احمدحماد
آنکھ کو یار سے خالی ملا قریہ سارا
جب بھی دل شدّتِ وحشت میں پکارا "یارا”
ورنہ دنیا کے مناظر سبھی کم تر لگتے
تُو نے لاہور کی بارش نہیں دیکھی یارا
دم بہ دم کٹتی ہوئی عمر کبھی یہ تو بتا
سانس چلتی ہے کہ شہ رگ میں رواں ہے آرا
میرے ٹھہرے ہوئے آنسو کو نہ بے مایہ سمجھ
آنکھ سے ٹپکا تو بن جائے گا روشن تارا
اس سے ملنے کی اگر دُھن نہیں جاگی حمّاد
تُو رہے گا وہی خُشک اور کھنکتا گارا
27 جون, 2018
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی
دور جدید کی حیرت انگیز ایجاد مو بائل ہے، جو کہ موجودہ زمانہ کی ناگزیر چیز بن گئی ہے امیر، غریب ،بچہ، جوان، بوڑھا، کسان سے لے کر پائلٹ تک اس کا گر ویدہ؛ بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ اس کا غلام بن گیا ہے، نو جوان نسل کی بر بادی میں بھی اس کا بہت بڑا حصہ ہے، جدید مواصلاتی نظام نے جہاں انقلاب بر پا کیا ہے، وہیں سیکڑوں مسائل بھی پیدا کر دیئے ہیں، جن کا حل ڈھونڈنا انتہائی ضرو ری ہے، اگر ان مسائل کا حل ڈھونڈھانہ گیا ،تو آگے اور زیادہ تباہی آئے گی اور اس سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔آج واٹس ایپ، انسٹا گرام، یو ٹیوب، ٹیلیگرام وغیرہ وغیرہ کے ذریعہ جہاں اپنی بات دوسروں تک جلد پہچانا بہت آسان اور فائدے مند ہے،وہیں یہ ذرائع انسانی موتوں کے بھی ذمہ دار ہیں، اسی سے حضرت انسان جو اشرف المخلوق ہے، وہ قدم قدم پر لمحہ بہ لمحہ جھوٹی خبریں ،گندی چیزیں پھیلا رہا ہے، اسی میں موب لنچنگ جیسا خطر ناک معا ملہ بھی شامل ہے، اس میں حکو مت کی بھی شہہ ہے ،جب سے سنٹرل اور صوبوں میں بی جے پی کی حکو متیں بنی ہیں، پورے ملک میں اقلیتوں پر طرح طرح کے بہانوں سے حملہ کرکے جا ن سے مار دینا ایک فیشن بن گیا ہے، ڈھٹا ئی ،بے شر می، بے خوفی،ہٹ دھر می کا یہ حال ہے کہ مار نے کے بعد خود مجرمین ویڈیو بناکرسوشل میڈیا پر جاری کرتے ہیں؛تاکہ پورے بھارت کو ڈرا یا جاسکے، ان کو یہ زعم پیدا ہو گیا ہے ’’سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کا ہے کا‘‘قا نون کے رکھ والے ان کے چہیتے ہیں ،ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے، گائے کے نام پر، بچہ چوری کے نام پر ،ٹرینوں میں سیٹ کے جھگڑے میں مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے، اب تک موب لنچنگ (بھیڑ کے ذریعہ جان مارنا)میں 100 سے زیادہ موتیں ہو چکی ہیں، جن میں80 فیصد مسلمان ہیں۔اس سلسلے میں سوشل میڈیانے تو ساری حدیں پار کر دی ہیں، کوئی خبر آئی ، غلط خبر ہی کیوں نہ ہو،لوگ فوراً بغیر سوچے سمجھے ایک سکنڈ بھی ضائع کیے بغیر ڈاکیہ کا کام کر نے لگتے ہیں ،واضح رہے کہ ڈاکیے کا کام ہے جو چیز اسے پہنچا نے کے لیے دی جائے ،وہ اس چیز کو اسی کو دے، جسے دینا ہے، نہ کہ وہ ساری دنیا کو بانٹتا پھرے، کو ئی خبر، کوئی اطلاع کسی بھی انسان کے پاس آئی، تو سب سے پہلے اطلاع پانے والے انسان کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ یہ پتہ لگا ئے کی یہ اطلا ع (information ) صحیح ہے یا جھوٹ ہے ،اس کی تحقیق کرے، اگر غلط ہے، تو سب سے پہلے اطلاع بھیجنے والے سے بات کرے اور سختی سے منع کرے کہ آئندہ قطعی ہم تک جھوٹی باتیں نہ بھیجیں۔حضرت سلیمان علیہ ا لسلام کے پاس جب ان کا پرندہ ھُدْھُد، جو ان کی خد مت پر مامور تھا، اطلاع لا یا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے،تواس خبر کو سننے کے بعد حضرت سلیمان علیہ ا لسلام نے فر مایا:( القرآن،سورہ نمل27،آیت27)’’ ابھی ہم دیکھے لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے‘‘۔ قر آن کریم سے یہ معلوم ہوا کہ خبر کی تحقیق کرنا اور اس کی سچائی یا جھوٹ کا پتہ لگانا یہ انبیائے کرام کا طریقہ رہا ہے؛ اس لیے ہم کو آپ کو بھی چا ہیے کہ کوئی بھی ایسی خبر ادھر ادھر نہ پھیلائیں ،جس کی سچائی کا علم اور یقین آپ کو نہ ہو، دوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ خبر سچ بھی ہے، تو اس کی ذمے داری ہے کہ وہ اس خبر، پیغام کو دیکھے ،سمجھے کہ اس پیغام(Massage) کو دوسروں کو پہنچا نا فائدہ مند ہے یا نہیں، کہیں اس خبر سے فتنہ فساد نہ پھیل جائے ۔سوشل میڈیا کے ذریعے جو پیغامات آتے ہیں ،اس کے یوزر زیا دہ تر جلد باز ہو تے ہیں، ادھر میسج آیا اور لگے ادھر فاروڈ کرنے، سب سے پہلے بھیج کراپنے کو بڑا تیس مارخاں سمجھتے ہیں اور اس کا کر یڈٹ اپنے نام کر نا چاہتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ یہ پیغام آن کے آن سکنڈوں میں تمام دنیا میں پہنچ جا تا ہے اور پھر یہی نہیں، جن تک یہ پیغام پہنچتا ہے ،وہ بھی دوسروں تک پہنچانے میں ذر ادیر نہیں لگا تے ۔
رب ذو الجلال کا فر مان ہے(القر آن ، سورہ نمل27،آیت105 ) ’’ جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں، جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی وہی جھو ٹے ہیں‘‘۔(کنز الایمان) ایک جگہ ہے’’ لعنۃ اللہ علی الکذ بین‘‘۔ جھو ٹوں پر اللہ کی لعنت ہے ، جس پر اللہ کی لعنت ہو گی، وہ کیسے فلاح پائے گا۔ حدیث پاک ہے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر مایا: ’’آ دمی کے جھو ٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ہر سنی ہوئی بات بیان کردے‘‘۔(صحیح مسلم،باب ہر سنی ہوئی بات بیان کر نے کی مما نعت ،حدیث 9)دوسری حدیث حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فر مایا:’’آدمی کے جھو ٹے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے‘‘۔ ( صحیح مسلم، حدیث 11،) جھوٹ اتنا بڑا گناہ ہے کہ ربِ ذوالجلال کی اس پر لعنت ہے۔ جھوٹ ایک ایسا متعدی مرض ہے وائرس کی طرح تیزی سے پھیلتا ہے ،جھوٹ بھی سائبر کرائم کی طرح ایک جرم ہے ،واٹس ایپ کے جھوٹے میسیجوں نے کتنے معصوموں کی جان لے لی ہے، سوشل میڈیاکے ذریعے جھوٹ کو بری طرح سے بڑھا وا مل رہاہے، آپ دیکھیں جھوٹے میسیج بھیج کر بھیڑ اکٹھا کرنا ، جنو نی بھیڑ کے ذریعے ماب لنچنگ ،کہیں بچہ چوری کے نام پر، کہیں گؤ ہتھیا کے بہانے، کہیں گؤکشی کے بہانے زیا دہ تر مسلمانوں کو مارا جارہا ہے حکومتیں ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کے مصداق اندھی بہری بنی ہوئی ہیں ،یہ ظلم و نا انصافی اب ساری حدیں پار کر گئی ہے، یہ ہمارے ملک ہندوستان کی گنگا جمنی تہذ یب کو بر باد کر رہی ہے، جو سب کے لیے نقصان کا باعث ہے ۔حالیہ واقعہ ہا پوڑ ضلع کے پلکھوا علاقے کے بچھیڑا گاؤں میں پیش آیاہے ،ایک مسلمان اپنے کھیت میں گھسی گائے کو کھیت سے با ہر کر رہا تھا اور کسی نے فوٹو لیکر واٹس ایپ کر دیا کہ گائے کی تسکری کر رہا ہے، آن واحد میں بھیڑ جمع ہو گئی اور قا سم اور اس کے ساتھی کو مار مار کر شدید زخمی کر دیاگیا، قاسم کی موت کھیت میں ہی ہوگئی اور دوسرا ساتھی سیریس ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ہندو دہشت گردی کا، ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ جرائم کا بڑھتا گراف ارباب حکو مت کے لیے چیلنج ہے۔ مو بائل چلانے والوں کو بہت احتیاط اور سوچ سمجھ کر پیغام فار وڈ کر نا چاہیے کہ اس غلط خبر سے سماج پر کیا اثر ہو گا؟ افسوس کوئی سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے ،جس کے ہاتھ میں دیکھوموبائل چیٹنگ میں لگا ہے، بغیر سوچے سمجھے میسیج بھیجنے میں لگا ہے، ضرورت ہے کہ لوگ ایسے فالتو کا م سے باز آئیں اور دوسروں کو بھی سنجید گی سے، پیار سے سمجھائیں ،گناہ بے لذت کی فہرست بہت لمبی ہے ،جھوٹ پھیلا نا، جھوٹی گواہی دینا، فحش گو ئی، فحش گندی تصویریں دیکھنا ؛یہ سب گناہِ کبیرہ ہیں ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فر مایا: جھوٹ گناہوں کی جڑ ہے اور جھوٹ گناہوں کی کھیتی کو ہرا بھرا کر دیتا ہے، اتنے بڑے گناہ کر نے والے کو کیا ملتا ہے؟ کچھ نہیں، ایسے ہی گناہ کو بے لذت گناہ کہا جاتا ہے۔اللہ ہم سب کو بچنے کی تو فیق عطا فر مائے ۔(آ مین ثم آمین)
Mob.:09386379632
e-mail: [email protected]
عمران عاکف خان
ریسرچ سکالرجواہرلال نہرویونیورسٹی،دہلی
میں فلموں پر بہت کم لکھتا ہوں ،مگر جب بھی لکھتا ہوں،توڈوب کر لکھتا ہوں، سب کی طرح میری بھی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے مثبت و منفی پہلوؤں پر نگاہ رکھوں اور اس کے عواقب ونتائج سے آگاہ کروں،پیش ہے ایک ایسی ہی مووی پرریویو۔گذشتہ دنوں میں نے ایک مووی دیکھی ’’رَیڈ‘‘جس کی کہانی، ہدایت کاری،ایکشنز، منظر کشی،مکالمہ اور شوٹنگ و کاسٹ نے مجھے درج ذیل سطورلکھنے پر مجبورکردیا۔
’’رَیڈ‘‘راج کمار گپتا کے ڈائریکشن میں شہرلکھنؤ کے تناظر میں بننے والی ایک ایسی مووی ہے ،جسے ’’رسکی ریڈ‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے،یہ ’’رسکی ریڈ‘‘1980 میں اس وقت کے شہرکے باثراورمرکزی وریاستی حکومت میں کلیدی رول ادا کر نے والے ممبر پارلیمنٹ رامیشور سنگھ کے محل میں پڑی، اس کے رد عمل نے ریاستی حکومت سمیت دہلی کی مرکزی سرکار کو بھی ہلا کر رکھ دیاتھا، بالآخر 10 ؍صفدرجنگ مارگ سے میڈیم پرائم منسٹر کو آئی ٹی کمشنر’’ابھے پٹنائک‘‘کو فون کرکے ریڈ کی کارروائی روکنے کے لیے کہنا پڑا، مگر فرض شناس اورہمت ور کمشنرنے میڈیم پرائم منسٹرکوایک معقول جواب دے کر اپنے ارادوں اورعزائم سے آگاہ کردیا۔
میڈم پرائم منسٹر کے بھی ہاتھ پیر ڈالنے کے بعد رامیشور سنگھ کسی زخمی افعی کی طرح زمین پر پھن مارتا رہ گیا،اس کا غرور دہلی کی سڑکوں اور گلیوں میں چور چور ہوگیا، دوسری طرف لکھنؤ میں اس کا پورا محل،چھت،پوجا گھر کی دیواریں، صحن کا گارڈن ؛سب کچھ توڑپھوڑ اورکھودکھود کران میں چھپے،دبے مال،روپیوں، زیوراوردیگرمنقولہ ’’کالا دھن‘‘ نکال کرگھرکو سیل کردیاگیا، اس کارروائی میں ایسا لگتا تھا، جیسے عظمت و ہیبت کے کنگورے زمین میں ملا دیے گئے ہوں۔
’’راجہ جی فوج‘‘کا ایکشن دیکھنے کی چیز ہے اوراس پراعصاب شکستہ ایم پی رامیشورسنگھ کا یہ جملہ تو آج کے تناظر میں اور معنی خیز ہوجاتا ہے کہ’’آج تک ہندوستان میں بھیڑ کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔‘‘ واقعی یہ سچ ہی تو ہے۔آج آئے دن ماب لنچنگ کے واقعات میں کتنوں کو سزا ملی؟کتنے کیفر کردار کو پہنچے؟ایک بھی تو نہیں ؛بلکہ بھیڑ کے حوصلے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور کوئی نہ کوئی غریب اس کی چپیٹ میں آرہا ہے۔
آئی ٹی کمشنر ابھے پٹنائک کو اس دوران کئی قسم کے لالچ بھی دیے جاتے ہیں، سوئز بنک میں اس کے نام چپ چاپ ایک خطیر رقم جمع کرنے کی پیش کش کی جاتی ہے، جب اس سے بھی کام نہیں چلتا توگھر کی نوجوان بہوؤں کے ذریعے ’’چریا تر‘‘ کی کوشش کرکے کرداراس کوہراس کرنے کی کوشش ہوتی ہے، اس کے کردارکو بگاڑنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں،اسی طرح ابھے پٹنائک کی بیوی پربھی غنڈوں کے ذریعے جان لیوا حملے کرائے جاتے ہیں،یہ سب گھناؤنی اور چھچھوری حرکتیں جہاں کمشنر کے حوصلے پست کرنے کے لیے کی جاتی ہیں، وہیں ان سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہ بڑے لوگ دراصل بہت چھوٹے اور کمینے قسم کے لوگ ہوتے ہیں،یہ جس قدرسفید پوش ہوتے ہیں، اندرسے اتنے ہی کالے ہوتے ہیں۔1:55 گھنٹے کی مووی سبق آموزاورچشم کشا ہے۔
جرمنی کے مختلف ادبی اداروں اور نمایاں ادبی شخصیات نے ’روحزن‘کی خصوصیات پر روشنی ڈالی
نئی دہلی(قندیل نیوز)ہندوستان کے معروف ناول نگاررحمن عباس حال ہی میں جرمنی کے ادبی سفرسے لوٹے ہیں، وہاں انھیں مختلف ادبی اداروں وعلمی دانش گاہوں کی جانب سے ان کے مشہورناول ‘روحزن ‘ پرمکالمہ وقرائت کی مجلسوں میں شرکت کے لیے مدعوکیاگیاتھا۔ رحمن عباس کے مذکورہ ناول کو جرمن اسکالر ڈاکٹر الموٹ دیگنر نے اردو سے جرمن زبان ترجمہ کیا ہے اور ایشائی ادب کی اشاعت کے لیے اپنی شناخت رکھنے والے ادارے ’دروپدھی ورلاگ‘ نے اسے شائع کیا ہے۔ رحمن عباس نے ۲۳ مارچ سے ۱۵؍ جون تک جرمنی میں قیام کیا اور اس دوران ناول کی جرمن اور اردو میں قرأت کا اہتمام لیٹریچرفارم (فلگسٹ ) ، فلزر ہاف (ہیڈلبرگ)، ہندستانی سفارت خانہ (فرینکفرٹ)، غونسل ہیم (مائنز)، ہیڈلبرگ یونی ورسٹی، ساوتھ ایشین انسٹی ٹیوٹ(ہیڈلبرگ) ، بکلمان فیملی (ہیڈلبرگ) ، بان یونی ورسٹی ، جرمن ریڈیو (بان، ہندی سروس)، کافِ موزلک (ہوچ، نزد فرینکرفٹ) لوکل زیتنگ (مائنز) وغیرہ میں کیا گیا تھا۔
فلگسٹ میں ایک سہ روز کانفرنس ’برصغیر کے ادب میں مہانگر‘ کے عنوان سے منعقد کیا گیاتھا جس میں جرمن اور برصغیر کی زبانوں کے ماہرین، پروفیسرز اور فن کاروں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں روحزن کا موازنہ برصغیر کے ایسے مشہور ناولوں کے ساتھ کیا گیا جن کا تانا بانا مہا نگروں کی زندگی سے جڑاہواہے ۔ناول میں ممبئی کی فطری عکاسی کی تعریف کی گئی۔ رحمن عباس نے جرمن طلبہ کے ساتھ ناول نگاری پر ایک ورک شاپ میں حصہ لیا اور ممبئی کی زندگی، اردوفکشن اور معروف اردو ادیبوں کے بارے میں انھیں بتایا۔ ہندستانی سفارت خانہ( فرینکفرٹ ) کے اراکین نے رحمن عباس کا استقبال کیا ،جبکہ جرمن ہندی مترجم مسز پانڈے نے رحمن عباس کا تفصیلی تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ رحمن عباس کا شمار بھارت کے نوجوان قلم کاروں میں ہوتا ہے ۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ہیڈلبرگ یونی ورسٹی میں اساتذہ اور طلبہ نے رحمن عباس سے روحزن اور ان کے دوسرے ناولوں پر سوالات کیے اور ناول کی قرأت کے بعد سامعین نے ناول پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یونی ورسٹی کے شعبۂ صدر ہنز نے روحزن کا جرمن ترجمہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ یہ ناول اپنے کرافٹ میں منفرد ہے اور بے شمار موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ ناول محبت، ممبئی، انسانی رشتوں ، قیامت خیز برسات اور سمندر کی گوناگوں شکلیں قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے۔ہیڈلبرگ یونی ورسٹی کے سکریٹری اور جنوبی ایشیا ئی امورکے ماہر مارٹن گیسلمان نے روحزن کو ایک دلچسپ ، زندگی سے بھر پور اور رشتوں سے آشنا کرنے والا ناول قرار دیا۔دوسری طرف بان یونی ورسٹی میں رحمن عباس نے’ بھارت میں اردو زبان کا مستقل ‘کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبانِ عشق ہے اور اردو اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک بھارت میں محبت ، رواداری اور انسانیت زندہ رہے گی۔ حالانکہ فسطائی قوتیں اردو کے خلاف سرگرم رہی ہیں ،اس کے باوجود اردو کی مقبولیت میں روزمرہ اضافہ ہو رہا ہے۔ جرمن ریڈیو کے ہندی شعبے نے رحمن عباس اور ڈاکٹر الموٹ دیگنر کا انٹرویو براہِ راست ریڈیو چینل کے فیس بک صفحے کے لیے کیا ،جس میں لوگوں نے بھارت میں اردو کی صورت حال اور فکشن کی اہمیت پر سوالات کیے۔ بکلمان فیملی میں مصوری کی تاریخ داں ارسولا نے رحمن عباس کے ناول کو ہندستانی راگ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اس ناول کے ذریعے ہم ممبئی کی وسعت سے آشنا ہوتے ہیں۔ کافِ موزلک میں پاکبان کی جانب سے ناول کی قرأت کا اہتما م کیا گیا تھا جس میں پاکستانی اردو نواز حضرات نے شرکت کی۔ پاکبان کے روح رواں عامر منصورنے روحزن پر تفصیلی گفتگو کی اور جرمن ترجمے کی تعریف کی۔ اسی دوران رحمن عباس نے جرمن ادیبوں سے ملاقات کی اور صحافیوں سے ناول پر بات چیت کی۔
قابل ذکرہے کہ مذکورہ ناول کو سوئزرلینڈ اور جرمن فارین آفس کے اشتراک سے جاری ادارے ’لٹ پروم‘ نے ،جو ہر سال عمدہ تراجم کی اشاعت کے لیے عالمی ادب سے کتابوں کا انتخاب کرتا ہے، جرمن ترجمے کے لیے گرانٹ کا اعلان کیا ہے۔ اسی سال فروری میں روحزن کے جرمن ترجمے کی رسم اجرا سوئزر لینڈ میں ایک اہم ادبی تقریب میں ہوئی تھی۔ روحزن کا انگریزی ترجمہ’ کتاب سنگاپور‘ امسال اگست میں شائع کر رہا ہے۔
ابراہیم قالین
۲۴؍جون کو ترکی کے عوام نے ایک تاریخی صدارتی و پارلیمانی الیکشن میں ووٹنگ کی،پہلے کی طرح اس بار بھی ووٹنگ فیصداسی سے زائد تھا،صدر رجب طیب اردوگان کو52.5فیصدووٹ حاصل ہوئے اور اس طرح ان کا دوبارہ صدر منتخب ہونا طے ہوگیا،انھوں نے دیگر امیدواروں کے مقابلے میں دس ملین زائد ووٹ حاصل کیے،ان کی پارٹی(AKپارٹی)نے42.5فیصدووٹ حاصل کیے،جبکہ عوامی اتحاد،جس میں عدالت و انصاف پارٹی کے علاوہ نیشنلسٹ مومنٹ پارٹی شامل تھی،اس نے بھی پارلیمنٹ میں قابلِ لحاظ اکثریت حاصل کی۔
ان نتائج سے پتاچلتاہے کہ ترکی کے عوام اب بھی اردوگان اوران کی پارٹی پر اعتماد کرتے ہیں،اسی طرح ان نتائج کایہ پہلو بھی اہم ہے کہ عوام نے ترکی میں نئے صدارتی نظام کی تائید کی ہے اور اردوگان اس سسٹم میں پہلے صدر کے طورپر منتخب کیے گئے ہیں،اس انتہائی اہم الیکشن میں اردوگان نے مؤثرکمپیننگ کی اور عوام میں اپنی ساکھ قائم رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں،مخالف پارٹیوں نے بھی کچھ ووٹ حاصل کیے،مگر وہ ترکی کی سیاست میں اردوگان کی بلندقامتی کو چیلنج نہیں کرسکیں،مسلسل سولہ سالوں سے حکومت میں ہونے اور13؍ الیکشنزاور ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرنے والے اردوگان نے اپنے سب سے نزدیکی مد مقابل کوبھی 20؍پوائنٹ سے زائد سے شکست دے دی،موجودہ عالمی سیاست میں کہیں بھی کوئی سیاست داں ایسا نہیں ہے،جسے لگاتاراتنے دنوں سے ایسی نمایاں کامیابی مل رہی ہو،اس سے ترکی کے اندرون کے ان سماجی و سیاسی حقائق کابھی پتاچلتاہے،جن کاباہر والے کماحقہ اندازہ نہیں لگاپاتے۔
اردوگان اوران کی پارٹی کو2002ء سے اب تک کے ان کے ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے کامیابی ملی ہے،اتنی بڑی عوامی حمایت نے اس حقیقت پر مہرِتصدیق ثبت کردی ہے کہ وہ ایک کامیاب لیڈرہیں،انھوں نے ترکی کی اقتصادیات کو بہتر سمت دیاہے،ملک میں لچک داروہمہ گیر سیاسی سسٹم کومضبوط کیا ہے، جس کی وجہ سے ترکی کی معیشت وسیاست میں مختلف طبقات کے لوگوں کا شامل ہونا ممکن ہوا ہے۔ پارٹی پالیٹکس اورIdentity Politicsکے تنازعات کے باوجود انھوں نے ترکی کے پسماندہ و مڈل کلاس خاندانوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے کی انتھک کوششیں کیں،تعلیم،صحت،انفراسٹرکچر،سڑک،ایئرپورٹ اور پبلک ہاؤسنگ کے شعبوں کوبہتر کیا،انھوں نے سماجی انصاف و برابری پر مبنی اعلیٰ درجے کی منصوبہ سازی کی،جس کی وجہ سے ملک کے شہری و دیہاتی؛ ہردو خطوں نے فائدہ اٹھایا اور ترقی حاصل کی۔
اردوگان کی کامیابی محض Service Politicsکی وجہ سے نہیں ہے؛بلکہ انھوں نے ترکی میں مختلف شناخت رکھنے والے طبقات کے لیے دروازے کھولے ہیں،جن میں مذہبی طبقات،کرد،علوی،غیر مسلم اقلیتیں مثلاً یہودی،رومی آرتھوڈوکس برادری ،آرمینین اور آشوری طبقات شامل ہیں۔کردی زبان پر سے پابندی اٹھالی گئی ہے اورکردوں کوترکی کے دیگر شہریوں کی طرح اپنے آپ کوexpressکرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے،انھیں ہر قسم کی سرگرمیاں انجام دینے کی آزادی ہے؛بلکہ کئی کردتواردوگان کے خاص اور معتمد لوگوں میں شامل ہیں،وہ کردسمیت ترکی سماج کے تمام طبقات سے مضبوط رشتہ رکھتے ہیں،انھوں نے کردعوام اور دہشت گردجماعت PKKکے درمیان واضح خطِ امتیاز کھینچاہے،عوام کواس دہشت گردنیٹ ورک کے مظالم و استحصال سے نجات دلائی ہے،جوصرف اپنے مفادکوعزیزرکھتاہے،اسے کردعوام سے کوئی لینادینانہیں ہے۔
ترکی کی خارجہ پالیسی کی توسیع کرتے ہوئے انھوں نے اس کا دائرہ افریقہ،ایشیااور لاطینی امریکاتک پہنچایاہے،وہ خارجہ پالیسی کو بے مقصد نہیں سمجھتے، ناٹوممبرہونے اور یورپی یونین میں شمولیت کا امیدوارہونے کے ناطے دنیاکے دیگر ممالک کے ساتھ ترکی کا رویہ متضاد نہیں ہوسکتا؛بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ موجودہ ہنگامہ خیز عالمی صورتِ حال کے پیش نظر ترکی کے قومی مفادکے لیے360؍ڈگری خارجہ پالیسی بناناضروری ہے۔دنیاکے مظلوم طبقات کی ترکی کے ذریعے اعانت کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے گئے ہیں،ترکی نے عالمِ اسلام اور دنیاکے دیگر خطوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں انسانوں کی مددکی ہے۔ اردوگان عالمی انصاف کی دعوت دیتے ہیں،اس سلسلے میں ان کا یہ نعرہ خاصااہم ہے کہ’’دنیاپانچ میں منحصرنہیں ہے‘‘ان کی یہ بات اگر چہ بعض مراکزِ طاقت کوبری لگی،مگر حقیقت ہے کہ یہ جملہ موجودہ عالمی نظام کی خرابیوں کی نشان دہی کرتاہے۔یہ امرباعثِ حیرت نہیں ہے کہ اس وقت ان کی جیت کا جشن نہ صرف ترکی میں منایاجارہاہے؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فلسطین،صومالیہ،میانمار،افغانستان،پاکستان،سینٹرل ایشیا،بلقان اور دوسرے مقامات پر بھی منایا جا رہاہے،اس وقت اپوزیشن کوچاہیے کہ وہ اپنی خامیوں کا جائزہ لے،اردوگان نے گزشتہ سولہ سال کے عرصے میں فوجی کی بجاے شہری حکمرانی کی حوصلہ افزائی کی اورترکی کے خود ساختہ قائدین کی حوصلہ شکنی کی ہے؛چنانچہ اس وقت ترکی میں سیاسی طاقت حاصل کرنے کا واحد ذریعہ یہ رہ گیاہے کہ عوامی انتخابات میں کامیابی حاصل کی جائے،اردوگان نے اپنے آپ کو چیلنج کے حوالے کیااورکامیابی حاصل کی ہے،اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ ترکش ووٹرس کا اعتماد جیتنے کے لیے نسلی سیاست اور گندی کمپیننگ کے اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلے۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ترکی الیکشن کے حوالے سے میڈیاکے ذریعے بہت سی غلط معلومات پھیلائی گئیں،مغربی میڈیاکے ایک حصے نے زمینی حقائق کی رپورٹنگ کی بجاے سیاسی ورکرکارول اداکرتے ہوئے اپوزیشن کے امیدواروں کو بے جا اُچھالا،حالاں کہ پہلے کی طرح اس بار بھی اردوگان کی شکست کی ان کی پیشن گوئیاں غلط ثابت ہوئیں،انھوں نے قارئین و ناظرین کی پھرکی لینے کے لیے اپنے مخصوص و منتخب ایجنڈے کے تحت رپورٹنگ کی،مگر ان کے منصوبے کارگرنہ ہوسکے،افسوس کی بات یہ ہے کہ انھوں نے ترکی کی سماجی و سیاسی حرکیات کو سمجھنے میں غلطی کی،ایسے میڈیااہل کاروں کے لیے یہ الیکشن ایک سبق ہونا چاہیے۔
اردوگان کی یہ جیت کچھ باہری مبصرین کے گلے اس لیے نہیں اتررہی ہے کہ وہ بعض حاشیائی افراد اور گروپس کی طرف سے پھیلائی جانے والی ناقابلِ اعتمادوجانب دارانہ خبروں پر انحصارکرتے یا مغربی دارالسطلنتوں کے بندکمروں میں بیٹھ کر پیشین گوئی کرنے والے تھنک ٹینکس پراعتماد کرتے ہیں،بہت سے خود ساختہ ’’ماہرینِ ترکیات‘‘توایسے ہیں کہ خود ان کے پاس ترکی کے بارے میں تجزیہ کرنے کے لیے کوئی مضبوط اور ٹھوس معلومات نہیں ہیں، ۲۴؍جون کا صدارتی و پارلیمانی الیکشن صرف اردوگان کے لیے نہیں تھا،اپوزیشن کے لیے بھی تھا،جس کے نتائج واضح ہیں،اب جہاں ترکی صدارتی نظامِ حکومت کے تحت ایک نئے دورمیں داخل ہورہاہے،وہیںیہ ملک شکست و ریخت سے دوچار خطے میں ایک خوشحال و مستحکم جزیرے کی مثال بھی پیش کرتا ہے۔
(مضمون نگاررجب طیب اردوگان کے چیف مشیر،ترجمان ، پرنس الولید سینٹرفارمسلم کرسچین انڈرسٹنڈنگ،جارج ٹاؤن یونیورسٹی ،امریکہ کے ایسوسی ایٹ فیلواور کئی کتابوں کے مصنف ہیں،یہ مضمون ترکی کے انگریزی اخبار روزنامہ’’صباح‘‘میں۲۶؍جون کو شائع ہواہے)
ترجمانی:نایاب حسن
ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی
ترکی کے صدارتی انتخابات میں اردوگان کی کام یابی پر دنیا بھر کے مسلمان خوشی کا اظہار کر رہے ہیں، اس خوشی میں جماعت اسلامی ہند اور جماعت اسلامی پاکستان کے کارکنان اور وابستگان بھی شریک ہیں ، معلوم ہوتا ہے کہ بعض حضرات ہمیں اس خوشی کے اظہار کے حق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں، انھیں اشکال یہ ہے کہ جماعت اسلامی ’’سیاسی اسلام‘‘کی علم بردار ہے ، اردوگان تو اسلام کا نام ہی نہیں لیتے، وہ سیکولرازم، جمہوریت، معاشی ترقی اور تمدّنی سہولیات کی بات کرتے ہیں اور اسی کے بل پر انھوں نے یہ انتخاب جیتا ہے، پھر ان کی کام یابی پر جماعتِ اسلامی والوں کو خوش ہونے کا کیا حق پہنچتا ہے؟ یہ اشکال ہندوستان میں بعض حضرات نے ظاہر کیا ہے اور پاکستان کے بھی بعض اہلِ قلم کے اسی طرح کے احساسات سامنے آئے ہیں ، یہ حضرات اگر اپنے تنگ افق سے کچھ باہر نکلتے اور وسعتِ ذہنی کا ثبوت دیتے ،تو انھیں بہت آسانی سے اس کا جواب مل جاتا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانۂ بعثت میں روم اور ایران دو بڑی سلطنتیں تھیں ،ان میں آپس میں معرکہ آرائی ہوتی رہتی تھی، بعثت کے پانچویں برس ایران نے روم کو بدترین شکست سے دوچار کیا، رومی عیسائی تھے اور ایرانی آتش پرست ، مسلمانوں کو روم کی شکست پر افسوس ہوا ،اُس وقت قرآن نے پیشین گوئی کی کہ چند برسوں میں رومی پھر غالب ہوجائیں گے، اس وقت مسلمانوں کو خوشی حاصل ہوگی (الروم: 1-4) قرآن کی یہ پیشین گوئی برحق ثابت ہوئی، رومی پھر غالب آگئے، اس موقع پر مسلمانوں کو دہری خوشی حاصل ہوئی؛ کیوں کہ انہی دنوں میں ان کی جنگ مشرکینِ مکّہ سے ہوئی تھی، جس میں مسلمانوں کو بھی فتح حاصل ہوئی تھی ۔
تاریخ میں اسی طرح کا ایک اور واقعہ محفوظ ہے، حبشہ کے عدل پرور حکم راں نجاشی نے مظلوم مسلمانوں کو اپنی یہاں پناہ دی تھی ، ایک موقع پر جب مسلمان ابھی حبشہ میں پناہ گزیں کی حیثیت سے موجود تھے، شاہِ حبشہ کو اندرونی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا، اس نے اپنی حکمت اور دانائی سے اس بغاوت پر قابو پالیا، اس موقع پر بھی حبشہ میں رہنے والے مسلمان بہت خوش ہوئے تھے ۔
مذکورہ دونوں واقعات میں مسلمانوں نے جن لوگوں کے حق میں خوشی کا اظہار کیا تھا، وہ ان کے ہم مذہب نہ تھے؛لیکن چوں کہ وہ عیسائیوں کو مشرکوں کے مقابلے میں اپنے سے زیادہ قریب سمجھتے تھے اور شاہِ حبشہ کے احسان مند تھے؛ اس لیے دونوں مواقع پر ان کی ہم دردیاں انہی کے ساتھ رہیں۔
اگرچہ اردوگان’’سیاسی اسلام‘‘ کے علم بردار نہیں، انھوں نے معاشی ترقی، تمدّنی سہولیات اور نافعیت کے نام پر اپنے ملک کی اکثریت کو اپنا ہم نوا بنایا ہے؛ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا وجود’’کمالی سیکولرزم‘‘ کے علم برداروں کے مقابلے میں ہزار درجہ بہتر ہے، وہ اگرچہ کھل کر اسلام کا نام نہیں لیتے؛ لیکن ان کے اقدامات مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے والے اور ان کو آزادیاں عطا کرنے والے ہیں ؛ اس لیے وہ ان لوگوں سے بہت بہتر ہیں ،جنھوں نے دہائیوں تک ظلم اور جبر کا بازار گرم کر رکھا ہے اور لوگوں کی آزادیاں سلب کی ہیں ، ہم اردوگان کو ان کے حریفوں کے مقابلے میں اپنے سے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں ۔
انصاف کا تقاضا ہے کہ جب سامنے ایک سے زائدافراد، گروہ یا جماعتیں ہوں ،تو یہ دیکھا جائے کہ ان میں سے کون اسلام اور مسلمانوں کے حق میں مفید ہے؟ اور کون ان کے لیے ضرر رساں؟ یہ بنیادی نکتہ سامنے نہ رہے اور صرف اپنا مفاد عزیز ہو، تو پیمانے بدل جاتے ہیں اور نفع کو ضرر اور ضرر کو نفع سمجھ لیا جاتا ہے، مصر میں مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے میں سیسی کا تعاون کیا گیا، اگر یہ موازنہ کیا جاتا کہ دونوں میں سے کس کی حکم رانی عام مسلمانوں کے لیے فائدہ مندہے؟ تو یقیناً فیصلہ مرسی کے حق میں جاتا ، فلسطین کے معاملے میں اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے سرگرم ’’حماس‘‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا اور قابض و غاصب اسرائیل سے راہ و رسم بڑھائی گئی، اگر یہ دیکھا جاتا کہ اسرائیل اور حماس میں سے کون مسلمانوں کے ہم درد اور ان کے حقوق کی حفاظت کرنے والے ہیں؟ تو یقیناً فیصلہ حماس کے حق میں جاتا ۔
جماعت اسلامی والے بھی مسلم امت کا حصہ ہیں ، جب پوری دنیا کے اسلام پسند اردوگان کی کام یابی پر شاداں و فرحاں ہیں، تو خدارا جماعت والوں کو اس خوشی میں شریک ہونے سے محروم نہ کیجیے!