مدرسہ عربیہ دارالقرآن کے زیر اہتمام ٹوڈر پور جمنا نگر میں امن عالم کانفرنس کا انعقاد
جمنا نگر : (پریس ریلیز ) گزشتہ روز موضع ٹوڈر پور جمنا نگر میں مدرسہ عربیہ دارالقرآن کے زیر اہتمام امن عالم کانفرنس کے عنوان سے عظیم الشان اجلاس عام کا انعقاد کیا گیا پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ انگریزی زنان و ادب کے نگراں و استاد مولانا توقیر احمد قاسمی کاندھلوی نے فرمایاکہ اسلام امن و شانتی کا مذہب ہے یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو السلام علیکم کہتے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے کہ تمہارے اوپر سلام ہو امن ہو شانتی ہو اور اس دنیا میں جو امن کے سب سے بڑے پیغامبر تھے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی سیرت سے اخلاق سکھائے ،حضور نے اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف کردیا،اس موقع پر مولانا توقیر احمد قاسمی نے متعدد واقعات بھی سنائے اس موقع پر پروفیسر راما کرشن راؤ کی کتاب ’’ ”Muhammad the prophet of islam”کا بھی ذکر کیا اس کتاب میں پروفیسر راما کرشن راؤ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی شعبے ہو سکتے ہیں سب کے اندر محمد ہیرو ہیں ،مولانا نے مزید کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا میں امن و شانتی کا ماحول بنے تواخلاق محمدی کو اپنانا پڑے گا حضور کے اخلاق کو جہاں بھی اپنایا جائے گا وہاں امن و شانتی کی فضا ضرور قائم ہوگی ،حضور نے فرمایا لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملو ،اسی طرح فرمایا جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کردو جو براکرے اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرو اگر ہم اس طریقہ ا ور اصول کو اپنائیں گے تو دنیا ضرور امن کا گہوارہ بن جائے گا ،اس عظیم الشان اجلاس عام میں بڑی تعداد میں دیگر مذاہب کے لوگوں نے بھی شرکت کی ۔
https://youtu.be/laeu7vDWQP4
ستمبر 2018
مشرف عالم ذوقی
منزل ایک بلندی پر اور ہم بنا لیتے
عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکاں اپنا
غالب کے اس شعر کی حقیقت 1985 میں اس وقت کھل کر سامنے آئی جب میں پہلی بار نند کشور وکرم سے ملا۔ یہ وہی سال تھا جب میں وطن آرہ کی گلیاں چھوڑ کر اس شہر میں آیا تھا، جس کے بارے میں اکثر سننے کو ملتا تھاکہ ہنوز دلی دور است۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شہر آرہ کی پر پیچ گلیوں اور میری خاموش تنہائی میں شہر دہلی میرے لیے صرف ایک مخصوص قسم کی فنتاشی کا حصہ تھا۔ ایک ایسا شہر، ایک ایسا دارالسلطنت، جو کبھی راجہ مہاراجاﺅں اور بادشاہوں کے دم سے آباد رہا تھا۔ ایک ایسی دہلی جو محمد بن قاسم، محمود غزنوی، محمد غوری، امیر تیمور، مغلیہ سلطنت کے شہزادوں اور نادر شاہ تک کبھی لٹی، کبھی جنگ کے نقارے بجے، کبھی سڑکوں پر خوں آشام جنگوں کے نظارے سامنے آئےاور کبھی فیاضی وسخاوت کی ایسی داستانیں سننے کو ملیں کہ دہلی کا تصور پیدا ہوا تو دونوں جہان کی نعمتوں سے بڑھ کر ایک ایسی علامت یا فنتاسی کی صورت، جہاں خواب کی مخملی دھند میں اس شہر کو قریب سے دیکھنے کا تجسس بڑھتا جاتا تھا۔ میرا تعلق ادب سے تھا اور ظاہر ہے ادب کے ایسے بانکے شہزادے جو دلی میں تھے، مجھے طلسماتی اور پر فریب کہانیوں کے کردار لگتے تھے۔ راجندر یادو، رفعت سروش، ڈاکٹر محمد حسن، ظفر پیامی، جوگندر پال، قمر رئیس، ڈاکٹر خلیق انجم۔ ہزاروں نام اور ان ناموں کے درمیان ایک نام اور بھی تھا، جس کی کشش مجھے اپنی طرف کھینچتی تھی۔ یہ نام نند کشور وکرم کا تھا۔ ان کے رسالہ "عالمی اردو ادب” نے کم وقت میں اپنی شناخت قائم کرلی تھی۔ دلی آنے کے کچھ مہینوں میں ہی نند کشور وکرم سے ملاقات کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ آج تک جاری ہے۔ پہلی ملاقات کرشنا نگر والے گھرمیں ہوئی۔ محبت کرنے والے ایک دوست کا چہرہ جس میں تصنع اور نمائش کاکوئی دخل نہ تھا اوروکرم صاحب کے ساتھ بھابھی کی دلنواز شخصیت نے میرا دل جیت لیا۔
دلی کے لمبےسفر میں بھابھی کی دلکش، غیرمعمولی اور مقناطیسی شخصیت میں حقیقی طور پر اس جملے کی معنویت کو محسوس کیا تھا کہ ہرکامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے۔ بھابھی کا تعلق ادب سے نہیں تھا، مگر ادب کے وسیع تر معنوں میں ان کے نزدیک وہ شخصیت محبوب تھی، جس کا نام نند کشور وکرم تھا۔اور اسی لئے بھابھی وکرم صاحب اور ان سے ملنے والے دوستوں کے لئے ایسی مضبوط کڑی تھی، جس کے بغیر ان د نوں اور آج بھی وکرم صاحب کی شخصیت کی مختلف پرتوں میں جھانکا نہیں جاسکتا۔ وہ وکرم صاحب کی شخصیت میں ایسے تحلیل ہوگئی تھیں، جیسے حساس انسان اکثر ماضی کی یادوں میں یا اپنے ہی گمشدہ عکس میں ضم ہوجاتا ہے یا گم ہوجاتا ہے۔ دو تین برس کا عرصہ ہوا، میں لکھنو میں تھا، جب یہ خبر سننے کو ملی کہ بھابھی ہمارے درمیان نہیں رہیں۔ ایک دھماکہ ہوا،وکرم صاحب کی شخصیت ابھری تو انتظار حسین کی شہرہ آفاق کہانی نرناری کی یاد تازہ ہوگئی۔ نر اور نرناری ایک ہی جسم کا حصہ۔ تو کیا بھابھی نے جسم کو الوداع کہا اور اپنی پاک وشفاف روح کے عکس کووکرم صاحب کے قلب میں منتقل کردیا؟ ایک بڑی زندہ حویلی میں دو ہی زندہ کردار تھے، جن کی خاموشی بھی اس گھر کی رہگزر کو محبت کی رہگزر کا نام دیتی تھی ـ ایک چلا گیا تو اتنی بڑی حویلی میں محبت کا بزرگ بانکا سلطان کیسے جیئے گا؟ دہلی واپس آیا، وکرم صاحب سے ملا تو مجھے اس کا جواب مل گیا۔ یہ بھابھی کے انتقال کے بعد ان سے پہلی ملاقات تھی۔ کرشنا نگر والا گھر وہ فروخت کرچکے تھے۔ دوسرا گھر بھی کرشنا نگر میں ہی لیا تھا۔ اس گھرمیں بھی بھابھی کی دلنواز مسکراہٹیں استقبال کیا کرتی تھیں اور گھر کے ہر نقش میں وکرم صاحب سے کہیں زیادہ بھا بھی زندہ ہوا کرتی تھیں۔ ڈرائنگ روم میں بھابھی کی ایک بڑی سی تصویر تھی، جس پر تازہ پھولوں کی مالا پڑی ہوئی تھی۔ خاموش ماحول، گہرے سناٹے، اور نہ ختم ہونے والی ویرانی میں اب بھی بھابھی کے آنے جانے کی آہٹیں محسوس کررہاتھا۔ وکرم صاحب نے میری طرف دیکھا اور غیر جذباتی لہجے میں گویا ہوئے۔
’میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ وہ میرے ساتھ نہیں ہیں۔‘
’کیوں؟‘
’وہ اکثر مندر جایا کرتی تھیں، یا پھر گھریلو شاپنگ کے لیے۔ مجھے بس یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ مندر گئی ہیں۔ ابھی لوٹ آئیں گی۔‘
کہتے ہیں سلطان محمود نے اراکین سلطنت کی عقل وفہم کا امتحان لینے کے لیے خزانۂ شاہی سے ایک موتی نکلوایا اور وزیروں سے دریافت کیا کہ اس کی قیمت کیا ہے؟ اور یہ بھی کہا کہ اس موتی کو ریزہ ریزہ کردو۔ ہر وزیر نے ایک دوسرے کی تقلید کی اور شاہی خلعت کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیے، مگر موتی کو ریزہ ریزہ نہ کرسکے۔ آخر میں سلطان نے ایاز کو طلب کیا اور یہی سوال دہرایا۔ ایاز نے بیش بہا موتی کو بادشاہ کے حکم پر توڑ دیا اور فرمایا۔ ’آپ سب کی نظریں موتی پر تھیں جب کہ میری نظر بادشاہ پر۔ میں موتی کا رخ کیوں کروں گا۔؟‘
گوہر امر شاہ بود اے ناکساں
جملہ بشکستید گوہر رامیاں
اصلی موتی تو سلطان کا حکم تھا۔ وکرم صاحب کے لیے اصل حقیقت تو وہ روح تھی جو ان کے قلب سے کبھی اوجھل نہیں ہوئی،جسم ایک خیال تھا جو ٹوٹ کے الگ ہوگیا۔ روح ایک دائمی حقیقت جو قلب کے نور میں پیوست ہوگئی۔
ایاز کی طرح میری آنکھیں ابھی بھی نوے کی دہلیز پر قدم رکھنے والے اس بزرگ بادشاہ پر مرکوز ہیں، جس کی تنہائی، دنیائے فانی سے الگ عشق حقیقی کے صحرا میں رقص کررہی ہے،بھابھی کے بعد وہ پہلے سے کہیں زیادہ مصروف ہوگئے ہیں، کبھی کبھی بچے ملنے آجاتے ہیں،کبھی کوئی دوست آگیا۔ حویلی کے کئی کمروں والے مکان میں وہ اکیلے رہتے ہیں؛ لیکن تنہائی انہیں ڈستی نہیں۔ زندگی انہیں بوجھل نہیں کرتی۔ زندگی سے انہیں کوئی شکوہ نہیں۔ دن کی مصروفیت انہیں اپنے حصار میں لیے رہتی ہے اور شب تنہائی انہیں کسی طرح کی اذیت نہیں پہنچاتی۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں،جو اپنی وسیع تردنیا اپنے اندر آباد کرکےخوش وخرم رہتے ہیں۔ کوئی ملنے والا آجائے تو خود ہی چائے بناتے ہیں۔ بار بار اٹھ کر کچن کی طرف جاتے ہیں۔ ناشتہ لگاتے ہیں۔ دوپہر کا وقت ہو تو لنچ حاضر ہے۔ مگر یہ بھی جان لیجئے کہ یہ سب وہ تن تنہا کرتے ہیں۔ وہ کسی کے محتاج نہیں۔ کسی کی بھی خدمت قبول نہیں کرتے۔ عام دنوں میں بھی ناشتہ، کھانا ہر طرح کی ضروریات کے لیے وہ کسی کو شریک اس لیے نہیں کرتے کہ اس عمرمیں بھی انہیں خود پر بھروسہ ہے۔ وہ نہ ختم ہونے والی کافر تنہائی کی شدت سے مایوس اس لیے نہیں ہیں کہ تنہائی ان کی بہترین دوست بن چکی ہے۔ خلوت وجلوت میں ان کا سب سے بڑا سہارا ادب ہے۔ نوے برس کی عمر میں بھی ان کے پاس ادبی کام کرنے کے لیے ہزاروں پلاننگس ہیں۔ ہزاروں خواب ہیں،وہ مایوسی، محرومی، ناکامی اور تاریکی کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے۔ میں نے اپنی ۴۵ سالہ زندگی میں تنہائی کو شان سے جینے والا پہلا بادشاہ دیکھا ہے۔ ورنہ اس عمر میں آتے آتے بلکہ اب تو پچاس کی عمر کے بعد ہی موت کا احساس ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیتا ہے۔ یہ احساس خوابوں کو روندتا ہوا محرومی اور مایوسی کی دھند بن کر مستقبل پر حاوی ہوجاتا ہے۔ مگر یہاں اس عمر میں ایک خوبصورت مستقبل کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔
بھابھی اب بھی ہر لمحہ ان کے ساتھ ہیں اور وہ چوبیس گھنٹے میں زیادہ تروقت ادب کے ساتھ گزارنا پسند کرتے ہیں۔ ایک اکیلا شخص ایک ادارے کے طور پر کام کررہا ہے۔ اب ذرا یہ منظر دیکھیے۔ میں کال بیل بجاتا ہوں، دروازہ کھلتا ہے۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میں ان کے کمرے میں آجاتا ہوں،وہ کمپیوٹر پر کام کررہے ہیں۔ چائے ناشتہ کے بعد کچھ دیر گفتگو ہوتی ہے۔ وہ پرانے دوستوں کا تذکرہ کرتے ہیں،کبھی کبھی فاروق ارگلی اور خالد اشرف بھی آجاتے ہیں۔ یادوں کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے ان کے پاس۔ وقت نکال کر وہ بھولے بسرے دوستوں کو فون کرتے ہیں۔ دوست یار اگر اللہ کو پیارے ہوچکے، تو وہ ان کے گھر کی خیر خبر دریافت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ کمپیوٹر پر دو بارہ کام شروع کردیتے ہیں۔ ان پیج سافٹ ویئر کا عکس اسکرین پر ابھرتا ہے۔ انگلیاں ٹائپ کررہی ہیں۔ گھر میں کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اپنی کتابیں وہ خود کمپوز کرتے ہیں۔ ٹائٹل بناتے ہیں،پرنٹر کے پاس لے کر جاتے ہیں۔ کبھی کار کبھی اسکوٹر کا استعمال کرتے ہیں اور کبھی کبھی شان سے گاڑی چلاتے ہوئے ریڈزون میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس موقع پر ایک پیاری سی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر پیدا ہوتی ہے،سینئر سٹیزن ہوں۔ کوئی کچھ نہیں بولے گا۔ وہ سینئر سٹیزن ہونے کا فائدہ صرف کار چلاتے وقت ہی اٹھاتے ہیں، ورنہ عام زندگی میں وہ کسی طرح کا کوئی بھی فائدہ اپنے لیے اٹھانا نہیں چاہتے۔
جب وکرم صاحب کمپوٹر پر ٹائپ کررہے ہوتے ہیں، میں رشک سے ان کی طرف دیکھتا ہوں۔ کئی بار آنکھوں میں ننھے منے قمقمے روشن ہوتے ہیں۔ کئی سوال ہونٹوں پر منڈلاتے ہیں۔ کیا وکرم صاحب جیسا کوئی ایک شخص بھی اس دنیا میں ہے؟ ایکلا چلو رے کی آواز ٹیگور نے اٹھائی تھی؛لیکن اس ایک اکیلے شخص نے تنہائی کی عظیم اور وسیع کائنات سے اردو زبان کے فروغ کے لیے جو قیمتی موتی اردو ادب کوتحفے میں دیے ہیں، کیا وکرم صاحب سے الگ کوئی ایک مثال بھی دی جاسکتی ہے؟ عالمی اردو ادب کے خصوصی شمارے دیکھ لیجیے۔ انتظار حسین، علی عباس حسینی جیسی عظیم ادبی شخصیتوں پربیسیوں نمبر۔ مذاہب نمبر۔ سینما نمبر۔ اردو سے ہندی میں ترجمہ کی تیس سے زائد کتابیں۔ منٹو اور تقسیم ملک پر کتابیں،مصور تذکرے، آج کا تذکرہ کیجئے تو وہ غالب پر تحریر کی گئی کچھ پرانی کتابوں کو زندہ کرنا چاہتے ہیں، اس حویلی کے ایک کمرے میں سمٹا ہوا ایک شخص اپنے آپ میں ایک بڑے ادارے کی طرح اردو کی خدمات انجام دے رہا ہے اور اس تنہا کمرے میں اسے چائے پلانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ ٹائپنگ سے پیج سٹینگ تک کا سارا دار ومدار اس شخص پر ہے، جس نے کبھی خود کو نوے برس کا بزرگ سمجھ کر مایوسیوں کے حوالے نہیں کیا۔
مجھے کسی بھی زبان کی تاریخ میں ایسے کسی ایک شخص کا نام بتا دیجیے!حقیقت یہ ہے کہ نند کشور وکرم کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ خدا سب کو وکرم نہیں بنا سکتا۔ ایک بات اور کہتا ہوں۔ غور کیجئے گا۔ اس دنیا میں کون ہے جو ناشکرا نہیں؟ پریشانیاں، الجھنیں زندگی میں راستہ بناتی ہیں تو ہم ناشکرے ہوجاتے ہیں؛لیکن برسوں کی رفاقت میں شکر کا کلمہ پڑھنے والا پہلا شخص دیکھا، جہاں ناشکری کی لہریں، اس کے قریب آتے آتے خوفزدہ ہوکر لوٹ جاتی ہیں۔
کچھ مکالمے دیکھئے، وکرم صاحب کا فون آتا ہے۔
ذوقی صاحب۔ عینی آپا گزر گئیں۔ آپ چلیں گے—؟
’ہاں ضرور۔‘
انور عظیم نہیں رہے۔ آپ چلیں گے۔‘
’جی ہاں۔‘
ڈاکٹر محمد حسن نہیں رہے۔ پروفیسر شکیل الرحمن گزر گئے۔ جان پہچان کی شخصیت ہو یا کوئی غیر معروف ادیب۔ وکرم صاحب کا فون ضرور آتا ہے۔ ایسے کئی مواقع آئے جب میں ان کے ساتھ شامل ہوا۔ شامل نہیں بھی ہوا۔ ابھی ایک برس قبل کی بات ہے۔ میں وکرم صاحب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک میں نے ایک سوال داغ دیا۔
’ایک بات پوچھوں وکرم صاحب۔‘
’ضرور پوچھیے۔‘
’سوچ کر بتائیے گا۔ اپنی پوری زندگی میں، کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ آپ نے کسی کے مرنے کی خبر سنی ہو اور نظر انداز کیا ہو۔؟‘
وکرم صاحب کے لیے سوچنے کا موقع تھا ہی نہیں— جواب ان کے ہونٹوں پر تھا— ’ایسا کبھی نہیں ہوا۔ میں خوشی کے لمحات کو بھلے نظر انداز کردوں؛لیکن سوگ کے لمحات میں جانا نہیں بھولتا۔‘
دوستو! یہ ہیں وکرم صاحب ـ اب ایسا کوئی ایک نام آپ پھر سے سوچ لیجیے، جواب نہیں میں ملے گا۔ دکھ سکھ کے موقع تو دور کے ہوئے، ایسے بھی وکرم صاحب سارا سارا دن جاننے والوں کی خبریں فون پر لیتے رہتے ہیں، کسی کے مرنے کی اطلاع مل جائے تو وکرم صاحب نہ جائیں، ایسا ممکن نہیں ہے۔ ان کی مقناطیسی شخصیت کے ہزار پہلو ہیں اور شخصیت کے ہر فریم میں سب سے روشن تصویر انسانیت اور انسان نوازی کی ہے۔ دیویند اسر سے گہری دوستی تھی۔ ایک جان دو قالب۔ یہ اردو کی زندہ تاریخ کا شرمسار کرنے والاواقعہ ہے کہ اتنا بڑا ادیب خاموشی سے چلا گیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی، وکرم صاحب ان کی خیریت لیتے رہتے تھے۔ جب فون پر بھی رابطے کی صورت پیدا نہیں ہوئی تو اسر صاحب سے ملنے ان کے گھر چلے گئے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ ادھر ادھر دیکھا۔ آواز لگائی؛ لیکن سب بے سود۔ اسر صاحب ایک چھوٹے سے کمرے میں قیدی کی حیثیت سے رہتے تھے۔ پورا گھر بیوی اور بچوں کے نام تھا۔ اب وکرم صاحب نے ہمت کی۔ بیل بجائی۔ شاید اسر صاحب کا کوئی عزیز باہر آیا۔ اس نے بتایا کہ اسر صاحب کو گزرے کئی دن ہوگئے— دروازہ بند ہوگیا۔ دوست کے چلے جانے سے زیادہ بڑا غم یہ تھا کہ اردو نواز حلقوں میں اور اسر صاحب کے جاننے والوں میں یہ خبر کسی کو نہیں معلوم تھی۔ وکرم صاحب مسلسل رابطے میں نہ ہوتے تو یہ خبر بھی اردو دنیا تک پہنچنے سے محروم رہتی۔
وکرم صاحب کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو ہے ان کی بے نیاز طبیعت۔ جو بھی ان سے ایک بار ملا۔ وہ ان کا ہو کر رہ گیا۔ وہ تعلقات میں بال آنے کے قائل نہیں۔ وہ اپنی کتابوں کی پبلی سیٹی بھی نہیں کرتے۔ لیکن انہیں اچھی کتابوں کو ترتیب دینے اور اردو ہندی دونوں زبانوں میں لانے کا ایک جنون سوار ہے۔ ہنس راج رہبر، کشمیری لال ذاکر ، علی عباس حسینی، بلونت سنگھ، مقبول ترین مصنفین پر ان کی کتابیں اس لائق ہیں کہ انہیں محفوظ کیا جائے۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اکیلے وکرم صاحب نے عظیم ادبی شخصیات پرجو کتابیں ترتیب دی ہیں، ان میں کئی نام ایسے ہیں کہ ان کتابوں کو اگروکرم صاحب ترتیب نہیں دیتے تو یہ کتابیں بھولے بسرے وقت کا قصہ بن کر رہ جاتیں۔ کیا ہنس راج رہبرکوکوئی یاد کرتا؟ کیا کشمیری لال ذاکر کو اتنی محبت سے یاد کیا جاتا؟ کیا تیرتھ رام فیروز پوری، اکرم الہ آبادی، مظہر الحق علوی جیسے سیکڑوں ناموں پر کسی کی نگاہ جاتی؟ اردو کے غروب ہوتے سورج نے ہم سے کیا کچھ نہیں چھین لیا۔ سراج انور، نیاز حیدر، ادبی قصے، فلمی قصے، آپ وکرم صاحب کی ادبی صحبت میں گفتگو سے دو چار ہیں تو پرانی داستانیں عمرو عیار کی زنبیل سے نکل نکل کر آپ کے حافظے کے دسترخوان پر سج جاتی ہیں۔ ادب کے گمشدہ کردار زندہ ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔ ہرملاقات میں وہ اردو کے گمشدہ بانکے شہزادوں کا ذکر خیر لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اب سوچتا ہوں، ان قصوں داستانوں کو کون زندہ رکھے گا؟ ہمارے ہرنقاد نے اپنی ڈھائی اینٹ کی مسجد آباد کررکھی ہے؛ لیکن ادب کے گمشدہ تہہ خانے سے ادبی خزانے برآمد کرنے والا شخص اس اردو دنیا میں ایک ہی ہے۔ وہ ایک سچے اور ایمانداری ترقی پسند ہیں۔ ایک پوری زندگی انہوں نے ترقی پسند آئیڈیالوجی کا طواف کرتے ہوئے بسر کی ہے اور اب بھی زندگی کے اس موڑ پر بھی وہ مضبوطی کے ساتھ ترقی پسندی کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔
ہزاروں واقعات ہیں،جو اس وقت آنکھوں کے پردے پر کسی یادگار کتاب یا نہ بھولنے والی فلم کی طرح روشن ہیں۔ میں اس روشنی سے ایک صفحہ برآمد کرتا ہوں۔ ابھی کچھ روز پہلے میں نے ایک بار پھر جب ان سے تنہائی اور ویرانی کا رونا رویا، تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’ذوقی صاحب! میں اپنی شرطوں پر جیتا ہوں۔ زندگی جینا بہت آسان ہے۔ جو جی میں آیا کھایا۔ جو جی میں آیا پڑھ لیا۔ جو جی میں آیا، لکھ لیا۔ رات ہوئی تو کوئی فلم دیکھنے بیٹھ گیا۔ غزلیں سننے کی خواہش ہوئی تو کوئی اچھا سا کیسٹ لگا لیا۔ نیند آنے لگی تو سو گئے۔‘
کیا زندگی اتنی آسان ہے؟ یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان وکرم اتنی مشکل زندگی کہ الجھنوں اور مسائل سے گھبرا کر ایک زندگی میں ہم کتنی بار مر جاتے ہیں، اتنی مشکل زندگی کہ کبھی دعاﺅں کا آسرا کبھی مندر کا چکر، اورکبھی آشرم اور خانقاہوں میں جا کر سکون کی تلاش، اتنی مشکل زندگی کہ کبھی یوگ، سادھنا اورروحانیات کی تلاش؛ لیکن وکرم صاحب نے اس مشکل زندگی کوصرف اپنے دم سے آسان اور گلزار بنارکھا ہے۔ صد ہزار اندر ہزاراں یک تن اند۔ ہزاروں لاکھوں کی بھیڑ میں کہیں ایک ایسا صاحب نصیب پیدا ہوتا ہے اور یہ صاحب نصیب خدا کے بھروسے نہیں، اپنا نصیب خود لکھتا ہے اور اسی لیے اس عمر میں بھی وکرم صاحب نے بے تکان لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ عرش سے پرے، بلندی پر جو ایک منزل ہے، وہاں ہونے کا حق صرف وکرم صاحب کو ہے۔ زندگی میں یہ بلندیاں عام انسانوں کے نصیب میں نہیں ہوتیں۔
[email protected]
انجم سلیمی
فلک نژاد سہی،سر نِگوں زمیں پہ تھا میں
جبین خاک پہ تھی اور مری جبیں پہ تھا میں
گُندھی پڑی تھی مری خاک خال وخد کے بغیر
ابھی ہُمکتا ہوا چاکِ اوّلیں پہ تھا میں
یہ تب کی بات ہے جب کُن نہیں کہا گیا تھا
کہیں کہیں پہ خدا تھا کہیں کہیں پہ تھا میں
نیا نیا میں نکالا ہوا تھا جنت سے
زمیں بنائی گئی جن دنوں،یہیں پہ تھا میں
خدا کا حکم بجا، بد گمانی اپنی جگہ
غلط نہ تھا مرا انکار, اس یقیں پہ تھا میں
خدا کے جھگڑے میں آخر دماغ ہار گیا
کہ دل ثبات میں تھا اور نہیں نہیں پہ تھا میں
ڈاکٹر منور حسن کمال
٢۰ویں صدی کے آغاز میں ہندو۔مسلم اتحاد پر یقین رکھنے والی عبقری شخصیتوں میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ ساتھ گاندھی جی کا نام بھی نمایاں ہے۔ یہ قومی رہنما آسمانی سیاست پر اچانک نمودار نہیں ہوگئے تھے، بلکہ انہوں نے اپنے اخبارات الہلال(ابوالکلام آزاد) اور کامریڈ(محمد علی جوہر) کے ذریعہ قوم کے نوجوانوں میں عقابی روح پھونکنے کی انتھک کوششیں کی تھیں۔ گاندھی جی جب افریقہ سے واپس ہندوستان آئے تو وہ بھی اپنے جدوجہد آزادی سے پر مضامین کی اشاعت کے سبب ایک عظیم قائد کے طور پر نمایاں نظر آنے لگے تھے۔ آزادی کی راہ متعین کرنے والی ان تینوں شخصیتوں نے ہندو۔مسلم اتحاد کے لیے نہ صرف قائدانہ کردار ادا کیا، بلکہ برصغیر ہند کے دوردراز علاقوں تک ان کے مضامین اور ولولہ انگیز تقریروں نے نوجوانوں میں جوش و ولولہ بھردیا۔ انہو ں نے محسوس کرلیا تھا کہ ملک کی آزادی کے لیے اتحاد اور اظہار یگانگت کتنا ضروری ہے۔
قاضی عدیل عباسی نے اپنی کتاب ’تحریک خلافت‘ میں گاندھی جی کی خلافت کے سلسلے میں خدمات اور ان کی ہندو۔مسلم اتحاد کی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’19مارچ 1920 کو مہاگاندھی کے مشورے سے خلافت کمیٹی نے تمام ہندوستان میں یوم خلافت منانے اور قوم کو ستیہ گرہ کے لیے تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘(تحریک خلافت، قاضی عدیل عباسی، نئی دہلی ص143-، 1997ء)
تحریک خلافت کے دوران پورا ہندوستان ایک لڑی میں پرویا ہوا نظر آتا تھا۔ ایک ہی سطح پر ہندو۔مسلم قائدین اپنی اپنی قوم کو اتحاد و یگانگت کا سبق پڑھاتے نظر آتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ان میں کوئی تفریق ہے ہی نہیں۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی ہندو۔مسلم اتحاد کے علمبرداروں میں پہلی صف کے رہنماؤں میں شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی ’تلاش حق‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ میرے پاس ہندوؤں اور مسلمانوں کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں شریک ہونے کی دعوت آئی، جو مسئلہ خلافت پر غور کرنے کے لیے دہلی میں منعقد ہورہی تھی۔ کانفرنس میں میں نے اپنی تقریر میں اس بات پر روشنی ڈالی کہ ’اگر خلافت کا مسئلہ جیسا کہ میں سمجھتا ہوں حق پر مبنی ہے اور اگر حکومت نے اس معاملے میں صریح ناانصافی کی ہے تو ہندوؤں کا فرض ہے کہ وہ اس کی تلافی کے مطالبے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں۔‘
تحریک خلافت سے متعلق گاندھی جی کا خیال تھا کہ اس کا وجود کم سے کم معنی میں سیاسی نہیں تھا۔ حالاں کہ اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ تحریک خلافت میں شمولیت سے گاندھی جی کا مدعا برصغیر ہند کا مستقل قومی مفاد تھا۔ وہ اس تحریک کو جدوجہد آزادی کی طرف موڑ دینا چاہتے تھے اور بعد کے حالات نے یہ ثابت بھی کردیا۔(تاریخ تحریک آزادئ ہند، تاراچند، مترجم قاضی عدیل عباسی، نئی دہلی ص۔707-9، 1985ء)
مہاتماگاندھی کتنے شدومد کے ساتھ ہندو۔مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے، اس کی تائید مولانا ابوالکلام آزاد کے 25اگست 1921کو پیش کیے گئے خلافت کانفرنس کے خطبۂ صدارت کے ان الفاظ سے ہوتی ہے:
’ہمارے ہندو بھائیوں نے کامل صداقت کے ساتھ تحریک خلافت کا استقبال کیا اور اپنی تمام تر ہمدردیاں اس کے لیے وقف کردیں…. میں نام لوں گا گاندھی جی کا، وہ اس تحریک کے اولین اور سب سے بڑے رفیق تھے کہ جنہوں نے اس تحریک کا ساتھ دیا۔‘(انتخاب خطبات خلافت مرتبہ محمود الٰہی، ص۔82-83 ، اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ)
تحریک خلافت کے پروگراموں پر غورکرنے سے ہر کوئی یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کوئی ملی قومی رہنما ہے جو ہر جگہ اپنی حیثیت تسلیم کراتا ہے، کبھی وہ علم بغاوت بلند کرنے والا پہلا شخص ہوتا ہے، کبھی اپنی قوم کو مسلمانوں کا ساتھ دینے کی اپیل کرتا ہے، کبھی تحریک خلافت کو مستقل قومی مفاد سے تعبیر کرتا ہے، ہر جگہ اس قائد کی شان نرالی نظر آتی ہے، یہی شان تھی گاندھی جی کی جو اپنی تمام تر جدوجہد اور روشن اور تابناک و منفرد استقلال کے ساتھ ہندو۔مسلم اتحاد کے پلیٹ فارم پر ثابت قدم نظر آتے ہیں۔
گاندھی جی کی تمام تقریروں کا محور ہندو۔مسلم اتحاد ہی ہوتا تھا۔ لاہور خلافت کانفرنس کے اجلاس میں انہوں نے مسئلے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی قوم کو اس طرح سمجھانے کی کوشش کی:
’تمام ہندو۔مسلم میل ملاپ کی بات کرتے ہیں، یہ ایک خالی جمع خرچ ہے۔ اگر ہندو اس وقت جب کہ مسلمانوں کا مفاد خطرے میں ہے، مسلمانوں سے الگ رہیں گے، جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ہندو اپنے مسلمان ہم وطنوں کو چند شرطوں کے ساتھ مدد دے سکتے ہیں تو یہ شرط والی امداد ایک ملاوٹی سیمنٹ ہے جو کبھی دیوار کو مضبوط نہیں بناتا…‘
دسمبر1919ء میں انہوں نے پھر ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے ہندو۔مسلم اتحاد کو اس طرح اجاگر کرنے کی سعی کی:
’’ہمارے مسلمان بھائیوں کے دل خلافت اور مقامات مقدسہ کے مسئلے کی وجہ سے بے چین ہیں اور ان کے ساتھ یوروپین اقوام بہت زیادتی اور بے انصافی کررہی ہیں، لہٰذا تمام ہندوؤں اور بھارتیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے غمزدہ بھائیوں کا ساتھ دیں۔(ہندوستانی مسلمانوں کا جنگ آزادی میں حصہ، سید ابراہیم فکری، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی ص189-90)
مہاتماگاندھی کہا کرتے تھے کہ یہ میری بالکل ذاتی اور اخلاقی ذمہ داری کا احساس ہے جس نے مجھے مسئلہ خلافت کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے تیار کیا ہے۔ اس معاملے میں مجھے مسلمانوں کے ساتھ کامل اتفاق ہے۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یگانگت کی ہمت افزائی کررہا ہوں۔
26جنوری 1921کے ینگ انڈیا میں گاندھی جی نے لکھا تھا:
’میں ذاتی طور سے اس خوداختیاری حکومت کے لیے کوشش کررہا ہوں، جس کا اس میں ذکر ہے، لیکن آج میری اجتماعی کوششوں کا رُخ قطعی طور سے ایسے پارلیمانی سوراج کے حصول کی طرف ہے، جو ہندوستانی عوام کی خواہشات کے مطابق ہو۔‘
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، مہاتماگاندھی، مولانا حسین احمد مدنی اور پنڈت جواہر لعل نہرو ہر ایک یہی خواب دیکھ رہا تھا کہ جو ہندو۔مسلم اتحاد اس وقت قائم ہوا ہے، وہ قائم رہے اور اسی کی بنیاد پر ہم آزادی حاصل کریں۔ اسی سلسلے میں تحریک عدم تعاون شروع کی گئی۔ تحریک عدم تعاون کا مقصد درآمدی کپڑوں کا بائیکاٹ کرکے ہاتھ کے کتے اور ہاتھ کے بنے کپڑے کو فروغ دینا تھا تاکہ دیہاتوں اور قصبوں میں لوگ پہن سکیں۔ انہوں نے تحریک کے تطہیری حصے اور اس کے دروبین اور اخلاقی پہلوؤں کی طرف عدم تعاون کرنے والوں کو بار بار متوجہ کیا۔ اہنسا، پھوٹ اور نفرتوں کی بدعنوانیوں سے بیرونی حکومت مضبوط ہوتی ہے۔ اس لیے عوام کو ان برائیوں کے مقابلے میں اپنے بچاؤ کی ہر ممکن تدبیر کرنی ہوگی۔ وہ تبدیلی پہلے ہندوستانیوں میں اور پھر انگریزوں میں آنا تھی۔ اس کے لیے ہندوستانی عوام کی حکومت کا خوف دلوں سے مٹانا اور فرقہ پرستی، چھوت چھات، شراب خوری، جبری بیگار اور دوسری سماجی برائیوں کو اپنے سے دور کرنا لازم کیا۔ آج بھی جو لوگ ہندوستان کے سیکولرزم اور اتحاد و یگانگت کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ رنگارنگی اور اتحاد و یگانگت اس ملک کے خمیر میں شامل ہے، جسے کوئی منتشر تو کرسکتا ہے لیکن اسے ختم نہیں کرسکتا۔اسی لیے وقت کا تقاضا ہے کہ اتحاد اور اظہار یگانگت کو اس قدر عام کیا جائے کہ یہ ملک کے ہر فرد کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگے۔
گاندھی جی، محمد علی جوہر، مولوی شوکت علی، ابوالکلام آزاد اور حفظ الرحمن سیوہاروی وغیرہ آخری دم تک اپنے مضبوط موقف پر قائم رہے اور ہندو۔مسلم اتحاد پر برابر زور دیتے رہے۔ اتحاد و یگانگت گاندھی جی کا اتنا مضبوط اور مستحکم خیال تھا کہ جس کی مخالفت میں خود انہی کی قوم سے مختلف آوازیں اٹھتی رہیں، لیکن انہوں نے اس بات کی کبھی پروا نہیں کی اور بالآخر انہیں شاید اپنے اسی موقف کی پاداش میں جام شہادت نوش کرنا پڑا۔
تالیف: ڈاکٹرمحمدیوسف رامپوری
اشاعت: مرکزی پبلی کیشنز،نئی دہلی
قیمت: تین سوروپے
تبصرہ: امتیازشمیم
اردو برصغیر میں بولی جانے والی کئی زبانوں میں سے ایک ہے، یہ ایک شیریں زبان ہے، اس میں بلا کی جاذبیت ہے جو نہ صرف اردوداں طبقے کو اپنا اسیربنائے رکھتی ہے؛ بلکہ اجنبی اوراردو سےنابلد افراد کو بھی اپنی طرف کھینچتی اورانہیں اس زبان کو سیکھنے، سننے اور بولنے پر آمادہ کرتی ہے، یہی وجہ ہےکہ اردو جاننے والوں کی تعداد میں روزبہ روز اضافہ ہورہاہے اور اس کا دائرہ ہندوپاک کی سرحدوں کو پارکرکے خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں بھی بہ تدریج وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردوزبان وادب کو تغیرات زمانہ کےساتھ نت نئی مشکلات ومسائل کاسامناہے، تلفظ کا مسئلہ ان میں سر فہرست ہے جس کے تئیں یقینا بےتوجہی وبےاعتدالی برتی جارہی ہے، اہل زبان کواس طرف توجہ دینے اوراردو داں حلقے میں آگہی لانے کی ضرورت ہے، تبھی اردو زبان کی وہ مٹھاس اورجاذبیت برقراررہ سکتی ہےـ
حالیہ دنوں میں معرض وجود میں آئی "اردو میں تلفظ: معنویت اورمسائل” اسی قبیل کی ایک کتاب ہے، جو اردو زبان وادب کو تلفظ کےحوالے سے درپیش مسائل، ان کے اسباب اورتدارک کے موضوع پربحث کرتی ہے، تقریبا ایک سال قبل ۹/اکتوبر ۲۰۱۷ء کو مولانا فیروزاخترقاسمی نے مرکزی جمعیت علماکے زیراہتمام قومی کونسل برائےفروغ اردوزبان کے اشتراک سے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے نہروگیسٹ ہاؤس میں ایک سیمینار منعقد کیاتھا، جس کاعنوان تھا "اردو میں تلفظ کے مسائل: اسباب اورتدارک”، اس میں ہندوستان کے طول وعرض سے پروفیسرز، ڈاکٹرز اور ریسرچ اسکالرز سمیت اردو کی کئی معروف شخصیات نے شرکت کی تھی اور تحقیقی مقالے پیش کیے تھے، زیرتبصرہ کتاب انہی مقالات ومضامین کا مجموعہ ہے، جمع وترتیب کا کام ڈاکٹر یوسف رامپوری نے بہ خوبی انجام دیاہے، نیزانہوں نے کتاب میں دیگر اہل قلم سے لکھواکر مزید مضامین کا اضافہ کیاہے اور "اردو میں تلفظ کی اہمیت اور معنویت” کے عنوان سے ایک مفصل ومبسوط مقدمہ بھی لکھاہے، جس میں متعلقہ موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور تلفظ درست کرنے کے چار مؤثر طریقوں کی طرف رہنمائی بھی کی گئی ہے۔
کتاب کے مقالات کی کل تعداد انیس ہے، سب سےپہلا مضمون "اردو تلفظ: چند مشاہدات” ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی کالکھا ہواہے، ڈاکٹر صاحب چوں کہ سیمینار میں صدر کی حیثیت سے تشریف فرما تھے، سو انہوں نےاس مضمون میں بالاختصار سیمینار کے انعقاد کی وجہ اور اپنا تاثر پیش کیاہے، پھر مشاہدات کی روشنی میں انہوں نے اردو میں تلفظ کےبارے میں تین اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے، کتاب کے پانچ مضامین؛ پروفیسر علیم اشرف خان کا "اردو میں مستعمل فارسی وعربی الفاظ کا تلفظ واملا”، آصف اقبال جہان آبادی کا "اردو تلفظ پر عربی صوتیات کے اثرات”، ڈاکٹر جسیم الدین کا "اردو میں عربی الفاظ کا استعمال: ایک مطالعہ”، فاروق اعظم قاسمی کا "اردو کا صوتیاتی نظام” اور ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی کا "اردو میں مستعمل عربی کی چند ترکیبیں اور ان کا صحیح تلفظ” ایسے ہیں،جو عام طور سے اردو زبان کے الفاظ ومعانی اورتراکیب وصوتیات پر عربی زبان وادب کاجو اثرہے، اس پر روشنی ڈالتے اور اس سلسلے میں اردو لکھنے پڑھنے اور بولنے والوں سے جو غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ان کی نشاندہی کرتے نظرآتے ہیں،جبکہ تین مضامین خواجہ شبیرالزماں کا "اردو میں انگریزی الفاظ کی ادائیگی کا مسئلہ”، نوجوان مصنف واہلِ قلم نایاب حسن کا "سوشل میڈیا پر اردو تلفظ: مسائل، اسباب اور تدارک”، اور شہاب الدین قاسمی کا "قومی میڈیا اور اردوزبان وتلفظ” اس اعتبار سے اہم ہیں کہ ان میں انفارمیشن ٹکنالوجی اورانگریزی زبان کی روزافزوں اہمیت وغلبہ کے سبب ہر لمحہ بدلتےحالات میں اردو کے سامنے تلفظ اور لفظیات کے حوالے سے جو نئےنئےچیلنجزہیں ان پرتشفی بخش گفتگو کی گئی ہے، حبیب سیفی نے اپنے مقالے میں اردوزبان کی تشکیل وتعمیر میں کھڑی بولی کے اثرات کوبیان کرتےہوئے تلفظ کے پہلوپر بات کی ہے، ڈاکٹر محمد اطہرمسعود خان نے رئیس رامپوری کی تیارکردہ اردولغت روہیلکھنڈ کا تلفظ کےحوالےسے تحقیقی جائزہ لیاہےاور اس کی اہمیت وافادیت کو واضح کیاہے، ریسرچ اسکالر امیر حمزہ نے اردو لغت کی مشہور کتابوں فیلن کی ڈکشنری، فرہنگ آصفیہ، فرہنگ عامرہ اور جامع فیروزاللغات میں اردو تلفظ کی صورت حال پر گفتگو کی ہےاور ان میں موجود کمیوں وخامیوں سے قاری کو آگاہ کیا ہے، غلام نبی کمار کا مضمون "کشمیر میں اردو تلفظ کی صورت حال” بھی دلچسپ اورمفید ہے، ڈاکٹر سعد مشتاق حصیری کا مضمون "تلفظ اور اس کے استعمالات: فضلائے یونیورسٹیز اور مدارس کے تناظر میں” فارغین مدارس اور فارغین جامعات وکالجزکے درمیان تلفظ کے فرق کو بیان کرتاہے، اس کے علاوہ عبد الباری قاسمی کا "عہد جدید میں تلفظ کی صورت حال”، ارشاد سیانوی کا "اردو تلفظ: تحفظ اوربازیافت”، نازیہ کا "حروف تہجی اور اردو تلفظ” بھی گراں قدر اور معلومات افزا مقالے ہیں، سیکڑوں الفاظ پرمشتمل دو فرہنگ بھی شامل کتاب ہے، پہلا ڈاکٹر مشتاق قادری کاہے، اس میں بعض وہ الفاظ ہیں، جن کے غلط تلفظ سے معنی بدل جاتےہیں، دوسرے میں اردو میں زیادہ استعمال ہونے والے عربی الفاظ کو جمع کیاگیاہے، یہ مقالہ مرتب ڈاکٹر محمد یوسف رامپوری کاہے۔
بہرحال مجموعی طور پر کتاب کے تمام مضامین تحقیقی ہیں اور بہ قول مرتب یہ "نئے اور غیر مطبوعہ مضامین کا مجموعہ” ہے "گرچہ اس سے قبل بھی تلفظ پر کئی کتابیں زیورطبع سے آراستہ ہوچکی ہیں، مگر ان میں سے زیادہ تر کئی دہائیوں سے پہلے کی صورت حال کا نقشہ کھینچتی نظر آتی ہیں” جب کہ اس کتاب میں "نئے حالات اورنئے تقاضوں کو سامنے رکھ کر تلفظ پربات کی گئی ہے”، کتاب کی نشرواشاعت کا اہتمام مرکزی پبلی کیشنز نئی دہلی نےکیا ہے، طباعت شاندار اور ٹائٹل معیاری ہے، ۲۶۴ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ۳۰۰ روپے موزوں ہے، امید کرتاہوں کہ کتاب عوام وخواص کے ہاں مقبول ہوگی اور تلفظ کے حوالے سے دوسرے لوگوں کو کام کرنے کی تحریک ملےگی۔
مسلم پرسنل لابورڈ کاسوال:آزادانہ جنسی اختلاط قانوناََدرست ہے توحقوق کی ادائیگی کے ساتھ ایک سے زائدشادی ظلم کیوں؟
نئی دہلی29ستمبر(پریس ریلیز)
شادی شدہ عورت سے اس کی رضامندی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کو سپریم کورٹ کی جانب سے درست قرار دیا جانا اخلاقی قدروں اور مشرقی روایات کے خلاف ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہی ہم جنسی کو جرم کے دائرے سے باہر کر دیاگیااوراب یہ تازہ فیصلہ سامنے آیا ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کو مغربی تہذیب وثقافت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شادی شدہ عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دراصل حرام کاری کو قانونی شکل دینے کی عدالتی کوشش ہے، جو کسی بھی طرح پسندیدہ قرارنہیں دی جاسکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے اپنے ایک اخباری بیان میں فرمایا۔ مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے یہ بھی کہا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ لیواِن ریلیشن شپ، ہم جنسی اور شادی شدہ مردوں اور عورتوں کی جنسی بے راہ روی کو تو ہمارے ملک میں درست قرار دیا جارہاہے، لیکن ایک سے زیادہ نکاح کو عورت پرظلم اور زیادتی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس پر پابندی لگانے کی بات کہی جاتی ہے! بیوی کی موجودگی میں دوسری عورتوں کے ساتھ آزادانہ جنسی اختلاط عدالت عالیہ کی نظر میں درست ہے تو عزت اور احترام کے ساتھ کسی دوسری عورت کو بیوی کی حیثیت دینا اور اس کے حقوق ادا کرنا ظلم کیسے ہوسکتا ہے؟سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ شادی شدہ عورت کے ساتھ جنسی تعلق یا شادی شدہ مرد کا اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت سے تعلق قائم کرنا ہر مذہب میں جرم ہے، ایسی غلط چیز کو درست قرار دینا اور اسے قانونی جواز فراہم کرنا مناسب نہیں ہے، اس سے سماج میں سخت اخلاقی بحران پیدا ہوگا، خاندانی نظام کا تانا بانا بکھر جائے گا، ناجائز اولاد کی کثرت ہوگی، اور چند برسوں کے بعد مغربی ملکوں کی طرح ہمارے یہاں بھی ایسے بچوں کی ایک قابل لحاظ تعداد ہوگی جن کے لیے اپنے باپ کا نام بتانا مشکل ہوگا۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ ہم اپنے ملک میں کون سماج چاہتے ہیں، حیا اور پاک دامنی والاسماج یافحاشی اور عریانیت والاسماج؟
بھگوا ملزمین مقدمہ کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں،استغاثہ بھی عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام:ایڈوکیٹ شاہد ندیم
ممبئی ۲۹؍ ستمبر (پریس ریلیز)
آج ہی کے دن دس سال قبل بھگوا ملزمین کرنل پروہیت، سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، میجر رمیش اپادھیائے ودیگر ملزمین نے گنجان مسلم آبادی والے صنعتی شہر مالیگاوں میں بم دھماکہ کیا تھا جسے آج دس سال کا طویل عرصہ گذرچکا ہے اور اب تک اس معاملے میں باقاعدہ مقدمہ کی سماعت شروع نہیں ہوسکی ہے ،جس کی وجہ سے متاثرین اور انصاف پسند طبقہ مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔بم دھماکہ متاثرین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹرکی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کی نگرانی میں کام کرنے والی وکلا کی ٹیم کے رکن شاہد ندیم نے کہا کہ مرکز اور ریاست میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد سے ہی مالیگاؤں ۲۰۰۸ ء بم دھماکہ معاملے کے ملزمین کو راحتیں حاصل ہونا شروع ہوگئیں تھیں، جو اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ایک منصوبہ بند ایجنڈے کے تحت دھماکہ معاملے کی تفتیش این آئی اے سے کرائی گئی تاکہ بھگوا ملزمین کو راحت حاصل ہوسکے۔
یڈوکیٹ شاہد ندیم نے کہا کہ حالانکہ عدالت نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں ملزمین پر سے مکوکا قانون ہٹا دیا ہے لیکن یہ اطمینا ن بخش ہے کہ ملزمین پر یو اے پی اے قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا، جو مکوکا قانون سے کسی بھی طرح سے کم نہیں ہے، بشرطے کہ استغاثہ ایمانداری سے اپنی ذمہ داری نبھائے اورسرکاری گواہان کو تحفظ فراہم کرکے عدالت میں ان کی گواہی کو ان کے ذریعہ دیے گئے بیانات کے مطابق درج کرانے میں کامیاب ہوجائے۔ بھگوا ملزمین نے ایک نیا ہتھکنڈا اپناتے ہوئے سپریم کورٹ سے پھر رجوع کیا تھا کہ ان پر یو اے پی اے قانون کا اطلاق بھی نہیں ہوتا جس کے جواب میں سپریم کورٹ نے انہیں یہ معاملہ نچلی عدالت میں اٹھانے کا مشوری دیا جس کے بعد سے ملزمین یو اے پی اے کے اطلاق کو چیلنج کرتے ہوئے نچلی عدالت میں بحث کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ بھگوا ملزمین کی یہ منشا ہے کہ وہ مقدمہ سے ڈسچارج ہوجائیں تاکہ انہیں مزید عدالتی کارروائی کا سامنانہ کرنا پڑے جس کے لیے وہ نت نئے ہتھکنڈے اپنارہے ہیں ، کبھی ڈسچارج داخل کرتے ہیں تو کبھی کسی اور ایشو کواٹھا کر نچلی عدالت کو چارج فریم کرنے روک دیتے ہیں اور ان سب کا قومی تفتیشی ایجنسی اس شدت سے جواب نہیں پارہی ہے جس طر ح اسے دینا چاہئے ، جہاں تک رہی بات مداخلت کار کی تو بھگوا ملزمین نے جمعیۃ علماء کے وکلاء کو اس معاملے میں مداخلت کرنے پرسخت اعتراض کیا ہے ،جس کے بعد سے عدالت نے مداخلت کار کی عرضداشت التوا میں رکھی ہوئی ہے، جس پر جلد بحث ممکن ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی تفتیشی ایجنسی NIAنے بھی متاثرین کو اس معاملے میں کچھ بھی بولنے پر اعتراض کیا ہے اور مداخلت کار کی عرضداشت مسترد کیے جانے کی عدالت سے گذارش کی ہے۔
شاہد ندیم نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے مقدمہ کی روز بہ روز سماعت کیے جانے کے احکامات جاری کیے تھے، لیکن تفتیشی ایجنسیوں کی خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھگوا ملزمین نے عدالت عظمی سے راحتیں حاصل کرلی ہیں، جس میں مکوکا قانون کا ان پر سے ہٹایا جانا اہم ہے ،جبکہ انہیں ضمانت عرضداشتیں بھی استغاثہ کی مبینہ ناقص کارکردگی کی وجہ سے حاصل ہوئیں ۔
واضح رہے کہ ۲۹؍ ستمبر ۲۰۰۸ء کو ہونے والے اس سلسلہ واربم دھماکے میں ۶؍ مسلم نوجوان شہید، جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے تھے ، مقدمہ کی ابتدائی تفتیش اے ٹی ایس نے آنجہانی ہیمنت کرکرے کی سربراہی میں کی تھی اور پہلی بار بھگوا دہشت گردی پر پڑے پردے کو بے نقاب کیا تھا، لیکن مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بننے کے بعد سے اس معاملے کی بلا وجہ تازہ تحقیقات کرنے والی قومی تفتیشی ایجنسی NIA نے بھگواملزمین کو فائدہ پہنچانے کا کام شروع کردیا اور اضافی فرد جرم داخل کرتے ہوئے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر سمیت دیگر بھگوائی ملزمین کو راحت پہنچائی تھی ۔
نئی دہلی:(پریس ریلیز)وہ لمحہ کس قدر جذباتی اور المناک ہوگا جب کسی ہر دل عزیز اور مقبول شاعر کا مجموعۂ کلام شائع ہوکر اس وقت منظر عام پر آئے جب کہ وہ جاں کنی کے عالم میں ہو، لیکن یہ اندوہ ناک سانحہ مرحوم خان جمیل کے ساتھ پیش آیا کہ جس تخلیق کوانھوں نے خونِ جگر سے سینچا تھا ،جب وہ پکی روشنائی میں چھپ کر ان کے سامنے آیا تو ان کی آخری سانس چل رہی تھی ،وہ اپنے مجموعۂ کلام کا منہ بھی نہ دیکھ سکے ۔مرحوم خان جمیل کے جگری دوست اور معروف فکشن نگار ڈاکٹر خالد جاوید نے بہت جذباتی ہوکر بتایا کہ ہم ان کے مجموعۂ کلام ’’جنگ یہ کتنی بڑی ہے‘‘کی رونمائی کر نا چاہتے ہیں تاکہ ہماری اور ان کی روحوں کو سکون مل سکے ۔
مضامین ڈاٹ کام کے بانی اور مدیر عرفان وحید نے اطلاع دی کہ 30 ستمبر بروز اتوار ،شام پانچ بجے غالب اکیڈمی ،بستی حضرت نظام الدین اولیا میں مرحوم خان جمیل کے شعری مجموعے ’’ جنگ یہ کتنی بڑی ہے ‘‘ کی تقریبِ رونمائی منعقد کی جارہی ہے ،جس کی صدارت پروفیسر شہپر رسول کریں گے ۔مہمانِ خصوصی پروفیسر وہاج الدین علوی ہوں گے ،مہمانِ اعزازی کی حیثیت سے پروفیسر خالد محمود کی شرکت ہوگی ۔اس جلسے میں کاروانِ اردوقطرکے صدر اور مشہور شاعر عتیق انظر بطور مہمانِ ذی وقار شریک ہوں گے ۔ڈاکٹر خالد جاوید استقبالیہ کلمات پیش کریں گے اور ڈاکٹر خالد مبشر نظامت کے فرائض انجام دیں گے ۔رسمِ اجرا کی اس تقریب میں مرحوم خان جمیل کی شاعری کے حوالے سے پروفیسر کوثر مظہری ،خورشید اکرم ،ڈاکٹر نصیب خان ،ڈاکٹر نجمہ رحمانی،ڈاکٹر سرورالہدیٰ اورصدف پرویز اظہارِ خیال کریں گے ۔
اس موقع پر محفلِ مشاعرہ بھی منعقد کی جائے گی ،جس میں بحیثیت شاعر خالد محمود ،شہپر رسول ،احمد محفوظ،کوثر مظہری ،علیناعترت ،عمران احمد عندلیب ،واحد نظیر ،رحمان مصور،عادل حیات ،خالد مبشر ،سید راغب اختر، سالم سلیم،ناصر امروہوی،انس فیضی ،عرفان وحید ،اسامہ ذاکر ،طارق عثمانی ،علم اللہ ،عمران قمر ،وسیم احمد علیمی اور سفیر صدیقی شریک ہوں گے ۔
عبدالعزیز
دنیا میں انسان روز پیدا ہوتے ہیں اورہر روز دنیائے فانی سے کوچ کرتے ہیں ؛لیکن ایسے بہت کم لوگ پیدا ہوتے ہیں، جن کو دنیا ان کے مرنے کے بعد بھی یاد کرتی ہے، اور ان کے روشن کیے ہوئے چراغ کی روشنی پھیلتی چلی جاتی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ایسے ہی لوگوں کیلئے کہا تھا :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ایسے ہی ایک دیدہ ور سوامی ویویکانند تھے، جن کومرے ہوئے ایک صدی سے زیادہ ہوگیا؛ لیکن آج بھی دنیا ان کو یاد کرتی ہے۔ شاید ہی کوئی ملک ہوگا، جو ویویکا نند کے کارناموں سے واقف نہ ہو، ان کا سب سے بڑا کارنامہ انسانیت نوازی ہے، وہ انسانوں کو انسانوں سے جوڑنا سکھاتے ہیں، انسانوں میں اتحاد، محبت، اخوت اور بھائی چارہ پیدا کرنے کی تعلیم دیتے ہیں، ہندو مذہب کی وہ باتیں اور وہ سچائی، جس سے دنیا کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، اسے سائنٹفک طریقے سے پیش کرتے ہیں؛ لیکن دیگر مذاہب کی حقانیت اور ان کی اہمیت و افادیت کو بیان کرنے میں بھی کسی پس و پیش سے کام نہیں لیتے ، وہ اسلام کے بہت معترف و معتقد ہیں۔ جب کسی نے ان سے اسلام کے خلاف کچھ کہا، تو انھوں نے برملا کہا کہ اسلام میں اگر سچائی اور اچھائی نہیں ہوتی تو نہ اب تک وہ زندہ ہوتا اور نہ ہی دنیا میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب ہوتا، در اصل ویویکا نند انسانوں کے اتحاد، مساوات اور بھائی چارے کے زبردست حامی تھے، اسلام میں بھی انسانوں کے اتحاد پر بہت زور دیا گیا ہے، سارے انسانوں کو ایک ماں باپ کی اولاد کہا گیا ہے اور سارے انسانوں کو خدا کا کنبہ کہا گیا ہے، یہ بات سوامی ویویکانند کو بہت پسند تھی کہ سارے انسان بھائی بھائی ہیں، نہ کوئی کسی سے بڑا ہے اور نہ کوئی کسی سے چھوٹا ، اگر کوئی بڑا ہے، تو اپنے اخلاق کی وجہ سے ہے، وہ اخلاق کو بڑی اہمیت دیتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ اخلاق کے بغیر انسان جانور سے بھی بدتر ہوتا ہے، بالکل یہی تعلیم اسلام کی ہے،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’ مجھے دنیا میں اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔
سوامی ویویکانند اخلاق کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’وہ جو خودغرض ہے ،بے اخلاق ہے اور جو خود غرض نہیں ہے اور بے لوث ہے ،وہ اخلاق مند ہے اور صاحبِ کردار ہے‘‘۔ یہاں ویویکانند نے اخلاق کی بنیاد بتائی ہے کہ انسان کے اندر لالچ اور غرض ہے تو وہ اخلاق مند نہیں ہوسکتا، کیونکہ اگر وہ اچھا کام بھی کرتا ہے، تو اس کی کوئی نہ کوئی غرض ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اچھا کام ہونے کے باوجود اسے اچھا کام کہنا غلط ہے، جب تک کہ بے غرضی کے ساتھ بغیر کسی لالچ کے وہ کام نہ کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں :
جس کا عمل ہو بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
مساوات:
سوامی ویویکا نند نے مساوات یعنی برابری کی تعلیم دی ہے، جب وہ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں مساوات ہے، چھوت چھات، اونچ نیچ نہیں ہے، تو ان کو اسلام کی حقانیت کا اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی اور وہ ایک طرح سے اسلام کے اس عنصر کو اپنی تعلیمات کا بہت بڑا حصہ بناتے ہیں،ان کی بہت سی خوبیاں ہیں ،جن کوبیان کرنے کے لیے طویل مضمون کی ضرورت ہے؛ لیکن چند باتیں اس موقع پر بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کے اخلاق اور کردار میں بڑی جاذبیت اور کشش تھی، غصہ اور تکبر سے بہت دور تھے، ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے ان کو غصہ دلانا چاہا اور اس نے اپنے یہاں دعوت دی، جس کمرے میں سوامی ویویکانند کو بٹھایا ،اسی کمرے میں ایک ٹیبل پر کئی مذاہب کی کتابیں رکھی ہوئی تھیں، سب سے نیچے بھگوت گیتا رکھی گئی تھی،میزبان نے ویویکا نند کو کتابوں کی طرف اشارہ کیا، سوامی ویویکانند کے چہرے پر غصہ کے بجائے مسکراہٹ پھیل گئی اور مسکراتے ہوئے کہا کہ بنیاد بہت اچھی ہے، اس کا مطلب یہ تھا کہ ان ساری کتابوں کی بنیاد بھگوت گیتا ہے، ویویکا نند نے کتنے خوبصورت انداز سے بھگوت گیتا کی تعریف کی اور غصے کو پی گئے، یہ ایک ایسی تعلیم ہے ،جس کو ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنانا چاہیے، کوئی اگر اپنے مذہب کی تعریف و توصیف کرتا ہے، تو اسے مثبت انداز سے کرنا چاہیے۔
نظام تعلیم:
سوامی ویویکانند انگریزوں کے رائج کردہ نظام تعلیم کے سخت مخالف تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ اس تعلیم کا مقصد صرف بابوؤں کی تعداد بڑھانا ہے،وہ ایسی تعلیم چاہتے تھے ،جس سے بچے کی تمام میدانوں میں ترقی ہو سکے، بچے کی تعلیم کا مقصد اس کو خود کفیل بنا کر اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے، سوامی ویویکانند نے مروجہ تعلیم کو ’مانعِ تعلیم‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ اس شخص کو تعلیم یافتہ مانتے ہیں ،جس نے کچھ امتحانات پاس کر لیے ہوں اور جو اچھی تقریرکر سکتا ہو، مگر حقیقت یہ ہے کہ جو تعلیم عوام کو زندگی کی جدوجہد کے لیے تیار نہیں کرتی، جو کردار تخلیق نہیں کرتی، جو سماجی خدمت کے احساس کی ترقی نہیں کرتی اور جو شیر جیسا ہمت پیدا نہیں کر سکتی، ایسی تعلیم سے کیا فائدہ؟لہذا سوامی ایسی تعلیم کے حق میں نہیں تھے، وہ عملی تعلیم کو انسان کے لیے مفید مانتے تھے، انسان کی تعلیم ہی اس کو مستقبل کے لیے تیار کرتی ہے، تو تعلیم میں ان عناصر کا ہونا ضروری ہے، جو اس کے مستقبل کے لئے اہم ہو،سوامی وویکانند کے الفاظ میں،’’تجھے کام کے تمام شعبوں میں عملی بننا پڑے گا،اصولوں کے ڈھیروں نے پورے ملک کو تباہ کر دیا ہے‘‘۔
لارڈ میکالے کا نظریۂ تعلیم یہ تھا کہ وہ ہندستانیوں کی شکل میں انگریز چاہتے تھے، ان کا مقصد تھا کہ ایسی تعلیم دی جائے، جس کو حاصل کرنے والے نہ اپنے مذہب کے ہوں ،نہ ملک کے ؛ بلکہ وہ انگریزو ں کے علاوہ کسی کے بارے میں سوچ نہ سکیں، اس کے ساتھ اس نے مادری زبان کی تعلیم کے حق کو بالکل نظر انداز کردیاتھا، لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ’’تمام پارٹیاں ایک بات پر متفق معلوم ہوتی ہیں اور وہ یہ کہ ہندوستان کے اس حصے کے باشندوں کی عام بولیوں میں نہ تو ادبی سرمایہ ہے اور نہ ہی سائنٹفک معلومات اور وہ اتنی کم مایہ اور ٹھیٹ ہیں کہ جب تک انہیں کسی دوسرے ذریعوں سے مالامال نہ کیا جائے ،ان میں سے کسی میں بھی مفید ادبی، علمی کام کو منتقل کرنے کا کام آسان نہ ہوگا،اس بات سے بھی ہر طرف اتفاق نظر آتا ہے کہ اعلی تعلیم کی استطاعت رکھنے والوں کا ذہنی ارتقا صرف اسی زبان کے ذریعے کیا جاسکتا ہے ،جو مقامی نہ ہو۔‘‘ (تاریخی تعلیم ہند)
سوامی جی کہا کرتے تھے کہ تعلیم انسان کے بنیادی کمال کا اظہار ہے، سوامی جی کے مطابق ساری تعلیمات اور تمام تربیت کا واحد مقصد انسانی کردار کی تعمیر ہوناچا ہیے؛ لیکن فی الحال یعنی انگریزوں کے نظامِ تعلیم کی وجہ سے مغربی اثرات بچوں پر پڑ رہے ہیں، تعلیم صرف بیرونی حصوں پر پانی چڑھانے کی کوشش کر رہی ہے، انھوں نے اپنے تعلیمی نظریہ کو مندرجہ ذیل نکات سے واضح کیا ہے:
1) تعلیم کے ذریعے انسان میں انسانی محبت، سماج کی خدمت، عالمی شعور اور عالمی بھائی چارے کی خصوصیات کو فروغ دینا۔
2) تعلیم کا مقصد اندرونی اتحاد کوبیرونی دنیا میں ظاہر کرنا ہے ؛ تاکہ وہ خود کو خوب سمجھے۔
3) تعلیم کا بنیادی مقصد انسان کی جسمانی، ذہنی، جذباتی، مذہبی، اخلاقی، اخلاقی کردار، سماجی کاروبار کو فروغ دینا ہے۔
4) تعلیم کے ذریعے انسانی میں دیس بھکتی بیدار کرنا۔
5 )تعلیم سے انسان کی فکری آزادی پیدا کرنا۔
6 )تعلیم کے ذریعے خوداعتمادی ،خود اعتقادی، ایثار،اپنے اوپر کنٹرول، خود انحصاری، روشن خیالی جیسی خوبیوں کو فروغ دینا۔
7) تعلیم کے ذریعے علم کے تئیں انسان کی بند گرہ کو کھولنا۔
8 )ملک، استادخالص مثالی اخلاق کے تئیں احترام اور شعور کو بیدار کرنا۔
رابندر ناتھ ٹیگور نے سوامی ویویکانند کے بارے میں بہت صحیح کہا ہے کہ ’’اگر کوئی ہندستان کو سمجھنا چاہتا ہے ،تو ویویکانند کے فلسفے کو سمجھنا ضروری ہے‘‘۔
افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی قیادت کی طرف سے ہندوتو کی جو تعلیم زور زبردستی دینے کی کوشش کی جارہی ہے، اس سے ہندستان کا چہرہ داغ دار اور بدنام ہورہا ہے اور ہندو مذہب بھی بدنام ہورہا ہے، ویویکانند نے جو تقریر امریکہ میں کی تھی ،اس کا چرچااس وقت پورے ملک میں عام ہے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہندستان ایک ایسا ملک ہے اور ہندو مذہب ایک ایسا مذہب ہے ،جو سب کو اپنے اندر سمو لیتا ہے، جھگڑے اور لڑائی کے بجائے سب کے اندر باہمی اتحاد اور بقائے باہمی پیدا کرتا ہے،وہ کہا کرتے تھے کہ آج ضرورت ہے کہ ہر مذہب کے جھنڈے پر یہ الفاظ ہوں کہ ’’ایک دوسرے کی مدد کرو، لڑو نہیں، ایک دوسرے کی اچھی باتوں کی سراہنا کرو، جھگڑو نہیں، امن اور شانتی کی کوشش کرو، فتنہ اور فساد سے بچو‘‘۔ سوامی ویویکانند کی اس تعلیم کی روشنی میں دیکھا جائے ،تو جو لوگ مذہب کے نام پر یا کھانے پینے کے نام پر لوگوں سے نہ صرف جھگڑا کر رہے ہیں؛ بلکہ جانوروں کو بچانے کے لیے انسانوں کا قتل کر رہے ہیں،وہ سوامی جی کی تعلیمات سے کوسوں دورہیں۔
کہا جاتا ہے کہ آر ایس ایس کی ذہنیت کے لوگ جب سوامی جی سے ملے تھے اور اپنے ہندوتو کے فلسفے کی دعوت دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ مسلمان جانوروں کے قاتل ہیں، آپ ہماری طرف آئیے اور ہم سب کے ساتھ کام کیجیے،تو ایسی ذہنیت کے لوگوں کو سوامی جی نے کہا تھا کہ ’’تمہیں جانوروں کو بچانے کی فکر ہے اور مجھے انسانوں کو بچانے کی فکر ہے، تم اپنا کام کرو اور مجھے اپنا کام کرنے دو‘‘۔
آج اگر ہم ہندستان کا بھلا چاہتے ہیں ،تو سوامی ویویکانند کی تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے، انہی کی تعلیمات سے تنگ نظری، تعصب، فرقہ پرستی اور فتنہ و فساد برپا کرنے والوں کی کاٹ ہوسکتی ہے، آج جو لوگ سوامی ویویکانند کی تعلیمات کو عام کر رہے ہیں، وہ مبارکباد کے مستحق ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ان کی کوششوں سے فرقہ پرستی اور فسطائیت کو شکست ہوگی اور جو خواب سوامی ویویکانند نے آفاقی بھائی چارہ کا دیکھا تھا، وہ دیر سویر شرمندۂ تعبیر ہوگا، ہندو بھائیوں میں سوامی ویویکا نند کے بڑے اثرات پائے جاتے ہیں، اگر ہندو بھائیوں میں ان کی تعلیمات کا چرچا ہو اور انھیں عام کیا جائے، تو تعصب اور فرقہ پرستی کودور کیا جاسکتا ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
ایشیا کپ : آخری گیند پر بنگلہ دیش کو شکست دے کر ہندوستان نے ساتویں مرتبہ خطاب اپنے نام کیا، بنگلہ دیش کی ٹیم پہلے بلے بازی کرتے48.3 اوورس میں 222 بناکر آل آوٹ ہوگئی اور ٹیم انڈیا کو جیت کیلئے 223 رنوں کا ہدف ملا ، جس کو ٹیم انڈیا نے 50 ویں اوور کی آخری گیند پر سات وکٹ کھوکر حاصل کرلیا ۔
ایک دلچسپ میچ میں ٹیم انڈیا نے آخری گیند پر بنگلہ دیش کو مات دے کر خطاب اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو گئ ۔
ٹیم انڈیا کی جانب سے روہت شرما نے سب سے زیادہ 48 رن بنائے ۔ اس کے علاوہ شیکھر دھون نے 15 ، رائیڈو نے دو ، کارتک نے 37 ، دھونی نے 36 ، کیدار جادھو نے 23 ( ناٹ آوٹ ) ، جڈیجہ نے 23 ، بھونیشور نے 21 اور کلدیپ یادو نے پانچ رن بنائے ۔ بنگلہ دیش کی طرف سے مستفیض اور روبیل نے دو دو جبکہ نجم الاسلام ، مشرف مرتضی اور محمود اللہ نے ایک ایک کھلاڑیوں کو آوٹ کیا ۔ اس سے قبل ٹاس ہار کر پہلے بلے بازی کرنے اتری بنگلہ دیش کی ٹیم نے اچھی شروعات کی ، مگر اس کے بعد لگاتار اس کے وکٹ گرتے رہے ۔ بنگلہ دیش کی طرف سے لٹن داس نے شاندار 121 رنوں کی اننگز کھیلی ۔ اس کے علاوہ سومیہ سرکار نے 33 اور مہدی حسن نے 32 رن بنائے ۔ ان تینوں کے علاوہ بنگلہ دیش کا کوئی بھی کھلاڑی دہائی کے اعداد و شمار تک نہیں پہنچ سکا ۔ ہندوستان کی طرف سے کلدیپ یادو نے تین ، کیدار جادھو نے دو بمبرہ اور چہل نے ایک ایک کھلاڑی کو آوٹ کیا۔ جبکہ تین کھلاڑی رن آوٹ ہوئے۔ خیال رہے کہ ہندستان نے اس ٹورنامنٹ کو ساتویں مرتبہ جیتا ہے۔ اس سے قبل ا س نے 1984، 1988، 1990-91، 1995، 2010 میں 50 اوور کی شکل میں اور 2016 میں ٹوئنٹی -20 شکل میں جیتاتھا
انجم سلیمی
جب گلے سےمجھےلگایاگیا
مجھ سے رویانہ مسکرایاگیا
عشق و عشرت بھی, ہجر و ہجرت بھی
ہرستم مجھ پہ آزمایاگیا
آئینہ دےدیاگیامجھ کو
مجھ سےمجھ کوبہت چھپایا گیا
ہرطرف خاک اُڑتی پھرتی تھی
جب مجھےخاک سےبنایاگیا
مختصرخواب کےلئے مجھ کو
ابَدی نیند سےجگایا گیا
ایک ایساجہاں بھی ہےکہ جہاں
کوئی میرےسوانہ آیا گیا
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے چارج سنبھالا
نئی دہلی:(پریس ریلیز)
وزارت برائے فروغ انسانی وسائل حکومت ہند نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے نئے ڈائرکٹر کی حیثیت سے اردو کے معروف ادیب و نقاد ستیہ وتی کالج دہلی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر شیخ عقیل احمدکا تقرر کیا ہے۔ اعلانیے کے مطابق ان کی مدت کار تین سال پر محیط ہوگی۔آج انھوں نے قومی اردو کونسل کے صدر دفتر میں بحیثیت ڈائرکٹر چارج سنبھال بھی لیا۔اِس موقعے پر سابق ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم اور کونسل کے دیگر اہلکار بھی موجود تھے۔قومی اردو کونسل کے نئے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد اردوکی معروف اور فعال شخصیت ہیں اورموجودہ ادبی منظرنامے میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں جن میں غزل کا عبوری دور، ادب اسطور اور آفاق، فن تضمین نگاری، مغیث الدین فریدی کا تخلیقی کینوس، ادب اور جمالیات، پریم چند فکشن کے فنکار اور شکیل الرحمن قابل ذکر ہیں۔ ان کے تحقیقی مقالات ہند اور بیرونِ ہند کے موقر مجلات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ انھوں نے ہندی اردو اور انگریزی تینوں زبانوں میں مضامین لکھے ہیں۔ مختلف قومی سمیناروں میں وہ اپنے مقالات پیش کرچکے ہیں اور کئی جگہ انھوں نے صدارتی خطبات بھی دیے ہیں۔ ان کی نگرانی میں کئی اسکالرس پی ایچ ڈی بھی کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ آل انڈیا ریڈیو، ٹیلی ویژن دور درشن کے پروگراموں میں بھی ان کی شرکت ہوتی رہی ہے۔ گولڈ میڈل کے علاوہ بہت سے ایوارڈ سے سرفراز بھی ہوچکے ہیں۔ کئی موقر اداروں کے ممبر بھی ہیں او رانھیں طویل انتظامی تجربہ بھی ہے۔ ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کا تعلق بہار کے موتیہاری ضلع سے ہے۔ انھوں نے بہار یونیورسٹی مظفرپور سے بی اے اور دہلی یونیورسٹی سے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ نئے ڈائرکٹر نے قومی اردو کونسل کے دفتر میں منعقدہ استقبالیہ تقریر میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اردو کی ترقی کے لیے پابند عہد ہوں۔ میں ہندوستان کے ہر ایک گاؤں میں اردو زبان کو پہنچانا چاہتا ہوں۔ میرا مقصد اردو کے بنیادی تعلیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنا ہے۔ اردو کاز کے لیے میں ہمہ وقت تیار ہوں۔ اس کے لیے مجھ سے جو کچھ بھی ہوسکے گا ضرور کروں گا۔
استقبالیہ تقریب میں سابق ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم، پروفیسر ابن کنول (صدر شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی )، ڈاکٹر ماجد احمد تالی کوٹی، ڈاکٹر ترون اور ڈاکٹر ایم رحمت اللہ نے ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کو ڈائرکٹر بننے پر مبارکباد دی اور نیک خواہشات پیش کیں۔ اس تقریب کی نظامت کے فرائض اسسٹنٹ ڈائرکٹر انتظامیہ کمل سنگھ نے انجام دیے۔
اعجاز توکل
میں ہوں راتوں میں جاگنے والا
یہ خسارہ ہے فائدے والا
اشک کب تک سنبھال سکتا ہے
میری آنکھیں خریدنے والا
مجھکو دنیا کی سمت مت لاؤ
میں ہوں اک اور سلسلے والا
زندگی زیر لب تبسّم ہے
میں ہوں بھر پور قہقہے والا
آشنائی ہے ایک سیدھی لکیر
عشق ہوتا ہے دائرے والا
سبھی کہتے ہیں سونے والا مجھے
نیند کہتی ہے رتجگے والا
لوگ جس کو گلاب کہتے ہیں
پھول وہ ہے معاشقے والا
ہے محبت تو سامنے لاؤ
یہ دیا کب ہے طاقچے والا
دو رویے تھےسامنے میرے
مجھکو اچھا لگا برے والا
عمیرنجمی
نظر ٹھہرتی نہیں ہے، رخ آفتاب ہی ہے
یقین کر! تری بے پردگی، حجاب ہی ہے
تمہارا ساتھ، اک اعزازی عہدہ ہے، جس میں
کچھ اختیار نہیں، صرف رعب داب ہی ہے
ہماری اونگھ، کبھی نیند تک گئی ہی نہیں
سو خواب دیکھنا، تاحال، ایک خواب ہی ہے
قسم خدا کی! بڑی دیر کچھ نہیں دِکھتا
بہ غور اُس کی طرف دیکھنا، عذاب ہی ہے
میں کچھ بھی پوچھے بغیر اُٹھ کے آگیا واپس
سمجھ گیا تھا اُسے دیکھ کر، جواب ہی ہے!
مرا بدن بھی کم و بیش ہے زمیں کی طرح
کہ دو تہائی، کم از کم، تو زیرِ آب ہی ہے
خراب رستے پہ تختی دِکھی تو رک کے پڑھی
لکھا تھا: "رستہ یہی ہے مگر خراب ہی ہے”
ہم ایک ہاتھ کی دوری پہ ساتھ پھرتے ہیں
وہ دسترس میں نہیں، صرف دستیاب ہی ہے
تری طلب اگر آسودگی ہے، رب راکھا!
ہمارے پاس تو، لے دے کے، اضطراب ہی ہے
ایم پی مولانااسرارالحق قاسمی نے سپریم کورٹ کے ذریعے دفعہ497کی منسوخی کومایوس کن قراردیا
پورنیہ:موجودہ معاشرہ پہلے سے ہی اخلاقی انارکی اور سماجی انتشار کا شکارہے اب سپریم کورٹ کے ذریعے غیر ازدواجی تعلقات کو جواز فراہم کیے جانے کے بعد ہندوستانی سماج میں مزید بگاڑ پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ان خیالات کا اظہار معروف عالم دین اور ممبر پارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی نے تعمیری و فلاحی کاموں کاجائزہ لینے کے دوران پورنیہ کے امورمیں سپریم کورٹ کے ذریعے آئی پی سی کی دفعہ 497کی منسوخی پرنمائندہ سے بات کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ معززعدالت نے یہ دلیل دیتے ہوئے اس قانون کوکالعدم قراردیاہے کہ یہ ڈیڑھ سوسال پراناہے اوراس سے خواتین کے احترام و سماجی انصاف کے خلاف ہے کیوں کہ اس قانون کے مطابق شادی شدہ عورت اگر کسی دوسرے مرد سے جنسی تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے تواس میں شوہر کی اجازت کی شرط لگائی گئی تھی اورعورت اپنے شوہر کی ملکیت نہیں ہے ، یہ اس کے احترامِ نفس اور رائٹ ٹوپرائیویسی کے خلاف ہے،حالاں کہ اگر گہرائی سے اس فیصلے کاجائزہ لیاجائے تویہ ثابت ہوتاہے کہ مذکورہ قانون کو ختم کرنا عورتوں کے حق میں نہیں بلکہ عورتوں کے لیے نقصان دہ ہے،کیوں کہ اب کورٹ کے فیصلے کے بعد شادی شدہ مرد کوکھلی اجازت ہوگی کہ وہ جس سے چاہے جنسی تعلقات قائم کرے،اس طرح ایک اچھاخاصا گھر تباہ و برباد ہوسکتا ہے اور سماج میں اخلاقی بے راہ روی کا ایک نیاسیلاب آسکتاہے۔مولاناقاسمی نے کہاکہ معززعدلیہ نے اس تعلق سے فیصلہ دیتے ہوئے مغربی معاشرہ اور وہاں کے ملکوں کا حوالہ دیا،حالاں کہ ہندوستان اور مغرب کے درمیان تہذیبی و سماجی اعتبار سے زمین آسمان کا فرق ہے،لہذادرست یہ تھاکہ اس معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے اِس ملک کی تہذیب اور یہاں کے سماجی ڈھانچے کو پیش نظر رکھاجاتا۔مولانانے فیصلے کے اس پہلو پر بھی تنقید کی کہ اگر غیر ازدواجی تعلقات شوہر کوبیوی سے یا بیوی کو شوہر سے کوئی تکلیف ہوگی توان کے لیے طلاق کا راستہ کھلاہواہے اور وہ الگ ہوسکتے ہیں،انہوں نے کہاکہ شادی محض ایک رسم نہیں ہے،بلکہ یہ ایک مضبوط اور تاحیات نبھایاجانے والا رشتہ ہے،اگر عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس قسم کی چھوٹ دی جائے گی توآنے والے دنوں میں نہ معلوم کتنے خاندان اجڑجائیں گے اورسماجی تباہ کاریوں سے ہمارامعاشرہ بچ نہیں سکے گا۔انہوں نے کہاکہ عدالتِ عظمی کایہ فیصلہ مایوس کن ہے اور کئی پہلووں سے ناقص ہے اوراس پر نظرثانی کی شدید ضرورت ہے۔واضح رہے کہ مذکورہ قانون کے خلاف کیرلاکے جوزف سائن نامی سماجی کارکن نے عدالت میں عرضی داخل کی تھی جس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی چیف جسٹس والی پانچ رکنی بنچ نے ۲۷؍ستمبر کو آئی پی سی کی دفعہ۴۹۷؍کی منسوخی کافیصلہ سنایاہے۔
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ہندوستان کی سپریم کورٹ نے 27 ستمبر 2018 کو ایک ایسا فیصلہ سنایا ہے ،جس کے سماج پر غیر معمولی اثرات مرتَّب ہوں گے، فیصلہ سنانے والوں کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ انھوں نے جلتے پر پٹرول انڈیلنے کا کام کیا ہے ، وہ سماج ،جو مختلف اسباب سے ابتری اور بحران کا شکار ہے، جس میں مقدّس رشتے پامال ہو رہے ہیں، جس کا اخلاقی زوال اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے، صاف دکھائی دے رہا ہے کہ یہ فیصلہ اس میں مزید اضافہ کرے گا اور انتشار، انارکی اور فساد اپنے عروج کو پہنچ جائے گا ۔
اس فیصلے میں محترم چیف جسٹس جناب دیپک مشرا کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے تعزیراتِ ہند (Indian Panal Code) کی دفعہ 497 کو منسوخ کر دیا ہے ، یہ دفعہ کہتی تھی کہ اگر کوئی مرد کسی شادی شدہ عورت کے ساتھ اس کی مرضی سے جسمانی تعلق بنائے؛ لیکن اس کے شوہرکی رضامندی نہ لے ،تو اسے مجرم مانا جائے گا اور پانچ برس تک جیل کی سزا سنائی جا سکے گی، اس دفعہ کی منسوخی سے غیر ازدواجی جنسی تعلقات جرم کے دائرہ سے باہر ہو گئے ہیں ، چیف جسٹس نے کہا ہے کہ زنا (Adultery) کو شادی سے الگ ہونے کی بنیاد بنایا تو جا سکتا ہے؛ لیکن اسے جرم نہیں قرار دیا جا سکتا، انہوں نے کہا کہ یہ دفعہ خواتین کے احترام کے خلاف تھی، جب کہ انہیں ہمیشہ مساوی حقوق ملنے چاہئیں ، فاضل ججوں کو عورتوں کی آزادی، احترام اور حقِّ مساوات کا تو خیال رہا؛ لیکن افسوس کہ اس فیصلے کی زد سماجی زندگی کے کن کن پہلوؤں پر پڑے گی؟ اور دوسروں کے حقوق کہاں کہاں مجروح ہوں گے؟ اس کی طرف ان کی توجّہ مبذول نہ ہوسکی ۔
میاں بیوی کا رشتہ محبت، خیر خواہی اور اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے ، دونوں مل کر تمدّن کی گاڑی کھینچتے اور اس کی ترقی کا باعث بنتے ہیں ،ان کے درمیان جنسی تعلّق محض لذّت اندوزی کے لیے قائم نہیں ہوتا؛ بلکہ اس پاکیزہ اور قانونی تعلّق سے اولاد ہوتی ہے، جو ان کے لیے قدرت کا خوب صورت اور انمول عطیہ ہوتی ہے، زوجین کے جنسی تعلّق سے وجود میں آنے والی نئی نسل ان کی محبتّوں کے زیرِ سایہ پروان چڑھتی ہے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر زندگی گزارنا سیکھتی ہے ، شوہر بیوی، اولاد اور والدین کے درمیان شدید جذباتی تعلّق ہوتا ہے، مرد بیوی بچوں کو اپنا سمجھتا ہے؛ چنانچہ وہ ان پر اپنی گاڑھی کمائی خرچ کرتا ہے، انھیں مکروہاتِ زمانہ سے بچاتا ہے، کوئی ان کی طرف بُری نظر سے دیکھے، تو ان سے لڑنے مرنے کے لیے تیّار ہوجاتا ہے اور اپنے عزیزوں کی حفاظت میں اپنی جان نچھاور کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتا ۔
اگر شوہر کے دل میں یہ بات گھر کر جائے کہ اس کی بیوی اس کے غائبانے میں کسی سے بھی آشنائی کرسکتی ہے، کسی کی بھی بانہوں میں جھول سکتی ہے، کسی کا بھی بستر گرم کرسکتی ہے، کسی سے بھی جنسی تعلق قائم کرسکتی ہے، تو ان کے درمیان اپنائیت کیوں کر قائم رہ سکتی ہے؟اور ان کے درمیان اعتماد اور محبت کی فضا کیوں کر پروان چڑھ سکتی ہے؟ اگر شوہر کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوجائے کہ اس کی بیوی کے پیٹ میں جو بچہ پل رہا ہے، یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اسی کا ہے، ممکن ہے اس نے کسی اور سے جنسی تعلّق قائم کر لیا ہو، جس سے حمل ٹھہر گیا ہو، تو وہ کیوں اس کی خبر گیری کرے گا؟ کیوں اس کے ناز نخرے اٹھائے گا؟ کیوں اس کے علاج معالجہ کے مصارف برداشت کرے گا؟ اور کیوں اس بچے کی پیدائش کے بعد اس کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت کی ذمے داریاں اٹھائے گا؟
آزادی ہر مرد اور ہر عورت کا بنیادی اور دستوری حق ہے؛لیکن فاضل ججوں کو اتنی موٹی سی بات تو سمجھنی چاہیے تھی کہ کسی شخص کی آزادی کی حد وہاں ختم ہوجاتی ہے ،جہاں دوسرے شخص کی آزادی متاثر ہوتی ہے اور اس کا کوئی حق پامال ہوتا ہے، ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ فضا میں ہاتھ بلند کرے اور مُکّا گھمائے، لیکن اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کی پیٹھ پر مُکّا جما دے اور کسی کی ناک توڑ دے۔
قدرت کی طرف سے ہر مرد اور عورت کے اندر جنسی جذبہ ودیعت کیا گیا ہے؛ لیکن یہ لذّت کوشی کے لیے نہیں ہے؛ بلکہ اس کے ساتھ تمدّن کی ایک ضرورت وابستہ کردی گئی ہے ، کسی عورت یا مرد کو یہ حق نہیں کہ بے محابا آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ صرف لذّت تو حاصل کرتا رہے؛ لیکن خاندان اور
تمدّن کی ذمے داریاں اٹھانے پر آمادہ نہ ہو۔
مختلف اسباب سے ہمارا سماج انتشار اور ابتری کا شکار ہے، خاندان کی چولیں ہل گئی ہیں، زوجین کے درمیان عدمِ برداشت اور عدم اعتمادی کی وجہ سے علیٰحدگی اور طلاق کے واقعات کثرت سے پیش آرہے ہیں، عورتوں کی زندگی اجیرن ہو رہی ہے اور بچّوں کی صحیح پرورش نہ ہوپانے کی وجہ سے نئی نسل کی ایسی فوج تیّار ہورہی ہے جو بدمعاشی، آوارگی، غنڈہ گردی اور جرائم میں طاق ہے ، اس بنا پر انسانی قدریں بُری طرح پامال ہو رہی ہیں، اس صورت میں زنا بالرضا کی مذکورہ مخصوص دفعہ کو جرائم کی فہرست سے نکالنے سے سماجی احوال میں بہتری تو ہرگز نہیں آئے گی، ہاں فساد، بے حیائی، اخلاقی گراوٹ اور اباحیت میں ضرور اضافہ ہوگا ۔
اس سلسلے میں اسلام کی تعلیمات فطرت سے پوری طرح ہم آہنگ، خاندان کی بنیادوں کو مستحکم کرنے والی اور تمدّن کو فروغ دینے والی ہیں ، اسلام جنسی جذبہ کو نہ تو کچلنے کی ترغیب دیتا ہے اور نہ اسے کھلی چھوٹ عطا کرتا ہے کہ آدمی جہاں چاہے منہ مارتا رہے؛ بلکہ وہ اسے منظّم کرتا ہے ، وہ جنسی تسکین کو صرف نکاح کے دائرے میں محدود کرتا ہے، اس کے نزدیک بغیر نکاح کے جنسی تعلّق قابلِ تعزیر جرم ہے اور نکاح کے بعد زوجین کا کسی دوسرے مرد یا عورت سے تعلق قائم کرنا حرام ہے ، اس کے نزدیک جس طرح زنا بالجبر جرم ہے اسی طرح زنا بالرضا بھی جرم ہے، سماج میں انارکی اور تعفّن پھیلانے والے اور تمدّن کے تقدّس کو پامال کرنے والے اس لائق ہیں کہ انھیں دردناک اور عبرت ناک سزا دی جائے اور روئے زمین کو ان سے پاک کردیا جائے ۔
اب، جب کہ ملک کی عدالتِ عظمیٰ سے آزادی، بنیادی حقوق اور دستوری تقاضوں کے نام پر مسلسل ایسے فیصلے آرہے ہیں ،جو سماج میں ابتری پھیلانے والے اور اس کی پاکیزگی کو گدلا کرنے والے ہیں، جو لوگ اسلام کے علم بردار اور اس کی پاکیزہ تعلیمات کے حامل ہیں ،ان کی ذمے داری ہے کہ وہ سامنے آئیں، ملک کے عوام کے سامنے اسلام کی تعلیمات پیش کریں اور ان کی معقولیت اور سماج کے لیے افادیت واضح کریں، یہ ان کی دینی ذمے داری بھی ہے اور ملک سے محبت کا تقاضا بھی۔
زین شمسی
کچھ باتیں بالکل سمجھ میں نہیں آتیں اور کچھ باتوں کی رہنمائی کے لیے رہنما بھی نہیں ہیں،نماز پڑھنے کے لیے مسجدیں لازمی نہیں ہیں، اس شگوفہ کو درست ہی مان لیا گیا،تاہم کہا گیا کہ اس فیصلے کا بابری مسجد سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہمارے لوگ بھی کہتے ہیں کہ فیصلہ ملکیت کا ہوگا ،آستھا کا نہیں، ٹھیک ہے بھائی!
تو اب اگر مسلمانوں کو اس کی ملکیت سونپ دی جائے ( جیسا فیصلہ کے بعد ملی رہنماؤں کا ردعمل سامنے آیا ہے) تو اس ملکیت پر مسجد ہی بنے گی اور قابل تعظیم جج صاحبان نے ایک طرف یہ کہہ دیا ہے کہ نماز کے لیے مسجدیں ضروری نہیں، تو پھر وہاں لڑائی کس بات کے لیے ہے ؟ بھائی یہ بات ہمیں سمجھ میں نہیں آئی اور ہمیں یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ فیصلہ صرف بابری مسجد کے تناظر میں ہے یا ساری مسجدوں کے بارے میں، کوئی سمجھاؤ کہ ہم سمجھائیں گے کیا؟
ہریانہ، مہاراشٹر، چھتیس گڑھ، نوئیڈا اور کئی جگہوں سے یہ خبر موصول ہوتی رہی ہیں کہ مسلمان سڑکوں پر نماز پڑھتے ہیں اور کئی جگہ یہ تنازع فساد کی صورت بھی اختیار کر گیا ہے اور بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندوتوا تنظیمیں بارہا کہہ چکی ہیں کہ مسلمانان ہند مسجدوں میں نماز پڑھیں ،سڑکوں پر نہیں اور عدالت اعظمیٰ کہتی ہے کہ مسلمانوں کا مسجدوں میں نماز پڑھنا ضروری نہیں، وہ کھلے میدان میں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں، سوال بس یہی کچوکے لگا رہا ہے کہ اس رولنگ کا ایودھیا تنازع سے کوئی لینا دینا ہو یا نہ ہو؛لیکن کیا یہ مستقبل کے لیے ایک مضبوط تنازع کا باعث نہیں بنے گا۔ اللہ نے ابراہیمؑ کو کیوں کہا تھا کہ عبادت کے لیے عبادت گاہ بناؤ اور خانۂ کعبہ کی تعمیر ہوئی اور برسوں سے جو مساجد بنائی جاتی رہیں ،کیا یہ ضروری نہیں تھیں؟ تو اپنے لوگ پھر اتنی خاموشی کے ساتھ اس فیصلے کو کیوں پچا رہے ہیں، بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔کیا اس سے قبل کبھی سپریم کورٹ کی طرف سے یہ فیصلہ آیا ہے کہ مندروں میں گھنٹیاں بجانا لازمی نہیں ہے، بھگوان تو دل میں بستے ہیں؟ اگر آیا ہو یا کسی نے اس پر کوئی رٹ پٹیشن دائر کی ہو، تو بتایئے گا۔
ہاں یہ ایک حیران کن فیصلہ ضرور ہے کہ پہلی بار کسی فیصلے پر فریقین خوش ہوئے ہیں،ایسا کبھی ہوتا نہیں ہے، ادھر ولی رحمانی سے لے کر ارشد مدنی تک بتا رہے ہیں کہ اس فیصلے کا ایودھیا معاملہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یہ مسجد کا نہیں ؛بلکہ سپریم کورٹ کے وقار کا سوال ہے، اسد الدین اویسی کیوں کہہ رہے ہیں کہ اب مسلمانوں کے لیے بچا ہی کیا ہے؟ اور ادھر ایودھیا معاملہ سے جڑے اکھاڑہ پریشد اور دیگر فریقین کا کہنا ہے کہ اب ایودھیا کا فیصلہ جلد ہو جائے گا،وہیں وشو ہندو پریشد ایودھیا کے ورکشاپ میں چھینی ہتھوڑے تیز کرنے کی مہم میں مصروف ہو گیا کہ اب ایک دھکا اوردینا ہے اور عظیم رام مندر بنا دینا ہے۔
بابری مسجد کے ایک ایک آنسو کا حساب لیا جائے، تو بات بہت زیادہ دور تک چلی جائے گی، بس یہ سوچتا ہوں کہ اس کو شہید کرنے والوں کو عدالت اب تک سزا نہیں دے سکی، اڈوانی اور جوشی کو اگر تھوڑی سی سزا ملی ،تو وہ مودی کی طرف سے ہی ملی، اوما بھارتی آج بھی سیاسی روٹیاں سینک رہی ہیں،بابری مسجد کیوں گرائی گئی ، اب یہ معاملہ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے ، اسے گرانے والے کون تھے، اب یہ ماضی کی باتیں ہو گئیں،اب یہ چل رہا ہے کہ سپاٹ کر دی گئی زمین کس کی ہے ؟تو ایک بار الہ آباد ہائی کورٹ نے چالاک بلڈرز کی طرح اس زمین کے تین ٹکڑے کر دئے تھے، جس پر ہنگامے کے بعد روک لگی، اب کہا جا رہا ہے کہ نئے ججز کی تقرری کے بعد ہر ماہ اس معاملے کی سماعت ہوگی اور ثبوت و شواہد کی بنا پر جج صاحبان فیصلہ دے دیں گے، اب جہاں تک ثبوت و شواہد کی بات ہے ،تو ہاشم انصاری بھی نہیں رہے اور بعد میں اس معاملے کے فریق بنے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ ان کے وکلا نے کئی ایسے کاغذات فراہم کرنے میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا، جو اس کیس کو جیتنے کے لیے ضروری تھے، تو اب کیا اس معاملے کی ازسرِنو سماعت ہوگی اور ہوگی تو کیا ہمارے پاس وافر ثبوت موجود ہیں؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔
بہر حال عدالت نے کبھی کہا تھا کہ بابری مسجد کا انہدام ’قومی شرم‘ کا باعث ہے ،اس سے بھارت کی رواداری کو ٹھیس پہنچی ہے، تو معزز عدالت سے درخواست ہے کہ اس ’ قومی شرم‘کا دھبہ بھارت کے ماتھے سے مٹانے کے لیے تاریخی اور منصفانہ فیصلہ دے؛ تاکہ سند رہے کہ عدالت سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔رہی بات سیاسی فائدے کی، تو اس کے لیے بھارت میں اتنے ایشوز ہیں کہ کسی بھی ایشو کو پل بھر میں زندہ کیا جا سکتا ہے۔پاکستان، کشمیر، مسلمان، ریزرویشن،گائے،لوجہاد وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ یہ معاملہ ہندوستان کے مسلمانوں کے تشخص کا بھی ہے اور سیکولرزم کے نعرے کا بھی ؛اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملے کو کسی طرح کے سیاسی دباؤ کا بوجھ نہ بنایا جائے،کوئی اسے ہائی جیک نہ کرے۔بھائی ہمیں بہت ساری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں، جو اخباروں میں اپنی تصاویر لگا کر ہمارے رہنما لوگ کہتے رہے ہیں؛ اسی لیے جو سمجھ میں آیاہے ،وہ لکھ دیا۔
مصنف : ڈاکٹر وقار الدین لطیفی ندوی
ناشر : مجلس گیارہ ستارے انڈیا
قیمت : 300 ،رابطہ ناشر :9891642821
مبصر : عبدالباری قاسمی ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی دہلی
رابطہ : 9871523432
جگر گوشۂ قطب الاقطاب حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ امیرشریعت مولانامنت اللہ رحمانی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ،طالب علمی کے دور سے ہی ملک و قوم کی حمیت اور قو م و ملت کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھااور ایسا ہوتا بھی کیوں نہیں اس لیے کہ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت ہی ایسے ماحول اور ایسے خاندان میں ہوئی تھی، جس نے اسلامی حمیت اور دین اسلام کی صیانت وحفاظت کے لیے سب کچھ قربان کردیا، ایسے بزرگ و برگزیدہ خاندان کے چشم و چراغ تھے۔
امیر شریعت مولانا سید منت اللہ رحمانی صاحب کا امیر شریعت صرف خطاب ہی نہیں بلکہ رہتی دنیا تک کے لیےیہ ان کے نام کا جزو ہو چکا ہے، جب بھی امیر شریعت بولا جاتا ہے، فوراًہی ذہن امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی صاحب ؒ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے ،ملت اسلامیہ ہند کو جب بھی اور جس محاذ پر بھی ضرورت پڑی،آپ نے سینہ سپر ہوکر قربانی دی اور مردانہ وار مقابلہ کرکے فتح بھی حاصل کی،خواہ مسلم پرسنل لا کا معاملہ ہو یا ملک کی آزادی کا ہر سطح پر آپ کی قربانیاں موجود ہیں، اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ آپ بیک وقت دونوں دارالعلوم یعنی دیوبند اور ندوۃ العلما کے بااثر اور معزز رکن شوریٰ تھے ،اس کے علاوہ امارت شرعیہ بہار اور جامعہ رحمانی مونگیر کی نشاۃ ثانیہ بھی حضرت امیر شریعت کا بہت ہی اہم اور زریں کارنامہ ہے ،حضرت امیر شریعت کی تصنیفی اور تالیفی زندگی کا اگر معائنہ کریں تو وہاں ان کی بیش بہا خدمات دیکھنے کو ملتی ہیں، آپ نے تقریباً دو درجن کتب و رسائل بھی تحریر کیے،ان میں آپ کی علمیت واستدلال ،جامعیت و اختصار ،روانی و سلاست ،برجستگی و بے تکلفی اور عالمانہ شان دیکھنے کو ملتی ہے ،جہاں تصنع و تکلف سے احتراز ملتا ہے وہیں عام فہم اور سادہ الفاظ دیکھنے کو ملتے ہیں ،ان کی نثر میں وہ تمام خوبیاں اتم درجہ موجود ہیں جو ایک ادیب کو ممتاز مقام پر فائز کرتی ہیں ۔
غرض آپ کی زندگی کا ہر پہلو ایسا ہے کہ باضابطہ سب پر علاحدہ علاحدہ تحقیقی کام کیے جانے کی ضرورت ہےـ خواہ علمی میدان ہو یا عملی ،فقہی ہو یا سیاسی ،سماجی ہو یا معاشرتی ،ادبی ہو یا غیر ادبی ـ اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی ڈاکٹر محمد وقار لطیفی ندوی آفس سکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ کی کتا ب ہے ’’ سوانح حضرت امیر شریعت ‘‘ ڈاکٹر وقار لطیفی ندوی صاحب نے اسے چار بابوں میں منقسم کیا ہے ـ پہلا باب حالات زندگی پرمشتمل ہے ،اس میں مصنف کتاب نے حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی کے حالات زندگی ،علمی ،سماجی اورخاندانی پس منظر، تعلیمی زندگی ،نکاح و اولاد کے ساتھ وفات تک کا نقشہ مختصر انداز میں کھینچا ہے ۔
دوسرا باب تعلیمی و تصنیفی خدمات کے عنوان سے ہے، اس باب میں تعلیمی و تصنیفی خدمات کے ساتھ حضرت امیر شریعت کی عملی زندگی کہاں سے اور کیسے شروع ہوئی، اس پر خوبصورتی سے روشنی ڈالی گئی ہے، بطور خاص امیر شریعت کی زبان دانی اور ان کے نثری اسلوب کا بہت خوبصورتی سے تجزیہ کیاگیا ہے،بلا جھجک کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر وقار لطیفی صاحب کو اولیت حاصل ہے کہ انہوں نے حضرت امیر شریعت کی زندگی کے ایسے قیمتی اور اہم پہلو پر روشنی ڈالی ہے،جو عام لوگوں کی نگاہوں سے مخفی و پوشیدہ تھا ،زیر تبصرہ کتا ب کی تقریظ میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی اس کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے ’’ ایک ایسا پہلو جس پر اب تک اس طرح قلم نہیں اٹھایا گیا،جو اس کا حق تھا، اس پر انہو ں نے خصوصی توجہ دی ہے اور وہ ہے حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی کا نثری اسلوب اور ادبی مزاج و مذاق ،مؤلف نے جو کچھ لکھا ہے،مستند مراجع سے استفادہ کرتے ہوئے لکھا ہے ‘‘ (ص: ۲۲ سوانح حضرت امیر شریعت ) ۔
تیسرے باب کا عنوان دینی و ملی خدمات ہے، یہ امیر شریعت کی عملی زندگی کا وہ پہلو ہے، جس حوالے سے سے نہ صرف یہ کہ امیر شریعت کو سب سے زیادہ مقبولیت و شہرت ملی بلکہ اس چیز کے لیے انہوں نے اپنی زندگی کو وقف رکھا ۔اس باب میں ڈاکٹر وقار لطیفی صاحب نے امیر شریعت کن کن دینی وملی اداروں سے وابستہ رہے اور ان سے جڑ کر کیا کیا دینی و ملی خدمات انجام دیے ان تمام پر مختصرا روشنی ڈالی ہے ۔
چوتھے باب کا عنوان ہے سیاسی ،سماجی ،رفاہی اور فلاحی خدمات، اس حصے میں ڈاکٹر صاحب نے حضرت امیر شریعت مولانا سید منت اللہ رحمانی کی سیاسی اور سماجی سطح پر جو خدمات ہیں،ان سب کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے ،اس باب کے آخر میں آخری بات کے عنوان سے کتاب یا مقالہ کا خلاصہ ہے، اس میں حضرت امیر شریعت کی زندگی کے تمام جہتوں کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔
ڈاکٹر وقار الدین لطیفی ندوی صاحب کی یہ کتاب مجموعی اعتبار سے بہت ہی عمدہ ،جامع اور مستند ہے ،اس کے مستند ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ امیرشریعت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا سید ولی رحمانی نے اس کی اشاعت سے قبل حرف بہ حرف اسے دیکھا ہے، اس کا اقرار و اعتراف اس کتاب کے مقدمہ میں بھی موجودہے ،وقار صاحب نے مختصرا حضرت امیر شریعت کی زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں کا ۳۳۵ صفحات میں ہی احاطہ کر لیا ہے،اس اہم کام کے لیے ڈاکٹر وقارالدین لطیفی ندوی صاحب لائق تحسین اور قابل مبارکبا دہیں،بلاجھجک کہا جا سکتا ہے کہ حضرت امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانی کی شخصیت اور خدمات کو سمجھنے اور جاننے کے لیے یہ کتا ب بہت ہی عمدہ ہےـ کتاب کی طباعت اور جلد و کاغذ بھی عمدہ ہے ،البتہ وقار صاحب نے حضرت امیر شریعت کی دارالعلوم میں طالب علمی کے دوران طلبۂ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ و نیپال کے طلبہ کی مشترکہ انجمن بز م سجاد کی تاسیس وتشکیل کے حوالے سے کچھ نہیں لکھاہے، حالاں کہ وہ بھی ان کی زندگی کا ایک اہم کارنامہ ہے ـ آج بھی طلبہ بڑی تعداد میں اس لائبریری اور انجمن سے استفادہ کررہے ہیں اور پہلے بھی کر چکے ہیں،جن میں اہم نام سابق امیر شریعت بہار مولانا سید نظام الدین گیاوی کا بھی ہے ، اس کے علاوہ تدریس اور خدمت حدیث کاباب بھی تشنہ رہ گیاہے ،مصنف کتاب آئندہ ایڈیشن میں اس جانب توجہ دیں،تو کتاب کی افادیت مزید دوبالا ہو جائے گی ـ
ندیم بھابھہ
ہاتھ اٹھے ہیں اور دعا خاموش
اس لیے بھی کہ ہے خدا خاموش
میں بہت بولتا تھا سو مجھ کو
نعمتوں سے کیا گیا خاموش
اسے محسوس کر پکار نہیں
وہ جو رہتا ہے ہر جگہ خاموش
اب دھواں ہے نہ کوئی دھڑکن ہے
کچھ نہ کچھ تھا جو ہوچکا خاموش
ایک مدت کے بعد کی تقریر
بس کہا اتنا ، واعظا خاموش
ہم نے کیا کیا نہیں پڑھا سمجھا
اس نے کاغذ پہ تھا لکھا خاموش
دیکھنا بھی پکار ہے کملے
بڑا آیا بنا ہوا خاموش
عشق کی پہلی بات لب نہ ہلیں
عشق کا پہلا ذائقہ خاموش
اس لیے خام ہے محبت میں
اس نے پورا نہیں پڑھا خاموش
بات کرتی ہے روشنی ہم سے
تو کہے گا کہ ہے دیا خاموش
ورنہ یہ کائنات چپ ہوتی
شکر اس نے نہیں کہا خاموش
طلبۂ شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے فریشر پارٹی کاانعقاد،سعودی عرب کے نائب سفیرکاخصوصی خطاب
نئی دہلی(پریس ریلیز)
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی فیکلٹی آف انجینیرنگ کے کانفرنس ہال میں شعبۂ عربی کی جانب سے ہر سال کی طر ح امسال بھی نئے طلبہ کے استقبال میں فریشر پارٹی کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے نائب سعودی سفیر ڈاکٹر طارق رشوان نے شرکت کی ۔پروگرام کا آغاز شعبۂ عربی کے طالب علم محمدمقیم کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ، اشرف نثارنائب صدر انجمن طلبہ، سراج الدین جنرل سکریٹری انجمن طلبۂ شعبۂ عربی نے گلدستہ پیش کرکے صدر مجلس اور مہمان خصوصی کا استقبال کیا۔
رافعہ فاروق( ایم اے سال اول) ، زینب صدیقی( ایڈوانس ڈپلومہ) اور محمد وسیم(ایم اے سال اول) نے عربی زبان میں نظم اور قصیدے پیش کیے، جنرل سکریٹری انجمن طلبہ نے مہمان کا استقبال کرتے ہوئے انجمن کی سرگرمیوں کا تعارف پیش کیا۔
صدر شعبۂ عربی پروفیسر حبیب اللہ خان نے مہمان خصوصی کا استقبال کرتے ہوئے ان کی تشریف آوری پر مسرت کا اظہارکیا،نیزہندوستان اورسعودی عرب کے گہرے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے سعودی عرب کے مرحوم بادشاہ شاہ عبداللہ بن عبد العزیز اور موجودہ بادشاہ خادم الحرمین الشریفین سلمان بن عبد العزیز کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے اعزازی ڈیلٹ کی ڈگری دیے جانے کا تذکرہ کیاـ انھوں نے کہا کہ شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مرکز عبد اللہ بن عبد العزیز برائے فروغ عربی زبان کا باہمی تعاون ان تعلقات کو مضبوط تر کرتا ہے۔ انھوں نے نئے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ عربی میں داخلہ آپ کو مبارک ہو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ہر چیز ہمارے لئے ایک امانت ہے اس لئے ہر چیز کی حفاظت اور اس کا بہتر استعمال ہماری ذمہ داری ہے ، انھوں کہاکہ اللہ تعالی آپ کو مستقبل میں کامیابیوں سے نوازے ، یاد رکھئے کامیاب اور ناکام میں ایک بنیادی فرق ہے ، کامیاب وہ ہوتا ہے جو ہر وقت اپنی کمیوں پر نظر رکھتا ہے، اور ناکام وہ ہوتا ہے جو اپنی کمیوں کو نظر انداز کرتا جاتا ہے۔آج ہی سے ہم یہ طے کریں کہ ہمیں مستقبل میں ملک و ملت کی خدمت کرنی ہے اور بہتر شہری کا کردار ادا کرنا ہے۔
آخر میں صدر شعبۂ عربی نے اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی ، ڈاکٹر ھیفاء شاکری ،ڈاکٹر محفوظ الرحمن،اور طلبہ و طالبات کا بطور خاص شکریہ ادا کیا ۔
سعودی عرب کے نائب سفیر ڈاکٹرطارق رشوان نے اپنے خطاب میں کہا کہ عربی زبان ایک خوبصورت زبان ہے ، ہمیں خوشی ہے کہ ہندوستان میں عربی زبان کو زبردست فروغ حاصل ہوا ہے ، عربی زبان علم فکر اور فلسفہ کی زبان ہے، عربی زبان کو آج دنیا کے مختلف حصوں میں قبو ل عام حاصل ہو رہا ہے، عربی زبان دنیا کے مختلف بڑے فورموں میں اعلی مقام حاصل کر رہی ہے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ عربی زبان میں مہارت پیدا کرکے زندگی کے مختلف میدانوں میں ملک کی بہتر ترجمانی کریں گے اور انھیں ایک روشن اور تابناک مستقبل حاصل ہوگا ۔
ایک نئے انداز میں کلمات تشکر پیش کرتے ہوئے سبجیکٹ ایسوسی ایشن کے ایڈوائزر ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی نے ایک عربی قصیدے میں تمام مہمانوں اور اساتذہ و طلبہ کا شکریہ ادا کیا ۔مہمان خصوصی نائب سعودی سفیر ڈاکٹر طارق رشوان کو شعبۂ عربی کی جانب سے شعبۂ عربی کے اساتذہ کی تصنیفات بطور ہدیہ پیش کی گئیں۔
پروگرام کے دوسرے سیشن میں ایک شاندار تمثیلی مشاعرہ پیش کیا گیا جس میں شعبہ کے طلبہ نے غالب ، مجاز، احمد فراز، حفیظ میرٹھی ، راحت اندوری ، رفیق شادانی، جگر مرادابادی کی تمثیل پیش کرتے ہوئے ان شعراء کی غزلیں اور نظمیں پیش کیں،اس پروگرام میں شعبۂ عربی کے صدر پروفیسر حبیب اللہ خان شعبہ کے اساتذہ، پروفیسر محمد ایوب ندوی ، پروفیسر عبد الماجد قاضی، ڈاکٹر نسیم اختر ندوی ، ڈاکٹر فوزان احمد ، ڈاکٹر ھیفاء شاکری ، ڈاکٹر اورنگ زیب اعظی، ڈاکٹر محفوظ الرحمن ، ڈاکٹر عظمت اللہ ، محمد عمیر وغیرہ اور طلبہ نے شرکت کی ۔
عامرہزاروی
جون ایلیا کے بارے میں ان کی بھتیجی کی کتاب "چچا جون "آج پڑھی اور ختم کی ، جان من سجاد خان نے یہ کتاب کراچی سے بھیجی ، کیا خوبصورت کتاب ہے ، پوری کتاب پڑھ کر جودو باتیں ذہن میں آئیں، وہ پیش خدمت ہیں ـ
اول:
انسان کو دانش ور اور شاعر ہی نہیں، انسان بھی ہونا چاہیے ، اکثر بڑے ناموں کو بہت چھوٹا انسان پایا ہے ، بڑے نام بڑے انسان ہوں،یہ ضروری نہیں ـ
جون ایلیا کے بارے میں جب یہ پڑھا کہ انہوں نے گھر کے لیے ہر وہ حربہ آزمایا، جو چھوٹے لوگ آزماتے ہیں، تو ان کا قد نگاہوں سے گرگیا ، جون کی بھتیجی بھی جون کو سقراط و ارسطو جانتی تھی ، وہ سمجھتی تھی کہ جون کو دولت کی لالچ نہیں، مگر دولت کے حصول کے لیے انہوں نے جب مقابلے کی ٹھانی، تو ایک مریدنی کا اپنے پیر پر ایمان کمزور ہوا ، ہو سکتا ہے جون ٹھیک ہوں ،ان کا مطالبہ ٹھیک ہو، مگر گھر میں ٹیکسی ڈرائیوروں کو ٹھہرانا معیوب لگا، بھتیجی سے مقابلہ کرنا بنتا نہیں اور پھر جب ایک بھتیجی مری، تو اپنی انا قربان نہ سکے ، بھتیجی کی تعزیت میں شریک ہونا بھی گوارہ نہ کیا ، جہاں بھتیجی اپنا رونا رو رہی تھی، وہیں اس نے جون کا رونا بھی رویا ، اس نے زاہدہ حنا کی بے حسی کو بھی ظاہر کیاـ
یہ کتاب بتاتی ہے کہ کیسے جون زاہدہ حنا کے سامنے روتے تھے ، اولاد کو یاد کرتے تھے ، طلاق نہ لینے کے لیے گڑگڑاتے تھے اور پھر جون اپنی بیٹی کی شادی میں بھی شریک نہ ہو سکے ، زاہدہ حنا نے ایک باپ کو بیٹی سے ملنے نہ دیا،اس کی شادی میں شریک نہ ہونے دیا ، ایک شاعرہ ایک لکھاری کا جب یہ روپ دیکھا، تو بے حد افسوس ہوا ، وجوہات جو بھی ہوں، انسانیت کا رشتہ نہیں توڑنا چاہیے ،ساری دنیا کے لیے انسانیت کا درس دینے والے گھر میں انسانیت کا جنازہ پڑھائیں، تو معیوب لگتا ہے ، یہ بڑے انسانوں کے کام نہیں ـ
دوم:
زندگی کو حقیقت سمجھنا چاہیے ، زندگی سے سمجھوتہ نہ ہو سکے، تو انسان کا حال جون ایلیا والا ہو جاتا ہے ،خود کو اذیت دینا ٹھیک نہیں ، آگے بڑھنا چاہیے ، زندگی ماضی کے سہارے گزارنی ٹھیک نہیں ، ماں باپ سے وراثت میں ملنے والے دکھ سینے سے لگا کر نہیں رکھنے چاہئیں ، جون کے بارے میں ان کی بھتیجی نے لکھا کہ اماں کے اندر جو محرومیاں گھاؤبن گئی تھیں ، گھٹن،غصہ اور اداسیاں، وہ سب مل کر جون اصغر کے روپ میں پیدا ہو گئیں ، گویا اماں کے یہاں جون کی شکل میں ظلمین پیدا ہو گیا ، جو انتہائی کڑوا اور زہریلا تھا ، اماں صدائے احتجاج بلند نہ کر سکیں، مگر جون سراپا احتجاج بن گئے ، اماں اپنی تمام تر ناکامیوں اور بدنصیبوں کو اوڑھ کر منوں مٹی تلے سو گئیں اور جون ان کے مجاور بن گئےاور جون اپنی مجاوری پر خوش تھے ، سوال یہ ہے کہ زندگی کب تک اداسی میں گزاری جا سکتی ہے ؟ جون منفرد رہنے کے شوق میں تنہا ہوتے گئے اور ایسی زندگی گزاری جو گزارنے والی نہ تھی ، بڑا دماغ اپنی غلطیوں کی نذر ہو گیاـ
بہرحال ایک خوبصورت کتاب ہے ، جون کی شخصیت کےبارےمیں وہ کچھ لکھا ہے، جو ہم نہیں جانتے، کتاب ایک ہی فرصت میں پڑھے بنا بندہ نہیں رہ سکتاـ
علی اکبرناطق
یہ رسالہ اثبات کا سرقہ نمبر ہے ، اِسے اشعر نجمی نے ہندوستان اور پاکستان ،دونوں مُلکوں سے برابر چھاپا ہے۔
اشعر نجمی بمبئیے ہیں ، مجھے ہندوستانی ادب دوستوں میں متعارف کرانے والوں میں اول صاحب ہیں ۔ اثبات کو اِنھوں نے میرے لیے بیسویں صدی کا ریڈیو پاکستان یا پی ٹی وی بنا دیا تھا۔( ان دونوں ذرائع سے بیسویں صدی کے پاکستانی لونڈے بھی گلی گلی مشہور ہو گئے تھے)اثبات کو کچھ عرصے کے لیے تعطل آیا۔ اُس کے بعد مولانا اشعر نجمی نے جلد اندھے پن کو دُور کیا اور نئی طاقت سے رسالےکو اٹھایا ۔ یہ صاحب آپ سمجھو آدھا انسان اور آدھا ہنومان ہے۔ لنکا سے امرت بوٹی لینے جاتا ہے، تو سارا پہاڑ بمع ارجن لے کر وآپس آتا ہے ۔اثبات کا سرقہ نمبر نکال لائے ہیں اور اِس میں ایسے بُتوں کو کلمے پڑھائے ہیں،جن کے ایمان و آگہی کی گواہیاں ادب کی زبوریں دیتی تھیں ۔ سرقے میں ایسے محراب جبیں سجدہ میں گرے پڑے ملے،جن کے عمل صالح نے کبھی اُن کی گردن میں خم نہیں آنے دیا تھا ۔ مجھے اِس رسالے کے آنے کا جو انتظار تھا ،وہ شاید کسی کو ہو ۔ کل داتا صاحب کے دربارِعالیہ میں گیا اور یہ محمود و ایاز کا اعمال نامہ اُٹھایا ۔ آتے ہی ایسے مطالعہ میں جُت گیا،جیسے صبح میری پھانسی کا رسہ کھینچا جانا ہو اور وقت فرصت کا میرے پاس نہ ہو ۔رات آتے ہی سب سے پہلے اشعر نجمی کا اداریہ ، خالد جامعی صاحب کا مضمون اور مولانا آزاد کے سرقے پر لکھے گئے دونوں مضامین پڑھنے کے بعد تسلی ہوئی، یعنی مضامین کے اِن پہاڑوں سے چوہا آخر یہ برآمد ہوا کہ مولانا آزاد نے "نیرنگ خیال "کا خیال کہیں سے لیا ہے ، آبِ حیات میں قدرت اللہ قاسم کا کہیں کہیں نام نہیں دیا ہے۔ باقی باتیں سرقہ سے متعلق ہی نہیں ہیں،محض مولانا پر اپنی بے ہنری کا غصہ نکالا ہے ۔ علاوہ ازیں اپنے اداریے میں خود نجمی صاحب نے بار بار ہمارے نام کوسنے چڑھائے ہیں ۔ ہمیں اِس سے کچھ خیال غیرت ایمانی کا نہیں آیا ، صرف محبت کے عالم میں آج دوپہر تک مکمل رسالہ نوش فرمایا ۔ میاں قاری لوگواِس بات کا گواہ میرا حسین ہے کہ ایسا دلچسپ رسالہ ابھی تک ہم نہ پڑھ پائے تھے ۔ اشعر نجمی کی صلاحیت پر اِس سے آگے شک کرنا گناہ ہے کہ یہ بندہ اگرچہ سڑی بہت ہے مگر بندہ بے پناہ ہے ۔ ہر مضمون میں کمال موشگافیوں کے در کھُلتے ہیں ، ایک سے بڑھ کر ایک گناہ سرقے کا دلچسپ ہے اور رنگ آمیز ہے۔ میں پڑھتا جاتا تھا اور جی میں داد کے کوزے بھر بھر مدیر پر اُلٹائے جاتا تھا ۔ یہ کتاب بہت خوبصورت ورق کے ساتھ اور مواد کے ساتھ سامنے آئی ہے ۔ عکس پبلی کیشن نے بھی حق ادا کر دیا ہے۔ پڑھنے والے اگر اِس رسالے کو نہ پڑھیں گے تو اپنے جی کے ساتھ بُرا کریں گے ۔ یونیورسٹی کے پروفیسران حضرات ضرور توجہ دیں، اگر اللہ اُن کو پڑھنے کی توفیق عطا کرےـ زیادہ تر باتیں نہایت علمی انداز میں سامنے آئی ہیں استثنیٰ مولانا آزاد کے متعلق سے کی گئی باتوں کے۔
اب آتے ہیں مولانا آزاد پر لکھے گئے مضامین کے حوالے سے بات پر ۔
اِس معاملے میں اشعر نجمی صاحب اور خالد جامعی صاحب اور فہیم کاظمی صاحب اور ابوالخیر کشفی کی موشگافیوں کا جواب زیادہ نہیں دیا جا سکتا،ہاں ایک دو باتیں سُن لیو ۔ اول: خالد جامعی صاحب کے مضمون میں آزاد پر قاضی عبد الودود صاحب کے الزامات ،تو وہ میاں مکمل جہالت پر مبنی ہیں ، اُن تمام الزامات میں اول تو مولانا پر کہیں سرقے کا الزام نہیں ہے، اُن کی تحیقیق کے خام ہونے پر ہے ۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ قاضی صاحب نے کہیں بھی ثبوت کے ساتھ بات نہیں کی ۔ محض الزامات قیاس پر مبنی عائد کیےہیں ۔ یعنی ایک جگہ قاضی صاحب کہتے ہیں کہ مولانا نے کہا کہ جب اُستاد ذوق کابلی دروازہ کی طرف نکلتے تھے تو مَیں اور اُستاد ساتھ ہوتے تھے ۔ جبکہ اُس وقت مولانا کی عمر ۲۴ سال تھی تو ساتھ ساتھ کیسے ہو سکتے تھے؟ قاضی صاحب سے بندہ پوچھےکہ اول تو جب اُستاد ذوق فوت ہوئے ہیں،آزاد کی عمر ۲۹ سال تھی ، چوبیس نہ تھی ، دوئم اگر اِس عمر کا بندہ ساتھ نہیں چل سکتا، تو کیا آزاد کو ۹۰ سال کا ہونا چاہئے تھا ۔ اِسی طرح کی اُس نے آزاد پر مزید بکواسیات کی ہیں ، غصہ مجھے اِس پر آیا ہے کہ مولانا کی ذات کو جعل ساز کہا گیا ہے ۔ خیر یہاں جگہ نہیں، کبھی مکمل قاضی صاحب کی منجی ٹھونکوں گا ۔ دوسرے فہیم کاظمی صاحب ہیں ، اللہ جانے یہ بندہ کون ہے ، کہتا ہے: قدرت اللہ قاسم سے مواد لیا اور کچھ مولانا نے خود گھڑا، اور ذوق کے اشعار خود بنائے ۔سب باتیں چھوڑیں کے اُن کے جواب کی یہ جگہ نہیں ہے ۔ صرف یہی کہوں گا، ابے نالائق ،اِن تمام باتوں سے مولانا کی کتاب آبِ حیات کہاں سے سرقہ ثابت ہوئی؟ تیسرا آدمی ابوالخیر کشفی ہے ، اِس نے نیرنگِ خیال پر خامہ فرسائی کی ہے اور جو کچھ ثبوت دیے ہیں وہ انتہائی لچر اور نا قابلِ قبول ۔ یار کہاں مولانا کا اُسلوب اور کہان وہ دی گئی بے تُکی خام دو چار مثالیں ۔ میاں مولانا نے خیال وہاں سے ضرور لیا اور باقی سب کتاب اپنی طرف سے لکھی۔ ایک لائن بھی سرقہ ثابت نہیں ہوتی ۔ اور دنیا میں کون تخلیق کار ہے جو کسی ایک تخلیق کار کے خیال سے اپنا خیال ترتیب نہیں دیتا ۔ اگر کوئی نقاد اتنا بھی نہیں جانتا تو اُس جیسا گھامڑ کوئی اور نہیں ۔ الغرض مولوی آزاد پہ اعتراضات صرف اپنا قد بنانے کے لیے ہیں ،اُن کی اصل خاک نہیں ہے ۔ باقی قارئین خود پڑھ کر فیصلہ کریں گے ،اور اگر کوئی آدمی رسالہ نہیں پڑھنا چاہتا تو اُس سالے کو بتانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ۔
اِسے عکس پبلی کیشن نے چھاپا ہے ، ایک ہزار روپے میں گھر بیٹھے مل جاتا ہے ۔ میاں بہت پتے کی چیز بنی ہے۔ ضرور پڑھیے ۔ باقی مَیں نے نجمی صاحب سے اپنا سودا جو کرنا ہے وہ بعد میں سہی ۔ اِس میں شکر ہے ڈاکٹر صلاح الدین درویش نے مضمون نہیں لکھا ورنہ میرا سرقہ نکل آتاـ
سہ رکنی بنچ کے ایک جج کا فیصلے سے عدم اتفاق
یہ معاملہ آئین وقانون کی بالادستی کا ہے : ارشدمدنی
نئی دہلی 27؍ستمبر
5؍دسمبر 2017سے بابری مسجد ملکیت کے مقدمہ میں ہوئی بحث کے بعد آج چیف جسٹس دیپک مشراکی سربراہی والی بینچ نے اپنے ایک اہم فیصلہ میں یہ وضاحت کردی کہ اسماعیل فاروقی فیصلہ کا مقدمہ پر کوئی اثرنہیں پڑے گا ،دوسرے یہ کہ نماز مسجد میں اداکرنا ضروری نہیں ہے اس کا اس مقدمہ سے کوئی سروکارنہیں ہے ، قابل ذکر ہے کہ چیف جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس اشوک بھوشن نے اپنے فیصلہ میں یہ باتیں کہیں ہیں جب کہ بینچ کے دوسرے جج جسٹس عبدالنظیرنے دونوں فاضل ججوں کے فیصلوں سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اگرڈاکٹر اسماعیل فاروقی کے فیصلوں میں ہونے والے غلطیوں پر نظرثانی ہوجاتی تو اچھاتھا ، آج جیسے ہی عدالت کی کاروائی شروع ہوئی جسٹس اشوک بھوشن نے فیصلہ پڑھنا شروع کیا ، اس معاملہ میں فریق اول جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء ڈاکٹر راجیودھون اور راجیورام چندرن کی جانب سے کی گئی بحثوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ اسماعیل فاروقی کے فیصلہ کا بابری مسجد ملکیت کے مقدمہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ اس مقدمہ کی سماعت میرٹ کی بنیادپر ہوگی ، جسٹس بھوشن نے واضح کیا کہ بابری مسجد کی زمین سرکاری تحویل میں لیتے وقت یہ بات کہی گئی تھی کہ نماز کامسجد میں اداکیا جانا ضروری نہیں ہے ،انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت قانون کے تحت کوئی بھی زمین اپنی تحویل میں لے سکتی ہے ، لہذا چیف جسٹس اور میری رائے یہ ہے کہ اس معاملہ کی سماعت تین رکنی بینچ ہی میں ہو ، جسٹس عبدالنظیر نے چیف جسٹس اور جسٹس اشوک بھوشن کے مشترکہ فیصلہ سے عدم اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں کہا کہ وہ چیف جسٹس اور جسٹس بھوشن کے مشترکہ فیصلہ سے متفق نہیں ہے ، اور ان کاماننا ہے کہ کہ فاروقی کے فیصلہ پر نظرثانی کی جانی چاہئے تھی ، کیونکہ مسجدمیں نمازکاپڑھنا اسلام کااہم جز ہے اپنے فیصلہ میں انہوں نے کہا کہ حال میں سپریم کورٹ نے خواتین کے ختنہ (FGM) کو مذہب کا جز تسلیم کرتے ہوئے اس معاملہ کو کثیر رکنی بینچ کے حوالہ کردیا ہے ،اسی طرح اس معاملہ کو بھی ایک کثیر رکنی بینچ کے سامنے بھیجا جانا چاہئے تھا ، سپریم کورٹ نے آج ایک بارپھر یہ بات واضح کردی کہ بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ آستھا کی بنیادپر نہیں بلکہ عدالت کے سامنے موجودثبوتوں وشواہد کی بنیادپر کیا جائے گا ، عدالت نے جمعیۃعلماء ہند کے وکیل آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی اس بات کے لئے ستائش کی کہ انہوں نے اس سلسلہ میں جو کاغذات جمع کئے ہیں اس سے انہیں اپنا فیصلہ سنانے میں بڑی سہولت ہوئی ، اب ا س مقدمہ کی سماعت 29؍اکتوبر کو ہوگی۔
صدرجمعیۃعلماء ہند مولاناسید ارشدنی نے آج کے فیصلہ پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے آج ایک بارپھر اس بات کی وضاحت کردی کہ یہ معاملہ آستھا کانہیں بلکہ ملکیت کا ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم قانون اورعدلیہ پر مکمل اعتمادرکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمہ میں تمام شواہد وثبوتوں کو مدنظررکھتے ہوئے عدالت اپنا فیصلہ دیگی ، مولانامدنی نے یہ بھی کہا کہ بلاشبہ اس مقدمہ سے مسلمانوں اورملک کے تمام انصاف پسند لوگوں کے جذبات وابستہ ہیں کیونکہ یہ تنہاایک مسجد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک کے سیکولر اورجمہوری کردارسے جڑاہوا معاملہ ہے اور آئین وقانون کی بالادستی کا بھی ہے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ کس طرح جبراً ایک مسجد کو شہید کرکے آئین وقانون کے رہنمااصولوں کی دھجیاں اڑادی گئی تھیں ۔
تحقیق و تنقید میں نقل کرنے کی بجاے اپنا نظریہ پیش کرنا چاہیے:مشرف عالم ذوقی
تنقید نگار ڈاکٹر امتیاز احمد انصاری کی کتاب’’ بلونت سنگھ کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ ‘‘کا اجرا
نئی دہلی 27ستمبر(پریس ریلیز)معروف تنقید نگار ڈاکٹر امتیاز احمد انصاری کی کتاب’’ بلونت سنگھ کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ ‘‘کی رسم اجرا ممتاز فکشن نگار مشرف عالم ذوقی کے بدست انصاری اسلامک کلچرل سینٹر میں عمل میں آئی ۔جس کی صدارت مرزا اعجاز بیگ راجیہ منتری درجہ صدر چھتیس گڑھ مدرسہ بورڈ رائے پور نے کی۔انہوں نے کہا کہ بہترین نظریہ ساز تنقید نگاری سے امتیاز احمد انصاری نے اردو ادب کو تقویت پہنچائی ہے ۔اس طرح کے تنقید نگاری سے اردو ادب کو فروغ حاصل ہوگا اور ایک نظریہ لوگوں کے سامنے آئے گا ۔مہمان خصوصی مشہور و معروف شاعر و صحافی حبیب سیفی اور معروف ادیب و ایڈیٹر این سی ای آر ٹی پرویزشہر یار تھے۔اس موقع پر مشرف عالم ذوقی نے کہا کہ آزادی سے قبل یا آزادی کے وقت کے ہندوستان کو سمجھنا ہے تو بلونت سنگھ کو پڑھنا ہوگا ۔ڈاکر امتیاز انصاری نے بہت ہی علمی اور تحقیقی زبان استعمال کی ہے ۔بلونت سنگھ کے افسانوں کا راجیندر سنگھ بیدی سے بھی تقابل ہونا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ آج کل ریسرچ اسکالر کے نزدیک یہ رواج عام ہے کہ وہ کوٹیشن کوڈ کرتے کرتے پورا مقالہ تیار کرلیتے ہیں جبکہ مقالہ نگار کو چاہئے کہ وہ اپنا نظریہ پیش کریں ۔ہر بڑے شخص نے اپنا نظریہ پیش کرکے ہی اردو ادب کو بامِ عروج بخشا ہے ۔اس کتاب میں امتیاز احمد انصاری نے اپنا نظریہ پیش کرکے بلونت سنگھ کی افسانہ نگاری و ناول نگاری کی وسعت کو سمجھنے میں آسانیاں پیدا کی ہیں۔بلونت سنگھ کہ افسانوں کو پنجاب میں محدود کردینا درست نہیں ہے۔پنجاب ایک جوش ،ایک جذبہ اور ایک جنون کا نام ہے جو آپ کے اندر حوصلہ دیتا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ امتیاز احمد نے اس تنقیدی جائزہ میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بلونت سنگھ کا اسلوب بھی وہی پرانا ہے جو سعادت حسن منٹو کا تھا ۔بلونت سنگھ کہانی سے کھیلتا تھا ،اس کے اندر انسانی نظریہ کی باتیں کرتا تھا ۔کردار کے اندر اتر کر دونوں کا جائزہ لیتا تھااور اس بات کی کوشش کرتا تھا کہ نئی باتیں سامنے آئیں ۔آج کے دور میں بلونت سنگھ کو یاد کرنا اردو ادب کے لئے بہت اہم کام ہے ۔اس موقع پر این سی ای آر ٹی کے ایڈیٹر پرویز شہر یار نے کہا کہ امتیاز احمد کی یہ کتاب اردوتنقید نگار میں ایک اضافہ ہے ۔انہوں نے معاصرین کے تناظر میں تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے ۔ حبیب سیفی نے کہا ڈاکٹر امتیاز احمد انصاری کی تنقید کے کئی پہلو قابل ذکر اس لئے ہیں کہ انہوں نے بلونت سنگھ کے نام کے ساتھ ان کے کام کا کئی تنقیدی زاویوں سے جائزہ لیا ہے،اور معنی اخذ کرنے میں انصاف پسندی سے کام لیا ہے۔ بلونت سنگھ نے موقع ومحل ضروریات کے ساتھ افسانوی کرداروں کے متعلق زبردست تخلیقی مظاہر کیا ہے۔کئی افسانوں سے مشابہت کے باجود دیمک ہی نہیں کئی اور دیگر ایسے افسانے ایسے ہیں جو انہیں منٹو کے قریب کرتے ہیں۔منفی کرداروں کو نبھانے میں بعض اوقات لگتا ہے بلونت سنگھ اس دور کے لکھنے والوں میں قافلہ سالار کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ تلاشِ زاویہ جس کا نام بلونت سنگھ کی افسانہ نگاری کاجائزہ ہے خاص طریقے سے تنقید میں ڈاکٹر امتیاز احمد انصاری کا ایک الگ مقام تعین کرے گا۔اس موقع پرصحافی فلاح الدین فلاحی،انصاری اطہیر حسین، ابو صارم ،ساجد عبید ،سہیل احمد خان ،ڈاکر نعمان قیصر ،پردیپ بھٹناگر،این اے رضا ،نعیم احمد انصاری ،مبشر عالم ،صابر میاں جان خان وغیرہ موجود تھے ۔
عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
گذشتہ چند دنوں سے ایک کم سن بچی کے ساتھ جنسی تشدداوردرندگی کا واقعہ الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں موضوع بحث بناہوا ہے ،ہرکسی کی زبان پر اسی حادثے کاذکرہے اور ہرکوئی اس اندوہناک واقعہ کی پرزورمذمت کرتانظرآرہاہے ۔اخباری اطلاعات کے مطابق یہ تازہ واقعہ حیدرآبادکے مسلم اکثریتی علاقے ٹولی چوکی میں واقع ایک مسلم اسکول میں پیش آیا جہاں درندہ صفت سپروائزر نے اسکول میں جاری سائنسی نمائش کے دوران چاکلیٹ دینے کے بہانہ سے اسکول ہی کے عقبی حصہ میں لے جاکر چار سالہ معصوم بچی کے ساتھ شرمناک حرکت کا مظاہر ہ کیا ۔ اس واقعے کا پتہ اس وقت چلا ،جب لڑکی کے والد اپنی معصوم بچی کو لینے کے لئے اسکول پہنچے ، بچی نے باپ سے شکایت کی کہ اس کے پیٹ میں درد ہے ، والد کے فوری دواخانہ لے جاکر معائنہ کرانے پر پتہ چلاکہ اس معصوم کی عصمت دری کی گئی ہے ۔ اس گھناؤنی حرکت کا پتہ چلنے پر لڑکی کے والدین نے اسکول کی انتظامیہ سے رجوع کیا اور گولکنڈہ پولیس اسٹیشن پہنچ کر اسکول کے خلاف شکایت درج کروائی، جس پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے سپروائزر کو حراست میں لے لیا اور اس کے خلاف عصمت ریزی پوسکو ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیاگیا ، بعد ازاں برہم عوام نے اسکول پہنچ کر انتظامیہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ، اس مظاہرہ میں مرد و خواتین کی بڑی تعداد شریک رہی۔ اسسٹنٹ کمشنر پولیس مسٹر کے اشوک چکرورتی نے بتایا کہ اسکول سپروائزر کے خلاف عصمت ریزی کے علاوہ پوسکو ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے ، اُنھوں نے کہاکہ یہ واقعہ دوپہر ساڑھے بارہ بجے کے قریب پیش آیا اور پولیس اسکول کے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ کی بنیاد پر شواہد اکٹھا کررہی ہے ، متاثرہ لڑکی نیلوفر دواخانہ میں کچھ دن زیرعلاج رہی ۔
انسانیت کے نام پر سیاہ دھبے کے مترادف اس نوعیت کے خوف ناک واقعات ملک بھر میں جگہ جگہ پیش آتے رہتے ہیں ؛مگران کو پڑھ کر یا سن کرہم ہیں کہ صرف کڑھتے ہیں، کلبلاتے ہیں اور ٹھنڈی آہ بھر کے رہ جاتے ہیں؛جب کہ یہ ایک اجتماعی افتاد ہے جو اجتماعی کوششوں سے ہی ٹالی جا سکتی ہے ۔
یہ سچ ہے کہ بچے گلشن گیتی کے مہکتے پھول،مسکراتے غنچے اور لہلاتے پودے ہیں؛مگران کی آبیاری،نگہبانی اور باغبانی والدین کا فرض منصبی اور سرپرستوں کی اہم ذمہ داری ہے،اولاد خواہ بیٹا ہو یا بیٹی، قدرت کا عظیم تحفہ اور انمول نعمت ہے ،جس کو نہ رد کیا جاسکتا ہے ،نہ بدلا جاسکتا ہے ، انسان اس معاملے میں بے بس ہے ، اللہ جسے جو چاہتا ہے وہ عطا کرتا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ترجمہ:146146تمام بادشاہت اللہ ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے بخشتا ہے یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے، وہ تو جاننے والا اورقدرت والا ہے ۔145145 (سورۃ الشوریٰ 49:50)چناں چہ ولادت سے لے کربلوغت تک اور اس کے بعدبھی اولاد کی اسلامی تعلیم اور دینی تربیت، ہر دور کا اہم تقاضا اور ہر زمانے کی بڑی ضرورت ہے ۔بچوں کی نفسیات کے ماہرین نے مختلف زاویوں سے بچوں کی تربیت کا اہتمام کرنے اور انہیں ایک نیک و اچھا انسان بنانے کے حوالے سے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کی اخلاقی،معاشرتی،ذہنی،حسی، جذباتی اور جنسی تربیت کرنا والدین اور سرپرستوں کے لیے ازحد ضروری ہے ۔
اسلام میں چھوٹے بچوں کی تربیت کے لیے تلقین کے ساتھ ساتھ عادت ڈلوانے کا فطری طریقہ اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ۔ ابتدائی عمر میں بچوں کے اندر سیکھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے ،وہ ہرچیزکی نقل اتارنے اور بڑوں کی طرح بڑاکام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امام غزالیؒ کے مطابق اس عمر کا بچہ ایک پاک و نفیس موتی کی مانند ہوتا ہے ، لہٰذا اسے خیر کا عادی بنایا جائے، تو وہ اسی میں نشوونما پائے گا،بچہ جب پیدا ہوتا ہے ،تو فطرتاً سلیم الطبع اور توحید پر پیدا ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے کہ اللہ کی اس فطرت کا اتباع کرو، جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے ۔ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں تبدیلی نہیں (الروم )۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے بھر اس کے والدین یا اسے یہودی بناتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں (مسلم)گویا ماحول بچے کی پاکیزہ فطرت کو پراگندہ کرتا ہے ، لہٰذا بچے کے لیے اردگرد کے افراد اور ماحول دونوں کا اسلامی حوالوں سے پاکیزہ ہونا بہت ضروری ہے ؛ کیونکہ شخصیت پر موروثی اثرات سے زیادہ ماحول کی تربیت کا اثر پڑتا ہے ۔ کہا جاتا ہے عادتیں صرف ۳۰ ؍فی صد مورثی ہوتی ہیں اور باقی۰ ۷؍فی صد ماحول سے بنتی ہیں۔
ایک بارحضرت احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہیے ! اولاد کے سلسلے میں کیا سلوک ہونا چاہئے ؟ احنف بن قیس نے کہا امیرالمومنین اولاد ہمارے قلوب کا ثمرہ ہیں، ہماری حیثیت ان کے لئے زمین کی طرح ہے ، جو نہایت نرم اوربے ضرر ہے اورہمارا وجود ان کے لئے سایہ فگن آسمان کی طرح ہے اور ہم انہی کے ذریعے بڑے بڑے کام انجام دینے کی ہمت کرتے ہیں۔ پس اگروہ کچھ آپ سے مطالبہ کریں، تو ان کے دلوں کا غم دور کیجئے ! نتیجے میں وہ آپ سے محبت کریں گے ،آپ کی پدرانہ کوششوں کو پسند کریں گے اورکبھی ان پر ناقابل برداشت بوجھ نہ بنیے کہ وہ آپ کی زندگی سے اکتا جائیں اورآپ کی موت کے خواہاں ہوں، آپ کے قریب آنے سے نفرت کریں۔
بچوں کی جنسی تربیت کے تعلق سے ذیل میں کچھ اہم اور بنیادی باتیں ذکر کی جاتی ہیں،اگر ان کا لحاظ رکھا جائے، تو بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد کا بڑی حدتک خاتمہ ہوسکتاہے اور انسان نما درندوں کو بہ آسانی کیفر کردار پہونچایا جاسکتا ہے ۔
جنسی تربیت کسے کہتے ہیں ؟:
جنسی تعلیم و تربیت سے مراد عمر کے ساتھ ساتھ بچوں میں جو جسمانی اور ذہنی تبدیلیاں آتی ہیں ان سے متعلق مسائل سے آگاہی اور نت نئے چینلجز کا مقابلہ کرنے کے لیے دینی اور سائنسی معلومات فراہم کرنا ہے ، والدین کے لیے یہ تربیت تب ہی ممکن ہے ،جب وہ اس کی ضرورت محسوس کریں اور انہیں خود ان مسائل سے واقفیت ہو،ان موضوعات میں سب سے اہم موضوع بچوں کو ان کے جسم کے پرائیویٹ حصوں کا شعور دینا کہ انہیں کوئی دوسرا ہاتھ نہیں لگا سکتا، کسی بھی دست درازی کی صورت میں بچے کو اس سے نمٹنے کے طریقے سکھانا، ان میں بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ذہن میں پیدا ہونے والی خواہشات اور ان کو لگام دینے کے اسباب بتلانا،ایام اور احتلام کے بعد غسل، حمل، مرد عورت کے درمیان ازدواجی تعلقات، اور زنا کے دینی اور دنیوی نقصانات بھی مناسب عمر میں زیر بحث لائے جاسکتے ہیں، درحقیقت اسی کانام جنسی تعلیم ہے ۔
بچوں کا بستر الگ کریں :
رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی اُمت کو حکم فرمایا: جب تمہارے بچے ساتھ سال کے ہو جائیں تو اُنہیں نماز پڑھنے کا حکم دو! اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر اُن کی پٹائی کرو ، اور اُن کے بستر الگ الگ کر دو !(سُنن ابو داؤد)
بچوں کا 5 یا 6 سال کی عمر سے بستر اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دیں تاکہ ان کی معصومیت تا دیر قائم رہ سکے ۔آج کل بچوں کو الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کروالدین ان سے غافل ہو جاتے ہیں۔۔۔ یہ قطعاً غلط ہے ، بچوں پر غیر محسوس طور پر نظر رکھیں اور خاص طور پر انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے کی اجازت نہ دیں،کمرہ ایک ہو توبچوں کا بستر الگ ہو اور بچیوں کا بستر الگ ہو،اسی طرح بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پہ خاص نظر رکھیں تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپکا بچہ یا بچی کا میل جول کس طرح کے لوگوں سے ہے ، بچوں بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں کو بھی ان کے ساتھ کمرہ بند کرکے مت بیٹھنے دیں! اگر آپ کا بچہ اپنے کمرے میں ہی بیٹھنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے سے گاہے بہ گاہے چیک کرتے رہیں۔
بچوں کو بستر پر جب جانے دیں جب خوب نیند آ رہی ہو اور جب وہ اٹھ جائیں تو بستر پر مزید لیٹے مت رہنے دیں۔اسی طرح والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے جسمانی بے تکلفی سے پرہیز کریں۔۔۔ورنہ بچے وقت سے پہلے ان باتوں کے متعلق با شعور ہو جائیں گے جن سے ایک مناسب عمر میں جا کر ہی آگاہی حاصل ہونی چاہئے ۔ نیز والدین بچوں کو ان کی غلطیوں پہ سر زنش کرتے ہوئے بھی با حیا اور مہذب الفاظ کا استعمال کریں ورنہ بچوں میں وقت سے پہلے بے باکی آ جاتی ہے جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔
بچوں کو مشغول رکھنے کی کوشش کریں:
وقت کی اہمیت وافادیت او راس کی قدر ومنزلت بچوں کے اذہان میں راسخ کریں ،کہاجاتاہے کہ فارغ ذہن شیطان کی دوکان ہوتا ہے ،چوں کہ بچوں کا ذہن لوح و تختی (سلیٹ)کی مانند صاف ہوتا ہے ،ان کے ذہن پر ہر نقش پتھر کی لکیربن جاتاہے اور بچپن ہی سے وہ عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جب انکا دماغ اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کااثر فوراً قبول کرلیتا ہے ، اس لیے انکی دلچسپی دیکھتے ہوئے انہیں کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں، ٹی وی وقت گزاری کا بہترین مشغلہ نہیں؛بلکہ سفلی خیالات جنم دینے کی خطرناک مشین ہے اور ویڈیو گیمز بچوں کو بے حس اور متشدد بناتے ہیں،انٹرنیٹ اور موبائیل تو ان کے لیے سم قاتل ہے ۔ہاں ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو،وہ بچوں کے لیے بہترین ہوتے ہیں تاکہ بچہ کھیل کود میں خوب تھکے اور اچھی، گہری نیند سوسکے ۔
بچوں کی مصروفیتوں پر نظر رکھیں!:
یاد رکھیں! والدین بننا ایک اہم ڈیوٹی ہے ؛اس لیے اپنے بچوں کو نماز کی تاکید کریں اور ہر وقت پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں۔۔۔ کیونکہ جسم اور لباس کی پاکیزگی ذہن اور روح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے ،بچیوں کو سیدھا اور لڑکوں کو الٹا لیٹنے سے منع کریں۔۔۔ حضرت عمر رضی اللہ اپنے گھر کی بچیوں اور بچوں پر اس بات میں سختی کرتے تھے ، ان دو ہیئتوں میں لیٹنے سے سفلی خیالات زیادہ آتے ہیں۔۔۔ بچوں کو دائیں کروٹ سے لیٹنے کا عادی بنائیں،جو مسنون طریقہ اور سونے کاادب ہے۔
بچوں کو بچپن ہی سے اپنے مخصوص اعضاء کو چھیڑنے یا بار بار چھونے سے منع کریں،انہیں مستور رہنے کی تلقین کریں ،مکمل لباس زیب تن کرنے کی عادت ڈالیں!ورنہ بری عادتیں آگے چل کر بلوغت کے نزدیک یا بعد میں بچوں میں اخلاقی گراوٹ اور زنا کا باعث بن سکتی ہے ۔نیزبچوں کو اجنبیوں سے گھلنے ملنے سے منع کریں اور اگر وہ کسی رشتہ دار سے بدکتا ہے یا ضرورت سے زیادہ قریب ہے تو غیر محسوس طور پر پیار سے وجہ معلوم کریں!
وقفے وقفے سے جانچ پڑتال کرتے رہیں !:
بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چیک کرتے رہیں،والدین کے علم میں ہونا چاہیے کہ بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے پر ہے ،ان کابیاگ کس قسم کے لٹریچر سے بھراہواہے ؟مسلہط یہ ہے کہ آج کے دور میں پرائیویسی نام کا عفریت میڈیا کی مدد سے ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے اس سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچائیں؛کیونکہ نوعمر بچوں کی نگرانی بھی والدین کی ذمہ داری ہے ۔
یادرکھیں !والدین اپنے بچوں کی تربیت نہیں کریں گے تو وہ باہر سے سیکھیں گے جس میں زیادہ ترحصہ غلط اور من گھڑت ہوگا جس سے ان کے اذہان آلودہ ہوں گے ،جب بچے تیرہ، چودہ سال کے ہوجائیں تو لڑکوں کو ان کے والد اور بچیوں کو ان کی والدہ سورۃ یوسف اور سورۃ النور کی تفسیر سمجھائیں یا کسی عالم ، عالمہ سے پڑھوائیں؛تا کہ انہیں عفت و پاکدامنی کی اہمیت اور پردے و حجاب کے احکام معلوم ہوں ۔اخیر میں اللّہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ملت کے تمام بچوں کی عصمتوں کو محفوظ فرمائے اور ہوس پرستوں کی ہوسناکی سے بچائے آمین۔
نایا ب حسن
سپریم کورٹ نے آج آئی پی سی کی دفعہ497کے تحت آنے والے زناکاری کے قانون کوکالعدم قراردے دیاہے،یہ قانون 158سال پراناتھا اوراس کے تحت شادی شدہ خاتون کو بغیر شوہر کی اجازت کے جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں تھی،اگر ایسا ہوتاہے ،توزناکار عورت کے لیے توکوئی سزانہیں تھی،اسے متاثرہ ماناگیاتھا، البتہ مردکے لیے پانچ سال تک کی سزاکی تجویز تھی۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت چاردگر ججوں کی بنچ نے اس قانون کو مجموعی طورپر یہ کہتے ہوئے کالعدم قراردیاکہ یہ سماجی انصاف ،مساوات اور خواتین کے حقوق کی خلافت ورزی کرتاہے،معززججزکاکہناتھاکہ کیاعورت اپنے شوہر کی ملکیت ہے کہ اسے کسی سے جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے شوہر کی اجازت لینی چاہیے؟انھوں نے متذکرہ قانون کے ایک پہلو پراعتراض کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ اگر شادی شدہ عورت کسی مردکے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتی ہے،تومذکورہ قانون کے مطابق صرف مرد کو سزاہوگی،عورت کونہیں ہوگی،حالاں کہ اگر یہ عمل جرم ہے،تودونوں کومجرم ہونا چاہیے۔
گویا مذکورہ بالا قانون میں دوخامیاں تھیں :ایک تویہ کہ شادی شدہ عورت اگر کسی سے جنسی تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے،تواسے شوہر کی اجازت سے مشروط کیا گیا تھا، جوعدالت کو سماجی انصاف کے خلاف اور رائٹ ٹوپرائیویسی کا معاملہ نظرآیااور دوسری خامی یہ تھی کہ ایساواقعہ رونما ہونے کی صورت میں مجرم صرف مرد کو گردانا جاتا تھا، حالاں کہ اس عمل میں دونوں برابرکے شریک تھے؛چنانچہ پانچ ججوں کی’’ بصیرت ،معاملہ فہمی ،قانونی آگاہی و انسانیت نوازی‘‘ اس نتیجے پر پہنچی کہ سرے سے اس قانون کوہی کالعدم قراردے دیاجائے،یعنی اب کسی شادی شدہ عورت کا کسی مردکے ساتھ جنسی تعلقات کرنا کوئی جرم نہیں ،جرم تو عورت کے حق میں پہلے بھی نہیں تھا،اب مرد کے لیے بھی جرم نہیں رہااور دوسرے یہ کہ اس کے لیے عورت کو شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔دلیل میں ایک تووہی اوپر ذکرکردہ باتیں کہی گئی ہیں، دوسرے بہ طوراستشہاد یہ کہاگیاکہ چوں کہ چین ،جاپان اور برازیل وغیرہ میں ایسا کرنا جرم نہیں ہے؛اس لیے ہندوستان میں بھی اسے جرم نہیں ہونا چاہیے۔
کیرلاکے جوزف سائن نامی’’ ایکٹوسٹ ‘‘نے دفعہ497کے خلاف عرضی داخل کی تھی اور جولائی میں مرکزی حکومت نے اپنا حلف نامہ داخل کرتے ہوئے ہندوستانی سماج و تہذیب کے تحفظ اور خاندانی نظام کی بقاکا حوالہ دیتے ہوئے اس قانون کوبرقرار رکھنے کی اپیل کی تھی۔حکومت کا موقف اس معاملے میں قانون کو برقرار رکھنے ، البتہ حسبِ ضرورت اس میں ترمیم و تبدیلی کرنے کا تھا؛لیکن اگست میں اس کیس کی آخری سماعت ہوئی اور متعلقہ ججوں نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیاتھا،جسے آج سنایا گیاہے۔
حیرت کی بات ہے کہ زیادہ تر روشن خیال سمجھے جانے والے لوگ اس فیصلے کی سراہناکررہے ہیں اور اسے خواتین کے امپاورمنٹ سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں،حالاں کہ اگر اس کی تہہ میں جائیں ،توپتاچلتاہے کہ کورٹ نے فیصلہ محض اس بناپر دیاہے کہ موجودہ زمانے میں بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں زناکاری کوئی جرم نہیں ہے،اس کیس کی سماعت کے دوران ججوں نے ایسے حوالے بھی دیے اور آج فیصلہ سناتے ہوئے بھی چند ملکوں کونامزدکرکے یہ کہاگیاکہ وہاں اس طرح کا کوئی قانون نہیں ہے؛لہذا ہندوستان میں نہیں ہونا چاہیے،حالاں کہ کسی بھی معاملے میں فیصلہ متعلقہ ملک،مقام اوروہاں کے سماج و تہذیب کو دیکھتے ہوئے ہونا چاہیے تھا،پھر یہ کہ معززججوں کو اپنی بصیرت بھی تو استعمال کرنی چاہیے تھی،دوسرے یہ کہ یہ فیصلہ قطعی خواتین کے حق میں نہیں ہے،اس میں تو مردوں کو چھوٹ دی گئی ہے،جبکہ مذکورہ قانون کے مطابق عورت کو متاثرہ اور مردکو مجرم ماناگیاتھااوراس کے لیے پانچ سال تک کی سزاتجویز کی گئی تھی۔مزید حیرت اس پر ہے کہ معزز عدلیہ نے اپنے ریمارک میں کہا کہ اگر میاں بیوی کوپریشانی ہو،توان کے لیے طلاق کا راستہ کھلاہے،واہ!ایک طرف توابھی کچھ ہی دن پہلے طلاق کے نام پر مسلم مردوں کورگڑچکے ہیں،دوسری طرف یہ فرمایاجارہاہے کہ اگر زناکاربیوی سے شوہر کواور زناکارشوہر سے بیوی کو مسئلہ ہو،توان کے لیے طلاق کا راستہ کھلاہے۔بھلے ہی عدالت نے شادی کے بعد زناکاری کو قانونی جواز فراہم کردیاہے؛لیکن ہندوستانی معاشرے میں کیاکوئی شوہر یابیوی اس صورتِ حال کو جانتے بوجھتے برداشت کرسکتے ہیں؟یقیناًنہیں کریں گے اوراس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہونا چاہیں گے،طلاق کی نوبت آئے گی یا یوں ہی اپنے وزیر اعظم کی طرح ایک دوسرے کو کو چھوڑکر چلتابنے گا،پھر ذرا غور کیجیے کہ ان کی اولاد کاکیا بنے گا؟آخر کورٹ نے معاملے کے اس پہلو پرکیوں غور نہیں کیا؟چند دن پہلے فیس بک پر پاکستان کے ایک نیوز چینل کی جانب سے نشرکی گئی ایک ویڈیودیکھی تھی،جس میں ایک چار سال کی بچی کو دکھایاگیاتھا، وہ بچوں کے شیلٹرہوم میں تھی،اس سے جب چینل کے نمایندہ نے اس کے والدین کے بارے میں دریافت کیا،تواس معصوم بچی نے عجیب دلدوز واقعہ سنایا کہ اس کاباپ ایک معمولی رکشاڈرائیور ہے،جسے اس کی ماں نے چھوڑدیاتھااور بیٹی کے ساتھ الگ رہتی تھی،پھر اس کا کسی دوسرے مرد کے ساتھ معاشقہ ہوا،دونوں گلچھرے اڑاتے رہے،ماں کی ممتامشہور ہے،مگر وہ ہوسناک وسفاک عورت اپنی اس معصوم بیٹی کے ساتھ مارپیٹ کرتی رہی اور پھر ایک دن اسے ایک پولیس اسٹیشن پر چھوڑکر اپنے آشناکے ساتھ فرار ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک گھناؤناجرم ہے اور وہاں کی پولیس وحکومت اگر حساس ہوگی تو ضرور ایکشن لے گی،مگر کیاہماری عدلیہ نے آج جو فیصلہ سنایاہے،اس کی روشنی میں اپنے یہاں خدانخواستہ آیندہ قانونی جواز کے ساتھ اِسی قسم کے واقعات کے امکانات بڑھتے ہوئے نظرنہیںآتے؟شادی شدہ مردوخواتین کا جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے اِدھر اُدھرمنہ مارنااگر ان کی پرائیویسی اور سماجی انصاف کامعاملہ ہے، تودیگر گھریلواور سماجی تباہیوں کواگرَ ان دیکھابھی کردیاجائے ،توکم ازکم یہ توطے کیاجائے کہ ان کے جو بچے ہوں گے،ایسے حالات میں ان کی کیا پوزیشن ہوگی اوران کا کون پرسانِ حال ہوگا؟ بہرکیف اس فیصلے میں کئی جھول ہیں،مرکزی حکومت خود اس فیصلے کے لیے تیار نہیں تھی،اب آگے اس کی طرف سے کیاقدم اٹھایاجاتاہے،یہ دیکھنا چاہیے۔
رشیدودود
نسیم حجازی کے ناولز پڑھ پڑھ کر کے ہمارا دماغ اس حد تک خراب ہوا کہ ہم بھی خلفائے بنو امیہ کو کوسنے لگے، بالخصوص سلیمان بن عبدالملک تو ہماری نظر میں کسی ولن سے کم نہیں تھا، ذرا بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ یزید تو سلیمان سے بھی دو ہاتھ آگے تھا؛ لیکن خدا کا شکر ہے کہ ناول نگاروں اور انشا پردازوں سے ہماری جان بہت جلد چھوٹ گئی-
اردو زبان میں تاریخ نویسی کا فریضہ زیادہ تر انشا پرداز اور ناول نگار حضرات انجام نے انجام دیا ہے، محمد حسین آزاد کی انشا پردازی گپ تو چھوڑ سکتی ہے؛لیکن تاریخ نویسی ان کے بس کی بات نہیں، ہر انشا پرداز شبلی کی طرح خوش قسمت نہیں ہوتا، شبلی انشا پرداز بعد میں تھے اور مؤرخ پہلے تھے، بدقسمتی سے ہمارے یہاں شبلی نعمانی کی تاریخ نگاری پر گفتگو کم ہی کی جاتی ہے، حالانکہ شبلی ایسے تاریخ نویس ہیں، جنہوں نے تاریخ سازوں کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا ہے، کتب خانہ اسکندریہ کے جلانے کا الزام ہو یا تاج محل کے معماروں کے نام، اورنگ زیب عالمگیر پر لگائے جانے والے الزامات کا جائزہ ہو یا الفاروق کی تصنیف، ہر جگہ شبلی کی تاریخ نویسی نمایاں ہے، شبلی مروت کے قائل نہیں تھے؛ لیکن متعصب بھی نہیں تھے؛اس لئے کہ وہ تاریخ نویس کے فرائض سے آگاہ تھے، اصل مصادر تک ان کی رسائی تھی، اسی لیے وہ کہیں کنفیوژن کے شکار نہیں ہوئے، الفاروق کی تصنیف کے وقت سر سید چاہتے تھے کہ شبلی یہ کتاب نہ لکھیں، اس لئے کہ کہیں شیعہ دوست ناراض نہ ہو جایئں لیکن شبلی شبلی تھے، حالانکہ سر سید کو جس شیعہ دوست کا خیال خاطر تھا، انہوں نے تقیہ سے کام لے کر الفاروق کی تصنیف پر مسرت کا اظہار کیا تھا لیکن اگر وہ نفرت کا اظہار بھی کرتے تب بھی شبلی وہی کرتے، جو ایک تاریخ نویس کا فرض ہوتا ہے-
شبلی خلفائے بنو امیہ کے مداح کبھی نہیں رہے لیکن جرجی زیدان جیسے مستشرق نے جب تاریخ تمدن اسلامی لکھ کر کے تاریخ سازی کرنی چاہی تو شبلی فورا حرکت میں آ گئے اور انہوں نے زیدان کی کتاب کا تنقیدی جائزہ "الانتقاد علی تاريخ التمدن الاسلامی "کے نام سے کیا، زیدان نے اپنی اس کتاب میں خلفائے بنو امیہ، بالخصوص عربوں کی جم کر ہجو کی؛ لیکن شبلی نے زیدان کے ہفوات کا تار و پود ایسا بکھیرا کہ رشید رضا بھی خوش ہوئے بنا نہیں رہ سکے-
بدقسمتی سے شبلی کی تاریخ نگاری کا تسلسل آگے نہیں بڑھ سکا، خود ندوہ نے اُنہیں فراموش کر دیا، اب ندوہ کی باگ ڈور حسینی سیدوں کے ہاتھ میں تھی، علی میاں ندوی کی حد تک تو معاملہ غنیمت تھا؛ لیکن ان کی "رگ حسینیت” بھی کبھی کبھار پھڑک جاتی تھی،البتہ جس شخصیت نے ندوہ کی تاریخ نگاری کو بٹہ لگایا، وہ عبداللہ عباس ندوی تھے، ندوی صاحب عتیق الرحمن سنبھلی کی کتاب پر اپنے جذبات چھپا نہیں سکے اور "تعمیر حیات”، میں اپنے تبصرے میں تاریخ نگاری کا اس طرح سے خون کیا کہ شبلی کی روح بھی تڑپ گئی-
پروفیسر یاسین مظہر صدیقی ندوی ایک ایسے فرزند ندوہ ہیں، جن پر ندوہ بجا طور پر فخر کر سکتا تھا؛ لیکن عبداللہ عباس ندوی کے تبصرے کا تعاقب کر کے وہ راندۂ ندوہ ہو چکے ہیں، ندوی صاحب کا تاریخی شعور اس درجے کا ہے کہ ندویوں میں اب ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا، ندوی صاحب کی”تاریخ تہذیب اسلامی ” کی چاروں جلدوں کا مطالعہ تو تاریخ کے ہر طالب علم کو کرنا چاہیے-
سید مودودی بنیادی طور پر ایک مصلح تھے؛ لیکن انہوں نے اصلاح کا جو طریقۂ کار اپنایا، وہ مانگے کا اجالا تھا، تاریخ کے طالب علم کو اس بات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ کمیونزم اور جماعت اسلامی کے طریقۂ کار میں کس حد تک مماثلت ہے؟ سید مودودی کی انشا پردازی مسلم ہے؛ لیکن تاریخ و حدیث اور فہم قرآن میں ان کا عجز بھی مسلم ہے، مولانا منظور نعمانی اور علی میاں ندوی جیسے جلیل القدر علما سید مودودی کے اولین ساتھیوں میں تھے؛ لیکن بہت جلد یہ لوگ سید صاحب کو داغ مفارقت دے گئے، علی میاں ندوی نے "قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں”لکھ کر سید مودودی کی فکر سے براءت کا اظہار کیا، مولانا نعمانی نے بھی سید مودودی سے اپنی رفاقت اور مفارقت کی سرگزشت لکھی؛لیکن فرزندانِ ندوہ اور دیوبند اب یہ سب بھول چکے ہیں، انہیں یاد ہے تو بس "خلافت و ملوکیت”، اب یہ لوگ بھی سید مودودی کی انشا پردازی اور جھنجھلاہٹ کو تاریخ سمجھ رہے ہیں، حالانکہ تاریخ وہ ہے، جو سعید احمد اکبرآبادی نے لکھا ہے، تاریخ وہ نہیں ہے، جو سید مودودی نے لکھا ہے، سید مودودی تو اس دور کے ملا عبدالقادر بدایونی ہیں، جو تاریخ میں بھی اپنے تعصبات کی آمیزش اتنے فنکارانہ انداز میں کرتے ہیں کہ انشا پردازی تو ان کی بلائیں لیتی ہے؛ لیکن تاریخ نویسی اپنا سر پیٹتی رہ جاتی ہے،خیر! مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، ندوہ کی مٹی بڑی زرخیز ہے، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی-
عدالت جمعیۃ علماء کی اپیل پر فیصلہ صادر کریگی
نئی دہلی :
۵ دسمبر ۲۰۱۷ سے چیف جسٹس کی سربراہی میں چلنے والے بابری مسجد مقدمہ کی سماعت کا فیصلہ کل دو بجے ظاہر کیا جائے گا ، فیصلہ اس مدعی پر ہوگا کہ آیا اس مقدمہ کی سماعت تین رکنی بینچ کریگی یا کثیر رکنی بینچ ۔
جمعتہ علماء اس معاملے میں فریق اوّل ہے اور جمعتہ علماء کی جانب سے سینئر وکلاء ڈاکٹر راجیو دھون اور راجیو رام چندرن نے بحث کی تھی جبکہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول ہیں ۔
تقریباً دس مہینہ تک چلی بحث کا کل فیصلہ ہوجائے ، ڈاکٹر اسماعیل فاروقی فیصلہ پر جمعتہ علماء نے نظر ثانی کرنے کی درخواست کی تھی کیونکہ ڈاکٹر اسماعیل فاروق فیصلہ میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ نماز مسجد میں ہی ادا کرنا ضروری نہیں ہے اور نماز کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے جمعتہ علماء سمیت دیگر فریقین نے عدالت نے اسمعیٰل فاروقی فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کے بعد ہی بابری مسجد معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف داخل اپیل کی سماعت شروع کی جانے کی درخواست کی تھی، پہلے تو چیف جسٹس دیپک مشراء نے نظر ثانی کئیے جانے سے انکار کیا تھا لیکن جمعتہ علماء کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون کی مدلل بحث کے بعد عدالت نے ڈاکٹر اسماعیل فاروقی فیصلہ پر نظرثانی کے لئیے رضا مندی دی تھی ۔صدر جمعتہ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کئ ہدایت پر جمعتہ کے وکلاء نے گزشتہ ایک سال سے سخت محنت کرتے ہوئے عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ، اب کل ہی پتہ چلے گا کہ آیا سہ رکنی بیچ ان لے دلائل سے مفتق ہے یا نہیں_
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
دار الدعوۃ والارشاد ، یوسف گوڑہ ، حیدرآباد
اللہ عزوجل نے محض اپنے فضل وکرم سے بہت سارے حضرات کو حج کی توفیق عطا فرمائے، کئی سالوں کے ارمانوں وآرزؤں کے بعد حج کی سعادت سے مشرف ہوئے ، بیت اللہ کی زیارت کی، مقامات مقدسہ کا اپنی آنکھوں سے دیدار کیا، سب سے بڑی خوش بختی تو یہ رہی کہ اللہ عزوجل نے حج کی استطاعت فرمائی جس کا اللہ عزوجل یوں ذکرکیا ہے ’’من استطاع إلیہ سبیلا‘‘ راہ حج کے اخراجات کو مہیا کیا، ورنہ کونسامسلمان اورمومن بندہ ایسا ہوسکتا ہے جو بیت اللہ کے دیدار کے شرف سے مشرف ہونا نہیں چاہتا، ہر ایک کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ بیت اللہ جائے ، لیکن جن اشخاص کو اللہ عز وجل نے حج کی سعادت سے موسوم فرمایا یہ بڑے بابرکت لوگ ہیں، لیکن ان کے حج کی سعادت سے موصوف ہونے کے بعد ان پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جن لوگوں نے حج کیا، انہیں یہ نعمت عظمی حاصل ہوئی، جس وقت ان لوگوں نے بیت الحرام کو وداع کیا ہوگا، ان کے دل کے جذبات اور احساسات کیا ہوئے ہوں گے، بیت اللہ کی وداع کرنے میں بہت گرانی ہوئی ہوگی، ذرا غور کیجئے ! آپ موسم حج میں مناسک اور عبادات کی ادائیگی میں منہمک اور مصروف تھے، یہ نہایت خوش بختی کے لمحات اور ساعتیں تھیں، لیکن یہ عبادات اور طاعات کا سلسلہ کیا یہیں ختم ہوگیا ؟ اس کے بعد کیا عبادات وطاعات رجوع الی اللہ کی اب ضرورت نہیں؟ حج مقبول اور مبرور کیا ہے ؟ کیاکبھی ہم نے غور کیا ؟ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حج مقبول اور مبرور یہ ہیکہ آدمی دنیا سے کنارکش ہوجائے اور آخرت کی رغبت کرنے لگے ’’زاھدا فی الدنیا وراغبا إلی الآخرۃ‘‘ بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ حج مقبول کی علامت یہ ہے کہ اگر اس کی دینی حالت پہلے سے زیادہ بہتر اور اچھی ہوجاتی ہے تو وہ حج مقبول حج ہے ، عبادات اور اطاعات میں مداومت در اصل یہ حج کے بعد مقصود ومطلوب ہے ۔
نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا : اللہ کو پسندیدہ عمل کونسا ہے؟ فرمایا جس کو مداومت اور ہمیشگی کے ساتھ کیا جائے خواہ یہ عمل تھوڑا ہی کیوں نہ ہو،’’أدومہ وإن قلّ‘‘ ( رواہ مسلم)ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی مدوامت اور ہمیشگی کے ساتھ عمل کیا کرتی تھیں، گرچہ ہمیشگی کا عمل دل پر گراں اور مشقت کن ضرور ہوا کرتا ہے ، سستی اور اور کاہلی کو ہر گز در آنے نہ دیں ، شیطان اسی تاک میں رہتا ہے ، حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شیطان جب کسی کو عمل میں مداومت کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کو اکتاہٹ اور سستی میں مبتلا کردیتا ہے ، آہستہ آہستہ اعمال کے حوالہ سے سستی اور کاہلی میں مبتلاکردیتا ہے ۔
اعمال میں صبر واستقامت کو اختیار کریں ، اعمال کو بھی صبر وسکون کے ساتھ انجام دیں اور طاعات اور بندگی میں پوری دل جمعی کے ساتھ لگیں، معاصی اور گناہوں سے بچنے کا مکمل اہتمام کریں، معاصی سے اجتناب اور اعمال صالحہ پر مدامت یہ صبر کا اعلی درجہ ہے ، میمون بن مہران کہتے ہیں: صبر دو طرح کا ہوا کرتا ہے ، معصیت اور گناہ پر صبر یہ بہتر ہے ، اس سے زیادہ بہتر اور معصیت سے اجتناب ہے ۔حریث بن قیس کہتے ہیں: جب انسان کسی بھلے کام کا ارادہ کرے تو اس کو کل کے لئے مؤخر نہ کرے ۔
جس طرح دوران حج ہم نے طاعات وعبادات میں مداومت اور ہمیشگی کی ہے ، اعمال حج اور عبادات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ، مجاہدہ نفس کیاہے ، بعد میں بھی یہ ہمارا مجاہدہ اور ہماری یہ کوشش کم نہیں ہونی چاہئے۔
اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے : ’’ والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلینا‘‘ (العنکبوت) جو ہمارے راہ میں مجاہدہ کرتا ہے تو ہم اسے اپنے راستے دکھاتے ہیں۔
اللہ عزوجل سے دعا بھی کرے کہ اللہ عزوجل اس کو مداومت اور اعمال پر ہمیشگی کی توفیق عنایت کرے ، خود نبی کریم ﷺ کا معمول بھی تھا کہ اعمال پر ہمیشگی کی توفیق مانگتے ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم ﷺ کی ہمیشگی والی دعا کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا: ’’ یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک‘‘ (اے اللہ ! میرے دل کو دین پر ثابت قدمی عطا کر ) آپ سے اس تعلق سے دریافت کیا گیا تو فرمایا: آدمی کا دل اللہ عزو جل کے دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے جس کے دل کو چاہیں استقامت عطا کریں اور جس کے دل کو چاہیں گمراہ کردیں(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، ۲۰۹۱)
اسلئے کبھی اس غلط فہمی میں نہ آئیں کہ ہماری طاعتیں اور عبادتیں بہت زیادہ ہیں؛ بلکہ ہمیشہ اپنی کمی اور کوتاہی کا استحضار رہے ، اسلاف امت اور گذشتہ لوگوں کا اصول اور طریقہ کار یہی تھا کہ وہ لوگ اپنے اعمال کو قلیل اور کم گردانتے تھے، اپنے اعمال کو بہت زیادہ نہیں سمجھتے تھے ۔ اس لئے وہ ہمیشہ اعمال پر مداومت اور ہمیشگی اختیار کرتے تھے ۔
خود نبی کریم ﷺ جن کو بخشے بخشائے کہا گیا آپ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ آپ کے پیروں پر ورم آجاتا تھا، جب نبی کریم ﷺ سے اس متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’أفلا أکون عبدا شکورا‘‘ کیا میں شکر گذار بندہ نہ بنوں۔ (بخاری) اور فرمایا: اللہ کی قسم میں دن میں ستر مرتبہ اللہ عزوجل سے استغفار طلب کرتا ہو ں ( بخاری)۔
جب نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس جو کہ بخشے بخشائے ہوئے ہیں وہ اس قدر عبادات کرتے ہیں تو ہمیں کتنی عبادت کرنا چاہئے ۔
اس لئے حاجیوں کو چاہئے کہ وہ اس قدر محنت ومجاہدہ او رتکلیف اٹھانے کے بعد اور اللہ عزوجل کی جانب سے بخشے بخشائے ہونے کے بعد بھی وہ معاصی اور گناہوں میں نہ پڑجائیں ، عبادات وطاعات میں لگیں۔
فضیل بن عیاض کہتے ہیں بعض حاجیوں سے یوں کہا: جو حج کرتا ہے اللہ عزوجل اس پر نور کا ایک مہر لگاتے ہیں، اللہ عزوجل کی معصیت کے ذریعے اس مہر کو نہ توڑا جائے ’’لا تفک ذلک الختم بمعصیۃ اللہ‘‘۔
اس لئے حاجیوں کے چاہئے کہ اپنے حج کو جس کو انہوں نے بڑی مشتقوں سے اور بڑی ارمانوں سے کیا ہے ، حج مقبول ومبرور بنائیں، طاعات میں رغبت ، معاصی سے پہلو تہی کریں، حاجی ہونے کی نسبت ان کے ساتھ جڑی ہے ، یہ بخشے بخشائے ہوئے ، انہیں خدا کا نور ملا ہے ، اس نورِ خدا کی حفاظت وصیانت کریں ۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر شہپر رسول کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد
نئی دہلی:ستمبر( پریس ریلیز )
’’شہپر رسول کی شاعری کو کسی ازم کسی رجحان یا نظریے کا پابند قرار نہیں دیا جاسکتا ۔وہ شاعری کی آفاقی روایات کے امین ہیں ۔ان کی شاعری ہمیں میر و غالب کی یا د تو دلاتی ہے ،لیکن وہ ان کے خوشہ چیں نہیں ،بلکہ انہوں نے ان سے مستفیض ہوکر ایک نیا تخلیقی چراغ روشن کرتے ہوئے اپنا چہرہ اور اپنی آواز دونوں کو دریافت کر لیا ہے ۔‘‘ان خیالات کا اظہار پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے ٹیگور ہال ،دیار میر ،جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر شہپر رسول کے اعزاز میں منعقد کیے گئے ’’ایک شام :ایک چہرے ایک آواز کے نام ‘‘پروگرام میں کیا ۔انہوں نے’’ شاعری کی آفاقی روایات کا امین شہپر رسول ‘‘کے عنوان سے وقیع اور پر مغز مقالہ پیش کرتے ہوئے شہپر رسول کی شاعری کی داخلی ساخت ،لفظیاتی نظام اور فکری ارتعاشات پر روشنی ڈالی ۔
پروگرام میں پروفیسر خالد محمود نے’’ قصہ شہپر رسول کا‘‘کے عنوان سے خاکہ پیش کیا ۔اس خاکے میں نہ صرف شہپر رسول کا چہرہ ،سراپااور شخصیت کا نہایت شگفتہ اسلوب میں احاطہ کیا گیا ہے بلکہ اس میں شعبہ اردوکی پوری ادبی اور تہذیبی فضا متحرک تصویر بن گئی ہے ۔پروفیسر وہاج الدین علوی نے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کے شہپر رسول کے یہا ں وسیع المشربی کی خصوصیت بہت اہم ہے اور ان کا دائرہ بہت پھیلا ہو ا ہے۔ اس کے ڈانڈے تصوف، انسان دوستی اور خلوص ورواداری سے جا ملتے ہیں ۔
پروفیسر شہزاد انجم نے بڑی تعداد میں موجود مہمانوں کا استقبال کرتے ہوا کہا کہ شہپر رسول جتنے اچھے شاعر ہیں اتنے ہی اچھے انسان بھی ہیں۔ آج اس وسیع و عریض ہال میں نہ صر ف جامعہ بلکہ دیگر یونیورسٹیوں سے تشریف لائے سامعین کے جم غفیر سے بھی پروفیسر شہپر رسول کی مقبولیت کا انداز ہ ہوتا ہے۔پروفیسر احمد محفوظ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ میں ثروت مند علمی ،ادبی اور تہذیبی ماحول کے فروغ میں طلبا اور اساتذہ کے ساتھ پروفیسر شہپر رسول کا اہم کردار ہے ۔اس موقع پر صاحبِ اعزاز پروفیسر شہپر رسول نے سامعین کو اپنے تازہ کلا م سے نوازا ۔
یہ جلسہ اس وقت اور زیادہ یاد گار اور خوشگوار ہوگیا جب استاذ ذیشان ضمیر نے اپنے مسحور کن ساز اورآواز کے ساتھ پروفیسر شہپررسول کی ایک خوبصورت غزل پیش کی ۔
پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر خالد مبشر نے انجام دیے، اس موقع پر انہوں نے شہپر رسول کی شان میں ایک نظم بھی پیش کی۔پروگرام کا آغاز ڈاکٹرشاہ نواز فیا ض کی تلاوت سے ہوا ۔پروفیسر کوثر مظہری ،ڈاکٹر سید تنویر حسین ،تبسم حیات ،ڈاکٹر ثاقب عمران اور اس اعزازی تقریب کے روح ورواں کنوینر ڈاکٹر عادل حیات نے گلدستے سے مہمانوں کا استقبال کیا ۔
اس پروقار محفل میں پروفیسر ابن کنول ، ڈاکٹر محمد کاظم ،پروفیسر شہناز انجم ،پروفیسر عبدالحلیم ،انجم عثمانی ،پروفیسر احمد حسن دانش ،شمع افروز زیدی ،رضوانہ شہپر ،ڈاکٹر کلیم اصغر ،ڈاکٹررحمان مصور ،سہیل انجم ،ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی ،ڈاکٹر خالد جاوید ،ڈاکٹر ندیم احمد ،ڈاکٹر سرورالہدی،ڈاکٹر مشیر احمد ،ڈاکٹر مہر فاطمہ ،ڈاکٹر سمیع احمد ،ڈاکٹر ابوالکلام عارف،ڈاکٹر شاداب تبسم ،ڈاکٹر مقیم احمد،ڈاکٹر ثاقب عمران ،ڈاکٹر محمد آدم ،ڈاکٹر جاوید حسن ،ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی ،تبسم حیات،ڈاکٹر راشدہ رحمن ، ڈاکٹر نوشین حسن ،خطیب الرحمن ،ابصاراوردانش کے علاوہ ریسرچ اسکالر اور طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعدا د موجود تھی ۔