نئی دہلی۔ ۲۵؍اکتوبر: دہلی کے مالویہ نگر بیگم پور میں قائم مدرسہ جامعہ فریدیہ کے ایک طالب علم محمد عظیم ولد محمد خلیل کو شرپسندوں نے اس وقت پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا جب وہ مدرسے کے احاطے میں کھیل رہا تھا۔ اطلاع کے مطابق مدرسے میں جمعرات کی وجہ سے چھٹی چل رہی تھی کچھ بچے باہر گئے ہوئے تھے اور کچھ بچے احاطے میں کھیل رہے تھے تقریباً دو بجے کے قریب احاطے میں بالمیکی کیمپ میں رہنے والے کچھ شرپسند بچے آئے اور انہوں نے پہلے وہاں پر کھیل رہے بچوں پر کنکریاں پھینکیں، اس کے بعدایک نوجوان آگے آیا اور محمد عظیم کو اٹھا کر پاس کھڑی بائیک پر پے درپے پٹخنے لگا جس سے وہ بے ہوش ہوگیا اور اس کی آواز بند ہوگئی۔ پھر مدرسے کے بچے بھاگتے ہوئے گئے اور انتظامیہ کو آگاہ کیا اور عظیم کو اسپتال لے جایاگیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے داخل کرنے سے قبل ہی مردہ قرار دیا۔ مدرسے میں پڑھ رہے ایک بچے نے بتایا کہ یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے شرپسند بچے ہمیشہ ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں لیکن آج پہلی بار کسی کی جان گئی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ یہ لوگ شراب پی کر مدرسے میں بوتلیں پھینک دیتے ہیں، عین جمعہ کے وقت پٹاخے پھوڑتے ہیں، سور کے گوشت تک مدرسے کے احاطے میں پھینکتے ہیں لیکن ہم لوگ خاموش رہتے ہیں کہ اپنے ہی بھائی ہیں معاملہ رفع دفع کردیتے ہیں تاکہ فساد نہ ہو لیکن آج ان لوگوں نے ہماری شرافت کا بدلہ معصوم بچے کی جان لے کر دیا۔ مدرسے میں بچوں کے نگراں ممتاز عالم نے کہا کہ کچھ لوگ ہیں جو بچوں کے ذریعے شرپسندی کرواتے ہیں تاکہ بچوں پر کیس بنے بڑے اس سے بری رہیں۔ انہوں نے کہا ہم کئی بار اس کی شکایت پولس میں کرچکے ہیں لیکن پولس اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتی او رنہ ہی کارروائی کرتی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ جب یہ حادثہ رونما ہوا تو محلے کی دبنگ خاتون جس نام سروج ہے وہ دھمکی اور نفرت بھرے انداز میں کہہ کر گئی ہے کہ ابھی ایک مرا ہے آگے تم دیکھو ہم کیا کیا کریں گے۔ مدرسے کے مہتمم نے کہاکہ ہم ۱۹۸۸ سے قبل سے یہ مدرسہ یہاں پر چلا رہے ہیں کچھ لوگ مذہبی عصبیت کی بنیاد پر مسجد مدرسے کو ختم کرناچاہتے ہیں بچوں کو پیٹتے ہیں، پتھرائو کرتے ہیں، شراب کی بوتلیں پھینکتے ہیں ۔ انہوں نے بتایاکہ حملہ آور دو بچوں کو ہم نے پکڑ لیا تھا لیکن دبنگ خاتون دونوں کو چھڑا کر لے گئی۔ انہوں نے بتایا کہ پولس یہاں آئی تھی ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ ان شرپسندوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے تاکہ دوبارہ ایسی واردات رونما نہ ہو۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ عظیم کو انصاف اسی وقت مل سکتا ہے جب اس کے قاتل پھانسی کے پھندے پر لٹکائے جائیں۔ انہوں نے کہاکہ بچوں پر گرفت تو ہو ہی ساتھ ہی ان کے اہل خانہ پر بھی کارروائی ہو کیوں کہ بڑے ہی اپنے بچوں کو شرپسندبنارہے ہیں اور ان سے یہ سب کام کرواتے ہیں تاکہ چھوٹے بچوں پر مقدمہ ہواور ہلکا مقدمہ قائم ہو اور ہم آزاد رہیں۔ تادم تحریر پولس اپنی کارروائی میں مصروف ہے اس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ جلد از جلد ملزمین کو کیفر کردار تک پہنچایاجائے گا۔
25 اکتوبر, 2018
احمدخان پٹھان، رام پور
لو ک سبھا الیکشن کے ایام جوں جوں قریب آرہے ہیں ، بھگوا دہشت گردی بھی حجابات سے عاری ہورہی ہے ۔ گزشتہ عام انتخابات تو رام مندر اور مفروضہ ’’کرپشن ‘‘ کے نام پر جیت لیا گیا ؛لیکن اس بار پھرزعفرانی شدت پسندوں کورام مندر کی یاد بے قرارکررہی ہے ۔وہ اس کے نام پر ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ؛کیوں کہ اس کے سوا ان شرپسندوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی ایشو نہیں ہے ،وہ تہی دامنی میں حیراں و پریشاں ہیں ۔ موہن بھاگوت سے لے ک رگری راج سنگھ ، تمام ادنیٰ سے ادنیٰ کارکنان اور ’’برساتی نیتاؤں ‘‘ تک کی زبان پررام مندر کانام ہے ۔ میڈیا جس کو حق کا علمبردا رہونا چاہیے تھا ا س نے بھی اپنی عفت کو جھوٹے مکار سیاستدانوں کے یہاں ’’رہن ‘‘ رکھ کر اسی سر اور تال میں برہنگی کا مظاہرہ کررہا ہے ،جس کا اشا رہ ان کے آقاؤں کی طرف سے ملا کرتا ہے ۔یہ بھی سچ ہے کہ میڈیا کو نااہل حکمرانوں کے وعدے یاد دلانے چاہیے ، نوجوانوں کی بے روزگاری کے تئیں سوالات پوچھنے چاہیے تھے ، مگر ان تمام امور سے سوا ہو کر میڈیا بھی اسی ’صوت الحمیر ‘ میں سوال کررہا ہے کہ رام مند رکب بنے گا ؟ ۔ کیا عوام کا پیٹ رام مندر کی تعمیر سے بھر جائے گا ، یقیناًنہیں،مگر ملک کے عوام کی نادانی ہے کہ تمام مفادات اور بنیادی ضرورتوں کو بالائے طاق رکھ کر بار بار یہی سوال کیا جارہا ہے کہ رام مندر کب بنے گا ۔ جب کہ خود میڈیا اور سیاستدانوں کو یہ معلوم ہے کہ یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر بحث ہے ۔ بار بار اس کو موضوع بنانا یہ ثابت کرتا ہے کہ میڈیا بکا ہی نہیں ؛بلکہ حکمراں طبقہ کی ترجمانی کررہا ہے ۔ ملک کے عوام کو وجے مالیا کے متعلق سوالات نہیں پوچھنے چاہیے ، میہول چوکسی اور نیرو مودی جیسے مفرور اقتصادی مجرموں کے متعلق سوال نہیں کرنا چاہیے ، بیروزگاری اور بڑھتی ہولناکی سفاک مہنگائی کے متعلق سوال پوچھنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ہاں ان کو حق صرف یہ ہے کہ وہ صرف محو تماشا رہیں اور نام نہاد مفروضہ نعروں کے جواب میں ’’لبیک لبیک و آمناو صدقنا ‘‘کا نعرہ بلند کریں، یعنی مہر بہ لب خاموش نگاہوں سے ان کے کارنامے اور ’کرتوت‘ ملاحظہ کریں ۔
لوک سبھا کے ایام قریب آرہے ہیں برسر اقتدار طبقہ کے پاس اس کے سوا کوئی اور موضوع سردست ہے نہیں ، سرجیکل اسٹرائیک کے نام پر ایک گمراہ کن عنوان تھا اس کی بھی ہوا کانگریس اور کجریوال نے نکال دی۔ جن لوگوں کو ’مودی فوبیا ‘ کا گمان تھا؛بلکہ یقین تھا کہ مودی ’وکاس‘ کی نہریں بہائیں گے ، ان کو نوٹ بندی اور جی ایس ٹی اور مہنگائی کا صلہ ملا ، جن کو یہ یقین تھا کہ ان کی بے روزگاری ختم ہوگی انہیں مزید روزگا ر، معاش اور چند نوالوں کے لیے در در کی ٹھوکریں اور چاکری کرنا پڑی، یہ بھی کہہ لیں کہ جن کو ’نئے انقلاب ‘ کی تمنا ئے بے داد تھی ، ان کو ہولناکی اور’ مرگ مفاجات ‘ کا تحفہ ملا ۔ یہ بھی کہہ لیں کہ جن کو ’’اچھے دن ‘‘ کا کامل یقین تھا ،حتیٰ کہ ان کا یہی ایمان بھی تھا کہ ’اچھے دن ‘ آکر رہیں گے ، انہیں گورکھپور میڈیکل کالج میں ڈیڑھ سو سے زائد نومولود بچوں کی ہلاکت کا زخم ملا ۔ بی جے پی کے لیڈران کا یہی موقف تھا اور اب بھی وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہیں کہ ملک میں ’وکاس ‘ کی گنگا بہہ رہی ہے،مگر نیرو مودی، وجے مالیا، میہول چوکسی جیسے مفرور صنعت کار اسی وکاس کی گنگا میں ڈبکی لگاتے ہوئے ایک خطیر رقم لے کر فرار ہوگئے ،ملک کی خفیہ ایجنسی اس سے بے خبر رہی،مگر پھر یہی برہنہ زعم ہے کہ ملک میں وکاس کی ’گنگا ‘ بہہ رہی ہے ۔ اس زعم اور برہنہ خیال کی کئی مثالیں ہیں جن کو ملک کے عوام نے ملاحظہ کیا ہوگا ۔ مگر پھر بھی عوام نے اس سے کوئی سبق نہ لینے کا عزم کج کلاہی کر رکھا ہے ، وعدے وعدے ہوتے ہیں ، وعدوں سے نہ تو پیٹ بھرا جاسکتا ہے اور نہ ہی وعدے انسانی ضروریات کی تکمیل کرسکتے ہیں۔ہاں البتہ وعدے خوابوں کو زندہ رکھ سکتے ہیں جس سے انسان اپنا وقت ،سرمایہ اور بھی بہت کچھ گنواسکتا ہے ۔مگر اس ملک کے عوام کی حماقت ، جنون ، ابلہی اور کارضیاع ہے کہ وہ بنیادی مسائل سے پرے ہوکر مذہب کے نام پر دیوانہ ہوئے جا رہے ہیں جس سے وہ اپنا ہی نقصان کررہے ہیں اور آنے والی نسلوں کو سدا کے لیے اپاہج بنا رہے ہیں ؛بلکہ یوں کہہ لیں کہ یہ اپنی اور آنے والی نسلوں کی اجتماعی ’خودکشی‘ ہے ۔
ملک کے عوام کا ذوق ، شعور ، آگہی، ’گیان‘شاید مفلوج ہی ہے ؛کیوں کہ عوام کوبنیادی مسائل کا تصفیہ چاہیے ، اعلیٰ تعلیم چاہیے ، بہتر صحت چاہیے تھی ، پر امن ماحول چاہیے ، لیکن عوام کو مذہب کے نام پر فرقہ واریت کا ’’لالی پاپ ‘‘ دے دیا گیا ، وکاس کے نام پر ’وناش ‘ دے کر بہلا دیا گیا اور عوام کی نادانی کہہ لیں کہ اسی میں مست او ربیخود بھی ہیں ۔مہنگائی بڑھی ، لیکن عوام نے اپنی زبان پر تالا لگالیا، کیوں ؟ نوٹ بندی کے نام پر عوام سے ’’آہوتی ‘‘(قربانی) طلب کی گئی تھی ، تقریباً 170معصوم جان ا س پرفریب ’آہوتی‘ کی بھینٹ بھی چڑھی، اور جب اس کے نتائج سامنے آئے تو خود آر بی آئی کو کہنا پڑا کہ 99فیصدی ہزار اور پانچ سو کے پرانے نوٹ سرکاری خزانے میں واپس آچکے ہیں، عوام نے اس کے متعلق سوال نہ کیا کیوں؟ گورکھپور میں انتظامیہ کی سست روی اور غفلت آشکارا ہوگئی ، سینکڑوں معصوم نومولود کی جان اس غفلت کی وجہ سے بے موت فنا کے گھاٹ اتر گئی ،اس عوام کی نادانی ؛بلکہ حماقت کہہ لیں کہ عوام نے اس کو ’اگست میں تو بچے مرتے ہی ہیں ‘ کو ’آکاش وانی ‘ سمجھتے ہوئے خاموش اشکباری پر ہی اکتفاکرلیا،حتیٰ کہ عوام نے اُس بیان پر بھی احتجاج کرنا مناسب نہ سمجھا کہ جس میں کسی بی جے پی کے لیڈر نے کہا تھا کہ ’اگست میں تو بچے مرتے ہی ہیں ‘ ۔ جنہوں نے ’بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ ‘ کا نعرہ دیا تھا ، وہی لیڈران جموں میں ایک زانی کی حمایت میں ’مارچ ‘ نکال رہے ہیں اورجس کلدیپ سنگھ سینگر نے اناؤکی سڑکوں پر نکل کر ’بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ ‘ کا نعرہ لگایا تھا ، وہی سینگرجنسی استحصال کا ملزم ثابت ہوتا ہے، ریاستی حکومت اس کو تحفظ فراہم کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ عوام نے کیوں نہیں پوچھا؟ الغرض حکمراں طبقہ کے اتنے ’کارہائے زریں‘ ہیں کہ جن کو شمار تو نہیں کیا جاسکتا ،البتہ اس پر عوام کو ’ماتم ‘ اور’ سینہ کوبی‘ ضرور کرنی چاہیے کہ انہیں سبز باغ دکھا کران کے ساتھ بدترین مذاق کیاگیا ہے ،بدلے میں عوام کو صرف رسوائی،حیرانی،عدم وفااوربھکمری ہی ملی۔ ان تمام کارہائے بدذوقی اور تمام واضح’ناکامیوں‘ کے باوجود ایک بار پھر مودی اینڈ کمپنی تمام حربے،آلات، اشتعال انگیزی، فرقہ واریت اور خوش فکر نعروں کے ساتھ میدان میں کود پڑی ہے ، اب ٹھگے ہوئے عوام ہیں، حزب اختلاف ہے اور برسر اقتدار طبقہ ہے جو اقتدا رکے نشہ میں چور بھی ہیں۔اس حالات میں کیا کیا جائے ،یہ سوال اہم ہے ۔ ستر فیصدی عوام اس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں ’ہندوتوا‘ کے آسیب نے جکڑلیا ہے ؛بلکہ حالات تو یہ ہیں کہ اس سے انہیں عشق بھی ہے ۔تمام جفاؤں کو فراموش کرکے اس سے ہم کنار و ہم گیر بھی ہوتے ہیں ، چومتے بھی ہیں ، پرستش بھی کرتے ہیں اور ’’شیش ‘( سر) بھی ’نواتے ‘ (جھکاتے ) ہیں ۔کیوں کہ ان کا یہ گما ن ہے کہ اس سے ان کے ہندوتوا کو ترقی ملے گی ، عوام کی اس ستر فیصدی نے اس جوش جنون میں اپنا سر کچھ قربان بھی کردیا ؛لیکن نتائج تلخ ہی ثابت ہوئے۔ان کا جو بھی گما ن ہو ہم اس گمان اور تصور کی تضحیک یا توہین نہیں کرتے ؛لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کے اس گمان اورعقیدے کو جو مضمرات ہیں وہ سوائے جوش جنون اور تعبد کے سوا کچھ بھی نہیں ، جس کے نتائج کبھی نیک اور خوش گوار نہیں ہوسکتے ہیں ۔ستر فیصدی عوام کی صواب دیدپر منحصر ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ، ان تمام جفاؤں کے بعد بھی ان کا جوش جنون سرد ہوا یا نہیں ؟ ذلت و فضیحت کے بعد ان کی عقل ٹھکانے لگی یا نہیں ؟ اگر اس کا جواب مثبت ہے تو حکمراں طبقہ کو مئے آتشیں چھوڑ کر مئے تلخ پینا چاہیے اورآہنگِ سوگ پر بین کرنا چاہیے اور اگر اس کاجواب نفی ہے تو پھر حکمراں کے مزید اچھے دن آنے والے ہیں ، نیرومودی ، وجے مالیا جیسے بھگوڑے اور بھی پیدا ہوں گے ، حکمرانوں کے ہاتھوں میں مئے آتشیں و جام ناب ہوں گے اور عوام کوابھی مزیددرجنوں ’آہوتیوں‘ کے لیے تیار رہنا ہوگا ؛کیوں کہ ان کے جوش جنون ابھی رام (مطیع )نہیں ہوا ہے ؛بلکہ جولانیوں کا شکار ہے ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ اسی ستر فیصدی کے پاس اقتدارکی کلید ہے ،اگر مسلمانوں کا متحدہ محاذ ہو تو پھر یہ بھی تمام سیاسی قواعد اور اصول کی دھجیاں اڑاسکتا ہے ۔
ِ
عبدالسلام ندوی
تعلیم انسانی زندگی کی فلاح وبہبود اور کامیابی وکامرانی کا ضامن ہے،تعلیم سے ہی انسان کی تمام دینی ودنیاوی ترقیات وابستہ ہیں ،اسلام نے جہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے پیروکاروں اور عقیدت کیشوں کے لئے رہنمائی چھوڑی ہے وہیں اس نے حصول تعلیم اور تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی ہے،اور اس میں مرد وزن کے درمیان یک گونہ امتیاز کو بھی پسند نہیں فرمایاہے،مذہب اسلام کو اس تعلق سے اولیت کا درجہ حاصل ہے جسکے ثبوت کے طور پر قرآن پاک کے وہ تمام احکام اور فرامین پیش کئے جاسکتے ہیں جو تعلیمی امور سے متعلق ہیں اور بصیغہ عموم جاری ہوئے ہیں یا جن میں صیغہ مذکر اور لفظ ’’الناس‘‘ کے ذریعہ خطاب کیا گیا ہے،دراصل قرآن پاک اور عربی زبان میں دو قسم کے خطاب وارد ہوئے ہیں ،ایک تو وہ خطاب ہے جسکا روئے سخن عورتوں سے ہے،دوسرا عمومی خطاب ہے جس میں مرد وزن مشترک ہیں ، امام خطابی رحمہ اللہ نے حدیث نبوی ’’انما النساء شقائق الرجال‘‘پر اپنی تعلیق میں یہ خلاصہ کیا ہے کہ جب خطاب مذکر لفظ کے ساتھ وارد ہوتو عورتیں بھی اس میں برابر کی شریک ہوتی ہیں بجز چند مخصوص مقامات کے جہاں دلائل کے ذریعہ تخصیص ہو،یہ تحقیق علامہ ابن قیم ،علامہ ابن رشد اور علامہ ابن حزم نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں پیش کی ہے ۔
اسلام نے جہاں مرد وزن کے درمیان دیگر دنیاوی امور میں عدل ومساوات کا حکم دیا وہیں اولیاء کو بالخصوص مزید یہ ترغیب دلائی کہ وہ خواتین کو اسلامی تہذیب سے آراستہ وپیراستہ کریں اور اس عظیم خدمت پر اجرعظیم کا وعدہ بھی کیا، امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عائشہؓ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں حضور اقدسﷺنے فرمایا جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ انکے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ تعالی سے ڈرتارہے اور انکے ساتھ احسان وسلوک کا معاملہ کرے تو اللہ تعالی اسکی بدولت اسکو جنت میں داخل فرمائے گا،اس معنی کی اور بھی روایتیں ترمذی،مسنداحمداور حدیث کی دیگر کتب میں وارد ہوئی ہیں،جس سے خواتین کی دینی تربیت اور انکی اسلامی تثقیف کی فضیلت واہمیت عیاں ہوتی ہےـ
خود نبی اکرمﷺنے عورتوں کی تعلیم انکو مہذب بنانے اور انکی دینی تربیت میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیااور نہ یہ کہ صرف ان سے مردوں کی طرح بیعت لی بلکہ انکے لئے علم کی مخصوص مجالس بھی قائم کی،چناچنہ صحیح بخاری کتاب العلم میں مذکور ہے کہ جب عورتوں نے درخواست کی کہ ہمارے لئے ایک خاص دن مقرر فرمایاجائے تو آنحضرتﷺنے یہ درخواست منظور کی اور انکے وعظ وارشاد کے لئے ایک خاص دن مقرر ہوگیا،خواتین کی تعلیم کایہ اہتمام عہد نبوی میں اس حدتک پہنچ گیا تھاکہ بسااوقات صحابہ کرامؓ کا نکاح محض قرآنی سورتوں کی تعلیم کے عوض میں کردیاجاتاتھاـ
ایک دفعہ عید الفطر کے موقع پر جبکہ صحابہ کرامؓکی ایک بڑی جماعت موجود تھی آپﷺخواتین کی صفوں کے قریب تشریف لائے اور انہیں خوب وعظ ونصیحت کی اور صدقہ پر اس قدر ابھارا کہ عورتیں سونے اور چاندی کی انگوٹھیاں اور کڑے نکال کرصدقہ کرنے لگیں ـ
آپﷺنے عورتوں کیلئے یہ اجازت دے رکھی تھی کہ وہ دینی مسائل سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے گھر سے باہر نکلیں اور ان افراد کو زجروتوبیخ کرتے جو اپنی عورتوں کومساجد سے روکتے تھے، آپﷺ کاارشادتھاکہ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد سے نہ روکو‘‘امام غزالی رحمہ اللہ نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف احیاء علوم الدین میں اس حدیث کے ضمن میں بیان کیا ہے کہ عورتوں کا مساجد کی طرف جانامحض ادائیگیء نماز کیلئے نہیں ہے،بلکہ نماز کے ساتھ حصول علم بھی اسکا اہم مقصد ہے،اور جب شوہر اس لائق نہ ہو کہ وہ بیوی کو دینی امور سے واقف کرائے تو عورت کیلئے گھر سے نکلنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے اور شوہر اگر اس راہ میں رکاوٹ بنے تو وہ سیہ کار ہوگاـ
نبی اکرمﷺکی اسی خصوصی توجہ کا اثر تھا کہ عہد اوائل اسلام میں خاتونان حرم اور صحابیاتؓکی ایک بڑی جماعت نے احادیث کی روایت میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیا،جوسنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فن اسماء الرجال پر اپنی شہرہ آفاق تصنیف الاصابۃ میں ۱۵۵۲ ایسی صحابیات کی سوانح حیات بیان کی ہے جنہوں نے نبی اکرمﷺسے حدیثیں سنیں اور انہیں روایت کیااوران حالات کولکھنے کے بعدذکرکیاہے کہ یہ سب کی سب خواتین ثقہ اورعالمات تھیں اور اس سے بھی بڑھ کر علم جرح وتعدیل کے مشہور امام حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف میزان الاعتدال میں خواتین محدثات کے بارے میں بیان کیا ہے،وہ فرماتے ہیں کہ مجھے عورتوں میں کوئی ایسی راویہ نہیں ملی جن پر میں کذب بیانی کی تہمت لگاوں اور نہ ہی کوئی ایسی ہے جسے محدثین نے متروکہ قرار دیا ہے،حالانکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کافن جرح وتعدیل میں وہ رتبہ ہے کہ انہوں نے چار ہزار محدثین کی جرح کی ہےـ
ان مخدرات اسلام نے احادیث کے علاوہ بیشمار روایتوں کی تفسیریں بھی بیان کیں یہاں تک کہ دینی علوم کا نصف حصہ خواتین کی ہی عالمہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ذریعہ سے ہم تک پہنچاجنکا مکثرین روایت میں چھٹا نمبر ہے،اور محض علم شریعت سے واقفیت ہی انکی فضیلت اور مزیت کا باعث نہیں ہے،بلکہ اسکے علاوہ علم کلام عقائد،علم اسرارالدین، طب، تاریخ،ادب،خطابت اور شاعری میں بھی انہیں اچھی دستگاہ حاصل تھی،علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء میں ذکر کیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے پوچھاگیا،اے ام امومنین قرآن کی تفسیر اور حلال وحرام کی تعلیم آپ نے نبی اکرم ﷺسے حاصل کی اور شاعری ،علم انساب اور سابقہ اقوام کے حالات آپ نے اپنے والد اور دیگر لوگوں سے جانالیکن فما بال الطب؟آپ کو طب سے کیسے واقفیت ہوئی؟ام المومنین نے فرمایاکہ نبیﷺکے پاس جو وفود آیا کرتے تھے وہ اپنی بیماری کی شکایت آپ سے کرتے،آپﷺجو بھی نسخہ بیان فرماتے میں اسکو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلیتی تھی،ایک دوسری روایت میں انہوں نے فرمایا کہ آنحضرتﷺآخر عمر میں بیمار رہاکرتے تھے،اطباء عرب آیا کرتے تھے جو وہ بتاتے تھے میں یاد کرلیتی تھی،اسلام کے اس ابتدائی عہد میں ام المومنین عائشہؓ کے علاوہ دیگر صحابیات بھی علم طب میں ید طولی رکھتی تھیں جن میں رفیدہ اسلمیہ،ام سلیم،ام سنان،آمنہ بنت قیس الغفاریہ،کعبیہ بنت سعد اسلمیہ،شفاء بنت عبداللہ اور ام عطیہ وغیرہ کے نام محدثین نے بیان کئے ہیں ـ
اور یہ بھی یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے زمانہ میں جب قرآن کی تدوین ہوئی تو مصحف کا واحد خطی نسخہ ایک حجلہ نشین حرم نبوت حضرت حفصہؓ بنت عمرؓ الفاروق کے پاس رکھاگیا اور اس معاملہ میں کسی صحابی کو ذرا بھی تردد نہیں ہواحالانکہ اجلہ صحابہ کرامؓ کی بڑی تعداد اس وقت موجود تھی اور ان میں بعض ایسے بھی تھے جو فضل ومرتبہ میں ان سے اونچا مقام رکھتے تھے،لیکن اسکے باوجود حضرت حفصہؓ کو اس اہم اور نازک کام کیلئے ترجیح دی گئی،جسکی بنیادی اور مرکزی وجہ یہ تھی کہ حضرت حفصہؓمعاملہ فہمی،دوراندیشی اورنکتہ آفرینی میں شہرت رکھنے کے ساتھ ساتھ کاشانہ نبوت میں رہکر عمدہ تعلیم وصحیح تربیت سے بھی خوب اراستہ ہوگئی تھیں،مسند احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق نبی اکرمﷺنے ایک صحابیہ حضرت شفاؓ بنت عبداللہ عدویہ کو جولکھنا پڑھنا جانتی تھیں اس بات پر مامورفرمایا تھاکہ وہ حضرت حفصہؓ کو لکھناپڑھناسکھائیں اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے کا دم بھی بتائیں چناچنہ حضرت حفصہؓ نے بہت جلد پڑھنے کے ساتھ لکھنا بھی سیکھ لیاـ
بہرکیف یہ تو ایک عجالہ نافعہ ہے،جس سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ عہد نبوی میں مسلمان عورتوں نے تربیت نبوی میں رہکر علمی،مذہبی،اجتماعی اور سیاسی اور پندوموعظت اور اصلاح وارشاد اور امت کی بھلائی کے جو کام انجام دئے اسکا عشرعشیر بھی دنیاپیش کرنے سے قاصر ہےـ
آج اہل یورپ عالم اسلام کے خلاف الزامات تراشتے نہیں تھکتے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خواتین اسلام سے قبل اور مسلمانوں کے دور انحطاط میں تعلیم تو کجااپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم تھیں،خود یورپ میں سترہویں صدی عیسوی تک عورتوں کیلئے حصول تعلیم ممنوع تھا،یہاں تک کہ کتاب مقدس کے پڑھنے کی بھی انہیں اجازت نہیں تھی،اور موجودہ یورپی تہذیب کا سنگ بنیاد رکھنے والے ملک فرانس کا حال یہ تھاکہ سب سے پہلی خاتون نے ۱۸۶۱ء میں جب سکینڈری کلاس کے امتحان کیلئے درخواست پیش کی تو اسکی درخواست رد کردی گئی اور درخواست کو منظوری اسی وقت حاصل ہوئی جب نیپلیون سوم کی اہلیہ اور وزیر رولان نے اسکی سفارش کی،یہی حال جرمنی کی یونیورسٹی کا تھاجس میں خواتین کوپہلی دفعہ ۱۸۴۰ء میں داخلہ لینے کی اجازت دی گئی ـ
یہ وہ حقائق ہیں جو یورپ کی موجودہ ظاہری چمک دمک اور آزادی نسوانیت کے باطل اور پرفریب نعروں پر کالی سیاہی پوتتے ہیں،اور اسی کے ساتھ اسلام مخالف الزامات کی قلعی بھی کھولتے ہیں ـ
خلاصہ کلام یہ کہ اسلام نے خواتین کی تعلیم میں روز اول سے ہی نمایاں کردار ادا کیاتاکہ وہ اسکے ذریعہ معاشرہ میں باعزت زندگی گزار سکے اور بندوں کی غلامی سے اپنے آپ کو محفوظ کرسکے-
علی زریون
عشق کہتا جاتا ہے
نظم لکھتی جاتی ہے
اپنی جگ ہنسائی بھی
اِن کی پارسائی بھی
دوستوں کے نرغے بھی
دشمنوں کے حربے بھی
ان کہی زبانوں کے
بے بہا زمانوں کے
زخم سہتی جاتی ہے
نظم لکھتی جاتی ہے
نظم لکھتی جاتی ہے
بھوک ، خوف، مزدوری
نیند کا اکیلا پن
آدمی کی تیاری
عورتوں کی مجبوری
شاہراہ کی باتیں
جھونپڑی زدہ ذاتیں
بے نقاب کرتی ہے
شاعری نما گھاتیں
فیسٹولز کی یلغار
نقلیوں کی ہاہاکار
اور اداس آنکھوں سے
بَین کرتی جاتی ہے
نظم لکھتی جاتی ہے
نظم لکھتی جاتی ہے
مل گئے ہیں درباری
بد قماش سرکاری
اور ہوس کے تھیٹر میں
عشق کی اداکاری
مسندِ محبت پر
مسخرے مسلّط ہیں
منبرِ صداقت پر
وسوسوں کا قبضہ ہے
دل کے اندرونے میں
رات بہتی جاتی ہے
نظم لکھتی جاتی ہے
نظم لکھتی جاتی ہے
حکمران اور رانی
باغیوں کی حیرانی
شاعروں کے دن کوفی
مصلحوں کے دل زانی
کچھ سخن فروشوں کو
نظم سے شکایت ہے
نظم چپ نہیں رہتی
ان کو کون سمجھائے
نظم کی یہ بے خوفی
عشق سے روایت ہے
عشق استخارہ نئیں
عشق جو دوبارہ نئیں
نظم کی لکھاوٹ تو
عشق کی شباہت ہے
عشق کی شباہت ہی
شبد کی شہادت ہے
اور یہ شہادت ہی
نظم کی عبادت ہے
تم ! ہماری نظموں کو
کیسے روک سکتے ہو
تم ! ہمارے سجدوں کو
کیسے ٹوک سکتے ہو
عشق کہتا جاتا ہے
نظم لکھتی جاتی ہے !
نظم لکھتی جاتی ہے !
عبدالعزیز
عام طور پر میڈیا میں عوام و خواص کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ تفتیشی ادارہ سی بی آئی میں دو بڑے افسران یعنی ڈائرکٹرآلوک ورما اور راکیش استھانہ میں آپسی جنگ چھڑگئی تھی، ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے تھے، جس سے ادارہ بدنام اور مجروح ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے حکومت کو رات کے اندھیرے میں بے ضابطگی کے ساتھ دونوں افسران کو چھٹی پر بھیج دینا پڑا اور دونوں کے دفاترسیل کردیئے گئے، آلوک ورما کی ماتحتی میں جتنے افسران کام کر رہے تھے، ان کو ٹرانسفر کر دیا گیا، اس اقدام پر جس کی بھی نظر پڑے گی، وہ فوراً سمجھ جائے گا کہ معاملہ دو افسرا ن کی جنگ کا نہیں ،کچھ اور ہے؛ کیونکہ سارے افسران کو کسی دفتر سے آناً فاناً ہٹا دیا جائے یا ٹرانسفر کر دیا جائے، اس سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
حقیقت میں معاملہ بہت گمبھیر ہے، نریندر مودی نے وزیر اعظم کی گدی پر براجمان ہوتے ہی گجرات میں جس طرح آمرانہ حکومت کر رہے تھے، بالکل اسی طرح پورے ملک میں حکومت کرنے کا منصوبہ بنایا، سب سے پہلے سی بی آئی کو اپنے قبضہ میں کرنے کیلئے راکیش استھانہ کو جو گجرات کیڈر کے افسر ہیں، ڈائرکٹر بنانے کی کوشش کی؛ لیکن تنہا ایک شخص سی بی آئی کے ڈائرکٹر کا تقرر نہیں کرسکتا ہے ؛بلکہ وزیر اعظم، چیف جسٹس آف انڈیا اور اپوزیشن لیڈر کی سہ رکنی تقرری کمیٹی ہوتی ہے ،جس کی وجہ سے نریندر مودی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے، بعد میں انھوں نے آلوک ورما (ڈائرکٹر) کے اعتراض کے باوجود اپنے منظور نظر افسر راکیش استھانہ کو اسپیشل ڈائرکٹر بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
استھانہ کی کہانی یہ ہے کہ پہلے انھیں سابق وزیر داخلہ، ایل کے اڈوانی نے اپنے دورِ حکومت میں گجرات کے دورہ پر آتے جاتے پسند کرلیا، بعد میں اپنے شاگرد رشید نریندر مودی سے اس کا تعارف کرایا، استھانہ نے اڈوانی کے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ان کے رول ماڈل سردار ولبھ بھائی پٹیل ہیں اور صرف اس وجہ سے اڈوانی نے ان کو اپنا بنالیا تھا، جب اڈوانی گجرات جاتے ،تو ان کی محافظت کی ذمے داری استھانہ کو دی جاتی، سردار پٹیل کے بعد استھانہ مودی بھکت ہوگئے، نریندر مودی نے گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ٹرین میں آگ لگنے کے واقعہ کی انکوائری ان کے سپرد کردی تھی،ابتدائی پولس انکوائری میں کہا گیا تھا کہ ٹرین میں آگ اچانک اور حادثاتی طورپر لگی، استھانہ نے انکوائری میں آگ لگنے کے واقعہ کو منصوبہ بند بتایا اور ایک مسلمان حاجی داڑھی والے کی طرف اشارہ کیا، جس سے پورا الزام مسلمانوں پر تھوپ دیا گیا، نریندر مودی نے اسی کو بنیاد بناکر مسلمانوں کے خلاف بیان دیا اور نتیجتاً پورے گجرات میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا، بعد میں استھانہ کو سہراب الدین انکاؤنٹر کیس میں بھی انکوائری کا کام سونپا گیا ،جس میں امیت شاہ کو استھانہ نے کلین چٹ دے دی، اس طرح امیت شاہ کے بھی وہ قریب ہوگئے۔
آلوک ورما نے جب استھانہ کے تقرر کا مسئلہ زیر بحث لایا، تو نوٹ دیا کہ استھانہ ایماندار شخص نہیں ہے ؛بلکہ متنازعہ شخصیت کا حامل ہے، اسے اس تفتیشی ادارے میں نہ لیا جائے، اس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ،مگر مودی جی کو سی بی آئی کو اپنے قبضے میں رکھنا تھا ؛اس لیے ورما کی ایک نہ چلی۔
4 اکتوبر 2018ء کو ارون شوری، یشونت سنہا اور پرشانت بھوشن نے سی بی آئی کے ڈائرکٹر آلوک ورما سے ان کے دفتر میں جاکر ملاقات کی تھی اور رافیل فائٹر (فرانس) کے معاملے کے خلاف ایف آئی آر کرنے کا مطالبہ کیا تھا، ورما نے ایف آئی آر درج کرنا چاہا یا کردیا، جس کی وجہ سے حکومت نے ورما کے خلاف اپنی آنکھیں لال پیلی کرلیں اور استھانہ کواس کے خلاف اکسایا، ورما نے الزام لگایاتھاکہ معین قریشی کے معاملے میں استھانہ نے تین کروڑ کی رقم رشوت میں لی تھی، اس کے خلاف پہلے سے ہی ایف آئی آر کر رکھا تھا، استھانہ نے حکومت کے اشارے پر ڈائرکٹر الوک ورما پر بھی الزام لگا دیا کہ انھوں نے بھی دو کروڑ روپے رشوت لی ہے، اسے کاؤنٹر الزام تراشی کہہ کر آلوک ورما کے ایف آئی آر کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، میڈیا میں اس کو خوب اچھالا گیا اور تاثر آیا کہ سی بی آئی میں دو بڑے افسران میں گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی ہے، حکومت نے غیر قانونی کارروائی کی کہ دونوں بڑے افسران کے ساتھ آلوک ورما کے ماتحت افسران کو بھی ٹرانسفر کر دیا، حکومت کے اس قانونی اقدام کی وجہ سے آلوک ورما نے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کر دیا ہے، جس کی شنوائی جمعہ کے دن ہوگی، پرشانت بھوشن نے ،جو ملک کے بڑے وکیل ہیں، کہاکہ کسی بڑے چور کے خلاف ایف آئی آر کر دیا جائے اور چور ایف آئی آر کرنے والے کے خلاف بھی الزام چوری کا لگائے، تو اسے کیسے قابل قبول سمجھا جاسکتا ہے اور اسے کیسے آپسی لڑائی پر محمول کیا جاسکتا ہے، یہ سراسر رافیل ڈیل کی انکوائری کو ٹھپ کرنے اور طشت ازبام کرنے پر روک لگانے کی کوشش ہے۔
دہلی میں کانگریس حکومت کے آخری زمانے میں انا ہزارے کی سربراہی میں دہلی میں کرپشن کے خلاف زبردست مظاہرہ ہوا تھا، لگاتار کئی دنوں تک یہ ہوتا رہا، جب حکومت نے لوک پال بل پاس کرانے اور قانون بنانے کی بات مان لی، تو انا ہزارے کی بھوک ہڑتال ختم ہوئی، احتجاج کرنے والوں کے ساتھ تمام اپوزیشن پارٹیاں تھیں اور بی جے پی، آر ایس ایس والے آگے آگے تھے، بی جے پی نے وعدہ کیا تھا کہ لوک پال بل اقتدار میں آتے ہی پاس کرادے گی اور سی بی آئی، جو سپریم کورٹ کے ایک ریمارک کے مطابق پنجرے کا طوطا ہے، اسے آزاد اور خود مختار ادارہ بنا یا جائے گا، مگربی جے پی یا مودی کے اقتدار میں آتے ہی ملک میں جو کچھ ہوا، وہ دنیا کے سامنے ہے، سی بی آئی ،جو ہندستان کا سب سے بڑا تفتیشی ادارہ ہے، جس پر لوگ کچھ بھروسہ کرتے تھے ،کسی بھی بڑے معاملے میں سی بی آئی جانچ کی مانگ کی جاتی تھی ،اس کے سب سے بڑے افسر کو اس کے عہدے سے اس لیے ہٹا دیا گیا یا چھٹی پر بھیج دیا گیا کہ اس نے اپنے ایک ماتحت کی رشوت خوری پر انگشت نمائی کی اور حکومت وقت کی رافیل ڈیل اسکیم کے خلاف ایف آئی آر درج کرانا چاہا، اب پورے طور پر معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، امید ہے کہ سپریم کورٹ آلوک ورما کو پھر سے ان کے عہدے پر بحال کرنے کا فیصلہ کرے گی؛ کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوا ،تو معاملہ آگے چل کر اور بھی خراب اور سنگین ہوجائے گا، جو بھی سی بی آئی ڈائرکٹر کچھ کرنا چاہے گا اور اس کی زد حکومت پر آئے گی ،تو اس کا اپنے عہدہ پر رہنا دوبھر ہوجائے گا، پھر کون افسر ہوگا، جو صحیح قدم اٹھانے کی جرأت کرے گا؟
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
زاہدہ حنا
وہ استنبول کا شہر تھا، جہاں اب سے صرف پانچ مہینے پہلے ایک کانفرنس میں ان کی ملاقات ہوئی تھی اور دونوں پہلی نظر میں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے تھے، جمال کے بالوں میں سیاہی کم رہ گئی تھی؛ لیکن اپنے سفید بالوں کو اس نے کسی رنگ سے چھپایا نہیں تھا،دونوں ہشاش بشاش اور ایک دوسرے کی دوسراہت سے سرشار تھے، انھوں نے پہلی ملاقات کے فوراً بعد ہی شادی کا فیصلہ کر لیا، جمال اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے چکا تھا، شادی امریکا میں ہونی تھی، جس کے لیے لازم تھا کہ طلاق کے کاغذات پر سرکاری مہر ثبت ہو، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ استنبول کے قونصل خانے جا کر وہاں سے متعلقہ کاغذات پر مہر لگوالے گا، ایک سادہ سی کاغذی کارروائی؛ لیکن اس کا شمار اپنے ملک کے ناپسندیدہ ترین صحافیوں میں ہوتا تھا ؛اسی لیے وہ امریکا میں رہتا تھا اور وہاں کے نہایت موقر اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ سے وابستہ تھا۔امریکا اور یورپ کے بہت بااثر افراد اس کے دوست تھے، اس کے ساتھ ہی اس نے Democracy for the Arab World Nowکے نام سے ایک ٹیلی وژن چینل آغازکرنے کا اعلان کیا تھا۔
جمال طلاق نامے پر مہر لگوانے کے لیے روانہ ہوا ہے تو جان عزیز خدیجہ چنگیز اس کے ساتھ تھی، دونوں آنے والے دنوں کے منصوبے بنا رہے تھے، شادی کہاں ہوگی، امریکا میں وہ اپنا گھرکہاں بنائیں گے، اسے کس طور آراستہ کریں گے، یہ باتیں کرتے ہوئے وہ استنبول کی سڑکوں سے گزرتے رہے،جمال بہت خوش تھا، ایک بھری پری زندگی اب اس سے چند قدموں کے فاصلے پر تھی، اس کے ساتھ ہی دل کو ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا، تب ہی اس نے عمارت کے دروازے پر پہنچ کر خدیجہ چنگیز سے جدا ہوتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے باہر آنے میں زیادہ دیر ہو، تو میرے ترک دوست توران کو اطلاع دے دینا، وہ اندر چلا گیا اور خدیجہ باہر اس کا انتظار کرتی رہی۔
گھنٹے گزرتے گئے؛ لیکن خدیجہ کا انتظار ختم نہ ہوا، دفتر بند ہونے لگا ،تو اس نے وہاں کام کرنے والے اسٹاف سے جمال کے بارے میں پوچھا، اسے بتایا گیا کہ وہ گھنٹوں پہلے عقبی دروازے سے باہر جا چکا ہے، ترک نژاد خدیجہ چنگیز کو اس بات پر یقین نہیں آیا، اس نے جمال کے دوست توران کچلاک سے رابطہ کیا اور پھر چند منٹ کے اندر دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں فون کی گھنٹیاں بجنے لگیں، ای میل اور ٹوئیٹر پر عرب دنیا کے سب سے مشہور اور متنازع صحافی جمال خاشقجیکی گمشدگی ایک دھماکا خیز خبر بن گئی۔
جمال خشوگی کو استنبول میں 2؍ اکتوبر کو نہایت شقاوت سے قتل کیا گیا اور 16؍دن تک اس کے قتل کی تکذیب کی گئی،اب جب کہ سرکاری ذرایع سے اس قتل کی تصدیق کردی گئی ہے، اس کی منگیتر خدیجہ چنگیز اور دوسرے بہت سے لوگ جمال خاشقجیکو آزادیِ صحافت کا شہید کہہ رہے ہیں، سرحدوں سے بالاتر صحافیوں کی تنظیم ہو یا ایمنسٹی انٹرنیشنل، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ہوں، امریکی ری پبلیکن یا ڈیموکریٹک سینیٹر ہوں، سب ہی برہم اور برا فروختہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ 60؍ سالہ جمال پر مبینہ طور سے پندرہ افراد کا حملہ اور آخر کار اسے مکوں اور گھونسوں سے مار مار کر بے دم کر دینا، جس کے بعد اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کردینا، ناقابلِمعافی ہے۔ترک صدر طیب اردگان کے سرکاری بیان نے بھی اس واقعے کی تصدیق کردی ہے۔ایساکہا جا رہا ہے کہ جمال کو زبردستی وطن واپس لے جانے کی کوشش کی گئی اور جب اس نے مزاحمت کی، تو اسے گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا گیا، اطلاعات کے مطابق ہلاکت سے پہلے جب وہ ہوش میں تھا ،تواس کے پیر، اس کی انگلیاں اور اس کے بازو برقی آری سے کاٹ دیے گئے ،جس کے بعد اس کا سر قلم کر دیا گیا، یہ پڑھتے ہوئے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور مجھے چند دنوں پہلے لکھا جانے والا اپنا ہی کالم یاد آیا، جس میں حسین بن منصور حلاج کو اب سے ہزار برس پہلے اسی طرح کترکترکر شہید کیا گیا تھا۔
کیا اکیسویں صدی میں یہ ممکن ہے؟ جمال ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کی آنکھ کا تارا تھا، ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے اس بھیانک قتل کے بارے میں 9؍اہم سوالات اٹھائے ہیں اور ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس کی ہلاکت کا اعتراف کرنے میں 17؍دن کیوں لگے؟ اس سے پہلے بار بار یہ کیوں کہا جاتا رہا کہ وہ عمارت میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد عقبی راستے سے نکل گیا تھا؟ دوسرے بہت سے سوالات کے ساتھ ہی اب یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ جمال کی لاش کہاں ہے؟بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ جمال کی لاش کے ٹکڑے کیے گئے اور پھر اس کا قیمہ کرکے اسے ’’کیفر کردار‘‘تک پہنچانے والے 15؍اہلکار اس قیمے کو اپنے ساتھ نجی جہاز میں لے کر روانہ ہو گئے، دوسری کئی خبریں بھی ہیں ، ترک صدرنے بھی تفتیش کے بعد اپنے بیان میں کہاہے کہ جمال خاشقجی کا قتل ایک منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔
کہنے کو یہ ایک جراتمند اور بے باک صحافی کا قتل ہے؛ لیکن بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ اس قتل نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس کے نتائج جلد ہی سامنے آنے لگیں گے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ ستمبر 1914ء میں آسٹریا کے شہزادے کے قتل کی طرح تہلکہ خیز ہے ،جس کے بعد پہلی جنگ عظیم شروع ہوگئی تھی، اسی طرح اسے جان ایف کینیڈی اور ابراہیم لنکن کے قتل سے بھی تشبیہ دی جا رہی ہے۔
ہماری تاریخ ایسی ہلاکتوں کے تذکرے سے بھری پڑی ہے، ہر وہ شخص جس نے شاہِ وقت سے اختلاف کیا یا جو تخت کی جنگ میں مقابل آیا، اسے وحشیانہ انداز میں ہلاک کیا گیا، جعفر زٹل جس نے شاہِ وقت کی اقتصادی اور معاشی پالیسیوں سے اختلاف کیا تھا اور جو ایک شاعر تھا، اس کو ہلاک کرنے کے لیے تسمے کا انتخاب کیا گیا۔اقتدار کی جنگ میں دارا شکوہ ہار گیا ،تو اورنگ زیب کے جاں نثار سپاہیوں نے چھوٹے بھائی کے حکم پر بڑے بھائی کو ذبح کر کے اس کا سربریدہ لاشہ ایک بیمار ہتھنی کی پشت پر رکھ کر دلی شہر کی گلیوں میں پھرایا، لوگ دیکھیں اور عبرت پکڑیں اور یقین کرلیں کہ صوفی اور عالم دارا شکوہ کو شکست ہوگئی۔
ایک روایت کے مطابق جب دارا شکوہ کا سرطشت میں حضرت اورنگ زیب عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے لایا گیا، تو اس کو پہچاننے کے بعد حضرت گرامی مرتبت نے حکم دیا کہ یہ سر اپنی ماں کے سینے پر آرام کرتا تھا، اسے لے جایا جائے اور ممتاز محل کی قبر کھول کر یہ سر اسی ماں کے سینے پر رکھ دیا جائے،ماں اور بیٹے دونوں کو آرام آجائے گا، یاد رہے کہ بد بخت دارا کی ماں، خوش بخت اورنگ زیب کی بھی ماں تھی۔
ممتاز محل جس کا مقبرہ تاج محل تعمیراتی دنیا میں بے مثال کہا جاتا ہے، دنیا کے نامی گرامی صدور اور وزرائے اعظم اس کے پس منظر میں اپنی بیگمات کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہیں اور اس یادگار کو اپنے دیوان خانوں میں رکھتے ہیں۔
جعفر برمکی کو ہم کیسے بھول جائیں جو خلیفۂ وقت کا چہیتا، منہ بولا بھائی تھا اور جب ہارون الرشید کو اس سے حسد ہوا ،تو جعفر کا سرتن سے جدا ہوا اور بدن بغداد کے مشہور پل پر جھولتا رہا، دھوپ اسے خشک کرتی رہی اور پرندے اس کی پسلیوں میں گھونسلے بناتے رہے،ہمارے یہاں کیسی کیسی سزائیں ایجاد کی گئیں! قیدی کو ایسے زنداں خانے میں رکھا جائے کہ آنکھیں سورج کی کرن اور دھوپ کا شائبہ نہ دیکھ پائیں،برسوں بعد وہاں سے نکالے جائیں ،تو آنکھیں بصارت سے محروم ہوچکی ہوں، بادشاہ سلامت کا طیش عروج پر ہو، تو گردن کے پچھلے حصے میں فولادی آنکڑا ڈال کر زبان گدی سے کھینچ لی جائے،اسی طرح برونوکی سزا ہم کیسے بھلا دیں، جسے تمام عقوبتوں سے گزار کر چار توانا گھوڑوں سے اس کے ہاتھ اور پیر باندھ کر ان گھوڑوں کو مختلف سمتوں میں دوڑایا گیا؛ تاکہ وہ اس کا بدن چار حصوں میں تقسیم کر دیں۔
ہم انیسویں اور بیسویں صدی کی زار شاہی سزاؤں کو یاد کریں،آنکھوں میں دہکتی ہوئی سلائیاں پھیر کر انسانوں کو بینائی سے محروم کردیا جائے، باغی اور جراتمند شاعروں کے ہونٹ تانت سے سی دیے جائیں، ان دنوں میں اور آج میں فرق ہے، تو صرف اتنا کہ اُن دنوں ایمنسٹی انٹرنیشنل، اقوام متحدہ اور سرحدوں سے ماورا صحافیوں کی تنظیمیں نہیں ہوتی تھیں ،جو ان وحشیانہ ہلاکتوں پر احتجاج کریں اور دوسرے جب ایسی کسی غیر انسانی حرکت کے بارے میں سوچیں تو کئی بار غور کریں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھائی جمال خاشقجی !تم نے یہ کیوں فرض کر لیا تھا کہ تم اکیسویں صدی میں رہتے ہو؟ کیا تم نہیں جانتے تھے کہ بادشاہوں کی نازک مزاجیاں آج بھی وہی ہیں، تم نے جب اس عمارت میں قدم رکھا تھا ،تو بین الاقوامی قوانین کے مطابق تم اپنی ریاست میں پہنچ گئے تھے اور تم پرکفار اور مشرکین کے تمام قوانین ساقط ہوگئے تھے۔غلطی تم سے ہوئی،کسی شاہِ جم جاہ سے نہیں ہوئی!
(بہ شکریہ ایکسپریس نیوز)
راحت علی صدیقی قاسمی
رابطہ: 09557942062
تعلیم کی اہمیت و افادیت مسلم ہے، اس پر گفتگو کرنا سورج کی روشنی پر دلائل پیش کرنے کے مترادف ہے، حالاں کہ وہ ظاہر و باہر ہے، ہر آنکھ اسے دیکھ سکتی ہے اور جن آنکھوں میں قوت بینائی نہیں ہے، وہ اس کی تمازت سے اس کا وجود پہچان سکتی ہیں، تعلیم وہ قیمتی جوہر ہے کہ ہر شخص اس کی اہمیت و افادیت سے باخبر ہے، اس کی عظمت و رفعت کو جانتا و سمجھتا ہے، دیوانگی ہی ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو تعلیم کی اہمیت پر مطلع ہونے سے روک سکتا ہے، غریب فقیر بھوکا ہر شخص اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتا ہے، اس کے قلب میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد تعلیمی میدان میں ترقی کرے، علمی میدانوں کو سر کرتا ہوا کائنات کے اسرار و رموز سے واقف ہوجائے، انسانیت کی خیر تلاش کرے، ہمارے ملک میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، غریب و مفلس طلبہ جن کے پاس پیٹ بھرنے کے وسائل نہیں تھے، انہوں نے اعلیٰ تعلیم میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منایا ہے اور اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوکر ملک کی خدمت انجام دے رہے ہیں، پوری دنیا تعلیم کی اہمیت و افادیت کو سمجھ چکی ہے، دنیا کا اکثر طبقہ اس کے حصول میں محنت جد و جہد اور لگن کے نادر و نایاب نمونے پیش کر چکا ہے اور کر رہا ہے، حصول علم کے لئے لوگوں کا گھر چھوڑنا وطن کو خیرباد کہنا عام ہوتا جارہا ہے، ہمارے ملک ہندوستان سے لاکھوں کی تعداد میں طلبہ تعلیم کی تکمیل کے لئے ہجرت کرتے ہیں، اجنبی ملک اور اجنبی ماحول میں رہنا گوارا کرتے ہیں، اور مائیں اپنے بچوں کو گود سے اتار کر ہاسٹل کے نگراں کے حوالے کردیتی ہیں ، اس کے مثبت و بہترین نتائج ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، ہمارے ملک میں بہت سے کامیاب ڈاکٹر انجینئر اور نظم و نسق کے افسران موجود ہیں اور چونکہ دنیا کے دیگر ممالک میں تعلیم پر محنت کا معیار بہت بلند ہے، لہٰذا دنیا کے بہت سے ممالک ہیں، جو سو فی صد تعلیمی شرح کا عدد مکمل کرچکے ہیں، اس کے علاوہ دنیا میں جن ایجادات و انکشافات کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، وہ سب تعلیم ہی کا تو ثمرہ ہیں، انسان چاند پر قدم رکھ چکا ہے، سورج کی روشنی کو قید کررہا ہے، دریاؤں، پہاڑوں اور جھیلوں سے استفادہ کی خوبصورت و حیران کن راہیں تلاش کر رہا ہے، زندگی کے مشکل ترین اسفار کو انتہائی سہل اور آسان بنا رہا ہے، درد و تکلیف کو شکست دینے والی ایجادات کر رہا ہے، کل جو اڑنے والی قالینیں کہانیوں میں ہوتی تھیں، آج وہ حقیقت کا روپ لے چکی ہیں، ہمارے ملک کو بھی عرصۂ دراز سے اس بات کا شدت کے ساتھ احساس ہے کہ تعلیمی شرح جب تک بلندیوں کا سفر طے نہیں کرے گی، ملک اس وقت تک ترقی کے منازل طے نہیں کرپائے گا، اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے، 2001میں(سرو سکشا ابھیان)شروع کیا گیا، یعنی تعلیم کو ہر فرد تک پہنچانے کی مہم شروع کی گئی، اس کے لئے گاؤں گاؤں ابتدائی تعلیمی اداروں کا نظم کیا گیا، جو تعلیم کو گھر گھر پہنچانے کی قابل تحسین کوشش تھی، 2013 میں دی ہندو میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق حکومت ہند 33 کروڑ روپے میں 80 کروڑ طلبہ کے لئے تعلیمی انتظامات کررہی تھی، حکومت ہند کو جب غریب مفلس طلبہ کے مسائل کا احساس ہوا تو ان کے لیے کھانے پینے کتابیں اور ڈریس کا انتظام کیا گیا، مڈ ڈے میل کے نام سے ایک اسکیم 1995 سے جاری ہے، جو طلبہ کے لیے کھانا فراہم کرتی ہے، یہ ایک قابل تحسین قدم تھا، اس سے امیدوں کے چراغ روشن ہوگئے تھے کہ ہندوستان تعلیم کے میدان میں ناقابل یقین ترقی حاصل کر لے گااور سو فی صد تعلیمی شرح کا خواب اب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا، لیکن یہ سب امیدیں و خواہشیں ابھی تک حقیقت میں تبدیل نہیں ہو سکی ہیں ، حکومتیں آتی اور جاتی رہیں، صورت حال ٹس سے مس نہ ہوئی،ہمارے ملک کی تعلیمی شرح آج بھی 75 فی صد اور 80 کے درمیان ہے،اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی تعلیمی صورت حال میں خاطر خواہ سدھار نہ ہونا بڑا سوال ہے، آج بھی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے پڑھے ہوئے طلبہ میں نمایاں فرق محسوس ہوتا ہے، کیا حکومت ہند نے ابتدائی تعلیمی (پرائمری) ادارے محض کھانا کھلانے کے لئے قائم کئے ہیں؟ ان اداروں سے اس معیار کے حامل بچے کیوں نہیں نکلتے جو غیر سرکاری اداروں کا معیار ہے؟ سرکاری اداروں میں قوانین و ضوابط پر پابندی کیوں نہیں ہے؟ خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد بھی سرکار ان اداروں سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے میں ناکام کیوں ہے؟ یہ سوالات ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں، جنہیں وہ کبھی نہ کبھی اپنے آپ سے پوچھتا ہے، جوابات پر غور کرتا ہے، اور کڑھ کر رہ جاتا ہے، ہمارے ملک کا کثیر طبقہ غریبی کی زندگی گذارتا ہے، جس میں سہولیاتِ زندگی نہیں ہیں، مشکلات و پریشانیاں ہیں ،اس طبقے سے وابستہ افراد کے 90 فی صد بچے سرکاری اداروں میں تعلیم میں حاصل کرتے ہیں اور ابتدائی اور ثانوی درجات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ان میں بہت سے انگریزی کے حروف تہجی سے بھی بے خبر ہوتے ہیں اور جب یہ میٹرک میں پہنچتے ہیں، تو ان میں اتنی استعداد نہیں ہوتی کہ وہ اس مرحلہ کو پار کرسکیں،اکثر کی ہمتیں ٹوٹ جاتی ہیں اور نکل پڑتے ہیں، مزدوری کے اس سفر پر جس میں تکلیف ہے، ذلت ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کی تلخ یادیں ہیں، حالانکہ اور بھی بہت سے اسباب ہیں، لیکن مذکورہ سبب سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، جو صورت حال ان تعلیمی اداروں میں پیش آرہی ہے، ان میں اساتذہ کی ٹریننگ کی بھی داخل ہے، ان کو طلبہ کی نفسیات درس و تدریس کا طریقہ کار، بچوں کی حوصلہ افزائی، اساتذہ کو ان تمام امور بخوبی مہارت ہونی چاہیے، انہیں اس پیشے کی عظمت کا اعتراف ہونا چاہیے، انہیں باخبر کرنا چاہیے کہ وہ ملک کے معمار ہیں
، اگر انہوں نے خامی کی تو ملک کو سخت ترین مسائل سے مقابلہ کرنا ہوگا، اور حکومت ہند کو بھی اس کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ابتدائی تعلیمی مراکز سے وابستہ اساتذہ ہندوستان کی نئی نسل کے معمار ہیں، جب تک حکومت ہند اس حقیقت کا اعتراف نہیں کرتی ہے، صورت حال کی تبدیلی نا ممکن ہے، ان اساتذہ کا تقرر تدریس کے لیے ہوا ہے، اگر وہ اس میں کوتاہی کرتے ہیں تو انہیں سزا دی جائے، البتہ انہیں دیگر کاموں میں مشغول کرنا جہاں ان کی انا پر چوٹ کرنا ہے، وہیں انہیں اپنی ذمہ داری سے بے خبر کرنا ہے، حالانکہ ہم آئے دن اس کا مشاہدہ کرتے ہیں، اساتذہ کو بیت الخلا شمار کرنے کے لئے، ووٹرلسٹ بنانے کے لئے اور کبھی انتخابات کے انتظامات کرنے کے لئے مختلف ذمے داریاں دیتے ہیں، جو تعلیم میں مخل ہوتی ہیں، اور اساتذہ کی عزت کے زیور کو بدنما کرتی ہیں، جس سے ان میں منفی جذبات جنم لیتے ہیں، اور تعلیمی نظام براہ راست متاثر ہوتا ہے، حکومت ہند کو ان امور کے لئے اُن افراد کا استعمال کرنا چاہئے جو شعبۂ تدریس سے وابستہ نہیں ہیں اور اساتذہ کو تدریس میں محنت و جد و جہد کرنے کی تلقین کرنی چاہئے، انہیں اچھا کام کرنے پر اعزاز دینا چاہیے، اور محنت نہ کرنے پر زجر وتوبیخ کرنی چاہیے، اگر ایسا نہ ہوا تو سنگین نتائج سامنے ہوں گے،جس کا اعتراف وزیر اعلیٰ یوگی کے ان الفاظ میں ملتا ہے، کہ نوکریاں ہیں لیکن اس معیار کے حامل افراد نہیں ہیں، جو ان امور کو انجام دے سکیں، پھر غیر ملکی کمپنیوں سے ان امور کو انجام دلایا جائے گا، ملک میں سرکاری ملازمتوں کی قلت ہوگی ، بے روزگاری اور جہالت عام ہوگی، لوگ علم کی جگہ مزدوری کو ترجیح دیں گے اور تعلیمی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
مولاناعبدالرشیدطلحہ نعمانی
خود غرضی ،مفادپرستی اورمادیت پسندی کے اس دور میں ہرطرف گہماگہمی اور نفسی نفسی کا عالم ہے ،میدان محشر کی منظر کشی کے حوالے سے جو باتیں قرآن و حدیث میں بہ کثرت ملتی ہیں، اس کی مختلف جھلکیاں آج کے اس مغرب زدہ ،انسانی اقدار سے عاری اور انسانیت سے خالی زمانے میں بھی جگہ جگہ دیکھی جاسکتی ہیں۔کہنے کو تو یہ ایک ترقی یافتہ دور ہے ؛مگردیکھاجائے تو یہاں کائنات کا ہرشخص، اپنی دنیا میں مست،اپنے نظام کار میں مگن،رشتہ داروں،پڑوسیوں اور دوست واحباب سے لاتعلق ،معاشرتی حقوق کی ادائیگی سے یکسر غافل اور اجتماعی ذمہ داریوں سے کوسوں دور ہے ۔یہ شکایت نہیں حقیقت ہے کہ جو انسان خودی سے خدا تک نہیں پہونچ سکا وہ خلق سے خالق تک کیسے پہونچ پائے گا؟؟
اسلام دینِ الفت و انسیت ہے ؛جس میں انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی کے حوالے سے بھی زریں اصول اور بے نظیر احکام بیان کیے گئے ہیں ،من جملہ ان میں’ عیادت اور بیمار پرسی ‘بھی ہے ۔چوں کہ ان دنوں ملک کے طول وعرض میں کئی ایک ریاستوں سے وبائی امراض پھیلنے کی مسلسل اطلاعات موصول ہورہی ہیں ،خود ہماری ریاست تلنگانہ میں سرکاری و خانگی دواخانے بیماروں سے بھرے پڑے ہیں؛اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اس عنوان پرکچھ روشنی ڈالی جائے ،اس فراموش کردہ عظیم سنت اور اہم ترین عبادت کی فضیلت و اہمیت اجاگر کی جائے ؛تاکہ ہم بھی دوسروں کا دکھ درد اپنے سینوں میں محسوس کریں اور انہیں دیکھ کر اللہ کی پے پناہ نعمتوں کا شکر بجالانے کی توفیق ملتی رہے ۔
عیادت کے فضائل و احکام:
عیادت کے معنی مطلق زیارت کے آتے ہیں؛لیکن اس کا مشہور اِستعمال زیارۃ المریض یعنی مریض کی زیارت کرنے کے معنی میں ہوتا ہے ۔(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:31/76)مریض کی عیادت کا کیا حکم ہے اس بارے میں فقہاء امت کے متعدد اقوال ہیں :(1)سنّت۔ (2)مندوب۔ (3)واجب۔ (4)سنّت علی الکفایۃ۔ (5)فرض علی الکفایۃ۔راجح یہ ہے کہ اگر کوئی دیکھ بھال کرنے والا ہو تب تو سنت ہے ورنہ واجب ہے ۔ (مرقاۃ : 3/1120)شارح بخاری علّامہ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں :عیادت کا حکم اصل میں تو مستحب ہونے کا ہے ؛لیکن بعض اوقات بعض لوگوں کیلئے وجوب کے درجہ میں پہنچ جاتا ہے ۔(فتح الباری)
ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی عیادت کرناتو اسلام کا حق ہے ؛مگر اس سے آگے بڑھ کر انسانیت کی بنیاد پربلاتفریق مذہب و ملت غیرمسلم برادران وطن کی مزاج پرسی بھی اجر و ثواب سے خالی نہیں، اگراس میں تبلیغ اسلام کی نیت کرلی جائے تو پھرنور علی نور۔روایات میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ بھی ایک غیرمسلم یہودی لڑکے کی خبر گیری اور عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کو اسلام کی دعوت دی،اوروہ لڑکا آپ ﷺ کی خوش خلقی سے متاثر ہوکر آپ کی بے لوث دعوت کے نتیجے میں مسلمان ہوگیا۔ (بخاری شریف)اسی طرح نبی اکرمﷺ اپنے چچا ابوطالب کی بیمار پرسی اور دعوت ایمان کے لیے بھی تشریف لے جاتے تھے ۔(بخاری شریف)
کسی بھی بیمار کی عیادت کوخود اللہ تعالیٰ کی عیادت کے مترادف بتلایاگیا،اللہ تعالیٰ کی ذات اگرچہ ہر بیماری سے پاک ہے ،اُسے کوئی بیماری و تکلیف ہر گز ہرگز لاحق نہیں ہوسکتی؛لیکن عیادت کی فضیلت اجاگرکرنے کے لیے اس طرح مثال بیان کی گئی ،چناں چہ حدیثِ قدسی میں ہے ،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا:اے ابن آدم! میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی،وہ کہے گا :اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی، کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا،اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا؛لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا،وہ کہے گا اے پروردگار میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے تو اللہ فرمائے گا:کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا؛لیکن تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا،کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا،اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا ؛لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا،وہ کہے گا:اے پروردگار!میں تجھے کیسے پانی پلاتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا :میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا؛لیکن تونے اس کو پانی نہیں پلایا اگر تو اسے پانی پلاتا تو تو اسے میرے پاس پاتا۔(مسلم شریف)
ایک اور روایت میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جونبی کریمﷺکے آزاد کردہ غلام ہیں ،فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اِرشاد فرمایا: بے شک مسلمان جب اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہ مستقل جنّت کی میوہ خوری میں مصروف رہتا ہے یہاں تک کہ وہ عیادت سے واپس آجائے ۔ (مسلم شریف)
مزاج پرسی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر رسول اللہ ﷺ نے یوں ارشاد فرمایا :ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت کے لیے اگر صبح کے وقت جائے تو شام تک اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اُس کیلئے رحمت کی دعاء کرتے ہیں اور جنت میں اُس کیلئے ایک باغ مقرر ہوجاتا ہے ۔(ترمذی شریف)
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکا یہ اِرشادنقل فرماتے ہیں: جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی کی عیادت کرتا ہے یا اپنے دینی بھائی کی زیارت کرتا ہے یعنی ملنے کیلئے جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں:تم (دنیاو آخرت میں)خوش رہو، اور بہت اچھا رہے تمہارا چلنا اور تمہیں جنت میں ایک بڑا درجہ اور مرتبہ حاصل ہو۔ (ترمذی شریف)نیزحضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا:جوکسی مریض کی عیادت کرے اور اُس کے پاس بیٹھ جائے توجب تک وہ اُس کے پاس بیٹھے ،رحمتِ الٰہی اُس کو ہر جانب سے گھیر لیتی ہے اور جب وہ اُس کے پاس سے اٹھ کر چلا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کیلئے ایک دن کے روزے کا اجرلکھ دیتے ہیں۔(کنزالعمال)
بیمار پرسی کے آداب:
جس طرح ہر عبادت کے کچھ ادب آداب ہوتے ہیں ،دین اسلام میں عیادت کے بھی مستقل آداب بتلائے گئے ہیں ،فی زماننا بہت سے حضرات کو عیادت کے آداب کا علم نہیں ہوتا، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بیمار کو تسلی دینے اور آرام پہنچانے کے بجائے اس کی تکلیف کا سبب بن جاتے ہیں، آنحضرتﷺ نے اپنے قول و عمل کے ذریعہ تیمارداری کے آداب بھی امت کوسکھائے ہیں، ہر مسلمان کو ان کی رعایت کرنی چاہیے :
(الف)سب سے پہلے دعاء پڑھی جائے اور خیروبھلائی کی بات کی جائے : حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ کا معمول تھا کہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا تو آپﷺ اپنے داہنے ہاتھ سے اسے چھوتے اور یہ دعا پڑھتے : اَذْھبِ الْبِاْسَ رَبَّ النَّاسِ وَ اشْفِ اَنْتَ الشَّافِی لَا شِفَاءَ الا شِفَاءُکَ شِفَاءً لَا یُغَادِرُ سُقْمًا۔۔۔۔۔۔ (بخاری و مسلم)اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیمار یا میت کے گھر جاؤ تو اچھی باتیں کہو، اس لئے کہ فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں جو تم کہتے ہو۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا ، اس وقت آپ بخار میں مبتلا تھے ۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس وقت آپ کو شدید بخار ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں تم ٹھیک کہتے ہو، مجھے تم میں سے دو آدمیوں کے برابر بخا ر ہوتا ہے ۔ میں نے کہا: کیا ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ آپ کے لئے دوہرا اجر ہے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں! مسلمان کو مرض یا کسی اوروجہ سے جب بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ اس کے بدلے اس کے گناہوں کو مٹادیتا ہے ،جس طرح درخت اپنے پتے کو گرادیتا ہے ۔ (صحیح بخاری،کتاب المرضیٰ)
(ب)مریض کے پاس کم بیٹھنا:حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ عیادت کی سنت یہ ہے کہ مریض کے پاس تھوڑی دیر بیٹھا جائے اور شور کم کیا جائے ۔(مشکوٰۃ المصابیح) نیزآنحضرتﷺ نے فرمایا کہ "العیادۃفواق ناقۃ” یعنی بیمار کی عیادت بس اتنی دیر ہونا چاہیے جتنی دیر اونٹنی کو دومرتبہ دوہنے کے درمیانی وقفے میں لگتی ہے ۔ (یعنی تھوڑی سی دیر) اسی طرح حضرت سعید ابن المسیبؒ نے فرمایا کہ "افضل ترین عیادت وہ ہے جس میں بیمار پرسی کرنے والا جلدی اٹھ کر چلاجائے ۔ (مشکوٰۃ بحوالہ بیہقیؒ )ان روایات کی روشنی میں علماء نے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے کہ عیادت کرنے والا بیمار کے پاس زیادہ دیر نہ بیٹھے جس سے بیمارکو زحمت ہو۔ملا علی قاریؒ نے بعض حضرات سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ ہم مشہور صوفی بزرگ سری سقطیؒ کی عیادت کو گئے اور دیر تک بیٹھے رہے ۔وہ پیٹ کے درد سے بے چین ہورہے تھے اور ہم اٹھتے نہ تھے تو، بالآخر ہم نے ان سے کہا کہ: "ہمارے لئے دعا فرمایئے تو ہم چلیں۔”اس پر حضرت سری سقطیؒ نے دعا فرمائی کہ’ یا اللّٰہ انہیں بیماروں کی عیادت کا طریقہ سکھا دیجئے ‘۔
(ج)عیادت صرف اللہ کی رضاء کیلئے کرنا: عیادت بلکہ ہر عمل کا طریقہ یہ ہے کہ اُس کو صرف اللہ کی رضا کیلئے کیا جائے ،نفسانی اغراض اور دنیاوی مصالح یا نام و نمود اور دکھلاوا ہر گز پیش نظر نہیں رکھنا چاہیئے ؛کیونکہ یہ عمل کو ضائع کرنے کے مترادف ہے ۔نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے :اللہ تعالیٰ اُس پر رحم فرمائے جو صبح کی نماز پڑھ کر اللہ کی رضاء و خوشنودی اور آخرت کے (بہترین انجام اور ثواب)کے حصول کیلئے کسی مریض کی عیادت کرنے کیلئے جائے تو اللہ تعالیٰ اُس کیلئے ہر قدم کے بدلے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں،ایک گناہ معاف کردیتے ہیں اور جب وہ مریض کے پاس بیٹھتا ہے تو اجر و ثواب (کے سمندر)میں غرق ہوجاتا ہے ۔(شعب الایمان)
(د)مریض کو اُس کی پسندیدہ غذا کھلانا،جبکہ اُس کے لئے وہ نقصان دہ نہ ہو: بیماری کی حالت میں منہ کا ذائقہ عموماً بدل جاتا ہے اور بعض اوقات اِسی کیفیت میں مریض کا دل کسی خاص چیز کے کھانے کا کررہا ہوتا ہے ،ایسے میں دیکھنا چاہیئے کہ اگر وہ وہ چیز مریض کیلئے نقصان دہ نہ ہو اور معالج کی طرف سے اُس کا پرہیز نہ بتایا گیا ہو تو مریض کو منع نہیں کرنا چاہیے ،بلکہ کوشش کرکے کہیں سے بھی اُسے حاصل کرکے مریض کو کھلانا چاہیے ،نبی کریمﷺنے اِس کی تعلیم دی ہے :حضرت سلمان نبی کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : جس نے مریض کو وہ چیز کھلائی جس کی اُسے خواہش تھی ،اللہ تعالیٰ اُسے جنّت کے پھل کھلائیں گے ۔(طبرانی کبیر)
حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے کسی شخص کی عیادت کی ،آپ نے اُس سے پوچھا کہ تمہیں کس چیز کی خواہش ہے ؟ اُس سے کہا میں گندم کی روٹی کھانا چاہتا ہوں،آپﷺنے لوگوں سے اِرشاد فرمایا:جس کے پاس گندم کی روٹی ہو اُسے چاہیے کہ اپنے بھائی کے لئے بھیج دے ،پھر آپﷺنے فرمایا: جب تم میں سے کسی کا مریض کسی چیز کے کھانے کی خواہش کرے تو اُسے کھلادینا چاہیئے ۔(ابن ماجہ)
صحابہ کا ذوق عیادت :
ہر وہ شخص جوکبھی بیماری اور پریشانی سے دوچار ہو اہووہ یہ بات بہ خوبی جانتا ہے کہ مریض ہمیشہ اس بات کا طلب گار رہتا ہے کہ اس کی دلجوئی کی جائے ، کوئی ہو جو اس کے پاس آ کر بیٹھے ، اس سے باتیں کرے ، اس کا حال پوچھے ، اس کی تیمار داری کرے ۔ سیدنا قیس بن سعد بن عبادہؓ بڑے مشہور صحابی ہیں، ان کا گھرانہ بڑا سخی تھا، اللہ نے انہیں خوب نوازاتھا۔ بنو خزرج کے اس سردارابن سردار سے بہت سے لوگ قرض لے جاتے تھے ۔ ضرورتمند لوگ قرض لے تو لیتے ہیں؛ مگر اس کی واپسی اتنی آسان نہیں ہوتی ۔ ایک مرتبہ قیس بیمار ہو گئے ۔ اب وہ اس انتظار میں ہیں کہ لوگ ان کی تیمار داری کے لیے آئیں؛مگر بنو خزرج کے اس سردار کا گھر مہمانوں سے خالی ہے ۔ بیوی سے پوچھا: میں بیمار ہوں۔ کیا وجہ ہے کہ لوگ میری تیمار داری کے لیے نہیں آئے ؟!بیوی کہنے لگی: آپ کو معلوم ہے کہ مدینہ کے اکثر لوگوں نے آپ سے قرض لے رکھا ہے ، ان کے وعدے گزر چکے ہیں مگر وہ قرض واپس نہیں کر سکے ۔ وہ آپ سے شرمندہ ہیں اور آپ کا سامنا کرنے سے کترارہے ہیں۔قیس کہنے لگے : اچھا! تو یہ بات ہے کہ لوگ قرض واپس نہ کرسکنے کی وجہ سے میری تیمار داری کے لیے نہیں آئے ۔ کہنے لگے : برا ہو ایسے مال کا! جو لوگوں کو میری تیمار داری سے روک رہا ہے ۔ منادی کرنے والے کو بلایا۔ اس سے کہا: جاؤ !مدینہ کے بازاروں میں اعلان کر دو کہ جو کوئی قیس بن سعد کا مقروض ہے ، قیس کی طرف سے اعلان ہے کہ ا س کا قرض معاف کیا جا تا ہے ۔اعلان کرنے کی دیر تھی کہ لوگ اتنی کثرت سے ان کے گھر تیمار داری کیلئے آتے گئے کہ گھر کے دروازے کی دہلیز ٹوٹنے کے قریب ہوگئی۔
اسی طرح ایک دن اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: تم میں سے کون ایسا شخص ہے جس نے آج روزہ رکھا ہوا ہے ؟ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! میں نے آج روزہ رکھا ہوا ہے ۔آپﷺنے پوچھا :آج تم میں سے کس نے کسی مسلمان بھائی کا جنازہ پڑھا ہے ؟سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! میں نے جنازہ پڑھا ہے ۔ارشاد ہوا : آج تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے ؟ ابوبکر صدیقؓ عرض کرنے لگے : اللہ کے رسولﷺ! میں نے آج مسکین کو کھانا کھلایا ہے ۔ آپﷺنے پوچھا کہ آج تم میں سے کس نے مریض کی عیادت کی ہے ؟ ابوبکر صدیقؓ عرض کرتے ہیں: اللہ کے رسولﷺ!میں نے آج مریض کی عیادت کی ہے ۔ آپ ﷺ اپنی زبان اقدس سے یہ الفاظ ارشاد فرماتے ہیں: جس شخص میں یہ ساری خوبیاں جمع ہوجائیں وہ یقیناًجنت میں جائے گا۔(رواہ مسلم)۔
ذرا غور کیجیے ! ان خوبیوں میں سوائے روزے کے باقی ساری خوبیاں اخلاق حسنہ اور دوسروں سے حسن سلوک کی نشان دہی کرتی ہیں۔
ہماری حالت زار:
آج کل ہمارے معاشرہ میں جملہ معاشرتی حقوق ایک رسم بن کے رہ گئے ہیں۔ اگر کوئی بیمار ہوجائے تو ا س کی عیادت کے لیے جانا بھی دردسر سمجھاجاتا ہے اور یوں کہاجاتاہے کہ”فلاں کو دیکھنے بھی جانا ہے ، دو دن ہوگئے وہ بیمار ہے ، وہ کہے گا کہ میں اس کو دیکھنے بھی نہیں آیا”۔ مریض کی عیادت کو نیک کام نہیں؛بلکہ ایک بوجھ سمجھ کر کیا جاتا ہے ،حالاں کہ یہ ایک انسانی حق ہے اس کی ادائیگی میں ایثار اور خندہ پیشانی کا مظاہرہ ہونا چاہیے ۔آج اجتماعی اور انفرادی دونوں طریقوں سے تیمارداری کی اس سنت کو زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔قابل مبارک باد ہے وہ دینی اور رفاہی تنظیمیں جو اس حوالے سے سرگرم عمل ہیں؛مگر ان ہی پر اکتفا کرنا ٹھیک نہیں؛ بل کہ حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اسلام کا پیغام انسانیت لوگوں تک پہونچانا ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔اللہ پاک ہمیں اس عظیم عبادت میں حصہ لیتے رہنے اور بہ قدر وسعت اس کو وقتاً فوقتاً انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
قومی اردو کونسل اور گاندھی بھون کے اشتراک سے منعقدہ دو روزہ قومی سمینار کے اختتامی اجلاس میں مقررین کا خطاب
نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی اور گاندھی بھون کے اشتراک سے منعقدہ دو روزہ سمینار بعنوان ‘مہاتما گاندھی اور نظریہ قومی زبان” کے دوسرے دن ملک کی مختلف یونیورسٹیوں اور اداروں سے آئے ہوئے ماہرین، پروفیسران اور دانشوران نے اپنے گراں قدر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان کی ترقی و بہبود اور عوام کو جوڑنے کے لیے رابطے کی ایک زبان پر زور دیا۔اختتامی اجلاس میں پروفیسر گریشور مشر نے کہا کہ زبان ملک کی پہچان اور وجود کا اٹوٹ حصہ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہندی عوامی زبان ہے اسی لیے گاندھی جی نے سوچا کہ ہندی کے ذریعے ہم پورے ملک سے جڑ سکتے ہیں اور جوڑ بھی سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہندوستان کی تمام زبانیں قومی زبان کا درجہ رکھتی ہیں۔ پروفیسر گنگا پرساد ومل نے گاندھیائی نظریے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی زبانو ں کو جانے بغیر ہندی بھی ادھوری ہے۔ گاندھی جی نے ہندوستانی زبان کی بھرپور وکالت کی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پورے ملک کو لسانی سطح پر جوڑنا چاہتے تھے۔
اس موقعے پر قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے تمام مہمانان اور گاندھی بھون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دو دنوں کے اس سمینار میں گاندھی جی کے نظریات اور قومی زبان کے حوالے سے بہت ساری اہم باتیں اور اہم نکات سامنے آئے اور یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ ہمیں اردو کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تمام علاقائی زبانوں کے فروغ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اختتامی اجلاس سے قبل کے سیشن میں بھی مختلف دانشوروں نے مہاتما گاندھی اور نظریہ قومی زبان کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس موضوع کے حوالے سے اہم جہتوں پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر چاند کرن سلوجہ نے کہا کہ ہمارے یہاں علاقائی زبانوں میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جنھیں پڑھ کر آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ ہم تلسی داس، رابندرناتھ ٹیگور جیسے لوگوں کو پیدا نہیں کرسکتے مگر آنے والی نسلوں میں ایسی صلاحیتیں ضرور پیدا کرسکتے ہیں کہ وہ تلسی داس اور ٹیگو ربن سکیں۔ ڈاکٹر ظہیر حسن نے کہا کہ گاندھی جی کے لیے انگریزی ابتدائی دور میں ضروری تھی۔ اس لیے کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انگریزی میں ہر قسم کا مواد موجود ہے لیکن گاندھی جی اس سچائی کو سمجھتے تھے کہ ہندوستان کی تمام زبانوں کے فروغ کے بعد ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ پروفیسر اختر حسنین نے کہا کہ آج کے ہندوستان میں گاندھی جی خیالات پر عمل کرنا ناگزیر ہے تاکہ تمام ہندوستانی متحد رہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ قوموں کو جوڑنے کے لیے گاندھی جی نے عوامی زبان کی وکالت کی اور یہ عوامی زبان کوئی اور نہیں ہندوستانی زبان ہی تھی۔
شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ابن کنول نے پہلے سیشن کے صدارتی خطاب میں زبان کو سہل بنانے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ رابطے کے لیے مشکل الفاظ سے گریز کرنا چاہیے اور اپنی مادری زبان کو ترجیح دینی چاہیے۔اس سیشن میں ڈاکٹر مظفر حسین سید، پروفیسر گوپیشور سنگھ، ڈاکٹر مکیش اور پرمود سینی وغیرہ نے اظہارِ خیال کیا۔دوسرے سیشن میں سندھی کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر روی ٹیک چندانی نے کہا کہ ہندوستان کی زبانو ں کے ذریعے بھی روزگار حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہندی اردو اور سندھی سرحدوں سے آزاد ہیں توپنجابی، ملیالم اور دوسری زبانیں بھی سرحدوں سے آزاد ہوسکتی ہیں۔ سینئر صحافی زین شمسی نے کہا کہ کوئی بھی ملک اپنی مادری زبان میں ہی ترقی کرسکتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اردو سے اس کا رسم الخط چھین لیا جائے تو اردو زبان ختم ہوجائے گی۔ محترمہ اسمتا جھا نے کہا کہ گاندھی جی کا خواب تھا کہ ہندی کو قومی زبان بنانا۔ لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام زبانوں کا احترام کیا جائے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تشریف لائے پروفیسر عبدالعلیم نے کہا کہ جو خواب گاندھی جی نے قومی زبان کے حوالے سے اس وقت دیکھا تھا وہ موجودہ دور حکومت میں شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تمام زبانوں کے لیے ایک رسم الخط طے کرنا ہوگا۔ ا س کے علاوہ دیگر شرکا نے بھی اس موقعے پر اظہارِخیال کیا۔دو دن کے تمام اجلاسوں کی نظامت کے فرائض گاندھی بھون دہلی یونیورسٹی کے ڈائرکٹر پروفیسر رمیش بھاردواج نے بحسن و خوبی انجام دیے۔