حافظ عبدالسلام ندوی
( مظفر پور، بہار)
فن سیرت میں جن مورخین اور سیرت نگاروں کو صف اول میں جگہ حاصل ہے ان میں محمد بن عمر الواقدی ؔ رحمہ اللہ کا نام سب سے نمایاں اور روشن ہے،یہ وہ شخصیت ہے جس نے مغازی پر ساری معلومات جمع کرکے ہمارے سامنے اسطرح پیش کردی کہ آج تمام غزوات اور عہد نبوی کی فوجی مہمات اسطرح ہمارے سامنے ہے جیسے کسی کے سامنے فلم دکھا دی گئی ہو ،اس سے آگے بڑھ کر اگر یہ کہا جائے کہ مغازی سے متعلق تمام روایات کو یکجا کرکے ایک مرتب نقشہ کی شکل میں پیش کرنیکا کام جن عظیم بزرگ نے سب سے پہلے کیا ہے وہ ابن عمر الواقدی ہیں تو بیجا نہیں ہوگاـ
ولادت باسعادت اور ابتدائی تعلیم:
واقدی کی ولادت باسعادت عہد نبوی کے مذہبی وسیاسی مرکز مدینہ منورہ میں ۱۳۰ھ میں ہوئی ،یہ وہ دور تھا جب بنو امیہ کی حکومت اپنے زوال کے انتہاں کو پہنچ چکی تھی اور آل عباس عالم اسلام کی قیادت کا باگ ڈور سنبھالنے کے لئے مستعد تھے،جسکا اثر تھا کہ برسوں سے چلی آرہی سیاسی ہلچل مدھم پرگئی تھی اور عالم اسلام کو عرصہ کے بعد ایک سیاسی استقرار نصاب ہوا تھا، چناچہ علم وعرفاں کے شیدائی دنیا کے گوشہ گوشہ سے عقیدت کیشانہ مدینہ منورہ کا رخ کر رہے تھے،جو کہ اس دور میں اجلۂ صحابہ کرام کی اولاد ،ارکان بیت نبوت اور حفاظ سنت وجملہء علوم نبویہ سے مملوء تھا ،چنانچہ واقدی نے ان علمی سرچشموں سے خوب کسب فیض کیا اور حجاز کے تمام اساطین علم وفن کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا،بعد ازاں واقدی نے مالی خسارہ کیوجہ سے بغداد کا بھی سفر کیا جو عہداوائل بنوعباسیہ میں مختلف علوم وفنون کے مرکز کی حیثیت رکھتاتھا،چنانچہ اس سفر نے انکی علمی عظمت واجلال میں چار چاند لگا دیااور پھر منصہ شہود پر ایک ایسامورخ آیاجسکی شخصیت پر روشنی ڈالنے کی درخواست جب بصرہ کے حافظ الحدیث ابو عامر العقدی سے کی گئی تو انہوں فرمایا کہ واقدی کی شخصیت کے بارے میں ہم سے پوچھا جارہا ہے حالانکہ واقدی سے ہم محدثین کے حالات دریافت کئے جاتے تھے انکا تو معاملہ یہ تھا کہ مدینہ کے تمام شیوخ اور ذخیرہ احادیث سے انکے سوا ہمیں کوئی مستفید نہیں کرتا تھا ،اور یہی درخواست مشہور محدث دراوردی کے سامنے پیش کی گئی تو جیسا کہ خطیب بغدادی نے ذکر کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ تم مجھ سے واقدی کے بارے میں پوچھتے ہو حالانکہ واقدی سے ہمارے حالات دریافت کروـ
تاریخ سے دلچسپی اورتدوین سیرت کیلئے تگ ودو:
ابن عمر الواقدی رحمہ اللہ کا رجحان ابتدا ہی سے تاریخ کی طرف تھا اور غالبا یہ ذوق انہیں کابراعن کابرحاصل ہوا تھا اسکے علا وہ حدیث اور فقہ کی تعلیم انہوں نے اس عہد کے جیدترین علما اور اصحا ب مشیخت سے حاصل کی تھی جس سے انکی استنادی حیثیت اس قدر قوی ہوگئی تھی کہ مشہور ماہر انساب اور حواری رسول ﷺ حضرت زبیرؓ بن عوام کے گھرانہ کے عظیم شہرت یافتہ محدث مصعب زبیری رحمہ اللہ فرمایاکرتے تھے کہ ’’خدا کی قسم ہم نے انکے مثل کسی کو نہیں دیکھا‘‘ـ
واقدی کے حصول علم کا ایک نایاب طریقہ یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ کے خاندانوں میں جاکر ایسے شخص کے بارے میں دریافت کرتے تھے جو مغازی کا علم رکھتا ہو پھر اس سے جاکر ملتے اور واقعات کی تفصیلات پوچھتے ،غزوہ کے موقع پر جاکر اس جگہ کا خود مطالعہ اور مشاہدہ کرتے تھے،اسطرح مغازی سے متعلق جغرافیائی چیزوں کو بھی ضبط تحریر میں لاتے اور اس جگہ کا مکمل نقشہ پیش کرتے ،اس چیز نے واقدی کو انکے ہم عصر محدثین اور سیرت نگاروں کے درمیان ایک نمایاں اور ممتاز مقام عطا کر دیاتھا۔
واقدی محدثین کی عدالت میں:
لیکن ان سب کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ واقدی کی شخصیت علماجرح وتعدیل کے درمیان کافی متنازع فیہ رہی ہے ،محدثین کی ایک جماعت ایسی بھی ہے جو انہیں ضعیف گردانتی ہے،بلکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تو فرمایا کرتے تھے کہ واقدی حدیثیں الٹ پھیر کر بیان کرتے ہیں،در اصل امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جن کا شمار محتاط محدثین میں ہوتاتھانے صرف واقدی کو ہی نہیں ضعیف قرار دیا بلکہ ان جیسے وہ تمام مورخین اور ارباب سیرت جو ہر راوی کا الگ الگ بیان نقل کرنے کے بجائے سب راویوں کی معلومات کو یکجا کرکے بیان کرتے تھے وہ انکی نظر میں غیر مستند تھے،اسکی مرکزی وجہ یہ تھی کہ محدثین کیلئے ایسی کتابوں میں یہ تعین کرنا دشوار ہوجاتا تھا کہ اس پوری روایت بلکہ قصہ یا مجموعہء روایت میں کون سا لفظ کس راوی نے بیان کیا ہے،لیکن واقدی نے خود اپنے اس طریقہ تصنیف کی وجہ یہ بتائی کہ اس سے واقعات کا تسلسل اور مرتب و مربوط انداز قائم رہتا ہےـ
اکابرمحدثین جن میں امام نسائی ،شافعی ،احمد بن حنبل ،علی بن المدینی ،اسحاق بن راہویہ ودیگر کا نام نامی شامل ہے کی ان تحفظات کے باوجود علماوصلحاء امت کی ایک بڑی جماعت نے واقدی کو عادل ،مستند اور ثقہ قرار دیا ہے ،اس فہرست میں امام صغانی ،محمد ذہلی ،مصعب زبیری ،یزید بن ہارون ،ابراہیم الحربی ،القاسم بن سلام،ودیگر کا نام قابل ذکر ہے،بلکہ امام ذہلی تو قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر واقدی ہمارے نزدیک مستند نہ ہوتے تو ائمہ اربعہ ان سے کبھی حدیثیں بیان نہ کرتے ،البتہ اسکی صفائی دینا دشوار ہے کہ بعض تاریخوں کے بارے میں واقدی کی تحقیق نظرثانی کی محتاج ہےـ
کتاب المغازی کی تصنیف اور اسکی اہم خصوصیات
واقدی نے بہت ساری قابل قدر تصنیفات چھوڑی ہیں،ابن ندیم نے الفہرست میں واقدی کی ۲۷ تصنیفات کا ذکر کیا ہے،البتہ ان سب میں کتاب المغازی کو واقدی کی شہرت کا سنگ بنیاد ماناجاتاہے،اس کتاب کو واقدی نے جس جانفشانی اور عقیدت ومحبت کے ساتھ جمع کیا ہے وہ اس کے حرف حرف سے عیاں ہے ،اس کتاب کے ابتدائی دس صفحات میں واقدی نے پہلے تمام غزوات کا ایک خلاصہ پیش کیا ہے،اس میں ۲۷ غزوات اور ۴۷ سرایاکا ذکر ہے،غزوہ بدر کا بیان اس کتاب کے ۱۵۳ صفحات پر مبسوط ہے جوکہ سیرت کی کسی بھی کتاب سے زیادہ مفصل ہے،اسکے علاوہ اس کتاب کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے غزوات وسیر پر فقہی آرا پیش کی ہے،وہ خود حدیث کے بڑے عالم تھے اور اختلاف حدیث پر کتاب بھی لکھی ہے،انکے تلامذہ خاص میں سب سے زیادہ شہرت حاصل کرنے والے مشہور محدث ،مورخ اور کتاب الطبقات کے مصنف ابن سعدرحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ واقدی مغازی سیرت ،فتوحات ،احکام اور علماء کے اجماعی واختلافی مسائل کے بڑے عالم تھے۔
واقدی کی سیرت اس اعتبار سے بھی قابل قدر ہے کہ اس میں عہد نبوی کے بین الاقوامی تعلقات کی نوعیت کا مفصل ذکر ہے،اس موضوع پر واقدی کی ایک مستقل تصنیف بھی ہے جو آج ہمارے پاس دستیاب ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی ضخیم تصنیف کتاب الام کی چوتھی جلد میں سیر الواقدی کے نام سے اس کو محفوظ کرلیا ہےـ
کتاب المغازی کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ واقدی نے ضمنا بہت ساری ایسی معلومات جمع کردی ہے جس سے اس عہد کے مدینہ منورہ کی عام معاشرتی زندگی اور ثقافتی امور پر روشنی پڑتی ہے،مثال کے طور پر اس دور میں قافلے اور تجارتی کاروان کیسے جایا کرتے تھے،مدینہ منورہ میں زراعت کا نظام کیسا تھا،کون کس زمین کا مالک تھا،زمین میں کیا کاشت ہوتاتھا،یہودیوں کے پاس کون سی زمینیں تھیں،کن کن قبائل کے ساتھ کون کون سے قبائل کی تجارت تھی وغیرہ ۔یہ معلومات اگرچہ کوئی خاص دینی اہمیت نہیں رکھتیں لیکن تاریخی دلچسپی کے پیش نظر واقدی نے ان کوبھی محفوظ کردیا ہے،
کتاب المغازی ایشیاٹک سوسائٹی بنگال میں ۱۸۵۵ء میں چھپی تھی،اس کتاب کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے ہیں ،اردو میں بھی اسکا ترجمہ شائع شدہ ہے۔
وفات پر ملال
واقدی کی تاریخ وفات کے سلسلہ میں کئی سارے اقوال مذکور ہے،ابن خلکان نے ذکر کیاہے کہ انکی وفات ۲۰۶ھ میں ہوئی ہے،جبکہ ابن سعد نے ۲۰۷ھ کا ذکرکیاہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ واقدی کی وفات بغداد میں سہ شنبہ کی شب ذی الحجہ کی گیارہویں تاریخ ۲۰۷ھ میں ہوئی ،اورسہ شنبہ کے دن میں مقام خیزران میں انکی تدفین عمل میں آئی ۔ ابن سعد کی یہ رائے ابن قتیبہ ،ابن ندیم ،سمعانی اور ابن عساکر کی رائے کی بھی موافقت کرتی ہے لہذا اسی کو راجح قول مانا گیا ہے۔
17 اکتوبر, 2018
نئی دہلی۔17؍اکتوبر(پریس ریلیز)
اردو اکادمی، دہلی کی گورننگ کونسل کی تشکیلِ نو دوسال کے لیے عمل میں آ گئی ہے جس کے وائس چیئرمین کی ذمہ داری اکادمی کے چیئرمین اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروندکیجروال نے پروفیسرشہپر رسول کے سپرد کی ہے۔ پروفیسرشہپررسول، جیساکہ اردو دنیا کو معلوم ہے کہ ایک معروف شاعر ،ادیب اور نقاد ہیں اور اردو کے سینئر استاد کی حیثیت سے ملک اور بیرونِ ملک میں اردو ادب و ثقافت کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔پروفیسر وجیہ الدین (شہپررسول)17؍اکتوبر 1956 کو اترپردیش کے ضلع امروہہ، قصبہ بچھرایوں میں پید ہوئے۔ انھوں نے اعلیٰ تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری جامعہ ملیہ اسلامیہ سے حاصل کی۔ پروفیسر شہپر رسول کی شناخت ماہرِ تعلیم، شاعر اور نقاد کی حیثیت سے ہوتی ہے۔ وہ اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں صدر شعبۂ اردو کی کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ’’ صدف سمندر‘‘، ’’سخن سراب‘‘، ’’اردو غزل میں پیکرتراشی: آزادی کے بعد‘‘،’’چشمِ دروں‘‘، ’’ نقش و رنگ‘‘، ’’پیمانۂ صفات‘‘،وغیرہ شامل ہیں جو اردو ادب میں قبولیت کا درجہ درکھتی ہیں۔ ان کی متعدد کتابوں پر اتر پردیش اردو اکادمی، مغربی بنگال اردو اکادمی اور اردو اکادمی، دہلی کی جانب سے انعامات مل چکے ہیں۔
جہاں تک دیگر ممبرانِ اکادمی کا تعلق ہے حسبِ ذیل سرکاری افسران کو بلحاظ منصب اکادمی کا ممبر نامزد کیا گیا ہے:
۱۔ پرنسپل سکریٹری (مالیات) دلّی سرکار
۲۔ سکریٹری ( فن ، ثقافت و السنہ) دلّی سرکار
اس کے علاوہ وزیرِ اعلیٰ نے جن مشاہیرِ اردو کو اکادمی کا ممبر نامزد کیا ہے ان کے اسمائے گرامی حسبِ ذیل ہیں:
۱۔ محترمہ اپرنا پانڈے
۲۔ ڈاکٹر شمیم احمد
۳۔ ڈاکٹر وسیم راشد
۴۔ جناب ایف۔ آئی ۔ اسماعیلی
۵۔ جناب فرحان بیگ
۶۔ جناب فریدالحق وارثی
۷۔ جناب فیروز احمد
۸۔ جناب عنایت اللہ
۹۔ جناب ارتضیٰ قریشی
۰۱۔ جناب ایم۔ ودود ساجد
۱۱۔ جناب محمد صلاح الدین
۲۱۔ جناب محمد نوشاد علی
۳۱۔ محترمہ کامنا پرساد
۴۱۔ جناب نشیط شادانی
۵۱۔ محترمہ نور ظہیر
۶۱۔ محترمہ رعنا صفوی
۷۱۔ محترمہ سعدیہ سید
۸۱۔ جناب ریاضت اللہ خاں
۹۱۔ جناب صابرعلی
۰۲۔ جناب شیراز حسین عثمانی
۱۲۔ جناب سہیل انجم
۲۲۔ سکریٹری اردو اکادمی، دہلی
اسلامک سینٹر، مدینہ کالونی ،فیروزآباد
آج 17 اکتوبر ہے، پوری دنیا میں علیگ برادری اور سر سید سے عقیدت و تعلق رکھنے والے افراد سر سید ڈے کی مبارکباد دے رہے ہیں اور مختلف جگہوں پر پروگرام منعقد ہو رہے ہیں،ان سب چیزوں کی شرعی اور دینی حیثیت کیاہے، اُس سے ہر ایک بخوبی واقف ہے، مجھے ایک دوسرے پہلو پر کچھ روشنی ڈالنی ہے۔سر سید ڈے پر مختلف مضامین پڑھنے کا اتفاق ہوا، مگر حیرت ہوئی کہ اکثر مضامین کا رُخ یہ تھا کہ سر سید کے دور میں صرف ایک وہی انسان تھے، جو قوم کے مخلص تھے، باقی یا تو دقیانوس قسم کے مولوی تھے ،جن کی سوچ و فکر بڑی تنگ تھی یا پھر ہر معاملے سے بے خبر افراد تھے۔ایک اکیلے سر سید تھے ،جو قوم کی فلاح و ترقی کے لیے تڑپ رہے تھے،میرے خیال میں کوئی بھی سمجھدار آدمی اس بات سے اتفاق نہیں کرے گا اور سچی بات یہ ہے کہ ایسی بات کہنا تو خود سر سید پر ایک الزام ہے؛کیونکہ ایسا کوئی دعوٰی تو میرے علم کے مطابق کبھی سر سید نے بھی نہیں کیا اور جس نے بھی سر سید کی تحریریں پڑھی ہیں ،وہ بخوبی جانتا ہے کہ سر سید اپنے وقت کے کبار علما بالخصوص حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی کے بڑے قدردان تھے اور دینی امور میں وہ اُن سے ہی مشورہ طلب کرتے تھے، مولانا نانوتوی کے سانحۂ وفات پر سر سید نے جو مضمون لکھا تھا ،وہ مولانا کے تعلق سے ان کے احترام اور رواداری کا بہترین نمونہ ہے،کوئی شک نہیں کہ بہت سے معاملوں میں باہمی اختلاف کے باوجود جس تعلق اور ادب کا مظاہرہ سر سید نے کیا، وہ قابل رشک ہے۔
بہت سے مضامین اور انکا منفی رُخ ہی دراصل اِس تحریر کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنا ہے۔
اب آئیے اس تمہید کی روشنی میں ذرا اس پہلو پر غور کریں:جس وقت بھارت انگریزی طاقتوں کے پنجوں میں جکڑا ہوا تھا، اُس وقت ہمارے اسلاف نے بالخصوص علماے کرام نے طویل عرصے تک عسکری میدان میں انگریزوں کا مقابلہ کیا، مگر کچھ عرصے کے بعد ان کا یہ احساس پختہ ہو گیا کہ ایسا لگتا ہے کہ ابھی عسکری فتح شاید مقدر نہیں ہے اور اُسی وقت اُن کو اس خطرے کا بھی شدت سے احساس ہو گیا کہ انگریز صرف عسکری میدان میں نہیں ؛بلکہ تعلیمی، ثقافتی، فکری ہر میدان میں ہم کو شکست دینے کے لیے پوری قوت کے ساتھ کام کر رہے ہیں،اس بات نے علماے کرام و دیگر ہمدردانِ قوم کی راتوں کی نیند اڑا دی۔
اُس وقت تک تعلیمی میدان میں یہ ثنویت نہیں تھی،ایک ہی ادارے سے علم شریعت اور علم کائنات پڑھنے والے حضرات نکل رہے تھے، ایسی نازک صورت حال میں علماے کرام کی جماعت نے بالخصوص مولانا محمد قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ نے حالتِ اضطراری کے طور پر یہ طے فرمایا کہ فی الحال ہم اپنے اُس علمی سرمایے کی حفاظت کا کام اپنے سر لے لیتے ہیں ،جس کا تعلق براہِ راست قرآن مجید، احادیثِ مبارکہ، فقہ اسلامی اور ان کے متعلقات سے ہے (حالانکہ اس وقت بھی حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ نے بہت سے عصری اور سائنسی علوم اپنے نصاب میں شامل فرمائے تھے، جیسے سنسکرت، حساب،ہیئت وغیرہ)اور اسی بنیاد پر دار العلوم دیوبند کی اور اُس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں مدارس اسلامیہ کی بنیاد ڈاکی گئی اور علما کی اس جماعت نے اپنا ہدف اور مقصد یہ متعین کیا کہ ہم کو دینِ متین کی صحیح رہنمائی کرنے والے افراد ملتے رہیں اور علمی سرمایے کی پوری حفاظت ہو، ٹھیک اسی زمانے میں سر سید احمد خان مرحوم پورے درد و کرب کے ساتھ مسلم قوم کی شکست کے اسباب تلاش رہے تھے، کافی غور و فکر کے بعد سر سید اس نتیجے پر پہنچے کہ امتِ مسلمہ کی تنزلی کا ایک بنیادی سبب مسلمانوں کا عصری علوم کے میدان میں پیچھے رہنا ہے، مزیر سر سید کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ ابھی انگریزوں کو عروج مل رہا ہے اور شاید طویل عرصے تک یہ عروج باقی رہے گا؛ لہذا عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ انگریزوں کے ساتھ تعلیم اور ثقافت کے میدان میں کاندھے سے کاندھا ملایا جائے اور اس دوری کو ذرا کم کیا جائے،اسی بنیاد پر سر سید احمد خان نے پوری ہمدردی اور خلوص کے ساتھ علی گڑھ میں مسلم اسکول کی بنیاد ڈالی۔ درمیان میں یہ بات بھی ذکر کرتا چلوں کہ سر سید کوئی انگریزوں کے ایجنٹ یا اسلام مخالف طاقتوں کے پروردہ نہیں تھے، وہ قومِ مسلم کے بہت ہمدردر اور خیر خواہ تھے اور اُن کی یہ فکر اسی ہمدردی کی وجہ سے تھی؛لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مادی ترقی کی فکر ان پر کچھ اس قدر حاوی ہوئی کہ ان کے مزاج میں عقل پرستی آ گئی اور نیچرزم سے وہ متأثر ہونے لگے،دوسری طرف چونکہ وہ عربی اور دیگر معقولات سے بھی واقف تھے اور بعض مؤرخین کے مطابق انہوں نے باضابطہ دینی تعلیم کو ماہر اساتذہ سے حاصل کیا تھا؛ لہذا اس بنیاد پر وہ علومِ شرعیہ میں بھی اپنے کو رائے دینے کا اہل سمجھتے تھے۔
چنانچہ نیچرزم کے نظریے سے متأثر ہونے کے بعد جب وہ تفسیر قرآن مجید لکھنے بیٹھے یا اسلامی عقائد پر خصوصا مغیبات، جیسے فرشتے، جنت و جہنم کے تعلق سے گفتگو کرنے کے لیے انہوں نے قلم اٹھایا، تو وہ عجیب و غریب قسم کی باتیں لکھ گئے،ظاہر ہے ان تمام باتوں کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے ،مگر جب انسان پر عقل پرستی کا غلبہ ہوتا ہے، تو ان باتوں کی وہ ایسی منگھڑت تاویل کرتا ہے کہ بس اللہ کی پناہ!کچھ ایسا ہی سر سید سے بھی ہوا (اللہ ان کی غلطیوں کو معاف فرما کر اُن پر رحم فرمائے) اور انہوں نے بعض باتیں ایسی سنگین نوعیت کی لکھ دیں کہ اُن پر علما کو سخت نوٹِس لینا پڑااور اگر علما وہ سخت نوٹِس نہ لیتے، تو اللہ تعالی کے یہاں ماخوذ ہوتے،احقاقِ حق اور ابطالِ باطل علما کے فرائض منصبی میں سے ہے،سر سید کی دینِ متین کی تشریح سے متلعق بہت سی تحریرات انتہا درجے کے انحراف پر مبنی ہیں اور اچھی طرح یاد رکھیے کہ علماے کرام نے سر سید پر جو تنقید کی تھی، وہ تنقید اس لیے نہیں تھی کہ سر سید مدرسہ چھوڑ کر کالج بنا رہے تھے؛ بلکہ اس لیے تھی کہ سر سید نیچرزم سے مغلوب ہو کر دین کی تشریح کر رہے تھے ،جس کی وجہ سے انحراف کا دروازہ کھلتا جا رہا تھا،مزید وہ انگریزی کی تعلیم کی دعوت دے رہے تھے ،مگر درحقیقت اس دعوت کے ساتھ ساتھ غیر شعوری طور پر انگریزیت کے عام ہونے کا شدید خطرہ تھا اور اس انگریزیت سے حفاظت کا کوئی منصوبہ بھی سر سید نے پیش نہیں کیا تھا، علماے کرام نے سر سید کو کبھی غیر مخلص نہیں سمجھا ،مگر ان کے ان انحرافات پر تنقید کر کے اپنا دینی فریضہ ادا کیا،یہاں مراد اُس زمانے کے اکابر اہلِ علم اور ان کی راہ پر رہنے والے علما ہیں،باقی پھر جس نے جو کیا ،وہ ہماری مراد نہیں اور ہم ان کی طرف سے ہرگز صفائی بھی نہیں دے رہے ہیں۔
اب اس طرح سے دو حلقوں نے دو کام اپنے ذمے لے لیے، علماے کرام کے حلقے نے تشریعی علوم کی حفاظت اور سر سید اور ان کے نظریے کے حاملین نے علومِ عصریہ کے میدان میں مسلمانوں کی ترقی کی فکریا کسی کہنے والے نے کہا کہ حضرت نانوتوی کو اُس وقت اسلام کی شدید فکر ہوئی اور سر سید مرحوم کو مسلمانوں کی!
اب آئیے ذرا نتیجے پر غور کریں!
آج پورے بر صغیر کے چپے چپے پر مساجد، مدارس، مقررین، مصنفین، دینی کتب خانوں کا جو عظیم ذخیرہ ہے، وہ انہی مدارس کی دین ہے، آج نہایت معمولی تنخواہوں پر کام کرنے کے لیے اگر کوئی جماعت تیار رہتی ہے ،تو وہ ائمہ، علما و مؤذنین کی جماعت ہے، آج ہر جگہ ایسے مخلص، قوم کے ہمدرد علما موجود ہیں، جو بلا کسی مالی منفعت کے اپنے حصے کا کام کرنے کو (اگرچہ وہ مکمل حصہ نہیں ہے) پوری طرح تیار ہیں،یقیناًاس طبقے میں بھی بہت سی کوتاہیاں ہو سکتی ہیں اور ہیں، مگر بہرحال ان صفات میں تو یہ طبقہ لاثانی ہے۔
دوسری طرف یقیناًسر سید کے اسکول اور یونیورسٹی نے لاکھوں ڈاکٹرس، انجینئرس اور ماہر پروفیشلنلز دیے ہیں اور بلا شبہ یہ بھی ایک بڑا کام ہوا ہے، مگر ابتدا میں وہاں سے طلبا جس فکر کے ساتھ نکل رہے تھے، وہ کم از کم اہلِ علم سے تو مخفی نہیں،درمیانی عرصے میں تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کی محنتوں سے وہاں کے طلبا میں کچھ دینی رنگ آیا، مگر آج بھی اُس فکر کے افراد کی اکثریت کا حال دیکھیے،مریض تڑپ رہا ہوتا ہے، مگر ڈاکٹر صاحب بغیر فیس کے نبض پر ہاتھ رکھنے کو بھی تیار نہیں، آپ کسی ماہر مسلم سائنس داں، وکیل، انجینئر، ٹیچر سے بات کریں کہ ذرا چند ہزار روپے پر قوم کی خدمت کے لیے کام کرو،تو اکثر و بیشتر کا جواب نفی میں ہوگا،دوسروں کو مشورے دینے میں پروفیشنل حضرات سب سے آگے ہیں ،مگر اپنی لاکھوں کی تنخواہوں کو لگا کر قوم کے غریب بچوں کے تعلیمی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے ان کے پاس سرمایہ نہیں،مدارس سے نکلنے والے اکثر قناعت پسند، صحیح معنوں میں قوم کے ہمدرد ہیں اور یہاں کے متخرجین اکثر فیوچر کی حفاظت کے لیے فکرمند، قوم کے لیے صرف مشورے رکھنے والے ہیں،بات اکثریت کی ہو رہی ہے، باقی مستثنیات ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور بعض ایسی مثالیں بھی ہیں ،جو بالکل برعکس ہیں۔
اب آخر میں دو باتیں :
ایک بات سر سید کے متعلقین سے،وہ یہ کہ آپ صحیح معنوں میں سر سید کے جانشین بنیں ،ان کی قوم کے لیے ہمدردی کے اعتبار سے، مسلمانوں کے لیے موجود ان کے دل میں درد کے اعتبار سے اور دین کی تشریح میں آپ علماے کرام کو ہی اپنا مقتدیٰ سمجھیں،سر سید کے خوابوں کو اس طرح پورا کریں کہ اپنی تنخواہوں میں سے بچا بچا کر عملی طور پر ایسا کام کریں کہ مسلم قوم؛ بلکہ پورے ملک کو بہترین اسکولس، کالجز، ہاسپٹلز، اچھے وکلا و انجینئرز، بہترین تعلیمی نظام معمولی خرچ اور سہولت کے ساتھ دستیاب ہو سکے،یہ کام آپ کے کرنے کا ہے،صرف جلسہ کرنا اور کوئی عزم اور فیصلہ نہ کرنا سر سید کے مشن سے دھوکہ ہے،ان کے خوابوں کو ادھورا چھوڑنے اور اس سے دغا کرنے کے مترادف ہے۔
دوسری بات میں کہنا چاہوں گا علماے امت سے اور امت کے اُس طبقے سے ،جس نے علومِ شرعیہ کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے،وہ یہ کہ بفضل اللہ تعالی آپ نے اب تک حفاظتِ دین کا کام بحسن و خوبی انجام دیا ہے، آپ نے اپنے اخلاص اور قوم کی سچی ہمدردی کا ثبوت پیش کر کے پوری دنیا کو اپنا معترف کیا ہے؛لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس حصے کو آپ نے لیا ہے، وہ اہم اور بہت اہم یقیناًہے، مگر مکمل ہرگز نہیں ہے،زندگی کے لاکھوں شعبے آپ کی دسترس سے دور ہیں، جن شعبوں میں طاغوتی فکر و نظام حاوی ہوتا جا رہا ہے،مزید خوش اخلاقی، اعلی صلاحیت اور دیگر بہت سی جگہوں پر اب آپ کااور ہمارا معیار بھی باقی نہیں رہا، اس کی بھی اصلاح کی ضرورت ہے،اب وقت آ گیا ہے آپ اسی جذبے اور اخلاص کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں اور پوری ہمت اور حوصلے کے ساتھ زندگی کے ان تمام شعبوں کو بھی اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے مضبوط اور سلفِ صالح کے مزاج سے مربوط کوئی ایسا لائحۂ عمل تیار کریں، جو ایک نئے اور روشن مستقبل کی دریافت کا سبب ہو،کیا ڈاکٹرز اور انجینئرز، کیا وکلا اور پروفیشنلز ؛ہر ایک آپ کی نگرانی میں انہی فکروں سے تیار ہو رہا ہو۔
جس دن ملت کے یہ دونوں طبقے اپنے اپنے کام کو بحسن خوبی انجام دینے لگیں گے، تو ان شاء اللہ بہت جلد منظر نامہ تبدیل ہوگا اور ملتِ اسلامیہ ایک بار پھر سربلند ہو کر عالَم کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لے گی۔ان شاء اللہ