مالیگائوں ۔ 07؍ستمبر 2018 (زاہد بیباک)
دارالقضاء عدالت کے متوازی نہیں ہے ۔ حکومت ملک کو ہندو راشٹر بنانا چاہتی ہے ۔ آج ہندوستان کا مسلمان سہما ہو اہے ، لیکن مسلمانوں کو چاہئے کہ حالات کا رونا چھوڑ کر پنجہ آزمائی کے مواقع تلاش کرنا چاہئے اور اللہ رب العزت سے رجوع ہونا چاہئے ۔ مسلمان اپنے شرعی معاملات درست کریں ۔ نمازوں کی پابندی کریں ۔ حقوق العباد اور حقوق اللہ کی پاسداری کریں ۔ سنت نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہوں اور اللہ کا ذکراور رسول اللہ ﷺ کا ذکر کرتے رہیں پھر دیکھیں کہ بڑی بڑی سلطنتیں اللہ کے آگے سر تسلیم خم رہی ہیں ۔ اِس طرح کے فکر انگیز جملوں کا اظہار مفکر اسلام حضرت مولانا سیّد ولی محمد رحمانی نے حاجی شبیراحمد حج ٹریننگ سینٹرمیں منعقدہ خصوصی مجلس میں کیا ۔ موصوف نے کہا کہ دارالقضاء رائے عامہ ہموار کرنے اور کائونسلنگ کرنے کا ذریعہ ہے ۔ سپریم کورٹ نے پہلے ہی دارلقضاء کو جاری رکھنے کی اجازت دی ہے ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا صاف موقف ہے کہ دارالقضاء عدالت نہیں لیکن ملک میں براجمان فرقہ پرست طاقتیں ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا چاہتی ہیں ۔ مسلمانوںکا عرصہ حیات تنگ کرنے کی سازش کی جارہی ہے ، موصوف نے علمائے کرام ، ٹیچرس ، ڈاکٹرس ،وکلاء صحافی اور تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ ساتھ عامۃ المسلمین و خواتین اسلام سے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں لیکن حالات آج سے زیادہ سخت آنے والے ہیں تب ہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا ۔ حکومتوں سے پنجہ آزمائی کرنا ہوگا ۔ آج ملک کا منظر نامہ نفرت انگیز ضرور ہے لیکن مایوسی اور خاموشی اِس کا حل نہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے دینی و دنیاوی معاملات شرعی اصولوں پر حل کریں ۔ دارالقضاء سے رابطہ رکھیں ۔ اپنے معاملات بہتر بنائیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ عدالتیں ہم جنسیت کے حق میں فیصلہ دے رہی ہیں جو کہ مسلم پرسنل لاء کو کمزور کرنے کی تیاری ہے ۔
موصوف نے بتایا کہ اسلامی تاریخ گواہ ہے تاتاریوں کے حالات سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں ۔ ہمیں نیک اعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔تب جا کر ہم اپنے دین ، شریعت کی حفاظت کر سکتے ہیں ۔ قبل اس کہ مولانا عمرین رحمانی ، مولانا عبدالحمید ازہری وغیرہ نے خطاب کیا ۔ خیال رہے کہ سیّد ولی محمد رحمانی دو روزہ دورہ مالیگائوں تشریف لائے ۔ جہاں انہوں نے غربید مسجد میں مردوں کی عمومی نشست سے خصوصی خطاب کیا وہیں انصار جماعت خانہ میں خواتین کے مجمع سے خطاب کیا اور خواتین کے تاریخی جلوس پر شکریہ بھی ادا کیا۔
7 ستمبر, 2018
ابھیشیک شکلا
دیکھ اے تابِ سماعت!! کہ برہنہ ہے ابھی
اس کی آواز نے کچھ بھی نہیں پہنا ہے ابھی
دھوپ اتنی ہے کہ ڈرتا ہوں کہیں بھول نہ جاؤں
اپنی پرچھائیں سے جو کچھ مجھے کہنا ہے ابھی
اس کے ملبے میں دبی ہوگی مری عمر خراب
جس عمارت کو تر سامنے ڈھہنا ہے ابھی
دید کی تپتی ہوئی ریت پہ رم کرنے کے بعد
پھوٹ کر آبلۂ چشم کو بہنا ہے ابھی
اپنی تنہائی کہیں اور لٹا جانِ مراد
مجھ کو اک عمر اسی بھیڑ میں رہنا ہے ابھی
پھوٹ جائیں نہ یہ منظر کی سحر خیزی سے
میری آنکھوں کو ترا خواب بھی سہنا ہے ابھی
جب تک آتی نہیں امداد کسی دریا سے
موج در موج یونہی پیاس میں بہنا ہے ابھی
نئی دہلی : ۷ ستمبر ( پریس ریلیز )
ہم جنس پرستی ایک گھناؤ نا عمل ہے،جو بے حیائی اور بے شرمی کی دعوت دیتی ہے ،اس عمل سے معاشرہ میں زنا،ایڈس اور کئی مہلک بیماریاں پھیلے گی ،ان باتوں کا اظہار المعہد العالی الاسلامی دہلی کے ڈائرکٹر مفتی محمد نسیم رحمانی نے دہلی پولس کے اعلی افسران اور پبلک میٹنگ کے درمیان کہی ،میٹنگ میں خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی جس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اصلاح معاشرہ کمیٹی کے کنوینر مفتی رحمانی نے ہم جنس پرستی کی خرابیاں واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس بدترین عمل سے کئی ہزار سال قبل بھی بڑی بڑی قومیں برباد ہوئی ہیں ،ان پر اللہ کا عذاب آیاہے،کیوں کہ یہ فیصلہ قانون الہی کے بالکل خلاف ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے اکثر مذاہب کے روح کے خلاف ہے ،ہم جنس پرستی ایسا عمل ہے اس عمل کو سن کر ہی سر شرم سے جھک جاتا ہے ،سماجی کارکن سلیم نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ آرڈیننس کے ذریعہ اس فیصلہ پر روک لگائے ورنہ پورا ملک بدبودار ہو جائے گا اور بڑوں کا احترام اور چھوٹوں کی شفقتیں بھی ختم ہو جائیں گی ،دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر عبدالباری قاسمی نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام اصلاح معاشرہ کی تحریک پورے ہندوستان میں چلائی جا رہی ہے اب ہم لوگ پورے ملک میں منعقدہ اصلاح معاشرہ کے پروگراموں میں اس مذموم عمل کی خرابیاں عوام اور طلبہ وطالبات کے سامنے پیش کریں گے تاکہ یہ گھناؤنا اور انسانیت کو تباہی و بربادی کے دلدل میں دھکیلنے والا عمل معاشرہ کا حصہ نہ بن سکے ۔
سونیا جی ،قاری امین اللہ ،ماسٹر سیفی ،مولانا عقیل اور منوج وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔اس میٹنگ میں بڑی تعداد میں ہندو ،مسلم اورسکھ مذاہب سے تعلق رکھنے والے حضرات موجود رہے
ریحان خان
سپریم کورٹ نے ہندوستان میں ہم جنس پرستی کو جرائم کے زمرے سے خارج کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے کے تحت اب ملک میں ہم جنس پرستوں کا جنسی تعلق جرم نہیں رہا۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے سنایا، جو چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں قائم کی گئی تھی۔ جمعرات کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں 2013 کے ایک عدالتی فیصلے کو کالعدم قرار دیا،جس میں ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے میں شامل کرنے والے قانون کو آئین کی روشنی میں درست قرار دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں پانچ ججوں کی ایک آئینی بنچ نے ہم جنسی پرستی سے متعلق اپنے اہم فیصلے میں کہا کہ ’ایک ہی صنف کے دو بالغ لوگوں کے درمیان باہمی رضامندی سے جنسی تعلق جرم نہیں ہے‘۔ سپریم کورٹ نے جہاں ہم جنس پرستی کو جرائم کے زمرے سے خارج کیا ہے، وہیں اس کی دستوری حیثیت سے بھی انکار کیا ہے۔ جس کے بعد ہم جنس پرست کوئی طبقہ نہیں تسلیم کیے جائیں گے اور وہ کوئی مطالبات پیش کرنے کے اہل ہوں گے۔ یہ ان کے باہمی معاملات ہیں، جن سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ عدلیہ نے جانوروں کے ساتھ جنسی عمل کو جرم کے زمرےمیں رکھا ہے، تاہم اس پر آئندہ دنوں میں کیا کچھ ہوگا،اس کا اندازہ لگانا قبل ازوقت ہوگاـ ماضی میں ہم جنس پرستی کو بھی اسی طرح معیوب اور جرم سمجھا جاتا تھا جس طرح آج جانوروں کے ساتھ تعلق بنانے کو جرم تسلیم کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ شرمناک ہے ؛لیکن ‘ترقی’ کی راہ کا ایک سنگ میل بھی ہے۔
برطانوی دور کے ہم جنسی مخالف قانون،جسے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کالعدم قرار دیا ہے، یہ واضح کرتا ہے کہ اس قسم کی ‘ترقی’ کے بغیر بھی انگلستان کوسوں دور اپنی کالونیاں قائم کرسکتا تھا۔ ترقی اور عرفان ہم جنسی سے مربوط نہیں ہے۔ عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کوئی بھی معاشرہ اکثریت کی اخلاقیات سے نہیں چلتا ’ایک آئینی معاشرہ تخلیق کرنے کا بنیادی مقصد اس معاشرے کو ایک روشن خیال معاشرے میں تبدیل کرنا ہے۔‘ سپریم کورٹ کی نظر میں روشن خیال معاشرے کی تشکیل کی ایک یہی راہ رہ گئی تھی۔ آرٹیکل 377 اپنی وضع میں موجود تھا؛ لیکن اس کے تحت ہم جنسوں کو سنائی جانے والی سزاؤں کے خال خال معاملات ہی سامنے آئے ہیں، اس قانون کو عموماً ہم جنس پرستوں کو ڈرانے یا انہیں قابو میں رکھنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ جس قانون کا کوئی عملی نفاذ ہی نہیں تھا، جس کے تحت سزائیں نہیں دی جاتی تھیں، جس سے معاشرے کو غیر فطری ڈگر سے محفوظ رکھا جاسکتا تھا، اسے ختم کرکے سپریم کورٹ نے ملک میں ایک طوفان بدتمیزی کی راہ کھول دی ہے، جس کے مضر ثمرات آئندہ دہائیوں میں سامنے آئیں گے۔ دفعہ 377 کی موجودگی کی وجہ سے ہندوستانی معاشرے میں اب تک یہ وبا اتنی عام نہیں ہوسکی تھی،جتنی مغربی ممالک میں ہے، تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشرقی روایات سے آزادی کا ایک باب کھل گیا ہے۔
ہم جنسی مخالف قانون کو پہلی مرتبہ 1994 میں چیلنج کیا گیا تھا،جس کے بعد اب اس پر حتمی فیصلہ سنایا گیا ہے۔ اس دوران بالی ووڈ نے ڈھکے چھپے الفاظ میں ہم جنس پرستی کی حمایت کی اور کرن جوہر نے سارے پردے اتار کر علی الاعلان اس کا اعتراف کرلیا۔ بالی ووڈ میں بامبے ٹاکیز، علی گڑھ اور شب جیسی فلمیں بھی بنائی گئیں، جن میں سے کچھ کو سینسر بورڈ نے پاس بھی کردیا۔ سینسر بورڈ کی جانب سے ایسی فلمیں پاس ہونے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خدوخال سامنے آگئے تھے۔ تاہم سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ واضح نہیں کیا ہے کہ اگر کسی شوہر یا بیوی کا حق مارا جاتا ہے، تو ایسے معاملات کا تصفیہ کس شکل میں کیا جائے گا۔ اسے جرم میں شمار بھی کیا جائے گا یا نہیں، یا طلاق کی مخالف سپریم کورٹ اس جوڑے کو طلاق کا مشورہ دے گی۔ روشن خیال معاشرے کی تشکیل کا مطلب یہ تو نہیں کہ شہریوں کو جنسی بھیڑیے کی شکل میں مادر پدر آزاد چھوڑ دیا جائے۔ اگر روشن خیال معاشرے کی تشکیل اسی طرح ہوتی ہے، تو ہمیں دنیا کے اس روشن خیال، ترقی یافتہ اور سوپر پاور معاشرے کو فراموش نہیں کرنا چاہیے،جس کا صدر ماضی قریب میں شہریوں سے یہ اپیل کرنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ ‘خدارا شادیاں کیجے!۔’
نایاب حسن
دنیاکاسب سے بڑا جمہوری ملک ہندوستان خوف،اندیشوں،وحشتوں اور دہشتوں کی آماجگاہ بنتاجارہاہے،یہاں اندراگاندھی کے دور کی ایمرجنسی کو بار بار دُہرایاجاتااور اس زمانے کی اَنہونیوں کا مسلسل ذکر ہوتا رہتاہے،مگر افسوس کہ وہ ایمرجنسی تو اعلانیہ تھی اور لوگوں کو اس کے مالہ و ماعلیہ کے بارے میں بھی معلوم تھا،مگر ابھی جو اس ملک میں ایمرجنسی لگی ہوئی ہے،وہ غیر اعلانیہ ہے اور یقیناً یہ ایمرجنسی اُس سے کہیں زیادہ خطرناک اور نتائج کے اعتبارسے ہلاکت ناک ہے،جمہوریت بنیادی طورپر ہر قسم کی شخصی و اجتماعی آزادی سے عبارت ہوتی ہے،مگر فی الحال ہندوستانی جمہوریت کے مشتملات و حدود میں پوری طرح ترمیم و تنسیخ کا عمل جاری ہے،ہندوستانی جمہوریت کا سانچا اور ڈھانچااس وقت اِس ملک کی حکمراں جماعت تیار کررہی ہے اوراسے ہی تمام شہریوں کوماننا اوراس پر عمل کرنا ہوگا؛چنانچہ کھانے پینے،پہننے سے لے کر بولنے اور اظہارِخیال تک کے معاملوں میں عام ہندوستانی آزاد نہیں ہے،اسے انہی حدود پر عمل کرناہے،جوحکومت ،حکمراں جماعت یا اس کے ہم خیال شدت پسندو تنگ نظر مذہبی و ثقافتی گروہ طے کر رہے ہیں،مظلوم کے حق کے لیے،اس کی عزتِ نفس کے لیے آواز بلند کرنا بھی جرم ہے؛بلکہ اس وقت تواس ملک میں اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنا،غریب ہونا،پسماندہ ہونا،دلت ہونابھی جرم ہی مان لیاگیا ہے اور جہاں ان تمام طبقات کے ساتھ مجرموں والا برتاؤکیاجاتا، انھیں جہاں تہاں ذلیل کیاجاتااورماردیاجاتاہے،وہیں ایسے لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے اٹھنے والے گنے چنے لوگوں کوبھی سرکاریں،سرکاری ایجنسیاں،پولیس محکمہ اور تفتیشی ادارے ہٹ لسٹ میں شامل کرلیتے ہیں ،گویا پورے ملک میں آمریت کھل کر کھیل رہی ہے،موجودہ سرکارکے ابتدائی دنوں میں شروع ہونے والے ماب لنچنگ کے غیر منتہی سلسلے سے لے کرحالیہ دنوں میں میڈیا کے سربرآوردہ افراد کی زباں بندی تک کے واقعات اس کی بین شہادتیں ہیں،درمیان میں نوٹ بندی،جی ایس ٹی،رافیل ڈیل میں کی جانے والی من مانیاں اور سرکارکی دیگر آمرانہ کارروائیاں بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
گزشتہ 28؍اگست کوحیدرآباد،ممبئی،دہلی اور فریدآبادوغیرہ میں کم ازکم دس دانشوروں، سماجی وقانونی کارکنان اور حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم افرادکے گھروں پر مہاراشٹرپولیس کے ذریعے چھاپے مارے گئے،ان کے لیپ ٹاپ،فون اور دیگر الیکٹرانک ڈیوائسزضبط کیے گئے اور 2017ء کے دسمبرمیں بھیماکورے گاؤں ریلی سے متصل ہونے والے پر تشددواقعات اوردیگر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں پانچ لوگوں کوگرفتاربھی کرلیاگیا،گرفتارشدگان میں گوتم نولکھا،وَروَرراؤ،ورنن گونزالویس،سدھابھاردواج اور ارون فریریاشامل ہیں،ان میں سے ایک کا تعلق دہلی،ایک کا حیدرآباد،ایک کا ہریانہ اور دوکا تعلق ممبئی سے ہے،رومیلاتھاپر،پربھات پٹنایک،ستیش دیش پانڈے،دیوکی جین اور مجادارووالانے ان کی گرفتاریوں کے خلاف سپریم کورٹمیں پٹیشن دائر کیاتھا،جس کے بعد کورٹ نے 6؍ستمبر تک ان کی گرفتاری پر روک لگاتے ہوئے یہ بھی تبصرہ کیاتھاکہ ’’اختلافات جمہوریت کے لیے سیفٹی والو(Valve) کی حیثیت رکھتے ہیں،اگر انھیں روکا گیا،توجمہوریت ٹوٹ جائے گی‘‘۔ ساتھ ہی اگلی سماعت تک ان تمام افراد کوان کے گھروں میں نظربندکرنے کی ہدایت دی تھی،بامبے ہائی کورٹ نے 3؍ستمبرکواس سلسلے میں ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے مہاراشٹر پولیس اور جانچ ایجنسیوں کے ذریعے 31؍اگست کو پریس کانفرنس کرنے پرسخت نکتہ چینی کی،جس میں اسی واقعے میں مزید دیگر دانشوران کے ملوث ہونے کی بات کہی گئی تھی اور پولیس نے اس سلسلے میں ایک خط کابھی ذکرکیاتھا،جس کے مطابق ممنوعہ ماؤوادی تنظیم کے لیے آٹھ کروڑ روپے کاگرینیڈلانچرزاوردھماکہ خیز اشیاکی خریداری کی بات لکھی گئی ہے،کورٹ نے سات ستمبرتک پولیس اور جانچ ایجنسیوں کوایسی کسی بھی پریس کانفرنس کرنے سے منع کیاہے۔
دوسری طرف سماجی سطح پر ان گرفتاریوں کے سلسلے میں خاصی بے چینی پائی جارہی ہے،کورٹ کا فیصلہ جوبھی آئے،مگر اس پورے معاملے سے ایک چیز واضح طورپر سمجھ میں آرہی ہے کہ اس پکڑدھکڑ کے سلسلے کے پسِ پشت یقینی طورپر سیاسی دسیسہ کاریاں کام کررہی ہیں،ابھی مختلف صوبوں میں لوکل انتخابات ہورہے ہیں،اس کے متصل بعد مدھیہ پردیش،راجستھان وغیرہ میں ریاستی اور چند ماہ بعد ہی عام انتخابات کے موسم آرہے ہیں،متعدد نیوز چینلوں اور انتخابی سروے کرنے والی ایجنسیوں نے ابھی سے یہ دکھانا اور بتانا شروع کردیاہے کہ مودی اور بی جے پی کی مقبولیت کا گراف لگاتار گھٹ رہاہے،ایسے میں مودی اینڈکمپنی یقیناًہاتھ پر ہاتھ دھر کے نہیں بیٹھ سکتی،کچھ منصوبے،کچھ خاکے،کچھ نقشۂ عمل اس کے پاس ضرور تیار ہوگا،جسے اگلے مہینوں میں زمینی سطح پر اتاراجائے گا،عین ممکن ہے کہ دلتوں،پسماندہ طبقات اور سماج کے دیگر دبے کچلے لوگوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والے ان رضاکاروں،دانشوروں،شاعروں اور ادیبوں پر نکیل کسنے کا سلسلہ بھی اسی کا حصہ ہو،اس کے علاوہ فسادات،مذہبی منافرت کوہوادینا،ہندومسلم ہنگامے تو بی جے پی کے آزمائے ہوئے نسخے ہیں ہی،ان دانشوروں کے خلاف قومی سطح پر سرچ آپریش چلاکر حکومت دراصل ان گنے چنے لوگوں کی زبانوں کوبھی بند کردینا چاہتی ہے،جن کی صداے احتجاج وقتاً فوقتاً اسے تشویش میں مبتلا کرتی رہتی ہے،جس طرح میڈیاسے تعلق رکھنے والے چند بے باک و حق پسند صحافیوں پر لگام لگاکراس نے پوری صحافی برادری کو متنبہ کیاکہ یا توحکومت کی سرمیں سرملائے یا خاموش رہے،اسی طرح سول سوسائٹی کے چند حساس افراد کے خلاف منظم کارروائی کرکے ایسے تمام لوگوں کو خبردار کرنا چاہتی ہے،جو کسی نہ کسی سطح پر انسانی حقوق،شہری آزادی اور عدل و انصاف کے آوازے بلند کرتے رہتے ہیں،سیاسی مبصرین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ مہاراشٹرپولیس کے ذریعے یہ پورا پلان دراصل سناتن سنستھاسے جڑے سنسنی خیز حقائق ، خبروں اور واقعات پرپردہ ڈالنے کی حکمتِ عملی بھی ہوسکتی ہے،اس میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں کہ ملک بھر میں جتنی بھی انتہاپسند ہندوتنظیمیں اور ادارے ہیں،ان کے تار مختلف پرپیچ راہوں سے گزرکر آرایس ایس اور پھر بی جے پی سے جڑے ہوئے ہیں،اس وابستگی کی وجہ سے انھیں خفیہ یا اعلانیہ طورپربی جے پی کاسیاسی سپورٹ بھی حاصل ہوتاہے،ابھی بقرعید سے قبل سناتن سنستھاکے ایک سے زائد دہشت گردگرفتار کیے گئے،جن کے ہاں سے بڑی مقدار میں دھماکہ خیزاشیا،بندوقیں ضبط کی گئیں، ان کے بارے میں یہ بھی پتاچلاکہ وہ مختلف تہواروں کے موقعوں پر مختلف مقامات پر بم بلاسٹ کرنے والے تھے،کئی اہم افراد ،سیاست داں،صحافی،سماجی کارکنان و دانشوران بھی ان کے نشانے پر تھے،جنھیں وہ اڑانا چاہتے تھے،پھر یہ بھی پتاچلاکہ معروف خاتون صحافی گوری لنکیش اور ادیب نریندر دابھولکرکے قتل میں اسی تنظیم کاہاتھ تھا،توپورے ملک کے کان کھڑے ہوگئے تھے اور سب منتظر تھے کہ ان لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں حکومت اور عدلیہ مطلوبہ کردار اداکریں گے،مگر ٹھیک اسی دوران یہ نیاڈرامہ سٹیج کردیاگیاہے اور لوگوں کے ذہن کو،میڈیاکو ،عقلِ عام کو سناتن سنستھا سے موڑکر مذکورہ بالا سماجی کارکنان کی گرفتاریوں میں الجھانے کی منصوبہ بندی یا سازش کی گئی ہے۔
ان گرفتاریوں کے سلسلے میں سماج کے دانشور،ذی ہوش،قانون داں اور سیاسی لیڈران وانصاف پسند عوام اپنے طورپر احتجاج درج کروارہے ہیں،ملک کے مختلف شہروں میں پریس کانفرنسوں،احتجاجی مارچوں کے ذریعے مہاراشٹرپولیس اور حکومت کے ذریعے کیے گئے اس اقدام کے خلاف آوازیں بلند کی گئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا،جواس طرح کے موقعوں پرحصولِ انصاف اور حکومت کی غلط کاریوں کا پردہ فاش کرنے کے سلسلے میں اہم رول اداکرسکتاہے اور جمہوریت کا چوتھا ستون ہونے کی حیثیت سے اس کی یہ ذمے داری بھی ہے،وہ بالکل ہی سردمہری کاشکارہے،حکومت نے اس کے گرد ایسا گھیراتنگ کررکھاہے کہ مجموعی طورپر میڈیابھی وہی زبان بولنے پر مجبور ہے،جوحکومت کی منشاہے؛چنانچہ ایک طرف سناتن سنستھاکے دہشت گردوں کی گرفتاری،ان کے پاس سے دھماکہ خیز اشیاکی ضبطی کو مین سٹریم میڈیاپوری طرح گول کرگیا،جبکہ دوسری طرف بھیماکورے گاؤں سانحے کے سلسلے میں عام طورپر نہایت منفی رپورٹنگ کی گئی، ملک کے معزز شہریوں کونکسلائٹ قراردیاگیا،انھیں ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث بتایاگیا اور حالیہ گرفتاری پر بھی میڈیانے اپنی ذمے داری کے برخلاف ہی کردار اداکیاہے۔
ہندوستانی سیاست کاعمومی مزاج یہ ہے کہ آدی واسیوں اور دلتوں پر ہونے والے مظالم کو ہر حکومت (چاہے کانگریس کی ہویابی جے پی کی)یہ کہہ کر صحیح ثابت کرتی رہی ہے کہ یہ کارروائیاں نکسل انتہاپسندوں کے خلاف کی گئی ہیں،مسلمانوں کی مجموعی طورپر، خاص کر انتخابی پس منظرمیں اب کوئی سیاسی شناخت نہیں رہی،مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ دلت اور آدی واسی قبائل اب بھی تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے بڑے ووٹ بینک کی حیثیت رکھتے ہیں،مگر ان دلتوں اور آدی واسیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکنان کی حالیہ گرفتاریوں کے ذریعے حکومت واضح طورپر دلتوں کے موقف،اغراض اور مسائل کے تئیں اپنی بے توجہی کا ثبوت دے رہی ہے، حالاں کہ بی جے پی اور خاص کر مودی توایسا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے،جہاں وہ اپنے آپ کو دلتوں کا ہمدرد ومسیحا ثابت کرسکیں،اس وقت پورے ملک سے ہزاروں غریب،دلت،محروم واقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان بے گناہ جیل میں بند ہیں،جن کے لیے انصاف کی لڑائی ایسے ہی لوگ لڑتے ہیں،اب حکومت نے ان لوگوں کوبھی گرفتار کرکے ان ہزاروں لوگوں کو انصاف سے محروم کرنے کی سمت میں قدم بڑھایاہے اور یہ باقی ان لوگوں یااداروں کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی ہوسکتی ہے ،جوملک کے مظلوموں،مجبوروں اوردبے کچلے انسانوں کے انصاف کی لڑائی لڑرہے ہیں۔