محمد علم اللہ
ہمارے ملک کے پرانے اور بار بار جنم لینے والے مسائل میں سے ایک شوال کے چاند کو دیکھنا بھی ہے جس پر اتفاق رائے پیدا کرنا محال بنا دیا گیا ہے،ہر سال رمضان کی آمد کے ساتھ اس معاملہ کو لیکر ہندوستانی مسلمان ایک عجیب قسم کی کشمکش، الجھن اور تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں،جب امت ایک ہے،قران ایک ہے ،اسکے رسول ایک ہیں ،ان کے مسائل ایک،امت کا ہر حصہ دوسرے سے ایک گہرے جذباتی تعلقات سے جڑا ہوا ہے،ان کی ہر تنظیمیں اور ہر قائداپنے آپ کو سب سے بڑا رہنما اور مسیحا کہتے نہیں تھکتے ،تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب بات رمضان یا عیدین کی ہوتی ہے، تو پوری قوم تقریبا تمام جگہوں پر ایک دوسرے سے الگ ہو جاتی ہے۔اپنی ڈفلی اور اپنا راگ کے مطابق کبھی دو دن قبل ہی رمضان شروع ہو جاتے ہیں تو دو دن بعد عید،اور تو اور ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے مختلف صوبوں بلکہ ضلعوں میں الگ عیدیں مناناکوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے۔اس گو مگوکی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ایک عام مسلمان یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ علماءجب ایک مسئلہ میں اتفاق رائے نہیں رکھتے، تو پھر امت میں اتفاق اور اتحاد کیسے ممکن ہے،آخر کب ایک امت وسط کی معنوی حقیقت سامنے آئے گی ،جب اس طرح کے چھوٹے چھوٹے مسائل میں علماءقوم کی رہنمائی نہیں کر سکتے تو دےگر مسائل میں ملت کے رہنمائی اور ملت کے حق میں ان کی خیر خواہی کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔
اسے شومی قسمت سے ہی تعبیر کیا جائے گا کہ اِس ماہ کا آغاز ’اختلاف‘ سے شروع ہو کر ’اختلاف‘ پر ختم ہو جاتا ہے‘ اب کی بھی ایسا ہی ہوا، اور عین اس وقت جبکہ دنیا بھر سے رمضان المبارک کی آمد پر اظہار مسرت کرنے کی خبریں موصول ہوئیں ،ہندوستان میں اس سال بھی یہ بابرکت موقع اختلاف کی نذر ہو گیا۔امارت شرعیہ نے اپنے شواہد کی بنیاد پر بدھ کو ہی رمضان ہونے کا اعلان کر دیا،شام کے بلیٹن میں آل انڈیا ریڈیو سے بھی اس کی تصدیق کر دی گئی۔جبکہ دہلی میں آٹھ بجے ہی مسجد فتح پوری کے امام مفتی مکرم کا بیان سامنے آگیا کہ روزہ جمعرات کو رکھا جائے گا،جبکہ دیر گئے رات تک جمعیۃ العلمااوردیگر تنظیمیں میٹنگیں کرتی رہیں ،گیا رہ بجے رات کو شاہی امام نے شاہجہانی جامع مسجد سے صدا لگائی کہ نہیں روزہ بدھ کو ہی رکھنا ہے ۔
وہیں معتبر اردو خبر ایجنسی یو این آئی نے 7بجے شب کی ٹریک میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے ملی اطلاعات کی بنیاد پر بدھ کو پہلا روزہ رکھے جانے کی خبر جاری کر دی یہ الگ بات ہے کہ دیر گئے رات ایجنسی نے پھر دہلی میں جمعرات کو ہی روزہ رکھنے کی خبر جاری کی، الگ الگ مسجدوں سے الگ الگ انداز میں اعلان ہوتا رہا ،اسی طرح لکھنؤ میں مرکزی صدر کمیٹی کے صدر مولانا خالد رشید فرنگی محلی اور شیعہ چاند کمیٹی کے صدر مولانا سیف عباس نقوی نے جمعرات کو روزہ رکھنے کی بات کی۔مرادآباد وممبئی شہر میں گھوم گھوم کر آٹو رکشہ کے ذریعہ دیر گئے رات تک یہ اعلان کیا جاتا رہا کہ بدھ کو نہیں جمعہ کو روزہ رکھنا ہے ،جبکہ بوہرا فرقہ کے مسلمانوں نے اپنے فکس کیلنڈر کے مطابق دو دن قبل سے ہی روزہ رکھنا شروع کر دیا ،آخر بار بار ایسا کیوں ہو رہا ،اس کے باوجود کہ قرآن مجید میں ’اتحادواتفاق‘ کا واضح حکم موجود ہے ۔
دراصل یہ شریعت سے تجاہل عارفانہ ،اور صرف ” منبری کی دوکان چلے” جیسی سوچ کا نتیجہ ہے ورنہ شرعی اعتبار سے دیکھا جائے تو چاند دیکھنا اور اس کی شہادت دینا اتنا مشکل نہیں ہے، جتنا پیچیدہ اور مشکل ہمارے علماءنے اسے بنا دیا ہے یہ تو چند اصولوں کے تابع ہے جن پر عمل کرکے اس پیچیدہ مسئلہ کو انتہائی آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے۔ شریعت میں اس بارے میںواضح احکامات موجود ہیں ، جو ہمیں بتاتی ہے مہینوں کا تعین چاند سے ہوتا ہے (سورہ نساءآیت نمبر:301)۔اسی طرح قرآن میں ہی چاندکو مہینوں کے تعین کا آلۂ شناخت بتایا گیا ہےاور بتایا گیاہے کہ نمازوں کے وقت کا تعین سورج سے ہوتا ہے اور مہینوں کا تعین چاند سے( سورۂ بقرہ، آیت: 981)۔اسی طرح حدیث میں اللہ کے نبی محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی افطار کرو، اگر تم پر بادل چھائے تو تیس دنوں کی گنتی پوری کرو‘(صحیح بخاری: کتاب الدم؛ جلد اول، حدیث نمبر2871) ابو داوود کی روایت کے مطابق’ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ اس نے رمضان کا چاند دیکھ لیا ہے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا وہ اللہ کے ایک ہونے کی شہادت دیتا ہے، اس نے اعتراف کیا کہ ہاں یہ شہادت دیتا ہے، پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوبحیثیت اللہ کے رسول کا مانتا ہے، اس پر اس نے ہاں کہا اور گواہی دی کہ اس نے چاند دیکھا ہے، پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ وہ یہ اعلان کردےں کہ کل سے روزہ رکھنا ہے‘(راوی حضرت عبداللہ ابن عباس، سنن ابو داو ¿د: حدیث نمبر (3332) اسی طرح ابو داو ¿دکی حدیث نمبر 4332 اور 5332 میں بھی یہی بات دیگر روایات کے حوالے سے نقل کی گئی ہے۔
https://youtu.be/_bQ1FcOzBJc
ان واضح ہدایات کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امت کے ٹھیکیدار امت کی رہنمائی کے نام پر اس پر کتنا عمل آوری کرتے ہیں، اگر اس پر ذرہ برابر بھی عمل آوری ہوئی ہوتی تو معاملہ بالکل اس کے بر عکس کبھی نظر نہیں آتا ۔اس سلسلے میں جب ان سے دریافت کیا جاتا ہے، توبلا وجہ کی تاویلیں کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے ہر جگہ مطلع مختلف ہے اور ”اختلاف المال“ کی بنیاد پر ہر جگہ الگ الگ عید ہونے کو صحیح قرار دیا جاتا ہے۔حالانکہ فتاوی عالمگیری جلد اول صفحہ 198 پر لکھا ہے کہ "مطلع کے اختلافات کی کوئی اہمیت حضرت امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ نزدیک نہیں ہے“۔اسی طرح ”مذاہب اربعہ “جلد اول صفحہ 550 پر اس موضوع پر چاروں مسالک کی آ راکا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جب چاند کہیں ثابت ہو جائے تو روزے رکھنا تمام مسلمانوں کا فرض ہو جاتا ہے، مطلع کے اختلافات کی کوئی وقعت نہیں ہے،اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فتاوی؛ جلد پنجم: صفحہ: 111میں لکھتے ہیں ”ایک شخص کو کہیں چاند کے نظر آنے کی معلومات بر وقت ہو تو روزہ رکھے اور ضرور رکھے، اسلام کی نص اور سلف کا عمل اسی پر ہے، اس طرح چاند کی شہادت کو کسی فاصلہ یا کسی خاص ملک میں محدود کر دینا عقل کے بھی خلاف ہے اور اسلامی شریعت کے بھی‘۔
اگر سائنسی اعتبا ر سے دیکھا جائے تو بھی آج کی ترقی کرتی ہوئی دنیا میں سرے سے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے،سائنسدان ،ماہرین ریاضیات اور علم نجوم کا ادراک رکھنے والے چاند (ہلال) کے ظہور کا وقت‘ دورانیہ‘ اور افق پر ظاہر ہونے کا مقام اورکن علاقوں میں اِسے دیکھا جا سکے گا‘ پہلے ہی سے بتا دیتے ہیں۔ سائنسی نقطہ نظر سے ’انسانی آنکھ کے ذریعے کسی بھی مہینے کے پہلے روز کے چاند کو دیکھنا ممکن ہی نہیں ہوتا‘ اگر حساب کتاب سے یہ بتا دیا جائے کہ ’زیر گردش زمین سے چاند کی دوری کے مراحل اور افقی اعتبار سے اس کے ظہور ہونے کا مقام کیا ہے لیکن ہمارے مذہبی حلقے اِس سائنسی توجیہ کو خاطر میں نہیں لاکرمسئلہ کو مزید چوں چوں کا مربہ بنا دتے ہیں، اور ہر سال اس معاملہ کو لیکر اتنی اٹھا پٹک ہوتی ہے کہ الامان و الحفیظ،انھیں پتہ نہیں ہے کہ ان کے اس رویہ سے صرف امت کیجگ ہنسائی ہی نہیں ہوتی ہے‘ بلکہ اس طرح کی بے ےقےنی کی صورت حال سے غیر مسلموں کے درمیان بھی مسلمانوں کے تئیں عدم اعتماد اور کھوکھلے پن کا اظہار ہوتا ہے،حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب اس قدر حساس معاملہ کو بھی مسلکی رنگ دے دیا جاتا ہے ،اور بعض علماءاور تنظیمیں بھی اسے اپنی انانیت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں جس کا نتیجہ اہل حدیث ،بریلوی ،دیوبندی اور خدا معلوم کیسی کےسی تفرقہ باز شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے ،اگر آپ کو یقین نہ آئے تو فیس بک اور ٹوئٹر پر جا کے دیکھئے،جہاں ہزاروں کی تعداد میں ریمارکس مسلمانوں کا منہ چڑا رہے ہیں ،ایسے میں امت کا سواد اعظم کدھر جائے ،کیا کرے ؟ اس سوال کے جواب تک پہنچنے کیلئے قوم کو نہ جانے مزید کتنی مرتبہ رمضان اور عید کے مواقع پر انتشار اورتقسیم کی اذیتوں سے گزرنا ہو گا۔مسلم قیادت کواس کا جواب دینا ہی ہوگا، صرف اپنے اپنے منبروں سے مواعظ اورتقاریر میں امت مسلمہ کے اتحاد و یگانگت کا راگ الاپنے سے بات نہیں بننے والی ہے، بلکہ رمضان المبارک اور عیدین جیسے اہم مواقع پر قوم کے اتحاد کو پارہ پارہ ہونے سے بچانے کے لئے عملی طورپرکچھ کرنا پڑے گا ۔
https://youtu.be/PbEyfwyGr7A
[email protected]
16 مئی, 2018
محمد حامد ناصری قاسمی
Email: [email protected]
اللہ سبحانہ وتعالی کا عطا کردہ نظام حیات اور دین نبوی کی تعلیم وترویج کے لیے جو حضرات متعین ہوتے ہیں، ان کا انتخاب من جانب اللہ ہوتا ہے۔ دین اسلام کی خدمت کی توفیق اللہ پاک اسے بخشتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: ترجمہ: اللہ چن لیتا ہے اپنی طرف سے جس کو چاہے، اور راہ دیتا ہے اپنی طرف اس کو جو رجوع لائے۔ (ترجمہ شیخ الہند،سورۃ الشوری:13)
دین نبوی کی تعلیم وترویج اور اشاعت کے دو طریقے رائج ہیں۔ دونوں کی نظیر نبی ﷺ اور صحابہ –رضی اللہ عنہم– کے دور میں پائی جاتی ہے۔ ان میں افضل اور معروف طریقہ مکاتب ومدارس کا قیام ہے اور دوسرا طریقہ دعوت وتبلیغ کے راستہ میں نکل کر دین سیکھنا اور سکھانا ہے۔ پہلے طریقہ کی اصل "صفہ” ہے، وہاں امام الانبیاء ﷺ معلم ومدرس ہوتے اور آپ ﷺ کے جاں نثار صحابہ –رضی اللہ عنہم– طلبہ اور متعلمین ہوتے تھے، جن میں اکثریت فقراء صحابہ –رضی اللہ عنہم–کی تھی۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام نہ تھا، نبی کریم ﷺ بنفس نفیس صحابہ کرام –رضی اللہ عنہم– سے ان کے کھانے کا انتظام کرواتے(یعنی آپ ﷺ خود چندہ کرتے) تھے۔ آپ ﷺ کی تشکیل پر صحابہ کرام –رضی اللہ عنہم– اپنے گھر سے کھانا پہنچاتے، بسا اوقات ان کو اپنے گھر لے جاتے اور ساتھ بیٹھا کر کھلاتے تھے۔ لیکن یہ سلسلہ مستقل نہیں تھا، بسا اوقات صفہ کے طلبہ کئی کئی دنوں تک بھوکے رہتے اور یہی صورت حال صفہ کے معلم آقا دوجہاں ﷺ کا تھا۔ معلم اور متعلم دونوں کا فاقہ ہوا کرتا۔ کئی کئی دنوں تک کھانے پران کی نظر نہیں پڑتی تھی۔ آج کے مدارس اسی صفہ کی نظیر اور مثال ہیں۔
مدارس اسلامیہ حفاظت دین کے قلعے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد ایسے رجال کار تیار کرنا ہے، جو دینی علوم کے ماہر اور حمیت اسلامی سے سرشار ہوں۔ اہل مدارس اسوۂ رسول ﷺ کے محافظ وامین ہیں۔ مدارس کا مقصد حصول دین ہے، حصول دنیا نہیں؛ اس لیے جہاں بھی مکتب یا مدرسہ قائم ہو خواہ اس میں چند طلبا ہی کیوں نہ ہوں، امت مسلمہ اس کو اپنے لیے نیک بختی سمجھے اور اس کے چلانے میں بھر پور تعاون کرے۔
اللہ پاک نے اس دین کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے۔ اس کی حفاظت کے اسباب وہی پیدا فرماتا ہے۔ اسی پاک ذات نے دین کی حفاظت کے لیے حفاظ وعلماکا انتخاب کیا ہے اور مکاتب ومدارس کو اس کی حفاظت کے لیے مرکز بنایا ہے۔ وہی اللہ لوگوں کے دلوں میں بات ڈالتا ہے کہ وہ اپنی محنت کی کمائی ان مدرسوں میں دیتے ہیں اور دل کھول کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف شیطان کی جماعت ہے جو لوگوں کو ورغلانے کا کام کرتی ہے، طلباء کو بہکاتی ہے؛ حتی کہ بعض دفعہ ذمہ داروں کو مدرسہ کی آمدنی سے مایوس کروا کر، نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔
اللہ پاک نے علم دین سیکھنے کی ترغیب دی ہے اور اس کے مقاصد کا بھی ذکر قرآن کریم میں فرمایا ہے، اللہ کا فرمان ہے: ترجمہ: ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جہاد میں جایا کرے، تاکہ باقی ماندہ لوگ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں، اور تاکہ یہ لوگ اپنی اس قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس واپس آویں ڈراویں، تاکہ وہ ان سے دین کی باتیں سن کر برے کاموں سے احتیاط رکھیں۔ (بیان القرآن، سورۃ التوبہ:122)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امت کی یہ جماعت علم دین کہاں سیکھے گی؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ صفہ کی طرز پر قائم مدارس اور مکاتب میں داخلہ لیں گے، جہاں ان کے کھانے اور رہنے کا انتظام رہتا ہے، جس کا انتظام وانصرام ان کے اساتذہ اور مدرسہ کے ذمے داران کرتے ہیں، اہل خیر حضرات کے پاس جاتے ہیں، ان سے درخواست کرتے ہیں، نبی ﷺ کی سنت کو زندہ کرتے ہیں، پھر جو کچھ ملتا ہے، اس سے –توکلا علی اللہ – کام جاری رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں مدارس کو قائم رکھنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ حکومتی سطح پر پریشانیاں، اپنوں اور پرایوں کے الزامات، ان سب کے باوجودمدارس کے ذمے داران، گرمی، سردی، برسات کی پروا کیے بغیر، دین کی خاطر لوگوں کے پاس پہنچتے ہیں۔ آج کا زمانہ نبی اور صحابہ کا زمانہ تو ہے نہیں کہ جس طرح صحابہ کرام –رضی اللہ عنہم– صفہ پر کھانا پہنچادیا کرتےیا اصحاب صفہ کو اپنے گھر لے جاکر ساتھ میں کھانا کھایا کرتے، آج یہ صورت ناپید ہوچکی ہے۔
مدارس اور مکاتب دینیہ کے لیے ضروری نہیں کہ وہاں سینکڑوں طلبا زیر تعلیم ہوں، قیام اور کھانے کا مکمل انتظام ہوتبھی یہ مدارس زکاۃ کے مستحق ہوں گے۔ نہیں بالکل نہیں، بلکہ مدارس کے مستحق ہونے کے لیے صرف یہ کافی ہے کہ وہاں نادار طلبہ، تعلیم حاصل کر رہے ہوں، خواہ وہ مکتب کی شکل میں ہو، شہر میں ہو یا دیہات میں، طلبا کی تعداد بیس ہو، سو ہو یا ہزار۔ اگر دین کی ترویج واشاعت ہورہی ہے؛ تو وہ مکتب یا مدرسہ مستحق ہے، آپ ان کو زکاۃ دیجیے۔
اللہ تعالی کے قول: ” في سبيل الله وابن السبيل ” (سورۃ التوبۃ: 60) مصارف زکاة کا ذکر ہے۔ علماء کرام نے فی سبیل اللہ سے مدارس کے طلبا کو زکاة کے مستحق ہونے پر استدلال کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو اللہ کے راستے میں ہے، وہ مستحق ہے، اس کی تعداد خواہ ایک ہو یا ایک ہزار۔ اسی طرح مسافر جس کا سامان سفر تلف ہوگیا ہو گرچہ وہ مال دار ہو؛ تو وہ بھی مستحق ہے۔ تو ایک مسافر مستحق ہوسکتا ہے اور 50/ طلبہ جس ادارے میں رہتے ہوں، وہ مستحق کیوں نہیں ہوسکتا۔
آج کی صورت حال یہ ہے کہ اگر دوسو،چار سو طلبا ہیں، قیام وطعام ہے تو اس مدرسہ کو مستحق سمجھا جاتا ہے، بہت رد وقدح کے بعد سو، دوسو روپے کی رسید کٹوا کر احسان جتاکر ،ان کو روانہ کردیا جاتا ہے اور اگر کسی مدرسہ میں پچاس پچیس بچے ہیں یا وہ مکتب ہے؛ تو ان کی رسید چھین لی جاتی ہے۔ ان کو ذلیل ورسوا کیا جاتا ہے۔ بعض جگہوں پر ان کے ساتھ دست درازی کی جاتی ہے اور بعض ناہنجار؛ تو پولیس کو بھی بلا لیتے ہیں، الامان والحفیظ۔
ایسے لوگوں سے میرا صرف ایک سوال ہے، ذرا تنہائی میں اس کا جواب سوچیے گا کہ ہندوستان میں ایسے علاقے جہاں کے لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارتے ہیں، مزدور پیشہ جو روزانہ کی مزدوری کرکے اپنا گزارہ کرتے ہیں، علاج ومعالجہ کے لیے پیسے پیسے کے محتاج رہتے ہیں، آخر ان کے بچے علم دین کیسے حاصل کریں گے؟ وہ مکتب کی فیس سو دوسو روپے کہاں سے لائیں گے؟ کیا ان کے بچے کو دینی تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں ؟ اگر حق ہے؛ تو کیا ایسی تمام جگہوں پر وہ لوگ جاگر بچوں کو مکتب کی تعلیم دین گے ،جو ان مکاتب والوں پر ظلم کرتے ہیں، ان کو زکاۃ کا مستحق نہ کہ کر ان کے ساتھ طوفان بد تمیزی کرتے ہیں۔
اسی طرح ایسے مدارس جن کی کفالت میں صرف پچاس بچے ہیں، کیا وہ زکاۃ کے مستحق نہیں ہیں؟ اگر وہ آپ کی زکاۃ کے مستحق نہیں؛ تو یاد رکھیے آپ بھی اللہ پاک کا رزق کھانے اور استعمال کرنے کے مستحق نہیں؛ کیوں کہ آپ کی کفالت میں صرف دو،چار، یا دس لوگ ہی ہوتے ہیں، اور اگر ہم ان کو غیر مستحق کہہ کر، ان کی تذلیل کرکے لوٹادیں گے؛ تو آخر وہ بچے علم دین حاصل کرنے کہاں جائیں گے؟ ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں سیکڑوں مدارس ہیں، کہیں بھی چلے جائیں؛ لیکن یہ صرف باتیں ہیں، بولنا آسان ہے، آپ سروے کیجیے مدارس میں 95 فیصد بچے ایسے آتے ہیں، جن کے پاس سال میں ایک بار اپنے گھر جانے کا کرایہ نہیں ہوتا، ایسے بچے اپنے گھر سے دور جاکر تعلیم حاصل کریں، کیا یہ ممکن ہے؟
ہندوستان میں پہلےسے ہی اہل مدارس مختلف قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ ادھر چند سالوں سے اہل مدارس اور مکاتب کے لیے کچھ احباب رمضان کے موقع پر، ایک نئی پریشانی ان کے اوپر مسلط کردیتے ہیں، چندہ کمیٹی کا راگ الاپا جاتا ہے، اہل خیر کو ورغلایا جاتا ہے کہ میری تصدیق سو فی صد درست ہے اور صرف میری تصدیق پر ہی آمنّا صدّقنا کہا جائے۔ باقی جتنی تصدیقات ہیں، وہ سب جھوٹ کا پلندہ ہیں، ان کا اعتبار نہ کیا جائے۔ یعنی منٹوں میں جمیعت، دارالعلوم، دیوبند، مظاہرعلوم، سہارنپور، امارت شریعہ پٹنہ، دارالعلوم کنتھاریہ، ماٹلی والا بھروچ، فلاح دارین، ترکیشور، جیسے سارے معتبر ادارے کی معتبریت پر سوالیہ نشان لگا دیا، وہ ادارے جن پر امت اپنی جان نچھاور کرتی ہے۔ پل بھر میں ان کو بے حیثیت کردیاجاتا ہے۔ اب بیچارے ان اداروں کی تصدیقات لے کر آتے ہیں، در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں، ہمارے امرا پوچھتے ہیں کہ چندہ کمیٹی کی تصدیق ہے؟ اس طرح کی حرکت تو برادران وطن بھی نہیں کرتے۔ ہماری یہ صورت حال اس وقت ہے جب ہم اپنا اصل مال نہیں دے رہے ہیں؛ بل کہ زکاۃ دے رہے ہیں، جان ومال کا کچڑا ہے، جس کا استعمال ہمارے لیے حرام ہے، اگر ہم سے پیور مال کا مطالبہ ہوتا ؛ تو ہم کیا کرتے، شاید ہم اپنے ہاتھوں مدارس پر پابندی لگوادیتے!
مدارس ومکاتب میں پڑھنے والے طلبہ مہمان رسول ہیں اور اہل مدارس جو چندہ لینے آپ کے پاس پہنچے ہیں، وہ وارث انبیاء ہیں، ساتھ ساتھ مہمان رسول کے عامل ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فتوحات کے بعد علاقے میں عامل بھیجے تھے، ان کا کام زکاۃ وصول کرکے، بیت المال میں جمع کرنا ہوتا تھا، حضرت معاذ بن جبل –رضی اللہ عنہ– کو آپ نے یمن کی طرف دین کا داعی، دین کا معلم اور زکاۃ کا عامل بناکر بھیجا تھا۔ ان کو یہ حکم تھا کہ قوم سے زکاۃ وصول کر وہاں کے غربا میں اس کو تقسیم کردیاجائے، تو جو کام نبی کریم ﷺ نے صحابہ کے سپرد کیا تھا۔ تعلیم وتعلم، دعوت وتبلیغ، اور زکاۃ کی وصولی، آج وارثین انبیاء، مہمان رسول کے کفیل ووکیل، جب اس کام کے لیے نکلتے ہیں،تو ان کو فراڈ اور غیر مستحق کہہ کر ظلم وزیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ آپ بغیر تحقیق کہ چندۃ دیدیں، آپ خود تحقیق کریں اور اگر یہ ممکن نہیں؛ تو آپ ہندوستان کے بڑے ادارے پر بھروسہ کریں۔ بڑے ادارے تو صرف پچاس، سو طلبہ پر تصدیق نامہ جاری کردیں اور آج کی پیداوار امت میں انتشار پیدا کرنے والے دوسو کی شرط لگادیں۔ ان بڑے ادارے کو بے حیثیت کردیں۔ اس سے مجموعی طور پر امت کا دینی وملی ڈھانچہ کمزور ہوگا، گاؤں دیہات میں ناظرہ خواں تک کا ملنا مشکل ہوجائےگا اور اس کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔
اگر بالفرض آپ کسی مکتب کو یا کسی مدرسہ کو اپنی زکاۃ کا مستحق نہیں سمجھتے ہیں، تب بھی آپ کو ان کی رسیدات چھیننے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان سے معذرت کرلیا جائے، نہ کہ ان کو ذلیل ورسوا کرکے، ان کے ساتھ بد تمیزی کی جائے، پولیس بلاکر ان کو ہراساں کرایا جائے۔آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگرآپ ایسا کرتے ہیں؛ تو خدا کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔ آپ انبیاء کے وارث کی توہین کے مرتکب ہورہے ہیں، ان کے لیے تو سمندر کی تہہ سے مچھلیاں مغفرت کی دعائیں کرتی ہیں اور آپ ان کو گالیوں سے نوازیں، مشرع اور داڑھی ہونے کی بھپکی کسیں، یہ کسی بھی طرح جائز اور درست نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی سفیر آئے؛ تو اس کا اکرام کیجیے، ان کو افطار کرائیے، اگر دل مانے؛ تو چندہ دیجے اور نہ مانے؛ تو مت دیجے؛ مگر ان کے ساتھ بدسلوکی سے پیش مت آئے۔ اگر کسی مدرسہ کی تصدیقات پر علما کا اجماع ہو؛ تو اس کو دیجیے۔ جس مدرسہ کی تائید وتصدیق پانچ مؤقر اداروں نے کی اس کو نہ ماننا اور ایک غیر معتبر پر اعتبار کرکے، واپس کردینا، یہ اچھا نہیں ہے۔ میرا اپنا نظریہ تو یہ ہے کہ مکاتب میں بھی زکاۃ کی رقم دیں، سفیر کو مکلف بنا دیں کہ نادار طلبا سے تملیک کرا کر، اپنی تنخواہ میں استعمال کریں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا؛ تو ہندوستان میں ارتداد کی ہوا چلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ اللہ پاک ہماری لغزشوں کو معاف فرمائے! آمین!
٭ ناصرگنج نستہ، کٹکا، دربھنگہ بہار۔
مولانا انیس الرحمن قاسمی ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
رمضان کے روزے کو اللہ نے ہرمسلمان بالغ مرد و عورت پر فرض کیا ہے اور اس کے برکات اور فوائد روحانی وجسمانی دونوں طرح ہیں ، اس لیے روزے کی حفاظت ، اس کو بہتر طور پر ادا کرنا اور اس کے مقاصد تقویٰ اور جنت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ روزہ کو سنت کے مطابق اداکیا جائے۔ روزہ کو صحیح طریقہ سے ادا کرنے کے لیے دن و رات کے اوقات کے نظام کوسنت کے مطابق بنا کر اس پر عمل کریں گے تو اس سے روزہ کی رحمتیں اور برکتیں حاصل ہوں گی ۔ لہٰذا دنیاوی کاموں سے اپنے اوقات کو عام دنوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ وقت فارغ کریں ، کم از کم آٹھ گھنٹے روزانہ عبادات کے لیے فارغ کریں اور اسی کے مطابق اپنے پورے گھر کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
دن و رات کے اعمال:
۱۔ رمضان میں روزانہ دن میں کم از کم دو پارے قرآن کریم کی تلاوت کریں ، چند آیتیں روزانہ ترجمہ کے ساتھ زبانی یاد کرنے کا معمول بنائیں۔
۲۔ حدیث کی مختصر کوئی بھی کتاب دو صفحہ پڑھیں یا پڑھوا کر سنیں اور ایک حدیث ترجمہ کے ساتھ یاد کر لیں، حدیث کے ساتھ کوئی دیگر دینی کتاب بھی چند صفحے پڑھیں۔
نماز:
(الف) پانچ اوقات کے فرض نماز کو مرد جماعت کے ساتھ ادا کریں ، اور خواتین گھروں میں پابندی سے پڑھیں
(ب) فرائض کے علاوہ روزانہ نفلی نمازوں کا بھی اہتما م کریں ۔
(ج) تراویح کی بیس رکعات پورے ماہ پابندی سے اداکریں ، یہ سنت موکدہ ہے۔
(د) روزانہ سحر کے وقت دو سے بارہ رکعات تہجد کی نماز پڑھیں۔
(ہ) اشراق کی نماز سورج کے نکلنے کے بیس منٹ بعد جب وہ بلند ہو جائے، ۲؍ رکعت ادا کریں۔
(و) چاشت کی نماز ۹؍ بجے دن کے بعد زوال سے پہلے پہلے دو سے بارہ رکعات ادا کریں۔
(ز) بعد نماز مغرب اوابین کی چھ رکعتیں ادا کریں۔
(ح) تراویح میں پورا قرآن سنیں
تسبیحات:
روزانہ صبح و شام چلتے پھرتے کلمۂ طیبہ، استغفار اور درود شریف ہر ایک جتنا زیادہ ہو سکے پڑھنے کی کوشش کریں
دعا:
دعا عبادت ہے اور دعاؤں میں بڑی طاقت ہے،رمضان میں دعائیں قبول ہوتی ہیں ، گناہوں کی مغفرت کی جاتی ہے، جہنم سے نجات دی جاتی ہے، خاص طور پر سحر وافطار کے اوقات، ہر نماز کے بعد اور تہجد کا وقت دعاء کی قبولیت کے اوقات ہیں ، اس لیے ان اوقات میں روزانہ اپنی خطاؤں کی بخشش اور دیگر حاجتوں کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں ۔ اپنے ساتھ ساتھ اپنے والدین، اعزہ و اقرباء دوست و احباب ، پڑوسیوں ، رشتے داروں، دینی اداروں ، مساجد، مدارس ، خانقاہوں کے لیے مکمل امن و امان اور پوری امت مسلمہ کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں۔
اعتکاف:
رمضان کے اخیر عشرے میں اعتکاف بھی سنت ہے، ہر محلے سے چند لوگو ں کو ضرور اعتکاف کا اہتما م کرنا چاہئے، اگر محلے میں سے کسی نے بھی مسجد میں اعتکاف نہیں کیا تو پورے محلے والے سنت کے چھوڑنے والے قرار پائیں گے۔
شب قدر:
رمضان میں ایک رات ایسی ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس کو لیلۃ القدر یا شب قدر کہتے ہیں ، یہ رات عام طور پر اخیر عشرے کی کسی طاق رات میں یعنی اکیس، تئیس، پچیس، ستائیس اور انتیس رمضان میں سے کوئی رات شب قدر ہو سکتی ہے، اس ایک رات میں عبادت کرنے کا ثواب ہزار مہینوں میں عبادت کرنے سے زیادہ ہے، اس لیے خاص طور پر اخیر عشرے میں اس رات کو تلاش کرنا چاہئے اور اس میں ذکر واذکار اور عبادت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے ، غروب آفتاب سے صبح صادق تک اس کا وقت رہتا ہے۔ بڑا ہی خوش قسمت ہے وہ شخص جس کو یہ رات ملی اوراس کو اس نے عبادت کرتے ہوئے گذارا۔
روزے کی حفاظت:
روزے کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو منہیات اور لا یعنی چیزوں سے بچانا چاہئے ، صرف کھانے پینے اور خواہشات نفسانی سے رکنے کا نام ہی روزہ نہیں ہے بلکہ جسم کے ہر ہر عضو کو گناہ سے بچانا اور طاعت الٰہی میں لگانا چاہئے، خاص طور پر مندرجہ ذیل گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں۔
(۱) کسی غلط چیز ، فحش تصاویر اور فحش ویڈیو وغیرہ نہ دیکھیں ، (۲) گانے ، میوزک اور فحش مواد کو سننے سے اپنے کانوں کو بچائیں۔(۳)کوئی گندی اور فحش بات زبان سے نہ نکالیں، جھوٹ نہ بولیں، کسی کو گالی نہ دیں، کس کی چغلی نہ کریں، کسی کی غیبت نہ کریں، کسی پر بہتان نہ لگائیں اور اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکالیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نا پسند ہو ، (۴) کسی کو ناحق نہ ستائیں اور نہ کوئی گناہ کا کام کریں۔(۵)حلال کھانے کا اہتمام کریں ، حرام اور مشتبہ مال اور اشیاء سے بچیں۔
محتاجوں اور ضرورت مندوں کی امداد:
جس طرح رمضان کے مہینے میں فرض نمازوں کے علاوہ نفل نمازوں کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے ، اسی طرح فرض زکواۃ کے علاوہ نفلی صدقات و خیرات کا بھی اہتما م کرنا چاہئے، اس لیے کہ اس مہینے میں نفل عبادتوں کا ثواب عام دنوں کی فرض عبادتوں کے برابر اللہ تعالیٰ عطا کرتے ہیں۔اس لیے ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کی امداد کریں۔
(۱)بے لباسوں کو کپڑے پہنائیں
(۲) بھوکے لوگوں کو کھانا کھلائیں
(۳) یتیموں ، بیواؤں ، مسکینوں اور محتاجوں کی مدد کریں
(۴) روزانہ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ ضرورت مند روزے داروں کو افطار کرانے کا معمول بنائیں ،روزہ داروں کو افطار کرانے کی بڑی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے خواہ ایک کھجور یا ایک گلاس پانی ہی سے روزے دار کو افطار کرا دیا جائے۔
بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ضرورت مند ہوتے ہیں لیکن شرم و حیا کی وجہ سے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے ، ایسے لوگوں کے بار ے میں معلوم کرکے ان کی مدد کرنی چاہئے، قرآن کریم اور احادیث میں ایسے لوگوں کی مدد کرنے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔
زکوۃ:
روزے کی طرح زکواۃ بھی اسلام کا بہت اہم رکن ہے، زکواۃ ہر اس مسلمان مرو و عورت پر فرض ہے ، جس کے پاس ساڑھے ستاسی گرام سونا یا پانچ سو بارہ گرام چاندی یا اس کے بقدر نقد رقم موجود ہواور اس مال پر ایک سال گذر گیا ہو۔یوں تو سال کے گذرتے ہی مال کا حساب لگا کر زکواۃ ادا کرنی چاہئے ، مگر عام طور مسلمانوں کا معمول رمضان میں زکواۃ ادا کرنے کا ہے، کیوں کہ رمضان میں اعمال کا ثواب اللہ تعالیٰ عام دنوں کے مقابلے میں ستر سے سات سو گنا تک بڑھا دیتے ہیں ، اس مہینے میں ایک فرض ادا کرنے کا ثواب کم از کم ستر فرض کے برابر ہے۔ اس لیے رمضان المبارک کے مہینے میں اپنے مال کا حساب لگا کر زکواۃ ادا کرنی چاہئے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان کی صحیح قدر کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہماری نمازوں ،روزے، زکواۃ، صدقات و خیرات اور سبھی اچھے کاموں کو قبول کرے اور گناہ کے کاموں سے بچنے کی توفیق دے آمین!
۱۸؍ ملزمین کو سزاء ،جمعیۃ علماء اپیل داخل کرے گی ۔گلزار احمد اعظمی
ممبئی: ۱۶؍مئی(قندیل نیوز)
دسمبر 2007 میں کیرالا کے واگھمن نامی علاقہ میں اندرون ملک دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے کے مقصد سے ٹر یننگ کیمپ منعقد کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار ۳۵؍ مسلم نوجوانوں کے خلاف قائم مقدمہ کا آج مکمل فیصلہ آگیا جس کے دوران عدالت نے ۱۷؍مسلم ملزمین کو دہشت گردی سمیت غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات سے بری کردیاوہیں ۱۸؍ دیگر ملزمین جن کا تعلق ہندوستان کے مختلف صوبوں سے ہے کو سات سال پانچ سال بالترتیب سزائیں سنائی جس میں سے ایک ملزم کے علاوہ جس نے پانچ سال جیل میں گزارے ہیں بقیہ تمام ملزمین دس سال پورے کرچکے ہیں لہذاان کی جیل سے رہائی ممکن ہے۔
یہ اطلاع آج یہاں ممبئی میں ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی)قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے دی۔
انہوں نے بتایا کہ کیرالا کے ارناکلم نامی مقام پر قائم خصوصی عدالت کے جج ایدوپاکوثر نے ایک جانب جہاں ۱۷؍ مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے باعزت بری کردیا وہیں ۱۸؍ ملزمین کو یو اے پی اے کی دفعات 10-38، دھماکہ خیز مادہ کے قانون کی دفعہ 4 اور تعزیرات ہند کی دفعہ 120B کے تحت قصور وار قراردیا اور انہیں سات سال تک کی سزائیں تجویز کی ۔
انہوں نے مقدمہ کے تعلق سے بتایا کہNIA عدالت کے خصوصی جج ایدوپاکوثر کے روبرو معاملے کی سماعت جاری تھی مقدمہ کے دوران ۷۷؍ سرکاری گوہان استغاثہ اور ۳؍ گواہان دفاع سے جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے ایڈوکیٹ وی وی راگھوناتھ اور ایڈوکیٹ کے پی شریف نے جرح کی تھی، ان تمام35؍ ملزمین کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات 122-153A,124,A,120,B اور غیر قانونی سرگرمیوں کے روک تھام والے قانون کی دفعات 3,5,10,13 نیز آرمس ایکٹ کی دفعات 25,27 کے تحت NIAپولس اسٹیشن دہلی نے مقدمہ قائم کیا تھا اور معاملے کی تحقیقات شروع کی تھی اور ملک کے مختلف شہروں سے ۳۵؍ مسلم نوجوانو ں کو گرفتار کیا تھا اور ان پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ سیمی کے رکن ہیں اور ملک میں دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے کی سازش رچ رہے تھے اور اس کیلے انہوں نے واگھمن میں ایک خفیہ کیمپ کا انعقاد کیا تھا ۔
خصوصی عدالت نے جن ملزمین کو قصور وار قرار دیا ہے ان میں شادولی، حافظ حسن، صفدر ناگوری، شبلی، محمد انصار، عبدالستار، عامل پرویز، محمد سمیع باغیواڑی، ندیم سید، مفتی عبداللہ بشیر، اسعد اللہ، قمرالدین ناگوری، شکیل احمد مالی، مرزا احمد بیگ، دانش، منظر امام، محمد ابو فیصل خان، عالم زیب آفریدی شامل ہیں جبکہ اس مقدمہ سے باعزت بری کیئے گئے ملزمین میں عثمان ،محمد علی محرم علی ،کامران حاجی صاحب صدیقی ،محمد یاسین عبد ل خان ،محمد آصف محمد قادر ، حبیب فلاحی ،محمد ساجد منصوری ،غیاث الدین عبد السلیم انصاری ،زاہد قطب الدین شیخ ،عارف کاغذی، محمد اسماعیل محمد اسحاق ،عمران ابراہیم شیخ ،قیام الدین شرف الدین ،یونس ،جاوید احمد شیخ ،محمد عرفان منصوری ،نذیر پٹیل،شامل ہیں۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ وہ مقامی وکلاء کے مسلسل رابطہ میں ہیں اور جن ملزمین کو سزاء ملی ہے ان کی اپیل کیرالا ہائی کورٹ میں داخل کرنیکے تعلق سے صلاح ومشورہ کیا جارہا ہے کیونکہ ان کا ماننا ہیکہ جس طرح ۱۷؍ مسلم نوجوان باعزت بری کیئے گئے ہیں دیگر ۱۸؍ بھی بے قصور ہیں ۔
نئی دہلی: ۱۶؍مئی (قندیل نیوز)
آج جمعیۃ علماء ہندکے صدر مولانا قاری سید عثمان منصور پوری، جنرل سیکریٹری مولانا سید محمود مدنی اور آسام جمعیۃ علماء کے صدر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پر سنوائی کرتے ہوئے عدالت عظمی نے آسام کے ایسے لاکھوں لوگوں کے لئے راحت کی امید جگا دی ہے جو انتظامیہ کی متعصبانہ اور نا مناسب حرکت کی وجہ سے مشکوک شہری قرار دئیے جانے کی کگار پر تھے۔لوگوں کو اپنے اضلاع سے دور دوسرے اضلا ع میں شہریت کے ویریفیکیشن کے لئے بلائے جانے کے حق میں گوہاٹی ہائی کورٹ اور فورین ٹرییونل کے فیصلہ نے غریبوں کے لئے اور پریشانی پیدا کر دی تھی۔ آج جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء کی ٹیم جس میں سپریم کورٹ کے سینئر اڈووکیٹ وی گری، اڈووکیٹ منصور علی، اڈووکیٹ این ایچ مزار بھیا، اور اڈووکیٹ ابوالقاسم تعلقدار شامل ہیں نے جسٹس روہنگٹن فالی نریمن کی عدالت میں متأثرین کے موقف کو رکھا جس کے بعد عدالت نے گوہاٹی ہائی کورٹ اور فورین ٹریبیونل کے فیصلہ پر اسٹے لگاتے ہوئے مرکزی گورنمنٹ، آسام گورنمنٹ،چیف الیکشن کمیشنر،این آر سی کو آرڈینیٹر،رجسٹرار جنرل آف انڈیا کو ۶ ہفتوں کے اندر اپنا موقف رکھنے کی ہدایت دی ہے جس سے لاکھوں لوگوں کے لئے انصاف کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ در اصل آسام میں سپریم کورٹ کی نگرانی میں نیشنل رجسٹر برائے سیٹیزن(این آر سی) کی تیاری کا کام جاری ہے جس کے لئے مختلف سطح پر ویریفیکیشن کی جارہی ہے مگر ہزراوں کیس ایسے سامنے آ رہے ہیں جس میں لوگوں کو ویریفیکیشن کے نام پر پریشان کیا جا رہاہے جس کے نتیجہ میں ان کا نام این آر سی میں شام نہیں ہو پائے گا اور اس طرح وہ مشکوک شہری قرار پائیں گے۔ اس میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ اگر آسام کے کسی علاقہ کا کوئی باشندہ کسی دوسرے علاقہ میں نوکری، پیشہ، تجارت ، مزدوری یا کسی اور غرض سے کچھ ایام کے لئے رہاتھا،اب وہاں کی انتظامیہ فورین ٹریبیونل کے ذریعہ انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے اس شہر میں حاضر ہونے کا حکم دے رہی ہے جہان وہ کچھ ایام کے لئے رہے تھے جو کئی سو کیلو میٹر دوری کے فاصلہ پر واقع ہے جس سے غریبوں کو پریشانی کا سامنا ہے کیوں کہ ان کے لئے وکیل کی فیس کا انتظام کرنا اور پھر ہر تاریخ پر سفر کرکے وہاں پہنچنا مشکل کام ہے، اور نہ پہونچنے کی صورت میں انہیں مشکوک شہری قرار دیا جا ئے گا اور ان کا نام این آر سی میں شامل نہیں ہو پائے گا، حالانکہ قاعدہ کے اعتبار سے ویریفیکیشن کے لئے ہر شخص کو اس کے ہوم ڈسٹرکٹ کے سینٹ میں ہی بلایا جانا چاہئے۔ جب اس طرح کے ہزاروں کیس سامنے آئے تو جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید عثمان منصور پوری، جنرل سیکریٹری مولانا سید محمود مدنی اور آسام جمعیۃ علماء کے صدر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند صوبہ آسام میں گوہاٹی ہائی کورٹ میں فورین ٹریبیونل کے حکم کے خلاف مقدمہ دائر کیا مگر گوہاٹی ہائی کورٹ نے بھی فورین ٹریبونل کے حکم کو بر قرار رکھا، اس کے بعد پھر جمعیۃ علماء ہندکے ذامہ داران نے ۱۶، اپریل ۲۰۱۸ کو سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کر کے گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کی تھی کہ ویریفیکیشن کے لئے ہوم ڈسٹرکٹ کو ہی حق دیا جائے اور دور دراز اضلاع والے مقدمات کو مقامی اضلاع میں منتقل کرکے متأثرین کو راحت دی جائے ۔ آج اس مقدمہ کی پہلی تاریخ تھی جس میں عدالت عظمی نے گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اسٹے لگا دیا ہے جس کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران نے امید ظاہر کی ہے کہ عدالت عظمی سے متأ ثرین کو انصاف ضرور ملے گا۔واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید عثمان منصور پوری، جنرل سیکریٹری مولانا سید محمود مدنی اور آسام جمعیۃ علماء کے صدر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند صوبہ آسام سپریم کورٹ میں آسام کے لوگوں کی شہریت سے متعلق کئی مقدمات لڑ رہی ہے جس میں این آر سی کی تیاری اور اس میں ہر حقیقی شہری کے نام کی شمولیت سے متعلق مقدمہ جو دو ججوں والی بنچ کی عدالت میں ہے، آسام میں شہریت کی بنیاد ۱۹۷۱ کو بر قرار رکھنے سے متعلق مقدمہ جو پانچ رکنی آئینی بنچ کی عدالت میں ہے اور مذکورہ بالا مقدمہ شامل ہے جو فی الحال ایک رکنی بنچ کی عدالت میں ہے۔
ایم پی مولانااسرارالحق قاسمی نے مہاراشٹرحکومت سے پورے معاملے کی منصفانہ جانچ کامطالبہ کیا
نئی دہلی:(قندیل نیوز)
گزشتہ دنوں مہاراشٹرکے اورنگ آبادمیں رونماہونے والے فسادات میں اس انکشاف نے ملک کے انصاف پسندطبقہ کو سخت تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ فسادات کے دوران مقامی پولیس نے حالات کو قابوکرنے کے بجائے شرپسندعناصرکو شہہ دیااور ان کی سرپرستی کاکام کیا۔معروف عالم دین وممبر پارلیمنٹ مولانااسرارالحق قاسمی نے اس واقعے کو نہایت افسوسناک قراردیتے ہوئے کہاہے کہ جب بھی کسی شہر یا علاقے میں فرقہ وارانہ فساد رونماہوتاہے توایسے میں متاثرین کوانصاف کی امید صرف پولیس سے ہوتی ہے لیکن اگر پولیس بھی فسادپھیلانے والے لوگوں کے شانہ بشانہ مظلوموں کوتباہ کرنے لگے تویہ نہ صرف ملک کے قانون و انصاف کے خلاف ہے بلکہ یہ توانسانیت کے لئے بھی ایک شرمناک بات ہے۔مولاناقاسمی نے کہاکہ اس وقت سینٹر میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے اور مہاراشٹرمیں بھی بی جے پی ہی برسراقتدارہے اور جس طرح ملک کے دوسرے صوبوں میں سنگھ اور بی جے پی سے وابستہ جماعتیں ملک میں امن و امان کی فضاکو خراب کرکے بدامنی پھیلانے کے درپے ہیں اسی طرح مہاراشٹرکے اورنگ آباد کوبھی فرقہ وارانہ انتہاپسندی کے الاؤ میں جھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مولاناقاسمی نے کہاکہ یہ نہایت افسوسناک حقیقت ہے کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے کے ساتھ قائم ہونے والی حکومت میں صرف فرقہ وارانہ فساداور ہندومسلم منافرت کو بڑھاوادینے کی کوشش کی جارہی ہے ،حالاں کہ یہ صورت حال صرف مسلمانوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہے بلکہ اس کا نقصان پورے ملک کوہوگا اور ہندوستان کی شبیہ عالمی سطح پر خراب ہوگی ۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ اس پورے معاملے کی منصفانہ جانچ کی جائے اور جولوگ بھی سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے کے جرم میں ملوث ہیں انہیں قرارواقعی سزادی جائے۔
احمدعطاء اللہ
آپ کے سرخ اشاروں پہ یہ ٹھہرے ہوئے لوگ
عشق کو روگ بنا بیٹھے ہیں سہمے ہوئے لوگ
اپنے در بند ہی رکھو کہ خبر تو ہو گی
کس طرف جائیں گے ہم نیند میں چلتے ہوئے لوگ
پھول کا داخلہ ممنوع کیا ہے گھر میں
کیوں دلاتا ہے مجھے یاد وہ چومے ہوئے لوگ
دور سے گھور تے رہتے ہیں ترے چشموں کو
تیرے ملتان کی لو سے یہ گزرتے ہوئے لوگ
تم کو احساس جو ہوتا ہمیں دل میں رکھتے
یار ! ہم لوگ ہیں جنت سے بھی بھاگے ہوئے لوگ
یہ محبت تو ہمیں فرضِ کفایہ ہوئی ہے
ہم تو اچھے ہیں عطا پیار میں بہکے ہوئے لوگ
زین شمسی
رمضان شروع ہونے سے عین قبل متمول، صاحب ثروت اور تنومند مسلمانوں کی پیروی کرتے ہوئے میں بھی اس امید میں ڈاکٹر کی کلینک کے سامنے قطار بند تھا کہ شاید بلڈ ٹسٹ میں شوگر کا عنصر نکل آئے اور یوں میں اس پاک مہینہ میں فاقہ کشی سے نجات پا جاؤں، ہم جیسے کئی لوگ روزہ تو رکھتے نہیں،گھر میں کھانا نہیں بنتا؛اس لیے روزہ کے نام پر فاقہ کشی تے ہیں،اس فاقہ کشی کو لیگل طریقے سے ختم کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ کوئی جھولا چھاپ پیتھولوجسٹ سے براہ راست یہ کہتے ہوئے کہ بھائی مجھے یقین کی حد تک اس بات کا شک ہے کہ میرا خون میٹھا ہوگیا ہے، تین دن سے دیکھ رہا ہوں چینٹیوں کی قطار میرے بستر کے ارد گرد طواف کرتی ہے اور باہر نکلتا ہوں تو مکھیاں ہمسفر ہوتی ہیں، ذرا خون چیک کر دیجیے؛تاکہ سند رہے کہ میں فاقہ کشوں کی صف میں کیوں شامل نہیں ہوں اور کیوں ٹاٹ لگے ہوٹلوں کے اندر لب مطبخ بریانی کی دیگوں میں منہ چھپائے ہوں ۔
عید میں بچوں کے نئے کپڑوں کی آس لگائے غریب طبی اداروں سے پیتھالوجی کے سند یافتہ پیتھولوجسٹ ایسے مریضوں کی یقین کی حد تک بنے شکوک کا پاس رکھتے ہوئے ان کے من مطابق رپورٹ دے دیتے ہیں کہ ان کی آمد و رفت بنی رہے؛ تاکہ بقرعید میں بھی قربانی کے کام آجائے؛بلکہ وہ اور کئی طرح کے ٹسٹ کا کمبو آفر بھی دیتے ہیں؛ تاکہ آئے ہوئے گاہک سے وافر فائدہ حاصل کر سکیں۔
نمبر آنے کے بعد مکمل اعتماد کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس اپنے بدن کی مٹھاس کا ثبوت لینے بیٹھ گیا،انہوں نے رپورٹ نکالی،میری طرف بڑھاتے ہوئے بولے،زین بھائی مبارک ہو،یہ مبارک رمضان آپ کے لیے بہت کار آمد ثابت ہونے والا ہے۔
میں نے تجاہل عارفانہ کے انداز میں پوچھا”رپورٹ منفی تو نہیں ڈاکٹر صاحب؟ ” ۔
"منفی ! ارے بھائی آپ کو بالکل شوگر نہیں ہے،ہاں کولسٹرال بہت زیادہ ہے، پورے رمضان تراویح پڑھ لیجیے،ان شاءاللہ بالکل فٹ ہو جائیں گے” ۔
"اللہ مجھے خراب نہیں ہونے دے گاکیا، پیتھولجسٹ اور ڈاکٹروں کی صورت میں بھی تبلیغیوں کو بٹھا رکھا ہے”، بے ساختہ میری زبان سے یہ جملہ اچھلا اور سامنے سے آ رہے حاجی حجت کے کان میں گرا ۔
"سب خیریت تو ہے،رپورٹ کیا کہتی ہے؟” رپورٹ تو جو بھی کہتی ہو حاجی صاحب, بس اتنا سمجھ لیجیے کہ جب جب روزہ بخشوانے کی کوشش کیجیے گا، نماز گلے پڑ جائے گی۔
تازہ بہ تازہ، سلسلہ 38
فضیل احمد ناصری
حرم تو جب بھی محمدؑ کا ہم مزاج رہا
گئے جدھر بھی ہمارے ہی سر پہ تاج رہا
گیا فرنگ ہمارے دیار سے کب کا
مگر ہماری طبیعت میں سامراج رہا
یہ قوم خواب کی دنیا سے آ نہیں سکتی
اسی طریق پہ قائم اگر سماج رہا
وہ اپنی قوتِ بازو سے آج حاکم ہیں
ہمارے حصے میں سڑکوں کا احتجاج رہا
ہمیں تو جھوٹی عبادت بھی اب نہیں آتی
سحر سے شام گناہوں کا کام کاج رہا
عزیزو! دولت و منصب پہ یوں نہ اتراؤ
دوام وقت کو کل ہی رہا، نہ آج رہا
بہارِ رفتہ نہ آئے گی پھر گلستاں میں
قنوطیت کا جو ہم میں یہی رواج رہا
پہونچ سکا نہ کبھی اس مقام پر الحاد
جہاں شریعت و حکمت کا امتزاج رہا
ابھی تلک نہ ہوئی کانگریس سے بیزار
بتاؤ ایسی طبیعت کا کیا علاج رہا
راحت علی صدیقی قاسمی
رابطہ: 9557942062
ہندوستان کو آزاد ہوئے عرصئہ دراز گزر چکا ہے، مسلمان باختیار ہیں، انہیں تمام تر سہولیات میسر ہیں ،عزت و شوکت کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوئے ہیں، زندگی کی تمام تر آسائشیں اور آرائشیں ان کی غلام ہیں، اگرچہ ملک کی آب و ہوا میں آلودگی ہے، مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹیں ہیں، مشکلات و پریشانیاں ہیں، اس کے باوجود وہ اپنی کشتی کے کھویا بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس کو کنارے لگا سکتے ہیں، اور موجودہ دور میں اپنا وقار اپنی عزت و آبرو ثابت کر سکتے ہیں، ملک کی خدمات میں اہم ترین کردار ادا کر سکتے ہیں، تعلیمی میدان میں بلند و بالا خدمات انجام دیے سکتے ہیں یہ تمام تر خوبیاں اور صلاحیتیں مسلمانوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں ـ
تقسیم ہند کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو مسلمان پسماندہ تھے ، معاشی تعلیمی اور اقتصادی پستی نے انہیں کمزور کر رکھا تھا ، یقینی طور پر تقسیم ہند نے مسلمانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی حالات ناگفتہ بہ تھے، روٹیوں کے لالے تھے، تکالیف تھیں، مسائلِ و مصائب تھے، جن سے مسلمان نبرد آزما تھے، عرصئہ دراز تک ہندوستانی مسلمانوں پر نزع کی کیفیت طاری رہی، علماء و قائدین امت نے مسلمانوں کو سماجی و سیاسی طور پر مستحکم کرنے کی کوشش کی، ان کی گرتی ہوئی اقدار کو بلند کیا، انہیں چلنے کا حوصلہ عطا کیا، اس کے باوجود مسائل موجود رہے، اور مسلمانوں پر پثمردگی کے اثرات کا احساس آج بھی نظر آتا ہے ، جن کا راجندر سچر نے خلاصہ کیا، اور وضاحت کی مسلمان کہاں پیچھے ہیں؟ کس میدان میں انہیں سخت ترین محنت کی ضرورت ہے؟ کس طرح سے وہ جمہوری ملک میں اپنے وجود کو ثابت کرسکتے ہیں؟کس طرح وہ اپنی کھوئ ہوئ شان و شوکت حاصل کرسکتے ہیں؟ان تمام چیزوں پر سچر کمیٹی نے روشنی ڈالی، اور حکومت کو ایک دستاویز فراہم کیا، جو 400 سے زائد صفحات پر مشتمل تھا، جس کی روشنی میں مسلمانوں کی صورت حالت اور اس صورتحال سے نجات پانے کے نسخے درج کئے گئے ، سفارشات کی گئیں، اور مسلمانوں کی پسامندگی کو ختم کرنے کی پر زور کوشش کی گئی ، ان تحقیقات میں واضح کیا گیا تھا کہ مسلمان دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہیں، سماجی و معاشی نقطئہ نظر سے تعلیمی اور اقتصادی سےاعتبار سے ان کی پسماندگی نمایاں تھی، آبادی میں مسلمان 14 فی صد اور نوکریوں میں انتہائی کم تھے، اس کے بعد سے آج تک مسلمان حکومتوں کے سامنے روتے رہے، اور اپنے ذخموں کے لئے مرحم تلاشتے رہے، اپنے زخموں پر مرحم نا لگانا اور دوسروں سے درخواست کرتے رہنا خام خیالی ہی تھی ،جس میں ہمارے مفکرین پوری طاقت و توانائی کے ساتھ مصروف رہےـ
اس صورت حال میں ملت کو درد مند ہوشمند افراد کی ضرورت تھی، جو ملت کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں، اسے معاشی و تعلیمی اعتبار سے بلندی عطا کریں ، ملت اسلامیہ کو اس کا کھویا ہوا مقام عطا ہوجائےـ
بہت سے افراد نے اس جانب کوشش کی مختلف میدانوں میں اصلاح کی کوششیں کی گئیں، ہندی مسلمانوں کے مقدر کو چمکانے کی کوشش کی گئی ـ
اسی فکر کے تحت زکات فاؤنڈیشن آف انڈیا جو کہ 1997 سے قائم تھا، اس نے غور و فکر کیا، اور محسوس کیا کہ ملت تعلیمی اعتبار سے کہاں پست ہے؟ اور کس طرح سے اس کی پستی کو دور کیا جاسکتا ہے، ان کی فکر کو کنارہ ملا اور انہوں نے جان لیا کہ ملت کے ہونہار طلبہ مقابلہ جاتی امتحانات میں قدم نہیں رکھتے ہیں، ان میں ہنر ہے، مقصد کو حاصل کرنے کا جنون ہے، لیکن ان کے پاس مقصد نہیں ہے،انہوں نے مسلم بچوں کو مقصد عطا کیا، اور اس مقصد کی تکمیل کے ذرائع بھی فراہم کئےـ
جمہوری ممالک میں انتظامیہ سب سے اہم شعبہ ہوتا ہے، حکومتیں بدلتی ہیں، سیاسی رہنما تبدیل ہوتے ہیں، انتظامیہ سے منسلک افراد ملک کے لائحہ عمل بناتے ہیں، اس کی ترقی کے لئے تدابیر کرتے ہیں، حالات پر دسترس حاصل کرتے ہیں، اس مقام تک پونچنے کے لئے محنت ومشقت کی ضرورت ہے، جو علم سے وابستگی رکھنے والا ہر شخص کرسکتا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ روپیوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہر شخص کے پاس نہیں ہوتے ، لہذا زکات فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر ظفر محمود نے سرسید کے نام سے یو پی ایس سی کی کوچنگ کے لئے سینٹر قائم کیاـ
چونکہ یہ ہندوستان کے اہم. ترین امتحانات میں سے ہے، لہذا ظفر صاحب نے اس جانب کوشش کی پورے ملک کے دورے کئے، طلبہ کو اس جانب متوجہ کیا، انہیں سہولیات فراہم کیں، رہنے اور کھانے کا انتظام کیا، عمدہ کوچنگ کا انتظام کیا، بیداری لانے کی کوشش کی، کشمیر، مدھیہ پردیش، بیجاپور، اور مختلف مقامات پر یو پی ایس سی کے تعلق سے تعارفی تقارير کیں، جس کا مثبت اثر ہوا، ملک کے مختلف علاقوں سے طلبہ نے اس پروگرام میں شرکت کی امتحانات دئے، اور زیڈ ایف آئی نے ملت کے چنندہ نوجوانوں کو ملک کی خدمت کے لیے تیار کیا، یوپی ایس سی کا امتحان دلوایاـ
ان کوششوں کے جو نتائج سامنے آئے ، ان سے ہر مسلمان کا سینہ فخر سے چوڑا ہو گیا ہے، گذشتہ 16 سالوں میں زیڈ ایف آئ سے استفادہ کرنے والے 76 طلبہ نے یو پی ایس سی میں کامیابی حاصل کی،اور وہ عظیم عہدوں پر فائز ہو کر ملک و ملت کی خدمت انجام دے رہے ہیں ـ
ڈاکٹر ظفر محمود کی محنت رنگ لائی، اور یہ کارواں آب و تاب کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، وہ قوم جس کے دو چار طلبہ ہی یو پی ایس سی کے امتحان میں کامیابی حاصل کرتے تھے، اور اس اہم امتحان میں مسلمانوں کی کامیابی کا فی صد ڈھائی سے تین فی صد ہوتا ہے، آج اس قوم کی کامیابی کا فیصد پانچ کے قریب ہے ، جس میں زیڈ ایف آئ کا نمایاں کردار ہے، امسال زیڈ ایف آئی کے 26 طلبہ نے یو پی ایس سی کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے، زیڈ ایف آئ کی محنتیں اس سلسلہ میں قابل مبارکباد ہیں، مستقبل میں ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، لیکن ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے، مسلمانوں کے تناسب کے اعتبار سے اس امتحان میں کامیاب شدہ طلبہ کی تعداد 150 ہونی چاہئے، جو ابھی بہت کم ہے، لیکن ظفر محمود کی کوششوں سے امید بندھ گئ ہے کہ ہم اس منزل کو بھی حاصل کریں گے، اور اس بھی زیادہ کامیابی حاصل کریں گےـ
حالات ہی شخصیات کو جنم دیتے ہیں، زیڈ ایف آئی نے بہت سی شخصیات کو حالات کے بھنور سے نکال کر عظیم مقام تک پہونچایا ہے،اس کے لئے زیڈ ایف آئی قابل مبارکباد ہے،قوم کے ایک فرد کی محنت انقلاب برپا کرستکی ہے، تو اگر ہم سب مل کر محنت کریں، جد و جہد کریں، تعلیم کے میدان میں قربانیاں دیں، تو ملت کی کشتی بھنور سے نکل جائے گی، ملک ترقی کریگا، اٹھئیے، آگے بڑھئے، حالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، آپ میں سے بہت سے عالم، انجنئیر، ڈاکٹر پوشیدہ ہیں، بس خود کو پہچاننے اور میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے، وقت تقاضہ کررہے ہیں ، حالات پکار رہے ہیں:
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
شرف الدین عبدالرحمن تیمی
نمایندہ:روزنامہ تاثیر ونیوز اِن خبر
موبائل:7352623849
رمضان کے مبارک مہینے کو کیسے قیمتی بنایا جائے؟ اس میں کون سے اعمال اختیار کیے جائیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر رمضان کی آمد کے ساتھ ہر مسلمان مرد وعورت کے ذہن میں اٹھتا ہے، بہت اہم،انتہائی قیمتی اور اہمیت کا حامل سوال ہے، رمضان کے مہینے کو قیمتی بنانے کے لیے جہاں فرض روزہ اور پانچ وقت کی نماز باجماعت کا اہتمام اور تمام معاصی کا ترک کرنا ضروری ہے، وہیں ایسے اعمال اور اسباب ووسائل کو اختیار کرنا بھی ضروری ہے، جن سے یہ مبارک مہینہ مزیدقیمتی بن جائے، ذیل میں اختصار کے ساتھ ان وسائل واسباب کا تذکرہ کیاجاتاہے،جن کو اختیار کرکے ہر مسلمان اس مہینے کو قیمتی بنا سکتا ہے:
افطار کروانا:
اس مبارک مہینے میں ہر مسلمان حسبِ استطاعت روزہ داروں کو افطار کرواکر دُہرا اجر حاصل کرسکتا ہے، حضرت انس زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس نے کسی روزہ دار کو افطار کروایا، اس کو روزہ دار کے مثل اجر ملے گااور روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی‘‘۔ (ترمذی،نسائی،ابن ماجہ)
خیر کے کاموں میں خرچ کرنا:
خیر کے کاموں میں خرچ کے ذریعے سے جہاں ایک طرف نیکی کے کاموں میں تعاون اور مستحق لوگوں کی امداد ہوتی ہے، وہیں دوسری طرف رمضان میں عام دنوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اجر حاصل ہوتا ہے۔
مکمل یکسوئی:
رمضان کے مبارک مہینے کوقیمتی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم اس مہینے میں گھر کے تمام افراد پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں موجود اسباب معاصی سے اپنے آپ کو دور رکھیں؛ تاکہ یکسو ہوکر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوسکیں، سلف صالحین رحمہم اللہ تو اس مہینے میں قرآن وحدیث کی تعلیم کو موقوف کردیتے تھے؛ تاکہ قرآن کی تلاوت، اس میں غور وفکر اور تدبر، عبادت اور قیام اللیل یعنی تہجد کے لیے مکمل طور سے فارغ ہوجائیں، کیا ہم لوگ ایک مہینے کے لیے اپنے آپ کو میڈیا کے ایمان کش سیلاب سے خود کو دور نہیں رکھ سکتے؟!
دعا کا اہتمام:
ویسے تو رمضان کا لمحہ لمحہ دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے؛لیکن افطار سے پہلے کے چند لمحات بہت ہی قیمتی ہوتے ہیں،یہ دعا کی قبولیت کے یقینی اوقات میں سے ہیں، ان اوقات میں بجائے فضول کاموں میں وقت ضائع کرنے کے ، دعامیں مصروف ہو جائیں، اپنے لیے اور تمام امت مسلمہ کے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا سوال کریں۔
والدین کی اطاعت:
رمضان کو قیمتی بنانے کا ایک بہت ہی اہم وسیلہ والدین کی اطاعت وفرماں برداری ہے، کوشش کریں کہ اس مہینے میں خاص طور سے والدین کے قریب رہیں، ان کی خدمت کریں، ان کی ضروریات کا خیال رکھیں، ان کو ہر طرح کی راحت وسہولت پہنچانے کی فکر کریں۔
مسواک کا اہتمام:
مسواک کا اہتمام کریں، مسواک کرناجیسے پورے سال میں سنت ہے، ایسے ہی رمضان میں سنت ہے؛بلکہ عام دنوں کے مقابلے میں اس کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
رمضان میں عمرہ کرنا:
رمضان میں عمرہ کرنا ایک بہت بڑا عمل ہے، ثواب کے اعتبار سے اس کا اجر ایک حج کے برابر ہے، اس میں بھی لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں؛ اس لیے کوشش کریں کہ ائمۂ مساجد اور علما سے مشاورت کے بعد اس عمل کو انجام دیں۔
دعوت الی اللہ:
اس مہینے میں دعوت الی اللہ کے عمل کو اہتمام و خصوصیت کے ساتھ انجام دیں، لوگوں کو مساجد کی طرف اور اعمال خیر کی طرف متوجہ کریں۔
اہل ثروت کے لیے:
اہل ثروت واصحاب خیر حضرات معتمد علماے کرام کی دینی کتب خاص کر رمضان کے مسائل وفضائل سے متعلق کتابیں خرید کر مسلمانوں میں تقسیم کریں؛ تاکہ معاشرے میں رمضان کے مسائل وفضائل کو معلوم کرنے کی ایک عام فضا قائم ہوجائے۔
تلاوت قرآن کریم:
قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کریں؛ لیکن کوشش کریں کہ قرآن کریم کو صحیح اور درست پڑھیں، تلفظ اور ادائیگی میں فحش غلطیوں سے اجتناب کریں، اگر پہلے سے پڑھا ہوا نہیں ہو، تو اس بات کی کوشش کریں کہ اس مہینے میں قرآن پاک کے حوالے سے اتنی محنت کریں کہ قرآن صحیح پڑھنا آجائے۔
ما تحتوں کی فکر:
اپنی اولاد، بہن بھائیوں اور اپنے ما تحتوں کی فکر کریں کہ وہ بھی اس مہینے کو قیمتی بنائیں، خدانخواستہ ان کے اوقات کسی غلط اور لغو کام میں صرف نہ ہوجائیں، پیار، محبت،ترغیب اور بقدر ضرورت ترہیب کے ساتھ ان کو اعمال خیر کی طرف متوجہ کریں۔
نماز پنج گانہ باجماعت کا اہتمام:
نماز پنج گانہ باجماعت ادا کرنے کی کوشش کریں، عام طور سے مغرب میں افطار کی وجہ سے اور فجر میں نیند کے غلبہ کی وجہ سے جماعت کی نماز سے غفلت برتی جاتی ہے، یہ بہت بڑی محرومی کی بات ہے، تھوڑی سی ہمت کرکے ہم خود بھی اور ترغیب کے ذریعے دوسروں کو بھی اس غفلت سے بچا سکتے ہیں، فرائض باجماعت ادا کرنے کے اہتمام کے علاوہ سنن اور نوافل کا بھی خاص اہتمام کریں، اشراق، چاشت، اوابین اور تہجد کے علاوہ بھی کچھ وقت نوافل کے لیے مخصوص کردیں؛کیوں کہ رمضان میں نفل کا ثواب فرائض کے بقدر کردیا جاتا ہے۔
وقتِ سحر اعمال کا اہتمام:
سحری کا وقت بہت ہی قیمتی وقت ہوتا ہے، اس وقت اللہ کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے، ایک تو سحری کھانے کا اہتمام ہو، اس کے علاوہ کچھ وقت بچا کر اذکار، وظائف اور استغفار میں لگائیں، اس وقت استغفار کرنا متقیوں اور اہل جنت کی صفات میں سے ہے۔
خواتین کے لیے:
خواتین رمضان کی مبارک گھڑیوں کو صرف کھانے پکانے میں صرف نہ کریں، اس میں کوئی شک نہیں کہ افطاری وسحری تیار کرنا باعث اجر وثواب ہے؛ لیکن بقدرِ ضرورت وقت اس میں صرف کریں اور اس کے علاوہ اوقات کو اعمالِ صالحہ میں صرف کریں۔
بازاروں میں فضول گھومنے پھرنے سے اجتناب:
رمضان میں بہت ساری خواتین وحضرات بازاروں میں گھوم پھر کر کپڑوں، جوتوں اوردیگر اشیا کی خریداری کے عنوان سے اپنے قیمتی اوقات ضائع کر د یتے ہیں، اعمالِ صالحہ سے محروم ہوجاتے ہیں، رمضان سے متعلق جتنی ضروریات ہیں، وہ اس مہینے کے شروع ہونے سے پہلے ہی خرید لیں اور باقی اگر رمضان میں کوئی ضرورت ہو، تو بقدرِ ضرورت چیزیں خرید کر فورا گھر لوٹ آئیں، بازاروں اور شاپنگ مالوں میں فضول گھوم پھر کر اپنا قیمتی وقت ضائع اور بربادمت کریں۔
یہ چند امور رمضان کے مہینے کو قیمتی بنانے کے حوالے سے قابل توجہ ہیں، ان کے علاوہ بھی ائمۂ مساجد اور مستند علما سے پوچھ کر اپنا رمضان قیمتی بناسکتے ہیں، اللہ تعالی سب مسلمانوں کو اس مبارک ماہ کی قدر نصیب فرمائے۔(آمین)
ام ہشام
ٹیوشن ایک ایسی پبلک سروس ہے ،جسے آج ہر خاص وعام مجبوراً یا شوقیہ لینے پر مجبور ہے،ٹیوشن کلاسز کامعاملہ یہ ہے کہ اسکول میں چھ گھنٹے پڑھائی کے بعد بھی مزید دو چار گھنٹے بچے کوپڑھائی کرنی ہوتی ہے،تب کہیں جاکر بچہ سبق کو سمجھ پاتاہے،بچے پڑھائی میں خواہ کتنے بھی اچھے ہوں ،بغیر ٹیوشن کلاسز کے ان کی کارکردگی ناقص سمجھی جاتی ہے؛ اس لیے مزید بہتری کے لیے بچے کا اسکول کے ساتھ ٹیوشن جانا لازمی تسلیم کرلیا گیاہے،اس کی ضرورت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک تین سالہ بچے کے لیے جب والدین نرسری اسکول کا فارم بھرتے ہیں، تو ساتھ ہی اس کے لیے ایک عدد ٹیوشن بھی تلاش کرتے ہیں؛ تاکہ بچہ شروع سے اپنی پڑھائی کے لیے چاق و چوبند اور محنتی بنے اور پھرکاپی،کتاب اور بستوں کے بوجھ کے ساتھ تعلیمی دن کے روزِ اول سے ہی معصوم بچہ اسکول اور ٹیوشن کے میدانِ کارزار میں ناقابلِ فہم زبانوں کا بوجھ اٹھائے لہولہان ہوتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ تعلیم مکمل کرکے اس کے ’’کچھ‘‘بن جانے تک جاری رہتا ہے،ٹیوشن پڑھنا آج علم حاصل کرنے والوں کی ناگزیر ضرورت بن گیا ہے؛ لیکن اضافی بوجھ کے بطور ایک جبرِ مسلسل کی طرح یہ بچوں اور جوانوں پر مسلط کردیا گیا ہے ،جسے سہتے سہتے طلبہ اس کے عادی بن گئے ہیں؛لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ٹیوشن جیسا بارِگراں وجود میں آیا کیسے؟کیا صرف یہ ایک سوچ تھی ،جس پر بہت سے دل ودماغ متفق ہوگئے،راضی خوشی اتفاق کرلیا یا ہمارے تعلیمی اداروں کی کمی و کوتاہی کی انتہانے تعلیمی سطح پر ٹیوشن جیسی دوسری انتہاکو جنم دیا؟ہمارا خیال یہ ہے کہ دونوں محرکات اپنی جگہ درست ہیں،ٹیوشن ایک سوچ تھی، جو کمزور اور غبی بچوں کے لیے وجود میں آئی تھی ؛لیکن پرائیویٹ اسکولوں نے اس سوچ کو اپنے مادی فائدے کے لیے طلبہ کے ذہن میں اس قدر راسخ کردیا کہ اس سوچ نے آہستہ آہستہ طلبہ کی نصابی اور غیر نصابی تمام صحت مند سرگرمیوں کو نگل لیا،اساتذہ کی مخلصانہ جانفشانی اور محنت ومشقت کو بھی گھن لگادیا،پیسے، وقت اور محنت کا ضیاع ہی ضیاع ہے ،مگر پھر بھی وہ تسلی بخش نتائج حاصل نہیں ہوپارہے، جن کی توقع زمینی سطح پرٹیوشن کی خدمات سے کی گئی تھی،بچے ٹیوشن کی بدولت آج کامیاب تو ہوجارہے ہیں ؛لیکن ان کے اندر حقیقی قابلیت ندارد ہے،تعلیمی روح عنقاہے،وہ شاندار امتیازی نمبروں سے کامیاب تو ہوجارہے ہیں؛ لیکن اپنے نصاب کا ایک فیصد مواد بھی ان کے حافظے میں باقی نہیں رہ پاتا؛کیونکہ کلاسز کا مقصدمحض رٹ رٹاکر نمبر کھینچنا تھا،جو رزلٹ آتے ہی پورا بھی ہوجاتا ہے ؛لیکن ان سب کے بیچ نقصان تعلیم کے اصل مقصد کا ہوتا ہے، نمبرات کے ڈھیر میں بچے کی صلاحیت،اس کی تعلیمی زرخیزی، محنت کا جذبہ اور حوصلہ ٹیوشن کلاسز کی گدھا مزدوری میں بنجر ہوکر رہ جاتی ہے،ایسی ناقص کامیابیوں کا خمیازہ پھر ہمارا معاشرہ بھگتتا ہے،ناقص تعلیم وتربیت کے سانچے پر ڈھلے بے شمار کاہل، کرپٹ اور غیر ذمہ دار قسم کے افراد کی ایک کھیپ تیار ملتی ہے،تعلیمی ڈھانچے کی کمزوری کے سبب پھر ضمیر فروش ڈاکٹر، انجینئر، وکیل،سرکاری ایڈمنسٹر و ڈائریکٹر،سیاستداں یا کبھی ٹیچر بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں اور معاشرے کی سماجی اور معاشی اقدار کو کھوکھلا کرتے ہیں:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا ،جنوں کا خرد!
آج کے اس مسابقاتی دور میں ٹیوشن نہ پڑھنے والے بچے کو قابل اور محنت کش سمجھنے کی بجاے غریب تسلیم کرلیا جاتا ہے؛ کیونکہ آج اسکول کے بہتر ہونے کا معیار کامیاب ہونے والے طلبہ کی تعداد کی بجاے اسکول کی لمبی چوڑی فیس کو سمجھا جارہا ہے؛ لہذا جو بچہ اسکول کے ساتھ کلاسز کی لمبی چوڑی فیس بآسانی افورڈ کرسکتا ہو، وہی دراصل مقدر کا سکندر کہلاتا ہے،سچ تو یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں ٹیوشن کلاسز کے دھندے کی آبیاری میں ہمارے اسکولوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے،ٹیوشن کے پھلتے پھولتے کاروبار کے پیچھے کون سے اسباب و عوامل کارفرما ہیں آئیے ان کا ایک جائزہ لیتے ہیں:
(۱) ایک جماعت میں بچوں کی ضرورت سے زیادہ بھیڑ، ان کی عدمِ نگہبانی و تربیت کی وجہ سے سو میں سے ستر بچے دورانِ جماعت پڑھائی گئی چیزوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں،بھیڑ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ معلم ہر ایک بچے پرانفرادی دھیان نہیں دے پاتا، جس کی وجہ سے بچے اسکول کے بعد پرسنل ٹیوشن یا کلاسز کا رخ کرتے ہیں۔
(۲) اساتذہ کی اپنی کوتاہی اور عدمِ دلچسپی کی وجہ سے بھی بچے درسی اسباق کو سمجھ نہیں پاتے ،جبکہ بات ایسی نہیں ہے کہ اب اساتذہ قابل نہیں رہے ؛ لیکن ایک پوری زنجیر ہے ،جس کی کڑی کڑی اس تعلیمی نظام کے بگاڑ کا شکار ہے ؛اس لیے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ کمزور کڑی کون سی ہے،اساتذہ پر ادارے کی جانب سے پورشن(نصاب) ختم کرنے کا دباؤ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اساتذہ اسباق کو برق رفتاری سے پڑھانا شروع کرتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سبھی بچوں کی ذہنی استعداد ایک جیسی نہ ہونے کے سبب پھر وہ ٹیوشن کا رخ کرکے اس کمی کو پورا کرتے ہیں، ورنہ غور کرنے والی بات ہے کہ بچہ اسکول میں چھ گھنٹہ گزارتا ہے، جبکہ ٹیوشن میں صرف دو گھنٹہ، تو وہ کون سی طلسماتی گولی ہے ،جو ٹیوشن والے کھلاتے ہیں اور اسکول والے اس سے محروم ہیں۔
(۳) یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بچوں کو ٹیوشن کی ضرورت کن مضامین میں پڑتی ہے ،زیادہ تر یہ وہی مضامین(سبجکیٹس) ہوتے ہیں جو ہماری مادری زبان میں نہیں ہوتے اور جب پورا میڈیم ہی غیر مادری ہو، تب تو معاملے کی سنگینی کااندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے،بچوں کو نفسِ مضمون سمجھ نہیں آتا، جس کی وجہ سے وہ پریشان ہوکر کوچنگ کلاسز کا رخ کرتے ہیں۔
(۴) آج جس طرح دوسری چیزوں کی قدریں انسانی معاشرے میں گھٹ گئی ہیں ،ویسے ہی درس وتدریس اور تعلیم وتعلم کے اندربھی شدید قسم کا بحران آیا ہوا ہے،بچے اپنی عقل، توانائی، وقت کا دس فیصد بھی استعمال نہیں کرتے،جس کی وجہ سے وہ دورانِ کلاس اس جذبے سے مفقود ہوتے ہیں، جو ایک طالب علم کے اندر درسگاہ میں ہونا چاہیے، نوے فیصد بچے اسکول میں صرف اس لیے غائب دماغی سے حاضر ہوتے ہیں کہ وہ اسکول کی چھ گھنٹہ کی پڑھائی کو ٹیوشن کی گھنٹہ دو گھنٹہ کلاس میں سیکھ لیں گے۔
(۵) اکثر والدین ناخواندہ ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی جب ایسے والدین اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرواتے ہیں، تب انھیں ایک عدد ٹیچر کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کے بچے کی سیلف اسٹڈی کی ضرورت کو پوراکرسکے اور گھر پر بھی ان کے بچے کو انگریزی کی خوراک مل سکے؛ لیکن ٹھہریے! بات یہیں ختم نہیں ہوتی، آج کل اسکول، بچے اور والدین کے بیچ جو گھمسان کا رن ہے ،وہ ہے’’نمبرکا وار ’’ (NUMBER WAR ) کیا ناخواندہ /کیا تعلیم یافتہ، کیا غریب کیا امیر، متوسط طبقہ ہو یااشراف کا طبقہ؛ سبھی زیادہ نمبرات اور پوزیشن کے لیے ٹیوشن کی طرف ہی دوڑ لگاتے ہیں، ہر قیمت پر بچے کی پوزیشن لانے کی ایک خطرناک دوڑ لگی ہوئی ہے۔
فوائد و نقصانات:
بظاہر اس کے چند ایک فائدے ہیں ؛لیکن نقصانات زیادہ ہیں:
(۱) اس کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ اگر آپ پڑھے لکھے نہیں ہیں، تو ایک اچھا ٹیوٹرآپ کے بچوں کی تعلیم وتربیت میں آپ کی مدد کرسکتاہے،اگر آپ کسی سبجیکٹ میں کمزور ہیں ،تو ٹیوشن جاکر اس کمی کو پورا کرسکتے ہیں۔
(۲) چھوٹے ٹیوشن کے مقابلے میں بڑے کلاسز یا ٹیوشن سینٹرز میں سند یافتہ،قابل و ماہر اساتذہ کا تعین کیا جاتا ہے، جو اپنے علمی تجربات سے بچوں کو فیض یاب کرتے ہیں، ماہرینِ تعلیم کے ذریعے تیار شدہ نوٹس بچوں میں فراہم کیے جاتے ہیں ،جو بچوں کی نصابی سرگرمی میں معاون ہوتی ہے۔
(۳) فیلو اسٹوڈنٹ:مختلف جگہوں کے مختلف طلبہ کااجتماع اور ملاپ، جس سے بچوں کے اندر ایک تعلیمی بیداری برقرار رہتی ہے ،گاہے بگاہے پتہ چلتا رہتا ہے کہ کس مضمون کے متعلق کون سی نئی تحقیقات اور نئی ریسرچ دستیاب ہورہی ہیں۔
(۴) ٹیوشن کلاسز آپ کے یاد کرنے کی اسپرٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتے ہیں اور آپ کے یاد کرنے کی صلاحیت کو ابھار یا بڑھاسکتے ہیں،اس کے علاوہ مجھے اور کوئی خوبی نظر نہیں آتی، جبکہ ان گنت نقصانات ہیں جن کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔
جب سے ٹیوشن سسٹم کا آغاز ہو اہے، تب سے اساتذہ نے جماعت میں خلوصِ دل سے پڑھانا چھوڑدیا ہے؛ کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ جو باتیں وہ نہیں سمجھا پارہے ،ان باتوں کو کلاسز والے ان بچوں کو رٹادیں گے اور پھر یہی بچے سو میں سے سو لائیں گے، اس طرح بغیر کسی محنت کے اساتذہ اور اسکولوں کا نام بڑے بڑے ہورڈنگ بورڈ پر سج جاتا ہے۔
ٹیوشن پر منحصر ہونے کی وجہ سے بچے سست اورکاہل بن چکے ہیں، اس انحصار کی وجہ سے کلاس میں ان کا دھیان کم ہوتا ہے یا بالکل ہی غائب ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم سے خاطر خواہ انصاف نہیں کرپاتے، ایسے بچے رٹ رٹا کر کسی طرح پاس تو ہوجاتے ہیں یا پھر ننانوے فیصد سے کامیاب تو ہوجاتے ہیں؛ لیکن تعلیمی روح پر اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے۔
ٹیوشن کلاسز نے طالب علموں کے لیے جس بڑے سنگین اور مہلک عمل کو جنم دیا ہے، وہ ہے’’رٹا سسٹم‘‘،انگریزی زبان کی کتابیں اور ان کے مشکل اسباق کی مہم کو سر کرنے کے لیے ہی ان کوچنگ کلاسز نے جنم لیا ہے،آپ بغور اپنے آس پاس کا مشاہدہ کریں، تو آپ پائیں گے کہ اردو میڈیم یا عربی میڈیم (مدارس)کے طلبہ میں ٹیوشن کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے،جبکہ اس کے برعکس انگلش میڈیم بچوں کے لیے نرسری سے لے کر گریجویشن تک ٹیوشن لازمی ہے، چونکہ ایسے طلبہ کو نفسِ مضمون کا فہم حاصل نہیں ہوپاتا ؛اس لیے انھیں رٹا لگانا پڑتا ہے اور ظاہر ہے جس عبارت کے الفاظ،فقرے اور ان میں چھپے ہوئے تصورات سمجھ نہ آئیں، تو انھیں ذہن نشیں کرنے کے لیے طالب علم کو رٹے کے عذاب سے گزرنا ہی پڑے گا، جبکہ رٹّا طالب علم کے اندر تعلیم اور اس کے اصل جوہر’’جہدِ مسلسل‘‘سے بیزاری پیدا کرتا ہے؛کیونکہ رٹّا لگاتے ہوئے انسان کے اعصاب تناؤکا شکار ہوجاتے ہیں ،مسلسل ذہنی تناؤ رٹے بازکو جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور کردیتاہے،دراصل رٹّے بازی اور ٹیوشن بزنس ہمارے فطرت گریز نظام تعلیم کی دین ہے، جس طرح کوئی شخص اگر غیر فطری طریقوں سے زندگی گزارے ،تو بیمار پڑجاتاہے، بالکل اسی طرح ہمارے غیر متوازن،غیر ہموار اور غیر فطری نظامِ تعلیم کے حاصلات میں سب سے بڑا حاصل رٹا اور ٹیوشن سسٹم ہے ،جس نے نظامِ تعلیم سے علوم وفنون کا حقیقی اور مطلوب فہم سلب کررکھا ہے،اس ٹیوشن سسٹم نے جو سب سے بڑا نقصان کیا ہے ،وہ یہ کہ بچوں سے ان کابچپن چھین لیا،بچے اب کھیلنا بھول گئے ہیں ؛کیونکہ کھیل کی جگہ اب ٹیوشن اور برقی کھلونوں نے لے رکھی ہے، آج کھیل اور تفریح کے نام پر بچوں کے پاس الیکٹرانک گیجٹس کی ایک پوری دنیا آباد ہے؛ لیکن کھیلنے کو ایک بھی بچپن کا ساتھی نہیں،ایک مشہور مقولہ ہے کہ جس شہر کے کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں، اس کے اسپتال ویران ہوتے ہیں، بچوں کو چھوٹی عمر میں نت نئی بیماریوں کا لگ جانا،قوتِ مدافعت میں کمی،کمزور حافظہ کی ایک بڑی وجہ کھیل کود میں حصہ نہ لیناہی ہے، بچے فون،لیپ ٹاپ اور ٹی وی اسکرین سے چپک سے گئے ہیں اورطرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس نشے سے نجات دلانے کے لیے اب بڑے اونچے داموں پر الگ سے کورسز چلائے جارہے ہیں، اپلیکیشنز بنائے جارہے،عملہ تیار کیا جارہا ہے ،جو ان بچوں سے انٹرنیٹ کی لت چھڑاسکے،ٹیوشن کا ایک اور سب سے بڑا
نقصان ہے ،جو والدین کی جیب پر بارِ گراں کی صورت میں پڑتا ہے،غریب آدمی کواپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے اپنے پیٹ میں گرہ دینی پڑتی ہے وہ اپنی روز مرہ کی ضروریات کو ٹیوشن کلاسز کے اخراجات پر قربان کردیتا ہے،میں کئی ایسے لوگوں کو جانتی ہوں، جو سماج کے محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا معمولی حیثیت کے مالک ہیں؛ لیکن بچوں کے مہنگے اسکول کے ساتھ ان کی کلاسز کی فیس لاکھوں میں ادا کرتے ہیں،جتنا پیسہ آپ کے اہل وعیال کی ماہانہ خوراک میں نہیں جاتا ،اس سے دگنی،چار گنی رقم ایک مڈل کلاس آدمی اپنے بچے کی ٹیوشن فیس بھرنے میں ادا کردیتا ہے،زبردست لمحہ فکریہ اور چیلنج ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں ،جن کی بنا پر والدین،سرپرست اس حد تک مجبور ہیں کہ وہ ہرحال میں‘‘سوکھی روٹی کھائیں گے ؛لیکن بچوں کو ٹیوشن پڑھائیں گے‘‘پر عمل پیرا ہیں،ایک بچہ اساتذہ کے چھ گھنٹہ پڑھانے کے باوجودبھی اپنے علمی شب وروز میں تشنہ طلب رہ جاتا ہے؛ جبکہ درسگاہیں ان عظیم مقامات میں سے ہیں، جنھوں نے تو بے سرو ساماں،تنگ داماں ہوکر بھی دنیا کو مالا مال کیا ہے، وسیع ترین دنیا میں کوہسار جیسی شخصیات کو اپنے آغوش میں پالا ہے،دنیا کے تمام تر علوم وفنون کے چشمے یہیں سے پھوٹے ،پھر وہ کونسی وجوہات ہیں، جن کی بنا پر بغیر ٹیوشن لیے ہوئے کامیابی کا تصور محال سمجھا جارہا ہے،ذہانت،محنت،ہمت وحوصلہ اب کسی اور دنیا کے باسی ہوگئے کیا؟یہ سوال ہمارے سامنے ہے کہ اب بھی ہمارے بچے بغیر ٹیوشن کے اپنے تعلیمی سفر کو کامیابی کے ساتھ آگے کیوں نہیں لے جاسکتے؟امتحان میں مقصد صرف پاس ہونا ہو یا پھر امتیازی نمبرات کا حصول، معاملہ کسی پروفیشنل کورس کی کلاسز کا ہو یامقابلہ جاتی امتحان کا ؛ہر کامیابی تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ٹیوشن کیوں قرار پاتا ہے؟جبکہ اگر سچائی کی تلاش کی جائے، تو ہمارے ہاتھ کچھ ایسی حقیقتیں آتی ہیں ،جو ہمیں افسوس اور ملال کا آئینہ دکھاجاتی ہیں، نچلے طبقے کے ٹیوشن کلاسز سے لے کر (ماہانہ /100) ہائی کلاس کے (ماہانہ 5،7 ہزار)تک کے کلاسز سبھی کا ایک جیسا حال ہے،بلند بانگ دعوے ہیں ،جو ائیر کنڈیشنڈ کمروں اور فرنیشڈ کلاس روم کے بل پر کیے جاتے ہیں؛ لیکن تعلیم کا معیار اور اس کا پورا حق دراصل انہی کے ہاتھوں مسخ کیا جارہا ہے، تعلیم کے رکھوالے ہی جب اس کی ساکھ بیچنے پر اتر جائیں ،تو پھر کوئی معمولی نہیں ؛بلکہ ایک ناقابلِ فراموش تاریخی نقصان جنم لیتا ہے،چھوٹے چھوٹے گلی محلوں کا جائزہ لیا جائے، تو حالات مزید خراب دکھائی پڑتے ہیں،ہر ایک دوسرا گھر آج ٹیوشن کھول کر بیٹھا ہوا ہے،آٹھویں نویں جماعت پڑھے ہوئے بچے ایک اچھی رقم لے کر اپنے سے ایک کلاس پیچھے کے بچوں کو ٹیوشن دے رہے ہیں، مشاہدہ تو یہ ہے کہ جوں ہی کوئی فیل ہوتا ہے، تو وہ ٹیوشن کے بزنس پر لگ جاتا ہے،راقم الحروف نے اپنی نظروں سے ان لوگوں کو لٹریچر پڑھاتے ہوئے دیکھا ہے، جن کا اپنا املا اورنقل تک درست نہیں،پیسے کمانے کا سب سے آسان اور سستا ذریعہ ہے کہ اپنی خود کی تعلیم بھلے ہی ادھوری چھوڑدو؛ لیکن گھریلو ٹیوشن یا سینٹر کی مدد سے پیسے کمانا شروع کردو۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ٹیوشن خواہ مڈل کلاس کا ہو یا اپر کلاس کے کلاسز سسٹم؛ سب کا واحد مقصد پیسے کمانا، وہ بھی ہر حال میں اور اسی مقصد کے تحت اسکول سے لے کر اساتذہ،ٹیوشن ٹیچر اور کلاسز سینٹر سبھی برابر کے ملوث ہیں،گھاٹے کا سودا فقط طلبہ اور والدین کے حصے آتا ہے،یہاں والدین اور سرپرستوں سے میری مخلصانہ درخواست ہے کہ اگرآپ مندرجہ بالا فوائد ونقصانات کو ذہن نشیں رکھتے ہیں اور پھر اگر ٹیوشن سینٹر کا انتخاب کرتے ہیں ،تو یہ ضرور یاد رکھیں ٹیوشن کلاسز طلبہ کے لیے ان کانصب العین نہیں ہیں؛ بلکہ ان کے مقصد تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہیں، اس لیے طلبہ اور والدین کو اس گرداب سے باہر نکل کر اصل راستے کی طرف دھیان دینا ہوگا، جوعلمی شاہراہ میں محنت ومشقت اور عرق ریزی کی کٹھن راہ ہے، والدین بھی اپنی غیر ضروری مصروفیات کوترک کرکے کچھ دھیان بچوں کی تعلیم کی جانب دیں، تو بھی شایدایک بہت بڑی کمی کی بھرپائی ممکن ہوسکے گی اور والدین کی جانب سے بچوں کی تعلیم وتربیت میں یہ ایک بڑا حصہ ہوگااورعزیز طلبہ اگر آپ سو فیصد کی کامیابی چاہتے ہیں، تو خود پڑھیے، آپ کی سیلف اسٹڈی آپ کی کامیابی کی سو فیصد ضمانت دے سکتی ہے، جو ٹیوشن یا کوچنگ سے کبھی ممکن نہ ہوگا، اگر آپ کا مکمل انحصار کلاسز پر ہے، تو آپ کی کامیابی کے صرف تیس فیصد امکانات ہوتے ہیں ،جبکہ سیلف اسٹڈی میں ستر سے سو فیصد تک مکمل کامیابی کی ضمانت یقینی ہے؛اس لیے عقلمند بنیں، وقت اور پیسوں کی قدر کرتے ہوئے کلاسز کے تھکادینے والے رٹّا سسٹم سے بچیں اور سیلف اسٹڈی کے ذریعے اپنے مستقبل کو سنہری بنائیں ؛کیونکہ:
ہے جہدِ مسلسل کی جزا رفعتِ افلاک
عاصم طاہر اعظمی
ماہ رمضان المبارک کا آغاز در حقیقت مسلمانوں کے لئے موسم بہارکی آمد ہے، اس مبارک مہینے کا آغاز مسلمانوں کی عید ہے جس پر انہیں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرنا چاہئے اور اس مہینے کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے کی سفارش کرنا چاہئے، یہ ضیافت الہی کا مہینہ ہے، اس مہینے میں مومنین اور وہی افراد ضیافت پروردگار کے دسترخوان پر بیٹھنے کا شرف حاصل کر پاتے ہیں جو اس مہمانی کے قابل ہوتے ہیں،
اللہ کی رحمتوں’برکتوں’ اور نعمتوں والا مہینہ آنے والا ہے بس چند دنوں میں ہی آنے والا ہے،اور گنتی کے چند دنوں کے لیے ہی آنے والا ہے، ہمارے رب نے کتنے پیار سے فرمایا ہے :’ أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ‘گنتی کے چند دن ہی تو ہیں، بے شک گنتی کے چند دن ہی تو ہیں:اللہ تعالٰی کا قرب اور خوشنودی حاصل کرنےکیلئے ‘اللہ تعالٰی کی رحمتوں و برکتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ‘اللہ تعالٰی سے دعائیں مانگنے اور مغفرت طلب کرنے کے لیے جہنم سے نجات پانے کے لیے ‘جنت کے وارث بننے کے لیے اورہزار مہینوں کی عبادات اپنے نامۂ اعمال میں لکھوانے کے لیے، لہذا ہر مسلمان ‘ چاہے کسی کا ایمان قوی ہو یا ضعیف‘ اس مبارک دنوں میں روزہ رکھتا ہے، روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو صرف بندہ اور رب کے درمیان ہے،
اگر کوئی چھپ کر کھا لے اورکسی کو نا بتائے تو لوگ اسے روزہ دار ہی سمجھیں گے، لیکن کوئی نہایت ہی کمزور ایمان کا مومن بندہ بھی ایسا نہیں کرتا کیوں کہ وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس نے روزہ صرف اللہ کے لیے رکھا ہے اور اللہ اسے دیکھ رہا ہے اسی طرح دستر خوان پر افطار کے انتظار میں بیٹھے کسی نہایت ہی کم ایمان والے بندے سے اگر کہا جائے کہ بھائی پندرہ سولہ گھنٹوں کے روزہ رکھ چکے ہو ‘ صرف دو تین منٹ پہلے افطار کرنے میں کیا حرج ہے، تو وہ جواب دے گا کہ: ” یہ اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد افطار کی جائے ورنہ روزہ نہیں ہوگا روزہ ٹوٹ جائے گا اور میں اس حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا‘‘
روزہ رکھنے کے بعد نہایت ہی کمزور ایمان والے بندے کا ایمان بھی اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح روز ے کی حالت میں چھپ کر کھانا یا دو تین منٹ پہلے روزہ افطار کرنا گوارا نہیں کرسکتا اورروزے کے معاملے میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرتاـ
تو آئیے ہم سب خود سے سوال کریں کہ:’’روزہ کے علاوہ دیگر معاملے میں اللہ کی نافرمانی کرنے میں ہم کیوں دلیر ہو جاتےہیں؟
‘‘روزہ کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حکم دیا ہے اسے تو ہم من و عن مانتے ہیں ‘ ایک منٹ کی نا فرمانی کرکے سورج غروب ہونے سے پہلے روزہ افطار نہیں کرتے یا چھپ کر کچھ کھا کر اللہ کی نا فرمانی نہیں کرتے، جبکہ روزہ کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے کچھ احکامات بطور فرض عائد کئے ہیں اور ہم مسلمان ایسے کتنے ہی فرائض میں نافرمانی کرنے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں کرتے، روزہ کو تو ہم سب احکام الٰہی مانتے ہیں لیکن۔۔۔۔۔کیا حرام سے اجتناب کرنا اور رزق حلال کمانا احکام الٰہی نہیں ہے؟۔۔۔۔۔ کیا مردوں کے لیے پانچ وقت کی نماز با جماعت احکام الٰہی نہیں ہے ؟۔۔۔۔۔ کیا صحیح نصاب کے مطابق زکوٰۃ ادا کرنا احکام الٰہی نہیں ہے ؟۔۔۔۔۔ کیا صاحب استطاعت پرحج کرنا احکام الٰہی نہیں ؟۔۔۔۔۔ کیا صلہ رحمی احکام الٰہی نہیں ہے ؟۔۔۔۔۔ کیا والدین کے ساتھ محبت و احترام سے پیش آنااحکام الٰہی نہیں ہے ؟
اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے احکام الٰہی ہیں جن کو ہمارے اوپر فرض کیا گیا ہے لیکن افسوس کہ ہم لوگ اسے ترک کردیتے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتاـ
اللہ جل مجدہ ہمیں رمضان المبارک کے مہینے کے ساتھ ساتھ ان تمام احکام الہیہ کو جو ہمارے اوپر فرض کیے گئے ہیں ان تمام کو مکمل طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین
وی آئی پی علاقہ میں سڑک پر بہہ رہاہے پانی
دو ماہ قبل کرائی گئی نالے کی کھدائی پر آج تک شروع نہیں کرایاگیاتعمیری کام
دیوبند:15؍ مئی(سمیر چودھری؍قندیل نیوز)
نگر پالیکا پریشد دیوبند کی لاپرواہی کے سبب وی آئی پی علاقہ کہے جانے والے مدنی روڈ پر نالیوں کاگندہ پانی سڑکوں پر بھرا رہتاہے، اتنا ہی نہیں یہاں میونسپلٹی نے ایک نالے کی کھدائی تقریباً دو ماہ پہلے کرائی تھی، جس کی تعمیر آج تک نہیں کرائی گئی،جس کی وجہ سے شہر اور باہر سے آنے والے مہمانوں کو سخت پریشانی کاسامنا کرناپڑرہاہے،ماہ مبارک میں اس علاقہ کی رونق دوبالا ہوجاتی ہے مگر اس کے باوجود یہاں کے روڈ کا حال ناقابل بیان ہے۔شہر کے مدنی روڈ پر واقع عالم اسلام کی معروف دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے علاوہ جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی اورسابق رکن پارلیمنٹ و جمعیۃ علماء ہند کے قومی سکریٹری مولانا سید محمود اسعد مدنی کی رہائش گاہ ہونے کے سبب یہاں آئے دن وی آئی پی مہمانوں اور افسران کی آمدو رفت رہتی ہے،یہاں ایشیاء کی خوبصورت مسجد رشید واقع ہے جہاں ہر سال ہزاروں لوگ اعتکاف کرتے ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وی آئی پی کہے جانے والے اس علاقہ کی حالت اتنی خراب ہے یہاں سڑک سے گذرنا تک محال ہے، ایک جانب جہاں کوڑے سے اٹی ہوئی پانی سے بھری نالیاں سے سڑک پر پانی بہتا رہتاہے وہیں دوسری جانب دو ماہ قبل میونسپلٹی کے ذریعہ دو ماہ قبل اسی مقام پر نالہ کی کھدائی کرائی تھی مگر آج تک اس کی تعمیر نہیں ہوسکی ۔ اسی وجہ سے پورے علاقہ میں پھیلی بدبو کی وجہ سے لوگوں کا گذرنا اور رہنامشکل ہورہاہے جس سے آس پاس کے دکاندار بھی سخت پریشان ہیں اتناہی نہیں علاقہ میں مچھروں کاقہر بھی مسلسل بڑھ رہاہے۔آج رمضان المباک سے ایک روز قبل اس علاقہ کی کیفیت ناقابل بیان تھی کیونکہ سڑک کے دونوں جانب سے نالیوں کاپانی سڑک پر بھرا ہواتھا ،جس کے سبب لوگوں کا یہاں سے گذرنا بے حد مشکل ہورہاتھا، اتنا ہی نہیں علاقہ میں کئی مساجد جہاں سے لوگوں کانماز پڑھنے جانا مشکل ہے۔ آس پاس کے لوگوں اور راہگیروں کے علاوہ یہاں کے دوکاندار سڑک کی اس حالت سے سخت پریشان ہیں اور انہیں اس کا نقصان بھی پہنچ رہاہے۔ چیئرمین ضیا ء الدین انصاری کاکہناہے کہ نالے اور نالیوں کی تعمیر میں چار کروڑ روپیہ خرچ کئے جائینگے ،سرکاری کو تجویز بھیجی ہوئی ہے، گرانٹ منظور ہوتے ہی آئندہ ماہ تک تعمیر کا کام شروع کردیا جائے گا۔
استقبال رمضان کے عنوان پر جامعہ قاسمیہ میں منعقد تقریب میں مولانا محمد ابراہیم قاسمی کااظہار خیال
دیوبند:15؍ مئی(سمیر چودھری؍قندیل نیوز)
استقبال رمضان المبارک اور قرآن کریم ایک ہمہ گیر پیغام‘ کے عنوان پر ایک تقریب کاانعقاد قاسم پورہ روڈ پرواقع دینی ادارہ جامعہ قاسمیہ دارالتعلیم والصنعہ میں کیاگیا ،جس میں علماء نے رمضان المبارک کی فضیلت پر روشنی ڈالی۔اس موقع پر جامعہ کے مہتمم مولانا محمد ابراہیم قاسمی نے قرآن وحدیث کی روشنی میں رمضان المبارک کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ رمضان المباک اللہ پاک کی جانب سے عطا کردہ ایک عظیم الشان نعمت ہے، جس میں ہر طرف رحمت کانزول ہوتاہے،اسلئے ہمیں اس ماہ مبارک کی ایک ایک لمحہ کی قدر کرنے کی سعی اورفکر کرنی چاہئے۔ انہوں نے قرآن کریم کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ قرآن کریم ایک ہمہ گیر پیغام ہے، آج ساری دنیا میں حریت اور مساوات کا غلغلہ قرآن کریم ہی کے مرہون منت ہے۔ انہوں نے کہاکہ درحقیقت قرآن حکیم و زندہ کتاب ہے جس نے پرانے توہمات اور تخیلات کو مٹاکر ان کی جگہ ایسے اعمال کی بنیاد رکھی جو انسانیت کے لئے مفید اور کارآمد ہونے کے ساتھ ساتھ ا صلاح عالم اور امن عالم کے لئے نسخۂ کیمیا ہیں۔ اگر قرآن کریم کے ان اصولوں اورضابطوں کو اپنالیا جائے تو آپسی منافرت اور تاریکی کے بادل چھٹ جائینگے اور اخوت و محبت ،ہمدردی کا دور دورہ ہوگا ،قرآن حکیم کے اصل اصول ہی دین اسلام کی بنیاد ہیں،تمام علوم فنون قرآن کے بعد یا قرآن کی تفسیر و تشریح ہیں۔ مولانا ابراہیم قاسمی نے قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس پر مکمل طورپر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہاکہ قرآن پاک صرف علم ہی نہیں عبادت بھی ہے بلکہ علم و عبادت دونوں کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے ادارہ ہذا کی خدمات سے حاضرین کو روشناس کراتے ہوئے کہاکہ مفتی واصف عثمانیؒ کا قائم کردہ یہ ادارہ مشہور علماء کی زیر نگرانی قرآنی تعلیمات کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے میں سرگرم عمل ہے،جہاں سے کثیر تعداد میں ملک کے گوشہ گوشہ کے طلباء قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ تقریب میں محمد عیٰسی،مولانا محمد ابرار،محمد سلیم ای پی،قاری سیف الاسلام،قاری محمد امجد،محمد احمد خاں، محمد عسکان،جنید احمد،محمد مبین وغیرہ شامل رہے۔
اعزازی تقریب میں دانشوران و ماہر تعلیم نے کی طالبات کی حوصلہ افزائی
مظفرنگر :15؍مئی (سمیر چودھری؍قندیل نیوز)
نواب عظمت علی خاں گرلز انٹر کالج مظفرنگر کی طالبات نے بورڈ کے امتحانات میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور 100فیصد معیاری ریزلٹ لاکر ملت کا سر فخر سے اونچا کیا۔ گزشہ سالوں کی طرح اس سال بھی ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ بورڈ کے امتحان میں مذکورہ کالج کی طالبات نے 100فیصد کامیابی درج کرائی ہے۔ طالبات کی اس کامیابی پر ان کے اعزاز میں ایک پروگرام کا انعقاد اسکول احاطہ میں کیا گیا ۔ جس میں تمام طالبات کو انعامات سے نوازا گیا ، پروگرا م میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے اے ڈی ایم ای ہریش چندرا نے کہا کہ خدا نے ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی صلاحیت ضرور دی ہے ، بس اسے ناامیدی کا دامن چھوڑ کر اسے نکھارنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ طالبات کی کامیابی کے پیچھے اساتذہ کا بڑا کردار ہوتا ہے کیو ں کہ وہی ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیت اور تعلیمی شوق کو بیدار کرتے ہیں ۔ مہمان ذی وقار چودھری چھوٹو رام ڈگری کالج کے پرنسپل نریش ملک نے کہا کہ مجھے یہ دیکھ کر بڑی مسرت ہورہی ہے کہ یہاں اقلیتی ادارے میں بھی معیاری تعلیم دیکھنے کو مل رہی ہے اور یہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ آنے والا وقت ہمارے ملک کے لئے نئی راہ استوار کرے گا ۔ پروگرام کی صدارت کررہے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ اردو اپنی شیرینی لطافت اور پاکیزگی کے سبب بے حد خوبصورت زبان ہے، لہٰذا کسی مذہب یا کسی قوم کی زبان نہیں بلکہ یہ پوری ملک کی زبان ہے ، یہ ہماری صدیوں پرانی تہذیب سے وابستہ ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بڑی خوشی کا مقام ہے کہ اس کالج میں اردو عنوان پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے جس کے نتیجے میں اس کالج کی طالبات ضلع میں ٹاپ کرچکی ہیں ۔ بی ٹی ایم ایجوکیشنل سوشل ویلفیئر سوسائٹی کے کوآرڈی نیٹر ندیم اختر نے طالبات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ زندگی میں کی گئی کوئی بھی کوشش کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔ کالج کے منیجر معروف شاعر ڈاکٹر نوازدیوبندی نے کہا کہ ہم اس معاشرے کے شکر گزار ہیں جس نے ہم پر بھروسہ کیا، اپنی بیٹیوں کو اس ادارے تک بھیجا اور ہماری اس کوشش کو سراہا ۔ کالج کی پرنسپل صفیہ بیگم نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ انٹر کے امتحان میں 309طالبات نے امتحان دیا اور تمام طالبات نے فرسٹ ڈویژن کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ ہائی اسکول کے امتحان میں 396طالبات نے شرکت کی اور تمام طالبات نے فرسٹ ڈویژن حاصل کرکے کالج کانام روشن کیا۔ اس موقع پر علاقہ کے سرکردہ افراد نے شرکت کی۔
پراتھمک شکشک سنگھ دیوبندکی جانب سے سبکدوش اساتذہ کے اعزاز میں تقریب کاانعقاد
دیوبند:15؍مئی (سمیر چودھری؍قندیل نیوز)
پراتھمک شکشک سنگھ دیوبند کی جانب سے مدھرملن بینکٹ ہال میں اس سال اپنے فرائض سے سبکدوش ہونے والے اساتذہ کے لئے اعزازی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت کرتے ہوئے سابق بی ایس سے مظفرنگر ولکشنا چودھری نے کہا کہ اساتذہ معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں اس لئے انہیں اپنی زبان ، تہذیب اور عمل سے ایسا پیغام دینا چاہئے کہ لوگ ان کے قائل ہوں اور معاشرے کی تعمیر میں وہ معاون ہوں۔ انہو ں نے کہا کہ آج سبھی انگلش میڈیم اسکولوں کی جانب راغب ہورہے ہیں ، اساتذہ کو چاہئے کہ وہ اپنے طریقہ کار اور درس وتدریس میں تبدیلی کریں جس سے والدین اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں داخلہ دلائیں ۔ پراتھمک شکشک سنگھ کے ضلعی صدر سندیپ پنوار نے کہا کہ اساتذہ اپنی بھرپور صلاحیت وطاقت کے ساتھ اپنے کام کو انجام دے رہے ہیں مگر حکومت کی جانب سے اساتذہ سے دیگر کام لئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے اسکولوں کا تعلیمی نظام متأثر ہورہا ہے ، حکومت کو چاہئے کہ اساتذہ کو دیگر ذمہ داریوں سے آزادکریں اور پھر تعلیمی تجزیہ کریں ، ان کے علاوہ اجے کمار، ڈاکٹر سکھ پال سنگھ، ڈاکٹر مہندر سینی، گجراج رانا، تیج پال، راکیش پنوار، عبدالناصر، فصاحت علی، سنجے سنگھ نے بھی سبکدوش اساتذہ کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے موجود اساتذہ سے اپیل سے کی کہ وہ معاشرے میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں، تقریب کی ابتدا میں پونم نام دیو، ارونا تیاگی، ورتیکا نے استقبالیہ گیت پیش کیا، بھارتی شرما، انوج کمار نے گیت اور کویتا پیش کی ۔ اس موقع پر اس سال سبکدوش ہونے والے اساتذہ کنور پال سنگھ، بلجور سنگھ اور شہناز بیگم کو شال، میمنٹو، اعزازی سند ، گیتا اور قرآن شریف دے کر اعزاز سے نوازا گیا ، اس موقع پر بلاک کے دس بہترین اسکولوں کا انتخاب کیا گیا اور انہیں بھی اعزاز سے نوازا گیا، ان میں مانکی، مہتولی، دگچاڑی، امرپور نین، جڑودہ جٹ، گھلولی، مقبرہ، دیوال ہیڑی، فتح پور کے نام قابل ذکر ہیں ۔ نظامت کے فرائض سید وجاہت شاہ نے انجام دی، پروگرام کے انعقاد میں دیپک تیاگی، انوج کمار، ڈاکٹر سدھیر، ارون تیاگی ، صابر صدیقی، محمد اسعد، خورشید احمد صدیقی، نجم احمد، ارون کمار، منصر عظیم عثمانی کا خصوصی تعاون رہا۔ اس موقع پر ہارون انصاری، چودھری انل، ورون کمار، آنند شرما، شاہ فیصل مسعودی، منزیٰ پروین، عظمیٰ، شہلا، زیبا، بشریٰ نگہت، شمشاد احمد، نوشاد عرشی، توصیف احمد خصوصی طو رپر موجود رہے۔
مدرسہ دارالعلوم ملا محمود منگلورمیں’تقریب ختم کلام اللہ شریف ‘ میں علماء کا اظہار خیال
دیوبند، 15؍مئی (سمیر چودھری)
منگلور کے مدرسہ دارالعلوم ملا محمودؒ میں’’تقریب ختم کلام اللہ شریف وحفاظ کی دستاربندی‘‘کاانعقاد کیاگیا۔پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم وق دیوبند کے مبلغ مولاناسیدابوالکلام قاسمی نے قرآن مقدس کی تلاوت پرزوردیتے ہوئے کہاکہ راتوں کو اٹھ کر کلام الٰہی کی تلاوت کا اہتمام کیا کریں، اس سے زندگیوں میں برکت عطا ہوتی ہے، والدین کی عمر دراز کردی جاتی ہے، روزی کی تنگی دور کردی جاتی ہے، چہرہ نورانی کر دیا جاتا ہے، جس گھر میں تلاوت ہو رہی ہوتی ہے رحمت کے فرشتے اسے اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔مدرسہ فیض العلوم رشیدیہ پاڈلی کے ناظم اعلیٰ مولانامحمداظفارخان مظاہری نے کہاکہ قرآن پاک کی تعلیم واحدایسی تعلیم ہے ، جس سے انسان کوزندگی گزارنے کی راہ ملتی ہے،ایسا کوئی مسئلہ نہیں کہ جس کا حل اللہ رب العزت نے قرآن عظیم میں نہ کیا ہو، انہوں نے کہاکہ قرآن کریم کوپڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کو سمجھنے کی بھی کوشش ہونی چاہئے ۔جمعیۃ علماء کے ضلع جنرل سیکریٹری مولانانسیم احمدقاسمی بہادرپوری نے کہاکہ اس وقت عالمی پیمانے پر اسلامی تعلیم کے خلاف صہیونیوں کے منصوبے کے تحت تیارکردہ سازش کوزورشور سے روبہ عمل لانے کی کوشش کی جارہی ہے،تاکہ اسلامی تعلیمات کے نظام کواس طرح مفلوج کردیاجائے ۔انہوں نے کہاکہ آج حکومت وقت اپنے منصبوں کاکامیاب بنانے کے لئے نئے نئے خواب دکھاکرمدارس اسلامیہ کواپنے جال میں پھنسارہی ہے،انہوں نے کہاکہ آج حالات نے پھرسے ایسے موڈپرلاکھڑاکیاہے کہ اسلامی مدارس کی آزادی کے تحفظ،نظام تعلیم وتربیت کوفعال بنائے رکھنے کے لئے حکومت وقت کے دام فریب سے محفوظ رکھناہوگا۔اوران کے دینی منہاج اوراسلامی کرداروتشخص کی حفاظت وبقاء کے لئے متحدہ طورپرموثرتدابیراختیارکرنی ہوں گی۔جلسہ کی صدارت حاجی خلیل احمدنے کی جبکہ نظامت مولاناجابرقسیم منگلوری انجام دیئے۔اس موقع پر مدرسہ دارالعلوم ملامحمود سے فارغ ہونے والے طلباکی دستاربندی کی گئی۔اس موقع پرمولاناسیدعبدالقادرقاسمی،سیدمحمدمعاذ دیوبندی،مولانامحمدارشد،مدرسہ دارالعلوم ملامحمودمنگلور کے بانی ومہتمم قاری نسیم منگلوری مولاناعبدالستار،قاری مہتاب عالم،قاری محمدوسیم،شہیدٹیپوسلطان ایجوکیشنل اکیڈمی کے مینیجرشمیم احمد،قاری عبدالصمداکبرپوری، شرافت علی سمیت علاقہ کے افراد موجوتھے۔
احمدعطاء اللہ
ایک پتھر پہ پیار آنے لگا
اور پھر بار بار آنے لگا
ایک دن میں نے پیش دستی کی
پھر پلٹ کر بھی وار آنے لگا
چھوٹے کمرے میں حبس بڑھنے سے
آئنے پر نکھار آنے لگا
انگلیاں گِھس گئیں مری لیکن
پتھروں پر ابھار آنے لگا
شور کرنے لگی تھی سرگوشی
بات میں اختصار آنے لگا
میں جدائی کو مانتا ہی نہ تھا
پھر مجھے اعتبار آنے لگا
نئی دہلی: عالم اسلام جس دن اور ماہ کا بے صبری سے انتظار کررہا ہے، اس کے لئے ایک دن مزید انتظار کرنا ہوگا۔ دراصل کل16 مئی بروز بدھ کو سعودی عرب میں شعبان کی 30 تاریخ ہوگی، اس لئے رمضان کا مہینہ 17مئی بروز جمعرات سے شروع ہوگا۔
دراصل پوری دنیاکے مسلمانوں کے لئے رمضان کا مہینہ سب سے بابرکت مہینےاور پاک ہوتا ہے، اس لئے مکمل خشوع وخضوع کے ساتھ مسلمان اس مہینے کا انتظار کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں آج شعبان کی 29 تاریخ تھی، امید کی جارہی تھی کہ آج چاند نظرآئے گااور کل سے پہلا روزہ ہوگا، لیکن آج چاند نظر نہیں آنے کی وجہ سے پہلا روزہ جمعرات کو رکھاجائے گا۔
شیخ عبدالباری فتح اللہ مکی، مولانا منصور احمدمدنی اور اس وقت سعودی عرب میں موجود مولانا ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر، دہلی کے صدر مولانا محمد رحمانی مدنی نے اطلاع دی کہ یہاں چاند نہیں نظر آیا ہے اور سعودی عرب میں جمعرات سے روزہ رکھا جائے گا۔
سعودی عرب میں چاند نہ نظر آنے کے سبب وہاں پہلا روزہ 17 مئی بروز جمعرات کو ہوگا۔ اس لحاظ سے ہندوستان اور برصغیر میں 18 مئی بروز جمعہ کو پہلا روزہ ہونے کا امکان ہےـ
مولانا ندیم الواجدی
امریکہ میں جب سے ڈونلڈ ٹرمپ برسراقتدار آئے ہیں فلسطین کا معاملہ مزید الجھتا جارہا ہے، ویسے تو امریکہ کے تمام ہی صدور اسرائیل نواز رہے ہیں، امریکی صدور ہی پر کیا موقوف ہے تمام بڑے ملکوں کا جھکاؤ اسرائیل کی طرف ہے، یوں کبھی کبھی وہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں بھی دو چار لفظ بول دیتے ہیں اورمگرمچھ کے سے ٹسوے بھی بہالیتے ہیں مگر آج تک کسی بڑی طاقت نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جوسرائیل کو اس کی بربریت اور ظلم وتشدد سے باز رکھ سکے، برطانیہ کی بدنیتی اور شرپسندی کی وجہ سے اسرائیل وجود میں آیا،یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ بیت المقدس یا یروشلم حضرت عمرؓ کے عہد خلافت ۲۴ ء سے ۱۹۱۷ء تک مسلمانوں کے قبضے میں رہا ہے، درمیان میں صرف نوے سال ایسے گزرے ہیں جن میں یہاں عیسائیوں کی حکومت رہی، یہ ۴۹۲ھ کی بات ہے، ۵۸۳ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے یہ شہر مقدس عیسائیوں سے واپس چھین لیا، اس وقت سے ۱۹۱۷ءتک بھی یہاں مسلمانوں کی حکومت رہی، ۱۹۱۷ء میں برطانیہ نے اس علاقے کو اپنی نو آبادیات بنا لیا، ۱۹۴۸ء میں جب برطانیہ کو یہاں سے واپس جانا پڑا تو ایک سازش کے تحت دنیا بھر سے بہ طور خاص سوویت یونین سے یہودیوں کو لاکر یروشلم کے مغربی حصے میں بسادیا گیا، مشرقی حصہ فلسطین میں شامل رہا، تمام بڑے ممالک نے ان یہودیوں کی مدد کی اور اس نوزائیدہ ملک کو اس قدر مضبوط کیا کہ وہ بیس سال کی قلیل مدت میں پڑوسی ملکوں کے ساتھ جنگ کرنے کے قابل ہوگیا، ۱۹۶۷ء میں اس نے اردن، شام، فلسطین وغیرہ کے بعض علاقوں پر قبضہ کرلیا، اس وقت سے یروشلم کا مشرقی حصہ بھی اسرائیل کے قبضے میں ہے، یوں تو پورا یروشلم ہی مسلمانوں کے لئے اہمیت رکھتا ہے لیکن اس کا مشرقی حصہ بہ طور خاص اہم ہے کیوں کہ اس حصے میں مسجد اقصی واقع ہے، یہاں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی، اسی جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے سفر پر تشریف لے گئے، یروشلم جسے حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں بیت المقدس کا نام دیا گیا مسلمانوں کا قبلۂ اول بھی ہے، اس تاریخی علاقے کے ساتھ تمام مسلمانوں کی جذباتی وابستگی ہے، قرآن کریم میں اس کا کم از کم چھ مرتبہ ذکر آیا ہے، اور جب بھی ذکر آیا ہے برکت اور تقدس کے حوالے سے آیا ہے، اس مبارک سرزمین پر جب بھی کوئی افتاد پڑتی ہے تمام مسلمان بے چین ہوجاتے ہیں، فلسطین کے حالیہ واقعات نے بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کو پریشان اور مضطرب کردیا ہے۔
دسمبر ۲۰۱۷ء میں صدر ڈونلڈٹرمپ نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب میں موجود اپنے ملک کا سفارت خانہ یروشلم میں منتقل کردیں گے، ان کے اس اعلان کی زبردست مخالفت کی گئی تھی، صدر سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اس اقدام سے باز رہیں کیوں کہ ان کے اس فیصلے سے فلسطین کا مسئلہ مزید الجھ جائے گا، اسرائیل اگرچہ یروشلم کو اپنا دار الحکومت کہتا ہے اور وہ اس کے مشرقی حصے کو شامل کرکے ایک عظیم تر دار الحکومت بنانے کا خواب بھی دیکھ رہا ہے لیکن دنیا بھر کے ملکوں نے اس معاملے میں اسرائیل کی حمایت نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ تمام ملکوں کے سفارت خانے اور اقوام متحدہ کے دفاتر وغیرہ تل ابیب میں قائم ہیں، اگرچہ اسرائیل کے تمام سرکاری دفاتر، پارلیمنٹ کی عمارت، صدر اور وزیر اعظم کی رہائش گاہیں یروشلم کے مغربی حصے میں واقع ہیں، تل ابیب میں سفارت خانوں کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ بین الاقوامی برادری اس علاقے پر اسرائیل کو قابض تصور کرتی ہے، اب امریکہ کے اقدام سے صورتِ حال تبدیل ہوجائے گی، ابھی صرف امریکہ کا سفارت خانہ کھلا ہے، کل کچھ اور ممالک بھی امریکہ کی خوشنودی میں اس کے نقش قدم پر چلیں گے، خبر ہے کہ ہنگری، رومانیہ، جیک ری پبلک، گوائے مالا اور پیرا گوائے جیسے ملکوں نے افتتاحی تقریب میں شرکت کی ہے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جلد یا بدیر یہ ممالک بھی تل ابیب سے یروشلم آکر اسرائیل کے ناجائز اور غیر قانونی قبضے کی حمایت کرسکتے ہیں۔
فلسطین کے نہتے اور مظلوم باشندوں کی ہمت کو داد دینی پڑتی ہے کہ وہ ستّر سال سے اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں، ستّر سال کے اس طویل عرصے میں ان پر کیا گزری ساری دنیا اس سے واقف ہے، لاکھوں فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے ہیں، اس سے کہیں زیادہ لوگ زخموں سے چور معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں، فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد پڑوسی ملکوں میں خانماں برباد کھلے آسمان کے نیچے انتہائی بے کسی اور لا چارگی کے عالم میں پڑی ہوئی ہے، جو لوگ غزہ، حبرون اور الخلیل جیسے شہروں میں رہ رہے ہیں نہ ان کے پاس روزگار ہے، نہ کاروبار ہے، نہ تعلیم ہے، نہ صحت کے وسائل ہیں، غیر ملکوں سے آنے والی مدد ہی ان کے لئے سدّ رمق کا ذریعہ ہے، مگر ان مشکل حالات نے بھی ان کے حوصلوں کو شکست نہیں دی، اسرائیل کی مسلح فوجوں سے وہ تنہا لڑ رہے ہیں، نہ ان کے پاس بندوقیں ہیں، نہ گولہ بارود ہے نہ بم ہیں، بس ایمان کی طاقت ہے اور وطن سے محبت کا جذبہ ہے کہ وہ ستّر سال سے لگاتار اس امید میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کئے جارہے ہیں کہ کبھی تو ان کی سرزمین انہیں واپس ملے گی۔
تازہ واقعہ یروشلم میں امریکی سفارت خانے کے باضابطہ افتتاح کے موقع پر پیش آیا، پینتیس ہزار نہتے فلسطینی’’ گریٹ مارچ آف ریٹررن موومنٹ‘‘ کے تحت مارچ کرتے ہوئے اسرائیل اور غزہ کی سرحد پر اس جگہ پہنچے جہاں کانٹوں کی باڑھ لگی ہوئی ہے، ان کے ہاتھوں میں تختیاں تھیں جن پر امریکہ اور اسرائیل مخالف نعرے لکھے ہوئے تھے، ان کی زبانوں پر نعرے تھے، یہ لوگ امریکی اقدام کی مخالفت کررہے تھے، دنیا کا کوئی کوئی قانون انہیں اس مخالفت سے نہیں روک سکتا، کیوں کہ یروشلم ان کا مادر وطن ہے، ان کی زمین ہے ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل نے طاقت کے بل پر یروشلم پر قبضہ کیا ہے، اور زور زبردستی اور ہٹ دھرمی سے آج تک اس پر قابض ہے، اقوام متحدہ کی بیسیوں قرار دادیں اس کے خلاف ہیں، مگر وہ ان کی ان دیکھی کررہا ہے، اس کو کسی کی پرواہ نہیں، کیوں کہ امریکہ اس کے ساتھ ہے، کیا فلسطین کے مظلوم باشندوں کو اتنا بھی حق نہیں کہ وہ اپنی سرزمین کے خلاف ہونے والی سازشوں کی مذمت کرسکیں اور اپنے احتجاج سے دنیا کو ادھر متوجہ کرسکیں، وہ امریکہ کی دوغلی پالیسی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے تھے، سفارت خانہ کھولے جانے کی تقریب پر اپنے غم وغصے کا اظہار کررہے تھے کہ اسرائیل کی فوجوں نے ان نہتے احتجاجیوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی، پچاس سے زیادہ فلسطینی جن میں نو عمر بچے بھی تھے شہید ہوگئے، دو ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوگئے جن میں خواتین بھی شامل ہیں، زخمیوں میں سے کتنے لوگ موت کو گلے لگائیں گے اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا، اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی فوج نے ضابطے اور قانون کے تحت طاقت کا استعمال کیا ہے، اسے کہتے ہیں بے شرمی اور ہٹ دھرمی، کیا امریکہ اور دوسرے بڑے ممالک جو خود کو مہذب، جمہوریت پسند، انسانیت نواز، اور قانون کا پابند سمجھتے ہیں اس بات کا جواب دیں گے کہ اسرائیل نے کس ضابطے اور قانون کے تحت گولی چلا کر نہتے فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کیا ہے، دنیا کہ وہ کونسا قانون ہے جو مظلوموں کو صدائے احتجاج بلند کرنے سے روکتا ہے، وہ کونسا قانون ہے جس کے تحت کسی ملک کے مسلّح دستے بچوں اور عورتوں پر اندھا دھند فائرنگ کرسکتے ہیں، سلام ہے فلسطین کے غیور اور بہادر عوام کو کہ وہ آج بھی اسی طرح پرعزم ہیں جس طرح کل تھے، ستّر سال کے مسلسل مظالم نے ان کے حوصلے پست نہیں کئے، آج کا یہ قہر کب انہیں پسپا کرسکتا ہے، جو لوگ اس احتجاج میں شریک تھے ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی اس کارروائی سے ان کے حوصلے پست نہیں ہوں گے، آج ۱۵/ مئی کو انھوں نے یوم نکبت منانے کا اعلان کیا ہے، وہ اپنا سفر جاری رکھیں گے، وہ اپنی تحریک واپس نہیں لیں گے، لعنت ہے عرب ملکوں پر جو منہ میں گھنگنیاں ڈالے اور ہاتھوں میں چوڑیاں پہنے بیٹھے ہیں، آخر انہیں شرم کب آئے گی، ان کی غیرت کب جائے گی، کیا اس وقت جب اسرائیل کا اژدہا غزہ سمیت پورے فلسطین کو نگل لے گا، کیا وہ اس وقت بیدار ہوں گے جب اسرائیل مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے ہیکل سلیمانی تعمیر کرلے گا، اس وقت جاگے بھی تو کیا ہوگا، اسرائیل کا یہ خوفناک عفریت رکنے والا نہیں ہے، ایک فلسطین ہی کیا، کئی ملک اس اس عفریت کی زد میں آئیں گے، سعودی عرب کب محفوظ رہے گا، اگرو ہ امریکہ کے پروں میں سر چھپا کر خود کو محفوظ سمجھ رہا ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے، اگر اس کا خیال یہ ہے کہ اسرائیل سے پینگیں بڑھاکر اس نے اپنے لئے گوشۂ عافیت تلاش کرلیا ہے تو بہت جلد اس کی یہ غلط فہمی بھی دور ہوجائے گی۔
حالیہ واقعات پر ترکی کے صدر طیب اردگان بھی بولیں گے، ایران کے صدر اور وزیر اعظم بھی بیان دیں گے، مشرق وسطی کے ملکوں سے بھی مذمت کے بیانات جاری ہوں گے، تمام مسلم ممالک اعلان کریں گے کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں، ان پر ظلم ہوا ہے، ان پر زیادتی ہوئی ہے، لیکن کیا یہ زبانی جمع خرچ مؤثر ہوگا، آپ ہزاروں بیانات دیں، لاکھوں مرتبہ اسرائیل کی مذمت کریں اس پر لعنت بھیجیں گے اس کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے، اس وقت تک اسرائیل اپنی تمام تر خباثتوں اور مکاریوں کے ساتھ اس ارض مقدس پر دندناتا رہے گا جب تک مسلم ممالک متحد نہیں ہوںگے، جب تک وہ مستقبل کے خطرات کو محسوس کرکے ایک جٹ نہیں ہوں گے، جب تک وہ اپنی بندوقوں کا رخ اپنوں کی طرف کرنے کے بجائے دشمنوں کی طرف نہیں کریں گے، جب تک ان ملکوں سے کوئی سلطان صلاح الدین ایوبیؒ پیدا نہیں ہوگا، تاریخ میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کا کردار زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا، وہ واقعات بھی زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے جو صلیبی اور اسلامی جنگوں کے دوران پیش آئے اور وہ الفاظ بھی زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے جو صلاح الدین ایوبیؒ کی زبان سے اس وقت ادا ہوئے جب وہ بیت المقدس کی بازیابی کے لئے پابہ رکاب تھے، انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا ’’ہم کوئی عام سی جنگ لڑنے نہیں جارہے ہیں ہم اپنے خون سے تاریخ کا وہ باب لکھنے جارہے ہیں جو عمرو بن العاصؓ اور ان کے ساتھیوں نے لکھا تھا اگرچاہتے ہو کہ خدا کے حضور اپنی پیشانیوں پر روشنی لے کر جاؤ اور اگر چاہتے ہو کہ آنے والی نسلیں تمہاری قبروں پر آکر پھول چڑھائیں تو تمہیں بیت المقدس کو آزاد کرانا ہوگا‘‘، آج پھر اسی صلاح الدین کی ضرورت ہے جو اپنے ساتھیوں کو ان کی تاریخ یاد دلائے اور ان کو ان کے فرض سے آگاہ کرے، مگر ان مسلم ملکوں میں جن کے حکمرانوں نے بزدلی اور بے غیرتی کی چادر اوڑھ رکھی ہے ایسا کوئی شخص کبھی پیدا بھی ہوگا یا نہیں جو اسرائیل کو چیلنج کرسکے اور اس کے وجود کو خس وخاشاک میں ملا سکے؟ یہ سوال ہے جو سوا ا رب مسلمانوں کے لئے سوہانِ روح اور عذاب جاں بنا ہوا ہے، حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم علامہ اقبال کے اس شعر کی روح تک نہیں پہنچیں گے اور اسے عمل کا لباس نہیں پہنائیں گے اس وقت تک ارض مقدس یہود کے پنجۂ استبداد سے آزاد نہیں ہوگی۔
خیاباں میں ہے منظر لالہ کب سے
قبا چاہئے اس کو خونِ عرب سے
[email protected]