از: مولانامحمد برہان الدین قاسمی
ترجمہ:حفظ الرحمن قاسمی
ہم جنس پرستی کی حمایت میں عدالت عظمی کے فیصلے پر گذشتہ چند دنوں سے ہم مختلف زاویوں سے سوشل میڈیا پرتبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ میرے خیال سے پروفیسر فیضان مصطفی ہندوستانی مسلمانوں کے واحدماہر قانون ہیں جو بطور مسلم دانشور ملک کے لئے اپنی بساط کے مطابق سنجیدہ مباحثوں میں حصہ لیتے رہےہیں۔ ہم ان کی قابلیت کی قدر کرتے ہیں اور دعاگوہیں کہ ان جیسے مزید ماہرین پیدا ہوں۔ گذشتہ برسوں میں این ڈی ٹی وی پررویش کمار کے ساتھ ان کے کچھ مباحث انتہائی موثر اور اطمینان بخش رہے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی ظاہر ہے کہ ہرمعاملے میں کسی فرد سے کلی طور پرمتفق یا غیر متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔
ہم جنس پرستی ہندوستان میں نہ صرف یہ کہ ایک بڑا سماجی مسئلہ ہےبلکہ دنیا کے تمام بڑے مذاہب کے نزدیک یہ ایک مذہبی مسئلہ بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت کی عدالت عظمی اور 2009میں دہلی ہائی کورٹ نے ہم جنس پرستی کی حمایت میں فرد اورضمیرکی آزادی کو بنیاد بنا کر فیصلہ صادرکیا،کیونکہ یہ بنیادی حقوق کا حصہ ہے جو نہ صرف یہ کہ آئین ہند میں موجود ہے بلکہ عالمی پیمانے پر بھی قابل قبول ہے، چنانچہ دستور ہند کی فوجداری دفعہ 377 کی بے معنی ہو جاتے ہے۔ میں نےاپنے 2009 کےاپنے ایک مضمون بعنوان “Rational Approach Towards Same-Sex Union” میں اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو کی ہے جو ایسٹرن کریسینٹ میگزین میں کور اسٹوری کے طورپراوردیگربہت سی جگہوں پر شائع ہوا ہے۔
مجھے ذاتی طور پر اس وقت عدالت عظمی کے اس فیصلے کو ایک خالص مسلم تنظیم کی جانب سےچیلنج کرنے یانہ کرنے کے معاملے پر بحث کرنے میں زیادہ فائدہ نظر نہیں آتا۔بلکہ ہمارے اپنے گھر کےحالات کو درست کرنےکے لئے ہمیں اپنے بچوں کی بہترین مذہبی اور تہذیبی تربیت کی ضرورت ہے ،اس پر توجہ مرکوز ہو تو بہتر ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو فی الحال جس مسئلہ پرسنجیدگی سے غور کرنےکی ضرورت ہے وہ تعدد ازدواج کے تعلق سے عدالت عظمی میں جاری مقدمہ ہے۔ تاہم میں قارئین کی توجہ مستقبل کے کچھ نکات کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا۔
بھارت کی حالیہ صورتحال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آر ایس ایس 1925 میں اپنے قیام سے لے کر آج تک ان 93 برسوں میں کس طرح کام کرتی آرہی ہے اور بھارت کے حوالے سے اس کے عزائم کیا ہیں۔قطع نظراس سے کہ بی جے پی 2019 میں واپس حکومت میں آتی ہے یانہیں سیکولر اقدار کے حامل ایک جمہوری ملک کے طور پر ہندوستان کے لئے اور بحیثیت ہندوستانی شہری تمام اقلیتوں کے لئے آئندہ 15-20 سال بہت ہی نازک ہونے والے ہیں۔ صرف سیاست داں ہی نہیں بلکہ اکثریتی فرقے کے بیشتر افراد کے ذہن میں فرقہ واریت کا زہر گھول دیا گیا ہے۔
کیا اس وقت ہم اپنے اکابرین کے ذریعے قائم کردہ علی گڑھ،جامعہ ملیہ اسلامیہ،اور جامعہ ہمدرد وغیرہ جیسے مسلم دانشگاہوں سے فیض یافتہ مسلم دانشوروں سے کچھ سوالات کر سکتے ہیں؟
1۔ سر سید احمد نے اپنے جس تعلیمی مشن کا خواب سجایا تھا اس کامرکزی نقطہ”ایک ہاتھ میں سائنس اور دوسرے ہاتھ میں قرآن” تھا۔ تو علی گڑھ کے فضلاء کے لئےاب قرآن کہاں ہے ؟
2۔ جب مسلم پرسنل لاء کے متعلق مسائل کی بات آتی ہے تومدارس کے فارغ علماء ہی مباحثے میں کیوں جائیں؟
3۔ جن کے دونوں ہاتھوں میں قرآن اور سائنس کاہتھیار ہے وہ کیوں نہ آگے بڑھ کر قرآن اور سائنس کی مدد سے قوم و ملک کی رہنمائی کریں؟ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیین کے مقاصد کوبھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔
4۔ مسلم دانشوروں نے مسلمانوں کے عائلی مسائل کو کوڈیفائی کرنے کے لئے اب تک کیاکیا ہے اور شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 کے حوالے سے ان کے نزدیک مستقبل کامنصوبہ کیا ہے؟
5۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ تعلیم مسلمانوں کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ شمالی ہندمیں مسلمانوں کی ترقی اور قوم کی فلاح کے لئے تعلیمی میدان میں ان دانشگاہوں کے فارغین کےکیا اور کتنی خدمات ہیں ؟
6۔ اگر مدارس کومین اسٹریم میں لانے کی ضرورت ہے، جوکچھ مخصوص حالات میں درست بھی ہے، لیکن اپنی آئندہ نسل کو کالج اور یونیورسٹیوں کے ماحول میں ایک با عمل مسلمان بنانے اور اپنے مذہب کادفاع کرنے کا اہل بنانے کے لئے ہم نے کیاکیا ہے؟
7۔ جب دہشت گردی کے غلط الزام میں تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کوقید کیا جاتا ہے تو جمعیۃ علما ء جو کہ ایک خالص مذہبی تنظیم ہے، ہی کیوں سامنے آکر ان کا دفاع کرے؟ ان معروف مسلم دانشگاہوں کے فضلاء کی ملکی پیمانے پر ایک قانونی تنظیم کیوں نہیں ہے جو قانونی امداد فراہم کر کے اپنی قوم کے بے گناہ افراد کی مدد کر سکے؟
8۔ میری معلومات کے مطابق جنوبی ہند کی کئی مسلم تنظیمیں ایسی ہیں جو یوپی، بہار اور بھارت کے شمالی حصوںمیں اسکول کی تعلیم کے فروغ کے لئے کام کر ہی ہیں۔ ایسا کیوں؟ شمالی ہند کے مسلم دانشور کہاں ہیں؟
9۔ بھارت کے مسلمانوں کو سیاست، انتظامیہ، عدلیہ،پولس اور مسلح افواج، میڈیا، تجارت اورکھیل میں مناسب نمائندگی کی ضرورت ہے۔ کیا مستقبل میں ایک باعمل مسلمان کی حیثیت سے بھارت میں عزت کے ساتھ زندگی گذارنے کے لئے ان تمام چیزوں کے حوالے سے ہمارے دانشوروں کے پاس کوئی لائحہ عمل ہے؟ اب تک ہمارے عصری تعلیم یافتہ حضرات کی جانب سے کوئی میڈیا ہاوس اور کثیرملکی کارپوریٹ ہاوس کیوں قائم نہیں کیا گیا؟
10۔ مذہب اور علم کے درمیان پیدا شدہ خلاء کومعقول اندازمیں پر کرنے کے لئے کیا ہمارے دانشور جماعت کی جانب سے اب تک کوئی ماڈل پیش کیا گیا ہے؟اگر نہیں، توکیوں؟ پھر ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں سائنس ہونے کا کیامطلب ہے؟ اگر ہاں،توکہاں؟
ان سوالات پرغور کرتے وقت فی الحال علماء،مدارس اور اماموں کو دور رکھا جائے،کیوں کہ ہم بیشتر اوقات ان مسائل کے حل کے لئے ان ہی کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ آئیے کچھ دیر کے لئے ہم مدارس کی نمائندگی کرنے والے 4فیصد لوگوں کو دور رکھیں اور بقیہ 96 فیصد لوگوں کے بارے میں بات کریں۔ آئیے کچھ دیر کے لئےسکے کے دوسرے رخ کے بارے میں بھی بات کریں۔ ہم علماء،مدارس اور مساجد قوم کی کچھ خدمت انجام دے رہے ہیں یانہیں اس پر پھرکبھی بات کرلیں گے۔ یہ سوالات صرف معقول احتساب کے لئے اٹھائے گئے ہیں۔ آئیے ہم خود سے سوال کریں اور اپنے لئے ان کا جواب تلاش کریں۔
مضمونگار مولانا محمد برہان الدین قاسمی مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، ممبئی کے ڈائریکٹر اور ایسٹرن کریسنٹ انگریزی میگزین کے ایڈیٹر ہیں
19 ستمبر, 2018
نایاب حسن
بی جے پی کے فکری و نظریاتی سرپرست آرایس ایس کاان دنوں وگیان بھون ،دہلی میں سہ روزہ لیکچرسیریز کا پروگرام چل رہاہے،اس کا عنوان ہے "Future of Bharat: An RSS perspective”(بھارت کا مستقبل:آرایس ایس کا نظریہ)اس کا مقصد بنیادی طورپر مختلف شعبہ ہاے حیات سے وابستہ لوگوں کو آر ایس ایس سے متعارف کروانا اوراس کے مقاصد و عزائم اور سانچہ و ڈھانچہ سے روشناس کرواناہے؛یہی وجہ ہے کہ اس پروگرام میں بنیادی خطاب سنگھ سربراہ موہن بھاگوت کا ہورہاہے۔قابلِ غور ہے کہ اکثر و بیشتر اپنے متنازعہ خطابات سے میڈیا و عوام کی توجہ کھینچنے والے مسٹر بھاگوت اس مرتبہ غیر متوقع طورپر بڑی سلجھی ہوئی تقریریں کررہے ہیں،اس تقریب کے پہلے دن انھوں نے مودی کے عام نعرے کی صریح مخالفت کرتے ہوئے واضح طورپر کہاکہ ’’ہم لوگ تو یُکت بھارت والے ہیں،مکت بھارت والے نہیں ہیں‘‘،اس سے انھوں نے مودی ’’کانگریس مکت بھارت‘‘کے نعرے کی گویا تردید کی ،اتناہی نہیں،انھوں نے ماقبل آزادی کی جدوجہد پر روشنی ڈالتے ہوئے آزادی کی جنگ میں کانگریس کی جدوجہد کا اعتراف کیااور سراہا،انھوں نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی،یہ بھی کہاکہ جو ہمارے مخالفین ہیں،وہ بھی ہمارے ہیں ،ہمیں ان سے شکتی ملتی ہے،البتہ ہم یہ ضرور دیکھیں گے کہ ان کی مخالفت سے ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچے،انھوں نے کہاکہ سینٹر میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو،اس سے ہمیں کوئی مطلب نہیں،ہمارامیدانِ کار ہندوستانی سماج ہے اوراس میں ہماری محنت ہمیشہ جاری رہے گی۔دوسرے دن کا ان کا خطاب اور بھی دلچسپ ہوااور میڈیامیں اس پر خاصی حیرت کا اظہار کیاجارہاہے،دوسرے دن انھوں نے ستر منٹ تک تقریر کی،جس میں ہندوستانی سماج اور مسائل وغیرہ کے سلسلے میں آرایس ایس کے نقطۂ نظر کی وضاحت کی،اسی ضمن میں انھوں نے ایک بات یہ کہی کہ ہندوستان ایک ہندوراشٹرہے اوراس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے؛بلکہ جس دن ایسا ہواکہ ہندوستان سے مسلمانوں کا خاتمہ ہوگیا،توہندوتواکی کوئی معنویت ہی نہیں رہ جائے گی؛کیوں کہ ہر ایک کو اپنے ساتھ لے کر چلنایہی آرایس ایس کا فلسفہ ہے،ہندوتواکامطلب ہے ایک عالمی خاندان یعنی ساری دنیاایک خاندان ہے،اس تقریر میں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسیداحمد خان کا بھی ذکر کیا،ان کے تعلق سے ایک واقعے کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ جب وہ بیرسٹربنے،توپہلے مسلم بیرسٹر کی حیثیت سے آریہ سماج کی طرف سے ان کے لیے ایک اعزازی پروگرام کا انعقاد کیاگیا،جس میں انھوں نے کہاکہ’’مجھے افسوس ہواکہ آپ نے مجھے اپنوں میں نہیں شمار کیا،کیاہم مادرِ وطن کے سپوت نہیں ہیں؟ارے تاریخ میں ہماراطرزِعبادت ہی توبدلاہے اور کیابدلاہے؟‘‘،بھاگوت نے کہاکہ 1881ء سے پہلے ہندوستانی سماج ایساہی تھا،مگر پھر حالات بدل گئے،اب ہمیں دوبارہ انہی حالات پر لوٹنا ہوگا، انھوں نے یہ بھی کہاکہ اگر کسی کا کہنایہ ہے کہ اسے ہندونہ کہاجائے،بھارتیہ(ہندوستانی)کہاجائے،توٹھیک ہے،ہم آپ کے کہنے کا سمّان کرتے ہیں۔
سرسید کے حوالے سے جو بات بھاگوت نے کہی ہے،اس میں کتنی صداقت ہے اور کس پس منظر میں انھوں نے یہ کہاتھا،اس کی تحقیق سے قطعِ نظران کا جو طرزِ استدلال ہے وہ بڑا دلچسپ ہے،انھوں نے سرسید کے مبینہ واقعے سے یہ نتیجہ اخذکیاہے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے آپ کو ہندوکہلانا پسند نہیں کرتے،البتہ اس ملک کے باشندے ہونے کی حیثیت سے بھارتیہ،یعنی ہندوستانی کہلانا پسند کرتے ہیں(اوریہ حقیقت بھی ہے)تو ٹھیک ہے،ہم آپ کے اس نقطۂ نظر کا احترام کرتے ہیں اور اگرکوئی طبقہ اپنے آپ کوہندونہیں کہلوانا چاہتا،توسنگھ کو کوئی تکلیف نہیں ہے۔جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ بھی صراحت کی کہ مسلمانوں کے بغیر ہندوتوایا ہندوراشٹر کا تصور نہیں کیاجاسکتا،یعنی مسلمان اس ملک کے لیے ناگزیر ہیں۔انھوں نے سماجی تکثیریت،مساوات اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے حوالے سے وہی باتیں کہیں،جو سیکولرجماعتوں کی جانب سے کہی جاتی ہیں۔
آرایس ایس سربراہ کے اس خطاب کا مختلف ناحیوں سے تجزیہ کیاجارہاہے،ایک تجزیہ یہ ہے کہ چوں کہ اس پروگرام میں سنگھ نے ہندوستان ہی نہیں؛بلکہ بیرونِ ہند(جس میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں)کے سرکاری و غیر سرکاری اہل کاروں کو بھی دعوت دی تھی،اسی طرح مدعوحضرات و خواتین میں بہت سے ایسے لوگ تھے،جن کی غیر سنگھی نظریاتی وابستگی واضح ہے،ہندوستانی سنیماکے کئی اہم چہرے اس تقریب میں نظر آئے؛لہذاان سب کے سامنے بھاگوت نے آرایس ایس کی ایک قابلِ قبول شبیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے؛تاکہ جو لوگ آرایس ایس سے متوحش ہیںیا اس سے کٹے کٹے رہتے ہیں،وہ اسے جاننے ،سمجھنے اور اس کے قریب آنے میں دلچسپی لیں۔موہن بھاگوت کے اس بدلے ہوئے لہجے کی ایک اہم وجہ اگلے سال منعقد ہونے والے عام انتخابات کو بھی قرار دیاجارہاہے،حالاں کہ بی جے پی تو اپنے جارحانہ رویے میں کسی قسم کی کمی نہیں کررہی ہے،مودی و شاہ کی جوڑی مسلسل اپناکام کررہی ہے،مگر بھاگوت کی تقریر کچھ اور کہہ رہی ہے،کیاانھوں نے معاملے کو بیلنس کرنے کی کوشش کی ہے؟کیا الیکشن سے پہلے وہ مسلمانوں کے تعلق سے اس قسم کی باتیں کرکے انھیں بی جے پی سے قریب آنے کے اشارے دے رہے ہیں؟کیا آرایس ایس کا یہ پروگرام دراصل بی جے پی کے لیے الیکشن کمپیننگ کا حکیمانہ سر آغاز ہے؟
جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے،توبھلے ہی بھاگوت کا بیان خوش آیندہے،جس کا خیر مقدم ہونا چاہیے اور ہونے بھی لگاہے،مگر زمینی حقائق بہت کچھ الگ ہیں،اگر ہم بھاگوت کے اس خطاب کو نقطۂ تحول مان لیتے ہیں ،توکیایہ بھی مان لیں کہ اب ’’گھر واپسی‘‘کی مہم نہیں چھیڑی جائے گی؟’’لوجہاد‘‘کے ڈرامے بند ہوجائیں گے؟مسلمانوں کو آرایس ایس سے منسلک افراد اور تنظیموں کے ذریعے ہراساں کیے جانے کا سلسلہ بند ہوجائے گا؟اگر بھاگوت کا یہ خطاب واقعی ایک سیاسی گیم ہے،تب توکوئی بات ہی نہیں ؛لیکن اگر حقیقتاً ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں آرایس ایس کانظریہ و طریقۂ کاربدل رہا ہے، توپھر اس نظریے کو زمینی سطح پر اتارنے میں ابھی بہت وقت لگے گا؛کیوں کہ گزشتہ نوے سال کے عرصے میں سنگھ نے اپنے لوگوں میں جس ذہنیت کو پروان چڑھایاہے،وہ محض دوتین تقریروں سے کیسے ختم ہوسکتی ہے؟!
سہیل حلیم
انڈیا کے مسلمان اب ہندو نہیں ہیں اور اگر وہ یہ چاہیں گے کہ انھیں ہندو نہ کہا جائے، تو بھی چلے گا۔ اور ہاں،اگر کسی مسلمان نے تھک کر پاکستان یا کسی دوسرے ملک جانے کے لیے اپنا بستر باندھ لیا ہو، تو براہ کرم اس کو کھول کر گھر میں کہیں بچھا لیں؛کیونکہ آر ایس ایس کا مزاج بدلا بدلا نظر آرہا ہے۔
اب بی جے پی کی نظریاتی سرپرست تنظیم راشٹریہ سوئیم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ ہندو راشٹر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگر مسلمان نہ ہوں گے تو ہندوتوا کا کوئی مطلب باقی نہیں رہ جاتا۔
یہ حیرت انگیز بیان تنظیم کے سربراہ موہن بھاگوت نے دیا ہے، جو آر ایس ایس کے زیر انتظام منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ تقریب کا مقصد آر ایس ایس کے نظریے کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔
آر ایس ایس کا دیرینہ موقف یہ رہا ہے کہ ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص، چاہے وہ کسی بھی مذہب پر عمل کرتا ہو، ہندو ہی ہے؛لیکن اب موہن بھاگوت کا دعوی ہے کہ جو لوگ ہندو نہیں اور خود کو بھارتیہ کہلانا پسند کرتے ہیں، تو ان کے جذبات کا بھی احترام کیا جائے گا۔
بس بات یہیں ختم نہیں ہوئی، موہن بھاگوت نے اپنی تقریر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آریہ سماج برادری نے ‘پہلا مسلمان بیرسٹر’ بننے پر خراج تحسین پیش کرنے کے لیے انھیں ایک تقریب میں مدعو کیا تھا، جہاں سر سید نے کہا کہ ‘مجھے بہت افسوس ہوا کہ آپ نے ہمیں اپنوں میں شمار نہیں کیا، کیا ہم بھارت ماتا کے لعل نہیں ہیں۔۔۔ ہمارا عبادت کا طریقہ بدل گیا، اس کے علاوہ اور کیا بدلا؟’
مجھے نہیں معلوم کہ سر سید نے یہ بات کہی تھی یا نہیں، یا کس سیاق و سباق میں کہی تھی؛لیکن اہم سوال یہ ہے کہ موہن باگھوت کیا پیغام دینا چاہ رہے تھے اور کیوں؟
موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ ہمیں اس جذبے کو واپس لانا ہے، جو وقت کے ساتھ ختم ہوگیا تھا۔ ‘اگر وہ (مسلمان) یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ہندو مت کہو، جیسا کہ ہم کہتے ہیں، ہمیں بھارتیہ کہو،تو ہم اس کا احترام کریں گے۔۔۔ جس دن یہ کہا جائے گا کہ یہاں مسلمان نہیں چاہییں، اس دن ہندوتوا کا تصور بھی ختم ہو جائے گا؛ کیونکہ ہندوتوا کا بنییادی نظریہ ہی یہ ہے کہ پوری دنیا ایک خاندان ہے۔’
تقریب میں بہت سے غیر ملکی سفیر شامل تھے،جنھیں خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ کیا یہ ان کے لیے ایک پیغام تھا؟ یا آئندہ برس کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے لیے جو بی جے پی کے دورِ اقتدار میں خود کو غیر محفوظ محسوس کر تی ہیں۔
کیا آر ایس ایس کا نظریہ بدل رہا ہے یا وہ صرف اپنا ‘پرسپشن’ یا تنظیم کے بارے میں لوگوں کی سوچ بدلنا چاہتی ہے؟ صرف ایک تقریر کی بنیاد پر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا؛ لیکن ماضی میں مسلمانوں کے لیے جو زبان استعمال کی گئی ہے، یہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس میں یہ پیغام مضمر ہے کہ مذہب کی بنیاد پر تفریق کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
لیکن پھر ہندو راشٹر کے خواب کا کیا ہوگا؟ اکھنڈ بھارت؟ تقسیم ہند؟ سوال بہت ہیں۔آر ایس ایس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ دستور ہند کو تبدیل کرنا چاہتی ہے؛ لیکن موہن بھاگوت نے کہا کہ آر ایس ایس آزادی کی تمام علامتوں کا احترام کرتی ہے اور ملک کا آئین بھی ان میں شامل ہے۔
موہن بھاگوت نے یہ اشارہ بھی دیا کہ پہلا کام ہندو معاشرے کو متحد کرنا ہے۔ ‘کسی بھی امتحان میں ہم پہلے آسان سوال حل کرتے ہیں۔۔۔پہلے ہم ان لوگوں کو منظم کریں گے،جو خود کو ہندو مانتے ہیں۔۔۔ہمارا مقصد سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔’
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انھوں نے جو سٹیج سے کہا اس کا اثر زمین پر بھی نظر آئے گا؟ کیا اب جو مسلمان ہیں، انھیں دوبارہ ہندو بنانے کی کوشش یا ان کی ‘گھر واپسی’ کا متنازع پروگرام ترک کر دیا جائے گا؟
اور اگر کسی مسلمان لڑکے کو ہندو لڑکی سے پیار ہوجائے گا،تو دونوں شادی کرکے ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار سکیں گے یا بس جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگتے رہیں گے؟ کیا لو جہاد کے دن اب پورے ہوگئے ہیں؟
آر ایس ایس کی تقریب کا عنوان تھا: ‘مستقبل کا بھارت’۔ وزیر اعظم نریندر مودی اکثر یہ کہتے ہیں کہ وہ انڈیا کو کانگریس سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ (کانگریس مکت بھارت) لیکن مسٹر بھاگوت نے آزادی کی جدو جہد میں کانگریس کے کردار کی تعریف بھی کی۔ کیا اب ‘کانگریس مکت بھارت’ کا نعرہ دوبارہ سنائی نہیں دیگا؟
انڈیا میں”سوراجیہ میگزین” دائیں بازو کے نظریات کی ترجمان مانی جاتی ہے۔ جریدے نے آج ہی ایک مضمون میں لکھا ہے کہ آر ایس ایس بدل رہاہے، ہم جنس پرستی پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو جس طرح تسلیم کیا گیا،وہ اس کی ایک مثال ہے۔مضمون کا عنوان ہے: ‘آر ایس ایس ہیز گرون اپ (تنظیم میں بالیدگی آ رہی ہے) اور اب اس کے ناقدین کو بھی بڑا (بالیدہ) ہوجانا چاہیے۔
انگریزی میں کہتے ہیں کہ ‘واک دی ٹاک’ یا جو کہا ہے اس پر عمل کر کے دکھائیے! اگر آر ایس ایس واقعی بدلنا چاہتا ہے، تب بھی دنیا کے سب سے بڑے اور شاید سب سے منظم غیر سرکاری ادارے کے لیے بھی یہ کام آسان نہیں ہوگا۔
کیونکہ یہ آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔
(بہ شکریہ بی بی سی اردوڈاٹ کام)
محمد طارق اعظم
علم دولتِ بے بہا ہے، انمول شی ہے،یہ ایسی دولت ہے، جو اپنے طالب کو رفعتِ ثریا عطا کرتی ہے، قومیں اسی کی بہ دولت عروج سے ہمکنار ہوتی ہیں،فرد کی تعمیرِشخصیت میں علم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، عزت، وقار، سربلندی اور افتخار اسی علم میں پنہاں ہیں، اس دولتِ بے بہا کی قدر و قیمت بیحد اور بے حساب ہے؛ اس لیے اس کے حصول کے آداب ہیں اور اصول ہیں، اس علم سے حقیقی طور پر بہرہ ور اور نفع اندوز وہی ہوتے ہیں ،جو اس کے حصول میں آداب اور اصول کا پاس و لحاظ کرتے ہیں، تاریخ میں جتنے بھی نیک نام اور نامور گذرے ہیں، ان میں یہ قدر مشترک طور پر ملے گی کہ انہوں نے علم کو آداب اور اصول کی رعایت کرتے ہوئے حاصل کیا تھا،حصولِ علم کا سب سے اہم اور بنیادی اصول اور ادب یہ ہے کہ علم، صاحبِ علم (استاذ) اور آلۂ علم (کتاب، قلم، مدرسہ اور اسکول وغیرہ) کا خوب ادب اور احترام کرے اور ان سے عقیدت اور محبت رکھے، ادب کا علم سے گہرا تعلق اور ربط ہے، ادب علم کے لیے روح کی مانند ہے، گویا علمِ بے ادب جسمِ بے روح کی مانند ہے، یہ کہاوت اپنی جگہ بالکل برحق ہے:
’’با ادب با نصیب ،بے ادب بے نصیب‘‘
اسی ادب میں سے یہ ہے کہ طالب علم استاذ کے در پر حاضر ہو کر علم حاصل کرے اور زانوئے تلمذ تہ کرے، اسی ادب کے پیش نظر علمائے اسلاف نے حصول علم کے لیے در در کی خاک چھانی، دور دراز کے سفر کیے اور مشقتیں برداشت کیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جو کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں او ر صحابۂ کرام بھی ان کا بڑا اکرام فرماتے تھے، اس کے باوجود حصولِ علم میں ان کے ادب کا یہ عالم تھا کہ اپنے استاذ محترم کے دروازے پر دستک دینا بھی گوارا نہیں کرتے تھے کہ مبادا ان کو گراں معلوم ہو۔ خود انہی کی زبانی پڑھیں، وہ اپنے شوقِ علم کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جب کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے متعلق مجھے معلوم ہوتا کہ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کوئی حدیث ہے ،تو میں قیلولہ کے وقت دوپہر میں ان کے دروازے پر پہنچ جاتا اور اپنی چادر کو سرہانے رکھ کر ان کے گھر کی چوکھٹ پر لیٹ جاتا۔ اس وقت دوپہر کی تیز اور گرم ہوائیں بہت سا گردو غبار اڑا کر میرے اوپر ڈال دیتیں؛ حالانکہ اگر میں ان کے گھر داخل ہونے کی اجازت مانگتا ،تو مجھے اجازت مل جاتی؛ لیکن میں ایسا اس لیے کرتا تھا کہ ان کی طبیعت مجھ سے خوش ہو جائے، جب وہ صحابی گھر سے نکلتے اور مجھے اس حال میں دیکھتے تو کہتے؛ ابن عمِ رسول! آپ نے کیوں یہ زحمت گوارا کی، آپ نے میرے یہاں اطلاع بھجوا دی ہوتی، میں خود حاضر ہو جاتا؛ لیکن میں جواب دیتا، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا زیادہ حق دار ہوں؛ کیونکہ حصولِ علم کے لیے صاحبِ علم کے پاس جایا جاتا ہے۔ صاحبِ علم خود طالبِ علم کے پاس نہیں جایا کرتے، پھر میں ان سے حدیث پوچھتا۔(۱)
حضرت امام مالک رحمہ اللہ اسی ادبِ علم کے پیش نظر بادشاہ اور شہزادوں تک کو خاطر میں نہ لاتے تھے،عباسی خلیفہ مہدی نے اپنے دوبیٹوں موسی اور ہارون کو حکم دیا کہ امام مالک سے موطا کی سماعت کریں، شہزادوں نے امام کو بلا بھیجا، امام صاحب نے فرمایا:’’علم بیش قیمت شئے ہے، اس کے پاس خود شائقین آتے ہیں‘‘۔ مہدی کی اجازت سے دونوں شہزادے خود مجلسِ درس میں حاضر ہوئے، شہزادوں کے اتالیق نے کہا، پڑھ کر سنائیے، امامِ ذوالہمام نے ارشاد فرمایا کہ ہمارے علما کا دستور یہ ہے کہ طلبا پڑھیں شیوخ سنیں، مہدی کو خبر دی گئی، مہدی نے کہا کہ ان علما کی اقتدا کرو اور تم خود پڑھو؛ چنانچہ شہزادوں نے خود پڑھا اور امام نے سماعت کی۔ (۲)
اسی طرح جب خلیفہ ہارون رشید سریر آرائے خلافت ہوااور اپنے دو بیٹوں امین اور مامون کو لے کر حج کے لیے آیا ،تو ہارون رشید نے امام مالک کو موطا کے املا کے لیے دربارِ خلافت میں طلب کیا، امام صاحب نے بہ دستور انکار کیا اور موطا کے بغیر تشریف لائے،ہارون رشید نے شکایت کی، امام ذوالہمام نے اس موقع پر یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:’’ہارون رشید! علم تیرے گھر سے نکلا ہے، خواہ اس کو ذلیل کر خواہ اس کو عزت دے۔‘‘ ہارون رشید متاثر ہوا، محمد الامین اور عبداللہ المامون دونوں شہزادوں کو لے کر مجلسِ درس میں حاضر ہوا، وہاں طلبا کا ہجوم تھا، ہارون رشید نے کہا اس بھیڑ کو الگ کر دیجیے، امام نے فرمایا:’’شخصی فائدے کے لیے عام افادہ کا خون نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ہارون رشید مسند پر بیٹھ گیا، امام نے فرمایا ’’امیرالمومنین تواضع پسندیدہ ہے۔‘‘ہارون رشید مسند سے نیچے اتر گیا۔
دوسری منزل قراء ت و سماعت کی تھی، ہارون نے کہا آپ قراء ت کیجیے، امام نے فرمایا ’’خلافِ عادت ہے۔‘‘ یہ کہہ کر معن بن عیسی کو اشارہ کیا، جو مستعد طالب علم تھے اور آگے چل کر بڑے بڑے محدثین کے استاذ ہوئے، انہوں نے قراء ت شروع کی، ہارون نے مع شہزادوں کے سماعت کی۔ (۳)
حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے بہت ہی خوبصورت پیرایے میں اس واقعے کو نظم کیا ہے، خاص اس واقعے کے تعلق سے نظم کے ان اشعار کو ملاحظہ کریں:
آرزو تھی یہ خلیفہ کو مدینہ آ کر
جائیں محروم نہ اس در سے مرے لختِ جگر
پہنچا یہ حکم خلافت سے کہ اے ابنِ انس!
مجمعِ عام میں جا سکتے نہیں میرے پسر
اس لیے آج یہ بہتر ہے کہ املاے حدیث
آپ دیں خاص انہیں ایوانِ شہی میں آ کر
سن کے فرمانِ خلافت کو یہ ارشاد ہوا
اے خلیفہ! تیری تعمیل ضروری ہے مگر
ہے علمِ نبوی تیرے ہی گھر کی دولت
خواہ حرمت اسے دے خواہ اہانت اسے کر
سن کے ہارون نے دربارِ امامت کا جواب
بھیجا پیغام کہ خیر آپ نہ آئیں گے اگر
خود شہزادے وہاں درس میں حاضر ہوں گے
لیکن اوروں کا نہ ہو بزم میں اس وقت گذر
مالک بن انس اسے کہلا بھیجا
میرے کاشانہ میں ممکن نہیں تمیزِ بشر
درگہِ خاص نہیں درس گہِ عام یہ ہے
ہو مساواتِ بشر معنی اسلام یہ ہے
(۴)
امام دارِہجرت حضرت مالک کی جرأت اور استقامت دیکھیں کہ علم کے تقدس اور حرمت پر حرف نہ آنے دیا اور خلیفۂ وقت بھی آپ کی اطاعت پر مجبور ہوئے۔حضرت امام کا یہ عظیم اسوہ ہمارے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے،اس سے یہ بھی واضح ہو تا ہے کہ علم کا اکرام و احترام صرف طالبِ علم پر ہی نہیں؛ بلکہ اساتذۂ کرام پر بھی علم کا اکرام و احترام ضروری ہے؛بلکہ اس بارے میں اساتذۂ کرام کی ذمے داری بہ نسبت طالبِ علم کے دو چند ہے؛ اس لیے کہ اساتذہ اپنے شاگردوں کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اساتذہ پر لازم ہے کہ زبانی تلقین کے ساتھ اپنے کردار سے بھی علم کا اکرام و احترام طالب علموں کو سکھائیں۔
آج کے مادیت زدہ ماحول نے جہاں دیگر چیزوں کو متاثر کیا ہے، وہیں تعلیم و تعلم کے اس مقدس پیشے کو بھی متاثر کیا ہے۔ اساتذۂ علم و فن کا گھروں میں جا کر تعلیم دینا ،جو کہ مروجہ ٹیوشن کی ایک شکل ہے ،یہ بھی اسی مادیت کی دین ہے۔ اس میں دیگر مفاسد اور خرابیوں کے علاوہ جو سب سے بڑی خرابی پائی جاتی ہے، وہ علم اور صاحب علم کی اہانت ہے۔ شاید ہی کسی صاحبِ علم اور صاحبِ فکر نے اس طریقِ تعلیم و تعلم کو سراہا ہو۔ یہ اہانت صرف دینی علم ہی کی نہیں ؛بلکہ دنیاوی علوم کی بھی ہے، گو کہ دینی علوم بہ طورِ خاص قرآن و حدیث کا معاملہ حرمت اور تقدس کے اعتبار سے بڑھا ہوا ہے؛ اس لیے اس کا معاملہ ذرا سنگین اور نازک ہے۔ اس سلسلے میں ماضی قریب کے ایک بزرگ حضرت قاری صدیق احمد صاحب باندویؒ کا واقعہ بہت ہی سبق آموز اور دل گداز ہے۔ حضرت قاری صاحب جب مدرسہ اسلامیہ فتح پور میں مدرس تھے، تو ایک مرتبہ مدرسے کے ذمہ دار مولانا عبد الوحید صاحب فتح پوری آپ کے پاس تشریف لائے اور آپ کی تنخواہ کی قلت اور تنگی کے پیشِ نظر یہ خیرخواہانہ مشورہ آپ کو دیا کہ چونکہ آپ کی تنخواہ کم ہے؛لہذا اگر آپ کچھ ٹیوشن پڑھا لیں تو بہتر ہوگا، اس طرح کچھ آمدنی کی شکل ہوجائے گی، پھر کچھ گھروں کے پتے بتلائے کہ فلاں فلاں گھر میں ٹیوشن مناسب رہے گا۔ حضرت نے فرمایا کہ میں ان کے اس کہنے کی وجہ سے سکتے میں آ گیا اور ان کو میں نے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور عرض کیا کہ مولانا آپ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ میں پیسہ کمانے اور تنخواہ کی وجہ سے یہاں آیا ہوں، اگر پیسہ کمانا ہی مقصود ہوتا ،تو میں یہاں نہ آتا، بہت سی جگہ جہاں یہاں سے زائد تنخواہ تھی ،وہاں مجھے بلایا جا رہا تھا (مثلاً مظاہر علوم، ندوۃ العلما بلکہ سعودیہ میں مدرسہ صولتیہ وغیرہ) لیکن میں نے اس وجہ سے قبول نہیں کیا کہ علاقے میں کام کی ضرورت ہے، مجھے پیسہ کمانا مقصود ہوتا ،تو ان جگہوں کی مدرسی قبول کر کے خوب پیسہ جمع کر لیتا۔ میں تو یہاں صرف اس وجہ سے پڑا ہوں کہ فتح پور وطن سے قریب ہے، والدہ صاحبہ کا حق بھی ادا ہوتا رہے گا، نیز علاقے کے بچوں کی تعلیم یہاں آسانی سے ہوتی رہے گی، ان وجوہات سے میں نے یہاں کا انتخاب کیا ہے۔ حضرت نے فرمایا گھر جا کر ٹیوشن پڑھانے میں اہلِ علم کی اہانت اور دین کی بڑی ناقدری ہوتی ہے، کسی کو پڑھنا ہو، تو یہاں آئے ،میں بغیر پیسے لیے پڑھا دوں گا؛ لیکن کسی کے گھر میں پڑھانے نہیں جا سکتا، نہ میں خود اسے پسند کرتا ہوں اور نہ دوسرے اہلِ علم کے لیے بہتر سمجھتا ہوں۔ (۵)
جنہوں نے حضرت قاری صاحب کے شب و روز کو دیکھا ہے یا جنہوں نے حضرت قاری صاحب کے حالات کو پڑھا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ حضرت قاری صاحب دین اور دینی علم کی اشاعت اور تبلیغ کے لیے کس قدر بے چین اور فکر مند رہتے تھے، اس بارے میں معمولی سے معمولی بات یا واقعہ کو بھی نظر انداز نہیں کرتے تھے؛ بلکہ ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ کسی نہ کسی عنوان یا موقع سے دین کی بات دین کے نا آشناؤں اور دین سے دور افراد تک پہنچا دی جائے۔ اس واقعے کو تفصیل سے ذکر کرنے کا مقصد یہ بھی تھا کہ اس فکر و کڑھن کی کچھ جھلک بھی سامنے آ جائے ،جو حضرت قاری صاحب کے دل میں موجزن تھی۔ اس تناظر میں ٹیوشن کے تعلق سے حضرت کا ارشاد نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے، غور کرنے والے غور کریں۔ ٹیوشن پڑھنے اور پڑھوانے والوں کے ساتھ ہمارے لیے بھی اس میں نصیحت، سبق اور لمحۂ فکریہ ہے کہ تعلیم و تعلم کے تعلق سے ہم اپنے رویے کا جائزہ لیں اور نظر ثانی کریں کہ یہ طریقِ تعلیم و تعلم وہ تو نہیں ہے ،جس سے علم اور اہلِ علم کی اہانت اور تنقیص لازم آتی ہے، اگر ہے تو اس طریق اور طرز کو چھوڑ کر وہ طریق اور طرز اپنائیں ، جس سے علم اور اہلِ علم کے تقدس اور حرمت پر حرف نہ آتا ہو۔
علماے سلف کے یہ واقعات محض لذت کام و دہن کے لیے نہیں ذکر کیے گئے؛ بلکہ اس لیے ذکر کیے گئے ہیں کہ علم کی جو لوان کے دلوں میں جل رہی تھی، ہمارے دلوں میں بھی جلے۔ علم، صاحبِ علم اور آلۂ علم کا ادب و احترام اور پاس و لحاظ جو انہیں حاصل تھا ،اس کا کچھ ذرہ ہم کم ہمتوں اور کوتاہ نصیبوں کو بھی حاصل ہو، عظمت و رفعت کی جن بلندیوں پر ہمارے اسلاف فائز تھے وہ مقامِ بلند ہمیں بھی عطا ہو اور یہ مقامِ بلند بغیر ان کی اتباعِ نقشِ کفِ پا کے مل نہیں سکتا۔
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو!
پھر پسر قابل میراثِ پدر کیوں کر ہو
مراجع
(۱) صحابۂ کرام کی تابناک زندگیاں، ڈاکٹر عبدالرحمن رافت پاشا ؒ (مترجم،اقبال احمد قاسمی)،ص:۱۶۵
(۲) حیاتِ امام مالک،علامہ سید سلیمان ندوی ؒ ، ص:۶۵
(۳) ایضاً، ص: ۷۶
(۴) ایضاً،ص:۷۰
(۵) واقعاتِ صدیق، مولانا اقبال احمد قاسمی،صٖ:۶۰
بند کمرے میں ہوئی ملاقات کو لیکرسیاسی قیاس آرائیاں تیز
دیوبند۔۱۸؍ستمبر(ایس۔ چودھری)بھیم آرمی کے بانی چندر شیکھر آزاد نے آج مدنی منزل پہنچ کر مولانا سید ارشد مدنی سے ’آشرواد ‘ لیا ، بھلے ہی یہ ملاقات غیر سیاسی ہو مگر اس کو لیکر سیاسی تبصرے شروع ہوگئے ہیں۔ چندر شیکھر آزاد نے آج شام دیوبند پہنچ کر جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ،جہاں والہانہ انداز میں مولاناسید ارشد مدنی نے گلے لگاکر چندر شیکھر آزاد کا استقبال کیا اور ان کے سرپر ہاتھ رکھ کر انہیں ’آشرواد‘دیتے ہوئے وداع کیا۔ اس دوران حالانکہ چند رشیکھر آزاد میڈیا سے بچتے رہے لیکن دونوں رہنماؤ کے درمیان تقریباً نصف گھنٹے تک بند کمرے میں ملاقات ہوئی ۔جیل سے رہائی کے بعد چندر شیکھر کی مولانا سید ارشد مدنی سے ملاقات کئی دنوںسے چرچا میں تھی ،حالانکہ آج ملاقات کے دوران میڈیاکو کچھ خاص ہاتھ نہیں آیاہے ۔ بعد میں چند رشیکھر آزاد نے میڈیا کو بس اتنا ہی بتایاکہ وہ دیوبند میں مولانا سید ارشد مدنی سے ملاقات کرنے اور ان کا ‘آشرواد‘لینے کے لئے آئے ہیں ۔ چندر شیکھر آزاد میڈیا کے سوالات سے پوری طرح بچتے نظر آئے،مگر انہوںنے کہاکہ تمام دبے کچلے طبقات کو ایک ساتھ لانا اور انہیں متحد کرنا ان کا مقصد ہے اور اسی کے تحت وہ یہاں آئے ہیں۔ این ایس اے تحت تقریباً ڈیڑھ سال جیل میں گزارنے کے بعد گزشتہ ہفتے جیل سے رہائی ہونے کے بعد چندر شیکھر آزاد مسلسل بی جے پی کو نشانہ بنارہے ہیں اوروہ لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو کراری شکست دینے کی بات کہہ چکے ہیں،جس کے لئے وہ مہاگٹھہ بندھن کی مکمل حمایت کرینگے اور مولاارشد مدنی سے ان کی یہ ملاقات آئندہ لوک سبھا انتخابات کے ضمن میں ہی دیکھی جارہی ہے۔ مایاوتی سے بوا بھتیجے کے رشتہ والے سوال پر چندر شیکھر پوری طرح میڈیا سے بچتے رہے اور انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ، چھٹمل پوری میں دلت مسلمانوں کے درمیان معمولی بات کو لیکر ہوئی مارپیٹ کو انہوں نے خاندانی معاملہ بتاتے ہوئے کہاکہ دلت دلت آپس میں بھی لڑتے ہیں اور یہ معاملہ بھی اسی طرح کا ہے،ہمارا مقصد دبے ،کچلے تمام طبقات کو متحد کرنا ہے اور اسی مقصد کے تحت مذہبی و سماجی رہنماؤ سے ملاقات کی جارہی ہے۔ بند کمرہ میں نصف گھنٹے مولانا اورچندر شیکھر کے درمیان کیا بات چیت ہوئی اس کی کسی کو بھنک نہیں لگی ہے مگر ذرائع کا کہناہے مولانا سے موجودہ حالات اور آئندہ لوک سبھا انتخابات پر بات چیت کے ساتھ ساتھ دہلی میں منعقد ہونے والے بھیم آرمی کے کسی پروگرام میں مولانا کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ آج دیوبند میں ہوئی چندر شیکھر آزاد اور مولانا سید ارشد مدنی کی ملاقات کے سیاسی حلقوں میں کئی معنی نکالے جارہے ہیں کیونکہ جہاں چندر شیکھر آزاد 2019ء میں بی جے پی کو سگنل ڈزٹ میں لانے کی بات کررہے ہیں وہیں مولانا سید ارشد مدنی بھی بی جے پی کی کھل کر مخالفت کرتے رہے ہیں۔ اس دوران بھیم آرمی صدر ونے رتن،منجیت نوٹیال،سشیل جیسوال،دھلی صدر سرجیت سمراٹ ایڈوکیٹ، ڈاکٹر ولی محمد،نیٹو شاملی،سابق وزیر ددّو پرساد ،مولانا قمر الٰہی مظاہری،سلمان چودھری ہاپوڑ،اسعداللہ اجمیری گنگوہ،مفتی احمد گوڑ، اجے گاندھی، توفیق احمد جگی سمیت بھیم آرمی کے کثیر تعداد میں کارکنان اور عہدیدا ن موجودرہے۔