob:09953459126
گل بوٹے کے زیر اہتمام شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی کے اشتراک سے بچوں کے ادب پر عالمی کانفرنس
پریس ریلیز دہلی۔
شعبۂ اردو دہلی یونی ورسٹی میںگل بوٹے کے زیر اہتمام’’بچوں کا ادب: سمت و رفتار‘‘کے موضوع پرعالمی کا نفرنس کا انعقاد کیا گیا۔یہ کانفرنس شعبۂ اردو دہلی یونی ورسٹی کے باہمی اشتراک سے منعقد ہوئی۔اس چار روزہ کانفرنس کا افتتاحی اجلاس غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی میں منعقد کیا گیا تھا۔دوسرے دن جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اشتراک رہا اور آج عالمی کانفرنس کا تیسرا دن دہلی یو نی ورسٹی میں کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔افتتاحی اجلاس کی صدارت صدر شعبۂ اردواور ڈین فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کی،جب کہ بہاراردو اکادمی کے ڈائرکٹوریٹ امتیاز احمد کریمی مہمان خصوصی کے طور پر شامل ہوئے۔اس کے علاوہ مہمانان اعزازی میں ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے ادیبوں اور قلم کاروں نے شرکت کی۔ابتدا میںحافظ کرناٹکی نے اپنا کلیدی خطبہ پیش کیا جس میں انھوں نے ادب اطفال سے متعلق کئی اہم نکات پر روشنی ڈالی۔حافظ کرناٹکی نے نثر میں تخلیقی انداز اختیار کرتے ہوئے بہت شگفتہ اسلوب میں سامعین کے سامنے اپنی بات رکھی،انھوں نے ادبِ اطفال کے معماروں میں اسماعیل میرٹھی، سر محمد اقبال، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر،شفیع الدین نیر، مرتضیٰ ساحل وغیرہ کی خدمات پر بھی روشنی ڈالی۔ حافظ کرناٹکی نے اپنے کلیدی خطبے میںبچوں کے ادب کی اہمیت کے حوالے سے کہا کہ بچوں کے بغیر بچوں کے ادب کا تصور محال ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہے۔پروفیسر ارتضیٰ کریم نے بچوں کے ادب کی قدر و قیمت کے تعلق سے بہت موثر گفتگو کی۔انھوں نے گل بوٹے کی ادبِ اطفال سے متعلق خدمات کی ستائش اور ان کے حوصلے کی داد دی۔پروفیسر موصوف نے کہا یہ کام اداروں کا ہوتا ہے لیکن کام ادارو ں سے نہیں ارادوں سے ہوتا ہے اور گل بوٹے کے روح رواں فاروق سید نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے۔ارتضیٰ کریم نے اس موقعے پر بچوں کے ادبی رسائل کے مسائل پر بھی بہت دلچسپ انداز میں اظہار خیال کیااور ان کے معیار پر روشنی ڈالی۔اس اجلاس کی نظات ڈاکٹر متھن کمار نے۔اس کے بعد نفرنس کے تین سیشن میں ہوئے جن مختلف جامعات اور ریاستوں سے آئے بچوں کے ادیبوں اور ریسرچ اسکالروں نے مقالات پیش کیے۔شام چھے بچے’’بچوں کے شاعروں کا مشاعرہ منعقد ہوا جو دیر رات تک چلتا رہا۔اس سے قبل صبح صدر شعبہ اردو کے آفس میں حافظ کرناٹکی کے تازہ مجموعہ کلام ’’شان غزل‘‘ کا اجرا بھی عمل میں آیا جس میں شعبے کے اساتذہ نے حصہ لیا۔اس کانفرنس میں پروفیسر اسلم جمشید پوری، ایڈوکیٹ خلیل الرحمن، ڈاکٹرمشتاق عالم قادری، ڈاکٹر ارشاد نیازی، ڈاکٹر ارجمند آرا، ڈاکٹر علی احمد ادریسی، پروفیسر نعمان فاروق، خیال انصاری، اقبال مسعود، پروفیسر عاکف سنبھلی، ڈاکٹر ساجد حسین،ایم۔مبین، ڈاکٹر نجمہ رحمانی، ڈاکٹر صادقہ نواب سحر،خان حسنین عاقب،محمد خلیل،اسد رضا، عبدالکریم سالار،ڈاکٹر شمیم صدیقی، ڈاکٹر ذکی طارق ،غلام نبی کمار، شہنواز عالم،رودر شکتی، دنیش کمار، نورالاسلام، غلام نبی کمار، امیر حمزہ، کے علاوہ ادیبوں، شاعروں اورقلم کاروں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت۔اس کانفرنس میں مختلف جامعات کے طلباء وطالبات بھی کافی تعداد میں شامل ہوئے۔
ایشین گرامر آف انسٹی ٹیوشن کا پہلا کنونشن وسالانہ انعامات تقریب‘ماہرین تعلیم ودیگر کاخطاب
حیدرآباد۔ ایشین گرامر آف انسٹی ٹیوشن اور زاہد میموریل فائونڈیشن کے زیر اہتمام ایشین گرامر اسکول‘ جونیئر ورڈگری کالج بہادر پورہ کی کنوکشن تقریب رویندرا بھارتی میں منعقد ہوئی ۔جس میں ایشین گرامر اسکول‘ ایشین گرامرجونیئروڈگری کالج کے کامیاب طلبہ نے شرکت کی۔ بی کام جنرل‘ بی کام کمپیوٹر ‘ انٹرسی ای سی ‘بائی پی سی‘ ایم ای سی کامیاب طلبہ میں کنوکشن سرٹیکفیٹ اور اسکولی سطح پرمیرٹ کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ میں انعامات کی تقسیم عمل میں آئی۔ انچارج ایشین گرامر کالج صفیہ غور ی نے کالج کی سالانہ رپورٹ پیش کی اورکہاکہ یہاں پر طالبات کو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ہرہفتہ درس قرآن منعقد کیا جاتا ہے اوردیگر تعلیمی ومذہبی پروگرامرطلبہ کیلئے رکھے جاتے ہیں۔کالج کی طالبات مختلف سوسائٹیز ودیگراداروں کی جانب سے منعقدہ نعتیہ‘ تحریری وتقریری اور دیگرمقابلوں میں شرکت کرتے ہوئے انعامات حاصل کررہے ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وائس چانسلر عثمانیہ یونی ورسٹی پروفیسر رامچندرم نے طلبہ پرزوردیا کہ وہ خوب محنت سے تعلیم حاصل کریں اورڈاکٹرانجینئر بننے کے ساتھ ساتھ سیول سرویسس کے امتحانات میں بھی شرکت کرتے ہوئے کامیابی حاصل کریں۔ ایس اے ھدی (سابق ڈی جی پی ) نے طلبہ سے کہاکہ وہ زندگی میں ڈسلپن کواپنائیں اور یہی ڈسلپن ان کو آگے بڑھنے میں مدد دے گا۔ سماجی جہد کر اظہرمخصوصی نے کہاکہ انسانیت بڑی اہم چیز ہوتی ہے۔ اگرہم ڈاکٹر‘انجینئر بن بھی جائیں اگرانسانیت نہیں تویہ سب کچھ کام کانہیں ہے۔ماہرتعلیم ڈاکٹرآنند راج ورما نے کہاکہ طلبہ اپنے اندرچھپی ہوئی صلاحیتو ںکوابھاریں اور محنت سے تعلیم حاصل کریں ۔ایشین گرامرانسٹی ٹیوشیشنس کی جانب سے تمام مہمانوں کومومنٹواور تہنیت پیش کی گئی۔اسکول کے طلبہ میں ٹیلنٹ ایوارڈ دیاگیا اورکالج کی طرف سے عربی لیکچرر امتہ الصبیحہ کی جانب سے تیار کردہ ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ کا ایک سبق آموز ڈراما بھی پیش کیاگیااو ر طلبہ کی جانب سے مختلف کلچرل پروگرام پیش کیے گئے۔ تقریب کا آغازساتویں جماعت کے طالب علم عرفات قریشی کی قرأت سے ہوا۔ تہمینہ ناز ڈگری فائنل ایئر نے حمد جبکہ نعت شریف عفت سلطانہ وفروحت فاطمہ نے سنانے کی سعادت حاصل کی۔کرسپانڈنٹ میرمعظم علی نے شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر ماہرین تعلیم‘ ادبی شخصیات ‘اسکول وکالج کا اسٹاف‘ طلبہ کے والدین وسرپرست اوردیگر موجود تھے۔
ڈاکٹر منور حسن کمال
ستمبر کی پہلی تاریخ ملک میں گاڑی چلانے والوں کے لیے سب سے بڑی خبر لے کر آئی۔ اس خبر کو جس نے بھی پڑھا یا جس نے بھی سنا، اس پر ایک سکتہ سا طاری ہوگیا۔ مرکزی حکومت نے موٹروہیکل قانون میں تبدیلی کرکے 63تجاویز کو نافذ کردیا ہے۔ لیکن ملک کی پانچ ریاستوں کانگریس کے اقتدار والی مدھیہ پردیش، راجستھان اور پنجاب کے ساتھ ساتھ مغربی بنگال اور تلنگانہ نے اس نئے قانون کو اپنے یہاں نافذ نہیں کیا ہے۔ مسلسل اس طرح کی خبریں گردش میں ہیں کہ جرمانہ میں زبردست اضافہ کے سبب لوگ بے حد پریشان ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی اس طرح کی تصویریں وائرل ہورہی ہیں، جن کو دیکھ کر اور پڑھ کر ہر کوئی غصہ اور اشتعال میں نظر آرہا ہے۔ آئے دن اس طرح کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں کہ پولیس اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بعض لوگ تو جرمانے کی رقم سن کر اپنی موٹرسائیکلوں کو نذرآتش کرچکے ہیں۔ایک سوال جو لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ رہا ہے وہ یہ کہ آخر جرمانہ کی رقم میں اتنا زبردست اضافہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟ حکومت کوئی جواب دے، اس سے پہلے ہی لوگوں نے اعدادوشمار کھنگالنے شروع کردیے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ 2004سے 2016کے درمیان سڑک حادثات میں بہت زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، اس دوران سڑک حادثات میں 64فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادوشمار کے مطابق 2004میں جہاں ملک میں 91ہزار 463افراد نے سڑک حادثات میں اپنی جانیںگنوائیں، وہیں 2016میں یہ اعدادوشمار بڑھ کر ایک لاکھ 50ہزار ہوگئے ہیں۔
اس رپورٹ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سب سے زیادہ سڑک حادثے تمل ناڈو میں ہوئے ہیں، لیکن اموات سب سے زیادہ اترپردیش میں ہوئی ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس نظام کے نفاذ میں آئندہ برس تک حادثات پر کنٹرول کے ساتھ ہی اموات کی تعداد بھی نصف کی جاسکتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق سب سے زیادہ سڑک حادثے اووراسپیڈ(معینہ رفتار سے تیز گاڑی چلانا) کے سبب ہوتے ہیں۔ صرف 2017 میں اووراسپیڈ کے سبب76.7 فیصد حادثے ہوئے، اس کے برعکس شراب پی کر گاڑی چلانے، لال بتی کراس کرنے اور موبائل فون کے استعمال کی وجہ سے صرف6.2 اموات ہوئی ہیں۔
جہاں تک قانون کے سخت ہونے کی بات ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ قوانین ہندوستان کے نئے قوانین سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ صرف دو ملکوں کی رپورٹ دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں ٹریفک قوانین کتنے سخت ہیں۔ انگلینڈ کا تذکرہ اس لیے کہ سب سے پہلے جب ہندوستان میں ٹریفک قوانین کا نفاذ ہوا تو اس وقت ہندوستان انگلینڈ کے ہی زیراقتدار تھا۔ وہاں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ تو دینا ہی پڑتا ہے، ساتھ ہی لائسنس میں پینالٹی کے نمبر بھی لکھ دیے جاتے ہیں۔ تین سال میں پینالٹی کے 12پوائنٹ ہونے پر متعلقہ شخص کو ڈرائیونگ کے لیے ناقابل قرار دے دیا جاتا ہے۔
فرانس میں زبردست جرمانہ اور پینالٹی بھی لگائی جاتی ہے۔ وہاں ہیلمٹ نہ پہننے پر 9331روپے کا جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور تین پینالٹی پوائنٹ لگائے جاتے ہیں۔ آسٹریلیا میں ہیلمٹ نے پہننے پر 4695روپے، اٹلی میں 4443روپے کا جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ٹریفک نظام کی اگر بات کریں تو سب سے پہلے 1914میں موٹروہیکل ایکٹ بنایا گیا تھا، پھر1934میں نیا قانون نافذ کیا گیا۔ اس کے بعد1988 میں پارلیمنٹ میں نیا قانون پاس کیا گیا اور 1989 میں اسے نافذ کیا گیا۔ موجودہ نئے قانون کو پارلیمنٹ سے پاس ہونے میں دو سال لگ گئے۔ 2017 میں لوک سبھا میں پاس ہونے کے باوجود یہ بل راجیہ سبھا میں پاس نہیں ہوسکا تھا۔ حالاں کہ حادثات پر کنٹرول کرنے کے لیے اسے لازمی قرار دیا گیا تھا۔
حکومتی سطح پر جو کوششیں سڑک حادثات میں جانوں کا اتلاف روکنے کے لیے ہورہی ہیں، وہ اگرچہ قابل ستائش ہیں، لیکن بے روزگاری، مہنگائی اور پیسے کی معقول یافت نہ ہونے کے سبب عوام پر جو ٹریفک نظام کی خلاف ورزی کے نام پر بوجھ ڈالا گیا ہے، وہ یقینا اس بات کا متقاضی ہے کہ اس پر نظرثانی کی جائے، کیوں کہ قوم جس زبوں حالی کا شکار ہے، اس کا دکھ درد دور کرنا بھی حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے۔ عالمی سطح پر جو کسادبازاری جاری ہے، اس کا اثر ہندوستان میں کچھ زیادہ ہی ہے۔ ایسے حالات میں جب ملک کی آبادی کے 70سے 80فیصد عوام نانِ شبینہ کے لیے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں، اس کے بعد بھی آدھی سے زیادہ آبادی بھرپیٹ کھانا بھی نہیں کھا پارہی ہے۔۔۔ اور اس پر نئے ٹریفک نظام کے نفاذ کی شکل میں جو عتاب نازل ہوا ہے، اس میں حکومت کو ناگہانی افتاد کو لادنے کی بجائے بے روزگاروں کو روزگار، بھوکے کسان کو کھاد، بیج اور پانی اور شہروں میں رہنے والی متوط آبادی کے مسائل کو دور کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ ایسے حالات میں ان بڑی کمپنیوں اور صنعتی گھرانوں کو بھی آگے آنا چاہیے تاکہ ملک کا معاشی بحران دور ہوا اور قوم کچھ سکھ کا سانس لے سکے۔
عالمی ادارہ صحت نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ہر سال تقریباً 1.26ملین افراد سڑک حادثات کے سبب ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس حساب سے ہر 25سیکنڈ میں ایک شخص سڑک حادثہ کا شکار ہوکر اپنی جان گنوا بیٹھا ہے۔ ملک میں بیماری اور قدرتی آفات کے بعد سب سے زیادہ جانوں کا اتلاف سڑک حادثات کے سبب ہی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سڑک حادثات میں زخمی افراد کی فہرست اس کے تین گنا ہے۔ جن میں جسمانی طور پر معذور ہونے والے افراد کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔
گلوبل اسٹیٹس کے ایک تجزیہ کے مطابق اگر ان حالات وواقعات پر کنٹرول نہ کیا گیا تو 230ت ک ناگہانی اموات کی پانچویں بڑی وجہ ٹریفک نظام میں بے ضابطگی کے موجودہ رجحانات ہی اموات کی اہم وجہ ثابت ہوں گے۔
یہ بات ایک تجزیہ سے ثابت ہوچکی ہے کہ نشہ کی حالت میں گاڑی چلانے سے رات میں سڑک حادثات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر ڈرائیور گاڑی چلاتے وقت نشہ نہ کریں اور اس سے توبہ کرلیں تو بڑی حد تک اموات کی تعداد کو کم کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے بڑے شہروں میں اور نیشنل ہاویز پر سیٹ بیلٹ باندھے بغیر گاڑی چلانا، موبائل پر گاڑی چلاتے وقت بات کرنا اور دوپہیہ گاڑیوں پر بغیر ہیلمٹ کے چلنا بھی حادثات کا اہم سبب ہے۔ اگر ان مواقع پر پوری احتیاط سے کام لیا جائے تو ان حادثاتی اموات پر کنٹرول ہونے کے ساتھ ساتھ قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑی چلاتے وقت ڈرائیور کو نیند آجانا بھی بہت سے حادثات کو دعوت دیتا ہے۔ اس کے لیے ڈرائیور اور گاڑی مالکوں کے لیے ایک خصوصی بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی اور دوسروں کی جان جوکھم میں ڈالنے سے بچ سکیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 49فیصد اموات پیدل مسافروں، سائیکل اور دو پہیہ گاڑی چلانے والوں کی ہوتی ہیں جو بڑی مال بردار گاڑیوں کی زد میں آجاتے ہیں اور یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ان میں سے بہت سے افراد صرف اس وجہ سے فوت ہوجاتے ہیں کہ انہیں بروقت طبی امداد نہیں ملتی۔ اگر سڑک حادثات کے شکار افراد کو بروقت طبی امداد مل جائے تو ان میں بھی اموات کی تعداد کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ٹریفک نظام کے نئے قواعد و ضوابط یہ اشارہ کرتے ہیں کہ قومی مفاد میں ان پر نظرثانی کی جائے اور ڈرائیوروں اور گاڑی چلانے والوں میں بیداری مہم چلاکر نہ صرف سڑک حادثات میں ہونے والی اموات کو کم کیا جاسکتا ہے، بلکہ حفاظتی نقطۂ نظر سے بھی ایسے عوامل کی نشاندہی کرکے ان کے سدباب کی کوشش ضروری ہے، جو سڑک حادثات کا سبب بنتے ہیں۔
[email protected]
ڈاکٹر جسیم الدین
پی ڈی ایف ،شعبۂ عربی ،دہلی یونیورسٹی دہلی
سید شاہ شفیع عالم مرحوم متولی گیا کربلا سے رابطہ وتعلق کی مدت بہت طویل نہیں لیکن چند برسوں کی شناسائی نے ہی ذہن ودماغ پر جو نقوش مرتسم کیے وہ میری زندگی کا گراں مایہ سرمایہ سے کم نہیں، ان سے میرا تعلق اس زمانہ میں قائم ہوا جب میں دہلی یونیورسٹی سے ایم اے کررہا تھا اور میری رہائش دہلی یونیورسٹی کے ڈی ایس کوٹھاری ہاسٹل میں تھی۔دہلی یونیورسٹی میں ہاسٹل کی قلت ہے ،یہاں ہاسٹل ملنا اپنے آپ میں ایک امتیاز ہے، ہاسٹل میں آتے ہی یہاں سب سے پہلے جن سے میری ملاقات ہوئی وہ سید شبیر عالم تھے۔جو،اب ڈاکٹر یٹ کی ڈگری سے سرفراز ہونے کے بعدشعبہ¿ اردو امبیڈکر کالج دہلی یونیورسٹی میں درس وتدریس سے وابستہ ہیں۔ہاسٹل میں قیام کے دوران میری ملاقات بات بکثرت ان سے ہی ہواکرتی تھی اور یہ صرف میرے لیے ہی نہیں مرجع نہیں تھے،بلکہ ہاسٹل میں مقیم سبھی طلبہ کے درمیان بے حد مقبول تھے ،وہ انسانیت نوزی ،بڑوں کا احترام اور اپنے جونیئروں کی قدم قدم پر رہنمائی کے لیے بطور خاص جانے جاتے تھے۔جب میری ان سے شناسائی ہوئی تو جیسے جیسے ہاسٹل کے ایام گزرتے گئے ویسے ویسے میری قربت بڑھتی گئی اور دوسال مکمل گزرنے سے قبل اسی دوران ڈاکٹر صاحب کے والد بزرگوار سید شاہ شفیع عالم کا بغرض علاج ومعالجہ دہلی میں نزول اجلال ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہاسٹل کے گیسٹ روم میں اپنے والد محترم کے قیام کا انتظام کرایا، یہاں باضابطہ میری ملاقات بات والد بزرگوار سے ہوئی اور ڈاکٹر صاحب کے اندر جوخوبیاں رگ وپے میں رچی بسی ہیں ،وہ انھیں جیسے نیک دل،پاک طینت اور خورد نوازی سے سرشار شخصیت کی تربیت کا ثمرہ ہے۔ایک ہفتہ کا قیام رہا ہوگا،لیکن ایک ہفتہ کے دوران ان کے خلوص ،ان کی پاکیزگی،طہارت قلب ودل اور جذبہ¿ مودت نے ایسے نقوش مرتسم کیے ۔وہ میری زندگی کے لیے انمول بن گئے۔ہارٹ کی سرجری کے لیے جب آل انڈیا نسٹی ٹیوٹ آف مڈیکل سائنیس(ایمس) میں اڈمیٹ کیے گئے تو اس دوران بھی میں مع وائف مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوا ،یہاں ڈاکٹر سید شبیر عالم کے ساتھ ان کے دوسرے صاحبزادے شبر عالم سے بھی ملاقات ہوئی ، انھوں نے بھی پہلی ہی ملاقات میں نہ صرف مجھے بلکہ میری شریک حیات کو بھی اپنا گرویدہ بنالیا۔اولاد اگر اعلیٰ اخلاق وکردار سے مرصع ہو تو یقین مانیے کہ اس میں والدین کا ہی اہم کردار ہوتا ہے ۔سید شاہ شفیع عالم نے اپنی اولاد کی جس انداز میں تربیت کی وہ ان کا عظیم کارنامہ ہے۔ساتھ ہی گیا کربلا کے انتظام وانصرام میں اور علاقے کے عوام وخواص کے درمیان انھوں نے اپنا جو مقام بنایا وہ ان کی انفرادیت ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پر بلا تفریق مذہب وملت بڑی تعداد میں لوگ اشکبار تھے اور جب ان کا جنازہ تدفین کے لیے جارہاتھا تو عوام کا سیلاب تھا۔گیا کربلا کی احاطہ بندی، گیا کربلا کی تزئینکاری، گنبد کی تعمیروتزئین بطور خاص قابل ذکر ہے۔انھوں نے زندگی بھر ہندو مسلم اتحاد کا علم بلند کیااور اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔بارہ ربیع الاول یا پھر عشرہ محرم کی تقریبات میں ہندومسلم اتحاد کی تصویر بتاتی تھی کہ سید شفیع عالم اتحاد ملت کے لیے اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کس قدر سرگرم تھے۔اپنے اعلیٰ اخلاق وکردار کی بلندی کی وجہ سے نہ صرف گیا شہر کے عوام وخواص میں مقبول عام تھے ۔بلکہ پٹنہ ،جہان آباد، اورنگ آباد ،ساسارام اور نوادہ کے علاوہ بہار کے کئی اضلاع میںآپ کے مخلصین ومحبین کی بڑی تعداد موجودہے۔ آج ان کے چہلم پر میرے جو تاثرات ہیں وہ میں نے قلم بند کیے ہیں ۔ان کی خوردہ نوازی ، چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور بڑوں کا احترام ، اپنے معاصر کی عزت نے انھیں امتیازی شان عطا کی ۔یہی اوصاف ان کے دونوں صاحبزادوں ڈاکٹر سید شبیر عالم اور شبر عالم میں بھی پائے جاتے ہیں۔اللہ سید شفیع عالم کی مغفرت فرماکر ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے کیے ہوئے کام کو آگے بڑھانے کی ان کے صاحبزادوں کو توفیق دے۔
کسی متن کے ترجمے میں معنی ہی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتاہے: ڈاکٹر اے نصیب خاں
”ترجمے کے مسائل“ موضوع پر شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں توسیعی خطبے کا انعقاد
نئی دہلی،۹۱/ستمبر۹۱۰۲ء: ترجمہ دراصل مختلف پردوں کو چاک کر کے متن کے معنی کو ہدف زبان میں منتقل کرنے کی ایک کو شش ہوتی ہے۔اس سلسلے میں مذہب، تہذیب،سیاست،جغرافیہ اور زبان کی خاص اہمیت ہوا کرتی ہے۔ترجمے میں در پیش آنے والے مسائل کو بنیادی طور پر زبان، تہذیب اور اسلوب کی سطح پر ہم دیکھ سکتے ہیں۔ کسی بھی متن کے ترجمے میں منشائے مصنف یا مقصد مصنف تک پہنچنے کے لیے ہمیں کئی مفاہمتیں کرنا پڑتی ہیں۔ان خیالات کا اظہا ر ڈاکٹر اے نصیب خاں نے”ترجمے کے مسائل“ موضوع پر شعبہئ اردو میں منعقدہ توسیعی خطبے میں کیا۔ اس موقع پر صدر شعبہئ اردو، پروفیسر شہزاد انجم نے مہمان مقرر اور شرکا و حاضرین کا استقبال کرتے ہوئے فرمایا کہ نئے تعلیمی سال کا یہ پہلا بے حد اہم توسیعی خطبہ ہے جس کے لیے اس عہد کے نامور مترجم ڈاکٹر اے نصیب خاں کو زحمت دی گئی ہے جن کی علمی و ادبی کاموں سے ہم سب واقف ہیں۔ اس توسیعی خطبے کے کنوینر ڈاکٹر خالد جاوید نے مہمان مقرر کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ جس موضوع پر یہ خطبہ منعقد کیا گیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک مسئلہ ہے اور اس کے ابتدا کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔
اس موقع پر صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے سابق صدر شعبہئ اُردو اور سابق ڈین فیکلٹی آف ہیومنٹیز اینڈ لینگوئجیز پروفیسر وہاج الدین علوی نے ڈاکٹراے نصیب خاں کے توسیعی خطبہ کو بہت گراں قدر اور بصیرت افروز قرار دیا۔ انھوں نے فرمایا کہ یہ خطبہ ترجمہ کے ہمہ جہت مسائل پر محیط ہے اور بہت سہل اور عام فہم زبان میں دلکش انداز میں مہمان مقرر نے اسے پیش کیا ہے۔ خطبے کے اختتام پر ڈاکٹر سر ور الہدی نے اظہار تشکر پیش کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً اس اہم خطبے سے ترجمے کے مسائل اور کیسے ان مسائل سے مترجم نبرد آزما ہوتا ہے، اس پر روشنی پڑتی ہے۔ حسب روایت پروگرام کا آغازڈاکٹر شاہ نواز فیاض کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس موقع پرپروفیسر شہپر رسول، پر فیسر احمد محفوظ، پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسرعبد الرشید، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ابو لکلام، ڈاکٹر سلطانہ فاطمہ واحدی، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر زاہد ندیم احسن، ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی کے علاوہ شعبے کے دیگرتمام ریسرچ اسکالرز اور کثیر تعداد میں طلبا و طالبات مو جود تھے۔
(تصویر میں دائیں سے: ڈاکٹر خالد جاوید، ڈاکٹر اے نصیب خاں، پروفیسر وہاج الدین علوی اورپروفیسر شہزاد انجم)
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی
اردو میں قندیل ہےآئینۂ نقد و نظر
کررہے ہیں استفادہ آج جس سے دیدہ ور
آج سوشل میڈیا کے دور میں یہ پورٹل
گردشِ حالات سے رکھتا ہے سب کو باخبر
مرجعِ اہلِ نظر ہیں اس کے ادبی تجزئے
اس کے مندرجات ہیں نخلِ صحافت کا ثمر
ادبی حلقوں میں بھی ہے لوگوں کے یہ وِردِ زباں
نام کا قندیل کے ہے کام پر واضح اثر
جس طرح سے ضوفشاں ہے آج کل یہ پر طرف
ہے دعا یونہی رہے ادبی اُفق پر جلوہ گر
فیس بُک پر بھی پیج اس کا اِن دنوں مقبول ہے
عہدِ حاضر کی یہ ویب سایٹ ہے برقی ؔ معتبر
ڈاکٹر غلام شبیر رانا
اردو ادب میں موضوعاتی شاعری پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔قلی قطب شاہ سے لے کر ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی تک اردو ادب میں موضوعاتی شاعری نے جو ارتقائی سفر طے کیا ہے اس کا ایک طویل پس منظر ہے۔اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہر موضوع کا تعلق بہ ظاہر محدود متن اور پس منظر سے ہو تا ہے مگر جہاں تک اس کے دائرہ کار کا تعلق ہے تو یہ لا محدود ہو تا ہے۔ماضی میں اس رجحان کو انجمن پنجاب کی خیال انگیز اور فکر پرور تحریک سے ایک ولولہ تازہ نصیب ہوا۔آقائے اردو مولانا محمد حسین آزاد ،خواجہ الطاف حسین حالی،شبلی نعمانی،اسمعیل میرٹھی اور متعد دزعما نے خون جگر سے اس صنف شاعری کی آبیاری کی اور اسے پروان چڑھانے میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کیں۔۔موضوعاتی شاعری اور اس کے پس پردہ کارفرما لا شعوری محرکات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ معاصر ادبی دور میں موضوعاتی شاعری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روا یت کی صورت میں اپنی افادیت کا لوہا منوا لیا ہے۔اس طرح یہ روایت تاریخ کے مسلسل عمل کے اعجاز سے پروان چڑھتی ہوئی دور جدید میں داخل ہوئی۔اس عہد میں ہمیں تمام اہم شعرا کے ہاں اس کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔عالمی شہرت کے حامل نامور پاکستانی ادیب اور دانشور محسن بھوپالی کا ایک شعری مجموعہ ”موضوعاتی شاعری“ کے نام سے آج سے پندرہ برس قبل شائع ہو ا تھا۔اس طرح ا ولیت کا اعزاز انھیں ملتا ہے۔ان کی نظم ”شہر آشوب کراچی“مقبول موضوعاتی نظم ہے۔اردو کے روشن خیال ادیبوں نے نئے افکار،جدید اسالیب،اور زندگی کی نئی معنویت کو موضوعاتی شاعری کی اساس بنایا۔
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی شاعری میں موضوعات کا تنوع،جدت اور ہم گیری ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے۔ان کی موضوعاتی شاعری جہاں کلاسیکی روایات کا پر تو لیے ہوئے ہے وہاں اس میں عصری آگہی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔معاشرے،سماج اور اقوام عالم کے ساتھ قلبی وابستگی کے معجز نما اثر سے ا ن کے ہاں ایک بصیرت اور علمی سطح فائقہ دکھائی دیتی ہے۔وہ جس علمی سطح سے تخلیق فن کے لمحوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں اس کا برا ہ راست تعلق آفاقیت سے ثابت ہو تا ہے۔فرد، معاشرے،سماج،وطن،اہل وطن،حیات،کائنات اور اس سے بھی آگے ارض و سما کی لا محدود نیرنگیاں ان کی موضوعاتی شاعری میں اس دلکشی سے سما گئی ہیں کہ قاری ان کے اسلوب بیاں سے مسحور ہو جاتا ہے۔ان کی یہ موضوعاتی شاعری منظوم تذکرے کی ایک منفرد صورت قرار دی جا سکتی ہے اس موضوعاتی شاعری میں منظوم انداز میں جو تنقیدی بصیرتیں جلوہ گر ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔اس سے قبل ایسی کوئی مثال اردو شاعری میں موجود نہیں۔انسان شناسی اور اسلوب کی تفہیم میں کوئی ان کا مقا بلہ نہیں کر سکتا۔موضوعاتی نظموں میں جو منفرد اسلوب انھوں نے اپنایا ہے وہ اوروں سے تقلیدی طور پر بھی ممکن نہیں۔وہ لفظوں میں تصویر کھینچ کر رکھ دیتے ہیں اور قاری چشم تصور سے تما م حالات و واقعات سے آگاہ ہو جاتا ہے۔وہ اصلاحی اور تعمیری اقدار کو اساس بنا کر پرورش لوح و قلم میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں قصیدہ گوئی یا مصلحت اندیشی کا کہیں گزر نہیں۔وہ وستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز حریت فکر کے مجاہد کی طرح اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حرف صداقت لکھتے چلے جاتے
ہیں۔ان کی موضوعاتی شاعری کا تعلق زیادہ تر مرحوم ادیب،شاعر،فنون لطیفہ کے نابغہ روزگار افراد اور فطرت کے مظاہر ہیں۔حق گوئی،بے باکی اور فطرت نگاری ان کی موضوعاتی شاعری کا نمایاں ترین وصف ہے۔
ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ مین اترنے کی جو کامیاب سعی کی ہے وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ان کا تشخص اپنی تہذیب،ثقافت،کلاسیکی ادب اور اقوام عالم کے علو م و فنون کے ساتھ قرار پاتا ہے۔وہ اقتضائے وقت کے مطابق تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ عہد وفا استوار رکھتے ہیں اور اسی کو علاج گردش لیل و نہار قرار دیتے ہیں۔وہ اس امرکی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی قوم اپنے اسلاف کی عظمت اور فکری میراث سے چشم پوشی کی مہلک غلطی کی مرتکب ہوتی ہے تو اس نے گویا یہ بات طے کر لی ہے کہ اسے اپنی ترقی اور عظمت سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔اسی لیے ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے عالمی شہرت کے حامل تخلیق کاروں کے بارے میں نہایت خلوص اور درمندی سے کام لیتے ہوئے مثبت شعور اور آگہی پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے۔کلاسیکی اردو شعرا کے متعلق ان کی موضوعاتی شاعری ان کی انفرادیت کے حیران کن پہلو سامنے لاتی ہے۔اس موضوعاتی شاعری میں ایک دھنک رنگ منظر نامہ ہے۔تخلیق کار نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے۔اس میں موضوعات کی ندرت،معروضی حقائق،خارجی اور دا خلی کیفیات،انفرادی اور اجتماعی زندگی کے جملہ معمولات اس مہارت سے اشعار کے قالب میں ڈھالے گئے ہیں کہ قاری حیر ت زدہ رہ جاتا ہے اور وہ پکار اٹھتا ہے
اے مصور تیرے ہاتھوں کی بلائیں لے لوں
اپنی موضوعاتی شاعری میں ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے جن عظیم شخصیات کو منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے ان میں میر تقی میر،میرزا اسداللہ خان غالب،احمد فراز،پروین شاکر،شبنم رومانی،فیض احمد فیض،سید صادقین نقو ی،مظفر وارثی اور متعد د تخلیق کاروں کو انھوں نے زبر دست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ان کے اسلوب میں پائی جانے والی اثر آفرینی قلب اور روح کی گہرایؤں میں اتر کر دامن دل کھینچتی ہے۔
انسانیت اور زندگی کی اقدار عالیہ کے ساتھ ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی والہانہ محبت ان کی موضوعاتی شاعری میں جس انداز میں جلوہ گر ہے وہ ان کے ندرت تخیل اور انفرادی اسلوب کی شاندار مثال ہے۔ بے لوث محبت اور درد کا یہ رشتہ ان کی ایسی تخلیق ہے جس میں کوئی ان کا شریک اور سہیم نہیں۔وہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے داعی اور علم بردار ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جغرافیائی حدود اور زمان و مکاں کے دائروں سے آگے نکل کر انسانیت کے آفاقی محور میں اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔سائنس کے غیر شخصی انداز سے قطع نظر ان کے اسلوب میں شخصی اور انفرادی انداز کی بو قلمونی اپنا رنگ جما رہی ہے۔ان کی موضوعاتی شاعری میں ان کا انفرادی اسلوب اس دلکش انداز میں صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتا ہے کہ ان کے قلبی احساسات،سچے جذبات،الفاظ اور زبان کی گہری معنویت،پر تاثیر اشاراتی کیفیات اور
سب سے بڑھ کر تہذیبی میراث کا تحفظ ان کا مطمح نظر قرار دیا جا سکتا ہے۔انھوں نے ہمارے ادب،تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی مستحسن اور عزیز ترین اقدار و روایات کو صیقل کیا ہے ان کی اس فکری و فنی کاوش نے متعدد تجربات،مشاہدات اور بصیرتوں کو پیرایہ ء اظہار عطا کیا ہے۔ان کے سوتے ہمارے اسلاف کی فکری میرا ث سے پھوٹتے ہیں۔ان کے مطا لعہ سے قاری ان تمام مآخذ اور منابع سے آگہی حاصل کر لیتا ہے جن پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ چکی ہے۔ہمارا معاشرہ اور فطرت کے تقاضے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ رخش عمر مسلسل رو میں ہے انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی اس کے پاؤں رکاب میں
ہیں۔ان تمام تناسبوں اور تقاضوں کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے۔شعوری سوچ اور گہرے غور و فکر کے بعد ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے موضوعاتی شاعری کو اپنے اسلوب کے طور پر اپنایاہے۔یہ سب کچھ تاریخی شعور کا مرہون منت ہے جو حدود وقت،زماں اور لا مکاں اور ارضی و سماوی قیود سے بالا تر ہے۔ایک جری اور زیرک تخلیق کار اسی شعور کو رو بہ عمل لاتے ہوئے روایت کو استحکام عطا کرتا ہے۔وہ اپنی داخلی کیفیت سے مجبور ہو کر کسی بھی موضوع پر بر جستہ اور فی البدیہہ لکھنے پر قادر ہیں۔یہ ان کی قادر الکلامی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ان کا یہ اسلوب انھیں ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ان کی تخلیقی فعالیت اور ادب پاروں سے اردو زبان وادب کی ثروت میں جو بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہ تاریخ ادب کا ایک درخشاں باب ہے۔ان کے بار احسان سے اردو زبان و ادب کے شیدائیوں کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ان کے فن پاروں کی حقیقی قدروقیمت کا تعین کرتے وقت قاری اس بات پر ضرور توجہ دیتا ہے کہ تخلیق کار نے کامیاب ابلاغ کے تمام طریقے پیش نظر رکھے ہیں ان میں اسلوب کی انفرادیت،الفاظ کا عمدہ انتخاب،سادگی اور سلاست،خلوص اور صداقت شامل ہیں۔ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی موضوعاتی شاعری کا حقیقی استحسان کرنے کے لیے ذوق سلیم کا ہونا اشد ضروری ہے۔وہ تزکیہ نفس کی ایسی صو رتیں تلاش کر لیتے ہیں کہ فریب سود و زیاں سے گلو خلاصی کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔انھو ں نے مواد اور ہیئت کے جمالیاتی عناصر کو اس طرح شیر و شکر کر دیاہے کہ ان کی موضوعاتی شاعر ی پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ان کی ادبی کامرانیوں کا اعتراف بہت ضروری ہے۔ تاریخ ہر دور میں اس نابغہ روزگار ادیب کے نام کی تعظیم کر ے گی۔
پچاس صفحات پر مشتمل ”برقی شعاعیں“ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی وہ معرکہ آرا تصنیف ہے جس میں انھوں نے تاریخ ادب میں پہلی بار ماحولیات کے تحفظ کے موضوع پر نظمیں لکھی ہیں۔یہ تما م نظمیں برقی کتاب کی شکل میں انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔سر سید احمد خان نے علی گڑھ تحریک کے ذریعے1857میں بر صغیر پاک و ہند کے عوام کی فلاح اور ملت اسلامیہ کی تعلیمی ترقی کے لیے جو فقید المثال خدمات انجام دیں انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں
بیاد سر سید:
ہے یہ سر سید کا فیضان نظر جس نے شہر علم کے کھولے ہیں در
جس گھڑی کوئی نہ تھا پرسان حال تھی بھلائی قوم کی پیش نظر
ان کا برقی ہے یہ احسان عظیم ہیں علوم عصر سے ہم باخبر
جدید اردو ادب ہو یا قدیم کلاسیکی ادب ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔وہ ہر موضوع پر بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں ا۔پنے جذبات
کااظہار کرتے وقت وہ نہایت دل نشیں انداز میں تمام حقائق کو اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔ مشتے از خروارے کے مصداق چند موضوعاتی نظموں سے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔ان کے مطالعہ سے تخلیق کار کے اسلوب کا استحسانی مطالعہ ممکن ہے۔
میر تقی میرؔ
میر کی شاعری میں ہے سوز دروں منعکس جس سے ہوتا ہے حال زبوں
ان کا رنگ تغزل ہے سب سے جدا آج بھی جس سے ملتا ہے ذہنی سکوں
مرزا اسداللہ خان غالبؔ
شہر دہلی میں ہے دیار غالب یہیں واقع ہے مزار غالب
آج تک اردو ادب کے برقی محسنوں میں ہے شمار غالب
شبنم رومانیؔ
چلے گئے شبنم رومانی بجھ گئی شمع شعر و سخن اہل نظر کو یاد رہے گا ان کا شعور فکر و فن
ابن صفی ؔ
ابن صفی سپہر ادب کے تھے ماہتاب اردو ادب میں جن کا نہیں ہے کوئی جواب
شادعظیم آبادی
قصر اردو کے تھے ستوں شاد عظیم آبادی فکر و فن کے تھے فسوں شاد عظیم آبادی
عمر خالدی
چل بسے اس جہاں سے عمر خالدی درس حسن عمل تھی جن کی زندگی
راغب مراد آبادی
راغب مراد آبادی جہاں میں نہیں رہے جو تھے جہاں اردو میں اک فخر روزگار
اردو ادب کو ان پہ ہمیشہ رہے گا ناز جن کے نوادرات ہیں اردو کا شاہکار
ابن انشاؔ(شیر محمد)
ابن انشا کا نہیں کوئی جواب ان کا حسن فکر و فن ہے لا جواب
ان کا طرز فکر و فن سب سے جدا ان کا فن روشن ہے مثل آفتاب
ممتاز منگلوریؔ
ڈاکٹر ممتاز منگلوری بھی رخصت ہو گئئے کیوں نہ ہو دنیائے اردو ان کے غم میں سوگوار
ان کی تصنیفات ہیں اردو ادب کا شاہکار ان کی ہیں خدمات ادبی باعث صد افتخار
صادقین
شاعر و خطاط و دانشور تھے سید صادقین جن کا ہوتا تھا عظیم الشان لوگوں میں شمار
سر حدوں کی قید سے آزاد ہیں ان کے فنون جن کے ہیں مداح اقصائے جہاں میں بے شمار
ڈاکٹر وزیر آغا
ستون اردو لرز رہا ہے نہیں رہے اب وزیر آغا جسے بھی اردو سے کچھ شغف ہے وہ نام سے ان کے ہے شناسا
نقوش ہیں لازوال ان کے تمام اصناف فکر و فن میں سبھی کو ہے اعتراف اس کا ادب کے محسن تھے وہ سراپا
مظفر وارثی
چھوڑ کر ہم کو ہو ئے ر خصت مظفر وارثی جن کی عملی زندگی تھی مظہر حب نبی
نعت گوئی میں تھے وہ حسان ثانی بر ملا ان کی غزلیں اور نظمیں تھیں سرود سرمدی
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ان کی موضوعاتی شاعری میں اس عشق کا بر ملا اظہار ملتا ہے۔کسی قسم کی عصبیت ان کے اسلوب میں نہیں پائی جاتی۔ان کا پیغام محبت ہے اور وہ اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کے مبلغ ہیں۔اردو کی فنی اور جمالیاتی اقدار کے فروغ میں ان کا جو کردار رہا ہے وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ان کی انفرادیت نے ان کو صاحب طرز ادیب کے منصب پر فائز کیا ہے۔ان کے ادبی وجود کا اثبات اور استحکام ان کی جدت،تنوع اور انفرادیت کا مرہون منت ہے۔وہ تقلید کی کورانہ روش سے دامن بچا کر نئے زمانے نئے صبح و شام پیدا کرنے کے متمنی ہیں ان کا خیال ہے کہ افکار تازہ ہی سے جہان تازہ کا سراغ ملتا ہے۔ایسے زیرک اور فعال تخلیق کار کاادبی کام قابل قدر ہے۔انھوں نے اپنی مستعدی اور تخلیقی فعالیت سے جمود کا خاتمہ کیا اور دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ان کے بارے میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ادب کا کوئی دیانت دار نقاد ان کی اس تخلیقی فعالیت کو نظر اندازنہیں کر سکتا۔انھوں نے قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بھی انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ان کی شاعری اور اسلوب جس حسین اور دلکش انداز میں قاری کے شعور کو وسعت اور ذہن و ذکاوت کولطافت سے فیض یاب کرتا ہے وہ ان کے بلند پایہ تخلیق کار ہونے کی دلیل ہے۔ ان کی موضوعاتی شاعری کی باز گشت تاابد سنائی دیتی رہے گی۔
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
قومی اردو کونسل کے لیے فنڈ کی کمی نہیں ہونے دی جائے گی
قومی اردو کونسل کے وائس چیئرمین اور ڈائرکٹر کے ساتھ جائزہ میٹنگ میں مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل جناب رمیش پوکھریال نشنک کا اظہار خیال
نئی دہلی: اردو ہندوستان کی بیٹی ہے اور ہندوستان میں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی۔ ہم چاہتے ہیں کہ اردو کی شیرینی اور خوشبو مشک کی طرح پوری دنیا میں پہنچے۔ اس کے لیے جو بھی تعاون ہوگا وہ ہم وزارت کی جانب سے کریں گے۔ اردو کے لیے جتنے فنڈ کی ضرورت ہوگی ہم مہیا کرائیں گے۔یہ باتیں مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل جناب رمیش پوکھریال نشنک نے قومی اردو کونسل کے وائس چیئرمین پروفیسر شاہد اختر اور ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد، جناب مظاہر خان (ایگزیکٹیو بورڈ کے ممبر) کے ساتھ جائزہ میٹنگ میں کہیں۔انھوں نے قومی اردو کونسل کی اسکیموں کی جانکاری لی اور کونسل کے کاموں پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ لوگ کونسل میں اردو کے فروغ کے لیے بہت عمدہ کام کررہے ہیں لیکن اس میں نئی اسکیموںکا بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ انھوں نے اپنی وزار ت کے انڈرسکریٹری اور ڈپٹی سکریٹری سے بھی کونسل کو نئی اسکیمو ںکی تجاویز بھیجنے کی ہدایت دی تاکہ اردو کی ترقی کو رفتار مل سکے۔ وزیر موصوف نے کونسل کے اردو کمپیوٹر کورس CABA-MDTP اسکیم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ اس کورس سے فارغ طلبا اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ انھوں نے کونسل سے ایسے طلبا کی فہرست طلب کی ہے جو کونسل کے مراکز سے فارغ ہوکر اچھے عہدوں پرفائز ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم انھیں وزارت میں دعوت دے کر ان کی حوصلہ افزائی کریں گے اور انھیں اعزاز سے نوازیں گے۔ انھوں نے کونسل کے مراکز میں شفافیت لانے کے لیے کہا کہ کونسل کے ڈائرکٹر اور وائس چیئرمین سینٹر والوں کو بغیر اطلاع دیے کمپیوٹر مراکز کا دورہ کریں۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ وہ خود بھی اچانک کسی سینٹر کا دورہ کرسکتے ہیں۔ کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے انھیں اطلاع دی کہ قومی اردو کونسل داراشکوہ کی فارسی کتابوں کا اردو ترجمہ بھی شائع کرنے والی ہے تو وہ خوش ہوئے اور کہا کہ یہ ایک اچھی پہل ہے۔داراشکوہ نے ہندوستانی تہذیب وثقافت پر بہت کچھ لکھا ہے جو فارسی میں ہے ، اسے اردو اور دیگر زبانوں میں منظرعام پر لایا جائے۔ہندوستان کی قدیم تہذیب اور فلسفہ کو اردو میں ترجمہ کر کے گھر گھر پہنچانا بھی ہماری ذمے داری ہے۔ مدارس میں بھی ایسی کتابوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ مدارس کے طلبا بھی ہندوستان کی ثقافت اور فلسفہ سے روشناس ہوسکیں اور انھیں بھی ملازمت میں مساوی مواقع مل سکیں۔
وزیرموصوف نے یہ سن کرطمانیت کا اظہار کیا کہ سابق وزیراعظم جناب منموہن سنگھ کے دور اقتدار کے آخری پانچ برسوں میں این سی پی یو ایل کو 146 کروڑ کا فنڈ ملا تھا جبکہ موجودہ وزیراعظم عزت مآب نریندر مودی کے پانچ سال کے اقتدار میں یہ بجٹ بڑھ کر 376 کروڑ روپے کا ہوگیا۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے قومی اردو کونسل کے لیے فنڈ کی کوئی کمی نہیں ہونے دیں گے۔
اس جائزہ میٹنگ میں وزارت کے سکریٹری، زبانوں کے ڈپٹی و انڈر سکریٹری اور ان کے پی ایس کے علاوہ قومی اردو کونسل کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر (ایڈمن) جناب کمل سنگھ اورجونیئر اکائونٹس آفیسر محمد احمد بھی موجود تھے۔
شعبۂ اردو،دہلی یونی ورسٹی کے زیر اہتمام ’’ہمارا نصاب‘‘ کے عنوان سے سمینار کا انعقاد
شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی کے زیر اہتمام 17 ستمبر2019 کو’’ہمارا نصاب‘‘ کے عنوان سے ایک روزہ سمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں شعبۂ اردو کے اساتذہ کے علاوہ دہلی یونی ورسٹی کے مختلف کالجوں کے شعبۂ اردو کے اساتذہ ٔ کرام نے ’’اردو نصاب‘‘ سے متعلق مختلف موضوعات پر مقالات پڑھے۔یہ سمینار دو اجلاس پر مشتمل تھا۔پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کی، جب کہ اس موقع پر پروفیسر قدوس جاوید ،پروفیسر صاحب علی، پروفیسر ابن کنول اور ڈاکٹر عفت زریں بھی اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔سمینار کے حوالے سے تعارفی کلمات ڈاکٹر ساجد حسین نے پیش کیے۔اس اجلاس میں پانچ مقالات پڑھے گئے۔مقالہ نگار حضرات میں ڈاکٹر علی احمد ادریسی نے ’’قصہ مہر افروز دلبرکے اساطیری کردار‘‘ ڈاکٹر عفت زریں نے’’فورٹ ولیم کالج‘‘ڈاکٹر شمیم احمدنے’’ محسن کاکوروی کی قصیدہ نگاری‘‘ ڈاکٹر ارشاد احمد خاں نے’’خواجہ میر درد کی شاعری کے سماجی سروکار‘‘ اورڈاکٹر احمد امتیاز نے’’اقبال کی متصوفانہ فکر پر ایک نظر‘‘موضوعات پر مقالات پڑھے۔پروفیسر قدوس جاوید نے اپنے صدارتی خطبے میں مقالات کی جہاں تعریف کی وہیں ان مقالوں میں کمیوں کی طرف بھی توجہ فرمائی۔انھوں نے کہا کہ ان مقالوں میں یہ نہیں کہا گیا کہ ان مو موضوعات کو ہمارے نصاب میں شامل ہونا چاہیے کہ نہیں اور اگر نصاب میںشامل ہیں تو کیوں؟۔پروفیسر موصوف نے علامہ اقبال پر پڑھے گئے مقالوں کے تعلق سے کہا کہ اقبال تصوف کے معاملے میں کنفیوزڈ نظر آتے ہیں۔انھوں نے کہا تصوف کیا ہے؟کیا نہیں ہے، اس کے مضمرات کیا ہیں؟تقاضے کیا ہیں؟تصوف دراصل ایک متنازعہ معاملہ ہے اور علامہ اقبال کے متصوفانہ خیالات میں شفافیت نظر نہیں آتی۔پروفیسر ابن کنول نے شعبۂ اردوخصوصاً ارتضیٰ کریم کو مبارک باد دی اور کہا کہ اس نوعیت کے موضوعات پر عموماً اظہارِ خیال نہیں کیا جاتا،جب کہ نصاب سے متعلق سمیناروں کا انعقادوقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔انھوں نے جامع انداز میں مقالات پر اظہار خیال کیا۔اس موقع پر پروفیسر ابن کنول نے 2008 میں پروفیسر ارتضیٰ کریم کی صدارت میں گولڈن جوبلی تقریبات کی یاد کو بھی تازہ کیا۔پروفیسر ارتضیٰ کریم نے پڑھے گئے مقالات پر اطمینان کا اظہار کیا ۔پہلے اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد کاظم نے بہ حسن و خوبی انجام دیے اور اظہار ِتشکر ڈاکٹر متھن کمار نے کیا۔
دوسرے اجلاس کی صدارت شعبۂ فارسی کے صدر پروفیسر علیم اشرف نے کی۔اس اجلاس میںجن مقالہ نگاروں نے اپنے مقالات پڑھے اُن میں ڈاکٹر مشتاق قادری نے ’’قطب مشتری کی ادبی معنویت‘‘ڈاکٹر مظہر احمد نے’’ایہام گوئی‘‘ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے دبستانِ دہلی اور دبستانِ لکھنؤ:امتیازات و اختلافات‘‘،ڈاکٹر ابو بکر عباد نے’’دبستان دکن کا نمائندہ شاعر:قلی قطب شاہ‘‘ اور ڈاکٹر ساجد حسین نے’’دہلی کالج کی ادبی خدمات‘‘قابلِ ذکر ہیں۔پروفیسر علیم اشرف نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی مبارک باد کا مستحق ہے جس نے ایسے منفرد موضوع پر سمینار منعقد کرنے کی بہترین اور کامیاب پہل کی۔انھوں نے مقالہ نگاروں کے مقالات کو سراہا اور ان کی محنت کی داددی۔انھوں نے طلبا و طالبات کی سمینار کے آخر تک موجودگی پر مسرت کا اظہار کیا اور کہاآجکل ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ جہاں سامعین کی ایسی خوش کن تعداد پائی جاتی ہو۔دوسرے اجلاس کی نظامت ڈاکٹر محمد شمیم نے کی اور اظہارِ تشکر ڈاکٹر ارشاد احمد خاں نے کیا۔اس سیمینار کے کنوینر ڈاکٹر متھن کمار تھے۔اس سمینارمیںجن اساتذۂ کرام ،ادیبوں اور قلم کاروں نے شرکت کی ان میں پروفیسر قدوس جاویدممبئی یونی ورسٹی کے صدر شعبۂ اردوپروفیسر صاحب علی،ڈاکٹر ارجمند آرا، ڈاکٹر مہتاب جہاں، ڈاکٹر ناصرہ سلطانہ،ڈاکٹررغبت شمیم ملک،ڈاکٹر مظفرالحسن، ڈاکٹر نیبو لال،ڈاکٹر مخمور صدری، شہنواز ہاشمی،غلام نبی کماروغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان کے علاوہ اس سمینار میں بی۔اے،ایم۔اے ، ایم۔فل اور پی ۔ایچ۔ڈی کے طالب علم کثیر تعداد میں شامل ہوئے۔
معوذ سید
ایک معزز ہستی کی ایک تحریر نظر سے گزری، ساتھ ہی میرے بڑے بھائی جیسے ایک عزیز کی فرمائش ملحَق تھی کہ اس پر اظہارِ خیال کیا جائے.
صاحبِ تحریر مولانا محمود مدنی کو تاریخ پڑھا رہے تھے اور ان سے شکایت کر رہے تھے کہ آپ "دیش دیش” کیوں کر رہے ہیں؟
فرمایا: آپ دیش دیش کی تکرار میں حکومتِ ہند کے عہد شکن اقدامات کو کیوں بھول جا رہے ہیں؟ موجودہ حکومت نے دفعہ 370 ہٹا کر بدعہدی کی، اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق استصوابِ رائے نہ کرا کر بدعہدی کی، شملہ معاہدہ کی پابندی نہ کر کے بدعہدی کی……الخ!
اگر آپ نے میری ہی طرح کم از کم کچھ یہاں وہاں کی معلومات بھی یکجا کر رکھی ہوں گی تو آپ جانتے ہوں گے، کہ 1956 میں کشمیر آئین ساز اسمبلی کی جانب سے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیے جانے کے بعد، 1972 کے شملہ معاہدے میں بھارت و پاکستان دونوں کی جانب سے اقوام متحدہ کو اس مسئلے سے لاتعلق کر دیے جانے کے بعد، 1975 میں اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے معاہدے کے بعد، 2001 میں ہند و پاک کے دورے پر آئے اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری کوفی عنان کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو "تجویزِ محض” قرار دیے جانے کے بعد اور 2003 میں پاکستان کے سربراہِ مملکت کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو کنارے لگا دینے پر اظہارِ رضامندی کے بعد، اقوام متحدہ کی استصوابِ رائے کی قرارداد کیا حیثیت رکھتی ہے اور آج 2019 میں اس کا حوالہ دینے کے عمل کو "تاریخی قابلیت” سمجھنا کس درجہ مضحکہ خیز ہے!
فاضل موصوف نے محمود صاحب سے یہ شکایت بھی کی ہے کہ آپ حکومت سے "شملہ معاہدے” کی عہد شکنی پر سوال کیوں نہیں کرتے؟ 1972 کا شملہ معاہدہ ایک سطر میں یہ تھا کہ بھارت اور پاکستان اپنے مسائل کو صرف اور صرف بات چیت سے حل کریں گے. اب بتلائیے، 1999 میں کارگل میں پاکستان کی جو فوج "بات چیت” کرنے آئی تھی، اس کے تشریف لے آنے کے بعد شملہ معاہدے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ خود عہد شکن کی جانب سے جب عہد شکنی کا شکوہ کیا جائے تو اسی کو "حسنِ کرشمہ ساز کا جلوہ” کہتے ہیں ـ
دفعہ 370 ہٹانے کے عمل کو اس کے طریقِ کار کی بنیاد پر کشمیریوں سے بدعہدی قرار دینا معقول بات ہے، اور اِسی لیے محمود صاحب نے ٹی وی پر 370 کے حوالے سے مسلسل یہی بات کہی کہ "ہمارے اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن نیشنل انٹی گریٹی کے حق میں ہم دیش کے ساتھ ہیں”، اور انہی "اختلافات” کا ذکر اس متفقہ قرارداد میں آ چکا تھا جو اس سے پہلے منظور ہوئی تھی ـ
لیکن ابھی بات مکمل نہیں ہوئی، اصل سوال تو باقی ہے. اصل سوال یہ ہے کہ محمود صاحب "دیش دیش کیوں کر رہے ہیں؟”. جواب لینے کے لیے ذرا اوپر چلیے، وہ دو "معاہدات” جن کی "شکستگی” پر فاضل موصوف کو دُکھ ہے، ان میں فریقین کون ہیں؟ ہندوستان اور پاکستان ہیں. اگر بالفرض ہندوستان نے عہد شکنی ہی کی ہے، تو کس سے عہد شکنی کی ہے؟ فریقِ ثانی پاکستان سے. آخر آپ کیوں اس فریقِ ثانی کی وکالت میں کھڑے ہو گئے؟ اگر استصوابِ رائے کی قرارداد کے قطعاً بے معنی و بے اثر ہو جانے کے بعد بھی آپ کو استصوابِ رائے کرانے کی تمنا ہے، تو اس کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ آپ "کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے” پر اب تک اٹوٹ وشواس نہیں پیدا کر پائےـ
جی ہاں، آپ درست سمجھے، ناقص معلومات، ناپختہ شعور اور بے تحاشا جذبات کے اِسی طوفان پر بندھ باندھنے کے لیے محمود مدنی کو دیش دیش کرنا پڑتا ہے. اگر وہ ایسا نہ کرے، تو جانتے ہیں کیا ہو گا؟ اُدھر باہر کی جانب وہ ناکام سفارتی لابی ہے جو مسلمانانِ ہند کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کی کوشش میں ہے، اور جن کے وزیرِ اعظم نے پبلک ریلی میں "بھارت کے 20 کروڑ مسلمان شدت پسندی کا راستہ اختیار کر لیں گے” جیسی احمقانہ بیان بازیاں کی ہیں، اور اِدھر اندر کی جانب دانشورانِ قوم کی یہ بے دانشی ہو گی جس کا ابھی آپ نے مشاہدہ کِیا. عین اِنہی دو عناصر یعنی بیرونی مداخلت اور اندرونی بے سمت شدت پسندی نے کشمیر کو تباہ کِیا ہے، اور خدانخواستہ یہی دو عناصر آپ کو بھی تباہ کر دیں گے!
آخری بات، کشمیری عوام کے لیے حقوق و حالات کی بحالی، ثقافتی شناخت اور سماجی وقار کے تحفظ کی آواز پہلے بھی اور ابھی پانچ دن قبل بھی اسی محمود مدنی نے اٹھائی ہے، جس آواز کو انڈین ایکسپریس کے سِوا کسی نے نہیں سننا چاہا. ہمارے اپنوں نے بھی شاید اس لیے نہیں سننا چاہا، کہ محمود مدنی نے حسبِ عادت یہ کڑوا سچ بول دیا تھا کہ کشمیری عوام چکی کے دو پاٹ میں پِس رہے ہیں، یہ سچ بہت ناگوار گزر جاتا ہے، لیکن یہی سچ کل 15 ستمبر کو نیویارک ٹائمز نے اس شدت کے ساتھ پیش کِیا ہے کہ شاید اس آئینے میں بہت سے لوگ اپنی صورت نہ دیکھ سکیں. اس رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ کشمیر کے حالات کو معمول پر نہ آنے دینے کے لیے علاحدگی پسندوں نے باقاعدہ طور پر سخت ترین سماجی پابندیاں لگا رکھی ہیں حتی کہ وہ کشمیری عوام پر پر گولی چلا دینے سے بھی گریز نہیں کر رہےـ
اردواکادمی کے زیراہتمام قمررئیس سلورجبلی ہال میں جلسہ تقسیم انعامات برائے اردو ٹاپرزکاانعقاد
نئی دہلی :16؍ستمبر۔
اردواکادمی کے زیراہتمام قمررئیس سلورجبلی ہال میںجلسہ تقسیم انعامات 2018(برائے اردوٹاپرزیونیورسٹیز،بورڈز،اردوسرٹی فکیٹ کورس،اردوکمپیوٹرکورس اوراردوکتابت کورس) کاانعقادکیاگیا۔اس موقع پرمہمان خصوصی کے طورپردہلی کے نائب وزیراعلیٰ اوراردواکادمی کے چیئرمین منیش سسودیانے شرکت کی اورصدارت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلرسیدشاہدمہدی نے کی۔اس موقع پرسیلم پورکے ایم ایل اے حاجی اشراق بھی موجود تھے ۔اردو اکادمی کے وائس چیئرمین معروف وممتازشاعرپروفیسرشہپررسول نے اپنی استقبالیہ تقریرمیں کہا کہ اردو اکادمی ہرسال اردوکے مختلف کورسیز میں ٹاپ کرنے والے طلبا وطالبات انعامات دیتیہے ۔اس سال ہماری یہ خوش بختی ہے کہ ہمارے نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیاجی اس پروگرام میں موجود ہیں،منیش سسودیاجی نے دہلی کے سرکاری اسکولوں میں تعلیمی انقلابرپا کیاہے جس کی ہر طرف پذیرائی ہورہی ہے ۔اردوکے لیے دہلی کی حکومت ہر وقت مخلص اورکام کرنے کے موڈمیں ہوتی ہے ۔دہلی کی حکومت بالخصوص تعلیم کے فروغ کے لیے وزیراعلیٰ اورنائب وزیراعلیٰ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی،میں اپنے ہردلعزیزنائب وزیراعلیٰ ،سیدشاہدمہدی اورحاجی اشراق کااورسب سامعین کا بصمیم قلب استقبال کرتاہوں۔
اپنی صدارتی تقریر میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلرسیدشاہدمہدی نے کہاکہ اردواکادمی،دہلی ملک کی سب سے فعال اورمتحرک اکادمی ہے ۔اردوکے فروغ کے تمام امکانات پراکادمی کام کررہی ہے ۔میں اکادمی کے اکثرپروگراموں میں آتاہوں،لیکن اردوکے مستقبل کے نمائندوں کو انعام دینے کے لیے آنامجھے سب سے زیادہ پسند ہے ۔اکادمی کایہ سلسلہ شاندارہے ۔اردواکادمی میں انعامات حاصل کرنے والے یہ طلباوطالبات ہی اردوکے مستقبل ہیں۔اردواکادمی ہرسطح کے طلباوطالبات کو انعام دیتی ہے ۔مجھے نہیں لگتاکہ ہندوستان کی کوئی اوراکادمی اس طرح اردوکے طلباوطالبات کا اس طرح خیال رکھتی ہے۔
پروگرام کے مہمان خصوصی نائب وزیراعلی منیش سسودیانے کہاکہ اردواورہندوستان میں کوئی فرق نہیں ہے۔اردوتہذیب وثقافت بنیادی طورپرہندوستانی تہذیب وثقافت کی عکاس ہے ۔اردواکادمی میں بہت کچھ ایسی پرانی روایتیں بھی ہیں جو انتہائی شاندارہیں ،میں فخرمحسوس کررہاہو ں کہ آج مجھے طلبا وطالبات کوانعام دینے کے لیے مدعوکیاگیا ہے ۔یہ موقع بہت اہم ہے۔ دہلی کے تمام سرکاری اسکولوںمیں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ان اسکولوں میں اردوکے اسکول بھی شامل ہیں۔انھوں نے مزیدکہاکہ میں چاہتاہوں کہ یہاں صرف میں نہ بولوں بلکہ طلباوطالبات بھی شامل ہوں ،میں کچھ سوال کروں اورآپ اس کا جواب دیں۔نائب وزیراعلی نے طلباوطالبات سے اس موقع پرمکالمہ کرتے ہوئے ان سے سوال کیا کہ آپ اپنی زندگی میں اردوکوکہاں پاتے ہیں۔ ان کے اس سوال کا مختلف لوگوں نے جواب دیا۔طلباوطالبات کے جواب پرنائب وزیراعلی نے تالیاں بھی بجائیں۔نائب وزیراعلی منیش سسودیانے مزیدکہاکہ میں محسوس کرتاہوں کہ ہم اکثریہ سوچتے ہیں کہ اردودوسروں کے لیے کیا ہے ۔اب اس بات پرزیادہ توجہ دینی چاہیے کہ اردوہمارے لیے کیا ہے ۔اردوپڑھنے کامطلب صرف جاب کاحصول ہی نہیں ہے اوربھی بہت کچھ ہے ۔یہ درست ہے کہ کسی بھی تعلیم کے حصول کااہم مقصدجاب پانابھی ہوتا ہے ۔
اس موقع پرنائب وزیراعلی ،سیدشاہدمہدی اورحاجی اشراق کااستقبال گلدستہ پیش کرکے وائس چیئرمین اوراکادمی کے سکریٹری نے کیا۔پروگرام کے آخرمیں تمام اردوٹاپرزکونقدانعام،مومینٹواورشیلڈسے نوازاگیا۔اردواکادمی کے سکریٹری ایس ایم علی نے اظہارتشکرکرتے ہوئے نائب وزیراعلی ،سیدشاہدمہدی اورحاجی اشراق اورتمام سامعین کاشکریہ اداکیا ۔انھوں نے کہا کہ اردواکادمی اس طرح کے پروگرام کرتی رہتی ہے،دہلی حکومت کی حوصلہ افزائی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہے ۔نائب وزیراعلی خصوصی طورپراردوکی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ خیال رہے کہ اس جلسہ تقسیم انعامات میں 70طلباوطالبات کوانعامات سے نوازاگیا جس میںتقریباًایک لاکھ پچاس ہزارروپے تقسیم کیے گئے ۔پروگرام میں معززین شہرکے علاوہ اکادمی کے اراکین ایف آئی اسماعیلی،فریدالحق وارثی اورڈاکٹروسیم راشدنے خصوصی طورپرشرکت کی ۔
اکادمی برائے اردو اساتذہ ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سہ روزہ تربیتی پروگرام بہ اشتراک اردو اکادمی دہلی اختتام پذیر
نئی دہلی۱۵؍ستمبر۹ ۲۰۱ء (پریس ریلیز)اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی گذشتہ دس برسوں سے اسکولوں کے اردو اساتذہ کی تربیت کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔اسی سلسلے کو فروغ دیتے ہوئے اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام بہ اشتراک اردواکادمی، دہلی سہ رزہ تربیتی پروگرام برائے اساتذہ اردو خواندگی مراکز کا انعقاد کیاگیا۔۱۳ ستمبر تا ۱۵ ؍ستمبر ۲۰۱۹ء چلنے والے اس تربیتی پروگرام میں اردو رسم خط کی تدریس،منصوبۂ سبق کی اہمیت،تاریخ ِزبانِ اردو کاتعارف،افسانوی ادب کا تعارف،تدریس اور تربیت کی مبادیات، روزمرہ ،محاورہ ، کہاوت ،ضرب المثل اور شاعری کی تدریس کے موضوعات پر لیکچر ہوئے۔ پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر عبد الرشید ،ڈاکٹر شعیب رضا خان، ڈاکٹر واحد نظیر، ڈاکٹر حنا آفریں اور ڈاکٹر نوشاد عالم نے مذکورہ موضوعات پر لیکچر دیے۔
پروگرام کے افتتاحی اجلاس کی صدارت پروفیسر شہزاد انجم، صدر شعبۂ اردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کی۔انھوں نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ تدریس کا پیشہ عبادت کی طرح ہے ۔اساتذہ کو چاہیے کہ وہ خلوص ، محبت اور گہرے انہماک سے اس فریضے کو انجام دیں۔صدر جلسہ پروفیسر شہزاد انجم نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بنیاد گزار اساتذہ کے حوالے سے تدریسی پیشے کے تقدس اور تقاضوں پر بھر پور روشنی ڈالی ۔ مہمانِ خصوصی پروفیسر وہاج الدین علوی سابق ڈین، فیکلٹی آف ہیومنیٹیز اینڈ لینگوجیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے تعلیم اور تدریس کے ساتھ ساتھ طلبہ کی ذہنی اور فکری تربیت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ نفس کے تزکیہ کے بغیر علم کے مثبت نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ دوسرے مہمانِ خصوصی پروفیسر شہپر رسول وائس چیئر مین اردو اکادمی دہلی نے اپنی تقریر میں کہا کہ کتابیں محض تدریس کا وسیلہ ہیں ۔ بنیادی حیثیت اساتذہ کے تجربے اور غور و خوض کو حاصل ہے۔ دورانِ تدریس وہ باتیں جو تجربے اور غور و خوض کے نتیجے میں اساتذہ کی زبان سے ادا ہوتی ہیں وہ درسی کتابوں سے حاصل نہیں ہو سکتیں ۔ افتتاحی اجلاس میں اکادمی برائے اساتذہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اعزازی ڈائریکٹر پروفیسر احمد محفوظ نے مہمانوں اور شرکا استقبال کیا۔انھوں نے اپنے خیر مقدمی کلمات میں کہا کہ ایسے ادارے بہت اہمیت کے حامل ہیں جو تدریس کے طریقۂ کار کی بہتری اور مسائل کے حل کے لیے وقف ہیں ۔انھوں نے مزید کہا کہ جدید طریقۂ تدریس سے آگاہی تعلیم کے معیار کی ضامن ہے۔ تدریسی اصول و ضوابط سے نا بلد رہ کر ہم اپنے ہدف کو نہیں حاصل کرسکتے۔ڈاکٹر واحد نظیر نے پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔انھوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ علم حاصل کرنے کا مقصد شخصیت کے ظاہری اور باطنی پہلوؤں کی تزئین ہے۔افتتاحی جلسہ کی نظامت کے فرائض پروگرام کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر حنا آفریں نے انجام دیے۔ اخیر میں ڈاکٹر حنا آفریں نے تمام مہمانان ، اساتذہ ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ارباب حل وعقد اور اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئر مین اور کارکنان کا صمیمِ قلب سے شکریہ ادا کیا۔
پروگرام کے آخری دن شرکا کی نمائندگی کرتے ہوئے محترمہ ناظمہ پروین اور جناب رضوان احمد نے اپنے تاثرات پیش کیے۔انھوں نے پروگرام کے تعلق سے اطمینان اور خوشی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ تمام شرکا اس پروگرام سے بہت مستفیض ہوئے۔انھوں نے کہا کہ اس نوعیت کے اور بھی پروگرام منعقد ہونے چاہئیں تاکہ ان کی تدریسی صلاحیت میں نکھار پیدا ہوسکے۔پروگرام کوآرڈی نیٹر نے پروگرام کی تفصیلی رپورٹ پیش کی ۔ اس موقع پر شرکا کو اسناد کے ساتھ ساتھ اکادمی برائے اساتذہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے رسالہ ’تدریس نامہ‘ کے تین شمارے بھی دیے گئے۔ اخیر میںڈاکٹر نوشاد عالم کے اظہارِ تشکر کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔
ابوبکر عباد
شعبۂ اردو،
دہلی یونیورسٹی،دہلی۔
شاعر اور شاعری کو علمائے کرام نے قرآنی آ یت ’والشعراء یتبعون الغاوون الم تر انھم فی کل وادیہیمون‘ کی بنیادپرشک اور مخاصمت کی نظروں سے دیکھااور انھیں راندۂ درگاہ بتایاہے ۔ اسی طرح یونانی فلاسفر افلاطون نے شاعری کو اصل کی نقل جانا اور شاعر کو تیسرے درجے کا نقال محض قرار دے کرانھیں اپنی مثالی ریاست سے دربدری کا حکم سنایا۔ یوں انصرام معاشرت کے یہ دو اہم دعویدار ادارے یعنی مذہب اور فلسفہ شاعری کولغو اور لا یعنی سمجھ کر شاعروں کو اپنے محفوظ قلعوں میں داخل ہونے سے روکنے کے جواز پیش کرتے رہے۔ حالانکہ عمدہ شاعری سے متعلق خود علمائے کرام اورعالمِ انسانیت کے آئیڈیل محمد عربی کی پسندیدگی کے مستند ثبوت موجود ہیں، اورشاعر کی تعریف میں اُن کے کہے ہوئے الفاظ تاریخ کے صفحات پر معتبر شہادت کا درجہ رکھتے ہیں۔ روایت تو یہ ہے کہ نبی امّی نے بھی ایک شعر کہا تھاجس کا دوسرا مصرعہ ہے: انا محمدعربی۔
شاعروں سے نالاں افلاطون کے لائق شاگرد ارسطو نے استاذ کے تصورات و نظریات کونہ صرف وسعت دی بلکہ ان کا تنقیدی اور معروضی جائزہ لیا اور ان کے بعض تصورات کی تشکیلِ نو بھی کی۔ ان میں سے سب سے اہم اور معروف ’تصور شعر‘ اور’ شاعر سے متعلق خیالات‘کی تشکیل نو ہے۔ ارسطو نے اپنے استاذ کے بر عکس شاعر اور شاعری کے دوسرے پہلوؤں کوبھی دیکھا، کچھ نئے پہلو دریافت کیے، اُن پر غورکیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ شاعر اور ان کی شاعری بھی ملک اور معاشرے کے لیے اتنے ہی محترم، ضروری اور کارآمد ہیں جتنے دوسرے علوم وفنون اور عالم وفنکار۔ سو، ارسطو نے اس بات کا اعتراف کیا اور اظہار بھی کہ اس معاملے میں ان کے مربی افلاطون سے سہو ہوا ہے، اور یہ کہ شاعروں کو اُن کی اپنی مثالی ریاست سے دیس نکالا دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔
بعض مذہبی عالموں نے بھی شاعری سے متعلق قرآنی آیت کی شان نزول کو سمجھنے کی غیر جانبدارانہ کوششیں کیں، معقول دلائل پیش کیے اور اس سے متعلق آیت اور احادیث میں تطابق کی تعبیریں بھی خوب کیں۔ لیکن ان سب کے باوجود علماء کی ایک بڑی جماعت شاعری کو دل کی گہرائیوں سے قبول نہ کر سکی، اور نہ شاعروں کو ہمسر ماننے پر آمادہ ہوئی۔ ہاں انھوں نے یہ ضرور کیا کہ بعض شاعروں سے ان کے افکار و نظریات کے باعث قربت محسوس کی اور کچھ شاعری کو لفظیات، ادائے خیال اور شدت اظہار کی بنا پر نہ صرف اپنایا بلکہ تواتر کے ساتھ انھیں اپنی تقریرو تحریرکا حصہ بناتے اور نجی محفلوں میں استعمال بھی کرتے رہے۔اس حوالے سے ان کے پسندیدہ شاعروں میں مولانا روم، حافظ، سعدی،خسرو، اقبال ، مومن اور کسی حد تک فیض احمد فیض شامل ہیں۔یعنی ہمارے علماء نے کتاب ِ شاعری کے محض ایک باب کو ضرورتاًمباح قرار دے لیا، یااستعارے کی زبان میں کہیں تو، آسودگیٔ ذوق کی خاطر از قسم ِ’مشروبات‘ میں سے ’نبیذ‘ کوپسند فرمایا۔شاید ایسے ہی اختیارواستنباط کے فلسفے کو بیان کرنے کے لیے اصغر گونڈوی نے کہا تھا:
اے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی
کچھ قید و رسم نے جسے ایماں بنا دیا
اور سچ تویہ ہے کہ وفور جذبات، شدت احساس اور زوربیان کے سب سے حسین ،نفیس اور فطری ذریعۂ اظہار کو بھلا کون صاحب ذوق اورجمالیات کا عاشق ہوگا جو اپنانا نہ چاہے گا۔ورڈزورتھ نے کہا تھا کہ’’ شاعری جذبات کے بے اختیار بہہ نکلنے کا نام ہے۔‘‘اور شبلی تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ:
’’ جس طرح شیر گرجتا ہے، ہاتھی چنگھاڑتا ہے، کوئل کوکتی ہے، طاؤس ناچتا ہے، سانپ لہراتے ہیں ، اسی طرح انسان کے جذبات بھی حرکات کے ذریعے ادا ہوتے ہیں۔ لیکن اس کو جانوروں سے بڑھ کر ایک اور قوت دی گئی ہے یعنی قوت گویائی۔ اس لیے جب اس پر کوئی قوی جذبہ طاری ہوتا ہے توبے ساختہ اس کے منھ سے موزوں الفاظ نکلتے ہیں۔ ‘‘
اس بات پر قطعی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے علماء (بالخصوص درس نظامی سے فارغ التحصیل) کو اظہار کے اس پُر اثر ذریعے سے ا وروں کے مقابلے میں زیادہ مناسبت یوں ہونی چاہیے کہ’’دیوان حماسہ، ‘‘دیوان متنبی‘‘ اور’’مقامات حریری‘‘جیسے عربی شاعری کے شاہکار ان کے نصاب میں شامل ہیںاورفصاحت وبلاغت اور عروض کی کتاب ’’مختصرالمعانی ‘‘ اور ’’البلاغۃالواضحہ ‘‘ ان کے ذوق سخن کی تربیت میں معاونت کرتی ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے متعدد اہم اور باذوق علماء نے کسی نہ کسی حد تک شاعری سے آشنائی ضرور رکھی ہے اور اعشیٰ اور حسان بن ثابت کی روایت کا پاس بھی ۔سو، کہنے کی اجازت دیجیے کہ علامہ انور شاہ کشمیری، مولانا احمد رضا خاںبریلوی، مولانا مناظر احسن گیلانی، علامہ شبلی نعمانی ، قاری محمد طیب صاحب اورمولانا عامر عثمانی سے لے کر پروفیسر ابوالکلام قاسمی تک اور ان کے بعد کی نسل میں بھی بہت سے علماء ہیں جنھوں نے حسب ذوق اور حسب صلاحیت اس دشت کی سیاحی کی ہے اور آج بھی اس جماعت کے بعض دیوانے لیلیٰٔ سخن کے گیسو سنوارنے میں مصروف ہیں۔
دینی مدارس کے انھی فیض یافتہ دیوانگان شوق میںایک نام ڈاکٹراحمدسجادساجدقاسمی ؔکا ہے۔ڈاکٹر احمد سجاد ساجدؔ قاسمی کا تعلق ایک ایسے ذی علم خاندان سے ہے جس نے مذہبی علوم کی روشنی پھیلانے میں اہم کارنامے انجام دیے ہیںاور وطن عزیز کی جنگ آزادی میں شریک کار بھی رہاہے ۔سجاد صاحب کی تعلیم کی بسم اللہ تو مدینۃ العلم دارالعلوم دیوبند میں ہوئی لیکن درس نظامی کی ابتدائی تعلیم انھوں نے اولاً دربھنگے میں حاصل کی اور پھردیوبند لوٹنے سے پہلے کچھ عرصے اپنے آبائی مدرسے مفتاح العلوم مئو ناتھ بھنجن میںرہے ۔ یہ زمانہ در اصل ان کی امنگوں کا تھا اور فکر کی نمو کا بھی۔ یہاں ایک طرف انھیں محدث عصر مولانا حبیب الرحمان اعظمی اور مولانا عبد الطیف نعمانی جیسے عالمی شہرت یافتہ عالموں کی شاگردی حاصل رہی تو دوسری طرف مقامی شاعروں کی صحبت ملی اور مقامی اور کل ہند مشاعروں میں شرکت کے مواقع بھی میسر آئے۔انھی مواقع اور صحبتوں نے انھیں شاعری کی طرف مائل کیااوران کے ذوق سخن کو پروان چڑھایا۔لیکن دوسری طرف مدرسے کے ماحول،اورشاعری کو شوق فضول اور تضیع اوقات قرار دینے والے عالموں کی قربت اسے مکروہات دنیا سمجھنے پر مجبوربھی کرتی رہی۔ اس صورت حال میںعقل ودل کی جنگ اور حصول دین اور ’شوق فضول ‘ میں ترجیح کے مسئلے نے انھیں نہ صرف ذہنی کشمکش میںمبتلا رکھا بلکہ ان کے اندر نفسیاتی الجھاوے کی کیفیت بھی پیدا کی۔ دل کہتا وفورجذبات کے اظہار کو موزوں پیراہن ملنا چاہیے، عقل سمجھاتی طلب ِ دین کے دوران اس کی تزئین مناسب نہیں۔ خوش ذوق صحبتیں نازک احساسات کو منظم بیان کی شکل دینے کی ترغیب دیتیں، مذہبی ماحول ان پر بندش لگانے کومستحب قرار دیتا۔ لیکن خوشبو کو پھیلنے سے بھی کہیں روکا جاسکا ہے ، ہوا کو بھلا کون مٹھی میں قید کرپایا ہے اور دلِ آزاد عقل ِ عیار کی تابعداری ہمیشہ توقبول کرتا نہیں ۔سو، سجاد صاحب نے بھی اپنے معشوق اقبال کا یہ مشورہ مان لیا :
لازم ہے کہ دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن اسے کبھی کبھی تنہا بھی چھوڑ دے
یوں انھوں نے گھٹن کے حصار اور مصلحتوں کے بند کو توڑ کر شعری قالب میں اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کااظہار شروع کردیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ مشق سخن کو مسلسل جاری رکھتے ، رکنے نہ دیتے لیکن بار بار ان کے شاعر پر ان کا عالم حاوی ہوجاتا،تخیل کی آزاد پرواز اور جذبات کے بے ساختہ بہائو میں مذہب کی جامد فکر سدِ راہ بنتی اور مدتوں یہ سلسلہ تعطل کا شکار رہتا۔تخلیق وہ تب ہی کرتے جب شاعری کا ان پر نزول ہوتا، کوئی واقعہ ، کوئی حادثہ، اپنے بیان پر اکساتا، یا کوئی جذبہ اپنے اظہار پر مجبور کرتا۔ یوں تو انھوں نے نظمیں لکھیں، غزلیں کہیں، شخصی مرثیے، حمدو نعت اورمثنوی لکھیں ، منظوم خطوط لکھے اور تاریخ نگاری بھی کی لیکن ان کارنگ نظموں میں نکھرتا اور ان سے کہیں زیادہ غزل کی شاعری میں کھلتا ہے۔
بیشتر نظمیں انھوں نے شخصیات، مقامات اور حادثات کے حوالے سے لکھی ہیں۔ایک دو کے علاوہ پوری نظمیہ شاعری یادوں کے دھنک رنگ میں شرابور ہے۔ خوابوں کی مانند بیتے خوشگوار لمحات،دوستوں کے ساتھ گزارے ہوئے حسین اوقات،مقدس ہستیوں کی معیت میں گزرے روحانی ساعات اور رومانیت کی دھند میں ڈوبے ہوئے وہ مقامات جن سے شاعر کو گہرا جذباتی لگائو ہے، ان کی شاعری کا حاوی موضوع قرار پاتے ہیں۔ اس نوع کی نظمیں ماضی سے شاعر کی شدید محبت اور اس کی گہری وابستگی کو توظاہرکرتی ہی ہیں ساتھ ہی یہ بھی بتاتی ہیں کہ ان کا خالق عربی شاعروں کی اس روایت کابھی امین ہے جو صحرا ئے عرب سے گزرتے ہوئے ان جگہوں پر پڑائو کرتا تھا جہاں ان کے نصب کیے ہوئے خیموں کے نشانات اور بجھی ہوئی راکھ کے آثارہوتے تھے ۔ جنھیںدیکھ کر شاعر بیتے دنوں اور محبوب کے ساتھ کو یاد کرکے آنسو بہاتا اور پہروں ماضی میں کھو جاتا تھا۔’’مادر علمی دارالعلوم دیوبند‘‘، ’’مقدس امانت(چند احباب کے نام)‘‘ اور ’’شہر مئو‘‘ (قلب ونظر کی جلوہ گاہ)میں اس کیفیت کو بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
’’مادر علمی دارالعلوم دیوبند‘‘ اس مجموعے کی سب سے طویل نظم ہے۔ ندی کی طرح رواں یہ نظم محض شاعر کی محبت وعقیدت کا بیانیہ ہی نہیں بلکہ اساتذہ ٔ دارالعلوم اور مشاہیر ہند کے اوصاف وکمالات کا مرقع بھی ہے اور ایک عہد کی جیتی جاگتی تاریخ بھی ۔ ’’نیند پھر آجائے‘‘ ، ’’محبت کے چند پھول‘‘ اورمتاع زیست‘‘ خوبصورت نظمیں ہیں۔ ان نظموں میںسجاد صاحب نے دینی تعلیم والی ذہنیت اور مذہبی گھرانے والی اُس جھجک سے کافی حد تک آزاد ہونے کی کوشش کی ہے جو دل کی بات کوبے تکلف کہنے سے روکتی اور سچے جذبات کے اظہار کا رخ موڑتی ہیں۔ اور غالباً کہنے کی ضرورت نہیں کہ شاعر کی یہی ذہنی تبدیلی اِن نظموں کی لطافت اور بانکپن کا باعث بنی ہیں۔ اس نوع کی نظمیںایک خاص رنگ اور کیفیت سے بلند ہوکرانھیں بھی اپنا گرویدہ بناتی ہیںجو اس کیف ورنگ کی طلسمی دنیا کے باشندے نہیں ہیں ۔ کاش ان جیسی نظمیں وہ اور کہتے۔
وطن کے حوالے سے اس مجموعے میں دو نظمیں ہیںاور دونوں اپنی مثال آپ ہیں۔ پہلی نظم یوم آزادی کے موقعے سے کہی گئی ’’آئو منائیں حریت‘‘ ہے۔ یہ نظم گو کہ آج سے چالیس سال پہلے کی ہے لیکن اس کا اطلاق ملک کی صورت حال پرآج کے عہد میں پہلے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے:
آج کے اس دور میں سستا ہے انساں کا لہو
آج کچلی جارہی ہے ہر امید وآرزو
آج چھینا جا رہا ہے ہر کلی کا رنگ و بو
ہر طرف پھیلی ہوئی ہے گرچہ فرقہ واریت
پھر بھی اے اہل وطن آئو منائیں حریت
نظم میں شاعر نے حب وطن کے جذبے اورسفاک صورت حال کے متضاد مشاہدے کو جس خوبی سے بیان کیا ہے اس کی وجہ سے ’’آئو منائیں حریت‘‘ اس نوع کی دوسری نظموں سے کافی مختلف اور ممتاز ہے۔ ’’میرا وطن‘‘ بہت ہی سادہ، سہل اور پیاری سی نظم ہے۔ اس میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب وثقافت ، یہاں کی روایتی معاشرت اوریہاں کے مناظر کا خوبصورت بیان ہے۔ اس نظم کو ہندوستا ن کا شناخت نامہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ بہتر ہوگا اگر اس نظم کو بچوں کی کسی درسی کتاب میں شامل کرلیا جائے تاکہ نونہالوں کی شخصیت کی تعمیر میں ہندوستانیت کا عنصر زیادہ اچھی طرح سے پروان چڑھ سکے۔
والدمحترم مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحی کی وفات پر لکھی گئی نظم ’’نیر تاباں ڈوب گیا‘‘ حد درجے خوبصورت، پُر اثر اور مکمل ہے۔ اس میں سجاد صاحب نے والد محترم کے علمی اورادبی کارناموںکا ذکر کیا ہے، ان کے عادات و اوصا ف مختصراًبیان کیے ہیں، ان کی آخری زندگی کے چھوٹے سے حصے کی منظر کشی کی ہے اور ان کی رحلت کے بعد ان کے دفتر اور ان کے رفیقوں پر گزرنے والی سوگوار کیفیت کو تصور کی آنکھوں سے دکھایا ہے۔ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اس بے حد رواں نظم کی بُنت میں شاعر کے جذبات واحساسات ہی پیوست نہیں، بلکہ نظم کے ایک ایک مصرعے نے ان سے آنسوؤں کا خراج بھی لیا ہوگا۔اپنی اولاد کے تئیں مشفق باپ کی فکر مندی اور اس والہانہ شفقت سے محروم ہوجانے کے بعد اولاد کے لطیف جذبوں کے حوالے سے یہ اشعار دیکھیے:
سجاد ابھی گھر پر ہی ہے، اے بیٹی یا اسکول گیا
اس وقت کہاں ہے پوچھ ذرا، اے بیٹی اس کو فون لگا
کیا وقت ہوا ہے دیکھو تو، کیا وقت ہے اس کے آنے کا
سب بچے گھر کے اندر ہیں، سب اچھے ہیں یہ مجھ کو بتا
ہر لطف وکرم اور شفقت سے اے ابّا ہم محروم ہوئے
کل تک جو پھول سے چہرے تھے اب مرجھا کر مغموم ہوئے
سجاد صاحب نے غزلیہ حصے کی ابتدااپنے اس شعر سے کی ہے:
بے تکلف کہتا ہوںسب کچھ بہ انداز غزل
بات جو کچھ بھی مرے دل کے نہاں خانے میں ہے
اور شاید انھوں نے سچ ہی کہا ہے ۔ تشبیہ، استعارے، اشارے ، کنائے اور تلمیحات کے رنگ بدلتے روپہلے پردوں کی آڑ میں دل کی پوشیدہ باتوں تک کو بے تکلف بیان کردینا ممکن ہی نہیں آسان بھی ہوتا ہے۔ غالب نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا:
ہرچند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادۂ و ساغر کہے بغیر
سو، واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدائی دوچار غزلوں سے قطع نظر سجاد صاحب نے اپنی پوری غزلیہ شاعری میںشروعاتی جھجک اور تکلف کو نہ صرف بالائے طاق رکھ دیا ہے بلکہ اُس تکلف اور جھجک کے محرکات یعنی مذہبی علم اور ’نظامی ‘ تعلیم سے حاصل کی ہوئی لفظیات، خیالات، اصطلاحات اور روایات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی اور ہنرمندی سے استعمال بھی کیا ہے۔ عشق، سیاست، تصوف اورتصورات پر انھوں نے عمدہ شاعری کی ہے۔ ان کی غزلوں میں کلاسک کی خوشبو بھی ہے اور جدیدیت کا رنگ بھی۔انھوں نے پرانی باتوں کو نئی طرز دی ہے ، اورنئی باتوں کو سلیقے سے شاعری کا حصہ بھی بنایا ہے۔ پہلے ان کے یہاں نئے پن کو دیکھیے اور پھر پرانی باتوں کو نئی طرز میں:
کیوں قصۂ جفائے بتِ ماہ رو کریں
آئو خوشی ہی بانٹ لیں، کچھ گفتگو کریں
کچھ شکر رنجی کی حسن وعشق میں ہیں گتھیاں
عقل کو تیری جستجو، عشق کو تیری آرزو
میں تو سلجھانے میں ہوں ، وہ ہے کہ الجھانے میں ہے
عقل کہے کہاں ہے تو، عشق کہے کہاں نہیں
یہ میرے گائوں کو کیا ہوگیا ہے
یہاں ہر چیز جیسے اجنبی ہے
آج کچھ اور ہے معیار سخن فہمی وانداز غزل
پھر بھی کیوں لوگ ہیں غالب کے طرفدار بہت
دوسرے شعر کے حسن کو،لف ونشر غیر مرتب اور تیسرے کے حسن کو لف ونشر مرتب کی صنعت دوبالا کرتی ہے۔ اور اب یہ اشعار ملاحظہ کیجیے، پہلے شعر کی طویل بحر اور دوسرے کی تلمیح اور شوخی کا جواب نہیں :
اہل عقل وخرد، صاحب علم وفن،شاعر نکتہ داں، ماہ رو گلبدن
کیسے کیسے تھے وہ رشک صد انجمن، سارے اہل ہنر کو زمیں کھا گئی
ذرا سی لغزش بے جا ہوئی ، دنیا بنا ڈالی
کرم بھی چاہتا ہے زیر پردہ ذوق عصیاں کو
عقل خود بین وخود آرا تو ہے عیار بہت
عشق سے رہتا ہے یہ بر سرِ پیکار بہت
سیاست اردو شاعری کا ابتدا سے موضوع رہی ہے ۔ بس یہ ہے کہ پہلے شہر آشوب کی صنف کے ہوتے غزلوں میں اس کا ذکر بہت ہی کم ہوتا تھا، آج کی شاعری میں یہ غالب رجحان کی حیثیت رکھتی ہے۔سجاد صاحب کے یہاں بھی اس کے وافر اور عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے ۔ تہہ داری اور کثرت معانی سے آخری شعرکا لطف مزیدبڑھ گیا ہے :
اب فرقہ پرستی کی اور ظلم کی یہ ناگن
معصو م جوانوں کو چُن چُن کے ہی ڈستی ہے
حسن ِ چمن ہے دلنواز لیکن یہ سچ ہے دلخراش
اہل ہوس کے ہاتھ میں اب ہے نظام گلستاں
گر تجھے رہبری کا دعویٰ ہے
فکر اپنی نہیں ہماری کر
مجھ کو رسوائی کا اپنی دوستوں کچھ غم نہیں
مسئلہ تو دراصل اُن کی پریشانی کا ہے
سجاد صاحب کی غزلوں میںایک تازگی اور جدت ادا کے ساتھ ساتھ کلاسیکی رچائو جا بہ جا موجود ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میںشعری صنائع کا کثرت سے استعمال کیا ہے۔تشبیہ، استعارے، اشارے، کنائے اور لف ونشر کے علاوہ ان کی شاعری میں تلمیح نئے نئے رنگوں میں جلوہ گر ہوئی ہے۔چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
ہم اہل عشق ہیں خود دار، ضبط و غم ہی شیوہ ہے
یہ قیس وکوہکن کا ہم کو افسانہ نہیں آتا
کبھی درویش خود آگاہ کے در پہ پہنچتی ہے
برہنہ پا، برہنہ سر،غرورو نخوت شاہی
خلوت دی چاہ میں اسے، زنداں میں تربیت
تب جا کے اس کو مصر کا سلطاں بنادیا
ذرا سی لغزش بیجا ہوئی دنیا بنا ڈالی
کرم بھی چاہتا ہے زیر پردہ ذوق عصیاں کو
ہے تو فرعون اس صدی میں بھی
حیف کیوں صاحب عصا نہ ہوا
دوچار اشعار تصوف کے رنگ کے بھی دیکھیے:
فیضان عشق ، کیف جنوں لازوال ہے
دنیا کا کیا ہے، وہ اِدھر آئی اُدھر گئی
ذات واوصاف کی وادی میں بھٹکنا کیا ہے
معرفت نام ہے بس خود کو سمجھ جانے کا
حسنِ عالم تاب ہر سو منتشر ہے اس لیے
یہ غبار شوق اڑتا پھر رہا ہے در بہ در
کوئی روشن ضمیر ہو تو کہے
فقر کیا چیز ہے ، غنا کیا ہے
عشق ہی شاعری کی ابتدا اور عشق ہی اس کی انتہا ہے، بلکہ انسان اور کائنات کی تخلیق کا باعث بھی اظہارعشق کو بتایا گیا ہے ۔ عشق اور عاشق ومعشوق محض سات رنگوں والی قوس وقزح کی مانند نہیںجس کا ہر رنگ معلوم اور ان کی شناخت متعین ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عشق کے سینکڑوں شیڈس ہوتے ہیںجن کے اندر لطافت ونزاکت ، جانے انجانے رشتوںاور محسوسات کی ایک پوری دنیا آباد ہوتی ہے۔ معاملہ تو بس اس لطیف جذبے کو دیکھنے، سمجھنے اور برتنے کا ہے ۔سجاد صاحب کی شاعری میں بھی عشق کے متعدد پہلو اور پرتو موجود ہیںبس دو تین نمونے ملاحظہ کر لیجیے:
انھیں رخصت ہوئے عرصہ ہوا موسم نہیں بدلے
نگاہوں سے ابھی تک گھر کی ویرانی نہیں جاتی
پائوں میں چھالے پڑجاتے ہیںسر بھی تیشہ سہتا ہے
دل کے کاروبار میں یارو! یہ تو ہوتا رہتا ہے
وجہ تخلیق ِ کائنات ہے عشق
طے کرو اس کا مرتبہ کیا ہے
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
اس وقت مولانا ارشد مدنی کی موہن بھاگوت سے ہوئی ملاقات کو لے کر ہنگامہ ہے ۔ مولانا کی حمایت کرنے والے اس ملاقات کو ہجومی تشدد اور خوف کے ماحول میں ضروری و تاریخی بتا رہے ہیں ۔ گفتگو میں زیر بحث آئے موضوعات سے اس کو نفرت ختم کر قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لئے اہم مانا جا رہا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، رواداری اور امن ملک کی ترقی کے لئے ضروری بلکہ سرمایہ کاری کے لئے بھی ناگزیر ہے ۔ یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ مستقبل میں اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے، فی الوقت تو صرف خیر کی امید ہی کی جا سکتی ہے ۔ لیکن مولانا کی مخالفت کرنے والے کئی طرح کے خدشات، شک و شبہات اور بے اطمینانی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ ان کے نذدیک یہ قدم جمیعت کی خود سپردگی اور قومی مفاد کے سودے جیسا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا ارشد مدنی صاحب موہن بھاگوت سے ہوئی اپنی بات چیت کو پبلک ڈومین میں لائیں ۔ اور آئندہ مسلمانوں کی دیگر جماعتوں اور با اثر چیدہ شخصیات کے ساتھ ملاقات کی جائے ۔
قومی مفاد میں مولانا ارشد مدنی جو کام کر رہے ہیں مثلاً فرضی انکاؤنٹر کا معاملہ، دہشت گردی کے جھوٹے کیس میں پھنسے نوجوانوں کو قانونی مدد، مظفرنگر فرقہ وارانہ فساد میں اجڑے مکینوں کو رہائش گاہ کی فراہمی، این آر سی اور بابری مسجد مسئلہ وغیرہ وہ کوئی جماعت یا سربراہ نہیں کر رہا ۔ مولانا کے غیر مسلموں سے بھی اچھے روابط ہیں ۔ پرمود کرشنن، سوامی چدانند سرسوتی، ہری چیتنا نند، سادھوی بھگوتی سرسوتی اور دیگر سادھو سنتوں کو اپنے سالانہ جلسہ میں بلاتے رہے ہیں ۔ پھر آر ایس ایس کے سربراہ سے ملنے والے وہ پہلے شخص بھی نہیں ہیں ۔ ایمرجنسی میں سنگھ اور جماعت اسلامی ہند کے ذمہ داران و کارکنان جیل میں بند تھے ۔ اس دوران قائم ہوئے آپسی تعلقات دیر تک چلے ۔ دونوں جماعتوں کے کارکنان وذمہ داران کا ملنا جلنا قریب ڈیڑھ سال تک جاری رہا ۔ 2004 میں مولانا اسعد مدنی کی ہدایت پر جمعیتہ علماء ہند کے ایک وفد نے مولانا محمود مدنی کی قیادت میں سابق سر سنچالک کے سی سدرشن سے مل کر مختلف مسائل پر بات چیت کی تھی ۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے بھی اپنے حلقہ پیغام انسانیت کے ذریعہ غیر مسلموں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔ اس وقت خواجہ افتخار احمد سمیت کئی مسلم دانشوروں نے اٹل حمایت کمیٹی میں شامل ہو کر ہندو مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے برج بنانے کا بیڑا اٹھایا تھا ۔ جس کو مسلمانوں نے مسترد کر دیا ۔ ان اقدامات کو دیکھتے ہوئے مولانا ارشد مدنی پر شک کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی ۔
مولانا ارشد مدنی، موہن بھاگوت ملاقات کی اہمیت سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس آر ایس ایس کو فاشسٹ گروپ بتا کر 2015 میں اس پر پابندی کا مطالبہ کر چکے ہیں ۔ اس کے سربراہ سے ملاقات کی وجہ کانگریس کا زوال تو نہیں ۔ جب تک کانگریس اقتدار میں تھی جمعیت کے لوگ مزے میں تھے ۔ حسین احمد مدنی سے لے کر اسعد مدنی تک با ضابطہ راجیہ سبھا کے ممبر نام زد ہوتے رہے ۔ مسلمانوں کو سیاسی اعتبار سے امپاور ہونے سے روکنے کے لئے کانگریس نے جمعیت کو استعمال کیا ۔ کانگریس کی چھوٹ سے اہل دیوبند نے بے روزگاروں اور چندہ خوروں کی بھیڑ کھڑی کر دی جبکہ دوسری جانب ششو مندر اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کے ذریعہ اپنا حامی کیڈر پیدا کیا گیا ۔ معترضین اسے دوبارہ اثر و رسوخ حاصل کرنے اور اپنی دولت و جائداد کو بچانے کے لئے اہل اقتدار سے قربت حاصل کرنے کی کوشش بتا رہے ہیں ۔ جو سنگھ کی خوشنودی کے بغیر نا ممکن ہے ۔
کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ آر ایس ایس اپنی شبیہ درست کرنے کے لئے مسلم دانشوروں اور جماعتوں سے میل جول بڑھا رہی ہے ۔ اسی سلسلہ کی کڑی کے طور پر جمعیت کے سربراہ سے ملاقات ہوئی ہے ۔ سنگھ 2014 سے پہلے سے ہی مسلم دانشوروں اور جماعتوں کے ذمہ داروں سے مل کر اپنی بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اسے معلوم ہے کہ مسلمانوں کو الگ تھلگ کرکے وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ رہا سوال موجودہ حالات کا تو ساری زہر افشانی اور اشتعال انگیزی حکمراں جماعت کے ممبران کی جانب سے کی جا رہی ہے ۔ جس کی وجہ سے حالات زیادہ خراب ہو رہے ہیں ۔ لیکن آر ایس ایس اس پر پوری طرح خاموش ہے ۔ صرف وہ ہی نہیں ایسا لگتا ہے کہ حکمران جماعت کے مسلم ونگ کو بھی اس پر لب کشائی کی اجازت نہیں ہے ۔ دہلی میں موہن بھاگوت کی مسلم دانشوروں کے ساتھ 2017 میں ہوئی بیٹھک میں جب اس دل آزار بیان بازی کے بارے میں سوال پوچھا گیا تھا تو انہوں نے "مسلمانوں کے خلاف آر ایس ایس کبھی کوئی بات نہیں کہتا” کہہ کر پلڑا جھاڑ لیا تھا ۔
ہر جماعت کا اپنا نظریہ ہوتا ہے ۔ آر ایس ایس کا بھی ایک نظریہ ہے ۔ اس کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے تمام لوگ ہندو ہیں ۔ چاہے ان کا طریقہ عبادت کچھ بھی ہو ۔ ان کا کہنا ہے کہ الگ الگ مذاہب کو ماننے والوں کے باپ دادا ہندو تھے ۔ اس لئے انہیں اپنے گھر واپس آنے میں شرم نہیں کرنی چاہئے ۔ جو لوگ باہر سے آئے وہ حملہ آور ہیں ۔ ان کی عزت نہیں کی جا سکتی ۔ انہیں یہاں رہنے کا حق نہیں ہے ۔ سنگھ کے ساتھ بات چیت کی سابقہ جتنی کوششیں بھی ہوئی ہیں ۔ ان میں سے ایک میں بھی اس نے اپنے نظریہ میں نرمی کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے بلکہ ہر میٹنگ میں اس کا اپنے نظریہ پر اسرار رہا ہے ۔ اس کا ماننا ہے ک ہندتوا کے فلسفہ میں امن و سلامتی ہے ۔ جس کو حاصل کرنے کے لئے ہندو راشٹر کا قیام ضروری ہے ۔ اس نے قدیم تہذیب و ثقافت کے ساتھ نیشنلزم کو جوڑ کر راشٹر واد (یعنی ہندو نیشنلزم) کا مفروضہ گڑھا ۔ اس میں فرقہ واریت پوشیدہ ہے، شاید اسی لئے منشی پریم چند، ربندر ناتھ ٹیگور، سبھاش چندر بوس وغیرہ اس راشٹر واد کے مخالف تھے ۔
ذاتی طور پر کے سی سدرشن مولانا جمیل احمد الیاسی اور موہن بھاگوت مولانا ارشد مدنی کی عزت کر سکتے ہیں لیکن ان سے تعلق کی بنیاد پر وہ اپنے نظریہ میں تبدیلی لائیں اس کی امید کم ہے ۔ کیوں کہ ان کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر ٹکی ہے ۔ اس کا آغاز ہندو سماج کی اصلاحی تنظیم "برہمو سماج” کی ابتداء سے ہو گیا تھا ۔ جس کے مقاصد میں ہندو سماج سے ستی پرتھا و دوسری غلط رسموں کو ختم کرنے کے ساتھ انگریزوں کی حمایت اور مسلمانوں کی مخالفت شامل تھی ۔ جسے بعد میں ہندو مہاسبھا نے آگے بڑھایا ۔ آر ایس ایس کا قیام بھی انہیں خطوط پر ہوا، اسی لئے ہندو مہاسبھا یا آر ایس ایس سے جڑے کسی بھی شخص نے نہ صرف انگریز حکومت کی مخالفت نہیں کی بلکہ آزادی کی تحریک میں حصہ بھی نہیں لیا ۔ نہ ہی اس نے اپنے نظریہ میں کسی تبدیلی کا اشارہ دیا ۔ شاید اسی لئے لمبے عرصہ تک کوشش کرنے کے بعد جماعت اسلامی ہند نے اپنا پیر پیچھے کھینچ لیا تھا ۔ مولانا مدنی کا یہ کہنا کہ سنگھ ہندو راشٹر کے بنیادی نظریہ کو نظر انداز یا مسترد کر سکتا ہے ۔ وہ اپنے نظریہ میں تبدیلی کر سکتا ہے کچھ زیادہ امید وابستہ کرنے جیسا ہے ۔
دشمنوں سے بات کرنے، ربط رکھنے اور برا سلوک کرنے والوں کے ساتھ احسان کرنے کا اسلام حکم دیتا ہے ۔ اس لحاظ سے مولانا ارشد مدنی صاحب کی کوشش قابل تحسین ہے ۔ ایک دو ملاقاتوں سے نتائج برآمد نہیں ہوں گے ۔ اس سلسلہ کو مسلسل جاری رکھنا ہوگا ۔ اگر اس سے حالات میں تبدیلی آتی ہے تو یہ ملک اور قوم کے مستقبل کے حق میں بہتر ہوگا ۔ اس سے ترقی کے نئے دروازے کھولیں گے ۔ کوئی بھی کرے مگر اس کام کی ضرورت تو ہے ۔
عبدالعزیز
لوک سبھا اسپیکر اوم برلا گزشتہ منگل کو ایک متنازعہ بیان دیا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ”پیدائشی لحاظ سے برہمن معاشرے میں برتر اور بزرگ ہوتا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا ہے کہ برہمنوں کو جو یہ مقام اور مرتبہ حاصل ہوا ہے ان کی قربانی، تپسیا اورمعاشرے ک لوگوں کی ان کی رہنمائی اور رہبری کی وجہ سے۔ رپورٹ کے مطابق اوم برلااکھل برہمن مہا سبھا کے جلسے میں شریک ہوئے تھے۔ یہ جلسہ ان کے انتخابی حلقے کوٹا میں ہوا تھا۔ جلسے کے بعد انہوں نے یہ ٹویٹ کیا تھا جس پر اس وقت ان پر بڑی نکتہ چینی ہو رہی ہے اور لعن طعن کیاجا رہا ہے۔ گجرات کے ایم ایل اے اور سماجی کارکن جگنیش میوانی نے اسپیکر کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ان کو معافی مانگنا چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ یہ ملک کے لئے ٹریجڈی ہے کہ ایسے لوگ جو بڑے عہدوں پر فائز ہیں ایسی ظالمانہ حرکت کرتے ہیں اونچ نیچ کو قائم رکھنے کے لئے اس طرح کے بیانات دیتے ہیں۔ اور دستور ہند جس میں برابری اور مساوات کی بات کہی گئی ہے بھید بھاؤ سے دور رہنے کا درس دیا گیا ہے۔ اس کا حلف لے کر دستوری عہدوں پر براجمان ہیں اور انسانیت سے گری ہوئی حر کت کرتے ہیں۔
ابھی تک ہندوستان میں چھوت چھات، ذات پات کا سسٹم ختم نہیں ہوا۔ برہمنوں نے اپنی برتری اور بزر گی کے لئے جو بیج بویا تھا وہ تناور درخت کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ اپنے علاوہ دیگر طبقے کو مذہبی اطوار سے نیچا سمجھنا اور اس کے فائدے بتانا یہ برہمنوں کی بہت بڑی چال ہے۔ جس میں آج بھی ہندوستان گرفتار ہے۔ نجات حاصل کرنے کے لئے برہمنوں کا پیر دھو کر پینے کا رواج آج کے اس ترقی یافتہ، سائنس اور ٹکنالوجی کے دور میں بھی جاری ہے۔ ہندوستان کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد جو شودر کائستھ ذات کے تھے۔ جب صدر جمہوریہ ہند بنے تو حلف بر داری کے بعد اپنی بیوی کو لے کر بنارس گئے اور وہاں برہمنوں کے انگوٹھے دھو کر اس پانی کو اپنے اوپر اور اپنی وفادار بیوی کے اوپر چھڑکا، پھر اپنے کو پاک کرنے کے واسطے پانی کو پیا بھی۔ ان کے ذریعہ ملک کے صدارتی عہدے کو پائمال کئے جانے پر اخبارات نے تنقید کی تو انہوں نے کہا کہ برہمنوں کے آشیر واد(دعاؤں) کی وجہ سے ہی وہ صدر بنے ہیں اور ملک کی آزادی میں ان کی کوئی قربانی نہ تھی۔
جناب شنکرانند شاستری نے1989 ء میں اپنے زمانہ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ عمل]برہمنوں کا پیر دھوکر پینا[ غیر برہمنوں میں عام ہے اور خاص طور سے بنیوں میں، جو برہمنوں کا پیر دھو کر اس کو پیتے ہیں اور یہ گندا، غیر صحت مند، جراثیم سے پر عمل ان کے نزدیک پاکی حاصل کرنے کا سب سے مقدس، لذیذ اور مشرف سمجھا جاتا ہے۔ چھتری، ویشیہ، شودر اور ان میں بھی بطور خاص شودر پر برہمنوں کی فضیلت کی دھاک اس طرح بیٹھی ہے کہ ذات پات کو ماننے والے برہمنوں نے اپنے دور اقتدار میں شو دروں کو جو لقب دیا، اس کو آج تک وہ اپنے گلے لگائے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ذات پات کو ماننے والے برہمنوں نے مزعومہ چھوٹی ذاتوں یعنی دراوڑوں کو ”داس“ کا لقب دیا۔ اس لقب کو جس کے معنی غلام کے ہیں، آج تک وہ ڈھو رہے ہیں اور اپنے نام کے آگے نہ لگاتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ دیوتا ناراض اور برہم نہ ہوجائیں اور پھر اس کے نتیجہ میں عذاب میں نہ مبتلا کر دیں۔
موہن بھاگوت سے پہلے جو آر ایس ایس کے سنچالک سدرشن تھے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اسلام کی طرف مائل ہو گئے تھے اور بعض لوگوں کے خیال کے مطابق انہوں نے اسلام بھی قبول کرلیا تھا۔ لیکن ذات پات کے سسٹم پر جب وہ سنچالک تھے تو ان کی ایک تقریر ہے جو آج بھی یو ٹیوب میں سنی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مغلوں کے دور کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ”مسلمانوں کی ساڑھے آٹھ سو سال حکومت کرنے کے باوجود جو آج ہندو ہندوستان میں اتنی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں وہ ذات پات کی بدولت ہے اگر ہندوؤں میں ذات پات کا سسٹم نہیں ہوتا تو مسلم حکومتیں ہندوؤں کو کھا جاتیں اور ان کا ہندو رہنا کسی طرح آسان نہیں رہتا۔“ آر ایس ایس اس وقت ہندوستان کے سب سے بڑی جماعت ہے اور ایس ایم مشرف سابق انسپکٹر جنرل آف پولس مہاراشٹر کے مطابق آر ایس ایس ملک کی سب سے بڑی دہشت گر د تنظیم ہے۔ یہ تنظیم اسلام دشمنی اور مسلم دشمنی پر آج بھی قائم ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ہی ہندوؤں کو متحد و منظم کرنے کے لئے یہ جماعت عالم وجود میں آئی۔ آج ہندوستان میں حقیقت میں اسی جماعت کی حکمرانی ہے۔ جو لوگ بھی مودی حکومت کے ذریعہ چھوٹے بڑے عہدوں پر فائز ہیں وہ آر ایس ایس کو اپنی مدر تنظیم کہتے ہیں اور اپنے اظہار خیال میں اس تنظیم کے اصول و ضوابط کا خیال رکھتے ہیں کیونکہ آر ایس ایس ذات پات کے سسٹم کو ماننے والوں کو ہی ہندو سمجھتا ہے۔ خواہ کوئی کتنی ہی تنقید کرے جب تک ایسی ذات پرست تنظیم جس کے ہاتھ پاؤں بہت لمبے ہوں قائم و دائم رہتی ہیں۔ذات پات کا خاتمہ آسان نہیں ہے۔ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ مسلمان جو اسلام پر ایمان لانے کے دعویدار ہیں وہ بھی ذات پات کے معاملے میں ہندوؤں میں جو ذات پات کا سسٹم ہے اس کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اسلام میں ذات پات کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ اللہ نے سب کو برابری کا درجہ دیا ہے۔ اپنی کتاب قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے”لوگو ہم نے تم کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم کر دیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پر ہیز گار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور با خبر ہے۔“ (سورہ الحجرات:13) اس آیت میں پوری نوع انسانی کو خطاب کر کے اس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ فساد کی موجب بنی رہی ہے۔ یعنی نسل، رنگ، زبان اور قومیت کا تعصب۔قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے ارد گرد وہ چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے۔ یہودیوں نے اس بناء پر بنی اسرائیل کوچیدہ مخلوق ٹھہرایا اور اپنے مذہبی احکام تک میں غیر اسرائیلیوں کے حقوق اور مرتبے کو اسرائیلیوں سے فروتر رکھا۔ ہندوؤں کے یہاں ورم آشرم اسی تمیز نے جنم دیا۔ جس کی روح سے برہمنوں کی برتری قائم کی گئی۔ اونچی ذات والوں کے مقابلے میں تمام انسان نیچ اور ناپاک ٹھہرے گئے اور شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ اس طرح ہر ملک میں برہمنوں اسرائیلیوں کی طرح کچھ لوگ ذات پات کے نظام سے چمٹے ہوئے ہیں۔ مسلمان اس سے پاک صاف تھے۔ میری معلومات کی حد تک تین ممالک نے ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے اندر مسلمانوں نے ہندوؤں کے ذات پات کے سسٹم کو ایک حد تک قبول کرلیا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں مسلمان اس راہ پر گامزن نہیں ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے مختلف خطبات اور ارشادات میں مذکورہ آیت کو کھول کر فرمایا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر طواف، کعبہ کے بعد آپ نے جو تقریر فرمائی تھی اس میں فرمایا: ”شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کا عیب اور اس کا تکبر دور کر دیا ہے۔ لوگو، تمام انسان بس دو ہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک نیک اور پر ہیزگار، جو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے۔ دوسرا فاجر اور شقی، جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے۔ ورنہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا۔(بہقی فی شعب ایمان۔ ترمذی)
حجتہ الوداع کے موقع پر ایام تشریق کے وسط میں آپ نے ایک تقریر کی اور اس میں فرمایا:”لوگو، خبر دار رہو، تم سب کا خدا ایک ہے۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کے اعتبار سے۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پر ہیز گار ہو۔ بتاؤ، میں نے تمہیں بات پہنچا دی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں یا رسولؐ اللہ۔ فرمایا، اچھا تو جو موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں ہیں۔“(بیہقی)
”تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔ لوگ اپنے آباء و اجداد پر فکر کرنا چھوڑ دیں ورنہ وہ اللہ کی نگاہ میں ایک حقیر کیڑے سے زیادہ ذلیل ہوں گے۔“ (بزار)
”اللہ قیامت کے روز تمہارا حسب نسب نہیں پوچھے گا۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پر ہیز گار ہو۔“ (ابن جریر)
”اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔“ (مسلم، ابن ماجہ)
ہندوستان میں مسلمان اگر اسلام پر عمل کرتے تو ہندو بھائیوں میں بھی جو ذات پات کا نظام ہے وہ ختم ہوجاتا لیکن بد قسمتی سے مسلمان شادی بیاہ اور دیگر باتوں میں اسلام کے بجائے رسم و رواج پر قائم ہیں۔ اس لئے جو خود غلط رسم و رواج میں مبتلا ہو اور بابا دادا کی پیر وی کر رہا ہو اور نفس پرستی کو بھی نہیں چھوڑ رہا ہو اس کے لئے مشکل ہے کہ وہ دوسروں کو متاثر کر سکے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
جمعیت علماکیس کو دوسری ریاست میں منتقل کرنے کی درخواست دائر کرے گی
نئی دہلی:جھارکھنڈمیں تبریز انصاری کے وحشیانہ قتل کے مقدمہ کی نوعیت تبدیل کرنے پر صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی نے سخت افسوس کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ قتل نہیں بلکہ حیوانیت اور درندگی کا ایک ایسا افسوسناک واقعہ ہے جس میں ایک بے گناہ اور بے بس انسان کو کچھ لوگوں نے موت کے گھاٹ اتاردیا تھا، انہوں نے کہا کہ ہماراملک ہندوستان صدیوں سے امن، اتحاداورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کا گہوارہ رہا ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے ساتھ ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کے غم وخوشی میں برابرشریک ہوتے آئے ہیں مگر افسوس کہ نفرت اور ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرنے کی خطرناک روش نے سب کچھ بدل کررکھ دیا ہے چنانچہ اب پچھلے کچھ عرصہ سے ملک بھرمیں مذہب کی بنیادپر موب لنچگ ہورہی ہے کہ جب نفرت میں اندھے ہوکرجھنڈکی شکل میں کچھ لوگ کسی نہتے اوربے گناہ انسان کو پکڑلیتے ہیں اور اسے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیتے ہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ اس طرح کے واقعات ہندوستان کے ماتھے پر کلنک اور بدنما داغ ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے جھارکھنڈ ماب لنچنگ کی ایک پریوگ شالہ بن چکی ہے اوروہاں کی سرکاری مشینری نہ صرف اسے شہہ دے رہی ہیں بلکہ مجرموں کو بچانے میں بھی مصروف نظرآتی ہے، انہوں نے کہا کہ تبریز انصاری کے مقدمہ میں مجرموں کو بچانے کے لئے جس طرح اس کی نوعیت تبدیل کردی گئی اورقتل عمد کی دفعہ بھی ہٹادی گئی اور دلیل بھی دی گئی کہ اس کی موت تشددسے نہیں ہارٹ اٹیک سے ہوئی پولس کا یہ عمل انصاف کا خون کرنے جیساہے اور اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قاتلوں کو بچانے کی اعلیٰ سطح پر کوششیں ہورہی ہیں کیونکہ اگر اس معاملہ میں اعلیٰ سطح پر مداخلت نہ ہوتی تو جھارکھنڈپولس ایف آئی آر میں ہرگز ایسی تبدیلی نہیں کرسکتی تھی، انہوں نے مطلع کیا کہ جمعیۃعلماء ہند جلد ہی سپریم کورٹ میں مقدمہ کو کسی دوسری ریاست میں منتقل کئے جانے کی درخواست داخل کرے گی اس سلسلہ میں جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء کا پینل ایک پٹیشن تیارکرچکاہے، انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ یکم جولائی 2019 کو جھارکھنڈہائی کورٹ میں اس معاملہ کو لیکر ایک پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں اس معاملہ کی سی بی آئی سے تفتیش کرانے کامطالبہ کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ ہائی کورٹ کے کسی جج کی نگرانی میں تفتیش کرانے کی بات کہی گئی ہے، پٹیشن میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ اس کی سماعت فاسٹ ٹریک عدالت سے کرائی جائے،اسٹیشن ہاوس آفیسر،جیل سپرنٹنڈنٹ اور صدراسپتال کے ڈاکٹروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہئے مگر افسوس اس پٹیشن پر اب تک سماعت نہیں ہوئی، مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ جھارکھنڈمیں آئندہ کچھ دنوں میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں اس لئے وہاں کی حکومت سے اس طرح کے معاملوں میں انصاف اور قانون کی پاسداری کی امید نہیں کی جاسکتی، انہوں نے سوال کیا کہ اگر تبریز انصاری کو ہجوم نے نہیں مارا تو پھر اس کی موت کیسے ہوئی؟انہوں نے کہا کہ جھارکھنڈکی پولس ایسا کرکے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہی ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب تک اس معاملہ میں جو کچھ ہواہے وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر اس مقدمہ کی سماعت کسی دوسری ریاست میں نہیں ہوئی تو تبریز انصاری کے لواحقین کو انصاف نہیں ملے گا اس لئے اب جمعیۃعلماء ہند کی قانونی کارروائی کا بنیادی نکتہ یہی ہوگا کہ یہ مقدمہ کسی دوسری ریاست میں منتقل ہوجائے، مولانامدنی نے آخرمیں کہا کہ یہ تنہاجھارکھنڈکا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ دوسری ریاستوں میں بھی متاثرین کو انصاف نہیں مل رہا ہے، پہلوخاں کے معاملہ میں جو کچھ ہوا وہ یہ بتاتاہے کہ انصاف بھی اب نفرت کی سیاست کا شکارہوچکاہے اور انتظامیہ وپولس کے لوگ سیاسی دباؤمیں انصاف اور قانون کا گلاگھونٹ رہے ہیں۔
مدھوبنی:شعبہ اردو بی ایم کالج رہیکا، مدھوبنی میں ”اردو اور ہندی کے باہمی رشتے“ پر ایک خصوصی لیکچر کا اہتمام کیا گیا، جس میں علاقہ کے ادبا، شعرا اور مقامی اسکالرس کے علاوہ دربھنگہ اور قرب و جوار سے بڑی تعداد میں اردو اور ہندی کے ماہرین شریک ہوئے۔پروگرام کی صدارت کالج کے پرنسپل ڈاکٹر پنکج کمار چودھری نے کی، جب کہ متعلقہ موضوع پر لیکچر صدر عالم گوہر نے پیش کیا اور انھوں نے بہت ساری مثالوں کے ذریعہ یہ ثابت کیا کہ اردو اور ہندی میں قواعد اور زبان اور الفاظ کی سطح پر بہت زیادہ اشتراک پایا جاتا ہے، صرف دونوں میں رسم الخط کا فرق ہے، ورنہ یہ دونوں زبانیں ایک ہی خاندان السنہ سے تعلق رکھتی ہیں اور دونوں میں ۰۷ فی صد الفاظ اور محاورے مشترکہ طور پر مستعمل ہوتے ہیں۔ اس موقع پر موجود پروگرام کے مہمان خصوصی صدر شعبہئ اردو للت ناراین متھلا یونی ورسٹی ڈاکٹرسید محمد رضوان اللہ نے کہا کہ جس طرح ہمارے آباء و اجداد کی ایک حویلی ہوتی تھی مگر بعد میں فیملی کے ممبران میں اضافہ کی وجہ سے تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جاتی ہے، اسی طرح زبانوں کا معاملہ ہے کہ ہندستانی زبان ایک حویلی ہے جس کی تعمیر و تشکیل میں اردو، ہندی، مراٹھی، پنجابی، گجراتی اور میتھلی سب کا حصہ ہے۔انھوں نے کہا کہ اردو ہندی سگی ایک ہی ماں کی بیٹی اور سگی بہنیں ہیں اور یہ رشتہ اب بھی برقرار ہے اور یہ رشتہ قیامت تک برقرار رہے گا۔ انھوں نے ملک و بیرون ملک اور دوسری ریاستوں میں اردو ہندی کے پھیلاؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں زبانیں صرف ہندستان میں ہی نہیں بلکہ عرب و افریقہ اور امریکہ ہر جگہ بولی جارہی ہیں۔انھوں نے کہاکہ ہندستانی سنیما کے فروغ میں اردو اور ہندی کا اہم رول رہا ہے۔پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی نے کہا کہ اردو اور ہندی کا رشتہ بہت ہی گہرا ہے، دونوں نے ایک ہی زبان کھڑی بولی کے بطن سے جنم لیا ہے، مگر ہماری مفاد پرست سیاست نے ان دونوں کے درمیان بہت بڑی خلیج قائم کردی ہے، جس کو پاٹنے اور دونوں کو قریب لانے کی شدید ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ آزادی سے پہلے ہندی اور اردو کے نام پر کوئی تنازغ نہیں تھا،ہندو اور مسلمان دونوں ایک ایسی زبان میں اپنے افکار و خیالات پیش کرتے تھے، جس کی جڑ بنیاد ایک ہی زبان پر مبنی تھی، بس دونوں کا رسم الخط الگ تھا،ایک کا دیوناگری تھا دوسری کا فارسی، مگر انگریزوں نے لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت ہندی اور اردو تنازع کا بیج بھی بودیا تھا۔ آج کے حالات میں جب کہ عالمی پیمانے پر تمام زبانیں ایک دوسرے سے استفادہ کر رہی ہیں اور دنیا گلوبل ولیج ہی نہیں لینگویج ولیج میں تبدیل ہوگئی ہے، اردو اور ہندی کے بیچ جو تہذیبی، ثقافتی، ادبی، علمی، تاریخی اور لسانی رشتے ہیں، اس کو نمایاں کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ تاکہ یہ دونوں اہم ہندستانی زبانیں ایک دوسرے کی حریف نہیں، رفیق بن کر رہیں اور قوم و ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔ اس موقع پر آر کے کالج کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر مطیع الرحمن، پروفیسر اشتیاق، بینی پٹی کالج کی صدر شعبہ اردو فرحہ معید، ادے چندر جھا، راجیش پانڈے، پروفیسر چھتیش کمار، ڈاکٹر اشوک کمار نے بھی اردو اور ہندی کے گہرے تعلقات کو تاریخی حوالوں سے نمایاں کیا اور ان دونوں زبانوں کی توسیع و اشاعت میں سرگرم کردار ادا کرنے کی تحریک دلائی، تاکہ ہمارا ملک ایک ترقی یافتہ ملک بن سکے اور یہ دونوں زبانیں ایک دوسرے سے استفادہ کرتی رہیں۔ اس خصوصی تقریب میں جو اہم ادبا، شعرا اور محبان اردو شریک ہوئے، ان میں قاضی محمد جاوید(صدر شعبہئ اردو مہیلا کالج مدھوبنی)، پروفیسر اشتیاق احمد، ڈاکٹر محمد مطیع الرحمن(آر کے کالج)، ڈاکٹر محمد اعجاز(جے این کالج)،ڈاکٹر محمد منہاج خان(ڈی بی کالج جے نگر)، اشرف جلیل(اردو ملازم کلکٹریٹ مدھوبنی)،ڈاکٹر ایم صلاح الدین،ڈاکٹر محمد حسین جے نگر، نعمت اللہ برہاروی،اردو تحریک کے صدرامان اللہ خان،واصف جمال(اردو ملازم پنڈول بلاک)، قاری توفیق ضیاء، عبد القادر، ماسٹر امان اللہ، ماسٹر فیروز، ہندی دیوس سماروہ کے صدر راجیش پانڈے، جمیل اختر ببلو، ڈاکٹر نور الاسلام، نسیم احمد شرماجی، سلطان شمسی، ادے چندر جھا، پروفیسر بیبھو کمار، پروفیسر اشوک کمار، پروفیسر سندیپ جیسوال، ڈاکٹر ادیتی بھارتی، ڈاکٹر رینو کماری،ڈاکٹر بچہ کمار رجک،ڈاکٹر بسنت کمار، ڈاکٹر رشی کیش، ڈاکٹر سنجیو کمار، ڈاکٹر للن کمار جھا، ڈاکٹر پرمانند لال، پروفیسر متھلیش چندر جھا، ڈاکٹر سندیپ، ماسٹر محمد صادق وغیرہ خصوصاقابل ذکر ہیں۔اس موقع پر شعبہ اردو کے تمام طلبہ اور طالبات اور ہندی کے جان کار بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اس پروگرام کی نظامت صدر شعبہ اردو ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی نے کی، جب کہ شکریہ کی رسم انگریزی شعبہ کے صدر پروفیسر ویبھوکمار نے انجام دی۔
شعبہ اردو، چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی، میرٹھ کا 17وا ں یوم تاسیس 12/ ستمبر کو
ڈاکٹر منظر کاظمی نیشنل ایوارڈ پروفیسر ارتضیٰ کریم کو(برائے فکشن تنقید)اور محترم دیپک بدکی کو(برائے اردو فکشن)
میرٹھ:شعبہ اردو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ اپنا 17وا ں یوم تاسیس منانے جارہا ہے۔ 2002ء سے اب تک شعبہء اردو نے میرٹھ ہی نہیں بلکہ پورے ملک ہندوستان میں اردو کے فروغ کے لیے خوب سے خوب تر کوششیں کی ہیں۔شعبہء میں ایم۔اے اردو،ایم۔اے ماس میڈیا، ایم فل، پی ایچ ڈی اور ڈپلومہ اردوجیسے کورسز شروع کیے ہیں۔ اردو کو روزگار سے جوڑنے کے لیے شعبہء کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں۔درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ٹریننگ کا بھی اچھا انتظام کیا،اور اس کا اچھا رزلٹ برآمد ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ ٹیچنگ میں بھی شعبہء اردو کے طلبا ء نے کامیابی حاصل کی۔اپنی کوششوں سے شعبہء اردو نے بین القوامی سطح پر پہچان بنائی ہے۔
17/ سالہ جشن کے موقع پرمندرجہ ذیل پروگرم منعقد کیے جائے گے۔
(1)اس سال منظر کاظمی نیشنل ایوارڈ فکشن تنقید کے لیے ہندوستان کے ممتاز ناقد پروفیسر ارتضیٰ کریم(ڈین،فیکلٹی آف آرٹس، دہلی یونیورسٹی،دہلی)کو اور اردو فکشن کے لیے مشہور فکشن نگار محترم دیپک بدکی (کشمیر) کوپیش کیا جائے گا۔
(2) ایم۔اے اور ایم فل کے ٹاپرس طلبہ کے ساتھ ساتھ ان اساتذہ کو بھی اعزاز سے نوازا جائے گا جن کی 2018ء اور 2019ء میں کتابیں شائع ہوئی ہیں۔
(3) شعبہء اردو میں پڑھنے والے وہ طالبِ علم جنہوں نے نیٹ کے امتحان میں کامیابی حاصل کی یا سرکاری ملازم ہوئے، ان کو بھی اعزاز سے نوازا جائے گا۔
(4) محفلِ افسانہ کا بھی انعقاد کیا جائے گا، جس میں محترم دیپک بدکی، محترم خورشید حیات اور پروفیسر اسلم جمشیدپوری اپنے اپنے افسانوں کی قرأت کریں گے۔
پروگرام کی پہلی نشست میں چودھری چرن سنگھ یونیوسٹی کے شیخ الجامعہ پروفیسر این کے تنیجاشمع روشن کریں گے۔مہمانِ خصوصی کے طور پر نائب شیخ الجامعہ پروفیسر وائی وملا تشریف لائینگی جب کہ پروگرام کی صدارت پروفیسر اسلم جمشید پوری فرمائینگے۔ڈاکٹر معراج الدین احمد اور حاجی عمران صدیقی بطور مہمانانِ اعزازی شریک ہونگے۔
محفلِ افسانہ کی مجلسِ صدارت میں پروفیسر ارتضیٰ کریم، ڈاکٹر ذکی طارق اور محترم عمران صدیقی جلوہ افروز ہونگے۔
نئی دہلی:آج یہاں نوجوان فکشن نگار سلمان عبدالصمد کو ”ساہتیہ اکادمی یووا پرسکار 2019“ پیش کیا گیا۔ ان کے پہلے ناول ”لفظوں کا لہو“ کو اردو اور ہندی کے قارئین نے بہت پسند کیا اور کئی معتبر لکھنے والوں نے اس ناول پر اظہار خیال بھی کیا ہے۔2016 سے لے کر اب تک تین مرتبہ اس ناول کی اشاعت ہوئی۔ ڈبرو گڑھ آسام میں ساہتیہ اکادمی کے صدرچندرشیکھر کمبار نے سلمان عبدالصمد سمیت24زبانوں کے نوجوان لکھنے والوں کی خدمت میں یہ پرسکار پیش کیا۔ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے سلمان نے کہا کہ والدین اورمیرے لیے نیک خواہشات رکھنے والے تمام افراد کا میں ممنون ہوں۔ ناول لکھنے کے لیے کی گئی کل چھ دن کی محنت کو خدا نے قبول کیا۔ اس ادبی سفر میں نیک دل قارئین اور ساہتیہ اکادمی کی اس ہمت افزائی سے مجھے تقویت ملی ہے۔ مجھے تنقید وتخلیق سے یکساں دل چسپی ہے۔ چناں چہ ان دونوں میدا نوں میں بہترکام کر نا میرا فریضہ ہوگا۔انھو ں نے مزید کہا کہ ایوارڈ میں ملنے والی 50ہزار رقم ان مدرسوں کے کے درمیان تقسیم کردی جائے گی،جہاں جہاں میں نے تعلیم حاصل کی۔واضح رہے کہ جواہر لال نہرو یونی ورسٹی میں پرو فیسر انورپا شا کی سرپرستی میں سلمان عبدالصمد ”اردو ناول اور اسلوبیات:1980کے بعد“ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہے ہیں۔ناول کے علاوہ ان کی دوکتابیں، متعدد تنقیدی مضامین اور افسانے شائع ہوچکے ہیں۔جے این یو آنے سے قبل انھوں نے دارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنو سے سندِ عا لمیت حاصل کی۔ ان کا آبائی گاؤں دربھنگہ میں واقع’برّا گجبور‘ ہے۔ سلمان نے اپنے صحافتی تجربوں کو بڑی خوب صورتی سے تخلیقی انداز میں پیش کیا ہے۔ جس سے حقیقی صحافیوں کا چہرہ سامنے آتا ہے اور جمہوریت و صحافت کے متعلق متعددسوالات ابھرتے ہیں۔ ایوار ڈ ملنے پر ان کے سینکڑوں احباب اور اساتذہ نے مبارک باد پیش کی ہے۔
عبدالعزیز
وزیر اعظم نریندر مودی کی دوسری اننگ30مئی سے شروع ہوئی۔ گزشتہ روز ان کے سو دن پورے ہوئے۔ ان کی پارٹی کے لوگوں نے اپنے نقطہئ نظر کے حساب سے سو دن پورے ہونے پر مبارک باد دی اور پھولوں کا ہار پہنایا۔لیکن مودی جی نے ملک کے عوام سے اور خاص کر اقلیتوں سے جو وعدہ کیا تھا سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس، بد قسمتی سے اس میں سے کوئی چیز عوام کو نہیں ملی اور جو توقعات ان سے کی گئی تھیں پوری نہیں ہوئیں۔ عوام نے تو کلیاں مانگی تھیں ان کو کانٹوں کا ہار ملا۔
امن و امان: کسی بھی حکومت کا سب سے پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان، نظم و نسق(Low & Order) کو بحال رکھے، اور جو حکومت اس کام کو انجام نہیں دے سکے اسے قائم رہنے کا قانوناً کوئی حق نہیں ہوتا ہے۔ لیکن ملک کا دستور کچھ ایسا ہے کہ قانون میں جتنا بھی گراوٹ آجائے مرکز کی حکومت قائم رہے گی، لیکن اگر کسی ریاست میں نقصِ امن(Break Doqwn) ہوجائے تو دستور کی دفعہ356 کے تحت صدر راج قائم کر دیا جاتا ہے اور کبھی کبھی اسمبلی بھی تحلیل کر دی جاتی ہے۔ انسانوں کا بنایا ہوا قانون اسی لئے کہا جاتا خامیوں سے پُر ہوتا ہے۔ جے پرکاش نارائن نے اندرا گاندھی کے زمانے میں کہا تھا کہ اگرعوام کے نمائندے کام نہیں کر سکے تو عوام کو ان کی نمائندگی رد کرنے کا حق ہونا چاہئے۔ لیکن ان کی یہ تجویز دھری کی دھری رہ گئی۔ حالات اتنے بگڑ گئے کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو گئی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، ملک کے لوگوں کو معلوم ہے۔ خاص طور پر قانون کی حکمرانی ضروری ہے۔ مودی جی کے دور حکومت میں قانون شکنی عروج پر ہے۔ آسانی سے ان کے پارٹی کے لوگ قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں جب اور جہاں چاہتے ہیں اقلیت کے کسی فرد پر کسی بہانے سے سر قلم کر دیتے ہیں اور اس کا نام ہجومی تشدد ہوتا ہے حالانکہ یہ کسی بھی طرح دہشت گردی سے کم کا جرم نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے بہت سارے نمائندوں نے ہجومی تشدد پر قانون بنانے کا مطالبہ کیا مرکزی حکومت نے اس کی کوئی اہمیت نہیں دی۔ ابھی تک صرف تین ریاستوں میں، مدھیہ پر دیش،راجستھان اور مغربی بنگال میں قانون بنا ہے۔ بی جے پی کے یوگی کے حکومت میں قانون شکنی کا دور دورہ ہے۔ وہاں مجرموں کو جب وہ ضمانت سے باہر آتے ہیں تو سنگھ پریوار کے لوگ ان کا استقبال کرتے ہیں اور پھولوں کا ہار پہناتے ہیں۔ چند دن پہلے بلند شہر کے ایک ایماندار پولس انسپکٹر کے قتل کے مجرموں کو جب ضمانت ملی تو ان کا استقبال کیا گیا۔ مودی جی بھی مظفر نگر کے فسادی مجرموں کو ہار پہنا چکے ہیں۔ ہزاری باغ کے سابق ایم پی جینت سنہا جو کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں بھی مودی جی کی پہلی اننگ میں نہ صرف ہار پہنایا تھا بلکہ انہیں ضمانت سے رہا کرنے کے لئے مالی تعاون بھی دیا تھا۔ پرگیہ ٹھاکر مالیگاؤں بم بلاسٹ کی مجرم ہیں ضمانت پر رہا ہوئی ہیں ان کو ایم پی کا ٹکٹ دیا گیا سابق وزیر اعلیٰ ڈگوجے سنگھ کے مقابلے میں بھوپال حلقے سے ایم پی کے لئے کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے انتخاب کے دوران ہیمنت کرکرے کو لعنت و ملامت کی اور کہا کہ ان کی بددعاؤں سے ان کایہ حشر ہوا۔ مودی جی اور امیت شاہ نے وعدہ کیا تھا کہ ان کے اوپر کارروائی ہوگی مگرا بھی تک ان کا وعدہ وعدہئ فردا ثابت ہوا۔ جہاں مجرموں کو حکومت پناہ دے یا حکمراں جماعت حوصلہ افزائی کرے تو آخر قانون کی حکمرانی کیسے قائم رہ سکتی ہے؟ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مودی جی کی حکومت ناکام ہے۔ ہار پہنانے سے یا مبارک باد دینے سے مسٹر نریندر مودی کا قد اونچا ہوجائے گا یا حکومت کی نیک نامی ہوگی یہ ممکن نہیں ہے۔ آج بھی گجرات میں مودی جی کے دورِ حکومت میں جو کچھ ہوا تھا لوگوں کو اچھی طرح یاد ہے۔قطب الدین کامجبور چہرہ اور اشوک موچی کا ظالمانہ چہرہ گجرات کے فسادات کی یاد دلاتا رہے گا اور مظلوموں کی آہ بھی شاید کبھی ختم ہو۔ کہا جاتا ہے مظلوم کی آہ سے عرشِ الٰہی ہلنے لگتا ہے۔ ابھی تک کچھ ایسا نہیں ہوا لیکن اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
مہنگائی اور بیروزگاری: مہنگائی کی جو حالت ہے اس سے غریب عوام جوجھ رہے ہیں۔ روز مرہ کی ہر چیز مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ بیروزگاری کا عالم یہ ہے کہ کبھی بھی ہندوستان میں اتنے بڑے پیمانے پر بیروزگاری نہیں ہوئی جیسے اس وقت ہورہی ہے۔چالیس پچاس لاکھ لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں۔ بہت سی انڈسٹری میں کام کاج ٹھپ ہے اور بہت سے کارخانے میں تالا لگا دیئے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ پارلے جی کا پانچ روپے والا بسکٹ والی انڈسٹری بھی بند کر دیا گیا۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے لحاظ سے بھی مودی جی کی حکومت کو کامیاب بتانا سراسر زیادتی ہوگی۔
معیشت: معیشت کی تباہ حالی اتنے بڑے پیمانے پر ہے کہ اب حکومت کے کارندے بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ دور بھی آسکتا ہے کہ ہندوستان کا معاشی نظامCollapse (گر پڑ جائے)کر جائے۔ اس پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ ماہرین معاشیات معاشی تباہی کے خطرے سے حکومت کو آگاہ بھی کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ہندوستان کی معاشی حالت پر اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ معیشت متزلزل ہے اور اس کو بحال کرنے میں چند چیزیں ضروری ہیں۔ بی جے پی کی حریف پارٹی شیو سینا کے اخبار’سامنا‘ کے اداریے میں کہا گیا ہے کہ منموہن سنگھ حکومت کو جو مشورہ دے رہے ہیں حکومت کو انِ سنی نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس پر عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنا چاہئے۔
کشمیر: کشمیر اس وقت دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ میں تبدیل ہو گیاہے۔70لاکھ لوگ قید و بند کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہزاروں لوگ جیلوں میں ہیں اور کچھ لوگ گھروں میں نظر بند ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پورا کشمیر جیل کا منظر پیش کررہا ہے۔ ہردس آدمی پر ایک فوجی کو تعینات کر دیا گیا ہے۔بچے بھی گھروں سے باہر نہیں نکل رہے ہیں۔ مریضوں کو دوائیں وقت پر نہیں مل رہی ہیں۔یوٹیوب میں کشمیر کی ایک لڑکی نے اسرو(ISRO)کے چیئرمین ڈاکٹر کے سیون کو ایک خط لکھا ہے جس میں اس نے چندریان-2 کوچاند پر قدم رکھنے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ چاند کے جنوبی پول پر قدم رکھنے کے بالکل قریب تھا کہ چندر یان-2 کا رابطہ ٹوٹ گیا۔ لڑکی نے لکھا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ پر قوم کو کتنا فخر ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کو کتنا بڑا دکھ ہوا کہ مواصلاتCommunication) کٹ گیا ہے یا رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح میری ماں سے ایک ماہ ہوا کوئی رابطہ نہیں ہے میری ماں جموں و کشمیر کے بڈگام میں رہتی ہے۔ ہفتوں ہو گیا میں اپنی ماں سے بات نہیں کر سکی۔ آپ بڑے سائنسداں ہیں آپ کو اچھی طرح معلوم ہے چیزوں کو کیسے ہینڈل کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپ وزیر اعظم کے سامنے رو پڑے۔ آپ پر اس وقت یہ غم طاری ہوا جب کنکشن ٹوٹ گیا اور آپ کے لئے ممکن نہیں رہا جو آپ کے سب سے قریب تھا اس سے رابطہ قائم رکھ سکیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب آپ کتنے خوش قسمت ہیں کہ آپ کو دل شکستہ دیکھ کر وزیر اعظم نے آپ کو گلے سے لگا لیا آپ کو تسلی بھی دینے لگے اور یہ بھی کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن ذرا میری قسمت کو دیکھئے کہ میں کتنی بدقسمت ہوں کہ میں اپنے خاندان کے لوگوں سے کوئی رابطہ رکھنے سے قاصر ہوں۔ لیکن کوئی بھی نہیں آیا جو مجھے تسلی یا دلاسہ دے سکے۔ میرے محترم وزیر اعظم تسلی و دلاسے کے لئے مجھ جیسے لوگوں کے لئے ایک لفظ بھی نہیں بول سکے۔ یہ کنکشن کس نے ختم کیا دنیا کو معلوم ہے یہاں میں آپ ایک ہی کشتی میں سوار ہیں آپ فرما رہے ہیں کہ لینڈر وکرم سے مواصلات قائم کرنے کی کو شش کررہے ہیں اور میں بھی ایک مہینے سے اپنے ماں باپ سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔ مجھے احساس ہے کہ آپ دیر یا سویر وکرم سے کنکشن قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ محترم کیا بات سب سے دکھ پہنچانے والی ہے کہ اگر آپ کے ملک کے لوگ آپ سے ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کریں، آپ کتنے خوش قسمت ہیں کہ وکرم سے رابطہ ٹوٹ جانے کی وجہ سے سوشل میڈیا میں سیلاب آگیا، آپ کو حوصلہ دینے اور تسلی دینے کیلئے اور یہاں حالت یہ ہے کہ میں تنہا ہوں جب یہ خط لکھ رہی ہوں۔ آخر میں اس نے لکھا ہے کہ میری کوشش یہ تھی کہ داستانِ غم کو کچھ اخبارات شائع کر دیں لیکن کوئی اخبار کوئی رسالہ شائع کرنے کے لئے تیار نہ ہوں۔
کاش اس غمزدہ لڑکی کا خط کوئی وزیر اعظم تک پہنچاتا وہ کچھ کرتے یا نہ کرتے لیکن ان کو کم سے کم یہ معلوم ہوجاتا کہ کس کسمپرسی کے عالم میں کشمیری کشمیر میں ہیں اور کشمیر سے باہر زندگی گزارتے ہیں۔ غالباً یہ لڑکی کسی غریب گھر کی لڑکی ہوگی جس نے ڈر سے اپنا نام تک صیغہئ راز میں رکھا ہے۔ اگر یہ امیر گھر کی لڑکی ہوتی یا اس کے پاس پیسے ہوتے تو یہ بھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتی اور شاید محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی کی طرح اس کو بھی سپریم کورٹ اپنی ماں سے ملاقات کرنے کی اجازت دے دیتا اور حکومت فرمان جاری کر دیتی۔ بہرحال اس خط کی زبان حال سے کشمیریوں کی کسمپرسی کو ایک حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
مولاناعبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
آپ کانام نامی: حسین ۔کنیت: ابو عبد اللہ۔لقب:ریحانۃ النبی، سید شباب اہل الجنۃ۔والد:علی المرتضیٰ ۔والدہ: سیدہ فاطمۃ الزہراء۔یوں آپ کی ذات گرامی قریش کاخلاصہ اور بنی ہاشم کا عطر تھی۔شجرۂ نسب کچھ اس طرح ہے:حسین بن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف قریشی ہاشمی۔
آپ کی ولادت باسعادت:
ابھی آپ شکم مادر ہی میں تھے کہ حضرت حارث ؓ کی صاحبزادی نے خواب دیکھا کہ کسی نے رسول اکرمﷺ کے جسم اطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر ان کی گود میں رکھ دیا ہے۔ انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں نے ایک ناگوار اور بھیانک خواب دیکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیان کرو، آخر کیا ہے؟ چنانچہ آپ ﷺ کے اصرار پر انہوں نے اپنا خواب بیان کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو نہایت مبارک خواب ہے، اور فرمایا کہ فاطمہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا اور تم اسے گود میں لوگی۔(مستدرک حاکم ج3 صفحہ176)کچھ دنوں کے بعد اس خواب کی تعبیر ملی اور ریاض نبوی ﷺ میں وہ خوش رنگ ارغوانی پھول کھلا؛ جس کی مہک حق وصداقت، جرات و بسالت، عزم و استقلال، ایمان و عمل اور ایثار و قربانی کی وادیوں کو ابد الآباد تک بساتی اور سرخئ عقیق کی طرح چمکاتی رہے گی، یعنی ماہِ شعبان 4 ہجری میں حضرت علی ؓ کا کاشانہ حسین کے تولد سے رشک گلزار بنا۔ ولادت باسعادت کی خبر سن کر آپ ﷺ تشریف لائے اور نومولود بچے کو منگوا کر اس کے کان میں اذان دی پھر عقیقہ فرمایا ۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی نے اپنے دونوں فرزند ان کا کوئی اور نام تجویز فرمایا تھا ؛مگر آپ ﷺنے اسے تبدیل فرمادیااور حسن وحسین رکھا۔جیساکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خودروایت کرتے ہیں: جب فاطمہ کے ہاں حسن کی ولادت ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں؛بلکہ وہ حسن ہے پھر جب حسین کی ولادت ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ! تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں؛ بلکہ وہ حسین ہے۔ پھر جب تیسرا بیٹا پیدا ہوا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نہیں؛ بلکہ اس کا نام محسن ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : میں نے ان کے نام ہارون (علیہ السلام) کے بیٹوں شبر، شبیر اور مشبر کے نام پر رکھے ہیں۔‘‘(رواہ احمد بن حنبل فی المسند، 1 : 118، رقم : 935)
حالات زندگی:
سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کےعہد خلافت میں سیدنا حسینؓ کی عمر 7 ,8 برس سے زیادہ نہ تھی؛یہی وجہ ہے کہ ان کے عہد کا کوئی خاص واقعہ تاریخ کی کتابوں میں موجود نہیں۔اسی طرح سیدنا عمر ؓ کے ابتدائی دور خلافت میں بھی آپ کم عمر تھے، البتہ آخری عہد میں سنِ شعور کو پہنچ چکے تھے ۔سیدنا عمر ؓ ،آپ ؓ پر بڑی شفقت فرماتے تھے اور قرابت رسولﷺکاخاص خیال رکھتے تھے، چنانچہ جب بدری صحابہ کے لڑکوں کا دو دو ہزار وظیفہ مقرر کیا تو سیدنا حسین ؓ کا قرابتِ رسول ﷺ کا خیال رکھتے ہوئےپانچ ہزار ماہوار وظیفہ مقرر کیا۔(فتوح البلدان، بلاذری عطا عمر بن الخطاب)سیدنا عمر ؓ کسی بھی چیز میں سیدنا حسین ؓ کی ذات گرامی کو نظر انداز نہ ہونے دیتے ایک مرتبہ یمن سے بہت سے جوڑے آئے، سیدنا عمر ؓ نے تمام صحابہ کرام ؓ م میں تقسیم کر دیئے، سیدنا عمر ؓ روضہ نبوی اورمنبر کے درمیان تشریف فرماتھے اور لوگ ان جبُّوں کو پہن کوشکریہ کے طور سیدنا عمر ؓ کو آکر سلام کرتے تھے، اسی دوران سیدنا حسن وحسینؓ اپنےگھرسےنکلےتوسیدنا عمر ؓ نے دیکھا کہ ان کےجسموں پر جبے نہیں ہیں۔ یہ دیکھ کو آپ ؓ کو تکلیف پہنچی اور لوگوں سے فرمانے لگے کہ تمہیں حلے پہنا کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی، صحابہ کرام ؓ نے اس کی وجہ پوچھی توفرمایا کہ حسن و حسین ؓ کے جسم ان حلوں سے خالی ہیں، اس کےبعدیمن کے حاکم کوخط بھیجا کہ جلد از جلد دو جبے بھیجیں۔ چنانچہ جبے منگوا کر دونوں بھائیوں کوپہنانے کے بعد فرمایا، اب مجھے خوشی ہوئی ہے۔(ابن عساکر،ج4ص321/232)
سیدنا عثمان ؓ کے زمانہ خلافت میں سیدنا حسین پورے جوان ہوچکے تھے۔چنانچہ سب سے پہلے اسی عہد میں میدانِ جہاد میں قدم رکھا اور س 30 ھجری میں طبرستان کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے۔(ابن اثیر،ج3 ص 83)پھر جب سیدنا عثمان ؓ کےخلاف بغاوت برپا ہوئی اور باغیوں نے قصر خلافت کا محاصرہ کیا تو سیدنا علی نے دونوں بھائیوں سیدناحسن و حسین ؓ کو سیدنا عثمان ؓ جو کہ ان دونوں بھائیوں کے خالو تھے، کی حفاظت پر مامور کیا کہ باغی اندر گھسنے نہ پائیں، چنانچہ حفاظت کرنے والوں کے ساتھ ان دونوں نے بھی نہایت بہادری کے ساتھ باغیوں کو اندر گھسنے سے روکے رکھا اور جب باغی مکان پر چڑھ کر اندر گھس گئے اور سیدنا عثمان ؓ کو شہید کر ڈالا اور جب سیدنا علی ؓ کو شہادت کی خبر ہوئی تو انہوں نے دونوں بیٹوں کو بلا کر سخت ڈانٹا، اور باز پرس کی کہ تمہاری موجودگی میں باغی اندر کیسےگھس گئے؟(تاریخ الخلفا للسیوطی، ص 159بحوالہ سیرت و سوانح سیدنا حسینؓ)
پھر اپنے والدماجد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بھائی حضرت حسنؓ کے عہدخلافت میں ان کے شانہ بہ شانہ رہےاور ہر اعتبار سےتعاون فرماتےرہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دور،سرکار دوعالمﷺکی پیشین گوئی کے مطابق اختلاف وانتشار اور آپسی خانہ جنگی کا دور تھا، جنگ جمل اورجنگ صفین آپ ہی کے دور میں واقع ہوئی اورکم وبیش چار سال تک فرائض خلافت انجام دیتے رہے۔ بالآخر خارجیوں نے آپؓ کو شہید کرڈالا اور آپ کوفہ کی سرزمین میں آسودہ ٔ خواب ہوئے۔پھرآپ کے بعد اہل کوفہ نے حضرت حسنؓ کے دست ِحق پر بیعت کرلی، دوسری طرف جب امیر معاویہؓ کو حضرت علیؓ کی وفات کا علم ہوا تو آپ نے امیر المؤمنین کا لقب اختیار فرمایا اور دوبارہ تجدید ِبیعت فرمائی اس کے بعد ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر دمشق سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے اور حضرت حسنؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ صلح، جنگ سے بہتر ہے اس لئے آپ میرے ہاتھ پر بیعت کرلیں، حضرت حسنؓ نے یہ سن کرکہ امیر معاویہؓ مع لاؤ لشکر کوفہ کا عزم رکھتے ہیں چالیس ہزار کا لشکر ہمراہ لیا اور کوفہ سے روانہ ہوئے مگر آپ کا ارادہ قتل وغارت گری اور فساد وخوں ریزی کا بالکل نہیں تھا اور خودحضرت علیؓ کی دلی تمنا اور خواہش تھی کہ لوگوں میں انتشار ختم ہوجائے اور امت متحد ہوجائے چنانچہ حضرت حسنؓ نے اپنے والد کے اسی دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا اور امیر معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبرداری کا اعلان فرمایا اس طرح آپ ﷺ کی وہ پیشین گوئی بھی سچ ثابت ہوئی کہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا میرایہ بیٹا سردار ہے ، اللہ تعالیٰ ایک روز اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دومتحارب جماعتوں کے مابین صلح کرائے گا (مسند احمد)
فضائل ومناقب:
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے لوگو! کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جواپنے نانا نانی کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے نہ بتاؤں جو اپنے چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے ماموں اور خالہ کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جو اپنے ماں باپ کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ وہ حسن اور حسین ہیں، ان کے نانا اﷲ کے رسول، ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد، ان کی والدہ فاطمہ بنت رسول اﷲ، ان کے والد علی بن ابی طالب، ان کے چچا جعفر بن ابی طالب، ان کی پھوپھی ام ہانی بنت ابی طالب، ان کے ماموں قاسم بن رسول اﷲ اور ان کی خالہ رسول اﷲ کی بیٹیاں زینب، رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔ ان کے نانا، والد، والدہ، چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ سب جنت میں ہوں گے اور وہ دونوں حسنین کریمین بھی جنت میں ہوں گے۔‘‘(معجم کبیر طبرابی)
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس نے مجھ سے اور ان دونوں سے محبت کی اور ان کے والد سے اور ان کی والدہ سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے ہی ٹھکانہ پر ہو گا۔‘‘(جامع ترمذی)
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کی طرف دیکھ کر فرمایا : اے اﷲ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘(جامع ترمذی)
’’سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے حسن و حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا وہ اللہ کے ہاں مبغوض ہو گیا اور جو اﷲ کے ہاں مبغوض ہوا، اُسے اللہ نے آگ میں داخل کر دیا۔‘‘(مستدرک حاکم)
عبداﷲ بن شداد اپنے والد حضرت شداد بن ھاد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن یا حسین کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر اُنہیں زمین پر بٹھا دیا پھر نماز کے لئے تکبیر فرمائی اور نماز پڑھنا شروع کر دی، نماز کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل سجدہ کیا۔ شداد نے کہا : میں نے سر اُٹھا کر دیکھا کہ وہ سجدے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہیں۔ میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما چکے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ! آپ نے نماز میں اتنا سجدہ طویل کیا۔ یہانتک کہ ہم نے گمان کیا کہ کوئی امرِ اِلٰہی واقع ہو گیا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایسی کوئی بات نہ تھی مگر یہ کہ مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے سجدے سے اُٹھنے میں جلدی کرنا اچھا نہ لگا جب تک کہ اس کی خواہش پوری نہ ہو۔(نسائی شریف)
آپ کی شہادت کا جاں گداز سانحہ:
حضرت معاویہ ؓ نے اپنی زندگی ہی میں اپنے بعد اپنے بیٹے یزید کو جانشین مقررفرمادیاتھا۔ کئی ایک بڑے صحابہ نے ان کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا؛ جن میں حضرت حسینؓ بھی شامل تھے، اہل کوفہ نے بھی یزید کی خلافت کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور پے درپے حضرت حسینؓ کو خطوط لکھے کہ آپؓ یہاں تشریف لائیں ہم آپؓ کو اپنا خلیفہ تسلیم کرلیتے ہیں ۔ حضرت حسینؓ ان کے کہنے میں آگئے۔کئی ہمدردوں اورخیر خواہوں نے سمجھانےکی کوشش بھی کی کہ آپ کوفہ تشریف نہ لے جائیں ۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا اے ابن عم! یہ شہرت ہے کہ تم عراق کی طرف جا رہے ہو، خدا کے واسطے ایسا ارادہ نہ کرنا کیا اہل عراق نے بنو امیہ کے حکام کو نکال کر ملک پر قبضہ کرلیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ضرور جائو، لیکن اگر حالات یہ ہیں کہ ان کے حکام برسرحکومت ہیں ، خزانہ کی کنجیاں ان کے ہاتھوں میں تو اہل کوفہ آپ کو اس لئے بلاتے ہیں کہ لڑائی کے شعلوں میں آپ کو دھکیل دیں اور خود الگ ہوجائیں ۔ یہی انہوں نے آپ کے والد اور بھائی کے ساتھ کیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے بھی سمجھایا؛ مگر حضرت حسین جانے کا پختہ ارادہ کرچکے تھے۔
ابن زیاد کو حضرت حسین کی روانگی کی اطلاع مل چکی تھی۔ چنانچہ اس نے یزید کی ہدایت کے مطابق مدینہ سے عراق آنے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کردی تھی اور حر بن یزید تمیمی کو ایک ہزار سوا ر دے کر حضرت حسین کو تلاش کرکے گھیرنے کیلئے بھیج دیا، حضرت حسین "”ذی چشم”” مقام پر پہنچے تو حر بن یزید بھی سامنے آگیا۔ گفتگو ہوئی، بالآخر کہنے لگا کہ مجھے حکم ملا ہے کہ آپ کو حراست میں لے کر ابن زیاد کے سامنے کوفہ پہنچا دوں ۔ حضرت حسین نے واپسی کا ارادہ کیا مگر حر نے مزاحمت کی کہ واپس نہیں جانے دوں گامگر جنگ بھی نہیں کروں گا۔ بہتر یہ ہے کہ آپ کوئی ایسا راستہ اختیار کریں جو عراق و حجاز دونوں کے درمیان ہو۔ حضرت حسین نے اس تجویز کو قبول فرمالیا اور شمال کی طرف رخ کرکے نینویٰ کے راستہ پر ہولئے۔ حر بھی ان کے ساتھ کچھ دور تک چلا، جب نینویٰ پہنچے تو حرکو ابن زیادہ کا خط ملا کہ حسین اور ان کے ساتھیوں کو فوراً روک لو اور انہیں ایسی جگہ اترنے پر مجبور کرو جہاں کوئی اوٹ اور پانی نہ ہو۔ حر نے یہ خط حضرت حسین کو دکھایا ۔ آپ نے فرمایا کچھ دور آگے چلنے دو، پھر ہم اتر جائیں گے۔ حر راضی ہوگیا ۔ جب آپ مقام کربلا پہنچے تو حر راستہ روک کر کھڑا ہوگیا اور کہا اب آگے نہیں بڑھنے دوں ، یہاں اتر جائیے۔ فرات بھی یہاں سے قریب ہے۔ حضرت حسین اور آپ کے ساتھی ٢محرم ٦١ھ میں میدان کربلا میں اتر گئے۔
عاشورہ کے دن افق پرخونی سورج طلوع ہوا ۔سیدنا حسینؓ نے محسوس کرلیا کہ ظالم وجابرحکومت ان کے خون کی پیاسی ہے اور دشمن کے بدلتے ہوئے تیور میں جارحیت و بربریت کا غرورصاف نظر آرہاہے ،یہ دیکھ کر نواسۂ رسولﷺنے سنگ دل ظالموں کئے قلوب پر ندائے حق کی دستک دی کہ شاید ان ضمیر جاگ اٹھے ،وہ نواسۂ رسول کے مرتبہ و مقام کو پہان لیں اور خون ناحق سے اپنے ہاتھوں کو رنگنے سے باز آجائیں؛ لیکن اقتدار اور حکومت کا ضمیر جب سوتا ہے تو بیدار نہیں ہوتا۔سیدنا حسینؓ اونٹنی پر سوار ہوئے اور قرآن سامنے رکھ کردشمنوں سےیوں مخاطب ہوئے :
لوگو!میرا حسب ونسب یاد کرو !سوچو میں کون ہوں ؟پھر اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اوراپنے ضمیر کامحاسبہ کرو! خوب غور کرو !کیا تمہارے لیے مجھے قتل کرن او ر میری حرمت کا رشتہ توڑنا روا ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں ؟ کیا سیدالشہداءامیر حمز ہؓ،میرے باپ کے چچا نہیں تھے؟کیا ذوالجناحین جعفر طیارؓ میرے چچا نہیں ہیں؟کیا تم نے رسول کا یہ مشہورقول نہیں سنا کہ میرے اور میرے بھائی کے حق میں فرماتے تھے” سیداشباب اھل الجنۃ” اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے کیوں کہ میں نے واللہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے آج تک جھوٹ نہیں بولا تو بتاؤ کیا تمہیں برہنہ تلواروں سے میرا استقبال کرنا چاہیے ؟اگر تم میری بات پر یقین نہیں کرتے تو تم میں ایسے لوگ موجود ہیں جن سے تصدیق کرسکتے ہو !جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے پوچھو !ابوسعید خدریؓ سے پوچھو سہل بن سعدساعدی ؓسے پوچھو! زید بن ارقمؓ سے پوچھو! انس بن مالک ؓسے پوچھو!وہ تمہیں یہ بتلائیں گے کہ انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے رسول اللہﷺسے یہ فرماتے سنا ہے یا نہیں ؟َکیا یہ بات بھی میرا خون بہانےسے نہیں روک سکتی؟واللہ اس وقت روئے زمین پر بجزمیرے کسی نبی کا بیٹا موجود نہیں !میں تمہارے نبی کا بلاواسطہ نواسہ ہوں یا تم مجھے اس لیے ہلاک کرنا چاہتے ہو کہ میں نے کسی کی جان لی ہے ؟کسی کا مال چھینا ہے؟کہو!کیابات ہے؟آخر میرا قصور کیا ہے؟ حضرت حسین ؓ کا یہ ا ٓخری خطبہ اتنا پر اثر اور درد انگیز تھا کہ اگر یہ خطبہ پہاڑوں کو سنا یا جاتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتے زمین کو سنایا جاتا تو وہ شق ہوجاتی بادلوں کو سنایا جاتا تو وہ اشکوں کی برسات بن جاتے؛لیکن سیدنا حسین ؓ جن ظالموں سے خطاب فرمارہے تھے ان کے سینوں میں دل نہیں پتھر تھے۔آخر کار دس محرم الحرام کوگھمسان کی لڑائی شروع ہوئی اور آپ جنگ کے دوران شہید کردیے گئے۔ (ملخص ازمحرم الحرام ؛حقائق کے آئینہ میں ،ص36)
خلاصۂ کلام:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اس دل دوز واقعہ نے درحقیقت ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ ایک مومن کے دل میں صرف خوف خدا ہونا چاہئے۔اگر اس کے قلب میں کسی اورکا خوف بھی ہے تو پھر صاف لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کا دل نورایمان سے روشن ومنور نہیں ۔اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ کہ شہادت سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہم زندہ رہیں تو خدا کے لئے اور جب جان جان آفریں کے حوالے کریں تو بھی اسی کی راہ میں؛کیوں کہ سب سے زیادہ قیمتی اور قابل رشک جان وہی ہے جو خدا کی راہ میں کام آئے اور اسے صرف اس جرم میں ختم کیا گیا ہوکہ وہ خدا کی نام لیوا تھی ۔ ہماری زندگی کا صرف ایک ہی نصب العین ہو یعنی اعلاء کلمۃ الحق کہ ہم حق کی آواز کے ساتھ باطل کا مقابلہ کرتے ہوئے زندہ رہیں ورنہ راہ حق میں قربان ہوجائیں اور بہ بانگ دہل یہ اعلان کریں ؎
ہمارے پاس ہے کیا جو فدا کریں تجھ پر
مگر یہ زندگئی مستعار رکھتے ہیں!! Attachments area
مرزاعبدالقیوم ندوی کومہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے خصوصی ایوارڈ سے نوازاگیا
اورنگ آباد:مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کی جانب سے اردوزبا ن و ادب کے فروغ کے ساتھ مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی شخصیتوں کو۸/ستمبرکو اورنگ آباد میں کے و ی آئی پی ہال میں ریاستی وزیر مملک برائے اقلیتی امور،صنعت واوقاف اتول موریشور ساوے کے ہاتھوں انعام و اعزا ز سے نوازا گیا۔اس موقع پر وزیر موصوف کے علاوہ شہر کے ایم پی امتیاز جلیل کے ساتھ پرنسپل سیکریٹری شیام تیاگڑے بھی موجو د تھے۔ مرزاعبدالقیوم ندوی چیئرمین ریڈ اینڈلیڈ فاؤنڈیشن و مالک مرزاورلڈ بک ہاؤس اورنگ آباد کو اردو زبان و ادب کے فروغ،طلباء و عوام میں مطالعہ کا شوق پیداکرنے اور مختلف ادبی و سماجی سرگرمیو ں کے انعقاد کے لیے مہاراشٹر اسٹیٹ اکیڈمی کے خصوصی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مرزا عبدالقیوم ندوی کو 15,000ہزار روپیے،شال،مومنٹو اور توصیفی سند ایم پی امتیاز جلیل،ریاستی شعبہ اقلیتی وزارت کے پرنسپل سیکریٹری شام تاگڑے،اکیڈمی کے صدررانا صدیقی کی موجودگی میں دیاگیا۔ ایوارڈملنے پر مرزا عبدالقیوم ندوی نے صحافیوں کو دیئے گئے انٹریو میں کہاکہ یہ ایوارڈ دراصل ان کا نہیں بلکہ ریاست اور خصوصا َ اورنگ آباد شہر کے ان لاکھوں طلباء، ہزاروں اساتذہ،سینکڑوں تعلیمی اداروں کا ایوارڈہے جنہوں نے مجھے ان اداروں کے طلباء میں مطالعہ کا شوق پیداکرنے اور مختلف تعلیمی،وثقافتی سرگرمیوں کو انعقا د کرنے کے مواقع فراہم کیے۔قابل ذکر ہے کہ انہوں نے قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نئی دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامہ”بچوں کی دنیا“ کی گزشتہ چھ سالوں میں پانچ لاکھ ۷۵ہزار۰۰۸ کاپیاں فروخت کر ایک عالمی ریکارڈ بنایاہے۔اسی کے ساتھ بے شمار ادبی وسماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے بے شمار پروگرام منعقد کیے ہیں۔مرزاعبدالقیوم ندوی کے ساتھ اورنگ ا ٓبادشہرکے کل دس لوگوں کو بھی انعام و اعزاز سے نوازا گیا ہے،جن میں کپیٹن ایم ایم شیخ،احمد اقبا ل،ڈاکٹررفیع الدین ناصر، شاہ حسین نہری،عرفان سوداگر،فروخ وسیم،فاطمہ فرودوس، فہمیدہ پروین،صائم صدیقی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کا تقسیم انعامات کا پروگرام پہلی بار ممبئی سے باہر اورنگ آبادمیں ہورہاہے۔یہ بھی اتفاق ہے کہ پہلی بار اورنگ آباد سے دس لوگوں کو ایوارڈ سے نوازاگیا ہے۔شہرکی تمام تعلیمی و سماجی تنظیموں کی جانب سے ایوارڈیافتگان کااستقبال اور مبارک دی جارہی ہے۔