انجمن اسلامیہ ہال میں جلسہ سیرت النبی وتقسیم انعامات کا شاندار انعقاد
پٹنہ۔بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈ کے زیر اہتمام سہ روزہ سیرت مسابقہ عظیم الشان جلسہ سیرت النبیؐ کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔آج بعد نماز مغرب تاریخی انجمن اسلامیہ ہال میں عظیم الشان جلسہ سیرت النبی و تقسیم انعامات زیر صدارت حضرت مولانا شمیم منعمی سجادہ نشیں خانقاہ منعمیہ منعقد ہوا،مولانا نے صدارتی تقریر میں کہا کہ سیرت نبوی کی روشنی میں اپنےسماج کو ڈھالئے،نبیؐ کی سنت جب تک ہماری زندگی میں رہے گی اس وقت تک کوئ ہمیں زیر نہیں کر سکتا ہے۔جب بھی ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو چھوڑا ہے باطل قوتوں کو ہمارے اوپر یلغار کر نے کا موقع ملا ہے۔اللہ کے نبی نے ہمیں ایک ساتھ تین طلاق دینے سے منع کیا ہے لیکن جب ہم نے اس پر پوری طرح عمل نہیں کیا تو دیکھ لیجئے آج کیسی فضا بنائ جارہی ہے اور سنت کے برخلاف قانون ہمارے اوپر تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔انہوں نے سہ روزہ سیرت کمپٹیشن میں حصہ لینے والے طلبہ وطالبات کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف آپ کا امتحان نہیں ہمارا بھی امتحان ہے۔یہ خوش آیند بات ہے کہ مسابقے میں اسکول کے بچے اور بچیوں کی نمائندگی قابل تعریف رہی لیکن مدرسوں کے بچوں کے مقابلہ اسکول کے بچے سبقت کر گئے اور مدرسوں کی نمائندگی تشفی بخش نہیں رہی ہمیں اس کا بھی احتساب کرنا چائے۔مولانا شکیل قاسمی نے اپنے پرمغز خطاب میں اخلاقی سطح پر پائ جانے والی کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج کا انسان ترقی کرتے ہوئے فضا میں پرواز کر نااور سمندروں میں تیرنا تو سیکھ گیا لیکن وہ زمین شرافت کے ساتھ چلنا نہیں سیکھ سکے،آج سماجی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ کتوں کو پالنا توپسند کرتے ہیں لیکن اپنے بوڑھے ماں باپ کو اولڈ ایج ہوم میں رکھوا دیتے ہیں۔یہ اخلاقی زوال ہے۔انہوں نے کہا کہ سماج کو مہذب اور با اخلاق بنانے کے لئے نبیؐ کو طریقہ پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔مولانا شبلی القاسمی نائب ناظم نے بھی سیرت النبی کے موضوع پر بصیرت افروز خطاب فرمایا۔اس سے قبل سنی وقف بورڈ کے چیف ایکزیکیٹیو آفیسر امتیاز احمد کریمی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور سہ روزہ مسابقہ کے پانچوں زمرہ کے نتائج کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ آج کا دن بہت یادگار اور پر مسرت دن ہے۔آج ہم ان بچوں اور بچیوں کو انعامات سے نواز رہے ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے۔ہمارے طلبہ نے اعلی نمبرات حاصل کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ تعلیم کے ہر شعبہ میں خود کو کامیابی سے ہمکنار کرانے حوصلہ رکھتے ہیں۔انہوں نے نئ نسل کی حوصلہ افزائ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہر مسابقہ میں حصہ لیں کسی بھی مقابلہ جاتی امتحان میں پیچھے نہ رہیں۔انہوں نے گارجین اور سرپرست حضرات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بچے قدرت کے عظیم شاہکار اور کوہ نور کے مانند ہیں۔آپ انہیں اچھے سے تراش کر شاندار،چمکدار اور آبدار بنائے۔اس موقع پر سنی وقف بورڈ کے چئر مین الحاج محمد ارشاد اللہ نے طلبہ نیک خوہشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کامیاب ہوتے دیکھ کر مجھے بے انتہا مسرت ہو رہی ہے۔اس مسابقہ میں لڑکوں کے مقابلہ لڑکیوں نے زیادہ تعداد میں حصہ لیا ہے۔یہ خوشی کی بات ہےاس سے اندازہ ہوتا ہے ہماری بچیاں اب تعلیمی میدان آگے بڑھ رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت بچے اور بچیوں کی تعلیم کے سلسلہ میں بہت سنجیدہ ہے۔آج جس تاریخی انجمن اسلامیہ ہال میں یہ باوقار جلسہ ہو رہا ہے بہت جلد اس کی تعمیر نو ہونے والی ہے۔20 دسمبر سے کام شروع ہو نے والا ہے۔آپ لوگ اس کام میں ہمارا تعاون کریں،۔اس موقع پر مسابقہ تقریر،مضمون نویسی،اسلامی کوئز،نعت خوانی وقراُت میں اول دوم اور سوم پوزیشن لانے والے طلبہ وطالبات کو علمائے کرام کے ہاتھوں نقد انعام،میڈل اور سرٹیفکٹ سے نوازا گیا،مقابلہ کے ہر زمرہ کے کے طلبہ وطالبات میں اول آنے والے کو دس ہزار دوم آنے والے کو ساڑھے سات ہزار اور سوم آنے والے کو پانچ ہزار روپیہ دیا گیا۔جبکہ پانچ طلبہ کو ڈھائ ڈھائ ہزار روپیہ کا حوصلہ افزا انعام دیا گیا۔مجموعی طور پر چالیس طلبہ وطالبات کے درمیان دولاکھ ساٹھ ہزار روپیہ بطور انعام تقسیم کیا گیا۔سنی وقف بورڈ زیر اہتمام سہ روزہ سیرت کمپیٹیشن میں تقریباً پچاس اسکول ومدارس کے طلبہ وطالبات نے حصہ لیا۔مجموعی طور پر طلبہ وطالبات کی تعداد آٹھ سو کے قریب تھی۔
جسلہ سیرت النبی سے مولانا مفتی سہیل قاسمی امارت شرعیہ،مولانا مشہود احمد قادری ندوی پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی،پٹنہ۔ مفتی صدیق عالم مصباحی شیخ الحدیث جامعہ منعمیہ۔مولانا محب اللہ مصباحی نے بھی خطاب کیا۔جلسہ کی نظامت جواں سال عالم دین اور صحافی مولانا نور السلام ندوی نے بحسن وخوبی انجام دی۔اس موقع پر طلبہ،اساتذہ،گارجین،سرپرست اور اہل علم کی بڑی تعداد موجود تھی،انجمن اسلامیہ ہال کا اندرونی اور بیرونی دونوں حصہ بھر ا ہوا تھا،جلسہ بعد نماز مغرب مولانا نظر الاسلام ندوی کی تلاوت سے شروع ہو اور رات دس بجے حضرت مولانا شمیم منعمی کی دعا پر اختتام کو پہنچا۔
21 نومبر, 2018
نایاب حسن
گزشتہ کل یعنی 20 نومبر کو افغانستان کی راجدھانی کابل میں وزارت داخلہ کی آفس کے قریب، ہائی سکیورٹی زون میں ایک ہوٹل کے کانفرنس ہال میں نبی رحمتﷺکی ولادت کی مناسبت سے ایک پروگرام منعقد کیاگیا تھا،جس میں ملک بھر کے لگ بھگ ایک ہزار شرکاموجود تھے،جن میں علماکی کثیر تعداد تھی،پروگرام ابھی شروع ہوا تھا اورقرآن کریم کی تلاوت ہورہی تھی کہ اسی دوران ایک شخص دھماکہ خیزجیکٹ پہنے جلسہ گاہ میں گھسا اور اپنے آپ کو اڑالیا،جس کے نتیجے میں دیکھتی آنکھوں پچاس سے زائد علماو وعام مسلمان جاں بحق ہوگئے ،جبکہ ستر سے زائد شدید زخمی ہوگئے۔خبروں کے مطابق ابھی تک کسی شدت پسند جماعت نے حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے؛بلکہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے اخباری بیان میں شدت سے نہ صرف اس خود کش حملے کی تردید کی ہے؛بلکہ اسے قابلِ مذمت قراردیاہے۔ آئی ایس آئی ایس کے بارے میں قیاس لگایاجارہاہے کہ ممکن ہے اس نے یہ حملہ کروایاہو؛ کیوں کہ طالبان کی طرف سے عام شہریوں کے برخلاف عموماحکومتی اہل کار، فوج، پولیس یابیرونی فورسزپرحملے کیے جاتے ہیں اورآئی ایس آئی ایس کوطالبان کے مقابلے میں زیادہ شدت پسندبھی سمجھاجاتاہے ـ
افغانستان کی صورتِ حال گزشتہ کم ازکم تین دہائیوں سے پرپیچ ہے اور نائن الیون کے بعد تواس کی پیچیدگی کئی گونہ بڑھ گئی ہےـ ایک طرف توامریکی افواج ہیں، جن کی غیرانسانی دھونس اورمظالم سے افغان عوام بے دم ہیں، دوسری طرف خودبھانت بھانت کے مسلم شدت پسندگروپس ہیں، جنھوں نے عام شہریوں کے ناک میں دم کیاہواہے، پھرمسلمانوں میں شیعہ سنی جماعتوں کے باہمی اختلافات کو بھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا، سنیوں میں بھی اب آئی ایس آئی ایس کے وہاں دخول کے بعد کٹراورنارمل کی تفریق پیداہوگئی ہےـ افغانستان دنیاکاایسامجبوروبے بس ملک ہے، جس پراب تک اتنے بم وبارودانڈیلے جاچکے ہیں کہ اب تواس کی فضائیں بھی زہرآلودسی ہوگئی ہوں گی، ابھی اکتوبرمیں وہاں پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے، اس دوران بھی کئی مقامات پردہشت گردانہ حملے ہوئے اورلاشیں گرتی رہیں، اسی سال صرف اِس مہینےمیں چھ دہشت گردانہ حملے ہوچکے ہیں، جن میں ڈیڑھ سو سے زائد افرادجا بحق، جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 2016سے اب تک سوسے زائددہشت گردانہ حملوں میں لگ بھگ اکیس سوجانیں گئی ہیں ـ
اب تک اس تازہ حملے کی ذمے داری کسی جماعت نے قبول نہیں کی ہے، مگراس کی مکمل رودادبڑی جگرخراش ہے، سوشل میڈیاپرویڈیودیکھی جاسکتی ہے کہ ایک نہایت باوقارروحانی مجلس ہے، جس کاابھی آغازہی ہواہے اورقاری صاحب اپنی خوب صورت آوازمیں قرآن پاک کی تلاوت کررہے ہیں کہ اچانک دھماکے کی آوازآتی ہے، پھرقاری کی آوازدبتی اورحاضرین کی دردانگیزچیخوں کاحصہ بن جاتی ہےـ اس کایہ پہلوبھی قابلِ ذکرہے کہ یہ جلسہ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے منعقدکیاگیاتھا،جس میں یقیناسرورِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے عملی واخلاقی پہلووں پرروشنی ڈالی جاتی، آپ کے فضائل بیان کیے جاتے، آپ کی حیاتِ بابرکات کے ان نقوش کواُجالاجاتا، جوتاریخِ انسانی کے ماتھے کاجھومرہیں، مگراس کی نوبت ہی نہ آسکی اوروہ لوگ موت کی آغوش میں سلادیے گئے، جواپنے نبی سے محبت کااظہارکرنے اورآپ کی سیرت کاپیغام دنیاکوپہنچانے کے لیے اکٹھاہوئے تھےـ یہ حملہ کس جماعت نے کیایاکروایاہے، اس سے قطعِ نظریہ توکم ازکم واضح ہے کہ وہ جوبھی ہو،جس جماعت سے تعلق رکھتاہو، مسلمان ہے، ایک اہم نکتہ اس سلسلے میں یہ بھی ہے کہ گزشتہ چندماہ سے خاص طورپرافغان علمادہشت گردوں کے نشانے پرہیں، جون میں کابل ہی کی پالی ٹیکنک یونیورسٹی میں ایک اجلاس ہواتھا، جس میں وہاں کے علماجمع ہوئے تھے اورانھوں نے خودکش دھماکے کے عدمِ جوازوحرمت پرایک متفقہ فتوی جاری کیاتھا،جوں ہی وہ حضرات اس مجلس سے فارغ ہوکرباہرنکلے، دروازے پرہی ایک شخص نے خودکودھماکے میں اڑادیااورایک درجن سے زائدافرادجاں بحق ہوگئے تھے، اُس حملے کے بعدبھی پتانہیں چلاتھاکہ حملہ کس نے کروایاہے، اِس باربھی اب تک پتانہیں لگ پایاہے کہ حملہ کس گروہ نے کروایاہےـ
افغانستان کامعاملہ سیاسی اعتبارسے اس قدرعجیب وغریب ہے کہ حتمی طورپرکوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی،مگرایسے موقعے پربحیثیت مسلمان ہمیں اپنے گریبان میں جھانکناچاہیے یہ سوچناچاہیے کہ ہم کہاں پہنچ گئے کہ نبیِ رحمت کے ذکروتذکارکی مجلس میں بھی سوسومسلمان ناحق مارے جارہے ہیں اورایساکرنے والے کوئی اورنہیں،مبینہ طورپر خوداسی نبیِ رحمت کے نام لیوااورامتی ہیں ـ میرے خیال میں ناموسِ رسالت کی توہین اس سے زیادہ اورکچھ نہیں ہوسکتی کہ رحمت للعالمین کویادکرنے کے لیے جمع ہونے والے علماومسلمانوں کوخودمسلمان ہی قتل کرنے لگیں،یہ واقعہ گرچہ افغانستان میں رونماہواہے، مگراس کی ہلاکت انگیزبازگشت سارےعالمِ اسلام کوسننی چاہیے، حملہ آئی ایس آئی ایس نے کیاہویاطالبان نے یااس میں کسی تیسرے کاہاتھ ہو، بہرحال اس میں راست کردار بہ طورظالم بھی مسلمانوں کاہے اوربہ طورمظلوم بھی مسلمانوں ہی کاہےـ ایسالگتاہے کہ یہ دورہماری تیرہ بختی وہلاکت کابدترین دورہے، ہرجگہ اللہ تبارک وتعالی کاقہروغضب امتِ مسلمہ کی گھات میں ہے اورکہیں دوسرے ہمیں تاراج کررہے ہیں، توکہیں ہم خوداپنے ہی ہاتھوں قتل ہورہے ہیں،ہم اپنی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے خوداپنی ہلاکت کاسامان کرتے ہیں اوراحمقوں کی جنت کی تلاش میں نیک وبد،صحیح وغلط اور خطا وصواب کے مابین امتیازتک نہیں کرپاتےاورپھرجب اپنے بنے ہوئے جال میں خودپھنستے ہیں، توبھی ہوش نہیں آتا،ہمیشہ”باہر "کی سازشیں تلاش کرنے میں جٹ جاتے ہیں ـ
اللہم اغفرلنا، وسدد خُطانا واھدناالصراط المستقیم
امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ
رات لیلۃ القدر بنی سنوری ہوئی نکلی اور خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرِِکی بانسری بجاتی ہوئی ساری دنیا میں پھیل گئی، موکلانِ شبِ قدر نے مِنْ کُلِّ اَمرِِ سَلَام کی سیجیں بچھا دیں، ملائیکانِ ملأ الا علیٰ نے تَنَزَّ لُ الْمَلائکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا کی شہنائیاں شام سے بجانی شروع کردیں،حوریں بِاِذْنِ رَبِّھِمْ کے پروانے ہاتھوں میں لے کر فردوس سے چل کھڑی ہوئیں اور ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرکی میعادی اجازت نے فرشتگانِ مغرب کو دنیا میں آنے کی رخصت دے دی، تارے نکلے اور طلوعِ ماہتاب سے پہلے عروسِ کائنات کی مانگ میں موتی بھر کر غائب ہو گئے، چاند نکلا اور اس نے فضا ے عالم کو اپنی نورانی رداے سیمیں سے ڈھک دیا، آسمان کی گھومنے والی قوسیں آپ اپنے مرکز پر ٹھہر گئیں، بروج نے سیاروں کے پاؤں میں کیلیں ٹھونک دیں، ہواجنبش سے، افلاک گردش سے، زمین چکر سے اور دریا بہنے سے رک گئے، کارخانۂ قدرت کسی مقدس مہمان کا خیر مقدم کرنے کے لیے رات کے بعد اور صبح سے پہلے بالکل خاموش ہوگیا، انتظام و اہتمام کی تکان نے چاند کی آنکھوں کوجھپکا دیا، نسیمِ سحری کی آنکھیں جوشِ خواب سے بند ہونے لگیں،پھولوں میں نگہت،کلیوں میں خوشبو، کونپلوں میں مہک محوِ خواب ہوگئی، درختوں کے مشام خوشبو ے قدس سے ایسے مہکے کہ پتا پتا مخمور ہو کر سربسجود ہوگیا، ناقوس نے مندروں میں بتوں کے سامنے سرجھکانے کے بہانے آنکھ جھپکائی،برہمن سجدے کے حیلے سر بہ زمین ہوگیا؛ غرضیکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اور قطرہ قطرہ ایک منٹ کے لیے غیر متحرک ہوگیا، اس کے بعد وہ لمحہ آگیا،جس کے لیے یہ سب انتظامات تھے، فرشتوں کے پرے خوشیوں سے بھرے آسمانوں سے زمین پر اترنے لگے اور دنیا کے جمود میں ایک بیدارانقلاب پوشیدہ طور پر کام کرتا ہوا نظر آنے لگا، ملہمِ غیب نے منادی کی کہ افضل البشر، خاتم الانبیا، سراپردۂ لاہوت سے عالمِ ناسوت میں تشریف لانے والے ہیں، رات نے کہا: میں نے شام سے یکساں انتظار کیا ہے کہ اس گوہرِ رسالت کو میرے دامن میں ڈال دیا جائے، دن نے کہا: میرا رتبہ رات سے بلند ہے، مجھے کیوں محروم رکھا جائے؟ دونوں کی حسرتیں قابلِ نوازش نظر آئیں، کچھ حصہ دن کا لیا، کچھ رات کا، نورکے تڑکے نورعلیٰ نور کی نورانی آوازوں کے ساتھ دستِ قدرت نے دامنِ کائنات پر وہ لعل با بہار رکھ دیا، جس کے ایک سرسری جلوے سے دنیا بھر کے ظلمت کدے منور اور روشن ہوگئے، سرزمینِ حجاز جلوۂ حقیقت سے لبریز ہوگئی، دنیا جو سروروجمود کی کیفیت میں تھی اک دم متحرک نظر آنے لگی، پھولوں نے پہلو کھول دیے، کلیوں نے آنکھیں وا کیں، دریا بہنے لگے، ہوائیں چلنے لگیں، آتش کدوں کی آگ سرد ہوگئی، صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی، لات و منات،حبل و عزّا کی توقیر پامال ہونے لگی، قیصر وکسریٰ کے فلک بوس بروج گر کر پاش پاش ہوگئے، درختوں نے سجدۂ شکرسے سر اٹھایا، رات کچھ روٹھی ہوئی سی،چاند کچھ شرمایا ہواسا،تارے نادم و محجوب ہوکر رخصت ہوئے اور آفتاب شان و فخر کے ساتھ مسرت و مباہات کے اجالے لیے ہوئے کرنوں کے ہارہاتھ میں، قندیلِ نورتھال میں، ہزاروں ناز وادا کے ساتھ اُفقِ مشرق سے نمایاں ہوا، حضرت عبداللہ کے گھر میں، آمنہ کی گود میں،عبدالمطلب کے گھرانے میں،ہاشم کے خاندان میں اور مکہ کے ایک مقدس مکان میں خلاصۂ کائنات،فخرِ موجودات، محبوبِ خدا، امام الانبیا، خاتم النبیین، رحمۃ للعلمین یعنی حضرت محمدِ مصطفی احمدِ مجتبیٰ تشریف فرماے بصد عزو جلال ہوئے۔ سبحان اللہ ربیع الاوّل کی بارہویں تاریخ کتنی مقدس ہے، جس نے ایسی سعادت پائی اور پیر کاروز کتنا مبارک تھا ،جس میں حضور نے نزولِ اجلال فرمایا:
فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ
ابوبکر عباد
سلیماں اب بھی آئیں گے
مگر یہ شرط ہے کہ تم
عدل و رحم تو سیکھو
’پدرم سلطان‘ کی حکمت
بشر سے دوستی کی خوٗ تو لوٹا لو
محبت غیر کی اپنوں سے الفت
شجاعت اور سخاوت
قوتِ برداشت کے کچھ راز تو جانو
نئے یُگ کی نئی چیزیں
’سفرِ چیں‘ کی تعبیریں
ادا ہُد ہُد،نَمل کی بات بھی سمجھو
مجھے پکا یقیں ہے کہ
سلیماں اب بھی آئیں گے
سلیماں اب بھی آئیں گے
مگر یہ تب ہی ممکن ہے
کہ ذہن و دل جو ہیں جکڑے ہوئے
تعصب بغض کے
زنگ آلود حلقوں میں
خیالات و تدبر قید ہیں جو
مناروں، ٹوپیوں اور واعظوں کے زرد زمروں میں
وہاں سے اپنے ذہن و دل خیالات و تدبر کو
بصد تدبیر
بہ شوقِ علم
جو تم آزاد کر لوگے
سلیماں تب ہی آئیں گے