(ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی کی زیرِ ترجمہ کتاب’’حرکۃ الترجمۃ فی العصر العباسی‘‘سے ایک اقتباس)
نایاب حسن قاسمی
عصرِ عباسی دیگر بہت سی سماجی،سیاسی و علمی فتوحات کے ساتھ لاتعداد کتب خانوں کی موجودگی کے حوالے سے بھی ممتاز سمجھا جاتا ہے ،حتی کہ اس دور میں ایک بھی ایسا صاحبِ علم نہیں پایاجاتا تھا،جس کے پاس ذاتی کتب خانہ نہ ہو۔ذیل میں ان کتب خانوں کے علمی اثرات پر مختصراً روشنی ڈالی جارہی ہے:
۱۔وہ عرب ،جو اپنی ذکاوت و ذہانت اورقوتِ حافظہ پر فخر کرتے تھے،انھیں اس بات کی عار دلائی جاتی تھی کہ ان کے پاس کتابی شکل میں کوئی علمی سرمایہ نہیں ہے۔ عہدِ عباسی میں تصنیف و تالیف اور ترجمہ و جمعِ کتاب کی تحریک نے ان کی اس کمی کوبھی دور کردیا اور اب وہ سننے اور یاد کرنے سے زیادہ تحریر و تصنیف پر فخر کرنے کے قابل ہوگئے۔
۲۔اس عہد میں یہ چیز مسلمانوں کی علمی روایت کا جزوِلاینفک ہوگئی؛چنانچہ اس دور کا ہر خلیفہ یا وزیر و امیر اپنے گھر میں ایک کتب خانہ قائم کرتا اوراس میں قیمتی کتابیں جمع کرتا تھا۔
۳۔تمام خلفا،وزراو امراکے محل میں لائبریریاں تھیں،ایک بھی محل اس سے خالی نہ تھا،جیساکہ ابوبکر بن یحی الصولی کے اس واقعے سے بھی پتا چلتا ہے۔اس نے ایک بار خلیفہ راضی باللہ سے کہا:
’’لوگوں میں اس بات کا چرچاہے کہ ہمارے آقا نے اپنی علمی جلالت و عظمت کے باوجود خلفاے سابقین کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے محل میں لائبریری قائم کی ہے‘‘۔(اخبارالراضی باللہ والمتقی للہ،ص:۳۹)
اس سے پہلے کے عباسی خلفا میں یہ حضرات گزرچکے تھے:سفاح،منصور،مہدی،ہادی،ہارون رشید،امین،مامون، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین، معتز، مہتدی، معتمد،معتضد،مکتفی اور مقتدر۔مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان خلفانے بھی اپنے اپنے دورِ خلافت میں اس علمی روایت کو برقراررکھا تھا؛لیکن اصحابِ سیر و سوانح نے ان میں سے صرف منصور،ہارون رشید اورمامون کے ذاتی کتب خانوں کا ذکر کیا ہے۔ایسا شاید اس لیے ہواکہ لائبریریاں قائم کرنا عہدِ عباسی میں اسلامی حکومت و ثقافت کا ایک لازمی اورحکومت کے معمول کا حصہ تھا؛اس لیے مؤرخین نے ہر خلیفہ کے حوالے سے باہتمام اس کا ذکر نہیں کیا۔
۴۔عام لوگوں کے استفادے کے لیے مسجدو ں میں بھی لائبریریاں بنوائی جاتی تھیں۔جیسا کہ اصحابِ سیر و سوانح نے لکھا ہے کہ ابونصر احمد بن حامد اصفہانی اور حسان بن سعید المنیعی نے عوام و خواص کے لیے بہت سی مسجدوں میں کتب خانے بنوائے تھے۔(وفیات الاعیان، ج:۱، ص: ۶۰۔۶۱، الانساب، ص: ۵۴۳)
۵۔اسی طرح اس زمانے میں عام گزرگاہوں اور راستوں کے کناروں پر بھی لائبریریاں قائم کی جاتی تھیں؛تاکہ اصحابِ ذوق اسلامی و علمی نوادرات و ذخائر سے جب اور جہاں چاہیں،استفادہ کریں۔یاقوت الحموی کے بیان کے مطابق ایک ہی شہر میں اس قسم کی دس دس لائبریریاں پائی جاتی تھیں۔(کتاب الحیوان،ج:۱،ص:۶۰۔۶۱)
۶۔مسلمانوں میں حصولِ علم اور مطالعۂ کتب کا غیر معمولی شوق تھا؛چنانچہ مروی ہے کہ جب ابوبکر صولی راضی باللہ اوراس کے بھائی ہارون کو پڑھا رہاتھا،تو اسی زمانے میں انھوں نے فقہ،ادب و زبان کی کتابوں پر مشتمل لائبریری بنانی شروع کردی تھی،کہا جاتا ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کی ذاتی کتابوں پر مشتمل اپنی علاحدہ لائبریریاں تھیں۔(اخبارالراضی باللہ والمتقی للہ،ص:۳۹۔۴۰)
۷۔لوگ کتابوں کو اپنے گھر اور محفلوں کی زینت کا سامان سمجھتے تھے،وہ اس لیے بھی کتابیں جمع کرتے تھے کہ معاشرے میں انھیں اہلِ علم و افاضلِ قوم میں شمار کیاجائے۔’’نفح الطیب من غصن الأندلس الرطیب‘‘نامی کتاب میں ایک مالدار شخص کا تذکرہ ہے کہ وہ محض اپنے گھر کو سجانے ،سنوارنے کے لیے کتابیں خریداکرتا تھا۔(ج:۳،ص:۱۰۔۱۱)
۸۔اس دور کے علمانے صرف اپنے لیے لائبریریاں نہیں بنوائیں ؛بلکہ اپنی اولاد کے لیے بھی بنوائیں؛چنانچہ ابوالحسن علی بن عبداللہ الطائی نے اپنے بیٹے ابوالبرکات اور ابوعبداللہ دونوں کے لیے الگ الگ کتب خانے قائم کیے تھے،جبکہ ان دونوں کے علاوہ اس کے پاس پہلے سے اپنا ایک ذاتی کتب خانہ موجود تھا۔(معجم الادباء،ج:۶،ص:۲۲)
۹۔بعض دفعہ کتب خانوں کے مالک اپنے یہاں مطالعے کے لیے آنے والے شائقینِ علم و کتب کی مالی مددکرکے ان کواس کی مزید ترغیب دیتے تھے،جیسے کہ ابن سوار اور ابوالقاسم موصلی کے بارے میں مروی ہے کہ یہ حضرات اپنی لائبریریوں میں مطالعے کے لیے آنے والوں کوروپے پیسے اورمال و اسباب کی شکل میں ہدیے بھی دیا کرتے تھے۔ (احسن التقاسیم فی معرفۃ الاقالیم،ص:۴۱۳،معجم الادباء،ج:۲،ص:۲۰)
۱۰۔بیٹیوں کو جہیز کے طورپر کتب خانے دیے جاتے تھے،جیسا کہ مشہور محدث امام اسحاق بن راہویہ کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے عبداللہ زغدانی سے امام شافعی کی تصانیف پر مشتمل کتب خانے کے حصول کی خاطر ان کی بیٹی سے شادی کی تھی۔(الانساب،ص:۲۸۶)
۱۱۔کتب خانے کی اہمیت اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ نہ صرف اہلِ علم ان سے استفادے کے لیے سفرکیاکرتے تھے؛بلکہ شعرا کتب خانوں کی تعریف میں اشعار بھی کہتے تھے،جیسے کہ ابوالعلامعری کے بارے میں مشہور ہے کہ جب اس نے بغداد کے کتب خانہ ’’دارالعلم‘‘کا مشاہدہ،تو اسے بے پناہ خوشی ہوئی اور اس نے اس کے لائبریرین کی تعریف میں اشعار کہے۔(إنباہ الرواۃ،ص:۱۷۶)
۱۲۔اس زمانے میں علم و فن اور کتاب و کتب خانے کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ بسااوقات تنگیِ معاش کی وجہ سے خود بھوکے رہ سکتے تھے یا اپنے گھر والوں کو بھوکا رکھ سکتے تھے،مگر اپنی کوئی کتاب بیچنے پر راضی نہ ہوتے تھے۔اس کی ایک مثال ابراہیم الحربی کا واقعہ ہے کہ اس نے اپنے بچوں کو بھوکا رکھا،مگر اپنی لائبریری کی ایک کتاب بھی فروخت نہ کی۔(تاریخ بغداد،ج:۶،ص:۳۳)
۱۳۔عہدِ عباسی میں کتب خانے رہن پر بھی دیے اور لیے جاتے تھے،اس سے بھی ان کی اہمیت کا پتا چلتا ہے،گویاان کی حیثیت گھر یا زمین جائداد جیسی تھی، جنھیں رہن پر دیا یا لیاجاسکتا تھا،اس کی وجہ سے بعض دفعہ بعض لوگوں کے کتب خانوں کی کتابیں چوری بھی ہوجاتی تھیں اور چوری کرنے والا اسے دوسرے انداز میں مارکیٹ میں لاتا اوران سے مالی منفعت حاصل کرتا تھا۔
۱۴۔لوگوں نے صرف اپنی کتابیں رکھنے کے لیے بڑی خوب صورت عمارتیں بنوائیں،انہی لوگوں میں سے ایک سابور بن اردشیر تھا،جس نے بغداد کے’’کرخ‘‘نامی محلے میں کتب خانے کی ایک عالیشان عمارت بنوائی تھی۔(کتاب المنتظم،ج:۷،ص:۱۷۲)ایک ابوالشیخ بن محمد بھی تھا،جس نے اصفہان میں کتب خانے کے لیے ایک عمارت بنوائی،گرچہ اس کی زندگی میں وہ عمارت پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکی تھی۔(خریدۃ القصر،ص:۲۵)
۱۵۔لوگ غربت کے باوجود کتابیں جمع کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے،جیساکہ ابراہیم الحربی کے واقعے سے اس کی مثال پیش کی جاچکی ہے،اس کی وجہ یہ تھی کہ صاحبِ کتاب ہونااُس وقت کے مسلم معاشرے میں سماجی وقار و عظمت کی نشانی سمجھا جاتا تھا،اسی ابراہیم الحربی کے بارے میں آتا ہے کہ اس کی غربت کو دیکھتے ہوئے اس سے کسی نے چڑانے کے لیے دریافت کیا:
’’یہ کتا بیں تم نے کیسے جمع کیں؟تووہ یہ سن کر غصہ ہوگیااور جواب دیا:اپنے خون پسینے سے جمع کی ہیں‘‘۔(تاریخ بغداد،ج:۶،ص:۳۳)
۱۶۔خلفاو امرابڑے بڑے اہلِ علم کے کتب خانے حاصل کرنے کی کوشش میں رہتے تھے؛چنانچہ جب امام احمد بن حنبلؒ کا انتقال ہوگیا،تو خلیفہ متوکل علی اللہ نے ان کے صاحبزادے کے پاس اپنا آدمی بھیجا کہ وہ امام احمد کا کتب خانہ سرکار کے ہاتھوں فروخت کردیں،مگر امام کے بیٹے نے اس سے انکار کردیا۔ (تاریخ الاسلام،ص:۸۲)
۱۷۔کتب خانوں اور کتابوں سے اس دور کے لوگوں کو اتنی محبت تھی کہ بسااوقات وہ اپنے بچوں اور عبادت سے بھی غافل ہوجاتے تھے؛چنانچہ ایک واقعہ مروی ہے کہ ابومعشر فلکی بغداد کے راستے حج کے سفر پر نکلا،وہاں اسے علی بن یحی منجم کے کتب خانے کا پتا چلا،تو اس کے کتب خانے جاپہنچااور پھر کتابوں میں ایسا مشغول ہواکہ اسے اپناسفرِ حج بھی یاد نہ رہا۔(معجم الادباء،ج:۵،۴۶۷)اسی قسم کا واقعہ یاقوت الرومی کے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔(معجم البلدان، ج:۵، ص:۱۱۴)
۱۸۔اس زمانے میں اہلِ عرب اپنے بچوں کو تلواروں اور کتاب بازاروں میں جانے کی ترغیب دیتے تھے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح سیاسی و وملکی حفاظت کے نقطۂ نظر سے زرہ و تلوار کی ان کے نزدیک اہمیت تھی،اسی طرح ذہن و فکر کی ترقی و ثروت مندی کے لیے وہ کتابوں کی ضرورت و اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔
۱۹۔جو لوگ خلفاو امرااور وزیروں کی خدمت میں کتابیں پیش کرتے،انھیں مال و دولت اور قیمتی تحائف سے نوازاجاتا تھا؛چنانچہ جب وہب بن ابو اصیبعہ نے وزیر کمال الدین کی خدمت میں اپنی کتاب’’عیون الانباء فی طبقات الاطباء‘‘پیش کی،تواس نے اسے بہت سے مال اور خلعتِ فاخرہ سے نوازا۔(عیون الانباء فی طبقات الاطباء،ج:۳،ص:۲۸۶۔۲۸۷)
۲۰۔اس زمانے میں آج کی طرح کتابوں کی طباعت کا معقول انتظام تو تھا نہیں،مصنف خود ہی اپنے ہاتھوں سے اپنی کتاب کی کتابت کرتا تھا؛چنانچہ حفاظتی تدبیر کے طورپرعصرِ عباسی کے اہلِ قلم و اصحابِ تصنیف اپنی ایک کتاب کے تین نسخے تیارکرتے تھے ؛تاکہ اصل نسخہ ضائع نہ ہوجائے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو،تو اس کی ایک یا دو کاپیاں موجود رہیں۔
۲۱۔لائبریری وزیروں کے محل کا لازمی حصہ ہوتی تھی؛چنانچہ کاتبوں کا مستقل انتظام ہوتا تھا اور بسا اوقات ان کے لیے چالیس چالیس تخت لگوائے جاتے تھے؛چنانچہ ابویوسف یعقوب بن ابوشیبہ اور ابو عبید محمد بن عمران المرزبانی کے محلوں کا یہی حال تھا۔(تاریخ بغداد،ج:۱۲،ص:۲۸۱،کتاب المنتظم، ج:۳، ص: ۱۳۶)
۲۲۔ان کتب خانوں میں دین و دنیا میں نفع بخش ہر قسم کی کتابیں پائی جاتی تھیں۔ اس دور کا ایک شاعر کہتا ہے:
مامن کاتب الا ستبقی
کتابتہ وان فنیت یداہ
فلا تکتب بکفک غیر شيء
یسرک في القیامۃ أن تراہ
(ایک مصنف جو کچھ لکھتا ہے،وہ باقی رہتاہے،بھلے ہی اس کے ہاتھ فنا ہوجائیں(مصنف مرجائے)لہذا تم اپنے ہاتھ سے ایسی ہی چیزیں لکھو،جنھیں دیکھ کر تمھیں قیامت کے دن مسرت حاصل ہو)
۲۳۔ماں باپ اپنے بچوں کو کتب بینی اور کتابیں جمع کرنے کی تاکید کرتے تھے؛تاکہ معاشرے میں انھوں نے محنت و مشقت کے بعد جو عزت و وقار حاصل کی ہے،وہ باقی رہے۔بدیع الزماں ہمدانی اپنے بھانجے سے کہتا ہے:
’’جب تک تمھیں علم سے شغف ہے،تعلیم گاہ سے انس ہے،قلم دوات تمھارے ساتھی ہیں اور کاپی تمھاری ہمدرد دوست ہے،تب تک تم میرے لیے میرے بیٹے جیسے ہو؛لیکن اگر تم نے اس سلسلے میں کوتاہی سے کام لیا،تومیرا،تمھارا کوئی رشتہ باقی نہیں رہے گا‘‘۔(الرسائل،ص:۱۵۲)
المختصریہ کہ علم دوستی،کتب بینی اور کتابیں جمع کرنے کے غیر معمولی شوق و جذبے کے اعتبار سے اس دور کے عوام و خواص سب ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے،وہ لوگ کتابیں پڑھنے،انھیں حاصل کرنے،لائبریریاں قائم کرنے اور انھیں سجانے سنوارنے کواپنا فریضہ سمجھنے کے ساتھ سماجی و معاشرتی وقار و اعتبار کے حصول کا ذریعہ بھی سمجھتے تھے۔علم و کتاب کے عام رواج کا نتیجہ یہ تھا کہ سیکڑوں یا ہزاروں میں سے کوئی ایک بندہ،جسے علم و مطالعے سے کچھ زیادہ دلچسپی نہ ہوتی،وہ بھی سماجی standardکو برقرار رکھنے کے لیے کتابیں خریدتا اور اپنے گھر میں لائبریری ضرور قائم کرتا تھا۔
23 فروری, 2019
نئی دہلی(پریس ریلیز)
%۹فیصد مسلم ریزرویشن ، بیلیٹ پیپر سے انتخاب ، پرموشن میں ریزرویشن ،پرانی پنشن بحالی اور قانون کی حفاظت سے منسلک پانچ نکاتی مطالبات کو لیکر دلّی کے جنتر منتر پر سماجی رہنما محمد حنیف خان صوبائی جنرل سکریٹری تحریک فکر ملت فاؤنڈیشن کی قیادت میں بھون ناتھ پاسوان قومی صدر ڈاکٹر امبیڈکر راشٹریہ ایکتا منچ اور اعجاز علی سابق ایم پی و قومی صدر آل انڈیا یو نائٹیڈ مسلم مورچہ کی موجودگی میں ایک روزہ ’’دھرنا‘‘منعقد ہوا ، دھرنے میں شرکت کرنے والے اپنے اپنے ہاتھوں میں تختیاں لئے مظاہرہ کرہے تھے ،مسٹر خان نے مطالبات سے منسلک عرضی صدر جمہوریہ کو بھیجا ۔ملک بھر سے ’’دھرنا ‘‘کو ملی عوامی حمایت کیلئے مسٹر خان نے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جس انتخابی آلہ کو ملک کی نصف سے زائد آبادی کی نمائندگی کرنے والے شک کی نظر سے دیکھتے ہوں اسے فوری تبدیل کر دینا چاہئے ۔ سیاست کے گرتے وقار پر متفکرمسٹر خان نے کہاکہ صحت مند سیاست کیلئے سرکاری سہولیات بند کرنی ہوگی تبھی کارو باری اور کرپشن لیڈروں کا خاتمہ ہوگا اور سماجی خدمت کا جذبہ رکھنے والے لیڈروں کا حوصلہ بڑھے گا۔۹؍فیصد مسلم ریزرویشن پر مسٹرخان نے کہا کہ مسلم طبقہ ملک کا سب سے پچھڑا طبقہ ہے ،بغیریزرویشن کے انہیں مرکزی دھارے سے نہیں جوڑا جاسکتا۔مسٹر پاسوان نے دھرنے میں شریک لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ قانون میں تبدیلی کرکے مرکزی حکومت سازش کے تحت دلتوں اور اقلیتوں کے حقوق تلف کرنا چاہتی ہے۔
دفعہ ۳۴۱ پر لگی مذہبی پابندی کے خلا ف طویل عرصے سے جد وجہد کر رہے سابق ایم پی جناب ڈاکٹر اعجاز علی نے اعلیٰ ذات کے لوگوں کو ملے۱۰؍فیصدریزرویشن کو انتخابی سٹنٹ بتاتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ اس ایشو پر نہ تو کوئی کسی کمیٹی کی تشکیل کی گئی اور نہ ہی پچھڑے اعلیٰ ذات سے منسلک اعداد شمار حاصل کئے گئے انتخاب نزدیک دیکھ کر صرف ووٹوں کی لالچ میں قانون طاق پر رکھ کر جلد بازی میں اعلان کردیاگیا ہے۔دھرنے کو مسلم یوناٹیڈ مورچہ کے قومی ترجمان غلام سرور ، ڈی ،سی ، کپل قومی کنویز آل انڈیا دلت مسلم یونائٹیڈ مورچہ، ڈاکٹر امبیڈکر قومی یکتا منچ کے قومی نائب صدر اوپی گوتم ،دہلی کے نائب ناظم ڈاکٹر آربی سروج ، محمد قاسم ممبر مائنارٹی کمیشن دلی ، حسین احمد خان قومی صدر ینگ مسلم سوسائٹی فاؤنڈیشن ،سندیپ کیشکر،آنند پرکاش، رادھے شیام رام نائب صدر مرکزی وحلقہ شمالی اتر ریلوے جنرل سکریٹری نے خطاب کیا۔ دھرنے میں خصوصی طو ر پر ممتاز الحق سابق پرنسپل دلّی حکومت ، کے پی سنگھ ایڈو کیٹ دلی، خلیق احمد میرٹھ ، حافظ اقبال میرٹھ، عزیز خان پردھان ہردوئی ، شفیق احمد ہردوئی ، کے پی سنگھ اگر ونشی ہردوئی ، محمد وقار جاوید سہارنپور، محمد فیروز خان ندوی ، ڈائریکٹر قاسمیہ پبلک اکیڈمی حافظ حفیظ اللہ ، پرویز عالم خان ، معارف علی خان ، رفعت شیدا صدیقی اور شاعر ہ رضوانہ صدیقی شامل تھے ، نظامت تحریک ملت فاؤنڈیشن یوپی کے نائب صدر قاری ظفیر عالم نے کی ۔
ازبکستان(پریس ریلیز)
پروفیسر چندرشیکھر، کلچرل اٹیچی، ہندوستانی سفارت خانہ ، ازبکستان کی اطلاع کے مطابق ازبکستان کے غالب محلہ میں غالب کے یوم وفات کی مناسبت سے ایک ادبی و ثقافتی پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا۔ یہ پروگرام لال بہادر شاستری سنٹر نے محلے کے عوام، لوکل باڈی گورنمنٹ اور لائسیوم اسکول کے تعاون سے کیا ۔ یاد رہے کہ لائسیوم اسکول میں اردو زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس موقع پر غالب محلے کی صدرمحترمہ ثانیہ صدر صادقاؤ نے غالب کی شخصیت اور شاعری پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں غالب محلے کے قیام اور اس کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ازبکستان میں اردو اور غالبیات کو فروغ دینے میں اس ادارے کا اہم کردار رہا ہے۔ اس موقع پر ہندوستانی سفیر کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا، جس میں انہوں نے پروگرام کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے قرآن کا ایک نفیس نسخہ اور غالب کی کتابیں غالب محلہ کو تحفتاً دیں۔ ازبکستان کی اردو اسکالرڈاکٹر محیا نے غالب کی ایک غزل ’سب کہاں لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں‘ پڑھ کرسنایا اور سامعین کے لیے اس کا ازبکی زبان میں ترجمہ بھی پیش کیا۔ پروفیسر قمر رئیس کے بعد پہلی مرتبہ یہاں غالب پر ادبی وثقافتی پروگرام منعقد ہوا ،جس میں یہاں کے عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
فیصل فاروق
جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع میں ایک خوفناک خودکش حملہ میں مرکزی ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے ۴۴/جوان شہید اور درجنوں دیگر زخمی ہو گئے۔ حملہ آور نے کئی کلو بارود اور دیگر دھماکہ خیز اشیاسے لدی کار سی آر پی ایف کے قافلے میں شامل اُس گاڑی سے ٹکرا دی جس میں تقریباً ۴۵/جوان سوار تھے۔ یہ خبر جس نے بھی پڑھی افسوس اور غصہ سے بھر گیا۔ پورا ملک شہید ہونے والے بہادر جوانوں کے غم میں شریک ہے اور مصیبت کی اِس گھڑی میں اُن کے اہلِ خانہ کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سی آر پی ایف کے قافلہ پر دہشت گردانہ حملہ ہوا۔ قافلہ میں ۷۸/گاڑیاں اور۵۰۰ ۲/سے زیادہ اہلکار شامل تھے۔ اُن میں سے زیادہ تر چھٹیاں گزارنے کے بعد اپنے کام پر واپس لوٹ رہے تھے۔یہ حملہ سری نگر سے تقریباً ۳۰/ کلومیٹر دور ایک شاہراہ پر پلوامہ ضلع کے اَونتی پورہ علاقہ میں قافلہ پر گھات لگاکر کیا گیا۔ اِس خودکش حملہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اِس سانحہ سے پورا ملک صدمہ سے دوچار ہے۔ اِس طرح انسانیت کا قتل کرنے والوں کیلئے دنیا کے کسی گوشہ میں گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ حملہ کا سرغنہ وہی مسعود اظہر ہے، جسے ۱۹۹۹ء میں ایک ہندوستانی طیارے کو اغوا کرکے مسافروں کی رہائی کے بدلے میں واجپئی حکومت نے مجبوراً رہا کیا تھا۔ مسعود اظہر کی تنظیم دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے کے معاملوں میں ہندوستان کو مطلوب ہے۔ اُس پر نہ صرف ممبئی میں۱۱ /۲۶ کے حملہ کا الزام ہے؛ بلکہ اُسی کے ساتھ پٹھان کوٹ حملہ، اُڑی حملہ اور اِن تمام سے پہلے پارلیمنٹ پر جو حملہ ہوا تھا، اس کااِسی تنظیم کو ذمہ دار مانا جاتا ہے۔
حالیہ برسوں میں جنتِ ارضی کشمیر میں صورتحال مسلسل خراب سے خراب تر ہوئی ہے۔ رواں سال جاری اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اِس پر زور دیا گیا ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ ہو اور تمام لوگوں کو انصاف مہیا کیا جائے ،جو گذشتہ سات دہائیوں سے اِس تنازع کا سامنا کر رہے ہیں، جس نے علاقہ کے لوگوں کی زندگیوں کو برباد کر دیا ہے۔ کشمیر کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، اُسے فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے اور اِس کیلئے پُرامن ماحول قائم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔
بی جے پی حکومت کو انتخابی سیاست چھوڑ کر ملک کے مفاد میں فعال ہونا چاہئے، ہمارے جوانوں کے خلاف اِس طرح کا تشدد آمیز حملہ ناقابل برداشت ہے، حکمراں جماعت، اپوزیشن اور اِس عظیم ملک کے عوام غمزدہ ہیں، برہم ہیں، اِس معاملے کی بنیادی طور پر جانچ پڑتال کی جائے اور ایسی ظالمانہ حرکت کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ پاکستان کو دیا گیا ’’موسٹ فیورڈ نیشن‘‘ (سب سے زیادہ ترجیح دیا جانے والا ملک) کا درجہ واپس لیا گیا ہے، کیا صرف اتنا کرنا کافی ہے؟
ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ۸/فروری کو ایک آئی ای ڈی حملہ کا الرٹ جاری کیا تھا کہ کسی بھی جگہ پر تعیناتی سے پہلے پورے علاقے کو اچھی طرح محفوظ کر لیا جائے؛ کیونکہ یہ اطلاع ملی ہے کہ آئی ای ڈی کا استعمال حملہ کیلئے کیا جا سکتا ہے، اس کے بعد بھی لاپروائی کیوں برتی گئی؟ موجودہ حکومت بلند بانگ دعوے کرنے کے بجائے خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور سکیوریٹی سسٹم میں سدھار کرے۔
(مضمون نگار ممبئی میں رہائش پذیر کالم نگار اور صحافی ہیں)