تخلیق: ثاقب سلیمانی
تبصرہ:تصورسمیع
ثاقب سلیمانی کا شمار چنیوٹ کے کلاسیک شعرا میں ہوتا ہے اور ان کی شاعری بھی روایتی کلاسیکی اسلوب کی حامل ہے،
ان کے کلام میں زبان و بیان کی مہارت، تلمیح و تشبیہ کی کثرت، جملہ بندی و تراکیب کی چستی انہیں علاقے کے شعرا میں نمایاں مقام عطا کرتی ہےـ ان کا شمار بھی چنیوٹ کے ان شعرا میں ہوتا ہے،جن کے شعری مقام و مرتبہ سے نسل نو متعارف نہیں ہے،اس کی بنیادی وجہ جو میں سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کے متصل بعد کے شعرا و ادبا نے نسل نو سے اپنے اگلوں کا تعارف کروانے میں بخل و بے اعتنائی سے کام لیا ہےـ یہی وجہ ہے کہ شہر کا نوجوان طبقہ آج سے چند دہائیاں قبل کے شعرا و ادبا کے شعری قد و قامت اور خدمات سے آگاہ تو کجا، ان کے نام تک سے ناواقف ہےـ
آغا عبدالواسع ثاقب سلیمانی یکم مارچ 1914 ءکو چنیوٹ میں بابو عبد العزیز کے ہاں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد سہارن پور سے ہجرت کرکے چنیوٹ میں آباد ہوئے تھے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ سکول چنیوٹ سے حاصل کی ۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی شعرو شاعری کا آغاز کیا ۔ اسلامیہ ہائی سکول سے میٹرک تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لائلپور (فیصل آباد ) میں داخل ہوگئے ۔ جہاں سے ایف اے تک تعلیم حاصل کی، اس کے بعد ڈی مونٹ مورنسی کالج شاہ پور چلے گئے ۔ جہاں سے بی اے کی ڈگری حاصل کی ۔ 1937 ءمیں آپ کومحکمۂ مال جھنگ میں ملازمت مل گئی ۔ آپ ایک اچھے شاعر،مصور، ادیب اورفن خطاطی کے شہنشاہ تھے ۔ آپ ” لسان القوم “ کے خطاب کے حامل تھے ۔ آ پ کی پہلی نظم 1938 ءجھنگ کے ماہنامہ ارمان میں شائع ہوئی، ڈاکٹر عزیز علی کے ہفت روز ہ یادِ خدا میں بھی آپ کی نظمیں اور غزلیں چھپتی رہیں ۔ آپ نے انگریزی زبان کی نظموں کابھی اردو ترجمہ کیا ۔ 1941 ءمیں آ پ نے ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے محکمہ میں ملازمت اختیار کرلی اور اس محکمے میں 32 سال تک فرائض سر انجام دینے کے بعد 1973ءکو ریٹائر ہو گئےـ
ثاقب سلیمانی موروثی شاعر ہیں، ان کے دادا بھی شاعر تھے اور سوز تخلص کرتے تھے اور ان کا ایک عدد دیوان بھی اشاعت پذیر ہواتھا ـ
ثاقب سلیمانی خیال مراد آبادی کے شاگرد تھے اور معروف شاعر اختر شیرانی سے قریبی تعلق رکھتے تھے،شاید اسی لیے اختر شیرانی کا رنگ ثاقب سلیمانی کے اسلوب میں بھی نظر آتا ہے،
ان کا مجموعہ "غنچۂ شوق” ہمارے پیش نظر ہےـ
"غنچۂ شوق” 1983 میں لاہور سے شائع ہوئی، 160 صفحات کی یہ کتاب 7 ابواب پر مشتمل ہے،جو مختلف ناموں سے معنون ہیں ـ اس کتاب میں غزل، نظم، قطعات، گیت اور ماہیے شامل ہیں،اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ثاقب سلیمانی بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں اور وہ اس صنف میں کمال مہارت رکھتے ہیں ـ انہوں نے صنف غزل میں بھی طبع آزمائی کی ہے؛لیکن وہی روایتی مضامین اور روایتی کلاسیکی انداز سے باہر نہیں نکلے؛اس لیے ان کی غزلوں میں زبان و بیان کی مہارت کے سوا کوئی انفرادیت دکھائی نہیں دیتی، ان کی غزلوں کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں، جن سے زبان و بیان پر ان کی گرفت جھلکتی ہے:
وہ اکثر محبت کا غم دیکھتے ہیں
جو اندیشۂ بیش و کم دیکھتے ہیں
جلاتے ہیں خوں سے چراغ معانی
مگر وہ تو حسن رقم دیکھتے ہیں
پھر جبینِ شوق میں سجدے لیے جاتا ہوں میں
پھر وہی ماہِ جواں بالائے بام آہی گیا
ایک مدت سے مچی تھی دھوم جس کے نام کی
بزم میں وہ شاعرِ شیریں کلام آہی گیا
اے توبہ پھر تجھے ہو نویدِ شکست آج
آیا ہے جھوم جھوم کے ابر بہار ابھی
ہاں ہاں پلائے جا ابھی رطلِ گراں مجھے
ساقی دھلا نہیں مرے دل کا غبار ابھی
ان کو نشہ شباب کا مجھ کو شراب کا
خمیازہ ہے اُدھر تو، اِدھر ہے خمار ابھی
ان اشعار سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ثاقب سلیمانی کس طرز کی غزل کہتے تھے اور اس میں کس قدر مہارت رکھتے تھےـ
ثاقب سلیمانی پابند نظموں میں اپنی پہچان اور انفرادیت رکھتے ہیں اور اسی میدان کو انہوں نے اپنا ہدف سخن بنایا، ان کی نظمیں غزلیہ رنگوں میں ڈوبی نظر آتی ہیں،یوں لگتا ہےکہ انہوں نے نظموں کو غزل کی سی روانی اور کشش دینے کی دانستہ کوشش کی ہے اور اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں ـ بےشمار اہم عنوانات پرانہوں نظم سرائی کی، مختلف شخصیات پر لکھا، معاشرتی پہلوؤں پر سخن سرائی کی، روایتی عنوانات بھی دہرائے اور آزاد نظمیں بھی کہیں، نیز مختصر نظموں میں بھی طبع آزمائی کی اور انہیں خوب نبھایا،جس سے ان کے فن شعر پر دسترس کا بخوبی اندازہ ہوتاہےـ ان کی نظمیں اس مختصر تعارفی مضمون میں درج کرنا تو ممکن نہیں؛ کیونکہ اس سے مضمون بے جا طوالت کا شکار ہوجائےگا،ہاں ان کی کچھ مختصر نظمیں نمونے کے طور پر ضرور پیش خدمت ہیں:
مری آنکھ آنسو بہاتی رہے گی
ستاروں کی لو تھرتھراتی رہےگی
تری یاد آتی رہے گی
کبھی تو نگاہ کرم کے سہارے
لگے گی ہماری بھی ناؤ کنارے
کوئی پار اتارے
نصیحت
جو گرتی ہوئی برف کی طرح
نرمی سے دل پر پڑےگی
وہ ہلکی سی تا ثیر پیدا کرےگی
ثاقب سلیمانی نے علامہ اقبال اور کچھ دیگر شعرا کے تتبع میں انگریزی نظموں سے خیال مستعار لے کر انہیں اپنے انداز میں بیان کرنے کی خوبصورت کوشش بھی کی ہے،مثلا:
یہ دنیا ہے
کوئی طلائی حباب
جو معصوم بچوں کے انفاس سے
چراغاں ہوا، اور پھر بجھ گیا
ہے آساں بہت
نکتہ چینی کی عادت
مگر کتنی دشوار ہے خود نمائی
کرے جھیل فطرت کی آئینہ داری
مگر بے خبر اپنی گہرایوں سے
یقینا اب تک آپ میری اس بات سے اتفاق کرچکے ہوں گےکہ فطری طور پر ثاقب سلیمانی کا شعری میدان غزل کی بجائے نظم کا تھا اور اس میں وہ اپنا رنگ جمانے میں کامیاب رہے،
انہوں نے علاقائی روایت اور ثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے دلکش انداز میں ماہیے بھی کہے ہیں، جو دلچسپی سے خالی نہیں اور اس مضمون میں ان کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی،
نمونۂ کلام ملاحظہ فرمائیں:
اک جوت جگائی ہے
گلشن میں بہاروں نے اک آگ لگائی ہے
کرتے ہیں اشارے سے
آنکھوں سے برستے ہیں ساون کے نظارے سے
ہونٹوں پہ مچلتے ہیں آہوں کے شرارے سے
مخمور جوانی ہے
اٹھتے ہوئے جوبن کی رت کتنی سہانی ہے
غنچے بھی چٹکتے ہیں
کلیوں کی جبینوں سے موتی سے ڈھلکتے ہیں
جو چاند کی کرنوں سے شرما کے چمکتے ہیں
آخر میں ان کی ایک نظم” ہلال عید”ملاحظہ فرمائیں:
اے ہلالِ عید، اے سرمایۂ بزمِ نشاط
اے کہ جس کی دید میں مضمر ہے رازِ انبساط
تیرے حسنِ ضو فشاں سے جگمگا اٹھا جہان
تجھ پہ قرباں ہورہی ہیں مہ وشوں کی انگلیاں
اے ہلال عید تجھ میں نور وہ مستور ہے
جس کے ہر جلوے میں پنہاں داستان طور ہے
یوں ہوائے شوق سے جاتا ہے منزل کی طرف
جیسے کشتی ہو رواں تیزی سے ساحل کی طرف
30 جنوری, 2019
مجلسِ مذاکر، نمائش اور شعری نشست کا انعقاد،کثیرتعداد میں دشائقینِ ادب کی شرکت،کتابوں کی ریکارڈ فروخت
حیدرآباد(محسن خان) لٹریری فیسٹیول کے آخری دن تلنگانہ ٹورازم پویلین اور کاروی پویلین میں مختلف موضوعات پرمذاکرے منعقدہوئے۔ اردوکی نمائندگی پروفیسر بیگ احساس نے کی۔ انہوں نے ’’لٹریری کلچر آ ف تلنگانہ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ مذاکرے میں حصہ لیا۔ اس مذاکرے کی خصوصیت یہ تھی کہ تینوں فن کار ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ تھے۔ لوسی مارگریٹ ( ساہتیہ اکاد می یواپُرسکار)پروفیسر بیگ احساس (ساہتیہ اکادمی یواپُرسکار) اور اشوک تُنکا سالہ (ساہتیہ اکادمی ایوارڈبرائے ترجمہ) نے گفتگو کی۔ لوسی مارگریٹ نے اپنی شاعری کے بارے میں بتایاکہ وہ ایک کرسچن ہیں،کرسچنوں میں بھی دلتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ایک دلت لڑکی کے دکھ کااظہار کیاہے۔ پروفیسر بیگ احساس نے کہاکہ انہوں نے اپنے افسانوں میں حیدرآباد کی ملی جلی تہذیب کے ختم ہوجانے کے المیے کوپیش کیاہے۔ انہوں نے کہاکہ شاہی دور میں بہت سی خرابیاں تھیں لیکن رواداری تھی۔ یہاں کے محلوں کے نام،زبان اور عمارتوں میں یہ مشترکہ تہذیب صاف دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے اپنی ایک کہانی کے حوالے سے کہاکہ ہندومسلم مشترکہ بستیاں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کوپاکستان چلے جانے کے لیے کہاجاتا ہے۔ جن لوگوں نے اپنے ملک میں رہنے کوترجیح دی، وہ کسی او رملک کوکیوں جائیں۔ انہوں نے تلنگانہ تہذیب کی مثالیں پیش کیں ،جس کی سامعین نے گرم جوشی سے تائید کی۔ اشوک تنکاسالہ نے کہاکہ انہوں نے تیلگولٹریچر اور تہذیب کو ترجمے کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچانے کا کام کیا۔ تلگوادب کے کئی شاہکارکا انہوں نے انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں میں ترجمہ کیے۔ سامعین نے مختلف سوالات کیے۔ پروفیسر وجئے کمار نے نظامت کے فرائض عمدگی سے انجام دیے اور تینوں فن کاروں کاتعارف پیش کیا۔ مشہور اداکارہ شبانہ اعظمی نے مذاکرہ ’’کاروانِ کیفی‘‘ میں حصہ لیا اورکیفی اعظمی کی زندگی کے مختلف واقعات بیان کیے۔ سامعین کے اصرار پرانہوں نے اردو میں گفتگو کی اور مذاکرے کے آخر میں ایلاارون کے ساتھ سرور ڈنڈا کی دکنی نظم ترنم سے پیش کی۔ انیتادیسائی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ شبانہ اعظمی نے پروگرام ’’کاویہ دھارا‘‘ میں بھی حصہ لیا۔ ’’کاویہ دھارا‘‘ کے سارے عنوان اردو۔ہندی میں رکھے گئے ،جیسے شروعات ،جوشِ حیدرآباد ،مدھیہ انتر اور چراغِ حرف وغیرہ ۔مشہورہندی اردوشاعرحسین حیدری کی نظم’’ہندوستانی مسلمان‘‘ کوبے حدپسند کیاگیا ۔ اختتامی تقریب میں ملیکا سارا بھائی نے کہاکہ پانچ مسائل کا انتخاب کیجئے اورانہیں حل کرنے کے لیے اپنے علاقے کے ایم۔ ایل۔ اے سے اصرار کیجئے۔ انہوں نے کہاکہ سوشیل میڈیا سے فوائد توہوئے ؛لیکن انسان حقیقی دنیا سے دور ہوگیا اور اس دنیا کوحقیقی سمجھنے لگا ،جودکھائی جارہی ہے۔ بارش کے باوجود شائقین کی کثیرتعداد نے شرکت کی اور بڑی تعداد میں کتابیں فروخت ہوئیں۔
عبدالعزیز
ہندو پاک کی سیاست میں چہروں کا صبح و شام بدلنا عام بات ہے، بعض لوگوں کے بارے میں پوچھنا پڑتا ہے کہ آپ اس وقت کس جماعت میں ہیں؟ مسکراکر بتاتے ہیں کہ ’’فلاں جماعت میں ہوں‘‘، کچھ دنوں کے بعد خبر ملتی ہے کہ جناب نے پارٹی بدل لی ہے۔ ایک پاکستانی سیاستداں نے الیکشن اور حکومت سازی کے بعد ٹی وی چینل پر کہاکہ وہ مسجد میں بیٹھ کر قسم کھاسکتے ہیں کہ انھوں نے پارٹی کبھی نہیں بدلی، وہ ہمیشہ حکمراں جماعت میں رہے۔ اگرچہ یہ بات جارج فرنانڈیز کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی ،مگر نظریہ بدلنے اور محاذ بدلنے میں ان کو بھی کمال حاصل تھا۔ منگلور کے ایک عیسائی خاندان سے وہ تعلق رکھتے تھے، ان کے ماں باپ انھیں پادری بنانا چاہتے تھے اور اس کی تربیت بھی دے رہے تھے کہ جارج فرنانڈیز 19؍سال کی عمر میں منگلور کو خیرباد کہہ کر 1949ء میں بمبئی شہر آگئے اورکسی طرح زندگی گزارنے لگے، فٹ پاتھ پر سوتے تھے۔ دن کے وقت گزر اوقات کیلئے کچھ کرلیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ راستے میں جو چیز مسل پاؤ (Misal Pav) کے نام سے بکتی تھی، اسے کھاکر اکثر سوجایا کرتے تھے۔
جارج فرنانڈیز میں تنظیمی صلاحیت تھی، وہ جلسے جلوس منظم کرنے میں آہستہ آہستہ ماہر ہوگئے ، انھیں گودی رہنما (Dock Leader) پی ڈی میلو کی سرپرستی میسر آگئی، جس کی وجہ سے ان کی زندگی کوجلا مل گئی، پھر تو ان کا قدم ورکر سے لیڈر کی طرف بڑھتا چلا گیا، بمبئی کی ٹیکسی یونین کے لیڈر ہوگئے۔ اس کے بعد وہ ایک ایسی بڑی شخصیت بن کر ابھرے کے ٹیکسی ڈرائیوروں کے ساتھ مل کر پورے بمبئی شہر کو مفلوج کردیا، ٹریڈ یونین لیڈر کی حیثیت سے ملک گیر شہرت حاصل ہوگئی اور ریلوے اسٹرائیک کراکر شہرت اور مقبولیت کی اونچائیوں کو چھونے لگے، 1977ء میں جارج فرنانڈیز نے جنتا پارٹی بنانے اور اندرا گاندھی کی حکومت کو گرانے میں اہم رول ادا کیا، 1967ء میں پہلی بار لوک سبھا کے الیکشن میں جنوبی بمبئی سے کھڑے ہوئے اور کامیاب ہوئے تھے، کانگریس کے سرکردہ لیڈر ایس کے پاٹل کو ہراکر زبردست ناموری حاصل کرلی؛لیکن بال ٹھاکرے کا عروج جب بمبئی میں بڑھا ،تو جارج فرنانڈیز کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی، 1971ء میں الیکشن اگر چہ وہ ہارگئے، مگر جارج فرنانڈیز کی دوستی بال ٹھاکرے اورکانگریس کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ بسنت راؤ نائک سے ہوگئی،نائک شرد پوار کے آدمی تھے اور فرقہ پرست تھے۔
جارج فرنانڈیز بہار منتقل ہوگئے اور مظفر پور کے حلقۂ انتخاب سے لوک سبھا سیٹ پر کامیاب ہوئے، جنتا پارٹی کی سرکار میں کابینہ درجہ کے وزیر ہوئے، مرارجی ڈیسائی کی حکومت کو گرانے میں حصہ لیا اور چودھری چرن سنگھ کے ساتھ ہوگئے، زیادہ دنوں تک سرکار قائم نہیں رہی، کچھ دنوں تک جنتادل میں رہے، لالو پرساد یادو کے طرز عمل سے روٹھے، تو نتیش کمار اور جارج فرنانڈیز نے ’’سمتا پارٹی‘‘ کی بنیاد ڈالی، کانگریس کی دشمنی میں سمتا پارٹی بی جے پی کی سربراہی والے محاذ این ڈی اے میں شامل ہوگئی۔ جارج فرنانڈیز کی ادا اس قدر پسند آئی کہ سنگھ پریوار والے انھیں این ڈی اے کا کنوینر بنا دیا اور جب اٹل بہاری واجپئی کی حکومت قائم ہوئی، تو جارج فرنانڈیز وزیر دفاع مقرر ہوگئے، اس زمانے میں جارج فرنانڈیز، جنھوں نے اپنی زندگی ایک مزدور کی حیثیت سے شروع کی تھی اور مزدوروں اور کسانوں کیلئے لڑتے تھے، پکے جن سنگھی ہوگئے، اسی زمانے میں ،یعنی 2002ء میں گجرات میں فساد ہوا اور مسلمانوں کے بچے، بوڑھے اور مرد اور عورت پر شدید قسم کے مظالم ڈھائے گئے، لوک سبھا میں ایک لیڈر نے جب حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی کہ ایک ماں کے پیٹ سے بچہ نکال کر دو ٹکڑے کر دیے گئے، تو ظالم جارج فرنانڈیزنے کہاکہ ایسا فسادات کے زمانے میں ہوتا ہے، کوئی انہونی بات نہیں ہے، گجرات میں فوج بھی بھیجنے میں پس و پیش سے کام لیا، ایک ہفتے بعد فوج گجرات بھیجی گئی، جب تباہی اور بربادی جن سنگھیوں کی خواہش کے مطابق مکمل ہوچکی تھی۔
جارج فرنانڈیز ابتداء اًرام منوہر لوہیا کے نظریے کے حامی تھے اور ایک سوشلسٹ لیڈر کی حیثیت سے ابھرے تھے ،مگر آر ایس ایس اور بی جے پی کا دُم چھلا بن کر ان کی سیاسی زندگی کا خاتمہ ہوا، ایک طرح سے ہیرو بن کر ابھرے تھے اور زیرو بن کرڈوب گئے، موت کی آغوش میں جانے سے پہلے بس سانس آتی جاتی رہی اور قصہ تمام ہوا، کئی سال تک بسترِ مرگ سے چمٹے رہے، نہ اٹھنے بیٹھنے کی سکت رہی، نہ بولنے کی طاقت، کسی کو پہچانتے بھی نہیں تھے، صرف کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا کرتے تھے، مرنے سے پہلے کسمپرسی کی زندگی گزارتے رہے، ایسی سزا خدا دشمنوں کو بھی نہ دے۔ زندگی کے ایام اٹل بہاری واجپئی سے بھی بدتر تھے، لیلا کبیر فرنانڈیز ان کی بیوی تھیں، مگر 1980ء سے ہی دونوں ایک دوسرے سے الگ رہتے تھے، جب جارج فرنانڈیز بری طرح بیمار ہوئے،ہاتھ پاؤں، دل و دماغ سب ناکارہ ہوگئے تھے،تو رسماً لیلا آتی جاتی رہیں، سین ان کا بیٹا بھی آتا جاتا رہا، جب ان کی سیاسی دنیا کی دوست جیا جیٹلی اور جارج کے بھائیوں نے دہلی ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا کہ جارج فرنانڈیز کی دیکھ بھال ٹھیک سے نہیں ہورہی ہے، تو دہلی ہائی کورٹ کے جج منموہن سنگھ نے فیصلہ صادر کیا کہ ان کے بھائیوں اور جیا جیٹلی کو جارج فرنانڈیز سے ملاقات کا موقع فراہم کیا جائے، عدالتی فیصلے کے بعد جیا جیٹلی اور ان کے بھائی جارج فرنانڈیز کو دیکھنے کیلئے آنے جانے لگے، کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس دھن دولت تھی، جس کی وجہ سے وارثین میں چشمک تھی، بیوی بیٹے اس کو اپنا حق سمجھتے تھے ،جبکہ جیا جیٹلی اور ان کے بھائی اور رشتے دار اپنے حق کا دعویٰ کرتے تھے، شایداب ان کی موت کے بعد جائیداد کا جھگڑا بھی شروع ہو۔
جارج فرنانڈیز جن کو ’’جارج صاحب‘‘کے لقب سے پکارا جاتا تھا، دو سنگین مرض میں مبتلا تھے: ملیشیا (Alzhimer) اور رعشہ (Parkinson) دونوں بیماریاں ایسی خطرناک ہوتی ہیں کہ آدمی کسی لائق نہیں رہتا ، بس آخری سانس کا انتظار کرتا رہتا ہے، جارج صاحب کئی چہروں کے ساتھ زندہ رہے اور اپنا اصل چہرہ تلاش کرتے کرتے چلے گئے، اردو کے ایک معروف شاعر پرویز شاہدی نے ایسے لوگوں کیلئے بہت پہلے ایک نظم ’’بے چہرگی‘‘ کے نام سے کہی تھی، جارج صاحب اسی بے چہرگی کی علامت بن گئے تھے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
مسعود جاوید
چند غیر مقیم ہندوستانی ہم خیال دوست دہلی آئے اور اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ وہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں،مختلف پراجیکٹس پر غور و فکر کے بعد ایک پراجیکٹ کا انتخاب کیا گیا، اس کے لیے مطلوبہ رقم، پروڈکشن، مارکیٹنگ اور نفع نقصان کے پہلو جاننے کے لیے ایک ایجنسی کو feasible studyکا کام سونپا گیا،اس کی رپورٹ کی روشنی میں طے پایا کہ 80؍ فیصد ان کی اور 20؍ فیصد مقامی سرمایہ کاروں کی کمپنی بنے،مقامی ہم خیال اور ہم پلہ لوگوں کا انتخاب ہوا اور اس طرح صنعتی اور تجارتی کام شروع ہو گیا،بعض بے سر و سامان اور غیر ہم پلہ لوگوں نے شکایت کی کہ انہیں شراکت کا اہل نہیں سمجھا گیا،جب ان لوگوں نے کمپنی کے ذمے داران سے ملاقات کی اور یہ بات رکھی، تو کمپنی والوں نے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کے پاس سرمایہ کاری کے لیے مطلوبہ رقم ہے؟ اگر مطلوبہ رقم نہیں ،تو کیا آپ لوگوں کے پاس کمپنی چلانے کے لیے مطلوبہ صلاحیت اور عملی تجربات ہیں؟ توانہوں نے کہا :یہ تو نہیں ہے،مگر ہم اسی علاقے کے رہنے والے ہیں ؛اس لیے ہمیں بھی شامل کیاجانا چاہیے تھا، کمپنی والوں نے کہا کہ ہم نے فیکٹری چلانے ،اس کی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنے اور نفع کمانے کے لیے کمپنی کی تشکیل کی ہے، خیرات باٹنے کے لیے نہیں،آپ کے پاس شریک بننے کی نہ صلاحیت ہے ،نا ہی اہلیت اور نا ایسے افراد ہیں، جو ورکنگ پارٹنر بن سکیں،بھائی ہمیں فیکٹری چلانا ہے، خیراتی ادارہ نہیں!
آیندہ انتخابات کے پیش نظر بعض سیکولر پارٹیوں کااتر پردیش میں گٹھ بندھن ہوا ہے اور پچھلے ہفتے ایک بڑی سطح پر اپوزیشن اتحاد کا مظاہرہ کولکاتا میں ہوا تھا،بعض مسلم سیاسی ’’لیڈروں‘‘ کو شکایت ہے کہ ان کو نظر انداز کیا گیا، ان کی پارٹیوں کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا گیا،اگر یہ لوگ گٹھ بندھن کے ذمے داروں سے ملاقات کریں اور اپنی شکایت ان کے سامنے رکھیں، تو ان’’مسلم لیڈروں‘‘ سے یہی سوال کیا جائے گا کہ کیا آپ کے پاس سرمایہ یعنی افراد کی شکل میں متحد ووٹرز ہیں؟ کیا آپ کے اندر ذہنی صلاحیت ہے یعنی کیا آپ کی مقبولیت بحیثیت عوامی رہنما ہے؟ کیا آپ کی تنظیم میں ایسے افراد ہیں، جنہوں نے بلا تفریقِ مذہب و ذات برادری خدمت کر کے اپنے حلقۂ انتخاب میں اپنی پہچان بنائی ہو؟ کیا زمینی پکڑ والے مقامی لیڈر اور آپ کا اپنا کوئی کیڈر ہے ،جس کی کارکردگی الیکشن جیتنے کی ضمانت ہو؟ ظاہر ہے یہ ” مسلم سیاسی لیڈر ” جو ہر الیکشن کے موسم میں برساتی مینڈک کی طرح باہر نکلتے ہیں اور الیکشن کے بعد دوبارہ نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، کہیں گے کہ نہیں ،ہمارے پاس کیڈر اور اہل افراد تو نہیں ہیں،مگر آپ گٹھ بندھن کے ذمے دار حضرات کو ہمارے یہاں کے مولانا مکی ،مولانا مدنی، مولانا اماراتی، مولانا اسلامی، مولانا جماعتی ، مولانا حدیثی مولابا بخاری، تنظیم شرعیہ، انخمن شرعیہ ،مولانا کونسل ،اتحاد مسلمانانِ ہند کل ہند، مسلم مشورہ پارٹی، کل ہند مجلس مسلمانانِ ہند ،ملی اتحاد فیڈریشن کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا، تو گٹھ بندھن کا جواب ہوگا: بھائی !ہمیں ملک چلانا ہے ،مسجد اورمدرسہ نہیں، آپ خود اہل نہیں ہیں اور جن کے نام آپ پیش کر رہے ہیں ،وہ سیاسی تنظیمیں نہیں ہیں، خاص طور پر انتخابی سیاست میں ان کی کارکردگی ،حکمتِ عملی ،افراد سازی صفر ہے،تو مسلمان کہیں گے کہ اعظم خاں صاحب اور طارق انور صاحب جیسے لوگوں کو شامل کرتے، تو ان کا جواب ہونا چاہیے ’’ یہ لوگ مسلم لیڈر نہیں ہیں،یہ قومی سیاسی جماعتوں کے کارندے ہیں،ان کا شمار اگر مسلم لیڈر میں کیا جائے، تو اس کا جواب کیا ہوگا کہ مظفر نگر جلتا رہا ،قتل وغارتگری عصمت دری ہوتی رہی، مگر اتر پردیش اسمبلی میں 78 ؍مسلم ممبران نے احتجاج، استعفیٰ ،دھرنا پردرشن تک نہیں کیا؛ اس لیے کہ وہ پارٹی لائن سے باہر نہیں جا سکتے تھے،سب اپنی اپنی پارٹی کے غلام تھے، حالات جب بگڑتے ہی چلے گئے اور پانی جب سر سے اونچا ہونے لگا ،تو سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی۔
دستور کی حفاظت، اس پر غیر جانبداری سے عمل درآمد، فرقہ وارانہ فسادات کے ذمہ داروں کی اور اسے روکنے میں غفلت کرنے والوں کی نشاندہی اور واجب سزا دلانے، فسادات میں مرنے والوں اور آگ زنی و لوٹ مار کے متاثرین کو انصاف اور مناسب معاوضہ کا بل پاس کرانے کے لیے کس مسلم تنظیم نے اور کتنی شدت سے جنتر منتر پر اور مختلف شہروں میں احتجاج کیا اور عوامی تحریک چلائی؟ شاید ہماری تنظیمیں فساد روکنے کی حکمت عملی کی بجائے بعض مقاصدومفادات کے پیشِ نظر فساد زدگان کی بازآبادکاری اور سیلاب متاثرین کی امداد میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔
نئی دہلی:30/جنوری(پریس ریلیز)
آج کی میٹنگ کونسل کی تاریخ میں اس اعتبار سے منفرد ہے کہ بریل یعنی نابینا بچوں کے حوالے سے جو کتاب تیار کرنی تھی برسوں سے معرض التوا میں تھی لیکن کونسل نے اس سمت میں پیش قدمی کی ہے۔ کونسل کی یہ پیش قدمی اپنے اہداف کو پانے میں کامیاب رہے گی۔یہ باتیں کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے صدر دفتر میں منعقدہ کمیٹی برائے بریل اِن اردو کی میٹنگ میں کہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس میٹنگ کا مقصد نابینا طلبہ و طالبات کے لیے اردو زبان میں بریل کی تیار ی ہے ۔ اب تک ہندوستان میں نابینا بچوں کو اردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے جو رہنما لٹریچر پایا جائے گا اسی کی بنیاد پر کتاب تیار کی جائے گی۔
قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر پروفیسر اختر الواسع کی صدارت میں یہ کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس موقع پر پروفیسر اختر الواسع نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ احمدی اسکول میں اردو بریل کے سلسلے میں جو بنیادی کام ہوا ہے اور اس سلسلے میں جو رہنما لٹریچر پایا جاتا ہے اس کو سامنے رکھ کر کونسل جلد از جلد ایک ورکشاپ منعقد کرے گی، جس میں ملک کے ماہرین برائے بریل کو مدعو کیا جائے گا۔ورکشاپ کے انعقاد پر مجوزہ سفارشات بریل کونسل آف انڈیا کو منظوری کے لیے بھیجی جائیں گی۔ انھوں نے ڈائرکٹر ڈاکٹر عقیل احمد کے اس قدم کی ستائش کی اور کہا کہ کونسل ان کی قیادت میں اور ترقی کے منازل طے کرے گی۔
اس موقع پر ماہر بریل جناب جواہر لال کول جنرل سکریٹری آل انڈیا کنفیڈریشن آف بلائنڈ، محترمہ فردوس رحمن پرنسپل احمدی اسکول برائے نابینا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جناب پرشانت ٹنڈن نمائندہ انتر درشٹی، جناب نیاز احمد استاد احمدی اسکول، محترمہ ممتاز بانونابینا طلبہ و طالبات کے ماہرتعلیم اس کے علاوہ کونسل کی اسسٹنٹ ڈائرکٹر اکیڈمک محترمہ ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی، ڈاکٹر فیروز عالم، محمد شہاب الدین اور ڈاکٹر شاہد اختر نے شرکت کی۔
یاسر اسعد
کنگ سعود یونیورسٹی،ریاض
سائنس وٹکنالوجی کی شبانہ روز ترقی نے جہاں دیگر وسائلِ نقل وحمل کوکہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے، وہیں علوم ومعارف کے باب میں اس کی پیش قدمیوں نے معلومات کے خزانے کا دہانہ انسان کے لیے کھول دیا ہے۔ ازمنۂ قدیمہ میں علم وتعلم کے لیے لوگ ہزاروں میل کا سفر طے کرتے تھے، تب جاکر چند احادیث ہاتھ لگتی تھیں، جنہیں وہ اپنی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ شمار کرتے تھے، زیادہ تر لوگوں نے تو اسی علم کی راہ میں اپنی زندگی قربان کردی اور ہمیشہ کے لیے اپنی ہستی کو آنے والوں کے لیے زندۂجاوید بنا گئے۔بعد کے دنوں میں انسانی ترقی کے ساتھ علم ومعرفت کے طریقے بھی بہتر ہوئے، کتابت کا رواج ہوا، مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے ورقی کتابیں بھی منظر عام پر آئیں، جو بلا شبہ علم ومعرفت کے حصول کا سب سے اعلیٰ وسیلہ ہیں۔
اسی ترقی کی دین الکٹرانک کتابیں بھی ہیں، جن کا سیلاب آیا ہوا ہے، حتی کہ ورقی کتاب مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی آن لائن ملنا شروع ہوجاتی ہے۔ برقی کتابوں کے اس طوفان کے سامنے ورقی کتابیں بسا اوقات مزاحمت کرتی نظر آتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں کی صنف الگ ہو اور ان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو، بہت سارے لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے، دن رات ورقی کتابوں کے گن گاتے ہیں اور ایک طریقے سے الکٹرانک کتب کے تئیں متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں۔ ان کا شکوہ ہوتا ہے کہ وہ کتابوں کی خوشبو نہیں پاتے، ورق الٹنے کے مزے سے محروم رہتے ہیں، وہ قلم سے کتابوں کے حاشیے پر کچھ لکھ نہیں سکتے، اس میں نشانی نہیں رکھ سکتے، لیٹ کر بے فکری سے یا گود میں رکھ کر اسے نہیں پڑھ سکتے، قاری اور کتاب کے درمیان جو ربط اور محبت ہے ،وہ نہیں ملتی،موبائل وغیرہ کی بیٹری ڈاؤن ہو ،تو مطالعہ ہی نہیں ہوپاتا، آنکھوں کو دقت ہوتی ہے، بینائی کمزور ہوتی ہے، وقتاً فوقتاً میسجز اور نوٹیفیکیشن آنے سے دھیان بٹتا ہے، کتاب اور کتاب خواں کے درمیان کسی واسطے کا احساس ہوتا ہے اور یوں مکمل طور سے اس سے استفادہ ممکن نہیں ہوپاتا۔
ان باتوں سے انکار ممکن نہیں، واقعی برقی کتابوں میں یہ خامیاں موجود ہیں ،جن کی اصلاح نہیں کی جاسکتی، مگر ساتھ ہی ساتھ ورقی کتابیں بھی چند ان خصائص سے بہرہ ور نہیں جو برقی کتب میں ہیں۔ غایت دونوں کی علوم ومعارف کا حصول ہے، بس طریقۂ کار کا اختلاف ہے اور یہ اختلاف بھی تناقض نہیں؛ بلکہ تعدد کی قبیل سے ہے ،جسے بدقسمتی سے لوگ متضاد سمجھ رہے ہیں۔ لندن کے ایک عربی روزنامہ ’’العرب‘‘ (۱۸؍اکتوبر ۲۰۰۶ء) میں حکیم مرزوقی نے اس موضوع پر بڑا بہترین مضمون رقم کیا تھا، جس کا عنوان ہے: ’’ورقی کتاب یا برقی کتاب؟ مطالعہ بیزار قارئین کا فرضی جھگڑا‘‘ ، مضمون کے ایک فقرے میں وہ لکھتے ہیں:
’’زیادہ تر لوگوں کا یہی ماننا ہے کہ دونوں (برقی اور ورقی) کتابوں کے درمیان کمال کا تعلق ہے ،نہ کہ تقابل کا؛ لہٰذا ورقی اور برقی کتابیں ایک دوسرے سے مل کر مکمل ہوتی ہیں، ان میں سے ہر ایک کے اپنے خصائص اور مثبت ومنفی پہلو ہیں۔‘‘
مزید کہتے ہیں کہ مسئلہ ان دونوں کے درمیان مسابقت کا نہیں؛ بلکہ مطالعہ کے فقدان کا ہے، ایک مصری تنظیم کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ عالمِ عربی میں فرد کے مطالعے کی شرح سالانہ ربع صفحہ ہے، ۲۰۰۳ء کی یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق سالانہ ۸۰؍عرب افراد مل کر ایک کتاب کے برابر مطالعہ کرتے ہیں ،جب کہ تنہا ایک یورپی شخص سال میں ۳۵؍کتابیں پڑھتا ہے، اسی طرح اسرائیلی شخص سال بھر میں ۴۰؍ کتابیں مطالعہ کرتا ہے۔
اس سے ایک بات تو سامنے آگئی کہ ان دونوں قسم کی کتابوں کے درمیان جو تضاد پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،وہ فرضی ہے، جس کی کوئی اہمیت نہیں؛ کیونکہ جہاں ایک طرف ورقی کتاب اپنی حد میں خصوصیتیں رکھتی ہے، وہیں الکٹرانک کتابیں بھی کئی معاملوں میں ممتاز ہیں۔
برقی کتاب کی (آنلائن) طباعت کا خرچ کم ہوتا ہے، قیمت کم ہوتی ہے؛ بلکہ زیادہ تر مفت میں میسر ہوتی ہے، بیک وقت لا تعداد لوگ اسے پڑھ سکتے ہیں، مختصر سی یو ایس بی یا کارڈ میں لاکھوں کتابیں آسکتی ہیں، کمال سرعت کے ساتھ چند سیکنڈوں میں پوری دنیا میں پھیلائی جاسکتی ہیں، دوران مطالعہ اس کتاب پر حاشیہ بھی لگایا جاسکتا ہے، تبصرہ بھی کیا جاسکتا ہے، خط کا حجم بڑا چھوٹا بھی ہوسکتا ہے، ربط سے ویڈیوز اور آڈیوز بھی چلائی جاسکتی ہیں، ربط سے مراجع بھی براہ راست کھلتے ہیں، اسمارٹ کلاس روم میں پوری کلاس ایک کتاب سے مستفید ہوتی ہے، بغیر روشنی کے بھی پڑھ سکتے ہیں، اسے چلتے پھرتے سفر وحضر سب میں پڑھ سکتے ہیں۔ بس میں ہوں یا ٹرین میں، بینک کی لائن میں ہوں یا ٹکٹ کی، کسی انتظار گاہ میں ہوں یا راستے میں چل پھر رہے ہوں، غرضیکہ ہر موقع ومقام پر یہ کتابیں آپ کو میسر ہیں۔ان کو پڑھتے وقت آپ کو شرم نہیں آئے گی؛ کیونکہ دیکھنے والا آپ کو موبائل چلاتا ہوا سمجھے گا۔
ایسی کتاب کے وزن کا بوجھ برداشت نہیں کرنا پڑتا، سیاہی نہیں خرچ ہوتی، نقل وحمل کی ضرورت نہیں پڑتی، اس کو نکالنے کے لیے لائبریری نہیں جانا پڑتا، اسے جمع کرنے کی مصیبت سے دوچار نہیں ہونا پڑتا، اس کے پھٹنے کا خدشہ نہیں، بایں طور جرمانہ بھی نہیں، پڑھنے کے لیے روشنی کی ضرورت نہیں؛ لہٰذا کمبل میں آگ لگنے کا اندیشہ بھی نہیں، کسی اسٹریٹ لائٹ کی حاجت نہیں، اس کے نسخے کبھی ختم نہیں ہوں گے، اس کو پڑھنے کے لیے بیٹھنے یا حالتِ اطمینان میں ہونے کی ضرورت نہیں، اس میں تھکنے کا امکان نہیں، خریدنے کی صورت میں آنے کا انتظار نہیں…..الخ۔
برقی کتابوں سے استفادے کے بے شمار مواقع ہیں، جو یقیناًورقی کتابوں سے زیادہ ہیں، خصوصاً بیرون ملک رہنے والے حضرات اس کی اہمیت کو اچھی طرح سے سمجھتے ہوں گے۔ یہ ناچیز بھی بغرضِ تعلیم سعودیہ میں مقیم ہے، جہاں اردو کی ورقی کتابیں اور مکتبے دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں، ان حالات میں اپنی زبان پر کنٹرول رکھنے کا یہ واحد ذریعہ اور سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔
سطور بالا سے مترشح ہے کہ برقی کتاب بمقابلہ ورقی کتاب کہنا درست نہیں، دونوں کے اپنے امتیازات ہیں، جن کا مقابلہ کرنا حماقت ہوگی۔ اس مضمون سے یہ غلط فہمی نہ ہوکہ کسی ایک نوع کو دوسرے پر فوقیت دی جارہی ہے؛ کیونکہ یہاں سر ے سے معاملہ مقابلے کا ہے ہی نہیں!
[email protected]
0966501045646