نئی دہلی:21 فروری(پریس ریلیز)
دنیا کی جن قوموں نے اپنی مادری زبان ، مادر وطن اور اپنی تہذیب کو بھلا دیا وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں ۔ یہ تشویشناک بات ہے کہ ہندوستانی عوام انگریزی زبان سے متاثر ہو رہی ہے جب کہ اپنے خیالات اور مافی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے مادری زبان سب سے موثر ذریعہ ہے۔ زندگی کے لیے تین چیزوں کی بڑی اہمیت ہے۔ ماں، مادری زبان اور مادر وطن۔ یہ باتیں قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے بین الاقوامی یوم مادر ی زبان کے موقع پر گاندھی بھون، دہلی یونیورسٹی میں منعقدہ یک روزہ مذاکرہ میں کہیں۔ انھوں نے کہا کہ گاندھی جی نے ہمیشہ مادری زبان کو ترجیح دی اور سب کو مادری زبان اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہندوستانی زبانیں دنیا کی کسی بھی زبان سے کم نہیں ہیں۔ ہمارے لیے یہ افسوس کا مقام ہے کہ ہم احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب کہ دنیا کے بہت سے ایسے ترقی یافتہ ممالک ہیں جنھوں نے اپنی مادری زبان کو اپنا کر ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔ حالانکہ ہمارے اظہار خیال کے لیے دنیا کی سب سے میٹھی اور شیریں زبان اردو ہے۔اس موقع پر بطور مہمان خصوصی قومی اردو کونسل کے وائس چیئرمین ڈاکٹر شاہد اختر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دلوں کو جیتنے کی بات ہو یا آج کے صارفیت کے زمانے میں اپنی مصنوعات بیچنے کی بات ہو مادری زبانوں یا علاقائی زبانوں کے اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینی چاہیے۔ محترمہ کسم شاہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مادری زبان جنم دینے والی ماں کی طرح ہوتی ہے۔ بچہ ماں کی گود سے نکل کر زبان کی گود میں جاتا ہے۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے قومی اردو کونسل کے ساتھ زبان کے حوالے سے کام کرنے کی بات کہی۔ اس موقعے پر پروفیسر ہری موہن جی نے کہا کہ ہر ملک یا علاقہ اپنی مادری زبان پر فخر کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان کثیر لسانی ملک ہے اور اس ملک میں رابطے کی کوئی زبان ہو سکتی ہے تو وہ ہندوستانی ہے۔ اس کے علاوہ اس مذاکرے میں پروفیسر راجندر کمار، پروفیسر رویل سنگھ، پروفیسرا وما دیوی نے مادری زبان کے حوالے سے پر مغز گفتگو کی۔پروگرام کے آغاز سے قبل پلوامہ میں شہید جوانوں اور پروفیسر نامور سنگھ کے انتقال پر ملال کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کر کے تعزیت کی گئی۔ پروگرام کی نظامت پروفیسر رمیش سی بھاردواج نے بحسن خوبی انجام دیے۔
21 فروری, 2019
ڈاکڑ سیّد احمد قادری
رابطہ : 9934839110
مادری زبان کے معاملے میں بنگلہ زبان کے چاہنے والوں نے جنون کی حد تک عشق کرنے والے کی ، پوری دنیامیں مثال قائم کی ہے ۔ یہ ان کی اپنی مادری زبان سے والہانہ لگاؤ کا ہی نتیجہ ہے کہ گزشتہ اٹھارہ برس سے ہر سال 21 ؍ فروری کو عالمی سطح پر یوم مادری زبان منایا جاتا ہے۔ اس دن اپنی مادری زبان کے سلسلے میں پورا لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے کہ اپنی مادری زبان کے نہ صرف تحفظ بلکہ اس کے فروغ کے لئے کیا کیا اقدام کئے جائیں ۔ اس لئے کہ سمجھنے والی قوم یہ بخوبی سمجھتی ہے کہ اپنی زبان ، اپنی تہذیب ، اپنے تمدن اور اپنی قدروں سے والہانہ لگاؤ ہی دراصل کسی بھی مہذب قوم کی علامت ہے اور بنگلہ زبان کے چاہنے والوں نے اپنی مادری زبان کی اہمیت ، افادیت اور اس کے تقدس کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا ؛ بلکہ ایسی مثالیں پیش کی ہیں کہ سن 2000 ء سے ہر سال 21فروری کو عالمی یوم مادری زبان انعقاد کئے جانے کا اقوام متحدہ کو فیصلہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ جس پر پوری طرح سے عمل کیا جا رہاہے ؛ لیکن افسوس کہ ہم اردو والے ہر سال اپنی مادری زبان کے لئے دی جانے والی اس دستک کو بھی فراموش کئے بیٹھے ہیں ۔
اردو زبان کو جب غیر منقسم پاکستان میں قومی زبان تسلیم کیا گیا ،تو اس کے خلاف ( سابق ) مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں زبردست احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ حکومت مشرقی پاکستان میں اردو کے بجائے بنگلہ زبان کو قومی زبان کو درجہ دے؛ لیکن حکومت پاکستان، ان اس کے اس مطالبہ پر رضامند نہیں ہوئی ، جس کے باعث وہاں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور دھیرے دھیرے زور پکڑتا گیا۔ ان بڑھتے احتجاج اور مظاہروں کو روکنے کے لئے حکومت وقت نے بہت سخت قدم اٹھائے اور جگہ جگہ لاٹھی چارج کئے گئے اور بعض جگہ مشتعل ہجوم پر گولیاں بھی چلائی گئیں ، جس سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے چار طلبہ کی موت واقع ہو گئی۔ ان طلبہ کی اموات نے اپنی زبان کے حقوق مانگنے والوں کو مزید مشتعل کر دیا اور ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی مادری زبان کا حق لے کر رہیں گے اور حکومت پاکستان کے فیصلہ کے بر خلاف مشرقی پاکستان میں29 ؍ فروری 1956 کو بنگلہ زبان کو وہاں کا قومی زبان تسلیم کر لیا گیا ۔ مادری زبان کی یہ چنگاری ایسی پھیلی کہ آگ اور خون میں بدل گئی اور آخر کار 1971 ء میں صرف زبان کی بنیاد پر ملک الگ ہو گیا ، مجاہدین آزادی کے خواب شرمندۂ تعبیر ہوئے اور اپنے وجود کو بنگلہ دیش کے طور پر منوا لینے کے ساتھ ساتھ مادری زبان کے لئے جان کی قربانی دینے والوں کو فراموش نہیں کیا ؛بلکہ ان کی یاد میں ڈھاکہ میں ایک شاندار یاد گار ’ شہید مینار‘ قائم کرکے ہر سال ان کی قر بانیوں کو یا د رکھنے کے لئے بڑے پیمانے پر ’ یوم شہادت ‘ منایا جاتا ہے ۔ اس دن خاص طور پر پورے ملک میں تعطیل رہتی ہے ۔ اپنی مادری زبان کے تئیں بنگلہ زبان کا چاہنے والوں کا یہ خلوص ، یہ جذبہ ،یہ محبت اور یہ والہانہ لگاؤ صرف اپنے ملک تک محدود نہیں رہا، بلکہ لندن اور سڈنی وغیرہ میں بھی ’ شہید مینار ‘ کی تعمیر کرائی اور ہر سال 21 ؍فروری کو ان یادگار میناروں کے ذریعے اپنی نئی نسل کو اپنی مادری زبان کے تئیں ایثار و محبت کی یقین دہانی کراتے ہیں ۔
بنگلہ زبان کے چاہنے والوں کو اپنی مادری زبان سے کس قدر والہانہ لگاؤ ہے، اس کا اندازہ ان کی آپس میں کی جانے والی بات چیت، ان کے ادب ، ان کی صحافت ، ان کی تہذیب اور ان کی درسی و مذہبی کتابوں کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ اپنی مادری زبان کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر ان لوگوں نے اپنے اپنے طور پر رائے عامّہ تیار کرنے کی جد و جہد کی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کے ذریعہ 17 ؍نومبر 9 199ء کوعالمی سطح پر یوم مادری زبان منائے جانے کے فیصلہ کے اعلان کے ساتھ ہی 21؍ فروری 2000 ء سے یہ سلسلہ شروع ہو گیا ۔
اس مختصر تعارف کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس دن کم از کم اپنی مادری زبان کے سلسلے میں یونیسکو کے ذریعہ دی جانے والی اس دستک کی اہمیت کو سمجھا جائے ۔کم از کم اس ایک دن اپنی مادری زبان کے تعلق سے اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں اور اپنا محاسبہ ضرور کریں کہ ہم نے اپنی مادری زبان کے تحفظ اور ترقی کے لئے کیا اقدام کئے ہیں ؛ اس لئے کہ کوئی بھی مادری زبان صرف بول چال کی زبان نہیں ہوتی؛بلکہ اس زبان میں تہذیب، تمدن، ثقافت اور قدروں کی جڑیں پیوست ہوتی ہیں ، جو کہ شخصیت کی تعمیر و ترقی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جو لوگ اپنی مادری زبان کی اہمیت نہیں سمجھتے ،وہ لوگ نسل در نسل منتقل ہو رہی اپنی زبان کی امانت کی حفاظت نہیں کر پاتے اور ایک ایسا وقت آتا ہے ، جب وہ اپنی قوم ، تہذیب ، ثقافت اور قدروں سے الگ تھلگ پڑ جاتے ہیں ا ور ان کی اور ان کے آنے والی نسل کی کوئی شناخت نہیں بن پاتی ہے۔
اس سیاق و سباق میں اب ہم اپنی مادری زبان اردو کے منظر نامہ پر نظر ڈالیں ،تو ہمیں مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؛ حالانکہ کچھ لوگ اس زبان کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں اعداد و شمار کے حوالے سے بلند بانگ دعوے بھی کرتے ہیں؛لیکن جوزمینی حقائق ہیں ، وہ اس کے ٹھیک برعکس ہیں ۔
گزشتہ اٹھارہ برسوں سے اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کے ذریعے ہر سال 21 ؍ فروری کو عالمی سطح پر یوم مادری زبان کا بڑے پیمانے پر انعقاد کیا جا رہا ہے، اس موقع پر بہت سارے ممالک میں اپنی اپنی مادری زبان کے تحفظ اور ترقی کے لئے طرح طرح کے لائحۂ عمل بنائے جاتے ہیں ، جن پر پورے سال بھر بہت سنجیدگی سے کا م کیا جاتا ہے؛ لیکن افسوس اس دن یونیسکو کے ذریعے دی جانے والی دستک کا اردو والوں پر کوئی اثر نہیں ،کوئی تحریک ، کوئی عمل نہیں ۔ نتیجہ کیا ہے، اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ معاصر نسل اردو زبان سے لا تعلق ہو گئی ہے اور آنے والی نسل کی مادری زبان کیا ہوگی ، یہ بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔آج اردو زبان کا جو یہ منظر نامہ ہے، اس کے پس پشت کون کون سے اسباب کارفرمارہے ہیں، ایک سرسری نظر ان پر ڈال لیتے ہیں؛ تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اردو والے اپنی مادری زبان کے سلسلے میں اس قدر غیر ذمے دار اور نا آشنا کیوں ہیں؟
اس امر سے ہم کیسے انکا ر کر سکتے ہیں کہ ہم آزاد ہندوستان میں برابر کے شہری ہیں اور آئین نے ہمیں اپنی زبان اور تہذیب کے تحفظ و ترقی کے حقوق بھی بڑے واضح طور پر دیے ہیں ۔ دستور کی دفعات 25؍ تا 30؍ ہمارے لئے بھی ہے، 1949 میں دستور ہند کی ترتیب کے ساتھ ہی ثانوی تعلیم کے لئے سہ لسانی فارمولہ وضع کیا گیا تھا ، اس فارمولے کے مطابق پہلی زبان ، مادری زبان ، دوسری زبان کے طور پر ایک جدید ہندوستانی یا قومی زبان اور تیسری زبان کوئی ترقی یافتہ غیر ملکی زبان ، جیسے انگریزی یا اسپینش وغیرہ؛ لیکن اس فارمولے پر سنجیدگی سے عمل نہیں کیا گیا اور نہ ہی کبھی بہت سنجیدگی سے اس پر زور دیا گیا ، نہ ہی نافذ کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش اورمطالبہ ہی کیا گیا ۔
حالانکہ آزادیِ ہند سے قبل اردو زبان عوامی رابطے کی زبان تھی اور ہر خاص و عام کے دلوں پر حکومت کرنے کے ساتھ ساتھ 1857 ء کے غدر سے لے کر 1947 تک غیر ملکی تسلط اور غلامی کے خلاف سیاسی اور سماجی شعور کو بیدار کرنے میں پیش پیش تھی ، ملک کے گوشے گوشے میں ’انقلاب زندہ باد ‘ کا نعرہ اور ’ سر فروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے ‘ جیسے حب ا لوطنی کے احساسات و جذبات سے سرشار اشعار سے تحریک آزادی میں حرارت پیدا کرکے اس زبان نے جو نمایاں اور تاریخ ساز کارنامے انجام دیے ہیں ، ان کا اعتراف ہر مکتبۂ فکر نے کیا ہے ؛ لیکن افسوس اور صد افسوس کہ آزادی سے قبل جس اردو زبان کو کانگریس نے اپنی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں آزادی کے بعد بھارت کی سرکاری و قومی زبان بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور جس کی وکالت بابائے قوم مہاتما گاندھی نے بھی کی تھی، آزادی کے بعداس کی ساری خوبیوں اور قربانیوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ’ ہندی ‘ کے حق میں فیصلہ کر دیا گیا،المیہ یہ بھی ہوا کہ ہندی زبان کو قومی اور سرکاری درجہ دیا گیا اور اس کے فروغ میں سرکاری ، نیم سرکاری اور نجی طور پر خوب خوب کوششیں ہوئیں ،جو فیصلے کے مطابق یقینی طور پر اس کا حق تھا ؛ لیکن افسوس کہ تقسیم ہند کے بعد ’اردو‘ کے تمام حقوق کو نہ صرف ختم کر دیا گیا ؛بلکہ اس کے خلاف بیانات دے کر ، تحریک چلا کر اور عملی جد و جہد کر کے بے وطن ہی نہیں ؛بلکہ جلا وطن کرنے کی مذموم کوششیں بھی کی گئیں ، اردو کو صرف مسلمانو ں کی زبان ثابت کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی گئیں، ایسی کوششوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اردو آج لائبریریوں میں پناہ گزیں ہے، حیرت اس بات پر ہوتی ہے جب کوئی کھلم کھلّا اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیتا ہے ؛ حالانکہ ہر صاحبِ علم اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ یہ اردو ہی زبان ہے، جس نے اپنی گود میں لے کر دیا نرائن نگم، پنڈت رتن ناتھ سرشار، پریم چند، چکبست، فراق، سدرشن ، جوش ملسیانی، تلوک چند محروم، آنند نرائن ملّا ، کرشن چندر، بیدی، رام لعل، جگن ناتھ آزاد، شانتی رنجن بھٹا چاریہ، وشو ناتھ طاؤس، دیوندر اسر، دیوندر ستیارتھی، کالی داس گپتا رضا، تارا چرن رستوگی، گوپی چند نارنگ، کشمیری لال ذاکر، بلراج ورما ، رام لال نابھوی، گوپال متّل ، رتن سنگھ، گیان چند جین ، جوگندر پال ، مالک رام ، بلونت سنگھ ، کرشن موہن ، موہن چراغی، مانک ٹالہ ، اوپندر ناتھ اشک، راج نرائن راز، شباب للت، نریش کمار شاد، فکر تونسوی، کنھیا لال کپور، بلراج کومل، کمار پاشی، گربچن چندن، جمنا داس اختر، گلزار زتشی دہلوی، شرون کمار ورما ، کیول دھیر،ش ک نظام ، چندر بھان خیال ،روشن لال روشن ، وغیرہ وغیرہ کے فکر و خیال کو آفاقیت بخشی اور شہرت و مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا کر ان کے نام نامی کو چاند تاروں کی مانند درخشندہ بنا دیا ۔ اب کوئی بتائے کہ اردو اگر مسلمانو ں کی زبان ہے تو پھر ان لوگوں کو ذات اور مذہب کے کس خانے میں رکھا جائے گا ۔
ایسے نا گفتہ بہ حالات میں اپنی مادری زبان کو فراموش کر دینے کی شعوری اور لا شعوری طور پر جو کوششیں ہو رہی ہیں ، وہ بہر حال نہ صرف معاصر نسل کے لئے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی نا قابل تصّور نقصان دہ ثابت ہونگی ۔ سرکاری گرانٹ اور بعض ملنے والی مراعات سے اردو والوں کوبہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ ایسے گرانٹ سے بقول سابق صدر انجمن ترقی اردو ، پنڈت آنند نرائن ملّا ’’ …….ان اکیڈمیوں سے چند افراد کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں ؛لیکن اردو والے اپنے حقوق سے بدستور محروم رہتے ہیں ‘‘ ۔
اردو والوں کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ آزادی ملے کتنی دہائیاں گزر گئیں ؛ لیکن اب تک قومی سطح پر’ یوم اردو ‘ منانے کی کوئی ایک تاریخ تک طے نہیں ہو سکی ہے، نہ ہی یونیسکو کے ذریعہ ہر سال 21 ؍فروری کو عالمی سطح پر مادری زبان کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اس کے تحفظ اور اس کی بقا کے لئے دی جانے والی دستک کا ہی کوئی رد عمل سامنے آرہا ہے ۔ اگر ہم اردو والے ہر سال اسی عالمی مادری زبان کے انعقاد کے دن اپنی مادری زبان کے سلسلے میں اپنا محاسبہ کریں ،تو بہت سارے نکات ایسے سامنے آئینگے، جن پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے ،تو اس کے نتائج خوش آئند ہو سکتے ہیں ۔ اس کے لئے ضروری ہے اردو زبان سے محبت کرنے والے خواہ وہ جس شعبہ حیات سے منسلک ہوں ، انتظامیہ، عدلیہ، تعلیم ، صحافت، تجارت غرض جو جہاں ہے، وہ اپنی اس حاشیہ پر جاتی ہوئی مادری زبان کو زندگی سے جوڑ کر اپنے آنے والی نسل کے لئے محفوظ کر پائینگے۔ اس سلسلے میں درس گاہوں کے منتظمین اور مدرسین بہت ہی اہم رول ادا کر سکتے ہیں ۔ اسکولوں اور کالجوں میں اپنی مادری زبان کی اہمیت اور افادیت پر ہر عمر کے بچوں کی ذہن سازی کر، مستقبل کے لئے فضا ہموار کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین تعلیم بچّوں کی ابتدائی تعلیم کو ان کی مادری زبان میں دینے کا اصرار کرتے ہیں ، اگر ایسا ہوتا ہے تو معیار ی درسی کتابیں تیار کر بچوں کے درمیان مہیّا کرائی جائیں ، جن سے وہ استفادہ کریں ۔ اگر یہ ممکن نہیں ،تو کم از کم ابتدائی تعلیم کے لئے اسکولوں میں اردو کی تعلیم کی سہولیات اور انتظام لازمی طور پر ہو، اس سے بڑی کامیابی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ادب اطفال پر بھی خصوصی توجہ ہو۔ ایسا ہونے پر ہماری آنے والی نسل کے درمیان اردو رچ بس جائیگی، ہر عالمی یوم مادری زبان کے موقع پر اپنی مادری زبان کے تحفظ اور بقا کے ضرور لائحۂ عمل تیا کریں ۔ بہت کم تعداد میں بولی جانے والی بنگلہ زبان کے لوگ پوری دنیا میں اپنی مادری زبان کے حوالے سے اپنے وجود کا احساس کرا رہے ہیں ؛ لیکن ہم اردو والے اس کی اہمیت سے بے خبر ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی یوم مادری زبان کو ’ یوم اردو ‘ ہی تصّور کرکے اس کی ترویج و اشاعت کے لئے لائحہ عمل تیار کریں ، تو اردو کے لئے بہتر فضا تیار ہو سکتی ہے،بس شرط ہے کہ اس کی اہمیت اور افادیت کو ہم سنجیدگی سے سمجھیں :
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات!
خدارا ہمیں سفاک مسیحاؤں سے بچائیں!
جناب عالی! تقریبا ڈیڑھ دہائی سے آپ بہار کی کرسیِ اقتدار پہ براجمان ہیں،بجلی، سڑک، تعلیم،امن وامان، لا اینڈ آرڈر کے شعبوں میں آپ نے بے مثال خدمات وکارنامے انجام دیے ہیں ،جن پر آپ داد وتحسین کے یقیناًمستحق ہیں۔شراب بندی کا جرأتمندانہ اقدام بھی آپ کی طرف سے اگرچہ ہوا تھا؛ لیکن یہ صرف کاغذی خاکہ ہی رہا ،اب تک اس میں رنگ نہیں بھرا جاسکا۔آپ نے صحت کے شعبے میں بھی خطیر وسائل مہیا کرائے، یہ کوشش بھی سراہے جانے کے قابل ہے۔
ہم نے سنا اور پڑھا ہے کہ آپ بدعنوانی، رشوت ستانی،لوٹ کھسوٹ، مالی بے ضابطگی اور غیر شفاف مالی لین دین کے سخت دشمن ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس بابت تشفی بخش اور قابل اطمینان وضاحت سامنے نہ آسکنے کی وجہ سے آپ نے اپنے حلیف اور مضبوط اتحادی سے ہاتھ چھڑالیا،یعنی حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہوکر اسمبلی تحلیل کردینا آپ کو برداشت ہے؛ لیکن مالی بے ضابطگی اور لوٹ کھسوٹ پہ سمجھوتا کرنا آپ جیسے ”نظریاتی” بلکہ ”نظریہ ساز” لیڈر کو گوارا نہیں!
لیکن حد درجہ باعث افسوس ہے کہ آپ نے اپنے دور حکومت میں دارالحکومت پٹنہ سمیت بہار کے بڑے بڑے شہروں میں قائم نجی ہسپتالوں، رجسٹرڈ ڈاکٹروں اور پرائیویٹ نرسنگ ہوم میں علاج معالجے کے نام پہ مریضوں کے ساتھ ہونے والے لوٹ کھسوٹ پر خاطر خواہ توجہ دینے یا موثر کار کردگی کی کبھی زحمت نہ کی۔بدعنوانی کے ان اڈوں پہ کبھی آہنی ہاتھ ڈالنے کی آپ کی طرف سے محسوس کوشش نہ کی گئی۔
محترم وزیر اعلی صاحب! ڈاکٹر کو معاشرے میں قوم کا ”مسیحا ” کہا جاتا ہے،یہی وہ شخصیت ہے ،جو موت کے منہ میں پھنسے مریضوں کی زندگی لوٹاتی اور موت کی دہلیز پر بیٹھے پریشان حال اور بے کسوں کے جسم نیم مردہ میں رمق وآبِ حیات ڈالتی ہے،ڈاکٹر قوم کے سب سے بڑے محسن وخیر خواہ ہوتے ہیں،دکھی انسانیت کی خیر خواہی کا جذبہ اگر شامل حال ہو، تو ان کا پیشہ عبادت بن جاتا ہے۔
لیکن افسوس یہ ہے کہ آج ریاست کے ہر بڑے شہر‘ مثلا پٹنہ،دربھنگہ،بیگوسرائے،کٹیہار،پورنیہ وغیرہ میں پرائیویٹ کلینکس اورپرائیویٹ اسپتال قائم ہیں اوریہ اسپتال غریبوں کودونوں ہاتھوں سے کاٹ رہے ہیں،مسیحا کہلائے جانے والے لوگ ہی مریضوں کی رگوں سے رہی سہی زندگی بھی کھینچنے میں لگے ہیں!
نجی ہسپتالوں اور رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی علاج فیس بہت زیادہ ہے، صوبے بھر میں ڈاکٹر اپنی من مانی فیس 500؍ تا ایک ہزار وصول کرتے ہیں۔ پندرہ دن بعد پھر نئی فیس وصول کی جاتی ہے۔
معمولی معمولی بیماری پہ نصف درجن چیک اپ لکھ کر اپنے مخصوص تشخیصی لیبارٹری پر جانے کو کہا جاتا ہے،جن سے مخصوص مقدار میں کمیشن کی وصولی ہوتی ہے۔اکثر پرائیویٹ نرسنگ ہوم والے اپنے ہی یہاں سارا جانچ کرانے کو لازم قراردیتے ہیں،اس میں زیادہ سے زیادہ روپیہ مریضوں سے لئے جاتے ہیں۔ کم فیس کے پیش نظر اگر مریض کسی دوسرے ڈائگناسٹک سینٹر سے چیک اپ کروالے، تو سخت پھٹکار سننے کے علاوہ تمام چیکپ مسترد کرکے از سر نو چیک اپ کروا یا جاتا ہے۔ بعض ”مسیحا ” معائنے کے بعد نسخہ تھماتے ہوئے ہدایت کرتے ہیں کہ فلاں فارمیسی سے ہی دوا خریدی جائے، بصورت دیگر کوئی جعلی دوا بھی دے سکتا ہے اور وہ آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ سن کر کوئی بھی اس ڈاکٹر کو انتہائی ذمہ دار اور اپنا خیرخواہ ہی سمجھے گا؛ لیکن ایسا نہیں ہے، ایسے ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرنے والا مریض دراصل مقامی اور غیر رجسٹرڈ کمپنی کی غیر معیاری دوا خرید کر اس نام نہاد مسیحا کی جیب بھاری کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
عزت مآب وزیر اعلی صاحب!
ہماری ریاست میں کروڑوں روپے سے بنائے گئے متعدد سرکاری ہسپتال قائم ہیں ،جن پر اربوں روپے کے سرکاری وسائل صحت کے فنڈ میں خرچ ہورہے ہیں؛ لیکن سرکاری ہسپتالوں میں بروقت ڈاکٹروں کی غیر حاضری وعدم دستیابی، بنیادی سہولیات عملی فقدان ،نیز جلد سے جلد علاج کے حصول کی خاطر مریض نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، موقع سے سے فائدہ اٹھاکر علاج وصحت کی جلد فراہمی کے نام پر پرائیویٹ ڈاکٹرز غریبوں اور محتاجوں کا خون چوسنے میں لگ جاتے ہیں۔
محنت مزدوری کرنے والا غریب طبقہ آج ان سفاک وقصاب مسیحاؤں کی چکی میں پس رہا ہے،شعبۂ اطفال اور شعبۂ زچگی میں ”طریقۂ واردات ” کچھ زیادہ ہی افسوسناک ہے۔آپ نے بہار کے متعدد فرسودہ نظاموں میں اہم تبدیلیاں لائیں؛لیکن علاج معالجہ کے نام پر قائم اس قصائی خانہ کے نظام کی تبدیلی کی بھی فکر فرمائیے! سیاسی بدعنوانیوں سے درجہا خطرناک یہ طبی بدعنوانیاں ہیں،جن کے ظلم وسفاکی کا تختۂ مشق بیچارے غریب عوام بنتے ہیں،اس بدعنوانی کوبھی دور کرناآپ کا کام ہے!
اس سلسلے میں مجھے آنجناب سے درج ذیل فوری اقدامات کی گزارش ہے:
1۔ حکومتی سطح پر قانون سازی کرکے ایسا ضابطۂ اخلاق وضع کیا جائے ،جس کے تحت ڈاکٹروں کو نہ صرف مقررہ فیس لینے کا پابند کیا جائے؛ بلکہ انہیں سستی اور کارگر دوائیں تجویز کرنے کا بھی کہا جائے۔
2 ۔غریب اور متوسط طبقے کو ڈاکٹروں کی چیرہ دستیوں سے نجات دلانے کے لئے چیک اپ،آپریشن فیس اور نرسنگ ہوم چارج کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کی جائے،ضرورت سے زائد تشخیص پر پابندی لگائی جائے،کسی مخصوص مرکزِ تشخیص سے رجوع کے التزام کو ختم کیا جائے۔
3۔ہر ضلع میں مریضوں کی شکایات اور مسیحاؤں کی سفاکی کے ازالے کیلئے فری ہیلپ لائن یا مرکز قائم کیا جائے اوروصول شدہ شکایات کا سختی سے نپٹارہ ہو۔
4۔طبی اخلاقیات کی خلاف ورزی کرنے والوں سے بلا رو رعایت سختی سے نمٹا جائے اور مناسب جرمانہ بھی عائد کیا جائے۔
5۔ڈاکٹر کی چیرہ دستیوں سے تحفظ کے لئے غریب طبقہ میں طبی انشورنس کارڈ کے نظام کو کارگر طریقے سے متعارف ؛بلکہ نافذ کیا جائے!
6۔ضلعی سطح پر جعلی اور غیر معیاری دواؤں کی جانچ پڑتال کی کمیٹی قائم ہو اور غیر معیاری دواؤں کی فروخت پر پابندی عائد ہو۔
7۔صحت وعلاج کے نام پہ یومیہ قتل عام کو بند کروائیں۔
8۔نجی ہسپتالوں میں کرپشن کی گرم بازاری ختم فرماکر سستے علاج کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔
وزیر اعلی صاحب!
اقتدار آنی جانی چیز ہے،یہاں کسی عہدہ ومنصب کو دوام نہیں،دوام وبقا ہے تو صرف انقلاب،تبدل وتغیر کو،حالات ہمیشہ آپ کے موافق نہیں رہیں گے، ابھی آپ کے پاس وقت بھی ہے، قوت بھی اور اقتدار بھی۔غریبوں اور محتاجوں کے لئے ایسا کچھ تاریخی اقدام وفیصلہ کرکے جائیے کہ آپ بہار کے غریب لوگوں کے دلوں پہ ہمیشہ حکمرانی کرتے رہیں،دلوں کا حکمراں ہی اصل بادشاہ ہے۔آپ کے ماضی کے جرأتمندانہ اقدامات کی وجہ سے مجھے یہ چند سطریں آپ کی خدمت میں لکھنے کی ہمت ہوئی۔
آخر میں یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ گرد وپیش کے غریب،مفلوک الحال،دبے، کچلے اور ڈاکٹروں کے ستم زدہ پریشان حال لوگوں کی عمومی حالت زار دیکھ کر میرا ضبط ٹوٹ گیا اور قوت برداشت جواب دے گئی، تب یہ قلبی تاثرات لفظوں میں ڈھل گئے،جنہیں سماجی، اخلاقی ودینی فریضہ سمجھتے ہوئے آپ کے گوش گزار کردینا ضروری سمجھا۔
مجھے امید ہے کہ آپ دکھی انسانیت کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی جانب خصوصی توجہ مبذول کرتے ہوئے ان مسائل کا فوری موثر عملی حل فراہم کریں گے۔
فقط!
خیر اندیش
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے /بہار
عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
اسلام امن و سلامتی کا علم بردار اور محبت و خیرسگالی کو فروغ دینے والا مذہب ہے ،جس میں ظلم و تشدد کی مطلق گنجائش نہیں،خوف و دہشت کا کوئی تصور نہیں،ذات پات اور رنگ ونسل کی بنیاد پر تفریق کا بالکل جوازنہیں۔مذاہب عالم کے غیرجانب دارانہ مطالعہ کے بعد پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انسانی جان کے احترام و وقار اور امن و اطمینان کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق کو دین اسلام نے جس درجہ اہمیت و اولیت دی ہے ،کسی مذہب نے نہیں دی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : 146146جو کوئی کسی کو قتل کرے جب کہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلے لینے کے لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا او رجو شخص کسی کی جان بچالے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔ 145145 (الانعام:32)اسی طرح حج? الوداع کے تاریخی موقع پر آپ ﷺ نے اپنے اس عظیم خطبہ میں جو انسانیت کے لیے دائمی منشور اور حقوق و فرائض کے حوالہ سے مکمل دستور کی حیثیت رکھتا ہے ،اس بات پر زور دیا کہ ناحق کسی کا خون نہ بہایا جائے ، چناں چہ ارشاد فرمایا: تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں ایک دوسرے کے لیے ایسی ہی حرمت رکھتی ہیں جیسے تمہارے اسی مہینے ( ذی الحجہ) میں تمہارے اس شہر (مکہ مکرمہ) او رتمہارے اس دن کی حرمت ہے ۔ تم سب اپنے پروردگار سے جاکر ملوگے ، پھروہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ لہٰذا میرے بعد پلٹ کر ایسے کافر یا گم راہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ (صحیح بخاری، باب حجۃ الوداع، صحیح مسلم )یعنی کسی شخص کو ناحق قتل کرنا کافروں اور گم راہوں کا کام ہے ، نیز ایک دوسرے کو کافر یا گم راہ کہہ کر قتل کرنا شریعت مطہرہ میں گناہ وجرم ہے ۔ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:146146اسلام عدل ،سچائی اورامن پسندی کادین ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ محدثین کرام نے اسلام کو امن وسلامتی کے ساتھ لوگوں تک پہنچایا ہے ۔انتہا پسندی اورفرقہ واریت کا خاتمہ قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے اور منہجِ سلف کو اختیار کرنے ہی سے ممکن ہے ۔145145
اسلام قتل و خونریزی کے علاوہ فتنہ انگیزی، دہشت گردی اور جھوٹی افواہوں کی گرم بازاری کو بھی سخت ناپسند کرتا ہے وہ اس کو ایک جارحانہ اور وحشیانہ عمل قرار دیتاہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 148اصلاح کے بعد زمین میں فساد برپا مت کرو147(الاعراف:56)۔ امن ایک بہت بڑی نعمت ہے ؛جس کو قرآن نے عطیہ الٰہی کے طور پر ذکر کیا ہے ،فرمایا: 148اہل قریش کو اس گھر کے رب کی عبادت کرنی چاہئے جس رب نے انہیں بھوک سے بچایا کھانا کھلایا اور خوف و ہراس سے امن دیا147(القریش:4)اسلام میں امن کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت (حرم مکہ)کو گہوارۂ امن قرار دیاگیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 148اس کے سایہ میں داخل ہونے والا ہر شخص صاحب امان ہوگا۔( آل عمران:97)
یہ اسلامی تعلیمات ہی کا فیضان ہے کہ بعثت محمدی کے بعد رافت ورحمت،ہمدردی و رواداری اورامن و شانتی کے حیرت انگیز مناظر سامنے آئے اور دنیا میں بڑی بڑی حکومتوں کے اندر انسانی جان کی ناقدری کے خوفناک واقعات اور ہولناک حادثات آمد اسلام کے بعد موقوف ہوئے اور دہشت وخونریزی سے عالم انسانیت کو نجات ملی، انہیں تعلیمات کے باعث ایک مختصر مدت میں عرب جیسی خونخوار قوم تہذیب وشرافت کے سانچے میں ڈھل گئی اور احترامِ نفس وامن و سلامتی کی علمبردار ہوکر دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل گئی، جس کا نقشہ قرآن کریم نے کچھ اس طرح کھینچا ہے : 146146اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔145145 (آل عمران: 103)
یہ حقیقت واقعہ ہے کہ اسلام نے احترام انسانیت کی جگہ جگہ تلقین کی ہے ،جملہ انسانوں کو ایک پالنہار کی رعایا اور ایک باپ کی اولاد بتلایا ہے ؛کیوں کہ انسان ہی سے کائنات آباد وشاد ہے ،اسی سے دنیا کی مصلحتیں پوری ہوتی ہیں اور نظام حیات اپنی رفتار سے چلتا رہتا ہے ،تکریم نوع انسانی کے تعلق سے ارشاد خداوندی ہے :اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی۔(سورۂ اسراء: 70)خود نبی اکرم ﷺنے آغاز وحی سے قبل قیام امن کے لیے جو کوشش و جدو جہد فرمائی اس کا اندازہ حلف الفضول کے اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ زبید شہر کا رہنے والا یمن کا باشندہ مکہ مکرمہ کچھ تجارتی ساز و سامان لے کر آیا ، عاص بن وائل نے اس سے وہ سامان تجارت کے طورپر خریدلیا؛ لیکن اس کاحق دینے سے مکرگیا ۔ وہ شخص فریاد و دادرسی کے لئے سرداران قریش کے پاس گیا اور اپنا مدعا پیش کیا؛لیکن کسی نے اس کی دادرسی نہیں کی چونکہ عاص بن وائل کی قریش کی نظر میں بڑی وقعت تھی اس لئے اس کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے کوئی اس مظلوم کی نصرت و حمایت کے لئے آمادہ نہ ہوا ۔ چنانچہ اس نے جبل ابی قیس پر چڑھ کر چند اشعار میں اپنی مظلومیت کا نقشہ کھینچا اور انسانیت نواز افراد کو نصرت و حمایت کے لئے پکارا ۔ زبیر بن عبدالمطلب کھڑے ہوئے اور اعلان کیا کہ اس مظلوم کو اس طرح نہیں چھوڑسکتے ، اس کی حمایت کرنا ہمارا فریضہ ہے ۔پھر آپ نے دیگر قبائل کے سرداران سے تبادلۂ خیال کیا اور ذوالقعدہ کے مہینہ میں پانچ قریشی قبائل :بنوہاشم ،بنومطلب ،بنو اسد ، بنو زہرۃ اور بنوتیم کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ طئے پایا ۔ مذکورہ قبائل کے سردار بنوتیم کے سردار عبداللہ بن جدعان کے گھر میں کھانے پر جمع ہوئے ۔ اس عہد و پیماں میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ? و سلم بھی اپنے چچاؤں کے ساتھ شریک تھے ۔ معاہدہ یہ تھا کہ اگر مکہ میں کسی پر ظلم ہوا تو ہم اس کی مدد کو دوڑیں گے اور ظالم کو مکہ میں رہنے نہیں دیا جائیگا۔ السیرۃ النبویۃ ، ابن کثیر ، ۱:۷۵۲ کے مطابق 146146بنوہاشم ، بنوزہرہ اور بنوتیم بن مرہ ، عبداللہ بن جدعان کے گھر میں اکٹھے ہوئے اور اﷲ تعالیٰ کے نام پر باہمی معاہدہ کیا کہ جب تک سمندروں میں پانی موجود ہے اور جب تک حرا اور شبیر پہاڑ اپنی جگہ موجود ہیں ، وہ ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت میں یکجاں ہونگے حتی کہ اسے اس کا حق مل جائے نیز آپس میں ہمدردی اور غمخواری کا سلوک کریں گے 145145۔
آپﷺ اعلان نبوت کے بعد انسانیت پر مبنی تاریخی معاہدہ کا ذکر فرماتے اور فرمایا کرتے : میں عبداﷲ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدہ میں شریک ہوا کہ مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر مجھے اس کے لئے دور اسلام میں بلایا جاتا تو میں اسے یقیناًقبول کرلیتا۔ (الرحیق المختوم )
پچھلی چاردہائیوں میں دور حاضر کا سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ جس نے انسانیت کو شعلہ زن آگ میں دھکیل دیا اور جس کی لپیٹ میں پورا عالم جھلس رہاہے وہ دہشت گردی کا مسئلہ ہے ، اضطراب وبے چینی اور خوف ودہشت پھیلانے کا مسئلہ ہے ۔اس وقت دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں بھی فسطائیت و فرقہ پرست قوتیں امن وامان کی فضاکومکدرکرنے پرتلی ہوئی ہیں۔ابھی حال ہی میں ہندوستانی فوج پر پلوامہ میں جو بزدلانہ حملہ ہوا ہے وہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے،حقائق سے پردہ تو اس وقت اٹھے گا جب اس سانحہ کی اعلی سطحی تحقیقات ہوں گی ۔
اس اندوہناک حادثہ نے پورے ہندوستان میں غم و ماتم کی ایک لہردوڑگئی ہے ، ہر آنکھ اشکبار ہے ، ہر دل رنج میں ڈوبا ہوا ہے ،اس کیفیت کے باوجود ملک کا ہر شہری یہ چاہتا ہے کہ ظالموں کو منہ توڑ جواب دیاجائے ، ہمارے سپاہیوں کی شہادت کا انتقام لیاجائے ، جس طرح خفیہ سازش کے تحت ہمارے درجنوں جوانوں کو جاں بحق کیاگیا اسی طرح خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ ان کے اصلی قاتلین کا پتہ لگایاجائے ۔سیاسی اعتبار سے دیکھاجائے تویہ افسوس ناک واقعہ جہاں ایک طرف ملک کی سیکولرزم پر ایک سیاہ دھبہ ہے وہیں دوسری طرف موجودہ مرکزی حکومت کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔مذہبی اعتبار سے غورکیا جائے تو یہ دہشت گردانہ حملہ ،اسلام و ایمان کے سراسر خلاف ہے ،نبی اکرمﷺکی تعلیمات کے بالکل منافی ہے ؛بلکہ آگے بڑھ کر یہ کہنا بجا ہوگا کہ انسانیت اورانسانی اقدار کے بھی بالکل مغائر (opposed)ہے ۔
حقیقت کو جانے بغیر معاملہ کی تہہ تک پہونچنے سے پہلے ہی بعض غیرمسلم تنظیمیں پورے زورو شور کے ساتھ مسلمانوں کواس کا ذمہ دار بتلاکر ٹیررسٹ Terroristو دہشت گرد قرار دے رہی ہیں اور جہاں 148قال اللہ وقال الرسول147 کی صدا بلند کی جاتی ہیں اسے جہادی سینٹر اور دہشت گردی کے اڈے بتلارہی ہیں؛جب کہ احادیثِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں اتنی کثرت سے ایسے مضامین وارد ہوئے ہیں جو ایک عام ذہن والے کو بھی یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ دین اسلام کی تعلیمات و ہدایات میں انسانی زندگی کے لئے وہ بہترین رہنمائی ہے جو نہایت خوش گوار اور خوش حال، پُرامن اور پُرمسرت زندگی کی ضامن،پیار والفت، سلامتی و عافیت، راحت و رحمت اور ہر طرح کے فوز و فلاح کی باعث ہے ۔ وہ دین جو نماز کے لئے وضو میں مسواک پر زیادتء اَجرکی خوش خبری سناتا ہے کہ منہ سے بدبو نہ آئے تاکہ مسجد میں ساتھ کھڑے ہونے والے دوسرے نمازیوں کو کراہت محسوس نہ ہو، وہ دین جو حلال جانور کو بھوکا پیاسا ذبح کرنے سے منع کرتا ہے ،تاکہ جان نکلنے میں تکلیف و دقت نہ ہو، وہ دین جو رہ گزر سے کانٹے دور کرنے پر ثواب بتاتا ہے تا کہ راہ چلنے والوں کو دشواری نہ ہو، وہ دین جو جانور کی جان محض تلف کرنے کے لئے شکار کو پسند نہیں کرتا اور کسی جان کا بھی مُثلہ کرنے(صورت و حلیہ بگاڑنے ) کی سختی سے ممانعت کرتا ہے ، وہ دین جو کسی کی عزت، جان، مال کے ناحق معمولی سے نقصان کو بھی گناہ عظیم بتاتا ہے ، وہ دین جوباہمی محبت کو ٹھیس پہونچانے والی بیماری غیبت وچغلی کو زنا جیسی برائی سے زیادہ سخت بتاتا ہے ،کیااس دن میں دہشت پھیلانے اور نفرت کو عام کرنے کا الزام مبنی بر انساف ہوسکتا ہے ؟؟؟
اسلام ،اہل اسلام اور مدارس اسلامیہ کے خلاف یہ پروپیگنڈہ جہاں ہمارے لیے باعث حیرت و استعجاب ہے وہیں یہ ہمارے لیے نہایت شرم وافسوس کا مقام ہے کہ صدیوں سے ایک ساتھ رہنے کے باوجود برادران وطن کو ہمارے بارے میں صحیح بات معلوم نہیں،باشندگان وطن کی ایک بڑی تعداد کثرت اختلاط و معاملت کے باوجود ہم سے اور ہمارے دین سے واقف نہیں، ہم خود مخالفت میں ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔آج ضرورت ہے کہ ہم آپس کی اس خلیج کو کم کریں اور برادران وطن کے ساتھ بیش از بیش تعلقات بڑھانے کی کوشش کریں۔ماضی میں ہندوستا ن کے مخلوط معاشرے میں ہمارے تعلقات گہرے تھے اور ہماری بلند اخلاقیات کی گواہی خود غیر مسلم دیتے تھے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانان ہند برادران وطن کے سامنے امن وسلامتی کے پیامبربن کر خود کو پیش کریں۔ ہم سب کو اپنے قول وعمل سے یہ پیغام دینا ہے کہ ہم صلح وآشتی کے پیامبر ہیں۔توحید کا تصور پیش کرنا دوسرا مرحلہ ہے ۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ غیر مسلمین سے تعلقات استوار کئے جائیں۔ تبدیلی راتوں رات نہیں آتی بلکہ اس کے لیے طویل مدتی لائحۂ عمل اور انتھک محنت و جدو جہد درکار ہے ۔
تحریر: رام چندر گوہا
ترجمہ: عبدالعزیز
میں جس شہر دہرہ دون میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا ،آج سرخیوں میں ہے،وہاں ایسی نازیبا حرکتیں ہورہی ہیں ،جو شرم ناک ہیں، کشمیری طلبا و طالبات، جو وہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کو ہراساں اور پریشان کیا جارہا ہے، ان کو ہر طرح سے مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ شہر چھوڑ کر اپنے گھر واپس چلے جائیں، ان کے کالج نے اعلان کیا ہے کہ کالج میں کشمیری طالب علموں کا داخلہ نہیں لیں گے، ایک سینئر کشمیری پروفیسر کو بھی کالج سے برطرف کر دیا گیا ہے۔
کشمیری طلبا و طالبات کے ساتھ یہ سب آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی (اکھل بھارتیہ وِدیارتھی پریشد) کی سرکردگی میں ہورہا ہے، دائیں اور بائیں بازو دونوں کو پلوامہ حملے کے نتیجے میں جس طرح اٹھ کھڑا ہونا چاہئے ،اس کے بالکل برعکس ہورہاہے، خاص طور سے دائیں بازو کی تنظیم غلط طریقے سے اپنا غصہ اتار رہی ہے جو قابل مذمت ہے، سب کو معلوم ہے کہ پلوامہ میں جو فوجی جوانوں پر خود کش حملہ ہوا، اس کے پیچھے آئی ایس آئی اور جہادی گروپوں کا ہاتھ ہے، تو پھر آخر کیوں کشمیری طالب علموں کو نشانہ بنایا جارہا ہے؟ جو اچھی تعلیم حاصل کرکے اچھے کام پر لگنا چاہتے ہیں اور ایک اچھی زندگی گزارنے کے خواہش مند ہیں، آخر کیسے معصوم اور بے گناہ طالب علموں پر حملے کرکے دہشت گردی کے خلاف لڑائی لڑی جاسکتی ہے اور پاکستان کو شرمندہ کیا جاسکتا ہے؟
اے بی وی پی کے لیڈر حکمت اور منطق سے واقف نہیں ہیں ،ان کی سمجھ سے یہ چیز بالاتر ہے کہ جو کشمیری اپنی ریاست سے باہر آکر ہندستان کے مختلف حصول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اگر ان کے ساتھ حسن سلوک ہوگا، تو جب وہ کشمیر میں جائیں گے، تو انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کریں گے اور اس سے انتہا پسندی کم ہوگی۔ ہمارے شہر بنگلور میں کشمیری طلبا و طالبات آتے ہیں، ان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا جاتا ہے، اس کی وجہ سے ان کے اندر یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ اس ملک میں جو تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے، وہ پاکستان میں ہر گز حاصل نہیں ہوسکتی۔
اے بی وی پی کی سمجھ سے یہ چیزبالاتر ہے کہ جو کشمیری طلبا و طالبات ملک کے مختلف حصوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ،وہ در اصل جہادی گروپ یا دہشت گردوں کے خلاف ایک کامیاب جنگ اور لڑائی کا حصہ ہیں، اے بی وی پی کے ممبران جو نہیں سوچ سکتے اور نہیں کرسکتے وہ بھاجپا کے صدر امیت شاہ، جو اپنے آپ کو عقل مند اور غیر معمولی شخصیت سمجھتے ہیں ،وہ تو کم سے کم سوچ سکتے ہیں اور کرسکتے ہیں؛ لیکن ان کو معلوم ہوگیا ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں ان کی پارٹی اکثریت میں آنے والی نہیں ہے؛ اسی لئے انھوں نے فرقہ پرستی اور تعصب کا راستہ اپنانے کو ہی بہتر سمجھا ہے۔ گوہاٹی کی اپنی حالیہ تقریر میں انھوں نے فرمایا کہ اگر دہلی میں وہ پھر برسر اقتدار آگئے، تو آسام کو کشمیر بننے نہیں دیں گے، اس کا صاف مطلب ہے کہ مسلمانوں کو آسام میں رہنے کی اجازت نہیں دیں گے اور مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کی شہریت کو رد کردیں گے، یہ سب محض اس لئے کہہ رہے ہیں کہ ان کو کچھ زیادہ ووٹوں کی ضرورت ہے؛ تاکہ لوک سبھا الیکشن میں وہ زیادہ سیٹیں حاصل کرسکیں۔
اے بی وی پی والے جو دہرہ دون میں غنڈہ گردی کر رہے ہیں یا بی جے پی کے صدر آسام میں احمقانہ بیان دے رہے ہیں، وہ انتہائی خوفناک اور بھیانک ہے، ان دونوں سے بھی زیادہ احمقانہ اور وحشیانہ بیان میگھالیہ کے گورنر پروفیسر تتھا گت رائے نے اپنے ٹوئیٹر پر دیا ہے، جس میں انھوں نے ملک کے مختلف حصوں میں کشمیریوں کا سماجی بائیکاٹ کرنے کیلئے کہا ہے۔ دیکھنا ہے کہ صدر جمہوریہ کے دفتر سے اس غیر قانونی اور غیر دستوری بیان پر کیا نوٹس لیا جاتا ہے؟ ریاستوں میں گورنر صدر جمہوریہ کا نمائندہ ہوتا ہے، اس کی اگر گرفت نہیں کی جاتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صدر جمہوریہ کی سوچ اور میگھالیہ کے گورنر کی سوچ یکساں ہے، وزیر اعظم ہند بھی اس معاملے میں خاموش ہیں، دہرہ دون میں اے بی وی پی کے شرپسند عناصر جو کچھ کر رہے ہیں، اس پر بھی انھوں نے خاموشی برتی ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ کانگریس کے صدر نے بھی اس پراب تک لب کشائی نہیں کی ہے۔
الیکشن میں کامیابی کیلئے یہ جو کچھ بھاجپا کے لوگ ملک کے مختلف حصوں میں کشمیری طالب علموں کے ساتھ کر رہے ہیں، انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے، کشمیری کہتے ہیں کہ ساری سیاسی پارٹیاں کشمیر کو ہندستان کا اٹوٹ حصہ قرار دیتی ہیں؛ لیکن جب کشمیریوں پر ظلم و ستم ہوتا ہے، تو ساری پارٹیاں خاموش رہتی ہیں، اس کامطلب یہ بھی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو کشمیر کی زمین چاہئے، کشمیری نہیں چاہئیں، اے بی وی پی کے شرپسند عناصر میگھالیہ کے گورنر اور بھاجپا کے صدر امیت شاہ جو کچھ بیان دے رہے ہیں یا کر رہے ہیں، وہ ایک طرف انتہائی شرمناک ہے ،تو دوسری طرف یہ بھی کسی سانحہ سے کم نہیں کہ ملک میں ایسے شرپسندوں کے خلاف جو آواز بلند ہونی چاہئے، وہ نہیں ہورہی ہے۔ اگر کسی ریاست کا گورنر یہ کہتاہے کہ ’’کشمیریوں کا بائیکاٹ ہونا چاہئے‘‘ تو جہادیوں کے سوا کس کی مدد کر رہا ہے؟ اگر حکمراں جماعت کا صدر مسلمانوں کو شہریت کے لائق نہیں سمجھتا ہے ،تو وہ جہادیوں کے سوا کس کا تعاون کر رہا ہے؟ وزیر اعظم اور کانگریس کے صدر ان شرپسندوں کے خلاف اگر آواز نہیں بلند کرتے ،تو جہا دیوں کے سوا کس کی مدد کر رہے ہیں؟ ایسے لوگ جو پلوامہ سانحہ کی آڑ میں ایسی حرکتیں کر رہے ہیں ،وہ دراصل لشکر، جیش اور آئی ایس آئی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ جس طرح ہم پاکستان کو دہشت گردی پھیلانے پر لعن طعن کر رہے ہیں، اسی طرح ہمیں اپنے آپ پر بھی لعن طعن کرنا چاہئے؛ کیونکہ کشمیریوں کیلئے ملک کے مختلف حصوں میں حکومتوں اور پولس اور انتظامیہ کی موجودگی کے باوجود کشمیری طلبا و طالبات کو تحفظ حاصل نہیں ہے، انھیں اپنی پڑھائی چھوڑ کر کشمیر جانا پرڑ رہا ہے، کیا ہندستان اور ہندستانی حکومتوں کیلئے یہ صورتِ باعث شرم نہیں ہے؟ ‘‘۔
(اصل مضمون 20؍فروری کو روزنامہ دی انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا ہے)
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
عبید الکبیر
14 فروری کو کشمیر میں جو المناک حادثہ پیش آیا اس نے ملک کے طول وعرض کو ہلا کر رکھدیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ جنت نشاں کشمیر جو اپنی جغرافیائی خصوصیات کی بنا پر بھارت کا حساس ترین خطہ ہے اس کے حالات ایک طویل عرصے سے تخریب کاروں کے نشانے پر ہیں۔کشمیر کا المیہ تقسیم وطن سے لے کر اب تک ہماری سیاست کا غالباً سب سے نازک اور پے چیدہ باب رہا ہے۔آزادی سے لے کر اب تک جن لوگوں نے بھارت میں اقتدار عظمی کی زمام سنبھالی ہے وہ ہمیشہ سے اس مسئلے کی حساسیت کا لحاظ کرتے ہوئے اس پر خصوصی توجہ دیتے رہے ہیں۔بی جے پی ہو یا کانگریس یا کوئی اور مشترکہ محاذ سبھی نے کشمیر پر کچھ نیا کرنے کی بہر حال کوششیں کی ہیں۔مگر عجیب بات ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں نے جتنے بھی جتن اس معمے کو حل کرنے کے لیے کیے یہ مسئلہ اتنا ہی پیچیدہ ہوتا چلا گیا۔پنڈت نہرو 150شیخ عبد اللہ سے لے کر مودی اور محبوبہ مفتی کی مشترکہ جد جہد کے سامنے کشمیر کا چیلنج جوں کا توں برقرار ہے۔ستر سال کے عرصے میں برف کی سفید چادر سے ڈھکی وادیوں میں نہ جانے کتنی بار سرخ خون سے ہولی کھیلی جا چکی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ اس المیہ میں جو جانیں تلف ہوئیں وہ صرف علیحدگی پسند یا باغیوں کی تھی ۔اس خونیں معرکے میں ملک کے بے شمار فوجی جوان بھی اپنی جانیں کھو چکے ہیں ،بھارت پاکستان کے بیچ تین جنگیں اس قضیے کو لے کر برپا ہو چکی ہیں جن میں وسائل کے ساتھ ساتھ معصوم لوگوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑی۔موجودہ مرکزی حکومت جو اپنے فکری ڈھانچے کی بنا پر کشمیر کے مسئلے کو ایک خاص نظر سے دیکھتی رہی ہے اس کا اعمال نامہ اس وقت ہمارے سامنے ہے ۔ہمیں یاد آتا ہے کہ 2014 کے انتخابات سے قبل ہمارے وزیر اعظم جس فاتحانہ تیور کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر اپنے مزعومہ رد عمل کا عندیہ ظا ہر کرتے تھےانتخابات کے بعد اس کا دس فیصد مظاہرہ بھی نہیں کیا گیا۔ لوک سبھا میں زبردست اکثریت حاصل کرنے کے بعد جب کشمیر میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی مشترکہ حکومت بنی تو ملک کو یہ امید ہو چلی تھی کہ شاید اس پرانے زخم کی چارہ سازی کا کوئی معقول نظم کیا جائے گا ۔مگر بد قسمتی سے ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ بی جے پی کی مجموعی لاف گزاف کا نتیجہ بالآخر گٹبندھن کے ٹوٹنے کے بعد صدر راج کے نفاذ کی صورت میں نکلا۔وزیر اعظم نے شیر کشمیر اسٹیڈیم میں جو بلند وبانگ دعوے کیے تھے وہ سب ایک طرح سے محض جملوں کا پلندہ ثابت ہوا۔اس میں شک نہیں کہ وزیر موصوف ایک جذباتی آہنگ کے مالک ہیں ۔ان کے لہجے کا سحر لوگوں کو مسائل کی سنگینی کے بجائے دورازکار امکانات کی وادیوں میں بہ آسانی دھکیل دیتا ہے۔غالباً کشمیر کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔وہاں کی زمینی حالات سے دانستہ یا نادانستہ صرف نظر کیا گیا اور یہ مسئلہ خطرات سے دوچار ہوا۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کشمیر کے حالات کی ناخوشگواری میں 2014 سے 2018 کے درمیان 176 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ پانچ سالوں میں دہشت گردانہ حملوں کی شرح میں 93 فیصد اضافہ ہوا ہے۔باوثوق ذرائع کے مطابق ہر مہینے قریب ہمارے گیارہ فوجی جوان عسکریت پسندوں کے دست برد کی نذر ہوجاتے ہیں ۔اب جب کہ این ڈی اے حکومت اپنی مدت کار کی تکمیل کی جانب گامزن ہے یہ تجزیہ کیا جانا چاہئے کہ مرکزی حکومت اپنی اکثریت کے ساتھ مرکزی سطح پراور اپنے حلیف کے ساتھ ریاستی سطح پر اس مسئلے کے پائدار حل کے لیے کن منصوبوں پر کام کرتی رہی اور اس جانب اس نے کیا اقدامات کیے ہیں۔ویسے گزشتہ پانچ سالوں میں جو حالات دیکھنے میں آئے ہیں وہ اس تمام منظر نامے پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں ۔اس دورانیے میں کشمیری عوام پر جو کچھ بیتی ہے ، جس طرح انھیں پلیٹ گن کا نشانہ اور حسب ضرورت انسانی ڈھال تک بنایا گیا اس کو اگر نظر انداز بھی کردیا جائے تو فوجی جوانوں کی قربانی کا لیکھا جوکھا بھی کچھ کم نہیں ہے۔وزیر اعظم نے کشمیر کے لیے دہلی کے خزانے کے ساتھ ساتھ اپنے دل کا نذرانہ بھی پیش کیا تھا مگر پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اس مسئلے پر سراسیمہ نظر آتے ہیں۔کشمیر کا المیہ واضح طور پر ان کی پالیسیوں پر سوالیہ نشان لگاتا ہے ۔جس انداز میں سکیورٹی اہلکاروں تک موت کے سوداگروں کی رسائی ہو رہی ہے وہ انتظامیہ کی ناکامی کی بین دلیل ہے۔اگرچہ اس قسم کے واقعات کے پیچھے عموماًبعض کشمیری عوام کی برگشتہ ذہنیت کا حوالہ دے کر بہت کچھ کہنے سے گریز کیا جاتا ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ عوام پر اور علیحدگی پسند خواص پر شکنجہ کسنے میں چوک کہاں ہوجاتی ہے؟اب اسے جمہوریت کی خوبصورتی کہیں یا کچھ اور ،مگر یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ 8 دسمبر 2014 کو وزیر اعظم جب شیر کشمیر اسٹیڈیم میں خطاب کررہے تھے اس دن مخالفت یا مزاحمت پسندوں پر خصوصی نظر تھی ۔تمام لیڈران نظر بند تھے ،وزیر موصوف کی تقریر کے لیے بڑے جتن کرکے ایک سازگار ماحول فراہم کیا گیا تھا۔بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کشمیر میں اپنے امکانی وسائل کا استعمال کر چکی ہے۔ عام انتخابات میں قسمت آزمائی پھر ساز باز کے ذریعے حکومت سازی اور بالآخر صدر راج کا نفاذ ان تینوں قسم کی طرز حکمرانی کا تجربہ کرنے کے بعد بھی اس سے کچھ بن نہیں پایا۔یہ مسئلہ ناقابل فراموش ہے کہ کشمیر کا المیہ محض کسی سیاسی جماعت یا انتخابی مفاد سے وابستہ نہیں ہے جسے ایک وقتی مسئلے کے طور پر دیکھا جائے ۔ کشمیر کی سلامتی بھارت کی مجموعی سلامتی سے عبارت ہے۔اس سے ہماری انٹیلیجنس کی فعالیت ، افادیت اور اس کا اعتبار وابستہ ہے۔ موجودہ سانحے میں جس دھڑلے سے ہمارے تین درجن سے زائد جوانوں کو لقمہ اجل بنادیا گیا اس سے بہت سے سولات جنم لیتے ہیں جن کے جوابات
ان لوگوں ضرور دینا چاہئے جو اقتدار کی کرسی کو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔فوج کے عظمت کردار اور دہشت گردوں کی مذمت کے ہاؤہو میں اس واقعہ کو دبایاجانا مناسب نہیں۔ہم اس تخریب کاری کو محض خراج عقیدت کے گلدستے میں دفن کرکے بری الذمہ نہیں ہوسکتے ۔آخر یہ فوجی جوان بھی اسی طرح ملک کے شہری ہیں جیسے ہم آپ اور دوسرے لوگ ہیں ۔ارباب حل وعقد کو کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اس پر سنجیدہ غور وخوض کرنا چاہئے۔بلاشبہ ملک کے لیے جان گنوانا ایک فوجی کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے مگر بحیثیت شہری ہمیں ان کی جانوں کی قدر وقیمت سمجھنی چاہئے۔