۱۱/ جولائی۔آج دہلی یونی ورسٹی کے شعبہئ اردو کے صدر پروفیسر ارتضٰی کریم کو فیکلٹی آف آرٹس کا ڈین منتخب کیا گیا۔پروفیسرکریم نے آج ہی ڈین آف فیکلٹی کا عہدہ سنبھالا۔ اس موقع پر شعبہئ اردو کے علاوہ فیکلٹی اور دیگر شعبوں کے اساتذہ، عہدہ داران اور طلبا و طالبات موجود تھے۔جنہوں پروفیسر کریم صاحب کا گلدستوں سے استقبال کیا اور مبارکباد پیش کی اورکہا کہ یہ شعبہئ اردو کے لیے بڑے فخر کی بات ہے۔ اس سے پہلے پروفیسر فضل الحق ۲۹۹۱ میں ڈین فیکلٹی آف آرٹس مقررکیے گئے تھے۔
پروفیسر ارتضی کریم اردو زبان کے ایک معروف نقاد، محقق اور استاد ہیں۔پروفیسر موصوف فی الوقت شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی میں بحیثیت صدر دوسری مرتبہ بہ حسن و خوبی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم قومی کونسل کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں جہاں ان کی تنظیمی صلاحیتیوں کو ادبی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ کریم صاحب نے ۹۰۰۲ میں شعبہئ اردو میں گولڈن جوبلی تقریبات کا کامیاب طریقے سے انعقاد کرایا تھا۔پروفیسر موصوف اردو زبان و ادب کا ایک معروف نام ہے۔انھوں نے تحقیق، تنقید، ترتیب و تدوین میں ایک اہم فریضہ انجام دیا ہے۔ان تمام اصناف میں ارتضیٰ کریم کی اب تک درجنوں تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔ کلاسیکی ادب سے بھی ان کاگہرا شغف رہا ہے۔ان کی چند اہم کتابوں میں اردو فکشن کی تنقید، قرۃ العین حیدر ایک مطالعہ، آٹھویں دہائی میں بہار کا اردو ادب، انتظار حسین ایک دبستان، کلیات خواجہ احمد عباس، کلیات سہیل عظیم آبادی،مابعد جدیدیت اورپریم چند، معروضات وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
اس موقع پر شعبہئ اردو اور دیگر شعبوں کے جن اساتذہ صاحبان نے پروفیسر ارتضیٰ کریم کو مبارک دی اور خوش آمدید کیا ان میں ڈاکٹر مشتاق قادری، ڈاکٹر ساجد حسین، ڈاکٹر متھن کمار، ڈاکٹر علی احمد ادریسی، پروفیسر علیم اشرف، میڈم شمع فاروقی، عبدالماجد، جے بھگوان،ڈاکٹر شبیر عالم، ڈاکٹر نیبو لال، غلام نبی کمار،ڈاکٹر دانش خاں ڈاکٹر مظفر حسن،ڈاکٹر علی اکبر شاہ وغیرہ موجود تھے۔
11 جولائی, 2019
”کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ“ پروفیسر شارب ردولوی کو
اور”پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی“ ایوارڈ پروفیسرعتیق اللّٰہ کو،
سال۲۰۱۸کی بہترین کتابوں پر انعامات و مسودات پر مالی تعاون کابھی اعلان کیاگیا
نئی دہلی۱۱/جولائی۔
نائب وزیراعلیٰ و چیئرمین اردو اکادمی، دہلی عالیجناب منیش سسودیا نے اکادمی کی ایکزیکٹیو کمیٹی کی میٹنگ میں اکادمی کا سال 2018 کا سالانہ ایوارڈز مندرجہ ذیل تفصیل کے مطابق دینے کا فیصلہ کیا۔ ”کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ“ ممتاز ادیب و ناقددہلی یونیورسٹی و جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق استاد پروفیسر شارب ردولوی کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ”پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی ایوارڈ“ ممتاز ادیب، ناقد، شاعر اور سابق صدر، شعبہئ اردو دہلی یونیورسٹی پروفیسر عتیق اللہ کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ دونوں ایوارڈ دولاکھ اکیاون ہزار روپے نقدفی کس سند، شال اورمومینٹو پر مشتمل ہیں۔
علاوہ ازیں (۱)ایوارڈ برائے تحقیق و تنقید صاحبِ علم بصیرت اورمحقق، نقاد و ادیب پروفیسر وہاج الدین علوی کو،(۲)ایوارڈ برائے تخلیقی نثر معروف افسانہ نگار جناب اظہار عثمانی کو،(۳) ایوارڈ برائے شاعری ممتاز شاعرڈاکٹر جی۔ آر۔ کنول کو، (۴)ایوارڈ برائے اردو صحافت معروف صحافی شکیل حسن شمسی کو،(۵) ایوارڈ برائے ترجمہ پروفیسر انیس الرحمن کو اور(۶)ایوارڈ برائے غزل گائیکی محترمہ رادھیکا چوپڑا کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ ایوارڈز ایک لاکھ ایک ہزار روپے فی کس نقد، شال، سند اورمومینٹو پر مشتمل ہیں۔
اس کے ساتھ ہی سال۲۰۱۸ء کی کتابوں پر انعامات دینے کا بھی فیصلہ کیا گیاہے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
پہلے انعام(پندرہ ہزار روپے) کے لیے منتخب کتابیں: (۱)اُفق کے پار (مینو بخشی)،(۲)ابن صفی کا ادبی نصب العین (محمد عارف اقبال)،(۳) رنگ سب رنگ (شاہد ماہلی)، (۴)اردو شاعری (پروفیسر ابن کنول)،(۵) زہرہ بیگم (امیرمہدی۔ سلیم شیرازی)،۶) عوامی مرثیے کی روایت (لئیق رضوی)
دوسرے انعام (د س ہزار روپے کے لیے منتخب کتابیں) (۱) چاند کی پلکیں (منیرہمدم)، (۲) بڑھاپے میں جوانی(پروفیسر بدرالدین الحافظ)، (۳)خواب کے اس پار(سیدہ نفیس بانو)، (۴)تذکیر و تحلیل (ڈاکٹر ندیم احمد)، (۵)نقش ثانی (اودھ کے فارسی گو شعرا) (ڈاکٹر زہرہ فاروقی)، (۶)ریت دریا اور سراب (پی۔پی۔سریواستو رند)، (۷)تعلیم سے ہی تصویر بدلے گی (کلیم الحفیظ)، (۸)پنجاب کی تاریخی مساجد (مفتی عطاء الرحمن قاسمی)، (۹)عربی ادبیات کے اردو تراجم (ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی)، (۱۰)علی عباس حسینی کے فکر و فن کا تجزیاتی مطالعہ (ڈاکٹر سید سجاد مہدی حسینی)، (۱۱)سفر در سفر (رضوان لطیف خاں) (۱۲)عدالتی زبان میں مستعمل اردو، عربی و فارسی اصطلاحات (خواجہ عبدالمنتقم)،(۱۳)قاضی عبدالستار کی افسانہ نگاری (مہناز عبید)۔
تیسرے انعام (پانچ ہزار روپے) کی منتخب کتابیں: (۱)گردو پیش (ماسٹر نثار احمد)، (۲)قلم کی شوخیاں (حامد علی اختر)، (۳)روشن باتیں (مرزا ذکی احمد بیگ)، (۴)احوال و کوائف (فلاح الدین فلاحی)جب کہ منشی نول کشور انعام برائے بہترین ناشرکے لیے ”کتاب والا“ کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔اسی نشست میں سال ۲۰۱۸کے۲۲مسودات پر مالی تعاون دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے محبت، تکمیلِ ایمان کی علامت اور ہر سعادت سے بڑی سعادت ہے، اگر اس میں کمی یا خامی ہو گی، تو ایمان نامکمل سمجھاجائے گا۔ حبِ رسول ﷺ،اہل ایمان کے لیے ایک روح افزاء باب کی حیثیت رکھتا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ تعلق، مومن کا گراں بہا سرمایہ ہے اور کسی مومن کا دل اس سے خالی نہیں ہو سکتا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم! آپ ان لوگوں سے صاف صاف کہہ دیجئے کہ اگر تمھارے ماں باپ، تمہاری اولاد، تمھارے بھائی، تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ قبیلہ اور تمہارا وہ مال و دولت جس کو تم سے محنت سے کمایا ہے اور تمہاری وہ چلتی ہوئی تجارت جس کی کساد بازاری سے تم ڈرتے ہو اور تمھارے رہنے کے وہ اچھے مکانات جو تم کو پسند ہیں (پس دنیا کی محبوب و مرغوب چیزیں) اللہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اور اللہ کے دین کی راہ کی جدوجہد سے زیادہ تمھیں محبوب ہیں تو انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم اور فیصلہ نافذ کرے اوریاد رکھو اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ (توبہ: 24)
اسی جاوداں محبت اور لافانی عقیدت کا کرشمہ ہے کہ ہر مسلمان اپنے سویدائے قلب میں اس عظیم محسن ومہربانﷺ کے دیار ِپاک کو بہ چشم خویش دیکھنے اور وہاں کی مقدس سرزمین پر سر کے بل چلنے کا جذبہئ دروں رکھتاہے۔ اور یہ امر اس کی غیرت ایمانی کے بالکل منافی ہے کہ وہ فریضہئ حج کی ادائیگی کے لیے ہزاروں میل کا سفر کرے،اس کے لیے مختلف صعوبتیں برداشت کرے،مشقتیں اٹھائے،تکالیف کا سامنا کرے؛ مگر ان سب کے باوجوداس مقدس سرزمین کی زیارت سے محروم لوٹ آئے جو کائنات ارضی کا نگینہ اور نیک بختی وخوش قسمتی کا زینہ ہے؛یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں قبر اطہر کی زیارت مسلمانوں کی متفق علیہ سنت رہی اور محبان رسولﷺ بزبان حال وقال یہ کہتے ہوئے جانبِ بطحا گئے ؎
کوچہئ جاناں گئے تو بن کے دیوانہ گئے
بادہئ عشق ومحبت پی کے مستانہ گئے
صبرآیا جب نہ ہم کو پھر تو روزانہ گئے
نعتیے پڑھتے ہوئے بے ا ختیارانہ گئے
زیارت روضہئ رسولﷺکی شرعی حیثیت:
حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہئ پرنور کی زیارت بلاشبہ قرب الٰہی کا بہت بڑا ذریعہ او رمہتم بالشان عمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ارض پاک جہاں پر خیر الرسل سرور انبیاء کا مرقد ہے اللہ کے نزدیک اسے خاص اہمیت او ربرتری حاصل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نیکوکار اصحاب رضی اللہ عنہم کے مزارات پر حاضری تقرب الٰہی کا ایک بڑا ذریعہ او رخلوص نیت سے عمل کرنیوالوں کے دل پر (جو خدائے واحد کے پرستار اور خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرنے اور ممنوعات سے باز رہنے والے بامراد لوگ ہیں) نہایت گہرا اثر ڈالتے ہیں اور ویسے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد روایات میں اپنی قبراطہر کی زیارت کا امر فرمایا ہے۔چند روایات ملاحظہ ہوں:
آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:’’جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہے۔‘‘ (شعب الایمان، حدیث: 4159)نیز آپ ﷺنے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ:’’جس نے حج کیا اور میری وفات کے بعدمیری قبر کی زیارت کی، تو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔‘‘ (شعب الایمان، حدیث:4153)
اسی طرح صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’جب کوئی مسلمان میری قبر پر آکر سلام پیش کرتا ہے، تو اللہ تعالی میری روح کو متوجہ فرمادیتے ہیں؛ یہاں تک کہ میں خود اُس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘ (سنن ابو داؤد، حدیث: 2041)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ مدینہ طیبہ روانگی کے وقت زیارتِ قبر اطہر کی نیت سے سفر کرنا درست نہیں؛حالاں کہ چاروں فقہی مذاہب اور جمہور علماء اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرنا افضل ترین عبادت ہے۔مسجد نبوی اور مدینہ طیبہ کی ساری فضیلت روضہئ نبوی ہی کی وجہ سے ہے۔اس لئے جمہور اہل سنت والجماعت کے نزدیک زیارت روضہئ پاک کے لئے سفر کرنا مندوب ومستحب ہے۔
آدابِ زیارت مدینہ:
(1) جب مدینہ منورہ کو جائے تو راستہ میں درود شریف کثرت سے پڑھے؛بلکہ فرائض اور ضروریات سے جو وقت بچے، سب اسی میں صرف کرے اور خوب ذوق و شوق پیدا کرے اور اظہار محبت میں کوئی کمی نہ چھوڑے، اگر خود یہ حالت پیدا نہ ہو تو بتکلف پیدا کرے اور عاشقوں کی صورت بنائے۔ جو شخص جس قوم کی مشابہت پیدا کرتا ہے وہ اسی قوم میں شمار ہوتا ہے اور راستے میں جو مقامات مقدسہ ہیں ان کی زیارت کرے اور جو مساجد مخصوصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کی طرف منسوب ہیں ان میں نماز پڑھے، محض تماشہ اور سیر و تفریح کی نیت سے مساجد میں نہ جائے عبداللہ ابن مسعودؓ حضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ علامات قیامت سے یہ بھی ہے کہ آدمی مسجد کے طول و عرض سے گذرے اور اس میں نماز نہ پڑے (جمع الفوائد الکبیر)۔ اس لئے جب کسی مسجد کی زیارت کرو، تو دو رکعت تحیہ المسجد پڑھنی چاہیے بشرطیکہ وقت مکروہ نہ ہو اور جو متبرک کنویں راستے میں ہیں، ان کا پانی تبرکاً پی لینا چاہیے۔
(2)جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچ جائے، تو خوب خشوع و خضوع اور ذوق و شوق پیدا کرے اور سواری کو ذرا تیز چلائے اور درود سلام کثرت سے پڑھے۔
(3)جب مدینہ منورہ پر نظر پڑھے اور اس کے درخت نظر آنے لگیں تو دعا مانگیں، اور درود و سلام پڑھے اور بہتر یہ ہے کہ سواری سے اتر جائے اور ننگے پاؤں روتا ہوا چلے اور جس قدر ادب و تعظیم ہو، کرے اور حق تو یہ ہے کہ وہاں سر کے بل چلے تو بھی حق ادا نہیں ہوسکتا، مگر جتنا ہوسکے اس میں کوتاہی نہ کرے۔
(4)جب فصیل مدینہ منورہ نظر آجائے تو درود کے بعد اگر یہ دعائیں حاسّے میں آجائے تو اچھا ہو؟ پڑھے: اے اللہ یہ آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حرم ہے اس کو میری جہنم سے خلاصی کا ذریعہ اور امن کا سبب بنادے اور حساب سے بری کردے۔
(5)جب قبہ خضراء علی صاحبہا الف الف صلوٰۃ پر نظر پڑے، تو کمال عظمت اور اس کے مجد و شرف کا استحضار کرے؛ کیوں کہ یہ بزرگ ترین مقام ہے۔
(6)شہر میں داخل ہوکر سب سے پہلے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہونے کی کوشش کرے، اگر کوئی ضرورت ہو، تو اس سے فارغ ہوکر فورا مسجد میں آئے اور زیارت کرے، البتہ عورتوں کو رات کے وقت زیارت کرنا بہترہے۔
(7) جب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہو، تو نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ داہنا پاؤں پہلے داخل کرے اور داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھے: اے اللہ! صلاۃ وسلام بھیج محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان کے اصحاب پر اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔
(8)اگر کسی شخص نے تم سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرنے کے لیے کہا ہو، تو اس کا سلام بھی اپنے سلام کے بعد اس طرح عرض کرو:
سلام ہے آپ پر یارسول اللہ! فلاں بن فلاں کی طرف سے کہ وہ آپ سے اپنے رب کے پاس شفاعت کرنے کا طالب ہے۔
اور اگر بہت سے لوگوں نے سلام عرض کرنے کو کہا ہو اور نام یاد نہیں رہے تو سب کی طرف سے اس طرح سلام عرض کرو: اے اللہ کے رسول! آپ پر سلام ہو ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے مجھے آپ پر سلام کی وصیت کی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پڑھنے کے بعد ایک ہاتھ داہنی طرف کو ہٹ کر حضرت ابوبکرصدیقؓ کے چہرہ مبارک کے سامنے کھڑے ہوکر اس طرح سلام پڑھو:
اے خلیفہ رسول! آپ پر سلام ہو، آپ غار و سفر کے ساتھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازداں ہیں ; ابوبکرصدیقؓ! اللہ آپ کو امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بہترین بدلہ دے۔
پھر ایک ہاتھ اور داہنی طرف کو ہٹ کر حضرت عمرؓ کے چہرہ مبارک کے مقابل کھڑے ہوکر سلام پڑھو: اے عمر فاروقؓ امیر المومنین! آپ پر سلام ہو، امام المسلمین! اللہ نے آپ کے ذریعے اسلام کو عزت دی اللہ آپ سے راضی ہو، موت و حیات دونوں میں اللہ آپ کو امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بہترین بدلہ دے۔
ان دونوں حضرات پر سلام کے الفاظ میں کمی زیادتی کا اختیار ہے اور اگر کسی نے سلام پہنچانے کا بھی کہا ہو، تو اس کا سلام پہنچادو۔
(9) اکثر وقت مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بہ نیت اعتکاف گذارے اور پنجگانہ نماز جماعت سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ادا کرے اور تکبیر اولی پہلی صف کا اہتمام کرے۔مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک نماز کا ثواب بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق ایک ہزار گنا زیادہ ہے چنانچہ ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک نماز میری مسجد میں یہ ایک ہزار گنا بڑھی ہوئی ہے دوسری مسجدوں سے، سوائے مسجد حرام۔(مشکاۃ)
(10) روزانہ پانچوں وقت یا جس وقت موقع ہو، روضہ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہوکر سلام پڑھے۔
(11) بقیع مدینہ منورہ کا قبرستان ہے، جو مسجد سے متصل مشرقی جانب ہے، اس میں بے شمار صحابہؓ اور اولیاؒ مدفون ہیں بقیع میں داخل ہوکر یہ پڑھے: تم پر سلام ہو اگر اللہ نے چاہا، تو ہم آپ سے مل جائیں گے۔اے اللہ! بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما! ہماری اور ان کی مغفرت فرما۔
پھر اس کے بعد جن لوگوں کے نشانات معلوم ہیں ان کی زیارت کرلے حضرت عثمانؓ پر اس طرح سلام کہے: اے امام المسلمین! اے خلیفہ ثالث! اے ذوالنورین! اے دو ہجرت کرنے والے! اے قرآن کو جمع کرنے والے! اے مصائب پر صبر کرنے والے! اے شہید مدینہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکت ہو۔
نئی دہلی:10/جولائ(پریس ریلیز)
مذہب اور ثقافت کی تفہیم آج کے ہندوستان کی سب سے اہم ضرورت ہے۔اسی مناسبت سے کونسل کچھ ایسی کلاسیکی کتابوں کا ترجمہ اردومیں کرانا چاہتی ہے جن کے ذریعے ملک کی مختلف ثقافتوں اور مذاہب کو سمجھا جاسکے۔اس حوالے سے دارا شکوہ کی ’مجمع البحرین‘، ’سکینۃ الاولیا‘اور ’سراکبر‘ خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔دارا شکوہ برصغیر کی تاریخ میں ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔انھوں نے سنسکرت کے باون اپنشدوں کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ یہ باتیں قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے صدر دفترمیں منعقدہ مذہب وثقافت پینل کی میٹنگ میں کیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایسی کتابوں کی اشاعت سے معاشرے کے اندر منافرت کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور دوریاں نزدیکی میں تبدیل ہوں گی۔آج کی میٹنگ کی صدارت معروف دانشور اور ماہر اسلامیات و مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر پدم شری پروفیسر اخترالواسع نے کی۔ انھوں نے کہا کہ رواں سال گرونانک دیوجی کا 550واں یومِ پیدائش منایا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں کونسل گرونانک دیو پر لکھی گئیں منظوم اور منثور کتابوں کو اردومیں ترجمہ کرکے مقدمہ کے ساتھ شائع کرے تو یہ ان کے لیے بہترین خراج عقیدت ہوگا۔انھوں نے مزید کہا کہ آج کے معاشرے میں انسان جس جذباتی بحران کاشکار ہے اور دن بہ دن جو دوریاں بڑھتی جارہی ہیں، انھیں دور کرنے کی یہ ایک اچھی پہل ہوگی۔
اس موقعے پر قومی اردو کونسل کے وائس چیرمین پروفیسر شاہد اختر نے کہا کہ آج کے بدلتے حالات میں صوفی ازم کے تصور کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں اس کی واضح مثال ملتی ہے کہ جب جب معاشرے میں اختلافات،تعصبات اور برائیوں کا دور دورہ ہوا، صوفیا نے اپنے کردار اور تعلیمات سے معاشرے کی اصلاح کا کام کیااور ا من وبھائی چارے کے فروغ میں اہم کردار اداکیا۔
میٹنگ میں جن ادیبوں اور مصنفوں نے شرکت کی، ان میں پروفیسر اخترالواسع، پروفیسر شاہداختر، پروفیسر زینت شوکت علی، پروفیسر رمیش بھاردواج، پروفیسر سید شاہ حسین، ڈاکٹر مفتی زاہد علی خاں، مولانا مبارک حسین مصباحی، ڈاکٹر مشتاق تجاروی، ڈاکٹر شبیر حسین، جناب اقبال انصاری کے علاوہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر اکیڈمک ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی، ایجوکیشن آفیسر ڈاکٹر فیروز عالم، محترمہ آبگینہ عارف اورڈاکٹر شاہد اختر انصاری شامل تھے۔
عبدالعزیز
ہجومی تشدد پر سیکڑوں مضامین لکھے جاچکے ہیں، لکھے جارہے ہیں اور جو صورت حال ہے اس کے پیش نظر لکھے جاتے رہیں گے۔ صرف مسلمان ہی نہیں لکھ رہے ہیں بلکہ کچھ انصاف پسند برادرانِ وطن بھی لکھ رہے ہیں۔ حکومت پر اور ان جنونیوں پر جس کی حکومت سرپرستی کر رہی ہے جو 2014ء سے 2019ء تک تحفظ گائے کے جنونی تھے اور 2019ء کے جنرل الیکشن کے انتخابی نتائج کے بعد سے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگوانے کے جنونی اور انتہا پسند ہیں کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔ اثر کیوں نہیں ہورہا ہے؟ یہ بتانے یا واضح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسئلہ سب سے زیادہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہجومی تشدد کے جنونیوں اور قاتلوں یا دہشت گردوں کے ساتھ مسلمانوں کا کیا رویہ ہونا چاہئے۔ اب تک راقم نے تقریباً 8 / 10مضامین اس موضوع لکھے ہیں۔ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اردو اخبارات میں شائع بھی ہوئے ہیں۔ فیس بک میں بھی ان مضامین کو مطالعے کیلئے دیا گیا ہے۔ ہماری طرح دیگر صحافیوں اور مصنفوں نے اس موضوع پر مضامین لکھے ہیں۔ جہاں تک فیس بک کی بات ہے تو فیس بک ہجومی تشدد کے موضوع سے بھرا رہتا ہے۔ اب تک جو مسلمانوں کی رائیں آئی ہیں کہ مسلمان کیا کریں اس میں اتفاق ہے۔ اتفاق یہ ہے کہ مسلمان بزدلی اور بے جا بہادری کا مظاہرہ نہ کریں، لیکن ان کیلئے نرم چارہ بھی نہ بنیں بلکہ اپنی قوت و صلاحیت کے مطابق ہجومی تشدد کے جنونیوں سے چاہے ایک ہوں یا ایک سے زیادہ بھرپور مدافعت اور مقابلہ کریں۔ بغیر لڑے جان دے دینا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
ملک کے قانون اور دستور میں ہر انسان کو ظالم سے مدافعت کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ شریعت اسلامی میں بھی مدافعت کا حق دیا گیا ہے۔ ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اگر کسی مسلمان کے جان و مال پر حملہ ہوتا ہے اور وہ حملہ آور سے لڑجاتا ہے، اگر لڑتے ہوئے اس کی موت ہوجاتی ہے تو اسے شہید کا درجہ دیا جاتا ہے اور بچ گیا تو غازی کہلاتا ہے۔ اجتماعی رائے کے برعکس فیس بک میں ایک بڑے صحافی اور دانشور محترم مشرف عالم ذوقی صاحب کی ایک رائے ”راستہ تلاش کیجئے“ کے عنوان سے آئی ہے:
”موب لنچنگ کے شکار عام طور پر غریب ہوتے ہیں۔ غریبوں کے پاس ایمان کی دولت ہوتی ہے۔ میں نے کچھ ویڈیوز دیکھے۔ غریب آٹو ڈرائیور، کیب کا ڈرائیور، کچھ غریب معصوم نوجوان شکار ہوئے۔جے شری رام آخر تک نہیں کہا زخمی ہوئے۔ کچھ کی موت ہو گئی۔ کچھ اسپتال پہنچ گئے۔ میں اور آپ کوئی فتویٰ نہیں دے سکتے۔ ایک بیان آیا کہ جب آپ کی جان آفت میں ہو آپ بھی حملہ کیجئے؟ کس پر حملہ؟ ایسے بزدل جو بڑی تعداد میں ہوتے ہیں، کیا ان پر حملہ کیا جا سکتا ہے؟ حملے سے کیا ہوگا؟ ذرا سوچئے کہ خوف کے عالم میں ان کی بات کچھ دیر کیلئے مان کر کیا جان بچانا گناہ قرار دیا جائے گا؟ کیا ایمان اس قدر کمزور ہے کہ ایک جے شری رام بولنے سے سلامت نہیں رہے گا؟ زندہ رہنا ضروری ہے۔ آپ زندہ رہیں گے تو آپ کا مذہب بھی سلامت رہے، لیکن اس طرح کی باتیں کرنے والے کو سیدھے بزدل، کمزور ایمان والا، یہاں تک کہ کافر بھی کہہ دیا جائے گا۔ مرنے والا غریب جس پر حملے تیز ہیں، وہ اتنا ہی جانتا ہے کہ رام کا نام لیا اور مذہب سے خارج، وہ زخمی ہوتا ہے، مر جاتا ہے لیکن رام کا نام نہیں لیتا۔ کیا مستقبل میں ایسے لوگوں کی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔ ایک بات اور غور طلب کہ ہلاک کرنے والوں کے پاس اب مضبوط دلیلیں ہیں۔موب لنچنگ کی حمایت میں ایک بہت بڑا طبقہ سامنے آ چکا ہے۔ جمہوریت کی آواز اور آپ کی حمایت میں سامنے آنے والے ایک فیصد بھی نہیں“۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں عزیمت اور رخصت دونوں راستے ہیں۔ عزیمت اور خاص طور پر عزیمت دعوت کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے؛ مگر رخصت کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ ملت اور افرادِ ملت کو رخصت کی دعوت دینا تنبیہ یا ترغیب کرنا اسلام کے منافی ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے ماننے والوں کی مکے کی زندگی کا مطالعہ کیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر ایک نے عزیمت کا مظاہرہ کیا۔ سخت سے سخت مصیبت اٹھائی، شہید ہوگئے مگر رخصت کا راستہ نہیں اپنایا۔ مکی زندگی کے ان حالات نے اگر چہ راسخ الایمان صحابہؓ کے عزم و ثبات میں کوئی تزلزل پیدا نہ کیا تھا لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اکثر ان پر بھی ایک شدید اضطراب کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی؛ چنانچہ اسی کیفیت کا ایک نمونہ حضرت خبابؓ بن ارت کی وہ روایت پیش کرتی ہے جو بخاری، ابو داؤد اور نسائی نے نقل کی ہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں مشرکین کی سختیوں سے ہم بری طرح تنگ آئے ہوئے تھے، ایک روز میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی دیوار کے سائے میں تشریف رکھتے ہیں۔ میں نے حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہمارے لئے دعا نہیں فرماتے؟ یہ سن کر آپ کا چہرہ جوش اور جذبے سے سرخ ہوگیا اور آپؐ نے فرمایا ”تم سے پہلے جو اہل ایمان گزر چکے ہیں ان پر اس سے زیادہ سختیاں توڑی گئی ہیں۔ ان میں سے کسی کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھایا جاتا اور اس کے سر پر آرہ چلاکر اس کے دو ٹکڑے کر ڈالے جاتے۔ کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گھسے جاتے تھے تاکہ وہ ایمان سے باز آجائے۔ خدا کی قسم؛ یہ کام پورا ہوکر رہے گا یہاں تک کہ ایک شخص صنعاء سے حضرت موت تک بے کھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کئی نہ ہوگا جس کا وہ خوف کرے“۔
چودہ ساڑھے چودہ سو سال بڑا لمبا عرصہ ہے۔ اس عرصے میں کتنی ہی سلطنتیں ابھریں اور ختم ہوگئیں۔ کتنی ہی عظیم شخصیتوں کے ستارے چمک کر بجھ بجھا گئے۔ کتنے ہی تمدن کے آفتاب طلوع ہوکر ایسے ڈوبے کہ دوبارہ نہ ابھر سکے۔ بے شمار نظریات اور فلسفوں نے تاریخ کے اسٹیج پر ر
قص کیا اور پھر جیسے انکا تماشا ختم ہوجاتا ہے اسی طرح چمکتے ہوئے اسکرین کی جگہ تاریکی باقی رہ گئی۔ مگر تاریخ کی اس رست و خیز کے درمیان تہذیب کے اس مدو جزر کے درمیان، حوادث کے درمیان اسلام اور مسلمان باقی ہے۔ حد یہ ہے کہ اس کی علمبردارِ ملت انحطاط اور زوال اور دورِ غلامی جیسے مصائب سے گزری اور عزت و عظمت کی بلندیوں سے بار بار گری؛ مگر اس کے زوال سے بھی اسلام کے فلسفے اور قرآن کی عظمت و شباب میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اسلام کا پیغام یا قرآن کا پیغام آج بھی اسی طرح تہذیبی فضاؤں میں گونج رہا ہے۔
جہاں تک ہندستانی مسلمانوں کا معاملہ ہے مصائب اور مشکلات کے کئی دور سے گزرے۔ انگریزوں کی حکومت آئی تو ایک طرح سے ان کیلئے مصائب کا طوفان آگیا۔ پھر بھی ان کا قدم لڑکھڑایا نہیں۔ عزیمت اور استقامت پر قائم رہے۔ اپنی شناخت اور اپنے معنوی وجود سے دستبردار نہیں ہوئے۔ انگریزوں کی سلطنت جس کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ وہ سلطنت بھی آج باقی نہیں ہے۔ مگر مسلمان باقی ہیں اور الحمدللہ اسلام باقی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد جن مصائب و آلام سے مسلمان گزرے ہیں ان مصائب کی داستانیں لرزہ خیز ہیں۔ اس طوفان سے بھی کسی نہ کسی طرح مسلمان بحفاظت نکل آئے۔
آزادی کے بعد جن سنگین حالات سے مسلمان گزر رہے تھے تو بہت سے ایسے لوگ تھے جن کا ایمان متزلزل ہوگیا تھا۔ رام پور کے ایک مسلم ایم ایل اے نے مسلمانوں کو رائے دی کہ وہ اپنا نام بدل لیں اور ہندوؤں جیسا نام رکھیں تاکہ ان کی حفاظت ہوسکے۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ نام بدلنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، کیونکہ ہمارے پرکھوں کا نام ہندوانہ تھا۔ بہت سے لوگوں نے داڑھی منڈانے اور ٹوپی نہ پہننے کا مشورہ دیا۔ آزادی کے فوراً بعد مسلمانوں کے دو بڑے لیڈر جن میں سے ایک نہرو کابینہ میں وزیر تھے اور دوسرے بعد میں نائب صدر اور صدر جمہوریہ بنے۔ دونوں لیڈران حالات سے اس قدر متاثر تھے کہ مہاتما گاندھی کے پاس پہنچے اور ان سے درخواست کی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام میں سے ’اسلامیہ‘ ہٹا دیا جائے۔ گاندھی جی نے ان مجاہدین آزادی کے چہروں پر نظر ڈالی اور نہایت نرمی سے کہا ”بھائی! ہندستان جیسے ملک میں اگر ایک ایسی یونیورسٹی ہوتی ہے جس کے نام میں اسلام لگا ہوا ہو اور وہاں اسلام کی بھی تعلیم دی جاتی ہو تو کیا حرج ہے؟“ ان حالات میں مسلمانوں کا سوادِ اعظم بزدلی یا برائی پر الحمدللہ جمع نہیں رہا۔ اپنی شناخت اور معنوی وجود کو باقی رکھا۔ گاندھی جی نے بھی اپنی جان دے دی مگر فرقہ پرستوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔
چند دنوں پہلے اخبار میں خبر آئی کہ مدھیہ پردیش کے ایک بڑے مسلمان افسر نے اعلان کیا کہ وہ اپنا نام بدل لیں گے تاکہ ان کی زندگی محفوظ رہے۔ اس طرح کے مسلمان پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ مگر یہ انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں۔ ان کو معلوم نہیں ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اللہ سب سے اچھی حفاظت (خیر الحافظین) کرنے والا ہے۔ اگر ساری دنیا مل کر چاہے کہ کسی کی زندگی کو ختم کردیں یعنی موت کے گھاٹ اتار دیں تو اس کی زندگی کو ختم نہیں کرسکتے۔ اور اگر ساری دنیا مل کر کسی کی زندگی کو بچانا چاہے جب تک اللہ نہ چاہے اس کی زندگی بچ نہیں سکتی۔ اگر ہمارے ایمان میں یہ پختگی آجائے اور اللہ پر ہم غیر معمولی بھروسہ کریں یہ جانتے ہوئے کہ وَکفیٰ بِاللّٰہِ وَکِیْلاً (بھروسے کیلئے اللہ کافی ہے) تو ہم کبھی بھی انشاء اللہ دشمن کے سامنے سرنگوں نہیں ہوں گے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا……اس کے آئینِ ہستی میں عملِ جوہر تھا
جو بھروسہ تھا اسے قوتِ بازو پر تھا……ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا
ہم اگر رگِ باطل کیلئے نشتر ہوجائیں، موت سے ڈرنے کے بجائے خدا سے ڈرنے لگیں تو ہمارے سارے مصائب دیکھتے دیکھتے حل ہوجائیں گے۔ جہاں تک حکومتوں کی زندگی ہے وہ افراد کی زندگی کی طرح ہے۔ افراد آج ہیں کل نہیں ہوں گے۔ فرعونی حکومتیں آج ہیں، کل نہیں ہوں گی۔ راحت اندوری نے سچ کہا ہے:
؎ ’جو آج صاحب مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے‘
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068