(تنقیدی و تحقیقی مضامین)
صنف حنیف نجمی
اشاعت:2018
صفحات:276
قیمت:275
ناشر. روز ورڈ بکس ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی
تبصرہ نگار: امیر حمزہ
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی
بہت ہی کم ایسی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں،جو فکر کو مہمیز کریں اور ان سے نظر کو بالیدگی عطا ہوـ مگرحنیف نجمی صاحب کی یہ کتاب پہلی ہی نظر میں کسی بھی سنجیدہ قاری کو اپنی جانب مائل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؛کیونکہ اس کتاب میں تین اہم ایسے مضامین ہیں،جن میں سے دو کا پلاٹ صرف ایک بیت پر قائم کیا گیا ہے اور ایک تحقیقی مضمون صرف ایک مقولے پرمرکوز ہےـ
کتاب کی فہرست پر جب نظر پڑی، تو نادر مضامین کا گلدستہ نظر آیا، جس میں ادب کی روح اور فلسفے کا خمیر ہے، اساطیری فنٹاسی ہے اور تازہ واردان ادب کے ادب پر تنقیدی نظر بھی، اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کلام کی جو معطر روح اردو میں سمائی ہوئی ہے،وہ مضامین میں بھی شیر وشکر ہوگئی ہے، جو کسی بھی سنجیدہ قاری کو کلاسیکیت کی روح سے روشناس کراتی ہے اور لفظ و معنی کے بے پناہ روموز بکھیرتی ہےـ
کتاب کا پہلا مضمون”صنف غزل اور بین المتونیت” ہے، جسے خسرو کے ایک بیت کے حوالے سے رقم کیا گیا ہے،مضمون کی شروعات مضامین میں اخذ و استفادہ کی بحث سے کی گئی ہے،جس کو انہوں نے بین المتونیت کے دائرے میں پیش کیا ہے،جس کے دلائل کے طور پر سنسکرت اور فارسی شعریات کو بھی پیش کیا ہےـ خسرو کے خصوصی بیت پر جو مضمون قائم ہے وہ بیت کچھ اس طرح ہے:
اے گل چوں آمدی ز زمیں گو چگونہ اند
آں روئے ہا کہ در تہہ گرد فنا شدند
ساتھ میں مصنف کا دعویٰ بھی ہے کہ "غزل صحیح معنی میں بین المتونی صنف سخن ہے،اخذ و استفادہ اس کی شعریات کا مسلمہ اصول ہے”ـ مصنف مذکورہ بیت کے مضمون کو بیدل و سودا سے لےکر مخمور سعیدی کی شاعری تک میں نشاندہی کرتے ہوئے پھر واپس سعدی و خیام کی جانب لوٹ جاتے ہیں، اس طرح وہ اپنے دعوے کےدلائل پیش کرتے چلے جاتے ہیں،جو قاری کے ذہن میں بھی گھر کرجاتےہیں ـ
دوسرے مضمون کا عنوان” غالب کی ایک بیت "ہے،فارسی کا ایک مشہور مقولہ ہے”در بلا بودن بہ از بیم بلا” اس پر بے تکلف کا اضافہ کر کے عرفی کے ایک شعر سے اکتساب کرتے ہیں، غالب کی بیت کچھ اس طرح ہے:
بے تکلف در بلا بودن بہ از بیم بلا
قعر دریا سلسبیل و روئے دریا آتش است
اور عرفی کی بیت کچھ اس طرح ہے:
ہم سمندر باش و ہم ماہی کہ در جیحون عشق
روئے دریا سلسبیل و قعر دریا آتش است
مذکورہ اشعار سے مصنف معانی کے گرہ کھولتے چلےجاتے ہیں، معانی کے دعویٰ کی دلیل اشعار سے پیش کرتے جاتے ہیں اور ایک دلچسپ مضمون بنتا چلا جاتا ہےـ
مرزا منوہر توسنی،جو مصنف کی تحقیق میں فارسی کا سب سے پہلا غیر مسلم شاعر تھا، اس پرایک طویل تحقیقی مضمون ہے،جس میں توسنی کی شخصیت،ادب اور مقبولیت کا جامع انداز میں مدلل احاطہ کیا گیا ہےـ
"کلام خسرو میں گریہ” غزل کے مضامین اور مضامین کے اختراع سے مضمون شروع ہوتا ہے،جس میں گریہ کے مضمون کو جن نئے نئے اندازوں سے خسرو نے پیش کیا ہے، ان کی کہکشاں انہوں نے یہاں پیش کردی ہےـ
"ملک الشعرا فیضی : ایک تجزیاتی مطالعہ” کتاب میں شامل سب سے طویل تحقیقی مقالہ ہے، جو تقریباً پچھتر صفحات پر مشتمل ہے، اگر چہ مصنف نے عنوان میں تجزیاتی مطالعہ لکھا ہے؛ لیکن یہ مکمل تحقیقاتی مقالہ ہے،جس کی شروعات اکبر کے دور میں علماے کبار کے ذکر کے بعد عہدِ اکبری میں فارسی ادب کی حسین تاریخ کا زریں مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہےـ فیضی کا درجہ اکبر کے یہاں، فیضی کی تصانیف و تراجم، مذہب اور فیضی کی شاعری کا مطالعہ تفصیلی طور پر شاملِ مضمون ہےـ ایک بات جو اس کتاب میں بہت ہی اہم ہے، وہ یہ کہ مصنف نے اشعار پر جو گفتگو کی ہے،اس میں وہ لفظی تشریح و تعبیر سے دور ہوکر معنیاتی سطح پر کئی پرتوں کو کھولنے کی کوشش کرتے ہیں ـ
کتاب کے ابتدائی مضامین سے ہی اس بات کی امید تھی کہ ادبی معرکے کا ذکر ضرور ہوگا اور وہ "فیضی کا ایک مقولہ” میں دیکھنے کو مل گیا، مضمون تو فیضی کے ایک مقولہ”سخن فہمی عالم بالا معلوم شد” پر مرکوز ہے،عالم بالا کی لغوی معنوی اور ادبی تشریح کے بعد موقعِ ورودِ مقولہ پر پہنچتے ہیں، پھر یہ مصرع ہے یا مقولہ، اس پر جو ادبی معرکہ شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ کے مابین پیش آیا،اس کا ذکر کرتے ہیں ـ
قارون کا قصہ جس کا تعلق محض مذہبی کتب سے ہے اس کے کئی پہلوؤں کی وضاحت مصنف نے ایک مضمون میں کی ہے، مصنف تو بظاہر مفسر نہیں ہیں؛ لیکن قرآن کے ساتھ دیگر مذاہب کی کتابوں میں قارون کا ذکر جس نوعیت کے ساتھ آیا ہے، اس پر اپنی عمیق نگاہ ڈالتے ہوئے کئی اہم پہلوؤں کی جو وضاحت کی ہے،اس سے مصنف کی علمی بصیرت کااندازہ ہوتا ہےـ
"شیخ احمد جام کی ایک بیت” کتاب میں شامل صرف بیت پر ہی مرکوز دوسرا مضمون ہے، شاعری کہتے کسے ہیں اس کیفیت کے ادراک کی تفصیل سے مضمون شروع ہوتا ہے،پھر مشائخ چشت کے سماع سے متعلق ذوق و شعور کو پیش کیا گیا ہے،پھر کئی صفحات کے بعد شیخ احمد جام کی وہ بیت آتی ہے،جس کو سن کر شیخ قطب الدین چار رات تک عالم تحیر میں رہتے ہیں اور پانچویں شب جان جان آفریں کے سپرد کردیتے ہیں،وہ بیت یہ ہے:
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جان دیگر است
اس پورے مضمون میں اگرچہ تصوف کی فضا قائم ہے؛لیکن اصل میں انہوں نے شاعری کی روح کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جو چیزے دیگر ہےـ
اس کے بعد "تخلیق شعر کا الہامی تصور:شعر حافظ کے خصوصی حوالے سے” ہے، ماقبل کے مضمون سے یہ مضمون تدریجا آگے بڑھا ہے اور بات شعر کے الہامی ہونے تک پہنچ گئی ہے، ایک طویل گفتگو طوطی پر ہے، جس میں ہی مضمون نگار نے صفت الہام کو عمدہ طریقے سے پیش کیا ہےـ
"رومی کی ایک بیت” کتاب میں کلاسیکیت پر شامل آخری مضمون اور بیتِ واحد پر مرکوز رہ کر لکھا جانے والا بھی آخری مضمون ہے "آفتاب آمد دلیل آفتاب” یہ اگرچہ رومی کی ایک بیت ہے؛لیکن مقولہ کے طور پر مشہور ہوگیا ہے اور ساتھ ہی فن منطق میں بدیہی کی مثال بھی ہےـ مصنف نگار نے اسی بیت سے بات شروع کی ہے اور اسی پر مرکوز رہ کر کئی قیمتی ضمنی باتیں بھی بتائی ہیں اوردعویٰ کیا گیا ہے کہ اس مصرع میں اور اس کے سوا تقریباً تیس اشعار میں آفتاب سے مراد رومی کے پیر و مرشد شمس تبریز ہیں؛ لیکن گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ دیگر کتب سماوی و شعرا کے یہاں "آفتاب” کا لفظ باری تعالیٰ کے لیے بھی استعمال ہوا ہےـ اس مضمون کے بعد چار مختصر مضامین ہیں، جن میں سے ایک امام غزالی کی حیات اور تین جدید شعرا سعید الظفر وسیم، اقبال خلش اور کرامت علی کرامت کی شعری و فکری جہات پر ہےـ اس کتاب کے مطالعے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی زندگی کا مکمل مطالعہ اس کتاب میں پیش کرنے کی کوشش کی ہےاوریہ کتاب اپنی غیرمعمولی افادیت کی وجہ سے ہرصاحبِ ذوق کودعوتِ مطالعہ دیتی ہےـ
28 جنوری, 2019
اظہارالحق قاسمی بستوی
استاذ ومفتی مدرسہ عربیہ قرآنیہ، اٹاوہ، اترپردیش
[email protected]
ہندی اور اردو کا جھگڑا نیانہیں ہے، تقسیمِ وطن سے لے کر آج تک اردو پر یہ الزام عائد کیا جاتارہاہے کہ اردو بھارت کی زبان نہیں؛ بل کہ پاکستانیوں اورمسلمانوں کی زبان ہے،نیز یہ کہ اردو کا فروغ ملک کو تقسیم کی طرف ہی لے جائے گا،جس کا اظہار مختلف اوقات میں فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے کیا جاتارہاہے۔ اردو کے ساتھ تقسیم کا نام جڑ جانے کی وجہ سے ہمیشہ اس کے ساتھ تعصب برتاگیااور اردو کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا؛ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ اردو بھارت میں ہی پیداہوئی اور بھارت ہی میں پروان چڑھی اور آج بھارت میں ہی بوڑھی ہو رہی ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ میں اکثریت کے ووٹ سے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیے جانے کے بعد مولانا آزاد ؒ ، جو کہ اس وقت کے وزیر تعلیم تھے، نے ہندی کو قومی زبان تسلیم کرتے ہوئے کہاتھا: ”اب یہ سوال اٹھتاہی نہیں کہ پورے ملک کی زبان کون سی ہوگی؟ہندی کو جو جگہ ملنا تھی، وہ مل گئی۔اب ہر ہندوستانی کا فرض ہے کہ اس کے آگے سر جھکائے؛ لیکن اس کے ساتھ اردو کی جو جگہ ہے، وہ اسے ملنی چاہیے۔اردو ایک ایسی زبان ہے ،جو کثرت کے ساتھ بولی جاتی ہے ،نہ صرف شمال میں ؛بل کہ جنوب میں بھی‘‘۔(مظلوم اردو کی داستان غم، بحوالہ الجمعیۃ آزاد نمبر،صفحہ: 6، بتاریخ 4/دسمبر 1958)
مولانا آزاد کے ہندی کو قومی زبان ماننے کے برملا اعتراف کے باوجود اس وقت تعجب اور افسوس کی انتہا ہو جاتی ہے ،جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ملک کے پہلے وزیر تعلیم پر بھی اردو کے سلسلے میں ایک غیر ملکی (بزعم دشمناں) زبان کی حمایت کا الزام عائد کیا گیا؛چناں چہ مولانافدا حسین صاحب مرحوم اپنی کتاب ”مظلوم اردو کی داستان غم صفحہ نمبر 13 ”پر رقم طراز ہیں:”سیٹھ گوبند داس (ایم پی) نے کہا:فرقہ پرست تو وہ لوگ ہیں ،جو ہندوستانی کلچر کے خلاف انگریزی یا اردو کی سرپرستی کرنا چاہتے ہیں۔درحقیقت انہی پر فرقہ پرستی کا الزام عائد کرنا چاہیے۔اردو ملک کی تقسیم کی بنیاد ہے اور اردو کی علاقائی حیثیت تسلیم کرلینا ایساہے ، جیسے انگلی دیکر پہونچا پکڑوالینا”۔(الجمعیۃ آزاد نمبر، صفحہ: 115)
ظاہر ہے کہ ہندی کے حامی جب مولاناآزاد جیسے مضبوط قائدکے سامنے اس طرح کی بات کہہ سکتے ہیں اور وہ بھی اُس وقت ،جب کہ آرایس ایس اور اس کی حامی تنظیمیں اس قدر مضبوط نہیں ہوئی تھیں، توپھر اِس وقت ، جب کہ ملک میں ا ن کی تہذیب و ثقافت کا بول بالا ہو چکاہے اور ملک کے چپے چپے پر انہی کی چھاپ لگتی جارہی ہے ،وہ ماحول میں لسانی زہرکیوں نہیں گھولیں گے؟اور ہندی کا راگ کیوں نہیں الاپیں گے؟
ہندی کوتھوپنے کی بھی کوشش کوئی نئی نہیں ہے۔ ہندو مہاسبھا نے اپنے چوالیسویں اجلاس منعقدہ بنارس ،بتاریخ 20 /فروری 1959 کو ہی ’’ہندی، ہندو، ہندوستان ‘‘کانعرہ دیتے ہوئے کہا تھا:”ہندی ہی ایک ایسی زبان ہے، جس کو ہم قومی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں‘‘۔ (حوالہ بالا، صفحہ:21)
اب گزشتہ کچھ زمانے سے مسلسل ایسی باتیں سامنے آرہی ہیں کہ بھارت کے مدارس میں اہلِ مدارس کو اپنا ذریعۂ تعلیم و ذریعۂ ریکارڈ صرف ہندی و انگریزی یا اردو کے ساتھ ہندی وانگریز ی کو بنالیناچاہیے۔ حکومت اپنے مدارس میں شاید عنقریب اس قانون کو نافذالعمل قرار دے دے۔ ہمارے اپنے حلقو ں سے بھی اسی طرح کی صداے باز گشت سنائی دے رہی ہے؛چناں چہ مدارس میں ہندی زبان کے فروغ کے حوالے سے 24 /جنوری 2019 کو سوشل میڈیاپردو اہم پوسٹیں نظر نواز ہوئیں۔ ایک علی گڑھ کے صاحب کی اور دوسری ہمارے استاذمحترم مولانا محمد برہان الدین قاسمی صاحب کی۔موصوف امام الدین صاحب علیگ نے کہا:
”اس وقت اردو کا جھنڈا اہل مدارس کے ہاتھوں میں ہے اور انہی کے کندھوں پر دین کی دعوت وتبلیغ کی ذمے داری بھی ہے،یہ دونوں کام ایک ساتھ دو ناؤ میں سواری کے جیسا ہے۔ اہلِ مدارس نے خود کو اردو کے خول میں بند کرکے اور اس کی حدبندی کو اپنے لیے لازم سمجھ کر بڑی غلطی کی ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اردو کے ساتھ علما کا دائرہ بھی دن بدن سکڑتاجارہاہے۔جب کہ اس کے برعکس مسلمانوں کی اکثریت اردو کو چھوڑ کر ہندی میں منتقل ہو چکی ہے۔ اس وقت اکثر مسلمان فارسی رسم الخط کے بجائے دیوناگری رسم الخط میں پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ہندو بھائی تو پہلے سے ہی مجموعی طور پر ہندی میں منتقل ہو چکے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ علما اور اہلِ مدارس سماج سے مکمل طور پر کٹ چکے ہیں، جس کی وجہ سے دین کی دعوت کا کام بھی کافی حد تک متاثر ہواہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے مدارس اردو ذریعۂ تعلیم اور فارسی رسم الخط کو چھوڑ کرہندی ذریعۂ تعلیم اور دیوناگری رسم الخط کو اپنائیں۔ یہ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ ہندی کے اتنی بڑی زبان ہونے کے باوجود ہندی میڈیم کا کوئی ایک بھی مدرسہ موجود نہیں ہے،جب کہ آپ کو بنگالی، ملیالم اور دیگر کئی علاقائی زبانوں میں کئی مدرسے مل جائیں گے‘‘۔ (ایشیاٹائمز 24/1/19)
موصوف علیگ صاحب کے انداز گفتگوکی تصویب اورتمام باتوں کی تائید قطعانہیں کی جاسکتی ؛کیوں کہ ان کی کئی باتیں سچائی سے مطابقت نہیں رکھتیں؛ لیکن یہ امر واقعی ہے کہ اس وقت اردو کا جھنڈا اہل مدارس کے ہاتھوں میں ہے۔البتہ ہندی کے حوالے سے بھی اہل مدارس بالکل لاعلم و نابلدنہیں ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق شمالی ہند کے تقریبا پچاس فیصد مدرسوں کے طلبہ کو ہندی آتی ہے؛ لہذا موصوف کا یہ کہنا کہ ہندی میڈیم کا کوئی مدرسہ نہیں ہے ،یہ نرا بہتان ہے ؛کیوں کہ اہلِ مدارس کے کسی قدر ہندی جاننے کی وجہ سے اس طرح کے مدرسوں کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔شمال کے مدرسوں کے اکثر اساتذہ و طلبہ کو کسی نہ کسی حد تک اور بعضوں کو تو بہت اچھی ہندی آتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شمالی ہند کے مدرسوں کے ماتحت چلنے والے پرائمری درجات اور مکاتب میں ہندی کی تعلیم لازمادی جاتی ہے۔ جہاں تک مہارت کا تعلق ہے ،تو یہ سچائی ہے کہ اکثر اہلِ مدارس اس سلسلے میں کم ہی ماہر ہوتے ہیں۔سماج سے کٹ جانے کا الزام بھی موصوف کی طرف سے علماپر زیادتی ہے؛ کیوں کہ عوام تحریرچاہے وہ کسی بھی زبان کی ہو، کم ہی پڑھتی ہے اور عوام سے علما کا عمومی رابطہ چونکہ اکثر گفتگو کے ذریعے ہوتاہے ؛اس لیے عوام علما سے اب تک جڑی ہوئی ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ بھاری بھرکم اردو بولنے والے علما کی زبان عوام کو کسی قدر کم سمجھ میں آتی ہے؛ لیکن پھربھی عوام علما سے کٹی نہیں ہے۔ البتہ موصوف کی اس بات سے قطعا انکار نہیں کیاجاسکتا کہ (شمال میں)مسلمانوں کی اکثر تعداد دیوناگری رسم الخط کو اردو کی بہ نسبت زیادہ سمجھتی ہے۔راقم الحروف جس علاقے میں خدمت کررہاہے ،وہاں کی عمومی صورتِ حال بھی یہی ہے کہ مسلم عوام کی اکثریت ہندی پڑھ اور سمجھ سکتی ہے، جب کہ اردو سے مناسبت کم ہی ہے،البتہ جنوب کے اہلِ مدارس ومسلمانوں کا نوے فیصد طبقہ ہندی توبالکل نہیں سمجھتا،مدارس والے صرف اردو ،جب کہ جدید تعلیم یافتہ مسلمان صرف انگریزی سمجھتے ہیں اور کچھ کچھ ہندی سمجھتے ہیں۔بہرحال محترم امام الدین صاحب کی نیت پر شک کرنے کا کوئی جواز نہیں ،ممکن ہے انھیں مدارس کے حوالے سے ان تفصیلات کا علم نہ ہو۔
آج یہ بات روز روشن کی طرح عیاں وبیاں ہے کہ درست اردو کی تعلیم کافی حدتک اب صرف مدرسوں میں رہ گئی ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ یہ صرف مدارس اسلامیہ ہی ہیں، جن کا ذریعۂ تعلیم (میڈیم آف انسٹرکشن) مکمل طورپر اردو ہے ،تویہ سچ ہوگا ،اب عموماً اسکول کاذریعۂ تعلیم اردو نہیں ہے۔ دیگر تعلیم گاہوں میں کسی نہ کسی زبان کا تسلط اردو پر لازما پایاجاتاہے۔ جیسے یہی کہ اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھانے والے اکثر اساتذہ اردو کی درست ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے۔حکومتوں نے بھی اردو میڈیم اسکولوں کا براحال دیکھ کر یاتو انھیں بند کر دیا یا انھیں ہندی میڈیم کے ساتھ ضم کردیا؛ لیکن المیہ یہ ہے کہ مدارس کی اردوکے تئیں اس بے لوث خدمت کے نتیجے میں انھیں اردو کی خدمت کرنے والا تک تسلیم نہیں کیا جاتا۔خود ساختہ اہلِ اردو مدارس والوں کی اردو خدمت کو یکسر نظر انداز کرتے رہے ہیں،جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اردو کے حوالے سے اہل مدارس کی خدمات کے بقدر انھیں ان کے حقوق دیے جاتے،انھیں اعتبار کی نگا ہ سے دیکھا جاتا،ان کی اسناد کو نہ صرف کچھ جگہوں پر ؛بل کہ ملک کے تمام محکموں میں قابلِ اعتبار سمجھا جاتا؛لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ گو کہ یہ بات درست ہے کہ مدارس میں پڑھائی جانے والی اردو میں اردو ادب :جیسے شعر وشاعری، قصہ گوئی، ناول و افسانہ نگاری وغیرہ کے اصول واقعتا نہیں پڑھائے جاتے ؛ کیوں کہ ان میں کئی ایک اصنافِ سخن کو اہل مدارس درست نہیں سمجھتے اور اردو زبان کے سیکھنے اور جاننے کے لیے یہ فنون بنیادی طور پر ضروری بھی نہیں ہیں (حالاں کہ اگر اہل مدارس ان چیزوں کو جزئی طور پر ہی نصاب میں رکھ دیں، تو ان کے طلبہ کے لیے یہ فنون بائیں ہاتھ کا کھیل ہیں)لیکن صرف اس وجہ سے اہل مدارس کی اردو خدمت کا انکار ناانصافی ہے؛ کیوں کہ اہل مدارس کی جملہ تصنیفات اردو میں ہی ہوتی ہیں اور ان کی زبان کا معیار بھی اکثر انتہائی اعلی ہوتاہے۔
دوسری طرف اہل مدارس کو اردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے اور ہندی کو اہمیت نہ دینے کے سبب تعلیم کے قومی دھارے سے کٹا ہوا سمجھا گیااور اردو کی خدمت کے باعث انھیں مشکوک نظروں سے دیکھا گیااور ہمیشہ انھیں انتہائی پڑھالکھا ہونے کے باوجود ان پڑھ اور گنوار سمجھا گیا۔ حکومت نے بھی ان کے جائز حقوق کے ساتھ ناانصافی کو روا رکھا، اردو اور مسلم دشمن خیمے میں مدارس کے خلاف نفرت کی بھٹی سلگائی جاتی رہی، جس کے من جملہ اسباب میں سے ایک سبب اردو کو لازم پکڑنا بھی رہاہے؛ حالاں کہ اگر اہل مدارس نے اردو کے ساتھ ہندی کو اپنا لیا ہوتا،تو شاید ان کے اوپر ہو رہی چھینٹاکشی میں کسی قدر کمی ضرور ہوتی۔
اس کا تیسرا پہلو یہ بھی رہا کہ مدارس سے نکلنے والے والے طلبہ کی اکثر یت اپنی معیاری قومی زبان سے ناواقف ہے اور اب تک اچھی طرح سے واقف نہ ہونے کی راہ چل رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ اہل مدارس کا صرف اردو کو لازم پکڑنا ہے۔ اگر اردو کے ساتھ ہندی کو ہمارے مدارس میں وسعت دی جاتی ،تو بہت سے بہت صرف یہ نقصان ہوتاکہ اردو کیساتھ ساتھ ہندی بھی ہمارے مافی الضمیر کے اظہار کا ذریعہ ہوتی اورمجھے کہنے دیجیے کہ اردوقطعا اسلام کی زبان نہیں ہے،اسلام کے لیے اردو بھی تمام زبانوں کی طرح ایک زبان ہے،اسلام کی زبان صرف اور صرف عربی ہے۔ کیاایسا ہمارے اسی ملک میں نہیں ہوا ہے کہ پہلے اس ملک کی زبان فارسی بھی رہی ؛لیکن گزرتے وقت کے ساتھ فارسی دم توڑ گئی اور اردو نے اس کی جگہ لے لی اور اب ،جب کہ اردو کو لے کر چلنا نہ صرف مشکل ؛بل کہ بہت سارے نقصانات کا بھی ذریعہ ہو رہاہے ،تو کیوں نہ اردو کے ساتھ ہندی کو بھی اہل مدارس اختیار کریں اور ہندی کو اپنے اداروں میں مناسب جگہ دیں ،جیسا کہ مرکزالمعارف جیسے اداروں کے ذریعے انگریزی کو جگہ دی گئی، جس کے نتیجے میں آج سیکڑوں علما انگریزی زبان لکھنے اور بولنے پر قادر ہیں اور اس کے ذریعے مختلف جہات سے خدمات انجام دے رہے ہیں؛ لیکن ہندی کے حوالے سے اب تک کوئی مناسب پیش رفت نظرنہیں آتی۔
دوسری طرف ہمارے استاذاور معروف عالم دین حضرت مولانابرہان الدین صاحب (ڈائریکٹر مرکزالمعارف ممبئی و ایڈیٹر انگریزی ماہنامہ ایسٹرن کریسنٹ) نے بھی ہمارے دوست مفتی محمد طہ جونپوری کی ایک ہندی پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ”بہت اچھا!میں نے اس پوسٹ کو اپنے فیس بک وال پر بھی شیر کیا ہے، مزید ہندی کتابیں پڑھو،زبان بہتر ہو جائے گی۔بہتر ہے کہ صرف ہندی یا انگلش میں لکھو،یہی دونوں زبانیں اب ہمارے مخاطبین کی زبانیں ہیں اور ہمیں جلد سے جلد ان کی طر ف منتقل ہونے کی ضرورت ہے‘‘۔(ایم ایم ای آر سی المنی گروپ،نشر کردہ بتاریخ 24 جنوری 2019)
اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اب ضرورت آن پڑی ہے کہ اہلِ مدارس ہندی کی تعلیم کے لیے سنجید ہ ہوں اور لازمی ہے کہ ہندی کافروغ اردو کی قربانی کی بساط پر نہ ہو؛کیوں کہ اہل مدارس کے لیے دونوں زبانیں ضروری ہیں۔ اردو تو اس لیے کہ وہ اس سے مانوس بھی ہیں اور پوراعلمی اور دینی ذخیرہ اسی میں موجود ہے اور اس لیے بھی کہ اردو صرف ایک زبان نہیں؛ بلکہ ایک ثقافت بھی ہے اوراس کی شیرینی من کو موہنے والی ہے اور ہندی اس لیے کہ حالات اور دعوتِ دین کا تقاضا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کو عملی جامہ کیسے پہنایاجائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہرمدرسہ اپنے یہاں ہندی زبان کے سبجیکٹ کو باقاعد ہ طور شعبۂ عالمیت کے سال اول سے کم از کم سال پنجم تک رکھے اور پانچ سال میں گھنٹہ وائز کم از کم بارہویں تک کی ہندی پڑھائے،شعبۂ حفظ میں درجہ ہفتم تک کی ہندی سیکھنے کو لازم قرار دے، اپنی دیگر تعلیم کے لیے اردو کو چاہیں، توحسبِ معمول لازم پکڑیں اوراسی کو ذریعۂ تعلیم بنا کر رکھیں۔ میں قطعا اس بات کا حامی نہیں کہ اردو کو قربان کردیا جائے؛ لیکن مجھے محسوس ہورہاہے اور شاید میرے جیسے بہت سے لوگوں کو بھی کہ اربابِ مدارس کو اب ہندی کو بھی اردو کی طرح اپنا لینا چاہیے۔اس سے میرے خیال میں ان کا کوئی دینی نقصان نہیں ہوگا؛ بل کہ مدارس میں پڑھنے والے بچوں کے ساتھ ساتھ ملک میں رہنے والے دوسرے لوگوں کا بھی فائدہ ہی ہوگا۔ شاید ہندی کے حوالے سے اہل مدارس کے لیے یہی اعتدال کی راہ ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان ہمارا ملک ہے اور یہی ہم اہلِ مدارس کے لیے حقیقی میدانِ عمل بھی ہے، اگر واقعتاہم نے اس ملک میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کی تقدیربدلنا چاہتے ہیں، توہمیں اس سلسلے میں سوچنا ہوگااور ہندی کو اس کی مناسب جگہ دینی ہوگی۔
فیضان الحق
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر ہماری زندگی سے رنگوں کو الگ کر دیا جائے، تو ہمارے پاس کیا بچے گا؟ کیا ہماری خوشیوں کی تقاریب یا ماتم کی محفلیں ان رنگوں سے بے نیاز ہو سکتی ہیں؟ اگر رنگ بذات خود کوئی اہمیت نہیں رکھتے،تو ایک گلشن کے سارے پھول ایک ہی طرح ہمیں اپنی طرف کیوں نہیں کھینچتے؟کیا ہمیں گلاب صرف اس لیے پسند ہے کہ اس کی پنکھڑیاں پرت دار ہوتی ہیں؟ کیا ہمیں چمپا،چمیلی،گڑہل،گیندا کے پھول محض اپنی ساخت کے سبب کم متوجہ کرتے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے، تو پھر ہمیں غور کرنا چاہیے اپنی زندگی میں رنگوں کی اہمیت پر۔پیدائش سے لے کر وفات تک یہ رنگ ہمارا پیچھا کرتے ہیں؛بلکہ یہ ہماری مذہبی اور قومی شناخت کا بھی ذریعہ ہیں۔کہیں خوشیوں کا رنگ کالا،تو کہیں سفید ہے۔ کہیں غموں کا رنگ سفید،تو کہیں کالا ہے۔سوال یہ ہے کہ رنگوں کے مابین یہ امتیاز کیونکر؟ کیا خالقِ الوان نے بھی اپنے لیے کوئی رنگ مخصوص کیا ہے؟وہ تو جب اپنی تصویر میں رنگ بھرنے کا ارادہ کرتا ہے، تو ایک باغ لگاتا ہے،جس میں سبز رنگ بھی ہوتا ہے اور سرخ رنگ بھی، نیز زرد، گلابی، بنفشی، زعفرانی، سیمابی، سنہرا، سیاہ، مٹمیلا، گندمی اور بھورا بھی؛لیکن اس کے بندے اپنی تصاویر کےلیے کسی ایک رنگ پر مطمئن ہو جاتے ہیں۔آخر کیوں؟
حکیم مطلق کو اشرف المخلوقات پر ترس آیا۔ اس نے اپنے بندوں کو مصوری کے آداب سکھاناچاہے؛ چنانچہ آسمان پر گھٹاٹوپ بادل امنڈ آۓ۔ پورب سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلیں۔اور موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔کافی دیر تک بارش ہوتی رہی۔فضاؤں کی گرد زمیں بوس ہو گئی۔مکانات اور محلات دھل گئے۔ مسجد و مندر کے مناروں اور محرابوں پرچمک پیدا ہو گئی۔ اشجار کا رنگ دھانی اور دریاؤں کا سیمابی ہو گیا۔ رفتہ رفتہ بارش کی دھار میں ٹھہراؤ پیدا ہوا،بوندیں ہلکی ہو گئیں اور ایک پھوار کا سماں بن گیا آسمان سے زمین تک پگھلی ہوئی چاندی پھیل گئی۔ ادھر جنوب مغربی کنارے پر سورج نے ذرا سا سرابھارا اور ادھر شمال مشرقی آسمان پر ایک کمان بن کر تیار ہو گئی۔ رنگوں کا حسین امتزاج لیے۔ ترکی محبوب کے ابروؤں کی طرح گول، سات رنگوں کی پرت در پرت،جس سے ہزاروں رنگ پھوٹ کر فضا میں تحلیل ہو رہے تھے۔سب سے نچلا حصہ بیگنی، پھر بنفشی،پھر نیلگوں،جس کی پشت پر سبز رنگ سوار،پھر زرد اور زرد پر نارنگی اور نارنگی پر سرخ، تہ در تہ، یکے بعد دیگرے، اف کیا عالم ہے! امتزاج کی یہ صورت کہ خطِ فاصل کھینچنا مشکل،ہر رنگ الگ ہو کر بھی ایک۔ سب نیلگوں،سب زعفرانی۔
بچوں کی نظر پڑی،اچھلتے ہوئے گھر سے باہر نکل آۓ۔لوگوں نے آسمان پر خوشیوں کی ایک لکیر دیکھی۔شاعروں کو خبر ہوئی۔ وہ بھی اپنے اپنے گوشوں سے باہر نکل آئے۔ کچھ منھ میں پان لیے،کچھ اپنی چھڑی ٹیکتے۔ کسی کو اس گولے میں اپنی خمیدہ کمر نظر آئی اور کسی کو اپنے محبوب کی ادائیں۔میر تقی میر صاحب کو تو یہ کسی بلوان کی کمان لگی،جس کا چلہ اٹھانے سے آفتاب بھی قاصر ہے:
کس زور کش کی قوس قزح ہے کمان پاک
جس کی اٹھا سکا نہ کبھی سیسر آفتاب
اسی بیچ خواجہ حیدر علی آتش صاحب بھی بچوں کو کنارے کرتے ہوئے میدان میں پہنچ گئے۔ انہیں تو اس میں اپنے محبوب کی ابرو نظر آئی۔داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور یوں گویا ہوئے:
قوس قزح سے ہم نے بھی تشبیہ دی اسے
چلہ نہ ہونے سے جو وہ ابرو کماں نہ تھی
دیکھتے ہی دیکھتے شاعروں کی تعداد بڑھنے لگی۔محسن نقوی صاحب کو اسے دیکھ کر محبوب کی انگڑائی یاد آ گئی۔فرمایا:
وہ تو یوں کہیے کہ اک قوس قزح پھیل گئی
ورنہ میں بھول گیا تھا تری انگڑائی کو
چندربھان کیفی دہلوی نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور تصدیق کرتے ہوئے فرمایا:
لے اڑا رنگ فلک جلوۂ رعنائی کا
عکس ہے قوس قزح میں تری انگڑائی کا
اور پھر تو جیسے اشعار کی برسات ہونے لگی:
بھولی نہیں وہ قوس قزح کی سی صورتیں
ساغر تمہیں تو مست دھیانوں نے لے لیا
(ساغر صدیقی)
جھکنے لگی ہے قوس قزح صبح دم نوید
یہ ٹوکری گلاب کی سر پر لوں اور گاؤں
(افضال نوید)
آسمانوں میں لچکتی ہوئی یہ قوس قزح
بھیس بدلے ہوئے راون کی کماں ہے یارو
(اقبال ماہر)
پھر ایک روز مرے پاس آ کے اس نے کہا
یہ اوڑھنی ذرا قوس قزح سے رنگ مری
(دانیال طریر)
میں شعر سنتا رہا۔ واہ واہ کرتا رہا،قسم قسم کی تشبیہیں دیکھیں،بھانت بھانت کی بولیاں سنیں،دل جھوم اٹھااور من میں فرحت و انبساط کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد خیال آیا کہ اگر رنگوں کا یہ حسین امتزاج نہ ہوتا،تو کیا قوس قزح کی محض خمیدگی یا ایک دو رنگ یہ جاذبیت پیدا کر پاتے؟!