ممبئی (پریس ریلیز)
ممبئی یونیورسٹی میں گزشتہ دنوں شعبۂ عربی کی جانب سے ایک دو روزہ سیمینار بعنوان ’’عربی ناول مابعد1950‘‘کا انعقاد عمل میں آیا۔جس میں ملک کے طور و عرض سے مشہور اور نامور پروفیسرو اساتذۂ فن نے شرکت کی ۔سیمینار کا آغاز محمد امام الدین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، پروفیسر محمد شاہد صاحب نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور پروفیسر شفیق احمد ندوی نے انتہائی پر مغز خطبہ پیش کیا اور عربی ناول کے ارتقا اور اس کے اساطین کا ذکر کیا ۔اسی سیشن میں پروفیسر ثناء اللہ مدنی اور پروفیسر عبد الماجد قاضی نے بھی اپنے اہم مقالے پیش کئے۔جبکہ اس سیشن کی صدارت پروفیسر محمد اقبال حسین نے کی۔ سیمینار کا دوسرا سیشن ظہرانہ کے وقفہ کے بعد شروع ہوا اور اس سیشن کی صدارت پروفیسر ولی اختر ندوی نے کی اور اس میں ڈاکٹر قمر ،ڈاکٹر نسیم اختر،ڈاکٹر فوزان،ڈاکٹر محمود مرزا ،ڈاکٹر انصار احمد ،ڈاکٹر ریاض احمد ،ڈاکٹر محمد ادریس ،پروفیسر عائشہ کمال اور ڈاکٹر محمد طارق نے مقالے پیش کئے۔دوسرے دن کے پہلے سیشن کی سربراہی پروفیسر راشد نسیم صاحب نے کی اور اس میں ڈاکٹر ولی اختر ندوی،ڈاکٹر حیفا شاکری، پروفیسر عشرت علی اور ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی نے اپنے مقالات پیش کئے۔چائے کے وقفہ کے بعد کے سیشن کی سربراہی پروفیسر عائشہ کمال نے کی اور پروفیسر راشد نسیم ندوی ،ڈاکٹر مجیب اختر اور محترمہ رابعہ شبیر نے اپنے مقالے پیش کئے ۔
پروگرام کے آخری سے پہلے والے سیشن کی صدارت پروفیسر ثناء اللہ ندوی صاحب نے کی اور ڈاکٹر محمد تابش ،امام الدین،سائمہ انصاری،خورشید نیاز اور مومن نوشاد نے اپنی کاوشیں پیش کیں ۔سیمینار کے آخری سیشن کی سربراہی پروفیسر عبد الماجد قاضی صاحب نے کی اور شمس الرب،قزوین،اسما قاضی،محترمہ شہناز،محمد عامر انصاری ،محمد عادل ،غوثیہ شیخ،مہ جبین ،محترمہ حنا فاطمہ اور صفوان احمد نے اپنے اپنے مقالے پیش کئے ۔اس آخری سیشن میں محترمہ حنا فاطمہ صاحبہ نے عربی نظم پیش کی ۔اس سیمینار میں صفوان احمد نے بھی ایک مقالہ بعنوان ’’رضوی عاشور اور ان کی ناول ثلاثیات غرناطہ‘‘ پیش کیا ،یہ ناول اندلس ( موجودہ اسپین) میں مسلمانوں کے خونچکاں زوال کے حوالے سے نرالے طرز اور اچھوتی تعبیرات میں پرویا ہوا ایک شاہکار تاریخی دستاویز ہے ۔
اس سیمینار میں ممبئی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے سے منسلک سابق اور موجودہ طلبہ نے بھی اپنے مقالے پیش کئے اور اساتذہ فن سے داد و تحسین حاصل کی۔پروگرام کو منعقد کرنے اور اس کو کامیابی سے اختتام تک پہنچانے میں مہمانان کرام اور سامعین کے ساتھ شعبہ عربی کے اراکین اور انتظامیہ کی کوششیں شامل رہیں ،جن میں سر فہرست شعبہ کے سربراہ پروفیسر شاہد اور ڈاکٹر جمشید ہیں ۔
20 فروری, 2019
کاشف شکیل
ابھی گفتگو کا سلسلہ شروع ہوئے کوئی ایک دو ماہ ہوا تھا، مگر ایسا لگ رہا تھا کہ پچھلے چھ جنموں سے دونوں کا یارانہ ہے، ابھی دونوں نے ایک دوسرے کی شکلیں نہیں دیکھی تھیں، مگر وہ دونوں ایک دوسرے کو اپنے خوابوں میں پہچان لیتے تھے۔
موبائل فون نے دل سے دل تک راہ بنا دی تھی، صبا کو احسان سے جنون کی حد تک عشق ہوگیا تھا، صبا دیندار گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، اس کی آمد و رفت پر گھر والوں کی کڑی نگاہ تھی اور اس کے جملہ معمولات پر والدہ کا سخت پہرہ رہتا تھا۔ احسان نے اسے بارہا کسی ہوٹل یا پارک میں ملنے کے لیے بلایا ،مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ احسان کی طرف سے صبا کو دیکھنے کا اصرار روز افزوں زور پکڑ رہا تھا۔ صبا بھی احسان کو من ہی من اپنا مان چکی تھی اور اس کو مزید ٹالنا نہیں چاہتی تھی۔ آخر کار اپنی ایک سہیلی سے ملنے کے بہانے گھر سے اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ حسبِ وعدہ وہ پیراڈائز ہوٹل کے روم نمبر 140؍ میں پہنچی، جہاں احسان پہلے سے ہی اس کا منتظر تھا۔ احسان بڑے تپاک سے ملا اور وہ بھی اس سے چمٹ گئی، پھر سرگوشیوں میں باتیں شروع ہوئیں اور ساتھ جینے مرنے کا وعدہ ہوا، احسان نے اس سے نکاح کرنے کی قسم کھائی۔ صبا نے اپنا وجود اس کے حوالے کردیا، پھر سانسوں میں گفتگو اور جذبات کی طغیانی، بعدہ وہ ہوا جسے خود فراموشی یا خدا فراموشی کہتے ہیں۔
صبا کا جسم ٹوٹ رہا تھا، احسان نے اس کو سنبھالتے ہوئے کہا: ’’رکو! میں تمہارے لیے کافی لاتا ہوں‘‘۔
ایک گھنٹہ گزر گیا، مگر احسان نہ آیا، صبا نے اس کے نمبر پر فون لگایا ،تو دیکھا کہ شکن آلود بستر پر ایک پرانا موبائل رنگ ہو رہا ہے اور اس کے نمبر کے ساتھ ’’پانچویں آئٹم‘‘ لکھا ہواہے۔
پھر یکے بعد دیگرے بستر کی ساری شکنیں صبا کی پیشانی کی انمٹ شکن بن گئیں اور اس کے آنسو اس کی بکھری لپ اسٹک صاف کر رہے تھے۔
تحریر:آکاش بشٹ(سکرول ڈاٹ اِن)
ترجمہ:نایاب حسن قاسمی
ہندوستانی سیکورٹی فورسز پر ہونے والے ہولناک ترین حملے میں 14؍فروری کو کشمیر میں 40؍ سے زائد سی آر پی ایف کے جوان مقتول ہوئے، اس کے بعدسے اِسی سال کے وسط میں ہونے والے عام انتخابات کے پیشِ نظر وزیر اعظم مودی اور ان کی پارٹی کے سربراہ امیت شاہ علانیہ طورپر اس سانحے کے سیاسی استعمال میں سرگرم ہیں۔ اس کے کئی واضح ثبوت فراہم کیے جاسکتے ہیں۔مثال کے طورپراے این آئی کی رپورٹ کے مطابق 17؍فروری کو آسام کے لکھیم پور کی ایک ریلی میں امیت شاہ یہ کہتے سنے گئے کہ:’’میں آسام کے بیٹے منیشور باسوماترے(پلواماسانحے کے مقتولین میں سے ایک)کوپلواماسانحے کے دیگر متاثرین کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتاہوں،ان کی قربانیاں اکارت نہیں جائیں گی؛کیوں کہ ابھی سینٹر میں کانگریس کی حکومت نہیں ہے،بی جے پی کی حکومت ہے‘‘۔
دوسری طرف زیادہ تر اپوزیشن پارٹیاں فوجیوں کی موت پربی جے پی کی سیاست کے خلاف کچھ بولنے سے کترا رہی ہیں،نہ انھوں نے مرکزی حکومت سے دنیا کے سب سے زیادہ فو ج والے خطے میں ان حساس ترین انٹیلی جنس و عملی کوتاہیوں پر کوئی سوال کیاہے،جن کی وجہ سے وہاں اتنا ہولناک دہشت گردانہ حملہ ممکن ہوسکا۔کیا اپوزیشن واقعی اس وقت حکومت کی حمایت میں کھڑا ہے اور انٹیلی جنس کی اتنی بڑی ناکامی پر اسے کچھ کہنے کے موڈ میں نہیں ہے یا کچھ اوربات ہے،جوہمیں نظر نہیں آرہی؟
کیا یہ خاموشی سیاسی حکمت عملی ہے؟
ایک سینئر کانگریسی لیڈر کاکہناہے کہ’’ہم محتاط ہیں‘‘۔وہ کہتے ہیں کہ’’ہماری خاموشی کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے،ہماری یہ چپ دراصل ٹی وی سٹوڈیوزکے خود ساختہ نیشنلسٹ اینکرز کے ذریعے پیدا کردہ عوامی ہسٹیریاکے جواب میں ایکpause buttonہے‘‘۔ان کے مطابق’’ موجودہ وقت میں جو ہنگامہ آرائی جاری ہے،وہ ختم ہوجائے،اس کے بعد کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں قومی سلامتی کے تعلق سے سنجیدہ سوالات ضرور اٹھائیں گی‘‘۔بی ایس پی کے ایک لیڈر(جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے)کاکہنا یہ ہے کہ پلواما سانحے پر ان کی پارٹی نے اس لیے خاموش رہنے کو ترجیح دی ہے کہ حکومت یہ نہ کہے کہ اپوزیشن دہشت گردوں کو مؤثر جواب دینے کی راہ میں حائل ہورہا ہے۔ان کا کہناہے کہ’’ہم لوگ اس وقت بدترین دورسے گزر رہے ہیں اور حکومت ہر اس شخص یا جماعت کو وطن دشمن قرار دے دیتی ہے،جو اس سے سوال کرنے کی جرأت کرے‘‘۔ایسا لگتا ہے کہ ان کی پارٹی بھی عام انتخابات سے قبل اس قسم کے الزامات کے اندیشے سے گھبرارہی ہے اور گرد بیٹھنے کا انتظار کررہی ہے۔
سماج وادی پارٹی بھی انٹیلی جنس کی ناکامی کی وجہ سے اس اندوہناک واقعے کے رونما ہونے پر حکومت سے سوال کرنے میں جلدی کرنے سے بچ رہی ہے۔ پارٹی کے ترجمان نوید صدیقی کا کہناہے کہ’’جیسا کہ ہم نے پہلے ہی کہاہے ، ہم اس واقعے پر سیاست نہیں کرنا چاہتے‘‘۔وہ کہتے ہیں کہ’’ہمیں بدلہ چاہیے اور دیکھتے ہیں کہ مسٹر مودی اس سلسلے میں کیا قدم اٹھاتے ہیں؟‘‘۔جب انھیں یاد دلایاگیا کہ امیت شاہ تو اس معاملے میں سیاست کرنے سے نہیں چوک رہے ہیں؟توانھوں نے کہاکہ الیکشن قریب آتے ہی ہم لوگ مسٹر مودی اور ان کی حکومت سے انٹیلی جنس کی ناکامی پر سوال کریں گے۔ان کے مطابق’’کچھ نہ کچھ خامیاں ضرور تھیں،جن کی وجہ سے دہشت گردوں کو فوجی قافلے کے گزرنے کا علم ہوگیا تھا‘‘۔
سیاسی تجزیہ کار سنجیوشری واستونے اس سانحے پر سیاست نہ کرنے کے اپوزیشن کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہاکہ’’بی جے پی کے جال میں پھنسنے سے محتاط رہنا اچھاہے؛کیوں کہ اس وقت قومی سطح پر نیشنلسٹ طبقہ بی جے پی کے قبضے میں ہے‘‘۔
ممتابنرجی خاموش نہیں ہیں
پلواما سانحے پر حکومت کو گھیرنے والی واحد اپوزیشن لیڈر ممتا بنرجی ہیں،انھوں نے تین دن کی خاموشی کے بعد پیر کے دن بی جے پی کو براہِ راست نشانہ بنایا، ان کا کہناتھا کہ ان کے پاس معلومات ہیں کہ مرکزی حکومت کو خفیہ ایجنسیوں نے 8؍فروری کو ہی ایسی اطلاع دی تھی کہ لوک سبھا الیکشن سے قبل خودکش بمباری کا امکان ہے،آخر حکومت نے یہ اطلاع ملنے کے باوجود کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا؟ بی جے پی کے ذریعے اس سانحے کو سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے کے سوال پر ان کا کہناتھا کہ اس اندوہناک دہشت گردانہ حملے کے فوراً بعد ہماری پارٹی اس پر کوئی سیاسی بیان بازی نہیں کرنا چاہتی۔وہ کہتی ہیں’’ہمارا خیال ہے کہ یہ لڑائی ہم سب کو مل کر لڑنا چاہیے‘‘۔ساتھ ہی وہ کہتی ہیں’’لیکن ہم نے دیکھا کہ ہم تو اس سانحے کے بعد چپ چاپ بیٹھے ہیں، مگر مودی اور امیت شاہ گھوم گھوم کر سیاسی تقریریں کرتے پھر رہے ہیں‘‘۔ان کا مزید کہناہے’’ان کے خطابات سے ایسا لگتاہے کہ محض وہی لوگ محبِ وطن ہیں،ملک کی دیگر سیاسی پارٹیاں اور افرادوطن دشمن ہیں‘‘۔
آرجے ڈی کے نائب صدر شیوانند تیواری نے بھی مودی اور بی جے پی یہ الزام لگایاہے کہ وہ فوجیوں کی موت کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر انتخابی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے،انھوں نے ممتابنرجی کے ذریعے ذکرکردہ خفیہ معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہاکہ’’حکومت ان معلومات کے ملنے کے باوجود کسی قسم کا ایکشن لینے میں ناکام رہی‘‘۔انھوں نے کہاکہ’’مودی گولوالکر کی راہ پر چل رہے ہیں،جواس ملک کے مسلمانوں،عیسائیوں اور کمیونسٹوں کو ہندوقوم کا دشمن قراردیتے ہیں‘‘۔وہ مزید کہتے ہیں’’لوگوں کو معلوم ہے کہ اس ملک میں کمیونسٹوں کے ساتھ کیا ہورہاہے اور ساتھ ہی انھوں نے ہندوراشٹر کے قیام کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بناناشروع کردیاہے اور کشمیر ان کا مرکزی ہدف ہے‘‘۔
جواہرلعل نہرویونیورسٹی میں سیاسیات کے استاذاجے گوداورتھی کا خیال ہے کہ بی جے پی اس ماحول کو ختم نہیں ہونے دے گی اور وہ چاہے گی کہ الیکشن تک داخلی سلامتی کا موضوع اسی طرح گرم رہے۔ان کی رائے ہے کہ’’چوں کہ بی جے پی کی جانب سے ہندوستانی مسلمانوں کوملک کی داخلی سلامتی کے لیے خطرہ قراردیناpan-Indiaایشونہیں بن پایاہے؛اس لیے اب وہ کشمیر کے مسئلے کو گرماناچاہتی ہے؛تاکہ وطن دوستی کے ضمن میں کشمیریوں کا ہندوستان کے لیے خطرہ ہونے کوباور کرایاجاسکے‘‘۔
میڈیاکا رویہ
اپوزیشن کے کچھ لیڈران بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ قومی میڈیاماحول کو دھماکہ خیز بنانے کے درپے ہے اور ہائپرنیشنلسٹ بیانیہ تشکیل دے کر مرکزی حکومت پر دباؤ بنانے میں ناکام ثابت ہورہا ہے۔سماج وادی پارٹی لیڈر کاکہناہے کہ’’ایسے ماحول میں حکومت سے سوال کرنے کی جرأت کون کرسکے گا؟‘‘۔بی ایس پی لیڈر بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں،ان کا کہناہے’’دہشت گرد تین سوکیلو دھماکہ خیز اشیا اس علاقے میں لے جانے میں کامیاب کیسے ہوئے؟‘‘۔وہ مزید کہتے ہیں’’ہم لوگ سوال تو اٹھارہے ہیں،مگر میڈیا اگر مرکزی حکومت کا ترجمان بن چکاہے،تو لوگوں کو اس بارے میں کیسے پتا لگے گا؟‘‘۔
(اصل مضمون انگریزی ویب سائٹscrool.inپر شائع ہوئی ہے)
محمد صلاح الدین ایوبی
ریسرچ اسکالر ، شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ، مانو
mob: 9394717576
mail: [email protected]
تمہید :
اس وقت دنیا کے بیشتر ملکوں میں جمہوری نظام پایا جا تا ہے اور اس نظام کو سب سے زیادہ مقبول ،مستحکم اور مفید تصور کیا جا رہا ہے ۔ دنیا نے اب تک کئی سیاسی نظام کا تجربہ کیا ہے، تجربات کے اس سفر میں اس وقت لوگوں کی منزل اور پڑاؤ جمہوریت ہے ، جمہوری نظامِ سیاست پر اسلامی نقطۂ نظر سے بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے ، اس کے مفید اور مضر دونوں پہلوؤں پر کافی بحث و تمحیص ہو چکی ہے ۔ اس کی افادیت یا مضرت کے بڑے بڑے دلائل پیش کئے جا چکے ہیں ، ذیل کی سطروں میں اس بات کا جائزہ پیش کیا جائے گا کہ جمہوری نظام دیگر نظامہائے سیاست و حکومت کی بہ نسبت کیوں کر مفید ہے ؟ یہ نظام اسلام سے کتنا قریب ہے؟ اس نظام کی خوبیاں کیا ہیں اور اس کی خامیاں اور نقائص کیا ہیں ؟نیز اسلامی سیاسی نظام اور جمہوری سیاسی نظام کے درمیان کن باتوں میں اشتراک و اتحاد اور کن باتوں میں اختلاف اور تضاد پایا جاتا ہے ؟
جمہوریت کی تعریف :
جمہوریت کی جامع و مانع تعریف میں خود علمائے سیاست کا شدید اختلاف پایا جاتا ہے ، تاہم جمہوریت کی سب سے مقبول و مشہور تعریف وہ ہے ، جو امریکہ کے صدر ابراہام لنکن نے کی تھی کہ جمہوریت ایسا نظام سیاست ہے جس میں عوام کی حکومت عوام پر ، عوام کے لئے اور عوام کے ذریعہ ہوتی ہے ۔(1)
جمہوریت کا لفظ در حقیقت انگریزی لفظ ’ democracy ‘‘ کا ترجمہ ہے اور انگریزی میں یہ یونانی زبان سے آیا ہے ۔ یونانی زبان میں demo عوام کو کہتے ہیں اور ’’ cracy ‘‘ حاکمیت کو کہتے ہیں ، جمہوریت کا بنیادی تصور یہ ہے کہ اقتدار اور حکمرانی کا حق عوام کو حاصل ہے ۔ (2)
جمہوریت کا آغاز و ارتقا:
جمہوریت کا آغاز یونان میں ہوا۔ وہاں جمہوریت کا یہ تصور تھا کہ بادشاہ خاص خاص فیصلوں میں عوام کی رائے معلوم کرنے کے لئے ساری آبادی کو اکٹھا کر لیتا تھا اور ان کے سامنے بات رکھی جاتی کہ ہم یہ کام کرنا چاہتے ہیں یا یہ پالیسی بنا نا چاہتے ہیں، آپ سب کی کیا رائے ہے ؟ کچھ لوگوں نے کھڑے ہو کر تائید کر دی، کچھ نے تردید کر دی، کچھ بحث مباحثے ہوئے اور پھر آخر میں لوگوں سے ہاتھ اٹھاکر اس بات پر منظوری لے لی جاتی تھی۔ وہاں جمہوریت کا تصور اتنا ہی سادہ تھا ۔
جمہوریت کا یہ تصور یونان میں جہاں پر چھوٹے سے چھوٹا شہر بھی مستقل ریاست کی حیثیت رکھتا تھا، چل سکتا تھا؛ لیکن بڑے اور کثیر آبادی والے ملکوں میں اس تصور اور اس طریقۂ کار کو اختیار کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ سلطنت روم وغیرہ جیسے بڑے ملکوں میں بادشاہوں نے اپنے مشورے کے لئے کونسل یا مجلس شوریٰ قائم کیا ، لیکن مشورے بہت کم کیا کرتے تھے، نتیجتاً اس کی جگہ مطلق العنان بادشاہت نے لے لی، لہذا عملی طور پریونان کی ریاستوں کے بعد جمہوریت کا تصور ختم ہو گیا۔ اٹھا رہویں صدی عیسوی میں جمہوریت کے تصور نے دوبارہ کروٹ لی ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک منظم اور منضبط شکل اختیار کر کے اس عہد کے مقبول و پسندیدہ سیاسی نظام کی حیثیت حاصل کر لی، جس کو آزاد خیال جمہوریت(liberal democracy) کہا جا تا ہے ، اور دنیا کے اکثر ملکوں میں یہی نظام رائج ہو گیا ۔ (3)
جمہوریت کا فلسفہ اور فکری بنیادیں :
یورپ کی نشاۃِ ثانیہ سے پہلے کلیسا نے عوام پر اپنا استبدادی پنجہ گاڑ رکھا تھا ، کلیسا کے بیان کئے ہوئے افکار و نظریات سے سرِ مو اختلاف کرنے والے کو بدعتی قرار دے کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا ، حتی کہ بسا اوقات زندہ جلا دیا جاتا تھا؛ لیکن نشاۃِ ثانیہ کے بعد جب ان کے پاس اسپین وغیرہ سے علوم منتقل ہونا شروع ہوئے تو لوگوں میں اپنے طور پر سوچنے سمجھنے کا رجحان پیدا ہوا اور زندگی کے مختلف شعبوں میں بڑے بڑے مفکرین پیدا ہوئے جنھوں نے چرچ کے بنائے ہوئے غیر فطری نظام سے بغاوت کی اور نئے افکار لوگوں میں پھیلانا شروع کئے ۔ ان مفکرین میں فرانس کے تین بڑے مفکر ہیں جنھوں نے مغربی دنیا میں جمہوریت کی داغ بیل ڈالی اور اس کی صورت گری کی ، انہیں تینوں کو جدید آزاد خیال جمہوریت کا بانی تصور کیا جاتا ہے ۔
ان میں سے پہلا شخص وولٹائر (Voltire) ،دوسرا مونٹیسکو(Montesquiue) اورتیسراروسو (Rousseau) ہے۔
پہلا شخص وولٹائرجو21 نومبر 1694 میں پیدا ہوا اور 30 مئی 1778 میں اس کا انتقال ہوا، اس نے فلسفہ ، سائنس اور آرٹ کے ہر شعبے میں بہت سی کتابیں لکھیں ، اس کی تحریروں کا مجموعہ تقریباً 90 جلدوں میں شائع ہوا ۔ وولٹائر کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ اس نے مذہب کے بخیے ادھیڑ دیئے اور یہ دعویٰ کیا کہ جتنے آسمانی مذاہب ہیں سب تحریف شدہ ہیں اور اصل میں انسان کا ایک ہی مذہب ہوناچاہئے اور وہ ہے فطری مذہب (natural religion) ۔
وولٹائر کے نظریات کی دوسری بات جو سب سے زیادہ مؤثر ہوئی وہ یہ ہے کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے ، ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی تسکین کے لئے جو مذہب چاہے اختیار کرے اس میں نہ چرچ کو دخل اندازی کی ضرورت ہے اور نہ حکومت (state)کو ، حکومت کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اسی سوچ کی بنیاد پر سیکولرزم کا نظریہ وجود میں آیا ۔ یہ نظریہ در اصل چرچ کے تھیوکر یسی کا رد عمل ہے، چرچ نے چوں کہ مذہب کے نام پر بہت ظلم و ستم ڈھائے تھے اس لئے ان مفکرین پر اس کا یہ رد عمل ہوا کہ انھوں نے کہاجب تک مذہب کا جوا اتار کر نہیں پھینکا جائے گا اس وقت تک ترقی نہیں کی جا سکتی ۔ اور پھر یہ جوا اس طرح اتارا گیا کہ اخلاق سے خالی سیکو لر اسٹیٹ کا نظریہ وجود آیا ۔
دوسرا شخص جس کا جمہوریت کی صورت گری میں اہم کردار رہا ہے ، مو نٹیسکو ہے ،جو 18 جنوری 1689 میں پیدا ہوا اور 10 فروری 1755 میں اس کا انتقال ہوا۔ اس کی صرف ایک کتاب مشہور ہے ، جس کا نام روحِ قانون (sprit of law)ہے ، جو تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل ہے ، وہ کہتا ہے کہ میں یہ کتاب لکھ کر اتنا تھک گیا ہوں کہ اب میں ساری عمر آرام کرنا چاہتا ہوں ، اس کی یہ کتاب اصل میں قانون اور فلسفے پر ہے ، لیکن جمہوریت کے سلسلے میں اس کا ایک نظریہ ہے جو تفریق اختیارات (separation of power)کا نظریہ کہلاتا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ جتنی مطلق العنان حکومتیں ہوئی ہیں اور ان کی مطلق العنانی سے لوگوں کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ریاست کے تمام اختیارات کسی ایک شخص یا کسی ایک ادارے کو حاصل تھے جس کے نتیجہ میں لوگوں پر ظلم بھی ہوتا تھا اور ریاست کے کاموں میں ابتری بھی پیدا ہوئی تھی ، لہذا بہتر نتائج اس وقت تک حاصل نہیں کئے جاسکتے جب تک اختیارات کو مختلف جہتوں پر تقسیم نہیں کیا جاتا ، چنانچہ مونٹیسکو نے پہلی بار یہ بات کہی کہ ریاست کے اختیارات در حقیقت تین مختلف قسم کے اختیارات ہیں :
۱۔ قانون سازی کا اختیار ۔۲ ۔ ملک کا انتظام اس قانون کے مطابق چلانے کا اختیار۔ ۳ ۔ اگر کوئی شخص قانون کی خلاف ورزی کرے یا کسی کام میں تنازعہ پیدا ہو جائے کہ یہ کام قانون کے دائرے میں ہے یا نہیں تو اس تنازعہ کا فیصلہ کرنے کا اختیار۔
مونٹیسکو کے نظریہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ تینوں اختیارات کسی ایک شخص یا ایک ادارے میں مر تکز نہیں ہونے چاہئیں ، بلکہ ہر ایک کے لئے الگ الگ ادارہ ہو، ہر ادارہ اپنے طور پر با اختیار ہو اور ایک ادارے کو دوسرے ادارے کے کام میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے ، چنانچہ آج قانون سازی کا اختیار جس ادارے کو حاصل ہے اس کو مقننہ (Legislature) ، قانون کے مطابق ملک کا انتظام چلانے کا اختیار جس ادارے کو حاصل ہے اس کو انتظامیہ (Executive)اور قانون کی تشریح اور تنازعات کا تصفیہ جو ادارہ کرتا ہے اسے عدلیہ (Judiciary)کہا جاتا ہے ۔
تیسرا شخص جس نے جمہوریت کی تشکیل میں حصہ لیا وہ روسو ہے ، اس کی پیدائش 28 جون 1712 میں اور وفات 2 جولائی 1778 میں ہوئی،روسو پہلا شخص ہے جس نے دو چیزوں پر زور دیا :ایک فرد کی آزادی اوردوسری افراد کی نمائندہ حکومت۔ یعنی افراد کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ جب چاہیں کوئی حکومت بنائیں اور جب چاہیں ختم کردیں ۔(4)
یہ تین فرانسیسی مفکرین ہیں جن کے نظریات پر آزاد خیال اور سیکولر جمہوریت کی عمارت کھڑی کی گئی ۔
جمہوریت کی خصوصیات :
قدیم مفکرین کے نزدیک جمہوریت اگر چہ ایک اچھی اور پسندیدہ حکومت نہیں تھی لیکن جدید دور میں یہی وہ بہترین طریقہ حکومت ہے جسے انسانیت نے اب تک دریافت کیا ہے ،ذیل کی سطروں میں جمہوریت کی اہم خصوصیات درج کی جاتی ہیں۔
۱۔ عوامی حکومت :
جمہوریت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہر ایک کا حصہ ہوتا ہے ، اس میں اقتدارِ اعلی عوام کو حاصل ہوتا ہے اور اس حکومت میں عوام ہی حاکم اور عوام ہی محکوم ہوتے ہیں ۔
۲۔عام آدمی کی اہمیت :
جمہوریت میں ایک عام آدمی بھی اختیار اور با اثر ہوتا ہے ۔ جمہوریت کا بنیادی مغز انسانی مساوات ہے ، قانون کی حکمرانی اور انسانی مساوات کو جمہوریت کے لئے لازم سمجھا گیا ہے ، اس کی رو سے ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان رنگ و نسل، مذہب اور ذات پات کا کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوتا اور عام آدمی بھی حکومت کے اعلی ترین عہدوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ۔
۳۔ انتخابات :
کسی ملک میں جمہو ریت کی کار کردگی اور استحکا م کا اندازہ وہاں منعقد ہونے والے انتخابات سے کیا جا سکتا ہے، جمہوریت میں عوام کو اپنی پسند کا حکمراں منتخب کرنے بلکہ خودبھی بحیثیت امیدوار انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عہدہ کے لئے مقابلہ کر نے کا حق حاصل ہوتا ہے ۔
۴۔ بنیادی حقوق :
جمہوریت میں عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں ، چنانچہ جس ملک میں جتنی زیادہ مستحکم جمہوریت ہوگی وہاں کے عوام کو اتنی ہی زیادہ حقوق اور آزادیاں حاصل ہوں گی ، عوامی حقوق اور آزادیوں کو کچلنے والی حکومت جمہوری حکومت نہیں کہلا سکتی ۔(5)
جمہوریت کی خوبیاں :
۱۔ جمہوری حکومت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ عوام کی بھلائی و بہبود کے مقصد کے تحت کام کرتی ہے ۔
۲۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ حکومت اور عوام کے درمیان ایک رابطہ قائم رہتا ہے جو کسی دوسرے طرز حکومت میں نہیں ہوتا،جمہوریت میں عوام کو قومی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے ۔
۳۔ جمہوریت کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کی بنیاد آزادی ، مساوات اور حقوق کے مشترکہ اصولوں پر قائم ہے، اس میں کسی خاص طبقہ کو خصوصی مراعات حاصل نہیں ہوتیں ،بلکہ ہر شخص یکساں طور پر سیاسی حقوق کا مالک ہوتا ہے ، ہر فرد اور جماعت کو اپنی صلاحیت کے اظہار کا پورا پورا موقع حاصل ہوتا ہے ۔
۴۔ جمہوری حکومت عوام کے سامنے جو ابدہ ہوتی ہے۔(6)
ماہرین سیاسیات نے ان کے علاوہ اور بھی بہت سی خوبیاں شمار کرائی ہیں ۔
جمہوریت کی خامیاں :
جمہوری نظامِ سیاست میں جہاں بہت سی خوبیاں پائی جاتی ہیں وہیں درج ذیل خامیاں بھی پائی جاتی ہیں :
۱۔ جمہوری نظام حکومت کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ عوام بہتر تعلیم یافتہ ہوں، ان میں اعلی سیاسی شعور موجود ہو اور حکومت کے نشیب و فراز کو سمجھنے کی صلاحیت ہو، لیکن یہ شرط ہر ملک میں مکمل طور پر نہیں پائی جاتی ۔ اکثر ممالک کے عوام جاہل اور غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، وہ ملکی مسائل کوسمجھنے کی قابلیت نہیں رکھتے، اسی وجہ سے حکومت کی باگ ڈورنا اہل افراد کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے یا پھر ہشیار طبقہ اپنی ہشیاری اور چالاکی سے اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے۔
۲۔ جمہوریت کی سیاسی خوبی محض عددی برتری ہے۔ کوئی بھی شخص یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ 22240کے مقابلہ میں 22260کی رائے زیادہ درست اور دانشمندانہ ہے ، جمہوریت میں انسانوں کی گنتی ہوتی ہے، صلاحیتوں اور قابلیتوں کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔
۳۔ موجودہ جمہوریت صرف سرمایہ دارانہ حیثیت رکھتی ہے، یعنی حکومت پر دولت مند طبقہ قابض ہوتا ہے، اس کے علاوہ جمہوریت کے نام پر دولت کو فضول طریقہ سے خرچ کیا جاتا ہے ، انتخابات کے موقع پر امیدوار اور ان کے حامی لاکھوں روپے کامیابی حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، دولت مند طبقہ خفیہ طور پر ووٹ خریدتے ہیں اور روپے کے زور سے اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں ۔
۴۔ جمہوریت میں نمائندگی کا اصول اور طریقہ بھی غلط ہے ، کوئی شخص کسی کی نمائندگی نہیں کرسکتا، زیادہ سے زیادہ کسی پیشے کی نمائندگی کی جاسکتی ہے ، مجلس قانون ساز میں جو نمائندے منتخب ہوتے ہیں وہ قوم کی صحیح نمائندگی نہیں کرتے، کیوں کہ صحیح نمائندگی اسی وقت ممکن ہے جب ہر طبقہ اور ہر مفادکو مناسب نمائندگی دی جائے۔
۵۔ اس طرز حکومت میں اقلیت ہمیشہ اکثریت کے رحم و کرم پر ہوتی ہے ،عملی طور پر جمہوریت عوام کی حکومت نہیں،بلکہ صرف اکثریت کی حکومت ہوتی ہے ۔(7)
۶۔ جمہوریت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں عوام کو بے مہار آزادی حاصل ہوتی ہے، کہیں بھی اخلاقی قدروں کا پاس و لحاظ نہیں رکھا جاتا،اکثریت کے بل بوتے انتہائی گھناؤنے، اخلاق سوز اور غیر انسانی و غیر فطری کاموں کا جواز تالیوں کی گونج میں صادر ہوجاتا ہے جس کے نتیجہ میں آج دنیا میں بے حیائی و عریانی کا ایک طوفان بپا ہو گیا۔
جمہوری نظام کا مقصد اور معاشرے میں اس کے مہلک و سنگین اثرات :
جمہوری نظام کا مقصد کیا ہے ؟ اور اسے کیوں سب سے بہتر نظامِ حکومت کے طور پر قبول کیا جا رہا ہے ؟ اس سوال سے بحث کرتے ہوئے بر صغیر کے عظیم مفکر اور عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں :
’’ عوام کو بے مہار طریقے پر حاکم ماننے کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ اس جمہوری حکومت کا مقصد کیا ہے ؟ جب کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آیا تو کسی نے عاجز آکر کہا کہ حکومت بذات خود مقصود ہے ، اور بعض لوگوں نے یہ کہا کہ اس حکومت کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خوشی فراہم کرنا ہے ، لیکن خوشی تو ایک اضافی چیز ہے ، ایک شخص کو ایک کام میں خوشی ہوتی ہے اور دوسرے شخص کو دوسرے کام میں خوشی ہوتی ہے ، اب کس خوشی کو مقدم رکھا جائے ؟ اس کا کوئی اطمینان بخش جواب سوائے اس کے نہیں ہے کہ جس کام میں اکثریت کو خوشی حاصل ہو،اسے مقدم رکھا جائے، لیکن سارے عوام کو تو خوشی حاصل نہ ہوئی ۔ اس کے علاوہ اگر عوام کی اکثریت کو کسی بد اخلاقی اور بے حیائی میں خوشی حاصل ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس بد اخلاقی اور بے حیائی کا رواج بھی جمہوریت کے مقاصد میں شامل ہو گیا ۔‘‘(8)
آگے اس سے بھی زیادہ واضح اور دو ٹوک لفظوں میں تحریر فرماتے ہیں :
’’جمہوریت کے مبینہ مقاصد میں کہیں بھی آپ یہ نہیں پائیں گے کہ خیر کو پھیلایا جائے گا اور شر کو روکا جائے گا ، اچھائی کو فروغ دیا جائے گا اور برائی کو ختم کیا جائے گا، کیوں کہ اچھائی اور برائی کا کوئی ابدی معیار ان کے پاس نہیں ہے جس کی بنا پر کہا جا سکے کہ فلاں چیز اچھی اور فلاں چیز بری ہے ، بلکہ اب تازہ ترین فلسفہ یہ ہے کہ خیراور شر کوئی چیز نہیں ہے ، دنیا میں ساری چیزیں اضافی ہیں، ایک زمانے میں ایک چیز خیر ہوتی ہے اور دوسرے زمانے میں وہی چیز شر بن جاتی ہے، ایک زمانے میں ایک چیز شر ہے دوسرے زمانے میں وہی چیز خیرہوجاتی ہے، اسی طرح ایک چیز ایک ملک میں خیر ہے دوسرے ملک میں شر ہے ، ایک ماحول میں خیر ہے دوسرے ماحول میں شر ہے ، اسی کا نتیجہ ہے کہ جب سے سیکولر جمہوریت کا رواج ہوا ہے اس وقت سے مغرب میں بے حیائی، بداخلاقی اور جنسی بے راہ روی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ بادشاہت یا عیسائی تھیو کریسی کے دور میں اخلاقی بے راہ روی کا وہ طوفان نہیں اٹھا تھاجو جمہوریت کے بر سرکار ہونے کے بعد اٹھا ہے ۔ کوئی بد سے بد تر کام ایسا نہیں ہے جس کو آزادی کے نام پر سندِ جواز نہ دی گئی ہو یا کم از کم اس کا مطالبہ نہ کیا جارہا ہو ۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ نے ہم جنس پرستی کو سند جوازدی،اور اس کے جواز کا قانون تالیوں کی گونج میں منظور کیا گیا، یہ سب اس جمہوریت کی دین ہے جو نہ کسی اخلاقی قدروں کی پابند ہے اور نہ کسی آسمانی ہدایت سے فیضیاب ہے۔‘‘(9)
اب تک ہم نے جمہوری نظام حکومت کے اصول و مقاصد کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا ، آئندہ سطور میں ہم یہ دیکھیں گے کہ اسلام میں سیاست کے کیا اصول ہیں ؟ اسلام کے ان اصولوں کے ذکرکے بعد ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہو جائے گا کہ اسلام اور جمہوری نظام کے بعض اصولوں کے درمیان کتنا فرق اور کس قدر بعد المشرقین پایا جاتاہے ۔
اسلام میں سیاست کے اصول :
1۔ اسلام کے سیاسی نظام میں حاکمیت اعلی صرف اور صرف اللہ رب العزت کو حاصل ہے ۔ یہ اسلامی سیاست کے دستور کی سب سے پہلی اور بنیادی دفعہ ہے جس کو قرآن کریم نے مختلف الفاظ اور دو ٹوک انداز میں بیان کیا ہے ۔
ان الحکم الا للہ (الانعام :57)حاکمیت اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔
الا لہ الحکم (الانعام: 62) یاد رکھو حاکمیت صرف اسی کو حاصل ہے ۔
الا لہ الخلق و الامر (الاعراف: 54) یاد رکھ تخلیق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے۔
وللہ ملک السموات و الارض (آل عمران : 189) اور آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کو حاصل ہے۔
یہ اور اس قسم کی بے شمار آیات قرآن کریم میں موجود ہیں جو اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ حاکمیت اس کائنات میں صرف اللہ تعالی کی ہے جبکہ سیکولر جمہوریت میں حاکمیت کا حق عوام کے لیے تسلیم کیا گیا ہے۔
2۔ اسلامی سیاست کا دوسرا اصول یہ ہے کہ قانون کا مصدر و ماخذ قرآن و سنت ہے جبکہ جمہوریت میں قانون کا مصدر بھی عوام اور عوام کی اکثریت ہے ۔ عوام کی اکثریت جیساچاہے قانون بنا سکتی ہے، اس پر کوئی اخلاقی بندش اور مذہبی رکاوٹ نہیں ہے جیساکہ ما قبل میں اس کی تفصیل آچکی ہے ۔
3۔ اسلام میں حکومت کا مقصد انسانی آزادی ، بنیادی حقوق اور انسانی مساوات کے قیام کے علاوہ اچھائی اور خیر کو فروغ دینا اور برائی کا خاتمہ کرنا بھی ہے ۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں :
الذین ان مکناھم فی الارض اقامو الصلوۃ و آتو الزکوۃ و امرو بالمعروف و نھوا عن المنکر و للہ عاقبۃ الامور (الحج : 41)
)یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار عطا کریں تو یہ نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔(
4۔ اسلام میں خلافت و حکومت ایک ذمہ داری ہے، حق نہیں جسے حاصل کرنے کے لیے انسان جدو جہد کرے ۔ نبی کریم کا ارشاد ہے :
الامام راع ومسؤل عن رعیتہ (10)یعنی حکومت کا سربراہ نگراں ہے اور جن کی نگرانی اس کے سپرد ہے ان کے بارے میں اس کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔
5۔ اسلام میں مذہب اور سیاست میں تفریق نہیں ہے ،کیوں کہ اسلام میں مذہب زندگی کا ایک ضمیمہ نہیں بلکہ پوری زندگی پر حاوی ایک نظامِ حیات ہے ، وہ خدا اور بندے کے تعلق کے علاوہ انسان اور انسان کے تعلق ، نیز انسان اور کائنات کے تعلق سے بھی بحث کرتاہے ۔
6۔ موجودہ زمانے میں بنیادی حقوق اور انسانی آزادیوں کے تحفظ پر بڑا زور دیا جاتا ہے،لیکن اسلام نے بہت پہلے انسانی جان و مال کے احترام اور عقیدہ و فکر کی آزادی کی ضمانت دی ہے۔
قرآنی ارشاد : لا اکراہ فی الدین (11)
اور ارشاد نبوی : اترکوھم وما یدینون (12) (ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے دو ۔) میں اس کی بھر پور ضمانت دی گئی ہے۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے امور ہیں جو اسلامی سیاست کے اصول ہیں اور اسلامی سیاسی نظام اور جمہوری سیاسی نظام کے درمیان ما بہ الامتیاز اور خط فاصل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
جمہوریت کے بارے میں مسلم علما اور مفکرین کے اقوال و آرا :
مسلم اصحاب فکر و دانش میں بہت سے لوگوں نے جمہوریت پر لکھا اور کلام کیا ہے ، ان میں بعض نے جمہوریت کے حوالے سے مثبت اور بعض نے منفی خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ مسلمان مفکرین میں جمہوریت کے خلاف سب سے مؤثر اور طاقتور آواز علامہ اقبال کی ہے ۔ اقبال نے نثر میں اپنے خیالات کا اظہار تو بہت باریک اور دقیق انداز میں کیا ہے مگر شاعری میں بڑی قوت و توانائی اور بڑی وضاحت کے ساتھ جمہوری نظام کی خامیوں اور نقائص بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں :
ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
ایک دوسری جگہ اس سے بھی زیادہ واضح لفظوں میں جمہوریت اور اس کے انتخاب کے طریقے پر چوٹ کی ہے ، فرماتے ہیں :
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
علامہ اقبال مذہب اور سیاست کے درمیان تفریق کے سخت خلاف ہیں ؛ چنانچہ فرماتے ہیں :
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مفتی محمد تقی عثمانی جمہوریت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کے تحت بعض ایسے اصول دنیا میں پھیلے ،جنہوں نے بحیثیت مجموعی فرد کی آزادی کا فائدہ پہنچایا ، اس سے پہلے مطلق العنان حکومتیں اور بادشاہتیں تھیں یا ڈکٹیٹر شپ تھی ان میں جو جبرو تشدد اور جو ناروا پابندیاں تھیں، اس نظام میں اس کا بڑی حد تک خاتمہ ہوا اور لوگوں کے اظہار رائے پر جو قدغن تھی، وہ جمہوریت نے دور کی ؛لیکن اگر اس کے بنیادی تصور کے لحاظ سے دیکھیے، تو یہ نظام در حقیقت کسی سنجیدہ فکر پر مبنی نہیں ہے ؛بلکہ یہ صدیوں کے ان نظاموں کا رد عمل ہے ،جو خود ساختہ تصورات کے تحت لوگوں پر جابرانہ حکومت کر رہے تھے۔‘‘ (13)
جمہوریت کا سب سے بنیادی اصول، خصوصی امتیاز اور سب سے بڑی خوبی یہ باور کی جاتی ہے کہ اس نظام میں حاکمیتِ اعلی خود عوام کو حاصل ہے،اس اصول کو ہم خوبی کہیں یا خامی ؟اس کا اندازہ مفتی محمد تقی عثمانی کی اس تحریر سے لگایا جا سکتا ہے ،جو انہوں نے اس اصول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھی ہے، آپ رقمطراز ہیں :
’’سب سے پہلے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر سارے عوام حاکم ہیں تو محکوم کون ہے؟ محکوم زمین ہے یا ملک کی عمارتیں ہیں ؟حاکم ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کوئی محکوم بھی ہو،جب عوام کو حاکم قرار دے دیا گیا، تو محکوم کا کوئی وجود ہی نہیں رہا ، سب کے سب حاکم ہو گئے اور جب سب کے سب حاکم ہوں تو یہ انارکی ہے اور اگریہ کہا جائے کہ عوام خود ہی حاکم اور خود ہی محکوم ہیں، تو یہ بات کسی منطق کی رو سے درست نہیں ہوتی کہ ایک ہی شخص کو حاکم ، محکوم اور ذریعہ حکومت سب قرار دے دیا جائے ، لہذا عوام کی حکومت کا جو بنیادی تصور ہے وہ مفقود ہو گیا ۔‘‘(14)
آگے مزید لکھتے ہیں کہ :
’’عوام کی حاکمیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ در حقیقت یہ لفظ بھی ایک بہت بڑا دھوکہ ہے ، اس لفظ کے ذریعہ عوام کو خوش کردیا گیا ہے کہ تم حاکم بن گئے لیکن ہوتا یہ ہے کہ حکومت میں عوام کی شرکت محض ایک تخیلاتی اور تصوراتی حیثیت رکھتی ہے ، عملاً اکثر جگہوں پر عوام کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ حکومت کیا کر رہی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کی حمایت کرنے والے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ جمہوریت کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب عوام میں تعلیم کا معیار بلند ہو ، ان میں سیاسی شعور ہو ، لیکن اگر تعلیم کا معیار بلند نہیں ہے تو ایسی صورت میں حکومت میں عوام کی شرکت نہیں ہوتی ؛بلکہ لیڈران انہیں گمراہ کرتے ہیں ، جو نعرہ لیڈروں نے لگا دیا اس پر چل پڑتے ہیں ۔اسی وجہ سے جن ملکوں میں تعلیم کا معیار بلند ہے، وہاں جمہوریت نسبتاً زیادہ مستحکم ہے اور جہاں تعلیم کا معیار گرا ہوا ہے وہاں جمہوریت ایک دھوکہ کے سواکچھ نہیں ہے۔‘‘(15)
پروفیسر نجات اللہ صدیقی کہتے ہیں کہ جمہوریت کے نمائندے جب عوام کی حاکمیت کا لفظ بولتے ہیں، تو ان کی مراد ہر گز بھی یہ نہیں ہوتی کہ وہ خدا کی حاکمیت کا انکار کر رہے ہیں ؛بلکہ ان کی مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ اب پاپائیت، ملوکیت اور آمریت نہیں چلے گی ؛بلکہ عوام کے امور و معاملات میں عوام کا بھی حصہ ہوگا ، وہ بھی مختلف ایشوز پر اپنی رائے دے سکیں گے اور اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے ۔ان کے کہنے کے مطابق جمہوری نظام اور اسلامی نظام کے درمیان اختلاف محض نزاعِ لفظی ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد جو عصرِ حاضر میں نظامِ خلافت کے سب سے پر جوش داعی رہے ہیں، وہ مختلف مروجہ نظامہائے سیاست کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ :
’’خلافت کا نظام صدارتی نظام سے قریب تر ہے ، میں ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ پارلیمانی اور صدارتی دونوں نظام جائز ہیں۔وحدانی نظام ، وفاقی نظام اور کنفیڈرل نظام سب جائز ہیں، دنیا میں کئی سیاسی نظام چل رہے ہیں۔ وحدانی صدارتی ، وفاقی صدارتی (جو امریکہ میں ہے)،کنفیڈرل صدارتی،پھر پارلیمانی، وفاقی پارلیمانی اور کنفیڈرل پارلیمانی یہ چھ کے چھ جائز ہیں ۔‘‘(16)
ڈاکٹر عبد الحق انصاری نے اس سلسلے میں اور زیادہ وضاحت کی ہے ، فرماتے ہیں :
جمہوریت کا اطلاق تین معنوں میں ہوتا ہے :
1۔ وہ ریاست جس میں حاکمیت کا حقدار ریاست کے جمہور کو مانا جاتا ہے اور جہاں قانون کا ماخذ کوئی خاندان، طبقہ یا فرد نہیں ہوتا جمہور ہوتا ہے۔
2۔ وہ طرزِ حکمرانی جس میں حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کی ہوتی ہے ، موروثی طور پر کسی خانوادہ یا مخصوص طبقہ یا مخصوص افراد کی نہیں ہوتی ہے۔
3۔ جمہوریت کچھ قدروں کا نام بھی ہے جس میں فکر و خیال کی آزادی،بنیادی حقوق کا تحفظ ، قانون کی بالا دستی ہر ایک کے لیے ترقی کے یکساں مواقع وغیرہ شامل ہیں۔
جمہوریت کے ان تینوں مفہوم میں سے پہلے مفہوم اور اسلامی سیاست کے درمیان تو کھلا تصادم ہے ، کیوں کہ اسلامی طرز حکومت میں حاکمیت جمہور کی نہیں اللہ تعالی کی ہوتی ہے اور قانون کا ماخذ جمہور نہیں کتاب و سنت ہوتے ہیں ۔البتہ دوسرے دو معنوں کے اعتبار سے اسلام اور جمہوریت کوئی تضاد اور تصادم نہیں ہے ، اسی مناسبت سے اسلامی حکومت کو بھی اسلامی جمہوریت کہہ دیا جاتا ہے۔(17)
جو لوگ موجودہ دور کی پیچیدگیوں اور بین الاقوامی نزاکتوں سے اچھی طرح واقف ہیں وہ جمہوریت کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں ، چنانچہ جمہوریت اور اسلام کے بارے میں ایک معتدل اور قابل عمل رائے شیخ راشد الغنوشی کی ہے ، وہ لکھتے ہیں :
اسلام اور جمہوریت میں کوئی تضاد نہیں ہے، جمہوریت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت بالخصوص سیکولر عناصر کی ہو اور اس میں اسلام پسند عناصر کو اسٹیٹ کا دشمن تصور کیا جائے اور ان کو جیلوں میں ڈال دیا جائے یا جلا وطن کردیا جائے ، اسی طرح اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر سیکولر عناصر انتخاب میں حصہ نہ لیں تو ان کو اقتدار سے بالکل محروم کر دیا جائے یا آئین سازی میں ان کا حق محدود کر دیا جائے ، اسی طرح اسلام پسندوں کے اقتدار میں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ انتخابات جیت کر حکومت ومعاشرہ پر زبردستی مسلط ہوجائیں یہ چیز تو استبدادی نظاموں میں ہوتی ہے ، ریاست کا کردار عوام پر ایک مخصوص طرز زندگی مسلط کرنا نہیں بلکہ اس کا کردار عوام کو تحفظ فراہم کرنا اور ان کی ضروریات کی تکمیل ہے ، اس کے بعد یہ ہے کہ وہ عوام کو اپنی پسند کا طرز زندگی اختیار کرنے کی آزادی دے ۔ ہمارے ملک میں سیکولر اور اسلام پسندوں کے درمیان کئی عشروں سے تصادم جاری ہے جس کے باعث بہت سی توانائیاں ضائع ہوگئیں اور اسی وجہ سے ملک پر بار بار آمر اور ڈکٹیٹر مسلط ہوتے رہے ، اس لیے اسلام پسندوں اور سیکولر عناصر کے مابین اتحاد ایک آزاد اور جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے جو اپنے اختلافات کو سنجیدہ اور مخلصانہ مکالمے کے ذریعے حل کر سکے ، آئین ایک اہم دستاویز ہے جو حکومت اور انتظامیہ کی حدود کا تعین کرتا ہے اور انہیں قانون کا پابند بناتا ہے ، اسلامی تاریخ میں میثاقِ مدینہ اس کی بین مثال ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست کی تشکیل کی بنیاد بنا ، اس آئین نے ایک ہمہ جہتی ریاست کو تشکیل دیا جو مختلف اقوام و مذاہب کو قریب لانے کا باعث بنا اور جس میں شہریت کی بنیاد حقوق و فرائض پر رکھی گئی تھی ۔
خلاصہ :
جمہوریت کا آغاز یونان میں ہوا، اٹھارہویں صدی عیسوی میں اس نے نئی کروٹ لی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے سب سے مقبول و پسندیدہ نظامِ سیاست کی حیثیت حاصل کرلی ، جمہوریت نے انسانوں کو ڈکٹیٹر شپ، آمریت اور عیسائی تھیوکریسی سے نجات دلایا ، انسانوں کو آزادی ،مساوات اور حقوق کا تحفظ عطا کیا لیکن اس نے اس قدر بے مہار آزادی عطا کردی کہ لوگ روحانیت اور اخلاقیات سے عاری ہوگئے ، اور پوری روئے زمین فحاشی و عریانیت اور بے حیائی و بد اخلاقی کی آماجگاہ بن گئی۔
جمہوریت میں بہت سی اچھائیاں بھی ہیں تو بہت سی خرابیاں بھی ۔ اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں حاکمیتِ اعلی اللہ رب العزت کے بجائے عوام کے لیے تسلیم کیا گیا ہے ، اور قانون کا مصدر و ماخذ کتاب و سنت اور وحیِ الہی کے بجائے خود عوام کو قرار دیا گیا ہے ۔ اس کی آزادی میں کہیں بھی اخلاقی بندش نہیں ہے اور کہیں بھی اچھائی کے فروغ اور برائی کے خاتمے کی بات نہیں کی گئی ہے جس کے سنگین نتائج سے آج پوری دنیائے انسانیت جھوجھ رہی ہے ۔ تاہم آج کی بین الاقوامی نزاکتوں کے پیش نظر اس کی خرابیوں سے دامن بچاتے ہوئے اس کی اچھائیوں کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اسلام کے اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے جمہوریت اور دوسرے نظامہائے سیاست سے تمدنی، تکنیکی اورانتظامی امور میں استفادہ کیا جا سکتا ہے ، اور انتم اعلم بامور دنیاکم (18)( تم اپنے دنیا کے امور مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہو۔)جیسی نص اس سلسلے میں رہنما اصول بن سکتی ہے ، نیز علما و مفکرین کے مذکورہ بالا اقوال کی روشنی میں جمہوریت کے حوالے سے اعتدال کی راہ اختیار کرنا ہی مناسب ہے۔
حواشی :
(1) فیض آبادی ،محمد محمود، مبادیِ سیاسیات ،ص:112،فاؤنڈیشن فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ، نئی دہلی 1998
(2) عثمانی، مفتی محمد تقی ، اسلام اور سیاسی نظریات ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند 2011،ص:80
(3) ایضاً ص: 81-82
(4) ایضاً ص:83-89
(5) ڈاکٹر عبد القیوم ، علم سیاسیات ، تصورات، نظریات و ادارے ، نصاب پبلیشرز حیدرآباد 2014،ص : 200-202
(6) ایضاً ص: 202
(7) ایضاً ص:203-204
(8) عثمانی، مفتی محمد تقی ، اسلام اور سیاسی نظریات ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند 2011، ص:147
(9) ایضاً ص: 148-149
(10) صحیح البخاری ، کتاب الجمعہ : حدیث نمبر 893
(11) سورۃ البقرۃ : 256
(12) عثمانی، مفتی محمد تقی ، اسلام اور سیاسی نظریات ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند 2011،ص:195
(13) عثمانی، مفتی محمد تقی ، اسلام اور سیاسی نظریات ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند 2011، ص:145
(14) ایضاً ص: 146
(15) ایضاً ص: 152
(16)
(17)
(18)صحیح مسلم : حدیث نمبر 6127
کتابیات :
* مودودی ،سید ابوالاعلی، اسلامی ریاست، فرید بکڈپو نئی دہلی 2004
* عثمانی، مفتی محمد تقی ، اسلام اور سیاسی نظریات ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند 2011
* ڈاکٹر عبد القیوم ، علم سیاسیات ، تصورات، نظریات و ادارے ، نصاب پبلیشرز حیدرآباد 2014
* فیض آبادی ،محمد محمود، مبادیِ سیاسیات ،فاؤنڈیشن فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ، نئی دہلی 1998
* سندیلوی، محمد اسحق، اسلام کا سیاسی نظام ، دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڈھ 2014