معوذ سید
28 دسمبر 2018 کو لوک سبھا میں منظور ہونے والا تحفظِ مسلم خواتین (طلاق ثلاثہ) بل اور 8 جنوری 2019 کو منظور ہونے والا شہریت ترمیمی بل دونوں آج 13 فروری 2019 کو آئین کی دفعہ 107 کی رو سے پارلیمنٹ میں ساقط قرار دے دیے گئے، تقریباً دو ہفتے قبل وزیرِ پارلیمانی امور نریندر سنگھ تومر نے اپوزیشن پارٹیوں سے میٹنگ کے بعد واضح کر دیا تھا کہ کہ حکومت دونوں مذکورہ بِلز کو راجیہ سبھا میں پیش نہیں کرے گی ـ
بنیادی طور پر پارلیمنٹ میں کسی بل کو ایکٹ کی حیثیت حاصل کرنے کے لیے بالترتیب تین مراحل سے گزرنا ہوتا ہے، لوک سبھا کی منظوری، راجیہ سبھا کی منظوری اور صدرجمہوریہ کی منظوری. آئین کی دفعہ 107 کی پانچویں اور آخری شق کے مطابق "اگر کوئی بِل لوک سبھا میں منظور ہو چکا ہو اور راجیہ سبھا میں زیرِ غور (پینڈنگ) ہو تو ایسا بِل لوک سبھا کے تحلیل ہو جانے کی صورت میں ساقط ہو جائے گاـ” یعنی اس بل کو لوک سبھا میں جو منظوری ملی تھی وہ کالعدم ہو جائے گی اور نئی لوک سبھا قائم ہونے کے بعد اسے نئے سرے سے دوبارہ لوک سبھا میں پیش کیا جائے گا. مذکورہ بل کے ساتھ ایسی ہی صورتِ حال پیش آئی. آج 13 فروری 2019 موجودہ حکومت کی مدت میں پارلیمانی اجلاس کی کارروائی کا آخری دن تھا، اس کے بعد اپریل مئی میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں لوک سبھا تحلیل ہو جائے گی اور سترہویں لوک سبھا قائم ہو گی. چونکہ طلاق ثلاثہ بل لوک سبھا میں منظور ہو چکا تھا اور راجیہ سبھا میں اس کے زیرغور رہنے کے دوران ہی لوک سبھا تحلیل ہو جائے گی، لہٰذا آئین کی دفعہ 107 کی رو سے طلاق ثلاثہ بلور شہریت ترمیمی بل ساقط قرار پا گئے اور لوک سبھا میں بی جے پی کی واضح اکثریت کی جانب سے انہیں جو منظوری ملی تھی وہ کالعدم ہو گئی، اب اپریل-مئی میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی سترہویں لوک سبھا میں اس بل کو دوبارہ پیش کیا جانا ہو گا جہاں اسے دوبارہ بحث و تمحیص اور ترمیم و رائے شماری کے مراحل سے گزر کر راجیہ سبھا کا رخ کرنا ہو گاـ
13 فروری, 2019
قومی اردو کونسل کے وفد کی جھارکھنڈ کے چیف سکریٹری سے ملاقات،اردو اکیڈمی کے قیام کی اپیل
نئی دہلی:
ریاست جھارکھنڈ میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے لیکن یہاں اردو کی صورت حال بہتر نہیں ہے اور نا ہی یہاں اردو اکیڈمی قائم کی گئی ہے۔ ہم نے اِس سلسلے میں کونسل کے وائس چیئرمین کے ساتھ جھارکھنڈ کے چیف سکریٹری جناب سدھیر چودھری اور ریاست کے متعلقہ محکموں کے سکریٹریوں سے ملاقات کی ہے جس میں انھوں نے یقین دلایا ہے کہ ریاست میں جلد ہی اردو اکیڈمی قائم کی جائے گی۔ یہ باتیں قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے جھارکھنڈ کے اپنے حالیہ دورے کے تناظر میں کہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ قومی اردو کونسل ساری دنیا میں اردو کے فروغ کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور ہمارا مقصد پورے ہندوستان میں اردو کا فروغ ہے۔ ہم نے جھارکھنڈ کی ریاستی حکومت سے ریاست میں اردو کے مسائل پر تفصیلی گفتگو کی اور ان سے اردو اکیڈمی کے قیام، مدارس کے ملازمین کی تنخواہوں کی وقت پر ادائیگی، سرکاری وغیر سرکاری اسکولو ں میں اردو کی تعلیم، اردو اساتذہ کی بحالی، ابتدائی و ثانوی سطح پر اسکولوں میں اردو کتابوں کی فراہمی، عالم و فاضل امتحانات کو یونیورسٹی کے ذریعے منعقد کرائے جانے، بلاک اور ضلع سطح پر اردو ٹائپسٹ اور اردو مترجمین کی بحالی جیسے مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔ یہ ملاقات بہت خوشگوار رہی اور چیف سکریٹری صاحب نے ہماری باتیں توجہ سے سنیں اور ان پر عمل آوری کے لیے متعلقہ افسران کو احکام بھی جاری کردیے۔ کونسل کے اس وفد میں کونسل کے وائس چیئرمین ڈاکٹر شاہد اختر، ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد، ریسرچ آفیسرز ڈاکٹر کلیم اللہ و انتخاب عالم شامل تھے۔
ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ ہمارے وائس چیئرمین ڈاکٹر شاہد اختر جھارکھنڈ سے ہی ہیں اور وہ اپنی ریاست میں اردو کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہم سب کوشش کررہے ہیں۔ کونسل کی اسکیموں کو اردو اکادمی کے تعاون سے ہم موثر ڈھنگ سے ریاست میں نافذ کرسکتے ہیں۔ ہم نے جھارکھنڈ کی مختلف اردو تنظیموں و اداروں کے سربراہان سے بھی ملاقات کی اور ان سے اردو زبان کے موجودہ حالات پر گفت و شنید کی۔ رانچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر آر کے پانڈے، رجسٹرار ڈاکٹر امرکمار چودھری، سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اے اے خان، سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر ابوذر عثمانی وغیرہ نے بھی کونسل کے اس قدم کی ستائش کی اور ہر ممکن تعاون دینے کی یقین دہانی کرائی۔ رانچی یونیورسٹی کے آریہ بھٹ آڈیٹوریم میں بھی سیکڑوں کی تعداد میں اردو نوازوں نے کونسل کے ذریعے منعقدہ مذاکرے میں اپنی موجودگی درج کرائی اور اردو دوستی کا ثبوت دیا۔ سبھی نے بنیادی سطح پر فروغِ اردو کی اس کوشش کے لیے کونسل کی تعریف کی۔ واضح ہو کہ کونسل کی جانب سے پورے ملک میں لوگوں کو اردو زبان کی جانب راغب کرنے کے لیے پروگرام کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں گوا اور جھارکھنڈ میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اب اسی ماہ میں آسام اور منی پور میں پروگرام کا اہتمام کیا جارہا ہے تاکہ اردو کو گھر گھر پہنچایا جاسکے۔
دہلی یونیورسٹی کے ذاکر حسین دہلی کالج (صبح ) میں بزم ادب شعبٔہ اردو کی جانب سے اردو مضمون نگاری مقابلہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت شعبٔہ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر جعفر احراری نے کی اس مقابلہ میں بی ۔اے اردو آنرس ، فاسی آنرس ، عربی آنرس اور بی اے پروگرام کے طلبہ و طالبات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس موقع پر ڈاکٹر شاہ عالم نے مضمون نگاری کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی اور انہوں نے کہا آج کے اس دور میں طلبا میں لکھنے کا جزبہ ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اردو ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب ہے آج کے اس مقابلہ جاتی دور میں اردو زبان کسی سے کم نہیں ساتھ ہی طلبا کی حوصلہ افزائی کی اس کے بعد پروگرام کے آخر میں بزم ادب کے صدر ڈاکٹر اعلم شمس نے سبھی کا شکریہ ادا کیا پروگرام میں شعبہ کے دیگر اساتذہ ڈاکٹر ممتاز فاخرہ ،ڈاکٹر سفینہ ، پشپندر کمار وغیرہ نے شرکت کی
اردواکادمی ،دہلی کے زیراہتمام سالانہ ایوارڈ تقریب برائے ۱۸۔۲۰۱۷ء کا انعقاد
زبان وادب اورصحافت کی خدمت کرنے والی مختلف شخصیات کواعزازات سے نوازاگیا
نئی دہلی :اردواکادمی ،دہلی کے زیراہتمام سالانہ ایوارڈ تقریب برائے ۱۸۔۲۰۱۷کا انعقادآڈیٹوریم ،دہلی سکریٹریٹ ،آئی پی ایسٹیٹ ،نئی دہلی میں ہوا۔اس پروگرام میں استقبالیہ تقریرکرتے ہوئے اردو اکادمی کے وائس چیئرمین پروفیسرشہپررسول نے کہاکہ اردو اکادمی ادب وادب کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے ۔اردو اکادمی ہرسال ادیبوں کی خدمت میں ایوارڈ پیش کرتی ہے ۔قلم گویدکہ من شاہ جہانم،یہ پروگرام قلم کاروں کاجشن ہے ،ادیبوں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ ادب کی بیش بہاخدمات میں صرف کی ہیں ۔ادب کی مختلف شاخیں ہیں ،ان کی خدمات کااعتراف کرنا اردو اکادمی کا فرض ہے ۔وزیراعلی اور نائب وزیراعلی اردو تہذیب وادب اورزبان کی پذیرائی کرتے رہتے ہیں اورہمیشہ اردو اکادمی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔میں اس پروگرام میں موجودنائب وزیراعلی منیش سسودیا، تمام ایوارڈ یافتگان اورحاضرین کاپرخلوص استقبال کرتاہوں ۔پروگرام کے مہمان خصوصی اور دہلی کے نائب وزیراعلی منیش سسودیا نے کہا کہ دراصل یہ ایوارڈ ادیبوں کی خدمات کا اعتراف ہے ۔میں تمام ایوارڈ یافتگان ادیبوں کا شکریہ اداکرتاہوں کہ آپ سب نے اردو اکادمی کا ایوارڈ قبول کیا۔میری کوشش ہوتی ہے کہ تمام زبانوں بشمول اردوکے فروغ کو یقینی بنایا جائے ۔اسکولوں اور مدرسوں میں اسناد کے حصول کے لیے تعلیم دی جاتی ہے ،مگرادب زندگی کا سلیقہ سکھاتی ہے ۔آپ سب نے اردو کی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں جس کا اعتراف ہمارا فرض ہے ۔دہلی حکومت نے یہاں ۱۵زبانوں کی اکادمیاں قائم کی ہیں ۔ملک کی تمام زبانوں کی اکادمیاں ہمیں قائم کرنی ہیں ۔مجھے امید ہے کہ تمام اکادمیاں عنقریب اردواکادمی کی طرح متحرک وفعال ہوجائیں گی ۔جو کام شاعر ،تخلیق کاراور ڈرامہ نگار کرتے ہیں وہ بہت اہم ہیں ۔ملک کی تاریخ میں اردوثقافت میلہ اردواکادمی کا بڑا کارنامہ ہے ۔دہلی حکومت نے نئی نسل تک اردو کو پہنچانے کی بھرپورکوشش کی ہے ۔اس طرح کے مزیدپروگرام ہم کرتے رہیں گے،ان تمام لوگوں کی قدرکرتے ہیں ،جو اردو کی خدمات انجام دے رہے ہیں اوراردوکے فروغ کو یقینی بنارہے ہیں۔
اس موقع پراردواکادمی کے سکریٹری ایس ایم علی نے کہاکہ نائب وزیراعلی ، تمام ایوارڈیافتگان اورحاضرین وسامعین کا بہت بہت شکریہ کہ آپ سب اردو اکادمی کے پروگراموں میں خوش دلی کے ساتھ شرکت کرتے ہیں ۔دہلی کے وزیراعلی اورنائب وزیراعلی کا بہت بہت شکریہ کہ وہ اردو کے فروغ کے لیے کمربستہ اور عہدبستہ ہیں ،اردواکادمی کے تمام پروگراموں کو سراہتے ہیں اور شریک بھی ہوتے ہیں ۔اس پروگرام کی نظامت اطہرسعیداور ریشما فاروقی نے کی ۔
اس موقع پر دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین پروفیسرشہپررسول نے نائب وزیراعلی کا استقبال گلدستہ پیش کرکے کیا اور نائب وزیراعلی نے تمام ایوارڈ یافتگان کو گلدستہ پیش کیا ۔خیال رہے کہ سالانہ ایوارڈ تقریب میں کل ہندبہادرشاہ ظفر ایوارڈ معروف ادیب مجتبی حسین کو دیا گیا ۔اس ایوارڈ کی رقم ڈیڑھ لاکھ روپے ہے،پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی ایوارڈڈاکٹرفیروزدہلوی کی خدمت میں پیش کیا گیا ،اس ایوارڈ کی رقم بھی رقم ڈیڑھ لاکھ روپے ہے۔ایوارڈ برائے تحقیق وتنقید پروفیسرحنیف کیفی کو،ایوارڈ برائے تخلیقی نثرڈاکٹر خالدجاویدکو،ایوارڈ برائے شاعری پروفیسرخالد محمود،ایوارڈ برائے صحافت منصورآغا،ایوارڈ برائے ترجمہ نگاری عبدالنصیب خان اور ایوارڈ برائے ڈراما ڈاکٹر ایم سعید عالم کو پیش کیا گیا ۔ان ایوارڈ ز کی رقم ۵۰ ۔۵۰ ہزارروپے ہے۔ تمام ایوارڈ یافتگان کی خدمت میں نائب وزیراعلی منیش سسودیا نے شال ،سند،مومنٹو اور نقدانعامات سے نوازا۔
عبدالباری مسعود
ہندوستان کا میڈیا (باستثناچند)آج اعتباریت کے شدید بحران سے دوچار ہے،یہاں تک کہ عالمی درجہ بندی میں ہندوستان کا مقام سال 2018میں مزید دو مقام نیچے گر کر افغانستان سے بھی نیچے 138؍ویں مقام پر پہنچ گیا ہے ۔ ایمرجنسی کے دور میں بھی اس کی ایسی افسوسناک حالت نہیں تھی ، جس کے بارے میں بی جے پی کے بزرگ ترین لیڈر ایل کے ایڈوانی (جنہیں اب پارٹی میں حاشیے پر ڈال دیا گیا ہے ) کے تبصرے کی باز گشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ ایڈوانی نے کہا تھا کہ ’’ میڈیا کو جھکنے کے لئے کہا گیا تھا ،مگر وہ رینگنے لگا۔‘‘ لیکن آج تو بیشتر اخبارات اور نیوز چینل حکومت وقت کے عملاً ترجمان معلوم ہوتے ہیں۔ آج ہر ایک کو یہ شکایت ہے کہ میڈیا صحافتی تقاضوں اور اصولوں کا خیال نہیں رکھ رہا ہے،اس کے متعدد عوامل ہیں،ان میں سب سے نمایاں اور کلیدی وجہ ، ملک کے دیگر اداروں کی طرح میڈیا کا نمائندہ نہ ہونا ہے ،جس پر چند مخصوص طبقات ،جو اقلیت میں ہیں، مگر پیدائشی طور پر مراعات یافتہ ہیں، کا تصرف اور تسلط ہے اور ملک کی اکثریتی آبادی کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے ۔
بلا شبہ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے ،مگر پریس کی آزادی کی جو تشویشناک صورت حال ہے ،وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ہندی ہو یا انگریزی یا علاقائی زبانوں کا میڈیا، بالخصوص الیکٹرانک میڈیا سے عموما یہ شکایت رہتی ہے کہ وہ مسلمانوں اور کمزور طبقات کو نظر انداز کرتا ہے یا ان سے متعلق امور میں معروضیت ، غیر جانبداری اور صحافتی اخلاق و ضوابط کا کوئی خاص خیال نہیں رکھتا ۔
جمہوری نظام کی عمارت میں ذرارئعِ ابلاغ یا صحافت کو چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہے ،جس کا کام حکومتِ وقت کا معروضی محاسبہ کرکے عوامی مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے ،مگرجب سے یہ حکومت بر سر اقتدار آئی ہے، تب سے وہ حکمراں جماعت کا ترجمان سا بن گیاہے ،اس کے بیانیے میں جارحانہ پن اور قوم پرستی کا عنصر بہت نمایاں ہوگیا ہے، اختلاف رائے اور مختلف نقطہ نظر کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں رہ گی ہے ۔حکومت کی نکتہ چینی اور اسکی پالیسیوں سے اختلاف رائے کو ملک دشمنی پر محمول کیا جانے لگا ہے،جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ سال 2016 میں بغاوت اور ملک سے غداری کے 40؍ مقدمے قائم کئے گئے۔ ایک فلم ،جس میں ایک ہندو افسانوی رانی کو دکھایا گیا ہے، اس کے خلاف پورے ملک میں ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کیا گیا ،فلم کے اداکاروں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو میڈیا کے سخت نکتہ چیں ہیں ،جو خود پریس کونسل آف انڈیا کے چیئر مین بھی رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میڈیا کا 90؍ فی صد کوریج فروعی اور بے اصل مسائل پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ اصل مسائل کی طرف توجہ دس فی صد ہوتی ہے ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی ناکامیوں کی طرف سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے وہ نئے نئے ایشو تلاش کرتا ہے ، خاص طور پرٹی وی چینلوں کا یہ محبوب مشغلہ ہے کہ وہ فروعی موضوعات پر بحث کراتے ہیں اور ٹی وی اسکرینوں پربحث کی محفلیں مچھلی بازار کا منظر پیش کرتی ہیں۔
میڈیامیں سنگین مسائل جیسے بڑے کے گوشت پابندی، ماب لنچنگ ، یونیورسٹیوں میں بے چینی اور طلبا کا احتجاج ، عوامی بے چینی ، دلتوں اور کمزور طبقات پر مظالم ، مہنگائی ، بے روزگاری ، کرپشن کے بڑے بڑے اسکنڈل کو نظر انداز کرنا، جن میں مبینہ طور پرحکمراں جماعت سے وابستہ حکومتی اہلکار اور افراد ملوث ہیں وغیرہ کا سر ی سری طور پر تذکرہ ہوتا ہے یا بعض چینل اور اخبارات بڑی دھٹائی سے حکمرانوں کا دفاع کرنے لگتے ہیں۔
اس کی تازہ مثال آکسفام نامی ایک بین الاقوامی چیرٹی تنظیم کی سالانہ رپورٹ ہے،اس میں یہ انکشاف کیاگیاہے کہ انڈیا کے امیر ترین 9 ؍افراد کی دولت نیچے سے50؍ فی صد آبادی کے مساوی ہے۔آکسفام کی سربراہ Winnie Byanyima کے بقول ’’ یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ انڈیا کے بعض امیر ترین افراد دولت کا انبار لگا رہے ہیں ،وہیں دوسری طرف غریب آبادی کو دووقت کے کھانے یا بچوں کی دوا خریدنے کیلئے جد وجہد کرنی پڑ رہی ہے ۔‘‘ رپورٹ کے مطابق غریب ترین 13.6 کروڑ ہندوستانی جو آبادی کا دس فی صد ہیں ،سال 2004 سے غربت و افلاس کا شکار ہیں۔ اسی طرح رپورٹ کے مطابق ملک کی 10 فی صد آبادی کے تصرف میں ملک کی مجموعی دولت کا 77.4 فی صد حصہ ہے اور گزشتہ سال 18؍ نئے ارب پتیوں کا اضافہ ہوا ہے، جنکی تعداد ا ب 119؍ ہوگئی ہے اور ان سب کی مجموعی دولت کی مالیت 28 لاکھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ رپورٹ ٹی وی ٹاک شو کا موضوع بن نہیں سکی۔
اسی طرح تفتیشی صحافت کے لئے مشہور کوبر اپوسٹ نے گزشتہ سال مئی میں بھی ایک اسٹنگ آپریشن کرکے متعدد میڈیا اداروں کو بے نقاب کیا تھا کہ وہ پیسے کی خاطر کچھ بھی کرنے کو آمادہ ہیں اور حکمراں جماعت کے ایجنڈے کی ترویج اپنا فریضہ سمجھ کرانجام دینے کے لئے تیار ہیں۔ کوبرا پوسٹ نے اس اسٹنگ آپریشن کا نام عالمی پریس انڈیکس (2017 World Press Freedom Index)میں ہندوستان کے 136؍ ویں مقام کی مناسبت سے "Operation 136” رکھا تھا ، جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ میڈیا اداروں کے ذمے داران اور سینئر صحافی حکمراں جماعت سے ہمدردی رکھتے ہیں اور پیسہ کے عوض اسکی تشہیر ی مہم چلانے کے لئے تیار ہیں،مگر اس کو میڈیا نے بڑی حد تک نظر انداز کردیا تھا، کچھ دن پہلے بھی کوبرا پوسٹ نے ایک کمپنی کی ذریعے31؍ہزا کروڑ روپے غبن کرنے کا انکشاف کیاتھا ،مگر اسے بھی دبا دیا گیا۔
مبصرین کے بقول ہندوستانی صحافت کا معیار بہت خراب اور کمزور ہے،میڈیا کی ایک عالمی تنظیم Reporters Without Borders, نے صحافت کے معیار کے لحاظ سے دنیا کے ملکوں کی درجہ بندی کی ہے، اس کے تحت 180 ؍کی فہرست یا درجہ بندی میں ہندوستان کا مقام در حقیقت 136؍ واں ہے، جہاں تک پریس کی آزادی کا معاملہ ہے ، ہندوستان کی حالت افغانستان اور متحدہ عرب امارات سے بھی خراب ہے،حال ہی میں منی پور کے ایک صحافی کو قومی سلامتی قانون NSAکے تحت گرفتار کیا گیا، ایسی درجنوں مثالیں ہیں۔
نوبل انعام یافتہ اور مشہورماہر معاشیات پروفیسر امرتیہ سین بھی ہندوستانی میڈیا کے بڑے ناقد ہیں ، انہوں نے اپنے ایک مضمون میں اس کا محاکمہ کیا تھا کہ ہندوستانی میڈیا میں ذات پات کی عصبیت پائی جاتی ہے،میڈیا کے تجزیہ کاروں کی یہ رائے ہے کہ دنیا کے بڑے میڈیا اداروں میں طبقاتی عصبیت پائی جاتی ہے ،مگرانڈیا کامعاملہ مختلف ہے۔ بقول پروفیسر سین ایک ایسا ملک ، جس کی ایک تہائی آبادی انتہائی غربت کا شکارہے ،جہاں معاشی عدم مساوات اور تفاوت کا بول بالا ہے، جو ملک کی نشوونما کے لئے سنگین مضمرات کے حامل ہیں ، وہاں میڈیااس پر توجہ نہیں دیتا۔
ملک میں اسوقت 70,000 سے زائد اخبارات اور 892؍سٹلائیٹ ٹی وی چینل ہیں، جن میں سے تقریباً403؍چینل حالات حاضرہ اور خبروں کے لئے مخصوص ہیں،اطلاعات و نشریات کی مرکزی وزارت نے پہلے 1031؍چینل شروع کرنے کی اجازت دی تھی، مگر گزشتہ سال 139؍چینلوں کے لائنسنس منسوخ کردیے گئے۔ آج ڈیجیٹل جرنلزم ( برقی صحافت ) کے عروج کے باوجود انڈیا پوری دنیا میں اخبارات کا سب سے بڑا مارکیٹ بھی ہے ، جہاں یومیہ دس کروڑ اخبارات کی کاپیاں فروخت ہوتی ہیں،اسی طرح ٹی وی چینلوں کی بھی اتنی بہتات ہوگئی ہے کہ ان کے نام بھی یاد رکھنا مشکل ہوگیا ہے ، جبکہ دو دہائی پہلے صرف ایک چینل ہوا کرتا تھا، وہ تھا سرکاری دور درشن چینل ،جس کے اب خود درجنوں چینل ہیں۔
دہلی کے ایک تحقیقی ادارہ Centre for the Study of Developing Societies نے سال 2006 میں ہندی اور انگریزی کے 37 ؍بڑے میڈیااداروں کے نیوز روم میں بر سرکار 315؍ اہم پالیسی سازوں (اعلی ادارتی عملہ )کاایک سروے کیا تھا ،جو اخبار میں کیا چھپے اورٹی وی چینل پر کیا نشر ہو، اس کا فیصلہ کرتے ہیں، سروے میں یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ ہندی اور انگریزی دونوں کے اخبارات اور نیوز چینلوں میں بالترتیب 90؍ اور79؍ فی صد فیصلہ ساز ادارتی عملہ کا تعلق ’’ اعلی ذاتوں ‘‘ سے ہے،اس شعبہ میں دلتوں کی عملاًکوئی نمائندگی نہیں ہے،جنکا آبادی میں تناسب 20 ؍فی صد سے زیادہ ہے، یہاں تک کہ سرکاری ادارے پرساربھارتی ( دور درشن اور آکاشوانی) میں ریزرویشن کے باوجود دلتوں کی ادارتی عملے میں نمائندگی عملاًصفر ہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعے کوپیش کرنا بے محل نہیں ہوگا۔ سابق صدر جمہوریہ آنجہانی کے آر نارائنن کو کوئی باضابطہ دلت رپورٹر نہیں مل سکا تھا، جب وہ نائب صدر تھے، انہیں ایک غیرملکی دورہ درپیش تھا، وہ اپنے ہمراہ ایک دلت رپورٹر کو لے جانا چاہتے تھے؛ لیکن انہیں ایسا کوئی رپورٹر نہیں مل سکا تھا ۔ نمائندگی کے اعتبار سے یہی صورت حال دیگر پسماندہ طبقات کی بھی ہے ،جن کا آبادی میں تناسب 52فی صد سے زیادہ ہے؛ لیکن ان کی نمائندگی برائے نام ہے ۔گو بعض مسلم نام بھی نظر آتے ہیں ،مگر ان میں سے چند ہی کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ پروفیسر سین کہتے ہیں کہ انڈین میڈیا کو امریکی اخباری اداروں سے سبق لینا چاہئے۔ 1975 میں امریکی ادارتی عملے میں محض 4 ؍فی صد سیاہ فام اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے افراد شامل تھے۔ تین سال مدیروں نے یہ عہد کیا کہ اقلیتوں کو ان کے تناسب کے اعتبار سے اخبارات میں نمائندگی دی جائے گی ۔ انہوں نے اسکالرشپ کا سلسلہ شروع کیا اور عملہ کی بھرتی کے لئے میلے منعقد کئے۔ سال2000 تک امریکہ کے 60؍ فی صد سے زیادہ یعنی 1,500 اخبارات نے اس عہد کی پاسداری کی۔
دہلی کے میڈیا اسٹڈیز گروپ نے بھی ہندی میڈیا امتیازی رجحانات کا احاطہ کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ اس پر پیدائشی مراعات یافتہ طبقات کا غلبہ ہے، جنہیں عرف عا م میں’’ اعلی ذاتیں ‘‘ کہا جاتا ہے ،جنہیں اس کے لئے مذہبی جواز بھی حاصل ہے ۔ میڈیا
اسٹڈیز گروپ نے ہندی میڈیا میں طبقاتی نمائندگی کا بھی ایک سروے کیا تھا، جس میں یہ معلوم ہوا کہ اس میں برہمن ، بنیوں ، کائستھوں دیگر اعلی ذاتوں کا مکمل غلبہ ہے، جن کی مجموعی آبادی 15؍فی صد بھی نہیں ہے ۔ اسی ادارے کی ایک دوسری اسٹڈی میں ہندی اخبارت میں میجر گوگوئی کو انعام دینے کے حوالے سے کشمیر کے بارے میں خبر نگاری کا جائزہ لیا گیاتھا اور اس میں جرمنی کے اس تاریخی واقعے کا ذکر کیاگیا تھا کہ نازی جرمنی میں 1930 کی دہائی میں یہودیوں کے خلاف نسلی بنیاد پر نفرت کی مہم میڈیا کے ذریعے چلائی گئی تھی ، بتایاگیا کہ ہندی صحافت میں نسل کی جگہ پر فرقہ پرستی اور ذات پرستی کو ہوا دینے کی مہم چلتی ہے، یہ مہم دراصل ملٹریرائزیشن مہم کا ایک حصہ ہوتی ہے ،جو زبان کی سطح سے کی جاتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی پریس فریڈم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ ہندو قوم پرست ( ہندتو) عناصر قومی ڈسکورس سے ان تمام افکار و نظریات کو ختم کرنا چاہتے ہیں ،جنہیں وہ ’’ ملک دشمن ‘‘ تصور کرتے ہیں اور مین اسٹریم میڈیا میں ازخود سنسر شپ self-censorship کا رجحان تیزی بڑ ھ رہا ہے ۔ سال 2018 کے انڈیکس میں ہندوستان کا مقام مزید دو مقام نیچے آگیا، وہ افغانستان کے بعد 138؍ مقام پر پہنچ گیا، میڈیا اپنا کھویا ہوا مقام اسی صورت میں حاصل کرسکتا ہے ،جب اسے تمام فرقوں اور طبقات کا نمائندہ بنایاجائے ۔
(مضمون نگار انگریزی نیوز پورٹل مسلم مرر کے ایڈیٹر ہیں)
راحت علی صدیقی قاسمی
شراب کی مضرت اور قباحت سے ہر ذی شعور واقف ہے، یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، جس کو ثابت کرنے کے لئے دلائل مہیا کرنے، توانائیاں صرف کرنے کی ضرورت ہو، انسان کا عقل و شعور شراب پوری طرح نگل لیتی ہے اور نشہ کی حالت میں انسانی زندگی وسماج جس بدتر صورت حال کا مشاہدہ کرتے ہیں ، وہ خوف زدہ کرنے والے ہیں، اور انتہائی تکلیف دہ ہے، شرابی جس طرح اپنی بیوی کو زدو کوب کرتے اور گالیاں دیتے ہیں، شرم و حیا عفت و عصمت کی قدر و قیمت سے بے بہرہ ہو جاتے ہیں، وہ بھی عیاں ہے، معاشرہ میں شرابیوں کا وجود ہی سینکڑوں قسم کی برائیوں کو پیدا کرنے کے لئے کافی ہے، ان سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شراب انسانوں کے استعمال کی چیز نہیں ہے ،اس کا استعمال معاشرہ کی تباہی کی تمہید ہے۔ اسلام نے شراب کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے استعمال پر حد مقرر کی ہے، جو 80 کوڑوں کی شکل میں ہے، شراب کے علاوہ وہ تمام اشیا جو نشہ آور ہیں، اسلام کی رو سے قابل استعمال نہیں ہے اور ان کے استعمال پر سزا دی جاتی ہے تاکہ معاشرے کو برائی سے بچایا جا سکے، اخلاقیات کا تحفظ کیا جا سکے، عفت و عصمت کا تحفظ کیا جا سکے، شرم و حیا کی چادر کو محفوظ رکھا جاسکے، انسانیت کے وقار کا تحفظ ہو سکے، قرآن نے شراب کو گندی چیزوں میں شمار کیا ہے، اور یہ بھی واضح کردیا کہ اگر کوئی شراب کی اہمیت و افادیت اور اس نفع رسانی پر دلائل پیش کرتا ہے، تو یاد رکھئے اس کا نقصان نفع پر سبقت لے گیا ہے۔ شراب کی خرابی اور گندگی جہاں سماجی اور مذہبی پہلو سے عیاں ہے، وہیں طبی نقطۂ نظر سے بھی اس کی قباحت واضح ہے، جس طرح وہ انسان کے جسم کو کھاتی ہے، اس کا ادارک تقریبا ہر انسان کو ہے، شراب کا استعمال اعضاء رئیسہ کوبالکل ناکارہ بنادیتا ہے، اطباء تو یہاں تک کہتے ہیں کہ شراب کا استعمال کرنے والوں کے پھیپھڑے بہت جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور چالیس سال کی عمر میں ان کی صورت حال 80 سالہ شخص کی سی ہوجاتی ہے، ہر سال لاکھوں مریض اطباء کے پاس ایسے پہونچتے ہیں، جن کو شراب کے استعمال کی وجہ سے ٹی بی ہوجاتی ہے، یاتمام اعضاء رئیسہ کام کرنا بند کردیتے ہیں، اور وہ زندگی جیسی قیمتی شئے سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، اور بسا اوقات زندہ لاش بن کر رہ جاتا ہے، اور اہلِ خانہ پل پل تڑپتے ہیں، اور اس کے علاج معالجے میں شب و روز لگے رہتے ہیں، اور تڑپتے رہتے ہیں،یہ تو عام شراب کی صورت حال ہے اور کچی شراب غرباء کی بستیوں میں جس کا چلن عام ہے، اس کی تباہی انتہائی ہولناک ہے، بسا اوقات بستیوں میں لاشیں اٹھانے والے کم پڑجاتے ہیں، آنسوؤں کا سیلاب آجاتا ہے، اس صورت حال کے باوجود ہمارے ملک میں کوئی شہر نظر نہیں آتا، جس میں شراب کی دوکانیں نا ہوں، ’’شراب کا سرکاری ٹھیکا‘‘یا’’کچی شراب یہاں ملتی ہے‘‘ یہ الفاظ بہت سے شراب خانوں پر لکھے رہتے ہیں، شراب کے اشتہارات بھی دیکھے جاسکتے ہیں، بالی ووڈ سے متعلق اداکار بھی شراب کا اشتہار کرنے میں گریز نہیں کرتے، شراب کی تشہیر کرتے ہیں، اپنی جیبیں گرم کرتے ہیں، سماج و معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اس سے انہیں کوئی غرض نہیں ہے۔ شراب کی خرید و فروخت پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے، سر عام شراب بیچی اور خریدی جاتی ہے، اور بس اس پر ایک جملے (شراب جان لیوا ہے)کو لکھ کر سمجھ لیا جاتا ہے، کہ ہم نے اپنا حق ادا کردیا ہے،حکومت اس سلسلے میں کبھی بھی متفکر نظر نہیں آتی ہے، ریاست بہار کی حکومت نے شراب بندی کرکے اپنی ذمہ داری کو بخوبی ادا کیا تھا، حالانکہ اس کے بعد بھی وہاں شراب نوشی کے واقعات کی خبریں موصول ہوئیں اور شراب سے جاں بحق ہونے کے معاملات بھی سامنے آئے، البتہ ان میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے اور سب سے زیادہ باعث تکلیف کچی شراب کا چلن ہے، جس میں شراب مافیا نفع کمانے اور اپنی جیبیں گرم کرنے کے لئے شراب میں زہر تک کا استعمال روا رکھتے ہیں اور شراب میں متھائیل نامی الکحل کا استعمال کرتے ہیں، جو انسانوں کے لئے جان لیوا ثابت ہوتا ہے، اور اس طرح کے واقعات ملک بھر میں کئی مرتبہ رونما ہوچکے ہیں، جن میں کثیر تعداد میں لوگوں نے جان گنوائی ہے، ماضی قریب میں اتراکھنڈ اور ضلع سہارن پور کے مختلف علاقوں میں میں انتہائی درد انگیز صورت حال رونما ہوئی ہے ، جس میں 124 لوگ زہریلی شراب کی نظر ہوگئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی سانس کی ڈور ٹوٹ گئی، اور بہت سے افراد ابھی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان افراد میں بہت سے ایسے بھی ہیں، جو پورے پریوار کے کفیل تھے ، ان کی موت صرف ایک جان کی موت نہیں ہے بلکہ پورے پریوار کی ہلاکت ہے، پورا خطہ حکومت کے خلاف احتجاج کررہا ہے، سیاسی جماعتیں بھی اس واقعہ پر افسوس کر رہی ہیں اور موجودہ حکومت پر طنز کس رہی ہیں ، حکومت نے اس واقعہ کے بعد کثیر تعدا میں ملزمین کو گرفتار کیا ہے، اور اس معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہیں، اس سے پہلے بھی جب اس طرح کے واقعات رونما ہوئے تو انتظامیہ نے پروزور کوشش کی اور ملزمین کو گرفتار بھی کیا، لیکن پھر اس صورت حال کا پیدا ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے، کیا واقعتاً ملک بھر میں شراب مافیا کے خاتمے کے لئے خاطر خواہ کوشش کی گئی؟ اتنی کثیر تعداد میں کچی شراب بن رہی تھی یا اتراکھنڈ سے لائی گئی اس سے انتظامیہ کیسے بے خبر تھی؟ کیا انہیں اپنے علاقوں میں چلنے والی شراب بھٹیوں کا علم نہیں ہے؟ کیا ان کے ہاتھ شراب مافیا کی گردن تک نہیں پہنچتے ہیں؟ اگر ان سوالوں کے جوابات اثبات ہیں، تو کاروائی کرنے کے لئے ہلاکت کا انتظار چہ معنی دارد اور اس واقعہ کے بعد بھی اتر پردیش حکومت کو بھی اس جانب توجہ دینی
چاہیے اور شراب مافیا کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے انتظامیہ کو کمربستہ کرنا چاہئے تاکہ مستقبل میں ایسی تباہ کن صورت حال وقوع پزیر نا ہو، انسانی جانوں کا تحفظ ہمارے لئے ہمیشہ اول مقام پر ہونا چاہیے،تمام مفادات انسانی جانوں کے مقابلے میں ہیچ ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس صورت حال کو منظر رکھتے ہوئے، ہندوستانی میں شراب کی خرید وفروخت بھی بڑا سوال ہے، ملک میں غربت وافلاس فاقہ کشی تنگدستی کا اثر نمایاں ہے، بہت لوگوں کو علاج میسر نہیں آتا، روٹی کے لالے ہیں، اس کے باوجود اس زہر کا کھلے عام استعمال ہونا باعث افسوس ہے، حکومت ہند کو اس جانب مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،سماج کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ذاتی اعتبار سے اس طرح کی مہلک اشیا کا استعمال ترک کردے، اور شراب کا قطعاً استعمال نا کرے، بلکہ شراب کے ساتھ ساتھ وہ تمام اشیاء جو نقصان دہ ہے، مثلا بیڑی، سگریٹ، پان مسالہ وغیرہ کے استعمال کومکمل طور پر ترک کردیا جائے، ان اشیاء کے خلاف سماج میں تحریک چلائی جائے، لوگوں میں بیداری پیدا کی جائے اور ان شیاکی قباحت لوگوں کے قلوب میں پیوست کردی جائے،صحت کا خیال رکھا جائے، زندگی کی قیمت اور حیثیت کو سمجھا جائے، اگر سماج کا ہر فرد پختہ ارادہ کرلے کہ وہ شراب اور دیگر نشہ آور اشیا اور مہلک اشیاء کا استعمال نہیں کرے گا،تو اس کے خوش کن نتائج سامنے آئیں گے، جرائم کی شرح میں کمی ہوگی، شراب کے ذریعے ہلاکتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جانوں کا اتنا بڑا نقصان نہیں ہوگا، سماج سے بہت سی قباحتیں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔
اسلامک ہیرٹیج فاونڈیشن کے زیر اہتمام جناب احمد علی کا توسیعی خطاب
حیدر آبا(پریس ریلیز)
آصف جاہی سلاطین نے خدمات حرمین شریفین کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔دکن خصوصاً حیدرآباد کی عوام نے بھی اس کی سعادت حاصل کی۔ ان خیالات کا اظہار معروف دانشور و مورخ و ماہر آثار قدیمہ جناب احمد علی ، کیوریٹر نظام میوزیم ، ڈائرکٹر ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ حیدرآباد و سابق کیوریٹر سالار جنگ میوزیم نے اپنے توسیعی خطاب بعنوان ’’نظام دکن اور ریاستِ حیدرآباد کی خدمات حرمین شریفین‘‘ کیا۔یہ خطاب اسلامک ہیرٹیج فاؤنڈیشن حیدرآباد کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی سلاطین کی خدمات حرمین شریفین کی فہرست بہت طویل ہے۔ سلطان محمود غزنوی اور تمام مغل سلاطین بھی اس خدمت میں شامل رہے۔ اس سلسلے میں آپ نے اورنگزیب عالمگیر کا ذکر کیا۔سلاطین آصف جاہی نے عازمین حج کی رہائش کے لیے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں 26 رباطیں قائم کیں اور ساتھ ہی حرمین کے منتظمین کے لئے تحائف اور وہاں کے مساکین کی امداد ل کھول کر فرمائی۔ باب توبہ پر سونے کی سیڑھیاں بنوائیں ،جو آج بھی حرم میوزیم میں محفوظ ہیں ۔ مقام ابرہیم کی موجودہ حالت میں تنصیب بھی انہیں کا کارنامہ ہے۔ حرمین شریفین میں سب سے پہلے برقی روشنی لئے جرمنی سے جنریٹر منگوائے ، منی اور عرفات میں حجاج کے لئے طعام اور ٹھنڈے پانی کا نظم کیا۔ ان سب کا اہتمام صرف خاص سے کیا جاتا تھا۔ جناب احمد علی نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے دیگر حکمرانوں اور نوابین نے جیسے نواب بھوپال، نواب جوناگڑھ وغیرہ نے بھی اپنے علاقہ کے حجاج لئے رباطیں قائم کیں جو آج بھی موجود ہیں۔ لیکن سلاطین آصف جاہی کی قائم کردہ رباطیں حرم سے بالکل متصل تھیں۔ شاہ عبدالعزیز بن سعود کے زمانے میں ان میں سے 22 رباطوں کو مسجد حرام میں شامل کرلیا گیا۔ انہوں نے تمام آصف جاہی سلاطین بالخصوص پانچویں حکمران افصل الدولہ بہادر ،میر محبوب علی خان اور آصف سابع میر عثمان علی خان کی خدمات حرمین کا تفصیلی ذکر کیا۔پہلی جنگ عظیم کے بعد جب حرمین کے انتظام سے خلافت عثمانیہ کو بیدخل کیا گیا تو ایک ہنگامی صورتحال پید ہوگئی تھی۔ اس وقت آصف سابع نے حرمین کے سالانہ اخراجات کی ذمہ داری قبول کی۔ حکمرانوں کے علاوہ دکن خصوصاً حیدرآباد کے مخیر امرا ، نوابین اور عام شہریوں نے بھی حرمین شریفین کی خدمت کا اعزاز حاصل کیا۔ ان میں پائگاہ کے امرااور خان بہادر علاء الدین قابل ذکر ہیں۔ حرمین شریفین کے باشندگان کے روزگار اور معاش کے لئے انجمن دستی پارچہ بافی حرمین شریفین قائم کی اور اس کے ذریعہ کارخانوں کا قیام عمل میں آیا۔حیدرآباد میں بہت سی ایسی وقف املاک تھیں جن کی آمدنی حرمین شریفین کے لئے روانہ کی جاتی تھی۔ خدمت کا یہ سلسلہ سقوط حیدرآباد کے بعد بھی جاری رہا۔ اپنے اس پرمعلومات خطاب کے اختتام پر ایک اہم امر پر توجہ دلاتے ہوئے آپ نے کہا کہ موجودہ دور میں توسیع حرم کے منصوبہ میں رباط سمیت بہت سی وقف جائدادیں سعودی حکومت نے حاصل کر لیں اور ان کا خطیر معاوضہ محفوظ ہے ۔ اس کی جانب توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس معاوضہ کے بدلے قدیم ریاست حیدرآباد میں شامل اضلاع کے حجاج اور موتمرین کے لئے ایک عظیم رباط کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔
جناب عمر علی خان، صدر اسلامک ہیرٹیج فاونڈیشن حیدرآباد نے اپنے صدارتی خطاب میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جناب احمدعلی صاحب نے کا یہ ایک تاریخی خطاب ہے۔ خدمات حرمین اہلیان دکن کے لئے ایک اعزاز ہے۔ ہمارے نیک دل حکمرانوں اور عوام نے اس میں بھرپور حصہ لیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف کرایا جائے۔ حیدرآباد رباط کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ اس سے اہلیان دکن مزید استفادہ کر سکیں۔ ساتھ ہی حیدرآباد و اضلاع میں واقع وقف املاک کے بہتر استعمال کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں وقف بورڈ کو فعال کردار اد کرنے کی ضروت ہے۔
اس اہم تاریخی نشست کا آغاز قاری محمد مسفر حسین کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ شاہنواز ہاشمی نے نعت شریف کا نذرانہ پیش کیا۔ ایاز الشیخ ، نائب صدر اسلامک ہیرٹیج فاؤنڈیشن ، حیدرآباد نے فاضل مقرر کا استقبال کیا اور اسلامک ہیرٹیج فاؤنڈیشن کا تعارف پیش کیا اور کہا کہ یہ ادارہ اقبال اکیڈمی کے اشتراک سے اسلامی تاریخ، تہذیب و تمدن پر مشتمل سرگرمیوں میں پچھلے اٹھارہ سال سے مصروف عمل ہے۔ ولی سکندر ، معتمد اسٹڈی سرکل اقبال اکیڈمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ محمد عمر، لائبریرین اقبال اکیڈمی نے شکریہ ادا کیا۔ اس اہم خطاب میں حیدرآباد و اکناف سے اہل علم و دانش کی کثیر تعداد شریک تھی۔ خطاب کے بعد شرکا نے فاضل خطیب سے سوالات کئے اور اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ یہ لکچر ڈیکن ڈائجسٹ نیٹورک کے تعاون سے انٹرنیٹ پر راست نشر کیا گیا۔ ملک و بیرون ملک سے ہزاروں کی تعداد میں ناظرین نے اس سے استفادہ کیا۔ اس لکچر کی ویڈیو اقبال اکیڈمی کے یوٹیوب چینل پر دستیاب ہے۔
ایم ودود ساجد
میں عدل وانصاف سے متعلق واقعات بڑی دلچسپی اور باریکی سے پڑھتا ہوں،بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں ،جن پر دلچسپی اور باریکی کے ساتھ لکھنے کو بھی جی چاہتا ہے،گزشتہ روز عدالتِ عظمیٰ میں ایک ایسا ہی واقعہ رونما ہوا،عدالت نے سی بی آئی کے عارضی ڈائریکٹر ناگیشور راؤ اور ان کے ایڈوائزر کو توہینِ عدالت کی پاداش میں پورے دن سزا کے طور پر عدالت میں بٹھائے رکھا،یہی نہیں ،ان پر ایک ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کردیا۔
سزا کے اس واقعے سے زیادہ دلچسپ اس کی تفصیلات ہیں،منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کبھی کبھی ایسی تفصیلات بھی پڑھنی چاہئیں۔ احباب کو یاد ہوگا کہ سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آلوک ورما اور اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانہ کو چھٹی پر بھیجے جانے کے بعد ناگیشور راؤ کو عارضی ڈائریکٹر بنایا گیا تھا، اس دوران معاملہ عدالت میں پہنچا اور سپریم کورٹ نے عارضی ڈائریکٹر کو تصفیہ ہونے تک اہم فیصلے لینے سے روک دیا؛لیکن ناگیشور راؤ نے اس فیصلے سے اگلے ہی روز کئی بڑے افسروں کے تبادلے کرڈالے، یہ معاملہ بھی عدالت میں پہنچا؛لہذا گزشتہ روز عدالت نے فیصلہ سنادیا کہ پابند کرنے کے باوجود ناگیشور راؤ نے افسروں کے تبادلے کرکے خطرناک حد تک توہینِ عدالت کا ارتکاب کیا ہے اور اس کی سزا دی جائے گی۔
دونوں افسران نے غیر مشروط معافی طلب کی اور کہا کہ حضور ہم سے غلطی ہوگئی؛ لیکن چیف جسٹس نے کہہ دیا کہ ہمیں یہ معافی منظور نہیں اور یہ کہ سزا تو ملے گی۔ اٹارنی جنرل یعنی حکومت کے سب سے بڑے قانونی افسر کے کے وینوگوپال نے الفاظ کے گورکھ دھندوں سے بہت کوشش کی کہ دونوں سزا سے بچ جائیں؛ لیکن نہ بچ سکے،بھری عدالت میں دونوں افسر ایک گھنٹے تک سرجھکائے کھڑے رہے اور پھر حکم ملنے کے بعد سب سے پیچھے کونے پر رکھی ہوئی دو نشستوں پر جاکر بیٹھ گئے، کوئی چور اچکا ہو، اس کے لئے تو ججوں کے کمرے میں ایک دن بیٹھنے کی سزا کوئی سزا نہیں؛ بلکہ راحت بن جاتی ہے؛ لیکن اتنے بڑے افسروں کے لئے یہ سزا بڑی عبرتناک ہوتی ہے،ہر visitorاور ہر وکیل کی نگاہ ان پر پڑتی ہے اور وہ چوروں کی طرح گردن جھکائے بیٹھے رہتے ہیں۔
دوپہر کے کھانے کے لئے جب جج حضرات اٹھے، تو ان دونوں کو دلاسہ دینے کے لئے وکیل اور دوسرے لوگ ان کے پاس پہنچے،کسی نے بسکٹ اور نمکین کے پیکٹ دیے، تو سیکورٹی افسر نے کھانے سے روک دیا کہ عدالت میں اس کی اجازت نہیں ہے،ایک وکیل نے bisleriدیتے ہوئے کہا کہ اچھا پانی پی لیجئے،اس پر ناگیشور راؤ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ پانی پیوں گا، تو washroomجانا پڑے گا۔
جج حضرات آج بڑی جلدی کھانا کھاکر واپس آگئے، دونوں افسر پھر سرجھکائے آگے آئے، اٹارنی جنرل نے پھر کوشش کی کہ عدالت اب تو معاف کردے اور آدھی سزا ختم کردے،انہوں نے کہا کہ ’’دونوں افسر بڑے نادم ہیں، اپنی غلطی کی دل سے معافی کے طلبگار ہیں‘‘ اب تو انہیں معاف کردیجئے! چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آج شام تک عدالت کے اٹھنے تک سزا سنائی تھی اور ابھی عدالت اٹھی نہیں،کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اسے بڑھاکر کل تک کردیں؟ اٹارنی جنرل کے ہوش اُڑ گئے،کہنے لگے کہ ’’حضور !ہم نے سوچا تھا کہ اب تو آپ کا دل پسیج گیا ہوگا۔چیف جسٹس کا دل اس پر بھی نہیں پسیجا،انہوں نے کہاکہ اگر ہمارا دل یوں پسیجنے لگا، تو ہم انصاف کرنے کے قابل نہ رہیں گے،ہم اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ،تو آپ کے افسروں کو 30؍ دن تک کے لئے جیل بھیج سکتے تھے،یہ کہہ کر عدالت نے دونوں افسران سے کہا کہ آپ کی سزا کے طور پر بیٹھنے کی جو جگہ متعین ہے، جائیے ،وہیں جاکر بیٹھئے۔
بے چاروں کو چاروناچار وہیں جاکر بیٹھنا پڑااور پھر تو جب 3.50 پر عدالت اٹھ گئی، توبھی یہ دونوں اٹھنے کی ہمت نہ کرسکے،آخرکار جب 4.15 پر کورٹ ماسٹر نے آکر کہا کہ اب آپ اٹھ سکتے ہیں، تب ان کی جان میں جان آئی۔
چیف جسٹس صاحب!آپ کے انصاف اور آپ کی جرأتِ انصاف کو سو سو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے؛لیکن حضور کبھی کبھی عدالت sou motu یعنی از خود بھی نوٹس لے لیتی ہے۔ہمارا جی چاہتا ہے کہ آپ یو پی کے بدزبان وزیر اعلی مہنت یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف بھی از خود نوٹس لے لیجئے اور انہیں بھی توہین عدالت کی کچھ ایسی ہی سزا سنادیجئے، بابری مسجد کا مقدمہ آپ کی عدالت میں ہے اور یہ بدزبان یوپی کی اسمبلی میں کہہ رہا ہے کہ’’شری رام کی جائے پیدائش کا معاملہ تو الہ آباد ہائی کورٹ نے طے کردیا ہے کہ وہ اجودھیا میں ہی ہے؛ لہذا اس معاملے میں اب 24 گھنٹے سے زیادہ لگنے ہی نہیں چاہئیں‘‘۔
تو چیف جسٹس صاحب !کیا یہ عدالت عظمیٰ کی کھلی توہین نہیں ہے؟ کیا یہ عدالتِ عظمیٰ پر کھلا دباؤ بنانے کی مذموم کوشش نہیں ہے؟ اور کیا یہ کھلی دھمکی نہیں ہے؟ میرا خیال ہے کہ ہے،بس اب آپ کی جرأتِ انصاف کا انتظار ہے۔
ایمن جنیدخان
روز اِتنا بَھگا رہی ہے تُو
زِندگی کِیوں تَھکا رہی ہے تُو
دُنیا وَالوں کو تو سَتایا تھا
اَب مُجھے بھی سَتا رہی ہے تُو
میں نے کب تُجھ سے مَانگا تاج محل
میرا دِل کیوں جَلا رہی ہے تُو
دِل ہے وِیران وقت حیراں ہے
دِن یہ کیسے دِکھا رہی ہے توُ
چاند رکھ کر کَسی کے دَامن میں
میرے تَارے چُرا رہی ہے تُو
دے کہ دنیا کے مُجھ کو رَنج و اَلم
دُور سے مُسکرا رہی ہے تُو
عِشق نے کم سَتایا ہے ایمن
میری ہَستی بھی کَھا رہی ہے تُو
سلیم صدیقی
جسم سے جاں کو جدائی چاہیے
زندگی کو اب رہائی چاہیے
میں نے تو بس پیار مانگا ہے ترا
کب کہا میں نے خدائی چاہیے
میں جلال الدین اکبر ہوں مجھے
کچھ نہیں بس جودھا بائی چائیے
سر نہیں دستار بھی دیجیے اسے
عشق کو گاڑھی کمائی چاہیے
چاند دوں تحفے میں یا پھر آفتاب
کچھ نہ کچھ تو منہ دکھائی چاہئے
ہر گنہ سے میں بری ہوجاؤں گا
بس لباسِ پارسائی چاہیے
خود سے بچھڑے ایک عرصہ ہوگیا
اب مجھے خود تک رسائی چاہیے
دل وفاداروں سے میرا بھر گیا
اب تمہاری بے وفائی چاہیے
چاندنی کا ساتھ حاصل ہو نہ ہو
جگنوؤں سے آشنائی چاہیے
کہ دیا ناں میری دنیا توہی ہے
اس پہ کیا کوئی صفائی چاہیے
شہرتیں حاصل نہیں ہوتیں یونہی
اس میں تھوڑی بے حیائی چاہیے
دردِ دل سمجھا کرے جو قوم کا
شوق ایسی پیشوائی چاہیے
مسعود جاوید
6 ؍فروری 2019ء کو ’’سلم ڈوگ ملینائر‘‘ کی دسویں سالگرہ منانے کے لیے ممبئی میں ایک جشن کا انعقاد ہوا تھا،اس موقع پرآسکر اور کئی قابلِ قدر ایوارڈ سے سرفراز عالمی شہرت یافتہ شہنشاہِ موسیقی اے آر رحمان کی بیٹی خدیجہ نے اپنے والد کے ساتھ اسٹیج شیئر کرتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ ان کے والد اللہ رکھا رحمان ایک نہایت ہی منکسرالمزاج’، محبت کرنے والے انسان ہیں اور محمد صل اللہ علیہ و سلم اور ان کی حیاتِ طیبہ ان کے لیے آئیڈیل اور چراغ راہ ہیں۔
تاہم بعض حاضرین جلسہ کو یہ دیکھ کر صدمہ پہنچا کہ ایک ماڈرن دنیا، شہرت و امارت اور گلیمر و آزاد خیالی کے لئے مشہور انڈسٹری سے وابستہ کامیاب ترین فنکارو امیر ترین شخص کی بیٹی خدیجہ مکمل حجاب میں اپنے والد کے ساتھ اسٹیج شیئر کر رہی ہے،اس جشن کی تصویریں وائرل ہوئیں اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا،اے آر رحمان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی پر حجاب کے لئے جبر کیا ہے، فرسودہ خیالات کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے اور یہ کہ پوری دنیا میں اپنا اعلیٰ مقام بنانے والے مہذب روشن خیال اور تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان رہنے والے اے آر رحمان اس قدر دقیانوس، تنگ نظر اور قدامت پسند ہیں،اس کا منہ توڑ جواب انہوں نے ٹویٹر پردیا کہ میری بیٹیاں اپنی پسند کا لباس اختیار کرنے کے لیے آزاد ہیں۔
جب ان کو ٹرول کیا جانے لگا، تو خود خدیجہ نے دفاع کیا کہ میں ایک عاقلہ بالغہ لڑکی ہوں اور میں نے اپنی مرضی سے اپنی پسند کا لباس اختیار کیا ہے،میں اس چوائس کا احترام اور اسے دل و جان سے قبول کرتی ہوں،اس کا میرے والد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،کسی کو صحیح صورتحال جانے بغیر فیصلہ صادر نہیں کرنا چاہیے۔نیتا امبانی کے ساتھ اپنی بیٹیوں کے مہذب لباس، موڈیسٹ اور ڈیسنٹ ڈریس کی تصویر پوسٹ کر کے اے آر رحمان نے ایک اچھا میسیج دینا چاہا کہ بحیثیت مہذب شخص اور ذمے دار گارجین وہ اپنے بچوں کی انفرادی آزادی بھی مسلوب نہیں کرتے ؛لیکن بحیثیت مسلمان ان کی تربیت ایسی ہوئی ہے کہ ان لڑکیوں نے اپنے لئے مہذب ،حیادار لباس پسند کیا اور اسے پہن کر سیلیبریٹیز کے جشن میں جانے میں کسی قسم کی شرمندگی یا کمتری کا احساس ان کے اندر نہیں ہے۔ٹویٹر پر جہاں اے آر رحمان اور ان کی بیٹی کو ٹرول کیا گیا، وہیں بہت سارے مسلم اور غیر مسلم نے خدیجہ کے جواب کو سراہا اور اس پر فخر کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی کہ حیادار لباس اپنانا شر نہیں ،خیر کا سبب بنتا ہے۔
بادی النظر میں یہ ایک عام سا واقعہ ہے؛ لیکن اگر اس کی گہرائی میں جائیں ،تو معلوم ہوگا کہ ایمان محض زبان سے اقرار کرنے کا نام نہیں ہے؛ بلکہ دل سے ماننے کا نام ہے،یعنی یہ دونوں عمل لازم اور ملزوم ہیں،تو جن لوگوں نے اسلام کو قبول کیا، انہوں نے مکمل اسلام کو قبول کیا،اپنی سہولت کے حساب سے بعض تعلیمات کو ماننے اور بعض کو نہ ماننے سے انسان مومن نہیں ہوتا،حجاب اور پردہ کا تعلق گرچہ عقائد سے نہیں ہے ،مگر پھر بھی پردہ کرنے، حجاب، خمار، چادر اور حیادار لباس پہننے کا حکم ہے؛ اس لئے اس کے استعمال میں شرمندگی محسوس نہیں ہونی چاہئے اور دوسرے وہ لوگ، جو اپنے آپ کو روشن خیال سمجھتے ہیں، ان کو بھی حجاب پر تنقید سے بچنا چاہئے ،یہ ادنیٰ درجہ ہے ایمان کا،ہم لاپرواہی اور کاہلی کی وجہ سے نماز ادا نہیں کرتے ،روزہ نہیں رکھتے ،تو گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ،مگر پھر بھی مسلمان ہیں اور ہم اس گناہ پر نادم ہوتے ہیں،یہ ادنیٰ درجہ ہے ایمان کا، مگر ہم نماز کا مذاق اڑائیں( نعوذباللہ )تو پھر کیسی مسلمانیت؟
در اصل مسلمانوں کے بہت سے مسائل ،شعائر، عادات اور ثقافت کو لے کر بعض متعصب طبقے ہر دور میں متحرک رہے ہیں اور حالیہ دنوں میں بعض مخصوص گروہ مسلمانوں کی اصلاح کے لیے زیادہ ہی پیش پیش ہیں؛لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے ،جب دیکھتا ہوں کہ بہت سارے مسلم ایلیٹ ،دانشور، روشن خیال، سرکاری عہدوں پر فائز شیکسپیئرین انگلش اسپیکنگ، بڑے بزنس مین بھی وہی راگ الاپتے ہیں، جنھیں غیر مسلم متعصب گروہوں نے چھیڑ رکھا ہے،اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ مسلمانوں کا یہ طبقہ اسلامی تعلیمات سے بے خبر ہے یا یہ کہ اکثریتی طبقہ کے ان متعصب یا لبرل گروہوں کی بے جا خوشنودی حاصل کرنے کے خواہاں ہے۔
مسلمانوں کا یہ وہ طبقہ ہے، جو ویسے تو اپنے آپ کو آزاد کہتا ہے، مگر درحقیقت وہ ذہنی غلام ہوتا ہے اور احساس کمتری کی بنا پر متعصب لوگوں کی دی ہوئی زبان بولتا ہے، مسلمانوں کا یہ طبقہ بھی اس پروپیگنڈے کا نہ صرف شکار ہوتا ہے؛ بلکہ اس کی ترویج و اشاعت میں معاون ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی کا سبب مسلم خواتین کا پردہ اور مردوں کا دین سے لگاؤ اور دینی شعائر کو اپنانا ہے،رائے عامہ حکومتی ایوانوں میں بنتی ہے ،مگر افسوس کہ ہمارا روشن خیال ،دانشور طبقہ جب خود یہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کی پسماندگی کی اصل وجہ دین ہے، تو وہ ہماری نمائندگی ان ایوانوں میں کیا کرے گا،اسے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ کسی مذہب کے شعائر اور گنگا جمنی تہذیب میں حد فاصل بھی ہے۔
بد قسمتی سے مسلمانوں کا یہی طبقہ رائے عامہ بنائے جانے والی گلیاروں، میڈیا، سرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری سیمینار و سمپوزیم ،ادبی ،سماجی اور سیاسی محفلوں میں موجود ہوتا ہے،یہی وہ طبقہ ہے، جو اسلام ،اسلامی تہذیب اور اسلامی تعلیمات کی صحیح صورتحال سے برادرانِ وطن کو روشناس کرانے کی بجائے ان کی غلط فہمیوں یا دانستہ الزام تراشیوں کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے،سو سال قبل کے مفروضے یا حقائق ، آزادیِ نسواں، پردہ، تعلیم نسواں، انگریزی زبان کے خلاف فتویٰ وغیرہ کا گھسا پٹا ریکارڈ سنتا، بجاتا اور سناتا رہتا ہے،مسلم ایشوز پر نئی ریسرچ ،نئے اعداد و شمار جاننے کی کبھی زحمت نہیں کرتا۔
یہ طبقہ اے آر رحمان اور خدیجہ کی طرح دفاع کیا کرے گا !اس کے لئے تو اس کا مسلمان نام بھی باعثِ شرمندگی ہوتا ہے، اس کا بس چلے، تو اسے کھرچ کر ہٹا دے، اس کا رویہ ہر وقت معذرت خواہانہ ہوتا ہے۔ایک بار ایک مسلم لیکچرار صاحبہ کی ایک ٹی وی ڈیبیٹ میں دو پردہ نشیں خواتین نے خوب سرزنش کی؛اس لئے کہ پروفیسر صاحبہ یہ کہہ بیٹھیں کہ جاہل اور کم پڑھی لکھی عورتیں ہی نقاب اور چادر کا استعمال کرتی ہیں،ماشائاللہ وہ دونوں خواتین سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز تھیں۔
ان ہی وجوہات کی بناپر آج بھی رائے عامہ، مسلمانوں کے تعلق سے پرسیپشن اور امیج وہی ہے، جو سو سال قبل کے مسلمانوں کے بارے میں تھا۔جبکہ نئی صورتحال بالکل مختلف ہے،کئی سرکاری اور دیگر غیر سرکاری این جی اوز کی رپورٹ بتاتی ہے کہ مسلم لڑکیوں میں لڑکوں کی بہ نسبت تعلیمی رجحان میں بہت اضافہ ہوا ہے،ان کے ڈراپ آؤٹ کیس کی شرح مسلم بچوں کی بہ نسبت بہت کم ہے،جس دینی طبقہ کو انگریزی زبان اور عصری تعلیم کے خلاف آج بھی لعن طعن کیا جاتا ہے، اس کے بچے انگلش میڈیم سے عصری تعلیم حاصل کر رہے ہیں،خواہ مدرسے کے معلمین ہوں یا مساجد کے امام ،ہر شخص اسی تگ و دو میں ہے کہ ان کی استطاعت کے مطابق فیس والے اچھے اسکول میں ان کے بچے اور بچیوں کا داخلہ ہو جائے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد
پرنسپل ، سی ایم کالج، دربھنگہ
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]
عالمی شہرت یافتہ امریکن دانشور وفلاسفرنیپولین ہِل نے لکھاہے کہ’’ نہ کوئی کل تھا ، نہ کوئی کل ہوگا، جو ہے وہ یہ حال ہے ‘‘۔غرض کہ حال اگرانصاف پسند نہیں ہے ،تو پھر ماضی اور مستقبل میں کیا ہوگا یہ طے کرنا مشکل ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مصنف کے ساتھ اگر حال میں یعنی اس کی زندگی میں انصاف نہیں ہوا، تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مستقبل میں اسے عظمت بخش دی جائے ۔ بلا شبہ فنکار کی عظمت کا اعتراف اس کی زندگی میں ہی ہونا چاہئے، جیسا کہ یورپ میں اس کی مستحکم روایت ہے؛ لیکن مشرق میں مردہ پرستی کی روایت عام رہی ہے، ہاں حالیہ دنوں میں اس کی طرف قدرے رجحان بڑھا ہے، اگر چہ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہورہا ہے کہ بونوں کو قد آوری بخشی جا رہی ہے؛لیکن اس چلن نے بہت سے گمشدہ فنکاروں کو افقِ ادب پر نمایاں بھی کیا ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ظفر انصاری ظفر نے قیصر صدیقی جیسے ایک فراموش شدہ تخلیقی فنکار کو نہ صرف دنیائے ادب سے متعارف کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے؛ بلکہ ان کے فنّی جہات اور فکری امکانات کے دروازے کھول دیے ہیں ۔راقم الحروف ذاتی طورپر قیصر صدیقی مرحوم کو چار دہائیو ں سے جانتا ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1981ء میں مدھوبنی کے ایک مشاعرے میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی ، ا ن دنو ں اردو معاشرے میں مشاعرے کو غیر معمولی ادبی اہمیت حاصل تھی ، اچھے شعر پرشعراکو خوب واہ واہی ملتی تھی اور سطحی شاعری کو ہوٹ کیا جاتا تھا، اس مشاعرہ میں مرحوم شہود عالم آفاقی ، وسیم بریلوی، ریحانہ نواب اور دیگر علاقائی شعراکی ایک لمبی قطار تھی؛ لیکن جب قیصر صدیقی اپنا کلام پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے ،تو چہار طرف سے آواز آنے لگی کہ وہ قوالی والی نظم’’اپنے ماں باپ کا تو دل نہ دُکھا‘‘ پڑھئے ؛لیکن جناب صدیقی نے معذرت کرلی اور صرف غزل سنانے کو تیار ہوئے اور جب شعر پڑھنے لگے ،توایک عجیب سا سماں بندھ گیا ۔ واضح ہو کہ ان دنوں مشاعرے میں تالیاں بجانے کی روایت پروان نہیں چڑھی تھی اور نہ حالیہ مشاعروں کی طرح شعراقلا بازیاں کھاتے تھے،ہر ایک شاعر کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنا تازہ کلام پڑھے اور سامعین کو محظوظ کرے،سامعین میں بھی اکثریت سنجیدہ ، باشعور لوگوں کی ہوتی تھی اورلوگ باگ بھی مشاعرے کی روایت کے پاسدار ہوا کرتے تھے۔ میرے ذہن میں اس مشاعرے میں ان کاپڑھا گیا یہ شعر آج بھی محفوظ ہے :
اُسے کم پیاس تھی، ایسا نہیں تھا
مگر کم ظرف وہ پیاسا نہیں تھا
سچ پوچھیے،تو اس مشاعرے میں وسیم بریلوی صاحب کے بعد قیصر صدیقی ہی چھائے رہے ۔ مشاعرہ کا دورِ اول ختم ہوا، دورِ ثانی میں وسیم بریلوی اور قیصر صدیقی کی فرمائش کا طوفان کھڑا ہوگیا اور ان دونوں شعرا کو کئی بار زحمتِ کلام اٹھانی پڑی ۔
مختصر یہ کہ قیصر صدیقی سے اس مشاعرہ میں جو آشنائی ہوئی ،وہ ان کے آخری دم تک بر قرار رہی ۔ وہ جب کبھی دربھنگہ آتے ،مطلع کرتے اور ملاقات بھی ہوتی؛ لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں ان کی زندگی میں ان پر کچھ نہیں لکھ سکا ۔اگرچہ ان کا تقاضہ بھی رہا کہ میں کچھ لکھوں؛ لیکن نہ جانے کیوں میں اکثر ان سے کہتا کہ آپ کی شاعری خود کبھی مجھ سے لکھوا لے گی، مجھے افسوس ہے کہ ان کی زندگی میں ان پر کچھ نہیں لکھ سکا،دراصل میری مجبوری یہ ہے کہ جب تک کسی فنکار کے مکمل شعری جہان کی زیریں لہروں تک نہ پہنچوں، اس وقت تک کچھ لکھنا خانہ پُری سمجھتا ہوں اور اس کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ شاعر کا بھرپور کلام سامنے ہو۔
بہر کیف! حال ہی میں ان کے برادرِ خورد آشکار احمد ایک ساتھ ان کے کئی مجموعہ ہاے کلام کے ساتھ حاضر ہوئے ،تو یہ میرے لئے باعثِ افسوس تھا کہ اب، جب کہ قیصر صدیقی اس دنیا میں نہیں رہے، تو ان کافکری اثاثہ ہاتھ آیا ہے ۔مجھے یہ دیکھ کر اور بھی دکھ ہوا کہ انہو ں نے اپنے مجموعۂ کلام ’’ڈوبتے سورج کا منظر‘‘ پر میرا نام 27-02-2012 کو لکھا تھا ۔ بقول آشکار احمد صاحب جن کے ذریعے انہوں نے مجھے یہ مجموعہ بھیجا تھا، وہ مجھے پہنچا نہیں سکے ۔ مختصر یہ کہ ایک ساتھ ان کے چھ مجموعہ ہاے کلام کی زیارت ہوئی، جس میں ’’ڈوبتے سورج کا منظر(2011)، سجدہ گاہِ فلک( 2012)، روشنی کی بات(2013)، غزل چہرہ۔دیوناگری(2014)، زنبیلِ سحر تاب(2016)، اجنبی خواب کا چہرہ‘‘(2017)اور ’’بے چراغ آنکھیں‘‘(2018)شامل ہیں۔ یوں تو اکثر ان کی زبانی بھی ان کے کلام سے محظوظ ہوتا رہا اور گاہے بگاہے مشاعروں میں بھی انہیں سنتا رہا ؛ لیکن اب جب کہ مذکورہ شعری اثاثے سے استفادہ کا موقع نصیب ہوا ہے ،تو میرے لئے یہ کہنا آسان ہوگیا ہے کہ قیصر صدیقی کی شاعری کلاسیکیت اور جدیدیت کا آمیزہ ہے۔’’ڈوبتے سورج کا منظر ‘‘ ان کی غزلیہ شاعری کا ایک نایاب نمونہ ہے ۔ واضح ہو کہ قیصر صدیقی ایک ہمہ جہت فنکار تھے ،وہ تمام شعری اصناف میں طبع آزمائی کرتے رہے۔ حمد، نعت،منقبت، سہرا، ترانۂ سحری، نظم اور غزل کے تو وہ رسیاہی تھے۔گویا انہوں نے ہر صنف کو نیا معنوی پیرہن عطا کرنے کی کوشش بھی کرنے کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے ۔ یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ وہ کل وقتی شاعر تھے۔ شاعری ان کے لئے ذریعۂ معاش تھی ، ستّر کی دہائی میں جب قوالی کا عروج تھا، تو شمالی بہار کے بیشتر شعراان کا کلام پڑھتے تھے ، اس حقیقت کا اظہار وہ اکثر کرتے بھی تھے کہ شاعری میرے لئے صرف شوق اور ذہنی آسودگی کا سامان نہیں ہے ؛بلکہ پیٹ کی آگ بجھانے کا ذریعہ ہے، ان کا یہ شعر اس حقیقت کا غمّاز ہے:
فن پاروں کا سودا کرنا ،قیصرؔ کی مجبوری ہے
غربت سے مجبور ہے قیصر ، قیصر سے کیا کہتے ہو
اسے فنکار کیوں کہتے ہو قیصرؔ
جو دل کی دھڑکنو ں کو بیچتا ہے
واضح ہو کہ قیصر صدیقی قوالوں کے کل وقتی شاعر تھے اور اس زمانے میں ریکارڈنگ پلےئر کے ذریعہ بھی ان کا کلام لوگ سنتے تھے ۔ بالخصوص ان کی تحریر کردہ قوالی ’’اپنے ماں باپ کا تو دل نہ دُکھا ، دل نہ دکھا‘‘ تو زبان زد عام وخاص تھی اور بھی کئی نظمیں ریکارڈ پر بجتی تھیں اور آل انڈیا ریڈیو پٹنہ سے بھی نشر ہوتی تھیں ، مگر افسوس صد افسوس کہ دنیائے ادب میں انہیں وہ مقام حاصل نہیں ہوا ،جس کے وہ مستحق تھے۔ دراصل ہمارے یہاں فلمی اور قوالی کی شاعری کرنے والے شعرا کو ہیچ نگاہ سے دیکھنے کی روایت رہی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ساحرؔ اور مجروحؔ کو ادبی حلقے میں بھی قبولیت کے ساتھ مقبولیت حاصل رہی ۔ اس تبصراتی مضمون میں یہ ممکن نہیں کہ ان کے تمام مجموعہ ہاے کلام پر بھرپور روشنی ڈالی جائے ،البتہ چند اشعار ملاحظہ کیجئے ،جن سے یہ اندازہ ہوجائے گا کہ قیصر صدیقی افقِ غزلیہ شاعری کے آفتاب ومہتاب تھے :
سرچڑھنے کی خواہش میں چمن سے نہیں نکلا
میں خاک ہوا پھر بھی وطن سے نہیں نکلا
بس چل رہا ہوں تھوڑ ا سا خود کو سنوار لوں
چہرے سے اپنے دوسرا چہرہ اتار لوں
یہ کیسے جانتا گر شہر میں آیا نہیں ہوتا
یہاں دیوار ہوتی ہے مگر سایہ نہیں ہوتا
آج میں یہ سمجھنے بیٹھا ہوں
تو ہی تو ہے اگر تومیں کیا ہوں
پیاس کی دھوپ میں جلتا رہا تمام عمر مگر
اپنے دریا سے بھی مانگا نہیں پانی میں نے
اندھیری رات سمندر میں غرق ہوتی رہی
میں اپنے ہاتھ میں سورج لئے ابھرتا رہا
مجموعۂ کلام ’’ڈوبتے سورج کا منظر‘‘ خالص غزلو ں کا مجموعہ ہے اور آخر میں متفرقات کے تحت اشعار درج ہیں ۔ اس مجموعۂ کلام کے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ قیصر صدیقی کی شاعری صرف داستانِ دردِ دل نہیں ہے؛ بلکہ کائنات کا مرثیہ ہے ۔ غمِ حیات کے مدھم چراغ بھی ہیں ،تو امید وبیم کے طلوع ہوتے سورج بھی دکھائی دیتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ دردوغم کی شاعری آپ بیتی ہوتے ہوئے بھی جگ بیتی کا درجہ رکھتی ہے کہ اس جہان میں اکثریت کا مقدر محرومی ہے ۔شاعر کو اس بات کا احساس ہے کہ اس کی زندگی نے اسے اتنی سہولت نہیں بخشی کہ وہ اپنے بچوں کو بازار لے جا سکے:
میں کس طرح انہیں بازار لے کے جاؤں بھلا
کھلونے دیکھ کے بچے مچل بھی سکتے ہیں
لیکن انہیں یہ یقین محکم بھی ہے کہ:
سنبھل کے آج دکھایا یہ گرنے والوں نے
کہ گرنے والے کسی دن سنبھل بھی سکتے ہیں
اور انہیں دنیا کی یہ حقیقت بھی معلوم ہے کہ :
رکھا کرتے ہیں جو دنیا میں ہنگاموں کی بنیادیں
کسی دن وہ بھی خاموشی سے دنیا چھوڑ دیتے ہیں
اس شہر میں آکر یہ معلوم ہوا مجھ کو
شیشے کے مکاں والے پتھر بھی چلاتے ہیں
جس فیصلے میں حسن غرورِ خطا کا تھا وہ فیصلہ کسی کا نہیں تھا اَنا کا تھا
*
میرے اس خواب کی تعبیر بتا دے کوئی میں نے دیکھا ہے سمندر کا فنا ہو جانا
پیشِ نظر مجموعہ کلام ’’ڈوبتے سورج کا منظر ‘‘ 452صفحات پر مشتمل ہے ۔ علمی مجلس ، بہار پٹنہ سے2011میں شائع ہوا ہے ۔ اس کی قیمت 600روپے ہے ۔ غزلیہ شاعری کا ایک عمدہ ذخیرہ اس میں موجود ہے ۔ قیصر صدیقی کا پہلا مجموعہ کلام’’صحیفہ‘‘1983ء میں شائع ہوا تھا ۔ پروفیسر وہاب اشرفی جیسے معتبر نقاد نے ان کی غزلیہ شاعری کے اوصاف کا اعتراف کرتے ہوئے بہت اچھی بات کہی ہے کہ :
’’قیصر صدیقی اچھی شاعری کے رموز سے اچھی طرح باخبر ہے ۔ اسے معلوم ہے کہ پیکر تراشی کسے کہتے ہیں ، تشبیہ واستعارے کی جدت کا کیا مفہوم ہے ، نئے پیکر کس طرح تخلیق کئے جاتے ہیں ، لفظی روابط سے مصروعوں اور شعروں کا کیا تعلق ہے ، مجموعہ اعتبار سے تلاشِ آہنگ کے کیف وکم سے شاعر واقف ہے ۔ تلمیحات کو پنہاں کرنے یا مخفی رکھنے کی پرانی وضع سے وہ صرف آشنا نہیں بلکہ اس کے استعمال پر حاوی ہے ۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ قیصر صدیقی کلاسیکی سج دھج کا ایک اچھا شاعر ہے ‘‘ ۔
بلا شبہ مجموعی طورپر قیصر صدیقی کے کلام کے سنجیدہ مطالعے کے بعد یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وہ اردو کلاسیکی شاعری کے پاسدار بھی ہیں اور جدیدیت ان کے لئے کوئی شئے مضربھی نہیں بلکہ ہر صبح ان کے لئے نئی صبح ہے اور ہر شام انہیں یہ پیغام دے جاتیہے کہ کل کا سورج ایک نیا پیام لے کر آئے گا اور وہ خندہ پیشانی سے ڈوبتے سورج کے پیغام کو حرزِ جاں بنا لیتے ہیں اور صبحِ نو کے منتظر نظر آتے ہیں ۔
نئی دہلی:گزشتہ روز غالب اکیڈمی ، نئی دہلی میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں شگوفہ کے مدیر مصطفی کمال نے شرکت کی۔ اسعد رضا نے ان کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ پچاس سال سے مصطفی کمال صاحب شگوفہ نکال رہے ہیں۔ وہ درس وتدریس سے وابستہ رہے ہیں اور کئی سال تک مولانا آزاد یونیورسٹی میں بھی خدمات انجام دیں۔ نصرت ظہیر نے مصطفی کمال کا خاکہ پیش کیا۔ابن کنول نے رحمان بابا کے نام سے ایک خاکہ پیش کیا۔ اس موقع پر مصطفی کمال نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اردو کے نقادوں نے طنز و مزاح پر توجہ نہیں دی۔ ہندوستان میں آج تک اس کی تاریخ نہیں لکھی گئی۔طنز و مزاح نے سماجی انصاف کوزندہ رکھا۔ غالب نے اردو نثر کو پہلا موڑ دیا اور مشتاق احمد یوسفی نے دوسرا موڑ دیا۔شگوفہ نے اردو نثر کے اصناف میں اضافہ کیا۔ نشست کی صدارت جی آر کنول نے کی۔چشمہ فاروقی نے دل کے دروازے کے عنوان سے افسانہ پیش کیا اور شعرا نے اپنے اشعار پیش کئے۔
نشست میں امردیپ اوبرائے ونے ماہی ،سریتا جین نے بھی اپنے اشعار پیش کئے۔اسی نشست میں طلعت دلدار دہلوی، محمد خلیل،شاداب تبسم،محمد سلیم، شاداب حسین،اے رحمان اور دوسرے اہل ذوق حضرات موجود تھےـ