نایاب حسن قاسمی
کتاب کانام:ادبِ اطفال:ادب اور ادیب
ترتیب:امیر حمزہ
اشاعت: عذرابک ٹریڈرس، دریا گنج،دہلی
رابطہ مرتب: 9990018577
برقی پتا:[email protected]
انسان جب عدم سے وجود کے پیکر میں ڈھلتا اور اس عالمِ ہست وبودمیں آنکھیں کھولتاہے،تبھی سے اس کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ،پہلے ماں کی گود،پھر مکتب ، مدرسہ،اسکول،کالج اور یونیورسٹی وغیرہ اوریہ سلسلہ تاعمر کسی نہ کسی صورت جاری رہتا ہے۔ابتدائی عمر میں سیکھنے یا پڑھنے کے مقصد سے بچوں کے لیے جو مواد تیار کیا جاتا ہے ،اسی کو اصطلاح میں ادبِ اطفال کہتے ہیں،یعنی بچوں کا ادب،بچوں کا ادب یعنی وہ مضامین و موضوعات ،جو چھوٹی عمر میں پڑھائے جاتے ہیں،سمجھائے جاتے ہیں،بتائے اور سکھائے جاتے ہیں۔بچوں کا ذہن آئینے کے مانند شفاف اور ان کا دماغ سفید کاغذ کی طرح کورا ہوتا ہے؛اس لیے اس مرحلۂ عمر میں ان کے ذہن میں جو باتیں ڈالی جاتی ہیں ،وہ نقش ہوتی چلی جاتی ہیں اور پھر تاحیات ان کا اثر قائم رہتا ہے؛ اسی وجہ سے بچوں کا ادب تخلیق کرتے ہوئے بڑے اہتمام و احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ علمی ، تصنیفی و تخلیقی سطح پرمبادا کوئی ایسی حرکت نہ سرزد ہوجائے،جو بچوں کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ثابت ہو اور ان کے دل دماغ پراگندگی کا شکار ہوجائیں۔اس طرح دیکھا جائے ،تو عام ادب یا بڑوں کے ادب کے بالمقابل بچوں کا ادب خلق کرنا خاصا مشقت آمیز اور توجہ طلب کام ہے،غالباً اسی وجہ سے اس طرف ہر فن کار متوجہ نہیں ہوتا ،یہاں موضوعات کے انتخاب پر دھیان دینا ہوتا ہے،طرزِ پیش کش پر توجہ دینی ہوتی ہے،موادکو بچوں کے ذہن سے ہم آہنگ بنانے کا اہتمام کرناہوتا ہے، ہم عصر تقاضوں کوپیشِ نظر رکھنا ہوتا ہے،زبان و الفاظ اور اسلوب و ادا پر بار بار اصلاحی نظر ڈالنا ہوتی ہے کہ کہیں بچوں کی ذہنی سطح سے بالاتر نہ ہوجائیں اور تخلیق کردہ مواد کی مقصدیت فوت نہ ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔
ادبیاتِ عالم کی طرح اردو میں بھی ادبِ اطفال کی ایک مستقل تاریخ ہے اور اسی تاریخ کے مختلف مراحل پر روشنی ڈالتی ہوئی ایک تازہ کتاب ’’ادبِ اطفال:ادب اور ادیب‘‘میرے پیشِ نگاہ ہے،کتاب کے مرتب جناب امیرحمزہ صاحب فاضلِ دیوبند اور دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ سکالر ہیں، نوجوان اصحابِ علم و قلم کے مابین اپنی سنجیدگیِ مزاج،ادبی و علمی مذاق اورفکر و نظرکے نئے موضوعات و آفاق تک پہنچنے اور ان کی تہہ میں اترنے کے جذبے سے سرشاری میں امتیازی شناخت رکھتے ہیں۔بچوں کے ادب اور اردوکے صرفی و نحوی قواعد پر ان کی تحریریں ملک کے ممتازوموقر ادبی رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔زیر نظر کتاب میں انھوں نے ترتیب وار34؍مقالات و مضامین شامل کیے ہیں،سولہ مضامین نومبر2017ء میں ’’اکیسویں صدی میں ادبِ اطفال ‘‘کے زیر عنوان امیر حمزہ اور سلمان عبدالصمدصاحبان کے زیر اہتمام منعقدہ سمینار میں پیش کردہ ہیں، جبکہ بقیہ مضامین مرتب نے یا تو مختلف اصحابِ قلم سے لکھوائے یا موضوع کی مناسبت سے پہلے کہیں شائع شدہ مضمون کواس کی افادیت کے پیشِ نظر اِس کتاب کا حصہ بنالیاہے۔مقدمہ کے علاوہ تین مزید مضامین خود امیر حمزہ کے قلم سے ہیں ،بقیہ مقالات کے لکھنے والے مختلف افراد ہیں اور ان میں سے زیادہ ترنوجوان اہلِ قلم ہیں۔مقدمہ میں مرتبِ کتاب نے اختصار کے ساتھ ادبِ اطفال کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے اجمالاً کتاب کے اہم مضامین کا تعارف بھی پیش کردیا ہے۔اصل کتاب کے دوحصے ہیں: ادب اور ادیب،’’ادب‘‘ کے حصے میں اٹھارہ مضامین ہیں اور ’’ادیب‘‘کے گوشے میں سولہ،پہلا مضمون ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی کا ہے’’نئی صدی،نیاادب اور نئے موضوعات‘‘،انھوں نے اکیسویں صدی میں عالمی ادبِ اطفال کے بدلتے مناظرومظاہر پر روشنی ڈالتے ہوئے اس سلسلے میں اردو ادب کی کم مائیگی کا شکوہ کیاہے،ان کے علاوہ ڈاکٹر عادل حیات(ادبِ اطفال اور اس کے مسائل)عبدالسمیع ندوی(عہدِ حاضر میں بچوں کا اردوسائنسی و طبی ادب)عاتکہ ماہین(بچوں کی نظموں میں جدید موضوعات)اپنے اپنے موضوع پرعمدگی سے روشنی ڈالتے ہیں ،عادل احسان کے مضمون ’’موجودہ صدی میں ادبِ اطفال کے تقاضے‘‘ میں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ادبِ اطفال کی تخلیق و تعلیم کے ضروری پہلووں پر اچھی نشان دہی کی گئی ہے ،البتہ مضمون کے آخری پیراگراف سے پہلے والے پیرا میں اسوچیم کی رپورٹ غالباً کسی اخبارسے نقل کی گئی ہے اور لکھاہے کہ ’’اسوچیم کی ایک رپورٹ میں خلاصہ ہواہے کہ…‘‘۔اردو زبان میں ’’خلاصہ ہواہے ‘‘اُس معنی میں استعمال کرنا ، جس میں ہندی والے استعمال کرتے ہیں ،ایک عملِ حرام کا ارتکاب ہے ،اردو کے ’’خلاصہ‘‘ اور ہندی کے ’’خلاصہ‘‘ میں کوئی نقطۂ اشتراک ہے ہی نہیں، فاضل مقالہ نگار بھی یقیناً اس بات سے واقف ہوں گے ۔ عروج فاطمہ کا مضمون’’عصرِ حاضر میں بچوں کی تعلیمی صورتِ حال‘‘ کل چھ صفحات پر مشتمل ہے،مگر اصل موضوع پر بہ مشکل ڈیڑھ صفحات میں توجہ دی گئی ہے۔صالحہ صدیقی کا مضمون ’’بچوں کی نفسیات اور ادبِ اطفال‘‘ عمدہ ہے ،بچوں کے نفسیاتی تقاضوں کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت کے طورطریقوں پر اچھی گفتگو کی گئی ہے۔ محمد انیس الرحمن خاں کے مضمون کا عنوان’’ادبِ اطفال کی موجودہ صورتِ حال‘‘ہے ،مگرمضمون میں ادبِ اطفال کی تعریف و تعارف پیش کیے گئے ہیں،چھ صفحات کے مضمون کا دوتہائی حصہ اقتباسات سے عبارت ہے۔شاداب شمیم نے اپنے مضمون’’موجودہ دور میں بچوں کے ادبی رسائل‘‘میں مختلف شہروں سے نکلنے والے بچوں کے آٹھ رسائل کا جائزہ لیا ہے۔غلام نبی کمارنے’’بچوں کے چند نمایندہ غزل گو شعرا‘‘کے زیر عنوان حافظ کرناٹکی،ابوالفیض عزم سہریاوی،مظفر حنفی،مرتضی ساحل تسلیمی اورظفرکمالی کی بچوں کے تعلق سے غزلیہ شاعری کا مختصر تجزیہ پیش کیا ہے۔فوزیہ ارشادنے اپنے مضمون ’’ادبِ اطفال میں کہانیوں کی اہمیت‘‘ میں کہانی کی فنی اہمیت بیان کرنے کے ساتھ موجودہ دور میں بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے والے اسدرضا، بانوسرتاج،انورکمال حسینی اور تسکین زیدی کی کہانیوں کے مجموعوں پر مختصر تبصرہ بھی کیا ہے۔ڈاکٹر خالدکے مضمون ’’بچوں کا افسانوی ادب:اجمالی جائزہ‘‘ کے ساڑھے تین صفحات میں بچوں کے ادب کی تاریخ بیان کی گئی ہے اوربقیہ ساڑھے چار صفحات میں موجودہ دور میں بچوں کے لیے افسانہ و کہانیاں تخلیق کرنے والوں کا اجمالی تعارف پیش کیاگیا ہے۔ابراہیم افسرکامضمون ’’موجودہ عہد میں بچوں کی شاعری‘‘ متعلقہ موضوع پراچھی طرح روشنی ڈالتا ہے۔نوشاد منظرنے ’’بچوں کا سائنسی ادب اور قومی کونسل کی خدمات‘‘ میں بچوں کے سائنسی ادب پر کونسل کی مطبوعات کا جائزہ لیا ہے۔سروری خاتون کامضمون ’’خواتین قلم کار اور بچوں کا ادب‘‘مفیدہے اور اس میں لیلیٰ خواجہ بانو،حجاب امتیاز علی،شفیقہ فرحت،اشرف صبوحی،رضیہ سجاد ظہیر،عصمت چغتائی،قرۃ العین حیدر،صالحہ عابد حسین،کشور ناہید،انجمن آرا انجم، شہناز نبی، عرشیں فردوس،نوشین انجم اور معراج النسابیگم کے ادبِ اطفال کا اجمالی جائزہ لیاگیا ہے۔عبدالباری قاسمی نے’’ادبِ اطفال کی اہمیت و افادیت‘‘میں ادبِ اطفال کا فنی تعارف اور مختصر تاریخ پیش کرتے ہوئے موجودہ دور میں بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے چند تجاویز پیش کی ہیں۔عمران عاکف خان کا مضمون ’’بچوں کی لسانی تربیت میں آڈیوزاور ویڈیوز کا کردار‘‘ٹکنالوجی کے موجودہ عہد میں ویڈیواور آڈیوکے ذریعے بچوں کی لسانی تعلیم وتربیت کے حوالے سے ایک عمدہ اور قابلِ استفادہ مضمون ہے۔امیر حمزہ کا ’’ڈیجیٹ
ل دنیا میں بچوں کا ادب‘‘عصرِ حاضر کے برقی ترقیات و تغیرات کے درمیان ادبِ اطفال کی صورتِ حال وامکانات پر معلومات افزا مضمون ہے۔کتاب کے دوسرے گوشے میں اُن ادباکی خدمات کا جائزہ لیاگیا ہے،جنھوں نے ادبِ اطفال پر لکھا یا لکھ رہے ہیں،ان میں شفیع الدین نیر(ڈاکٹر خالد مبشر)مرتضی ساحل تسلیمی (نورالصباح)مظفرحنفی(امیر حمزہ)وکیل نجیب(شمیم اختراکبرعلی)حیدر بیابانی (ڈاکٹر محبوب راہی)بابوآرکے(ڈاکٹر محبوب راہی)حافظ کرناٹکی(ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی)عادل حیات( تکمینہ حیات)حشمت کمال پاشا(امیر حمزہ) مناظر عاشق ہرگانوی(راحت علی صدیقی)فراغ روہوی(مناظرعاشق ہرگانوی)حافظ کرناٹکی ( ابراراحمد اجراوی)فخروطن بچوں کے لیے سوانحی کتاب (سرفراز جاوید)بچوں کے تین ادیب(شاہنوازقمر)ظفرکمالی،التفات امجدی(امتیاز وحید)شامل ہیں۔
یہ بڑی بات ہے کہ ایسے دور میں ،جبکہ ادبِ اطفال اور اُدباے اطفال پر مین سٹریم سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور اہلِ ادب و نقد کوئی خاص توجہ نہیں دے رہے ،نوواردانِ بساطِ ادب و تحقیق نے جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اس موضوع پر ایک باوقار سمینار منعقد کیا؛بلکہ اس سے متعلق مجموعی طورپر ایک قابلِ قدر تحریری سرمایہ بھی فراہم کردیا ہے،یہ کتاب خصوصاً رواں صدی میں بچوں کے ادب کی سمت و رفتار پر ایک اجمالی ،مگر پرازمعلومات روشنی ڈالتی ہے ،اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ صارفیت زدہ دور میں بھی بہت سے ایسے فن کار،تخلیق کار اور ادباوشعرا ہیں،جو صلہ و ستایش کی تمنا کیے بغیر نسلِ نو کے ذہن و دل کو اُجالنے اور ان کے فکرونظر کوسنوارنے میں مصروف ہیں۔فی الجملہ مواد کے اعتبار سے یہ کتاب وقیع ، عمدہ اور لائقِ مطالعہ ہے، کتاب کا ظاہری سراپا بھی بڑا دیدہ زیب ،جاذبِ قلب ونگاہ اورمرتب کے حسنِ ذوق و طبعِ نفیس ونستعلیق کا مظہر ہے۔ اشاعت عذرابک ٹریڈرس، دریا گنج،دہلی کے ذریعے عمل میں آئی ہے۔383؍صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت400؍روپے مناسب ہے۔
Daily Archives
2 فروری, 2019
رفیق سندیلوی
زمیں کی آگ سے اور آسماں کی بجلی سے
فروزاں رہتا ہُوں مَیں جسم و جاں کی بجلی سے
کہاں کی لَو تھی کہ موج اور ذرّے کو جس نے
بہ یک نگاہ مِلایا کہاں کی بجلی سے
عجیب دھوپ ہے جس سے وجود کا ہر تار
جُڑا ہُوا ہے زمان و مکاں کی بجلی سے
مزاج جانتا ہُوں برق پاش مٹّی کا
مَیں سو طرح سے جَلا ہُوں یہاں کی بجلی سے
ہر ایک لہر میں لہریں جھلک دکھاتی ہیں
گُزر رہا ہُوں کس آبِ رواں کی بجلی سے