نئی دہلی:7؍اپریل (قندیل نیوز)
وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ویٹ لفٹر ستیش کمار شیو لنگم کو دولت مشترکہ کھیلوں میں طلائی تمغہ جیتنے پر مبارکباد دی ہے۔وزیر اعظم نے کہا "ہندوستان کے ویٹ لفٹرز میڈل کے فہرست میں ہمارے مقام کو بھی اوپر اٹھا رہے ہیں۔ ستیش کمار شیو لنگم نے 77 کلو گرام کے ویٹ لفٹنگ میں طلائی تمغہ جیت کر قابل ستائش کام کیا ہے۔ مسلسل 2 دولت مشترکہ کھیلوں میں – گلاسگو 2014 اور گولڈ کوسٹ 2018 – میں لگاتار طلائی تمغے جیت کر وہ تاریخ میں درج ہو چکے ہیں۔
7 اپریل, 2018
نئی دہلی:7؍اپریل (قندیل نیوز)
نیپال کے وزیر اعظم عزت مآب، جناب کے پی شرما اولی نے ہندوستان کے صدر جمہوریہ جناب رام ناتھ کووند سے آج (07 اپریل، 2018) راشٹرپتی بھون میں ملاقات کی۔ہندوستان میں اولی کا خیر مقدم کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے کہا کہ یہ جان کر انہیں خوشی ہوئی کہ نیپال کا وزیراعظم بننے کے بعد یہ ان کا پہلا غیرملکی دورہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان نیپال ساجھیداری کو آگے بڑھانے کے لیے ان کی قیادت اور تعاون کے لیے ہندوستان ان کی بہت عزت کرتا ہے۔ اور ہمیں پورا یقین ہے کہ ان کی دانشمندانہ قیادت میں نیپال اپنے لوگوں کے لیے ایک تیز تر سماجی- اقتصادی تبدیلی کے راستے کو فروغ دے گا۔صدر جمہوریہ نے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک کے درمیان ویسی دوستی و تعاون کا تعلق نہیں ہے جیسا کہ ہندوستان و نیپال کے درمیان میں ہے۔ ہم نہ صرف جغرافیائی اعتبار سے جڑے ہیں بلکہ تاریخ، ثقافت ، تمدن اور قریبی عوام و خاندانی تعلقات سے بھی جڑے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سیاسی سطح پر باقاعدگی سے تبادلے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اس خاص شراکت داری کو کتنی اہمیت دیتے ہیں ۔ نیپال کے استحکام اور اقتصادی خوشحالی میں ہندوستان کا ایک خاص مفاد ہے۔ ہم اچھے تعلقات، باہمی اعتماد و باہمی فاہدے پر مبنی تعلقات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔صدرجمہوریہ نے کہا کہ ہندوستان نیپال کے ساتھ اپنی اقتصادی اور ترقیات سے متعلق ساجھیداری کو اہمیت دیتا ہے۔ہندوستان نیپال کے ساتھ اپنے تعاون کو وسیع بنانے کے لیے تیار ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات ہماری معاشی ترقی میں اضافہ کریں گی اور ہمارے شہریوں کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
نئی دہلی:7؍اپریل (قندیل نیوز)
نئی دہلی میں اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر آج شام کو روس کے ایک ہوائی جہاز کی ایمرجنسی لینڈنگ کرائی گئی۔ اس طیارے میں تقریباً344 مسافر سوار تھے۔ فلائٹ اے بی جی 8722 کو شام 6 بجکر 8 منٹ پر ہوائی اڈے کے ٹرمینل 3 پر رن وے نمبر11پرہنگامی صورت میں اتارا گیا۔ طیارے میں سوار تمام مسافر محفوظ ہیں، ہوائی جہاز ویت نام سے روس جارہاتھا۔بتایاگیاہے کہ ہوائی جہاز کی ایئر پورٹ پر ایمرجنسی لینڈنگ کرائی گئی، طیارہ کے انجن میں تکنیکی خرابی آنے کے بعد اسے ہنگامی صورت حال میں اتاراگیا۔اس لینڈنگ کے دوران 8 ایمبولینس اور کئی فائر بریگیڈکی گاڑیاں موقع پر تیار رکھی گئی تھیں۔یہ طیارہ ویت نام کے فو کوک (Phu Quoc) سے روسی شہر یکاترین برگ جا رہا تھا۔ تادم تحریر تفصیلات کا انتظار ہے ۔
حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی
(ترجمان وسکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ)
حکومت، اس کی آلۂ کار تنظیموں اور فرقہ پرست جماعتوں نے طے کر رکھا ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ اس طرح الجھا کر رکھا جائے کہ وہ تعلیم، معاشی ترقی اور حقیقی مسائل پر توجہ نہیں دے سکیں، اور ان کو ہمیشہ فرضی اور غیر اہم مسائل میں الجھا کر رکھا جائے، کبھی وندے ماترم کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے، کبھی سوریہ نمسکار کا، کبھی بھارت ماتا کی جے اور یوگا، اور کبھی بابری مسجد تو کبھی کامن سول کوڈ، غور کیجئے کہ تین طلاق کا مسئلہ کیا ایسا مسئلہ ہے جس پر پارلیامنٹ قانون سازی کرے؟ طلاق کے واقعات بہت کم ہیں، جو فی ہزار کے دائرے میں آتے ہیں، پھر اس میں بھی ایک ساتھ تین طلاق کے واقعات اور بھی کم پیش آتے ہیں؛ لیکن جن لوگوں کو گجرات اور مظفر نگر کی مظلوم مسلم خواتین کے آنسوؤں نے متأثر نہیں کیا اور ان ستم رسیدہ بہنوں کی آہیں ان کےکانوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس آگئیں، اور اس کے مجرموں کو بری کرنے کی کوشش آج بھی جاری ہے، ان ہی کو مسلم مطلقہ خواتین کی فکر بے چین کئے ہوئی ہے۔
ابھی طلاق بل راجیہ سبھا میں زیر التواء ہےہی کہ سپریم کورٹ میں تعدد ازدواج سے متعلق مسلمانوں کا سا نام رکھنے والی کچھ خواتین نے مقدمہ دائر کر دیا ہے، اور معزز عدالت نے بھی جلد بازی سے کام لیتے ہوئے حکومت ہند سے اس سلسلہ میں رائے طلب کی ہے، یہ بالواسطہ مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے اور تمام شہریوں کے لئے ہندو میریج ایکٹ کو یونیفارم سول کوڈ کے طور پر نافذ کرنے کی ناپاک سازش ہے؛ حالاں کہ مسلمانوں میں تعدد ازدواج کا تناسب نہایت کم ہے، نیزمسلمانوں کے یہاں نکاح کے بغیر مردو عورت کے ایک ساتھ زندگی گزارنے کے واقعات شاذ ونادر ہی پائے جاتے ہیں؛ کیوں کہ حرام ہونے کی وجہ سے مسلم معاشرہ میں اس کو بہت ہی قبیح نظرسے دیکھا جاتا ہے، جب کہ دوسری قوموں میں اس طرح کے واقعات کثرت سے پیش آتے ہیں، اور اب چوں کہ اس کو قانونی جواز بھی حاصل ہو گیا ہے؛ اس لئے ایسے واقعات میں مزید اضافہ کا اندیشہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تعددِ ازدواج کا مسئلہ کئی پہلوؤں سے قابل غور ہے : مذہبی ، سماجی اور اخلاقی ۔
مذہبی اعتبار سے یہ ایک حقیقت ہے کہ تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں تعدد ازدواج کو جائز قرار دیا گیا ہے ، ڈاکٹر مالک رام نے رگ وید ( ۱۰۸۱۰-۱۰۵) کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ایک مرد کے لئے بیک وقت ایک سے زیادہ نکاح کرنا درست ہے اور بیویوں کے لئے کوئی تحدید نہیں ہے ،۔
یہودی مذہب میں بھی تعدد ازدواج کی گنجائش ہے ؛ چنانچہ خود حضرت موسیٰ ںکی دو بیویاں تھیں ، ایک حضرت صفورہ ، جو حضرت شعیب ںکی صاحبزادی تھیں ( خروج:۲؍۲۱) آپ کا دوسرا نکاح ایک کوشی خاتون سے ہوا تھا ( گنتی:۱؍۱۲) خود بائبل میں حضرت داؤد ںکی چھ بیویوںکا ذکر آیا ہے ( گنتی ۲۷:۸)
حضرت سلیمان ؑ کے بارے میں تورات کا کہنا ہے کہ ان کی سات سو بیویاں اور تین سو حرمیں تھیں (سلاطین: ۱؍۱۱) عیسائی مذہب چوںکہ اپنی اصل کے اعتبار سے تورات ہی کی شریعت پر ہے اس لئے سمجھنا چاہئے کہ اصلاً عیسائی مذہب میں بھی تعدد ازدواج کی اجازت ہے ؛ چنانچہ شیخ محمود عقاد نے لکھا ہے کہ سترہویں صدی تک خود اہل کلیسا نے تعدد ازدواج کی حمایت کی ہے ، فرماتے ہیں :
مختلف انسانی نظام ازدواج کی تاریخ کا مستند عالم وسٹر مارک (Vister marc) نے بیان کیا ہے کہ کلیسا اور حکومت دونوں ہی سترہویں صدی کے نصف تک تعدد ازدواج کو مباح قرار دیتے تھے اور ان کے یہاں بکثرت اس کا رواج تھا ۔ (الفلسفۃ القرآنیہ : ۵۴)
غرض دنیا کے مشہور مذاہب میں شاید ہی کوئی مذہب ہو جس نے تعدد ازدواج کو جائز نہ رکھا ہو ، اسلام نے بھی تعدد ازدواج کی اجازت دی ہے ؛ لیکن اس کے لئے بنیادی طور پر دوباتوں کی تحدید رکھی ہے ، اول : یہ کہ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ چار تک ہی تعدد ازدواج کی اجازت ہے، دوسرے : یہ اجازت عدل کے ساتھ مشروط ہے، یعنی جو شخص ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان حقوق کی ادائیگی اور سلوک و برتاؤ میں برابری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ، اسی کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت ہے ، پس اسلام نے ایک طرف سماجی ضرورت کی رعایت بھی کی ہے اور دوسری طرف ان حدود و قیود کے ذریعہ اس اجازت کو متوازن بنانے کی کوشش بھی کی ہے ۔
دوسرا پہلو سماجی ضرورت کا ہے ، عام طور پر لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح پیدائش (Rate of Linth)میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا ؛ لیکن شرح اموات (Rate of death) میں مردوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے ؛ کیوںکہ زیادہ تر حادثات میں مردوں کی جانیں کام آتی ہیں، مثلاً : پہلی جنگ ِعظیم جو ۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۸ ء تک جاری رہی، میں اسّی لاکھ صرف فوجی مارے گئے، شہریوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے،ظاہر ہے کہ یہ فوجی مرد تھے، دوسری جنگ ِعظیم ۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۵ء جاری رہی ، جس میں کل ساڑھے چھ کڑور آدمی یا تو ہلاک ہو گئے یا معذور ، ان مہلوکین اور معذورین میں غالب ترین اکثریت مردوں کی تھی، اس جنگ ِعظیم میں برباد ہونے والا قائد ملک جرمنی تھا ، ۱۹۲۰ء سے ۱۹۴۰ء تک جرمنی میں یہ کیفیت تھی کہ ہر مرد کے مقابلہ شادی کی عمر کو پہنچی ہوئی تین عورتیں ہوتی تھیں ، فرانس میں ۱۹۰۰ء کی مردم شماری کے اعتبار سے عورتوں کی تعداد مردوں سے چار لاکھ ،تئیس ہزار ، سات سو نوسے زیادہ تھی اور آسٹریلیا میں ۱۸۹۰ء میں چھ لاکھ ، چوالیس ہزار ، سات سو ، چھیانوے عورتیں مردوں سے زیادہ تھیں ، عراق ایران جنگ (۱۹۸۸ء – ۱۹۷۹ء) میں عراق کی ایک لاکھ اور ایران کی بیاسی ہزار عورتیں بیوہ ہو گئیں ۔
جنگوں کے علاوہ جو دوسرے ٹریفک یا صنعتی حادثات پیش آتے ہیں اور جو لوگ غنڈہ گردی کا نشانہ بنتے ہیں، وہ بھی عام طور پر مرد ہی ہوتے ہیں ، پھر اگر جیلوں میں طویل المدت قیدیوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں نوے فی صد(۹۰) سے زیادہ تعداد مردوں کی ہوتی ہے ؛ کیوں کہ طویل قید بھیانک جرائم پر ہوتی ہے اور اپنی نفسیاتی کمزوری کی بنا پر مجرم ذہن کی عورتیں بھی بھیانک قسم کے جرائم کا حوصلہ نہیں پاتیں ، ان اسباب کی بناء پر عام طور پر ایک مرد کے مقابلہ ایک سے زیادہ عورتوں کا تناسب پایا جاتا ہے ، امریکہ جیسے ملک میں جس میں حادثات سے حفاظت کا زیادہ ترقی یافتہ نظام قائم ہے اور دفاعی ٹکنالوجی میں ترقی اور بالادستی کی وجہ سے حریف ملکوں کے مقابلہ اس کی فوجیوں کی ہلاکت کاتناسب بہت کم ہوتا ہے ، ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۸۷ء میں وہاں عو رتوں کی آبادی بمقابلہ مردوں کے تقریباً اسی لاکھ زیادہ تھی ۔
اگر تعدد ازدواج کی اجازت نہ دی جائے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد تجرد اور محرومی کی زندگی گذارے ، اس لئے تعدد ازدواج مردوں کی ہوس اور نفسانی طمع کی تکمیل نہیں ؛ بلکہ ایک سماجی ضرورت ہے ۔
تعددِ ازدواج کے مسئلہ میں سب سے اہم پہلو اخلاقی ہے ، عفت و عصمت انسانیت کا بنیادی جوہر ہے ، گائے اور بیل ، گھوڑے ، گدھے اور ان کی مادہ کے درمیان کیا کبھی نکاح ہوا ہے ؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے ، نرو مادہ کی تقسیم اور جنسی خواہش انسان میں بھی ہے اوردوسرے حیوانات میں بھی ؛ لیکن یہ انسانی سماج کا امتیاز ہے کہ نکاح کے ذریعہ ایک مرد اورعورت رشتۂ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں اور ان کی وفاداریاں ایک دوسرے کے لئے محدود و مخصوص ہو جاتی ہیں، دوسری مخلوقات اس وفاداری سے ناآشنا ہے ، اسی وفاداری کا نام ’’عفت و عصمت ‘‘ ہے ، عفت و عصمت انسان کی فطرت میں ہے اور ہر سلیم الفطرت شخص اس کا ادراک کر سکتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی کے بارے میں برائی کی نسبت کو برداشت نہیں کرسکتا، تعدد ازدواج اس جوہر عفت کی حفاظت کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، دنیا کی تاریخ میں جب کبھی بھی قانونی تعدد ازدواج پر روک لگائی گئی ہے وہاں غیر قانونی تعدد ازدواج نے ضرور راہ پائی ہے ، قدم تہذیبوں میں یونانی اور رومی تہذیب تعدد ازدواج کی مخالف تھی ، ایڈور ڈہارٹ پول لیکی (۱۸۳۸ء – ۱۹۰۳ء) نے یونانی تہذیب کے بارے میں لکھا ہے کہ مرد کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت نہ تھی ؛ لیکن غیر قانونی داشتاؤں پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی ۔ ( تاریخ اخلاق یورپ ، ص : ۲۴۰ ’’ ترجمہ دریابادی‘‘)
چنانچہ منصف مزاج غیر مسلم دانشوروں نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے ، علم تمدن کے معروف عالم ڈاکٹر گستا ؤلی بان لکھتے ہیں :
مغرب میں بھی … ایک ہی شادی کی رسم کا وجود صرف کتابوں ہی میں ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ کوئی شخص انکار نہ کرے گا کہ یہ رسم ہماری واقعی معاشرت میں نہیں پائی جاتی ہے ، میں نہیں جانتا کہ مشرقیوں کا جائز تعدد کسی امر میں مغربیوں کی ناجائز تعدد ازدواج سے کمتر سمجھا جاتا ہے ؟ بلکہ میں یہ کہوں گا کہ اول کو ہر طرح دوسرے پر ترجیح ہے ۔ ( تمدن عرب : ۳۶۶)
جناب مالک رام ، ملک کے حقیقت پسند اصحابِ دانش میں تھے ، ان کا یہ اقتباس پڑھنے کے لائق ہے :
تعدد ِازدواج کی تائید میں متعددد لائل پیش کئے جاسکتے ہیں ، مثلاً یہ کہ عام حالت میں دنیا میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے ، اگر ایک مرد ، ایک عورت کے اُصول پر عمل کیا جائے تو ان زائد عورتوں کا کیا بنے گا ؟ کیا ہم ان پر نکاح کا راستہ بند کر کے ان کی اور ان کے ساتھ شادی شدہ مردوں کی بھی گمراہی کا سامان تو پیدا نہیں کر رہے ہیں … اگر آپ ان عورتوں کو نکاح کرنے کا موقع نہیں دیتے تو گویا انھیں قعر مذلت میں ڈھکیل رہے ہیں اور انھیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ گناہ کی زندگی بسر کریں ؛ کیوں کہ یہ جذبہ فطری ہے ، اگر عورت سماج کی اجازت سے اس کی تسکین نہیں کرسکے گی توسماج کو دھتا بتائے گی اور گھونگھٹ کی اوٹ میں شکار کھیلے گی اس صورت میں آپ کو کسی اور حرام اولاد کا وجود قانوناً تسلیم کرنا پڑے گا، حق انتخاب آپ کو حاصل ہے ، ایک طرف آپ اس عورت کو قابل عزت بیوی اور گھر کی مالکہ اور محترم ماں بنانے پر قادر ہیں ، دوسری صورت میں وہ قابل نفرت داشتہ یا کسی خانماں برباد اور اپنے اور تمام سماج کے لئے کلینک کا ٹیکابننے پر مجبور ہے ۔ (اسلامیات : ۱۶۲- ۱۶۱)
پس حقیقت یہ ہے کہ تعدد ازدواج کی گنجائش ایک عفیف و پاک د امن سماج کے لئے ضرورت کے درجہ میں ہے اور یہ کوئی نظری فلسفہ نہیں ؛ بلکہ مغرب کا عصمت باختہ سماج اس کی عملی مثال ہے ۔
تعددِ ازدواج میں ایک پہلو عورت کے ساتھ رحمدلی کا بھی ہے، اگر ایک عورت دائم المریض ہو اور کسی مناسب یا نامناسب وجہ سے مرد دوسرے نکاح پر مصر ہو تو اگر تعدد ازدواج کی گنجائش نہ رکھی جائے تو یا تو وہ اسے طلاق دے دے گا ، جس کا مذموم ہونا ظاہر ہے یا وہ غیر قانونی تعدد ازدواج کا راستہ اختیار کرے گا اور غیر قانونی بیوی قانونی بیوی سے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے ؛ کیوں کہ وہ مرد کو زیادہ بلیک میل کر سکتی ہے اور اپنے خنجر ناز سے قانونی بیوی کو گھائل کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہے ، ایسی صورتوں میں تعدد ازدواج رحمت ثابت ہوتی ہے نہ کہ زحمت ، مطلقہ اور بیوہ خواتین کے مسائل کا حل اکثر یہی تعدد ازدواج بنتا ہے اور یہ تعدازدواج بھی دوسری بیوی کی رضامندی اور خوشنودی ہی سے وجود میںآتا ہے ؛ کیوں کہ کسی عورت کو دوسری بیوی بننے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔
خود عورتوں کو بھی اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ جب عورتوں کی شرح آبادی مجموعی طور پر مردوں سے زیادہ ہے تو وہ بحیثیت عورت اپنی ان بہنوں کے لئے قانونی طور پر رشتۂ نکاح میں منسلک ہونا پسند کریں گی یا یہ بات کہ وہ وقتاً فوقتاً مختلف مردوں کی غیر قانونی بیوی بنتی رہیں ؟ اور ان حقوق و فوائد سے بھی محروم رہیں جو ایک بیوی کو اپنے شوہر سے حاصل ہونے چاہئیں ؟
تعددِ ازدواج کے مسئلہ میں ایک سے زیادہ نکاح کرنے والوں کا رویہ بھی قابل توجہ ہے، کہ ایک طرف وہ قرآن مجید کی اجازت سے فائدہ اُٹھاکر دوسرا نکاح کرتے ہیں اور دوسری طرف قرآن ہی کی لگائی ہوئی عدل و انصاف کی شرط کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ، تعدد ازدواج ایک سنجیدہ فیصلہ ہے نہ کہ پہلی بیوی سے انتقام کا طریقہ، عوام تو عوام ، خواص اور اہل علم بھی جب دوسرا نکاح کرتے ہیں تو کھلے ہوئے ظلم و جور سے اپنا دامن آلودہ کر لیتے ہیں اور زیادہ تر پہلی بیوی کو اور بعض واقعات میں دوسری بیوی کو ’’ معلقہ ‘‘ بنا کر رکھ دیتے ہیں، یہ صریحاً ظلم اور گناہ ِ عظیم ہے اور اللہ کی شریعت سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے ، جو شخص عدل پر قادر نہ ہو (جیسا کہ مذکور ہو) اس کے لئے ایک ہی بیوی پر قناعت کرنا واجب ہے ، ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا درست نہیں ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان عدل نہیں کر سکوگے تو تمہیں ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا چاہئے : ’’ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً ‘‘ ۔ ( النساء : ۳)
اس لئے حقیت یہ ہے کہ تعداد ازدواج کی اجازت ایک سماجی و عمرانی ضرورت اورعفت و پاک دامنی کی حفاظت کا ذریعہ ہے اور اپنے نتائج و اثرات کے اعتبار سے خود عورتوں کے لئے بعض حالات میں باعث ِرحمت ہے ؛ البتہ یہ بات ضروری ہے کہ تعدد ازدواج کے لئے شریعت نے جو حدود و قیود مقرر کی ہیں ، ان کا لحاظ رکھا جائے ورنہ یہ قانون حکمِ شریعت کا استعمال نہیں ؛ بلکہ ’’ استحصال ‘‘ہوگا ۔
اقبال خورشید
ادیب کی بنیادی ذمے داری کیا ہے؟ ادب تخلیق کرنا۔بلاشبہ! یہی وہ بنیادی تقاضا ہے، جو ہم ایک ادیب سے کرتے ہیں یاکرسکتے ہیں۔ وہ اکلوتا تقاضا ، جو ہمیں کسی ادیب سے کرنا چاہیے،معیاری ادب تخلیق کرناہی وہ کام ہے، جس کے لیے اسے اپنی بہترین صلاحیتیں اور بیش قیمت وقت وقف کرنا چاہیے ۔
البتہ اردو ادیب کا معاملہ دیگر، اُسے کئی مسائل درپیش،کئی تقاضے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں۔پہلے مرحلے میں وہ اپنی کل صلاحیتیں صرف کرکے ادب تخلیق کرتا ہے۔پھراُسے کتابی صورت میں قارئین تک پہنچانے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے، یہ فکر اسے ناشر کی استحصالی دنیا تک لے جاتی ہے۔ اب اردو کا ادیب اپنے ہی پیسوں سے اپنی صلاحیتوں کی اشاعت کا اہتمام کرتا ہے۔ جب کسی نہ کسی طرح اپنی سرمایہ کاری سے، اپنی کتاب چھاپ لیتا ہے، تو اسے بانٹنے نکلتا ہے کہ نئے ادیب کے لیے اپنی کتاب کی فروخت، تاآں کہ وہ کائیاں نہ ہو، سمجھ لیجیے ناممکن ہے،تو اب ہمارا ادیب، جو اپنا بنیادی وظیفہ بڑی حد تک ایمان داری سے نبھا چکا ہے، اپنی کتاب مشاہیرتبصرہ نگاروں، کالم نویسوں کو ارسال کرنے کے مشن پر نکلاہے۔اور جب یہ طویل اور صبر آزما مرحلہ طے ہوگیا، تب وہ بیٹھ کر انتظار کررہا ہے کہ کتاب کی کہیں کوئی خبر چھپ جائے، کہیں کوئی تبصرہ لگے، کوئی کالم لکھ دے۔ جلد یہ انتظار زندگی کا حصہ بن جاتا ہےاور اس وقت تک قائم رہتا ہے، جب تک وہ کتاب کی آخری کاپی بانٹ نہیں دیتا۔ 99 فی صد نئے ادیب اِس تلخ، مگر معمول کے تجربے سے گزرتے ہیں۔ناشر عنقا ہوئے۔ کتب فروش کو کاروبار سے غرض۔ میڈیا ادب کی ترویج کو وقت کا زیاں سمجھتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر اذیت بھوگنے والے شخص سے ہم کیوں کر توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر اپنی تمام تر ذہنی، فکری، علمی صلاحیتیں صرف کرکے ایک اورکتاب لکھے۔ اور پھر وحشت کے دائرے میں پھنس جائے۔
مگر انتظار کیجیے، وہ ایسا کرے گا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ادب سراسر گھاٹے کا سودا ہے، وہ ایسا ہی کرے گا، اس امید پر کہ شاید اس بار وہ اس عمل کو ذرا بہتر انداز میں انجام دے سکے ، اس امید پر کہ شاید اس بارنتائج کچھ حوصلہ افزاہوں، اس امید پر کہ شاید اس باربات بن جائے گی۔ ہمارا ادیب اپنے بنیادی وظیفے، یعنی ادب تخلیق کرنے کے بعد اُس کی تشہیر و ترویج کے لیے جو عذاب اٹھاتا ہے، اس کے لیے اگروہ کسی نشانِ سپاس کا نہیں، خراج تحسین کا نہیں،احترام کا نہیں،تورعایت کا ضرور حق دار ہے۔ اگرچہ ہم اسے وہ بھی دینے کو تیار نہیں!
گولڈ کوسٹ، 7 اپریل (قندیل نیوز) ویٹ لفٹر ستیش کمار شوالنگم نے 21 ویں دولت مشترکہ کھیلوں میں ہفتہ کے روز ویٹ لفٹنگ میں سنہری کامیابی جاری رکھتے ہوئے ہندستان کے لئے تیسرا طلائی تمغہ جیت لیا ہے۔
ستیش نے 77 کلوگرام زمرے میں 317 کلوگرام وزن اٹھاکر گولڈ میڈل جیتا ہے۔انہوں نے اسنیچ میں 144 کلوگرام اور کین اینڈ جرک میں 173 کلوگرام وزن اٹھایا۔
ریلوے اسٹیشنوں اور ٹرینوں میں کھانے پینےپر بغیر ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کے 5فیصد اشیا اور خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی )لگے گا۔اس سے پہلے ریلوے نے "نو بل فری فوڈ "پالیسی لانچ کی ہے۔ اس کا مطلب کھانے کا بل نہیں تو پیسہ نہیں۔ یہ نئی پالیسی ریلوے کے ذریعہ اس وجہ سے لائی گئی ہے ، کیونکہ ریلوے میں کئی مرتبہ کھانا خریدنے پر بل نہیں دیا جاتا ہے۔ ریل مسافروں کی بھی شکایت ہے کہ ان سے کھانے کی مقررہ قیمت سے زیادہ دام لئے جاتے ہیں۔
سرکاری اطلاع کے مطابق آئی آر سی ٹی سی یا ان کے وینڈروں کے ذریعہ ٹرین یا اسٹیشن کے پلیٹ فارموں پر دستیاب کرائی جارہی کھانے پینے کی اشیا پر 5 فیصد جی ایس ٹی لگے گا۔
سرکاری اطلاع کے مطابق آئی آر سی ٹی سی یا ان کے وینڈروں کے ذریعہ ٹرین یا اسٹیشن کے پلیٹ فارموں پر دستیاب کرائی جارہی کھانے پینے کی اشیا پر 5 فیصد جی ایس ٹی لگے گا۔
نو بل فری فوڈ پالیسی لانچ کرنے کا مقصد کھانے کی زیادہ قیمت کو روکنا ہے۔ ریلوے کا کہنا ہے کہ مسافرین اب کھانا لینے کے بعد اس کا بل مانگیں اور اگر کوئی وینڈر بل دینے سے انکار کرتا ہے ، تو اس کو کھانے کا پیسہ نہ دیں۔
نو بل فری فوڈ پالیسی لانچ کرنے کا مقصد کھانے کی زیادہ قیمت کو روکنا ہے۔ ریلوے کا کہنا ہے کہ مسافرین اب کھانا لینے کے بعد اس کا بل مانگیں اور اگر کوئی وینڈر بل دینے سے انکار کرتا ہے ، تو اس کو کھانے کا پیسہ نہ دیں۔
اس نئی پالیسی کا نوٹس بھی جاری کیا جاچکا ہے۔ یہ نئی پالیسی ٹھیک سے کام کررہی ہے یا نہیں اس کیلئے بھی ریلوے انسپکٹروں کو بحال کرے گا ۔
اس نئی پالیسی کا نوٹس بھی جاری کیا جاچکا ہے۔ یہ نئی پالیسی ٹھیک سے کام کررہی ہے یا نہیں اس کیلئے بھی ریلوے انسپکٹروں کو بحال کرے گا ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ریلوے کے افسروں نے اس پالیسی کو لانچ کرنے کی اہم وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ کھانا دینے والے وینڈر مسافروں کو مانگنے کے باوجود بل نہیں دیتے ہیں۔ گزشتہ سال اپریل سے اکتوبر کے درمیان ریلوے کو کھانا کی زیادہ قیمت وصول کئے جانے سے متعلق 7000 سے زائد شکایتیں موصول ہوئی تھیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ریلوے کے افسروں نے اس پالیسی کو لانچ کرنے کی اہم وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ کھانا دینے والے وینڈر مسافروں کو مانگنے کے باوجود بل نہیں دیتے ہیں۔ گزشتہ سال اپریل سے اکتوبر کے درمیان ریلوے کو کھانا کی زیادہ قیمت وصول کئے جانے سے متعلق 7000 سے زائد شکایتیں موصول ہوئی تھیں۔
عبدالباری قاسمیؔ
ریسرچ اسکالر شعبۂ اردودہلی یونیورسٹی دہلی
9871523432
[email protected]
فسانۂ آزاد پنڈت رتن ناتھ سرشارکی ایسی معرکۃ الآرا تصنیف ہے،جس نے نہ صرف یہ کہ سرشار کو تاریخِ اردو ادب کے صفحات میں ہمیشہ ہمیش کے لیے محفوظ کر دیا ؛بلکہ اردو ادب کو ایک نئی زبان،نیا اسلوب وانداز اور نئے طرزِ فکر سے آشنا کیا،سرشار نے اسیے ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں جہاں داستان گوئی اور مافوق الفطرت عناصر پر یقین کرنے کا عام رواج تھا،عام طور پر داستان گو حضرات طلسم و سحر اور مافوق الفطرت عناصر کے ذریعہ اپنی کہانیو ں کو رنگین اور دلچسپ بنانے کی کوشش کرتے تھے ،مگر سرشار نے ایک نئی راہ نکالی اور اپنی شاہ کار تصنیف جسے کوئی داستانی ناول،کوئی صحافتی ناول،تو کوئی داستان اور ناول کے درمیان کی کڑی کہ کر پکارتا ہے ،اس میں ماحول و معاشرہ کی ترجمانی اور عکاسی اس انداز سے کی کہ پوری دنیائے اردو ادب حیران رہ گئی ،اپنے اس لاجواب تصنیف میں سرشار نے نہ صرف یہ کہ عمدہ زبان ،نئے الفاظ ،دلفریب محاورے ،فصیح وبلیغ جملے اور چست بندشیں شامل کرکے اپنی زبان دانی اور فنکاری کا ثبوت دیا ہے،وہیں اپنے قارئین کو بولنے کا سلیقہ اور معاشرہ کو سمجھنے کا طریقہ بھی بتلایا ،ان کا پلاٹ اگرچہ کمزور ہے ؛مگر کرداروں اور ان کے مابین ایک اچھوتے انداز سے مکالمہ کراکے اس کمی کو دور کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور کامیاب بھی ہوئے ہیں ،ا س کی ادبی اہمیت کا اندازہ لگانے کیلیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ یہ پہلا ایسا شہ پارہ ہے جو کتابی شکل میں شائع ہونے سے پہلے قبولیت عام حاصل کرچکا تھا اور سرشار کو مبارکبادیوں کے سینکڑوں خطوط موصول ہونے شروع ہوگئے تھے،رتن ناتھ سرشار کا یہ داستانی ناول چوں کہ قسط وار اودھ پنچ اخبار میں شائع ہوا تھا ،اس لیے پلاٹ میں نحافت اور ضعف ہے ،مگر اس کی کمی مزاحیہ اور لازوال کردار خوجی نے کر دی ہے اور سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ جیسا کردار استعمال کیا ہے ویسی ہی زبان بھی،نواب کی گفتگو نوابی انداز میں ہے اور بھٹیارن کی اسی کی طرح ،اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لکھنؤکے تہذیب و معاشرت کو سرشار کس قریب سے دیکھتے ،سمجھتے اور جانتے تھے ،انہوں نے سرور کی تقلید میں مسجع اور مقفی جملے ضرور استعمال کیے ہیں،مگر ایسا ماحول تیار کردیا ہے کہ قاری پرذرہ برابر اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا اور وہ کچھ اور کچھ کے طلب میں غرق ہو جاتا ہے ہم اس مضمون میں مختصرا سرشار اور فسانہ آزاد اور اس کی ادبی اہمیت کا جائزہ لیں گے ۔
رتن ناتھ سرشار کا مختصر تعارف: پنڈت رتن سرشا ر کے والد کا نام بیج ناتھ در تھا ،سرشار کی پیدائش کے متعلق محققین نے مختلف آرا کا اظہار کیا ہے،پریم پال اشک نے ان کی تاریخ پیدائش ،۵؍ جون ۱۸۴۶ ء لکھاہے جبکہ جمیل جالبی اور چکبست نے ۱۸۴۷ ء قرار دیا ہے اور تاریخ وفات جمیل جالبی اور پریم پال اشک نے ۲۷؍ جنوری ۱۹۰۲ ء اور چکبست نے ۲۱ ؍ جنوری ۱۹۰۳ لکھا ہے ،ان کا تعلق کشمیری پنڈت گھرانے سے تھا ،ان کے والد بغرض تجارت کشمیر سے ہجرت کرکے لکھنؤآگئے تھے اور پورے طور پر لکھنؤ کے تہذیب و معاشرت میں رنگ گئے تھے ،فارسی اور عربی کی تعلیم مدرسہ میں اور انگریزی تعلیم کنگ کالج لکھنؤمیں حاصل کی ،ادبی سفر کا آغاز ’’مراسلۂ کشمیر‘‘ سے کیا ،البتہ نئے طرز تحریر کی ابتدا اودھ اخبار سے کیا ،اس کے بعد مختلف اداروں میں ملازمت کرنے کے بعدحیدرآباد تشریف لے گئے اور وہاں بھی دبدبۂ آصفی کے نام سے ایک رسالہ نکالنا شروع کیا جو کچھ ہی عرصہ بعد بند ہو گیا اور وہیں انتقال بھی کیا ،سرشار کی بہت سی تصانیف اور بہت سے ترجمے ہیں ،جیسے شمس الضحی ٰ،فسانۂ آزاد،اعمال نامہ روس،جا م سرشار،سیر کہسار،کامنی،خمکدۂ سرشار،پی کہاں،بچھڑی دلہن ،شاخ بنات اور الف لیلہ کا ترجمہ کافی اہمیت کے حامل ہیں،مگر ان کی اصل مقبولیت فسانۂ آزاد کی وجہ سے ہوئی حالاں کہ مشہور ہے کہ سرشار لا ابالی پن میں رہتے تھے اور کاتب ان کا کالم لکھنے کے لیے ڈھونڈتا رہتا تھا ،اسی سے ان کی فنکاری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،اگر انہوں نے سنجیدگی اور حضوری دل سے اس شاہ کار تصنیف کو لکھا ہوتا تو اس کی اہمیت کیا ہوتی ؟ جمیل جالبی نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ ’’یہی وجہ ہے کہ ان کی تصانیف میں خصوصاً فسانۂ آزاد میں بلا ضرورت تکرار بہت زیادہ ہے ،لیکن طباعی کی اسی فراوانی معلوم ہوتا ہے کہ ایک دریا ہے کہ بہتا چلا جا رہا ہے‘‘(۱)
فسانۂ آزاد۔ وجہِ تصنیف اور سن تصنیف: فسانۂ آزاد پنڈت رتن ناتھ سرشار نے اودہ پنچ اخبار میں ۱۸۷۸ ء سے ۱۸۷۹ ء کے درمیان قسط وار شائع کی تھی اور کتابی شکل میں پہلی مرتبہ ۱۸۸۰ ء میں منظر عام پر آئی ،اس کی چارضخیم جلدیں ہیں جو سواتین ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ،اس کی وجہِ تصنیف کے تعلق سے بھی لوگوں نے مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے،بعض حضرات نے اسے اصلاح معاشرہ سے تعبیر کیاہے تو بعض نے انہیں نثر کی دنیا کا حالیؔ قرار دے کر مصلح قوم قرار دینے کی کوشش کی ہے،مگر بہت ہی اہم وجہ پریم پال اشکؔ نے اپنی کتاب میں بیان کی ہے’’جب سرشار کھیری سے لکھنؤ آئے تو یہاں شب و روز یاران دقیقہ رس و صحیح نفس کی صحبت میں گزرتے تھے ،اس صحبت میں جہاں ایک سے ایک طرار اور حاضر جواب موجود ہوتا تھا وہیں منشی سجاد حسین ایڈیٹر اودھ پنچ اور پنڈت تربھون ناتھ ہجرؔ بھی شریک ہوا کرتے تھے ،اسی صحبت میں ایک روز پنڈت تربھون ناتھ ہجرؔ نے کہا کہ اگر کوئی ناول ایسا ہے کہ جس کا ایک صفحہ پڑھیے اور ممکن نہیں کہ بیس مرتبہ نہ ہنسیے تو وہ ڈان کوٹکسائٹ ہے ،اگر اردو میں اس طرز کا افسانہ لکھا جائے تو خوب ہے ،حضرت سرشار کے دل پر اس وقت کی بات ایسی کارگر ہوئی کہ اردو میں ڈان کوٹکسائٹ کے انداز پر مضامین لکھنے کا شوق پیدا ہوا چنانچہ اودھ اخبارمیں مختلف مضامین شائع ہونے لگے ‘‘(۲)اس کے علاوہ جمیل جالبی نے بھی اسی انگریزی ناول کو اس کا محرک قرار دیا ہے مگر دوسرے انداز میں مذکورہ اقتباس دیکھیے جالبی نے اس تناظر میں کیا بات کہی ’’یہ وہ تصنیف تھی جس نے سرشار کو حد درجہ متاثر کیا تھا اور انہوں نے اسی کے انداز و ہیئت میں فسانۂ آزاد لکھا‘‘(۳)۔
پلاٹ و کردار: اس شاہ کار تصنیف کے پلاٹ میں ویسے توکئی جان نہیں ہے؛ اس لیے کہ کمزور اور غیر مربوط ہے ،اس کے علاوہ بعض حضرات کے کرداروں پر بھی غیر سنجیدگی او ر غیر متانتی کا الزام عائد کرتے ہیں ،مگر یہ حقیقت ہے کہ فسانۂ آزاد کی اصل شناخت قصہ و کہانی کی وجہ سے نہیں بلکہ کرداروں کی وجہ سے ہے،اس کے کرداروں میں اصل ہیرو آزاد ہے اور دوسرا مقام خوجی کا ہے جو افسانوی دنیا کا ایک لازوال کردار ہے،اگر صحیح نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو اس داستانی ناو ل میں جان اور کشش اسی خوجی کی وجہ سے ہے ،ان کے علاوہ حسن آرا،سپہر آرا ،نواب،مصاحب،راوی،چپراسی،مرزا،اللہ رکھی،بوا زعفران وغیرہ ہیں،ڈاکٹر جمیل جالبی فسانۂ آزاد کوطویل ناول کی طرح قرار دیا ہے اور چھ پلاٹ کی نشاندہی کی ہے،’’۱۔آزاد اور حسن آرا کا قصہ ،۲۔دوسرا قصہ ہمایوں فر اور حسن آرا کی بہن سہ پہر کے عشق سے تعلق رکھتا ہے ،۳۔تیسرے قصہ میں نواب ذوالفقار علی خاں کی بٹیر بازی کا قصہ بیان کیا گیا ہے،۴۔اللہ رکھی بازاری عورت ہے جو زندگی میں مختلف طبقوں سے گذرتی ہوئی دکھائی جاتی ہے،۵۔خوجی کے آزاد کے ساتھ اور الگ رہ کر مختلف واقعات میں پھنسنے کا قصہ ہے،۶۔متعدد چھوٹے قصے جو محلات میں پیدا ہوتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں ‘‘(۴)
اگر ان کرداروں پر تبصرہ کیا جائے تو بلا جھجک کہا جا سکتا ہے کہ خوجی کی شکل میں سرشار خو دہیں اور وہی اصل ان کے عین مزاج کے مطابق ہے جس تحریک کے تحت اس معرکۃ الآرا کتاب کی تصنیف کی ،پلاٹ کی کمزوری کی طرف جمیل جالبی اور پریم پال اشک دونوں نے اشارہ کیا ہے دیکھیے جالبی نے کیا تبصرہ کی ہے’’یہ سب پلاٹ نہایت درجہ نحیف ہیں اور ان کو ہزاروں صفحات پر پھیلاتے ہوئے سرشار لکھنوی معاشرے کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں‘‘(۵)پریم پال اشک نے اسی بات کو اس انداز سے تحریر کیا ہے’’پلاٹ کے نقطۂ نظر سے نہایت کمزور اور ناقص ہے ،البتہ جتنے بھی کردار پیش کیے ہیں اس نے زندگی کی صحیح ترجمانی کی ہے‘‘(۶)۔
زبان : فسانۂ آزاد کی اصل خوبی اس کی زبان ہے،چو کہ سرشار نے لکھنؤ کے ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں،ا س لیے ایک بھنگی سے لے کر نوابوں تک اور مردوں سے لے کر عورتوں تک ہر طبقہ اور صنف کی زبان کو کوبہت اچھی طرح جانتے تھے اور اس کا انہوں نے پورا حق بھی اداکیا ہے،جہاں جیسا کردار ہوتا ہے ویسی زبان بہ آسانی اختراع کر لیتے ہیں اور چوں کے انہوں نے مسلمان عورتوں کو بھی قریب سے دیکھا تھا اس لیے مسلمان اور ہندو دونوں گھرانوں کی عورتوں کے زبان کو بھی سلیقے سے ادا کرتے ہیں ،سرورؔ کی تقلید میں ابتدائی زبان مسجع ،مقفی اور رنگین ہے ،اس کے متعلق جالبی ؔ نے لکھا ہے کہ ’’سرشار ؔ کے بیان میں زبان کے لچھے ویسے ہی ہیں جیسے سرور کے ہاں ملتے ہیں ،مگر ان لچھوں میں واقعیاتی و حقیقی اور مزاحیہ عناصر نے بیان میں ایک نیا رنگ پیدا کر دیا ہے‘‘(۷)،پریم پال اشک نے فسانۂ آزاد کی زبان کا نقشہ اس انداز سے کھینچا ہے کہ ’’سرشار نے اپنے فن کے روپ میں اردو ادب کو زبان دی ،بولنے کاسلیقہ سکھایا ،نئے نئے محاورے ،نئے نئے الفاظ اور نئی نئی بندشیں ہی نہیں ؛بلکہ انہیں ادا کرنے کا ایک نیا ،لاجواب اور اچھوتا انداز بخشا ،سرشار اپنے فن میں طاق ہیں ،اس میں شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ‘‘(۸)۔
اسلوب: سرشار کا زمانہ چوں کہ سرور کے بعد کا ہے ،اس لیے سرشار پر ان کا رنگ گہرا ہے ،ثقیل اور بھاری بھڑکم الفاظ کا استعمال خوب کرتے ہیں ،مگر ایسا انداز بیان اختیار کرتے ہیں کہ جس سے ان کے کلام میں ندرت او ررنگینی پیدا ہوجاتی ہے،بطور نمونہ ایک اقتباس’’ آزاد : بندہ پرور مجھے جو کچھ صلواتیں سنانا ہوسنالیجیے ،الو بنا لیجیے مگر برائے خدا ایسے طبیب النفس ،فخر بنی نوع انساں ،بلیغ نکتہ داں بزرگوار کے حق میں توکلمات خرافات زبان سے نہ نکالیے ‘‘(۹)
مزاح : سرشار نے چوں کہ ایک نئے انداز سے لکھنؤ کے معاشرت کی عکاسی اور اس پر چوٹ کی ہے،اس لیے جا بجا مزاحیہ باتوں کا سہارا لیتے ہیں اور ان کا کوئی کردارایسا نہیں ہے ،جس پر مکمل طور پر سنجیدگی ہو سب کے ذمہ کچھ نہ کچھ مزاح ضرور ہے اور سرشار کا سب سے اہم کرادر خوجی ت ومزاح کا امام ہے ،اس کا تعارف ہی اس انداز سے ہوتا ہے کہ قاری ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا ’’ٹھگنا سا قد،منحنی سی گردن،لمبوترا چہرہ ،اس پر بکرے جیسی لمبی ڈاڑھی ،اور ساٹھ سال کی عمر ‘‘اس کے علاوہ خوجی اور آزاد کے درمیان جو گفتگو ہے وہ بھی مزاح کی عمدہ مثال ہے’’ خوجی : (آزاد سے ) اب طبیعت کیسی ہے؟ آزاد: مر رہا ہوں ،خوجی : الحمد للہ ،آزاد : خدا کی مار تجھ پر دل لگی کا بھی کیا بھونڈا وقت ہاتھ آیا ہے،جی چاہتا ہے اس وقت زہر کھالوں ،خوجی: نوش جاں اور اس میں تھوڑی سی سنکھیا بھی ملا لیجیے گا‘‘(۱۰)۔
مکالمہ نگاری : سرشار نے مکالمہ نگاری بڑی فنکاری سے کی ہے ،وہ مکالمہ میں گفتگو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ کردار کا معاشرتی اور تہذیبی نقشہ بھی واضح ہو جاتا ہے،یہی ان کا کمال ہے کہ اگر کردار اشراف سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی زبان بھی علمی ہوتی ہے او ر اگر بازاری ہے تو وہی بازاری اور ابتذال آمیز زبان اسے عطاکرتے ہیں ،اسی وجہ سے ان کی اس گرامایہ تصنیف میں جان پڑ گئی ہے ،ابتدا میں تو بیانات زیادہ ہیں مگر جوں جوں تصنیف آگے بڑھتی گئی مکالمات بڑھتے گئے ہیں ،اسی لیے جمیل جالبی نے تبصرہ کیا کہ ’’یہ تصنیف مکالموں کی وجہ سے زندہ ہے‘‘ ’’اس نے مکالموں سے اپنے کرداروں اور خصوصاً خوجی کے کردار کو زندۂ جاوید کرکے ہمیشہ کے لیے ہمارے ساتھ کر دیا ہے ،مکالمے اور کردار ہی اس تصنیف کو زندہ رکھیں گے ‘‘(۱۱)۔
لکھنوی معاشرت کی عکاسی: سرشار چوں کہ لکھنؤ کے طرز معاشرت اور وہاں کی تہذیب کو بہت اچھی طرح جانتے تھے ،اس لیے انہوں نے اپنے اس تصنیف میں لکھنؤ کی روبہ زوال تہذیب کی سچی نمائندگی کی ہے ،انہوں نے لکھنوی تہذیب کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ آج بھی ان کی اس کتاب کو پڑھ کر اس وقت کی تہذیب کا نقشہ دیکھ سکتے ہیں،انہوں نے ہر اعتبار سے اس تہذیب کی منظر کشی کرنے کی کوشش کی ہے،خواہ تعیش پسندی ہو،مذہبی عقائد یا پھر علمی اور ادبی ذوق کا معاملہ سب کو اسی انداز سے بیا ن کیا ہے ،جمیل جالبی اس تعلق سے اظہار خیال کیا ہے کہ ’’فسانۂ آزاد نے لکھنوی معاشرت کی ایسی بھرپور ترجمانی کی ہے کہ آج بھی ہم فسانۂ آزاد کے مطالعہ سے اس تہذیب کے خدو خال نمایاں کر سکتے ہیں‘‘(۱۲)،ڈاکٹر لطیف حسین نے لکھاہے کہ ’’سرشارکا فسانۂ آزاد غدر کے بعد کے انحطاط پذیر لکھنوی تمدن کی سچی تصویر ہے ‘‘(۱۳)۔
حقیقت نگاری : سرشارنے لکھنؤ کے معاشرہ و تہذیب کی سچی اور حقیقی منظر کشی کی ہے،مصنوعی اور مبالغہ آمیزی کا احساس خوب ہوتا ہے ،ان کے کرداروں میں بھی عیش پسندی اور لذت اندوزی کا رنگ جھلکتا ہے،مگر حقیقت ہے کہ اس وقت لکھنؤ کا ماحول ہی کچھ ایسا تھا او ظاہر سی بات ہے کہ جب کوئی ادیب روبہ زوال تہذیب کی منظر کشی کرے گا تو وہی چیزیں نگاہ میں آئیں گی ہی ،یہ الگ بات ہے کہ ان کی مزاح نگاری میں میں بے ڈھنگا پن کا احساس ہوتا ہے ،اس کے باوجود اس زوال پذیر معاشرہ پر مزاح کے سانچے میں ڈھال کر ایسا طنز کرتے ہیں کہ اس کی نظیر نہیں ملتی ،ان کی یہ معرکۃ الآراء کتاب طویل اور ضخیم ضرور ہے ،مگر انہوں نے صرف معاشرہ کی سچی تہذیبی جھلکیوں سے ہی صفحات پر کیے ہیں ،مافوق الفطرت عناصر کا بالکل سہارا نہیں لیا ہے یہ ان کا کمال ہے ۔سہیل بخاری نے سرور اور سرشارکا اس تناظر میں موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’سرور کا لکھنؤ قبرستان ،وحشتناک ،ویران اور سنسان ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے غنیم کے حملے سے بیشتر مکیں اپنے اپنے مکان چھوڑ کر شہر سے نکل گئے ہیں ،سبھی کچھ موجود ہے ،مگر آدمی مطلق نہیں واں نام کو ،سرشار کے یہاں آدمیوں کا جنگل ہے اور واقعات کا سیلاب ،مختصر یہ کہ سرور سے زندگی اور سرشار سے موت پناہ مانگتی ہے ‘‘(۱۴)،ڈاکٹر لطیف حسین ادیب نے لکھا ہے کہ ’’سرشار حقیقت نگار تھے ،انہوں نے معیاری چیزوں کو چھوڑدیا اور جو کچھ وہ روزانہ اپنے گردو پیش دیکھ رہے تھے ،اس کی مرقع کشی کی ،سرشار کی تصنیفات اس نظر سے دیکھی جانے کی مستحق ہے ،ان کو معیارِ اخلاق یا معیار شرافت سمجھنا حددرجہ غلطی ہے ،وہ ایک زوال پذیر سو سائٹی کا نقشہ کھینچ رہے تھے اور یہ یاد رکھیے کہ زوال پذیر سوسائٹیوں کا کسی طرح معیار بلند نہیں ہوتا ‘‘(۱۵)۔
خلاصہ: فسانۂ آزاد جسے پنڈت رتن ناتھ سرشار نے اودھ اخبار میں قسط وار شائع کیا،اردو ادب میں بہت ہی بلند مقام رکھتی ہے،یہ الگ بات ہے کہ اس کے پلاٹ میں کمزوری ہے،مگر دوسرے فنی اور ادبی محاسن اس قدر موجود ہیں جو اس ضعف کو سامنے آنے نہیں دیتے ،زبان وبیان کی چاشنی ،نئے نئے الفاظ و محاورات اور عمدہ مکالمات و اسلوب کے ذریعہ سرشار نے لکھنؤ کی زوال آمادہ تہذیب کی ایسی منظر کشی کی ہے کہاس کی نظیر نہیں ملتی اور اس کے ادب میں بلند مقام ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ نہ صرف یہ ا س کی ادبی اہمیت کا تمام نقادان فن نے اعتراف کیا ہے ،بلکہ آج تک ادبی دانش گاہوں کے نصاب کا حصہ ہے ،اس سے بڑھ کر مقبولیت کی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے۔
حوالہ جات: (۱)۔تاریخ ادب اردو جمیل جالبی جلدچہارم حصہ دوم ص: ۱۳۴۸،(۲) رتن ناتھ سرشار ایک مطالعہ ص:۲۸،
(۳) تاریخ ادب اردو جمیل جالبی جلدچہارم حصہ دوم ص:۴۴۔۱۳۴۳،(۴)ایضاً ص: ۱۳۵۲،(۵) ایضاً ص :۱۳۵۳،(۶) رتن ناتھ سرشار ایک مطالعہ ص: ۵۴،(۷) تاریخ ادب اردو جمیل جالبی جلدچہارم حصہ دوم ص:۱۳۵۳،(۸)رتن ناتھ سرشار ایک مطالعہ ص:۵۸،(۹)فسانۂ آزاد تلخیص ص: ۱۲(۱۰) ایضاً ص :۱۱(۱۱)تاریخ ادب اردو جمیل جالبی۱۳۵۶،(۱۲)ایضاً ص:۵۵۔۱۳۵۶(۱۳)رتن ناتھ سرشار کی ناول نگاری ص:۳۹۵،(۱۴)اردو ناول نگاری مصنفہ سہیل بخاری(۱۵)رتن ناتھ سرشار کی ناول نگاری ۔
ABDULBARI,D-29,SHAHEEN BAGH,ABUL FAZAL ENCLAVE PART 2,JAMIA NAGAR,OKHLA,
NEW DELHI -25
عبدالباری قاسمی ؔ
زہر عشق نواب مرزاشوقؔ لکھنوی کی معرکۃ الاراء مثنوی ہے ،یہ مثنوی اختصار،شدت جذبات،زبان و بحان کی سادگی،محاورات کی برجستگی،مکالمہ نگاری،خوبصورت موسیقیت اور بہترین تہذیبی عکاسی کی وجہ سے ادب میں بہت اہم مقام رکھتی ہے اور اس کا شمار اردو کی اہم ترین مثنویوں میں ہوتا ہے،زہر عشق گرچہ ایک مختصر عشقیہ داستان ہے ،اس میں نہ بہت سے مناظر ہیں اور نہ ہی کرداروں کی بھر مار ،نہ مافوق الفطرت عناصر ہیں اور نہ ہی بادشاہ و ساحر ،اس کے باوجود مرزا شوقؔ نے اس انداز سے بیان کیا ہے کہ ان کی مہارت پر اچھے اچھے ادیب و شاعر انگشت بدنداں نظر آتے ہیں ،انہوں نے لکھنؤ کی بیگماتی زبان ،ضرب الامثال اور محاورات کو فنکارانہ انداز سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کی معاشرتی جھلکیوںں کو جس لطیف پیرایہ میں سمویا ہے قابل دید ہے ویسے نمونے خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں ،زہر عشق کا واقعہ گرچہ روایتی ہی ہے؛مگر جذبات نگاری اس قدر اتم درجہ ہے کہ قاری اسے اپنا رنج و غم سمجھنے لگتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ ایک فرضی قصہ کو شوقؔ اصل اور حقیقت کا روپ دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو غلط نہیں ہوگا، یہی وجہ ہے کہ بہت سے نقادان فن نے اس کی ادبی حیثیت و اہمیت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ اس کے واقعہ کو بھی سچا قرار دینے پر مجبور ہوئے ہیں اور مرزا شوقؔ کے پہلے تذکرہ نگار عطاء اللہ پالوی نے تو اسے خود شوق ؔ کاذاتی واقعہ قرار دیا ہے ،اس میں ۴۵۵ اشعار ہیں بیان کا انداز بھی عام مثنویوں کی طرح ہی ہے؛مگر شوقؔ نے اپنے فن کو بروئے کار لاکر اسے منفردمقام پر کھڑا کر دیا ہے ورنہ اس میں کچھ خامیاں بھی ہیں اس کے باوجود انہوں نے جذبات نگاری اور سوزوگداز کے ذریعہ ان خامیوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور قاری پرایسا گہرااثر ہوتا ہے کہ وہ فنی خامیوں پر توجہ نہیں دے پاتا اس مقالہ میں میں نے زہر عشق کا مختلف حیثیتوں سے جائزہ لیں گے جس سے جہاں اس کی ادبی مسلہ حیثیت واضح ہو جائے گی وہیں مرزا شوق ؔ کا ادبی مقام بھی نمایاں نظر آنے لگے گا ۔
نواب مرزا شوقؔ کی مختصر حالات زندگی:
حکیم تصدق حسین نام ،نواب مرزا عرفیت اور شوقؔ تخلص تھا ،انکے والد کا نام آغا علی خاں تھا ،خاندانی پیشہ طبابت تھا، 1783 ء میں لکھنؤ میں پیداہوئے ،انہوں نے ایسے عہد میں آنکھیں کھولی تھیں کہ جب لکھنؤ میں ہر طرف شعر و سخن کا بول بالا تھا،اس ماحول نے انہیں بھی متاثر کیااور دیگر شعرا کی طرح غزلوں کے ذریعہ اپنی شعری سفر کا آغاز کیا اور خواجہ آتش ؔ کو اپنا استاذ بنایا ،شوخی،عیش پسندی اور مز اج میں رنگینی بچپن سے ہی تھی ا ور اس ماحول میں ان صفات کا پیدا ہونا بھی ناگزیر تھا ،واجد علی شاہ کے دربار سے وابستہ ہوئے جہاں انہیں پانچ سو روپیے وظیفہ ملتا تھا،جو ن 1871 ء کو لکھنؤ میں ہی ان کا انتقال ہوا ۔
شعری سرمایہ:
شوقؔ نے چوں کہ شاعری کا سفر غزل سے شروع کیا تھا ؛اس لیے غزلوں کے کچھ نمونے اور ایک واسوخت اور مثنویات ملتے ہیں،انتخاب مرزاشوقؔ کے مرتب شاہ عبدالسلام نے ان کے غزلوں کے نمونے مختلف مقامات سے یکجا کرکہ اکتالیس اشعار تک پہنچایا ہے ؛مگر ان کی غزلوں میں مکمل طور پر مثنوی کا رنگ غالب ہے،ان کی غزلیہ شاعری شوخی و ندرت ،سوز و گدازاور وارفتگی سے خالی ہے۔ غزلیہ شاعری کا نمونہ
جلوے نہیں دیکھے جو تمہارے کئی دن سے اندھیر ہے نزدیک ہمارے کئی دن سے
غزل کے علاوہ ایک واسوخت ان کا ملتا ہے ،اس میں اکتالیس بند مسدس کی ہیئت میں ہیں ،ان کے واسوخت میں بند ش کی چستی اور طبیعت کی روانی دیکھی جا سکتی ہے نمونہ
اب تو ہے اور ہی کچھ چہرۂ زیبا کی بہار دن میں آرائش تن ہونے لگی سو سو بار
مثنویات شوق:
مرزا شوق ؔ کا اصل سرمایہ ء شاعری ان کی مثنویات ہیں ان کی مثنویوں کے متعلق خلیق انجم نے لکھا ہے کہ’’نواب مرِزا شوق لکھنوی کی مثنویاں دبستان لکھنؤ کے ادبی ذخیرے کا قابل قدر حصہ ہیں ،یہ ٹھیک ہے کہ کہانی کے لحاظ سے تو ان کی تینوں مثنویاں فریب عشق ،بہار عشق اور زہر عشق کا احوال ایک سا ہے کہ نہ واقعات کے پیچ و خم ہیں ،نہ کردار نگاری کی رنگا رنگی ؛لیکن زبان لکھنؤ کی نفاست اور لطافت کی جیسی آئینہ داری یہ مثنویاں کرتی ہیں وہ بات دوسروں کے یہاں اس انداز سے نظر نہیں آتی‘‘(۱)انکی مثنویوں کی تعداد کے متعلق محققین میں اختلاف ہے ،خم خانۂ جاوید میں ان کی مثنویوں کی تعداد چار لکھی ہے ،بہار عشق،زہر عشق،فریب عشق اور لذت عشق ،عبدالماجد دریابادی نے اس تعلق سے اپنا خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’مثنویاں منسوب تو ان کی جانب کئی ہیں ؛لیکن لذت عشق کی زبان قطعا شوقؔ کی زبان نہیں ‘‘(۲)گیان چند جین نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ’’ اس کی زبان شوق تو درکنار اس عہد کے دوسرے مثنوی نگاروں سے بھی پست ہے،اس کی زبان پکار پکار کر کہ رہی ہے کہ میں شوقؔ کی تراوش خامہ نہیں ہوں‘‘(۳)ان کے علاوہ حالیؔ ،ڈاکٹر ابوللیث صدیقی اور امداد امام اثر نے چار مثنویوں کو ان سے منسوب کیا ہے؛مگر شوقؔ کے پہلے تذکرہ نگارعطاء اللہ پاؤی اور رشید حسن خاں نے تین ہی مثنویوں کو ان سے منسوب کیا ہے اور عطاء اللہ پالوی نے چوتھے مثنوی کو شوق کے بھانجے آغا حسن نظمؔ کی طرف منسوب کیا ہے ۔
فریب عشق:
ویسے تو اس میں بھی اختلاف ہے کہ شوقؔ کی پہلی مثنوی کون سی ہے ؛مگر راجح قول کے مطابق شوقؔ کی پہلی مثنوی فریب عشق ہے یہ 1846 ء میں مکمل ہوئی ،اس میں 428اشعار ہیں ،اس مثنوی کا تعارف عطاء اللہ پالوی نے اس انداز سے کرایا ہے’’اس مثنوی کے ذریعہ اہل لکھنؤ کو علی الاعلان اس سے آگاہ کیا کہ اس وقت کربلا ،درگاہ اور وہ سارے مقامات مقدسہ جہاں جہاں مذہبی آڑلے کر اجتماع مردوزن ہو کرتا ہے شبستان عیش و آوارگی کا اڈہ بنے ہوئے ہیں اور ہماری عورتیں وہاں ہر گز تزکیہ ء نفس کیلیے نہیں ؛بلکہ تسکین نفس کے لیے جایا کرتی ہیں ‘‘۔
بہار عشق:
یہ مرزا شوقؔ کی دوسری مثنوی ہے 1847 ء میں منظر عام پر آئی،اس میں 842اشعار ہیں ،یہ بھی اس عہد کی تہذیبی عکاسی کی آئینہ دار ہے،اس میں زبان ،محاورے اور روز مرہ کی چاشنی کے ساتھ ساتھ سادگی اور سلاست کی عمدہ مثال ہے ،سراپا نگاری بھی اس میں خوب ہے عطاء اللہ پالوی نے اسے عجیب و غریب مثنوی قرار دیا ہے ۔
زہر عشق:
شوقؔ کی تیسری مثنوی زہر عشق ہے،اس کی بھی سن تصنیف میں مختلف آراء نظر آتے ہیں ،شاہ عبدالسلام نے 1860 ء سے1882 ء کے درمیان قرار دیا ہے ،نظامی بدایونی نے 1861 ء؛مگر اس باب میں بھی راجح قول رشید حسن خاں کا ہے ،انہوں نے سن تصنیف 1861 ء کا قریبی زمانہ قرار دیا ہے ،اس میں 455اشعار ہیں ۔
مثنویات شوق ؔ کا ماخذ:
شوق ؔ کی مثنویوں کے اصل ماخذ کیا ہیں؟ اس سلسلہ میں بھی محققین آپس میں بہت اختلاف آراء کے شکار ہوئے ہیں،بعض حضرات نے مثنویات مومنؔ کو ماخذ قرار دیا ہے تو بعض نے میر اثر کے خواب و خیال کو الطاف حسین حالیؔ بھی انہیں لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے خواب و خیال کو ماخذ قرار دیا ہے ،اس سلسلہ میں راجح قول گیان چند جین نے پیش کیا ہے کہ’’حقیقت یہ ہے کہ شوقؔ نے اپنی مثنویوں کا موضوع خود ہی اختراع کیا ،محض وصل کے بیان میں اس نے دوسرے شعراء کے کلام کو پیش نظر رکھا ،بہار عشق میں میرؔ کے انداز میں تو صیف عشق بھی ہے ،یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ شوقؔ نے کسی ایک شاعر سے متاثر ہوکر یہ مثنویاں لکھیں؛ بلکہ اس نے میر اثر ،مومن اور شاید قلق ؔ سب کے شعلہ سے اپنا چراغ روشن کیا ‘‘(۴)گیان چند جین دوسری جگہ اس انداز سے مومن ؔ اور شوقؔ کی مماثلت کو بیان کرتے ہیں ’’مومن ؔ اور شوقؔ کی مماثلت محض وصل کے اشعار تک محدود نہیں ،یہ محض الفاظ یا متفرق اشعار کی مماثلت نہیں ؛بلکہ مفہوم اور موضوع کی یکسانی ہے جس سے کوئی شبہ نہیں رہتا کہ شوقؔ نے مومنؔ کی تمام مثنویوں کا مطالعہ کیا تھا،ان کے خیالات اور الفاظ اس کے دماغ میں گھومتے رہتے تھے ؛لیکن شوق ؔ کی کوثر سے دھلی زبان،وحدت تاثراور شدت جذبات اس کی مثنویوں کو مومنؔ سے کہیں آگے بڑھا دیتی ہے‘‘(۵)۔رشید حسن خاں نے حالیؔ کے قول خواب و خیال سے ماخوذ کو اس انداز سے رد کیا ہے کہ ’’حالیؔ نے یہ جو لکھا ہے کہ خواب وخیال کے اکثر مصرع اور شعر بہار عشق میں تھوڑے تھوڑے تفاوت سے موجود ہیں تو یہ بات کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ‘‘(۶)ان اقوال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مثنویات شوقؔ کے اصل ماخذ کیا ہیں؟؛مگر یہ حقیقت مسلم ہے کہ شاعر جن چیزوں کا مطالعہ کرتا ہے اس کا کچھ نہ کچھ اثر تو اس کے کلام میں آتا ہی ہے ،صرف اس بنا پر کسی کلام کو مکمل طور پر ماخذ قرار دینا درست نہیں اور رہا مسئلہ مرزا شوقؔ کا تو انہوں نے جس انداز سے اس عہد کی تہذیبی عکاسی کی ہے کہ نہیں لگتا کسی ایک کے کلام سے مکمل ماخوذ ہو ۔
زہر عشق کا قصہ:
ایک دولت مند تاجر کی نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی جو اکلوتی تھی جس کی وجہ سے اس کے والدین اس سے بے انتہا محبت کرتے تھے ،اس کی خوبصورتی کو اس اندازسے شوق ؔ نے بیان کیا ہے
ثانی رکھتی نہ تھی وہ صورت میں غیرت حور تھی حقیقت میں
سبز نخل گل جوانی تھا حسن یوسف فقط کہانی تھا
ایک مرتبہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ وہ لڑکی بام پر گئی ،وہیں ایک پڑوسی لڑکے سے نگاہ چار ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہو گئے ،شوق ماما کے ذریعہ لڑکی نے خط بھجواکر اپنی محبت کا اظہار کیا ،اس کے بعد خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہو گیا اور چھپ کر ملاقاتیں بھی شروع ہو گئیں ؛مگر لڑکی کے والدین اس حقیقت سے واقف ہو گئے اور انہوں نے لڑکی کو بنارس بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ،اس سے لڑکی بہت دلبرداشتہ ہوئی اور اس نے جدائی پر موت کو ترجیح دینے کا فیصلہ کر لیا ،پھر آخری ملاقات ہوئی،لڑکی نے اپنے فیصلے سے لڑکے کو آگاہ کیا اور مختلف نصیحتیں کیں ،لڑکے نے سمجھانے کی کوشش کی؛مگر وہ نہیں سمجھی اور اس سے رخصت ہونے کے بعد زہر کھا لیا،لڑکا ابھی پس و پیش میں ہی مبتلا تھا کہ اس کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا اور شور برپا ہوا جس کی وجہ سے عاشق کو اندازہ ہواکہ شاید وہ اپنا فیصلہ وفا کر گئی
مر گئی تھی جو مجھ پہ وہ گلفام زندگی ہو گئی مجھے بھی حرام
اور عاشق نے بھی زہر کھا لیا جس کی وجہ سے تین دن تک غشی طاری ر ہی،اسی دوران اس نے لڑکی کو خواب میں دیکھا کہ وہ اپنی وصیت یاد دلا رہی ہے ،فورا لڑکے کو ہوش آگیا اور لوگ مبارکباد دینے لگے ۔
زبان و بیان:
زبان و بیان کے اعتبار سے یہ مثنوی امتیازی مقام رکھتی ہے ؛اس لیے کہ شوقؔ لکھنؤ کی بیگماتی زبان ،ضرب الامثال اور محاورات پر کافی دسترس رکھتے تھے ،انہوں نے جس سادگی،صفائی،بے ساختگی اور برجستگی سے اپنی مثنوی لکھی ہے کہ قاری کو ذ رہ برابر بھی اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا اور وہ ان کے زبان و بیان میں کھو جاتا ہے ،ڈاکٹر شمیم انہونوی نے اس تعلق اس انداز سے اظہار خیال کیا ہے کہ ’’میر انیس اور مرزا شوق نے زبان و بیان کے ایسے کارنامے پیش کیے جن کی مثال لکھنوی ادب میں ملنی محال ہے،شوق کی مثنوی کی سب سے خاص خوبی اس کی سادہ و شستہ زبان ہے جہاں تکِ زہر عشق کی زبان کا تعلق ہے اس دور کی کوئی بھی شعری زبان اس پر سبقت نہیں لے جا سکتی ‘‘(۷)۔
کھاتے ہو نہ پیتے ہو نہ سوتے ہو روز اٹھ اٹھ کے شب کو روتے ہو
نہیں معلوم کون ہے وہ چھنال کر دیا میرے لال کا یہ حال
میرے بچے کی جو کڑھائے جان سات بار اس کو میں کروں قربان
زہر عشق کے کردار :
اس مثنوی میں عاشق و معشوق دونوں کے والدین ایک شوق ماما ا ور عاشق کے چند دوستوں کو بطور کردار پیش کیا گیا ہے ،اس میں سب سے اہم ، مضبوط اور جری کردار لڑکی کا ہے،کمال یہ ہے کہ اس میں کسی بھی کردار کا نام نہیں ہے ،صرف مہ جبیں سے فراقؔ نے محبوبہ کا نام متعین کرنے کی کوشش کی ہے ،عام طور پر داستانوں میں عاشق کی طرف سے اظہار عشق ہوتا ہے اور عاشق کو اپنی محبوبہ کو پانے کے لیے صحراؤں کے خار چھاننے پڑتے ہیں؛مگر اس مثنوی میں اس کے بر عکس محبوبہ ہی کی طرف سے اظہار ہوتا ہے ،پھر خط کا جواب اس انداز سے دیتی ہے جیسے چھیڑنے اور چڑھانے لے لیے خط لکھا ہو اور بے محنت و مشقت حاصل بھی ہو جاتی ہے اور فراق و جدائی سے اس قدر نفرت کرتی ہے کہ بہت جلد اپنی جان بھی قربان کر دیتی ہے اور لڑکا آخر تک گھبراتا اور بدنامی سے ڈرتا نظر آتا ہے
کہ گئی تھی جو وہ کہ کھاؤں گی زہر میں یہ سمجھا کہ ہو گیا وہی قہر
گو حیا سے نہ اس کا نام لیا دونوں ہاتھوں سے دل کو تھام لیا
جذبات نگاری:
اس مثنوی میں جذبات نگاری بہت شدید ہے ،شوق کا کمال ہے کہ اس انداز سے انہوں نے جذبات کی عکاسی کی ہے کہ موہوم چیزیں بھی محسوس معلوم ہونے لگتی ہے اور انہیں جذبات فیصلوں پر ہی اس کہانی یلا تمثیل کا انحصار خواہ عاشق کی طرف سے جذبات کا اظہار ہو یا معشوقہ اور والدین کی طرف سے سخت سے سخت دل کو پگھلانے اور آنسو بہانے کی صلاحیت رکھتی ہیں ،آخری ملاقات میں جو مہ جبیں کی زبانی نصیحت ہے ا س سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے
اشک آنکھوں سے مت بہائیے گا ساتھ غیروں کی طرح جائیے گا
آپ کاندھا نہ دیجیے گا مجھے سب میں رسوا نہ کیجیے گا مجھے
آنسو چپکے سے دو بہا لینا قبر میری گلے لگا لینا
عاشق کی زبانی اس انداز سے جذبات کا اظہار ہے
مجھ پہ یہ دن تو کبریا نہ کرے تم مرو میں جیوں خدا نہ کرے
جان دیدوگی تم جو کھا کر سم میں بھی مر جاؤں گا خداکی قسم
آخری ملاقات کے منظر کے متعلق خواجہ احمد فاروقی نے لکھا ہے کہ ’’یہ منظر نہایت دل دوز ہے اور اثر انگیزی کے لحاظ سے شاید ہی اس کی کوئی مثال اردو لٹریچر میں مل سکے ‘‘(۸)
لکھنؤ کی تہذیبی جھلکیاں:
شوقؔ کی اس مثنوی میں سوزو گداز ،عمدگئی زبان،سلاست،سادگی ،حسن بیان اورمکالمہ نگاری کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کی تہذب کی عکاسی بھی نظر آتی ہے ،مسجدوں میں روشنی کرنا ،درگاہوں میں چوکی بھرنا ،نظر بد سے بچنے کے لیے کالا دانہ اتارنا ،رائی لون نکالنا ،جمعرات کو درگاہوں کو جانا ،نوچندی میلہ ،مارے غم کے بال کھلے رکھ کر میت کے ساتھ جانا ،بر پر قرآن پڑھنا ،فاتحہ دینا،مٹی دینا،بن بیاہی لڑکی کے جنازے پر سہرا باندھنا اور منت بڑھانا وغیرہ لکھنؤ کی تہذیب کا حصہ تھا ،یہ چیزیں اس مثنوی میں نظر آتی ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرزا شوق ؔ لکھنؤ کی تہذیب کو کس قدر باریکی سے جانتے اور اس کو مثنوی میں بیان کرتے ہیں ۔
زہر عشق کی ادبی اہمیت:
زہر عشق کے اندر وہ تمام خوبیاں اتم درجہ موجود ہیں جن کا کسی ادبی شہ پارے میں پایا جانا ضروری ہے ،مرزا شوق نے زبان و بیان محاورات و ضر ب الامثال ،شدت جذبات ،مکالمہ نگاری ،منظر کشی اور لکھنؤ کی تہذیب کو جس انداز سے اس مثنوی میں سمویا ہے یہ صرف اور صرف ان کا ہی حصہ ہو سکتا ہے؛یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑے نقادان فن نے نہ صرف یہ اس کی ادبی اہمیت و افادیت کو تسلیم کیا ہے ؛بلکہ معرکۃ الاراء اور چوٹی کی مثنویوں میں اس کو شمار کیا ہے ،خواجہ احمد فاروقی نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ ’’مثنوی زہر عشق اردو شاعری میں زبان و بیان ،سیرت نگاری ،نفسی واردات اور اپنےِ خیالی رنگ کے اعتبار سے بڑی مکمل چیز ہے ،اس میں لکھنؤ کے زوال پذیر ماحول کی اچھی ترجمانی کی گئی ہے ،اس مرقع میں جتنی تصویریں ہیں و ہ صاف اور روشن ہیں ‘‘(۹)سید سجاد ظہیر نے ا س کی ادبی اہمیت کا اس انداز سے اعتراف کیا ہے ’’مرزا شوق ؔ کی مثنوی زہر عشق تاثر،سلاست،شیریں بیانی،حقیقت نگاری اور گہری الم ناکی کی وجہ سے اردو ادب میں شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے ‘‘،زہر عشق کے اندر چند فنی خامیاں ضرور ہیں جذبات نگاری میں اس قدر بہ گئے کہ عورت کی زبانی ایسے الفاظ کہلوا دیے جو بازاری عورتیں کہتی ہیں ،اسی طرح قافیہ کے التزام میں بھی ان سے چوک ہوئی ہے
خاک میں ملتی ہے یہ صورت عیش پھر کہاں ہم کہاں یہ صورت عیش
اس شعر میں ایک جگہ قافیہ ہے اور دوسری جگہ کہاں ہے ،حالاں کہ قافیہ بندی میں اتحاد لازمی چیز ہے ،اس کے باوجود زبان وبیان اور دیگر فنی محاسن کا انہوں نے اس مختصر مثنوی میں ایسا جادو بکھیرا ہے کہ اس کی خامیوں نے بھی خوبیوں کا لبادہ اوڑھ لیا ہے ،پروفیسر گیان چند نے اس کی ادبی اہمیت کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ’’ہیروئن نے دنیا کے فانی ہونے پر جو عبرت انگیز تقریر کی ہے اردو مثنویوں میں اس کا جواب نہیں ،ا ن اشعار میں وہ ساری کیفیات ہیں جس کی نظیر مشکل سے ہی کسی زبان کے ادب میں ملے گی ،معصوم آنسوؤں کی بوندیں اشعار کے قالب میں ڈھل گئی ہیں ،زبان و بیان کے اعتبار سے شوق کی یہ مثنوی بے مثال ہے‘‘(۱۰)،اس کی ادبی اہمیت کے مسلم ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ سحرالبیان اور گلزار نسیم کی طرح اس مثنوی کی تعریف میں نقادوں نے اس قدر لکھا ہے کہ کسی طویل مثنوی کے متعلق بھی اس قدر نہیں لکھا گیا۔
خلاصہ:
مثنوی زہر عشق ایک مختصر عشقیہ مثنوی ہے ،جو نواب مرزا شوقؔ کی معرکۃ الآراء تصنیف ہے ،اس میں جذبات و احساسات کو کردار کی زبانی اس سادہ ،صاف اور نادر الفاظ کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی ،چوں کہ شوقؔ نے اپنی پوری زندگی لکھنؤ میں بسر کی ؛اس لیے وہاں کی بیگماتی زبان اور تہذیب اور محاورات و ضرب الامثال پر کافی مہارت رکھتے تھے انہوں نے نہایت اچھوتے انداز میں وہاں کی تہذیب کو اشعار کے قالب میں ڈھالا کہ پوری دنیائے اردو ادب اسے ہاتھوں ہاتھ لینے پر مجبور ہو گئی اور آج بھی ا س کی اہمیت و افادیت مسلم ہے ،بعض حضرات نے ان پر ابتذال کا بھی الزام عائد کیا ہے ؛مگر یہ صحیح نہیں ہے انہوں نے جس معاشرہ کی تہذیب کو اپنی مثنوی میں جگہ دی ہے اگر اس کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو خود بہ خود الزام بے کار محض ثابت ہو جائے گا ۔
حوالہ جات:
(۱) مثنویات شوق صفحہ نمبر ۹(۲)ز ہر عشق مرتبہ مجنوں گورکھپوری ص:۵۶(۳)اردو مثنوی شمالی ہند میں جلد دوم ص:۵۱۱(۴)ایضاً ص:۱۲۱(۵)ایضاً ۱۲۱(۶)مثنویات شوق ص: ۱۳۲(۷)مثنوی زہر عشق مرتبہ ڈاکٹر شمیم انہونوی ص:۲۱(۸)رسالہ نواب مرزا شوق (۹)زہر عشق شمیم انہونوی ص:۳۲(۱۰)اردو مثنوی شمالی ہند میں ۱۲۵۔
9871523432
محمد عباس دھالیوال
گزشتہ دنوں لوک سبھا میں وزیرِخارجہ جنا ب ایم ۔جے ۔اکبر نے جانکاری دیتے ہوئے یہ خلاصہ کیا کہ وجے مالیہ،نیرومودی اور مہیل چوکسی سمیت کل 31کاروباری ملک سے فرار ہیں۔مذکورہ بیان کوشل کشور،رام داس تدس اور سلیم محمد کی طرف سے ملک سے فرار کاروباریوں کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کی روشنی میں سامنے آیا۔
جس طرح سے گزشتہ چند برسوں سے یکے بعد دیگرے ایک کے بعد ایک گھوٹالے باز سخت اصولوں و ضوابط کے باوجود بینکو ں سے بھاری بھرکم قرض لیکر ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو رہے ہیں،اس کے مدِنظر آج عام کھاتہ ہولڈرز کی نظر وں میں بینکنگ نظام کی ٹرانسپریرینسی کو یقینی بنانا ایک بہت جوکھم بھرا کام ثابت ہو رہاہے۔
یہاں قابلِ ذکر ہے کہ ایک غریب اور درمیانہ طبقہ سے وابستہ اکاؤنٹ ہولڈر اپنی مستقبل کی ضروریات کے پیشِ نظر بینک میں اپنی بچت کرنے کی غرض سے اپنا کھاتہ کھلواتا ہے اور پھر اس میں اپنے گاڑھے خون پسینے کی کمائی میں سے بچت کے طورپر وقتاً فوقتاً اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر پیسے جمع کرواتاہے اس طرح ان عام غریب اور مڈل طبقہ کی بچت کے پیسوں سے بہت حد تک بینکوں کے خزانے پرہوتے ہیں اور یہ غریب لوگ اس امید پہ پیسہ جمع کرواتے ہیں کہ جب کوئی ناگہانی بیماری یا ضرورت پیش آئے گی تو وہ اپنا پیسہ نکلواکر اپنا وقت کاٹ لیں گے،لیکن گزشتہ سال سے لاگو ہوئی نئی گائیڈلائین کے چلتے رکھ رکھاؤ کے نام پرایسے کم پونجی والوں کے کھاتوں سے ہرماہ کچھ نہ کچھ رقم کی کٹوتی کی جانے لگی ہے۔جب مذکورہ بچت کھاتوں سے وابستہ کوئی کھاتہ ہولڈر کبھی پیسے جمع کروانے یا نکلوانے کی نیت سے بینک آتا جاتا ہے تو بینک میں جاکر جب اسے یہ معلوم پڑتاہے کہ اس کے کھاتہ میں بقایا رقم کے نام پر صفر ہی بچی ہے تو اس کے دل کو بھاری ٹھیس لگتی ہے۔اوراس دوران دل سے جو آہ فغاں نکلتی ہے اس کو بقول غالب ؔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ملک میں یہ کیسے دن آئے ہیں کہ ایک طرف تو غریبوں کے کھاتوں میں سے رکھ رکھاؤ کے نام پر پیسے کاٹے جارہے ہیں اور دوسری طرف وجے مالیہ نیرو مودی اور مہیل چوکسی جیسے بڑے کاروباری بھاری بھرکم قرض کی رقمیں لیکر اور بینکوں کو دیوالیے پن کی کگار پہنچا کر ،گویاملک کی تمام ایجنسیوں کی آنکھوں میں ایک طرح سے دھول جھونک کر دیش سے فرار ہونے میں کامیاب ہورہے ہیں یہاں ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اگرخدانخواستہ یہاں ایک غریب شخص کو قرض لینے کی ضرورت پڑجائے تو پہلے تو اسے کوئی بینک قرض دینے کے لیے جلد حامی نہیں بھرتا ہاں اگر کوئی بینک قرض دینے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کر بھی دے تو قرض کے متمنی سے اتنی زیادہ فا رمیلٹیز پر کروائی جاتی ہیں کہ وہ بیچارہ ان اصول و ضوابط کو پورا کرنے سے عاجز آکر آخرکا ر اپنے قرض لینے کے فیصلے سے ہی توبہ کر لیتا ہے،شاید ایسے ہی کسی منظر کو پیش کرتے ہوئے وسیم بریلوی صاحب نے کہا ہوگا کہ۔۔
غریب لہروں پہ پہرے بٹھائے جاتے ہیں
سمندروں کی تلاشی کوئی نہیں لیتا۔
لیکن جس طرح سے سونے کی چڑیا سمجھے جانے والے اس ملک کے پیسہ کو آج چند گھوٹالے بازدھوکہ دھی سے باہر کے ممالک میں لیکر فرار ہونے میں کامیاب ہو رہے ہیں ۔ یقیناًاس سے ملک کے تاریخی لٹیروں کی کہانیاں جو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں وہ بھی ماند پڑتی نظر آرہی ہیں اوریہ سوال بار بار ذہن پر دستک دیتا ہے کہ اگر ہم اپنے ملک کے سرمائے کو لوٹ لوٹ کر اسی طرح باہر کے ممالک میں فرارہوتے رہے تو ہم میں اور ہمارے ملک کے ودیشی لٹیروں میں آخرکیا فرق رہ جاتاہے۔!!!یہ سوال بار بار ذہن پہ دستک دیتا محسوس ہوتاہے۔۔؟؟؟
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر مذکورہ بالا پیسہ بڑے بڑے کاروباریوں کو قرض کی شکل میں دینے کی بجائے غریب اور بے روزگار نوجوانون کو چھوٹے موٹے دھندے چلانے کے لیے دیا جاتا تو پتہ نہیں کتنے گھروں کے بجھے ہوئے چولہے جل سکتے تھے ۔اگر یہی پیسہ غریب کسانوں کو دیا جاتا تو شاید بہت سے کسان خود کشی کرنے سے بچ سکتے تھے۔ہاں ۔۔اگر یہی پیسہ قرض کے طورپرپڑھنے والے لائق طلباء کو مذید پڑھائی کے لیے مہیا کروایا جاتا تو کتنے ہی طلباء ادھوری اعلی تعلیم کو مکمل کر اپنا اور اپنے ملک کانام دنیا میں روشن کر سکتے تھے۔اور ہاں اگر یہی پیسہ بیمار سرکاری اسپتالوں کی تیمارداری پر خرچ ہوا ہوتاتو کتنے ہی اسپتالوں کے حالات سدھر سکتے تھے۔جبکہ ایسے میں کتنے ہی بے بس و غریب لوگ اپنا ایسے اسپتالوں سے علاج کروا کر اپنی بیماریوں سے شفاء یاب ہوکر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا اہم یوگدان ڈال سکتے تھے۔اگر یہی پیسہ خستہ حال اسکولوں کی حالت کو بہتر بنانے یا غریب بچوں کے مستقبل کو سجانے سنوارنے پر خرچ ہواہوتا تو اسکولوں سے دور بہت سے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جاسکتا تھا۔
لیکن افسوس کے مادہ پرستی کے اس دور میں ہر آدمی اپنے اغراض و مقاصد سوچنے تک محدود ہے۔کاش کوئی ملک کی فلاح وبہبودکے تعلق سے بھی سوچنے والا ہوتا ،کاش کوئی وطن میں تنگ دستی میں زندگی کے دن کاٹ رہے غریبوں کیدکھ درد کو بانٹ کر اسکے آنسو پونچھنے والا ہوتا ،کاش کوئی ملک میں روز بہ روز آرہی اخلاقیات کی گراوٹ پہ افسوس جتانے والا ہوتا،کاش کوئی ہماری منفی سوچ کو مثبت افکار میں بدلنے والا ہوتا
مالیر کوٹلہ ،پنجاب۔
09855259650
[email protected]
عرفان ستار
خوش مزاجی مجھ پہ میری بے دلی کا جبر ہے
شوقِ بزم آرائی بھی تیری کمی کا جبر ہے
کون بنتا ہے کسی کی خود ستائی کا سبب
عکس تو بس آئینے پر روشنی کا جبر ہے
خواب خواہش کا، عدم اثبات کا، غم وصل کا
زندگی میں جو بھی کچھ ہے سب کسی کا جبر ہے
اپنے رد ہونے کا ہر دم خوف رہتا ہے مجھے
یہ مری خود اعتمادی خوف ہی کا جبر ہے
کارِ دنیا کے سوا کچھ بھی مرے بس میں نہیں
میری ساری کامیابی بے بسی کا جبر ہے
میں کہاں اور بے ثباتی کا یہ ہنگامہ کہاں
یہ مرا ہونا تو مجھ پر زندگی کا جبر ہے
یہ سخن یہ خوش کلامی در حقیقت ہے فریب
یہ تماشا روح کی بے رونقی کا جبر ہے
شہرِ دل کی راہ میں حائل ہیں یہ آسائشیں
یہ مری آسودگی کم ہمتی کا جبر ہے
جس کا سارا حُسن تیرے ہجر ہی کے دم سے تھا
وہ تعلق اب تری موجودگی کا جبر ہے
جبر کی طابع ہے ہر کیفیتِ عمرِ رواں
آج کا غم جس طرح کل کی خوشی کا جبر ہے
کچھ نہیں کھلتا مرے شوقِ تصرف کا سبب
شوقِ سیرابی تو میری تشنگی کا جبر ہے
جو سخن امکان میں ہے وہ سخن ہے بے سخن
یہ غزل تو کچھ دنوں کی خامشی کا جبر ہے
عبدالرحیم ندوی
ایک وقت تھا کہ ان کی تکبیر و شمشیر کا طوطی بولتا تھا،ان کے حسنِ کردار کے دشمن بھی عاشق تھے،ان کی ہیبت و رعب سے اعداء اسلام سہمے رہتے تھے، وہ گفتارِ دلبرانہ اور کردارِ قاہرانہ کی عملی تفسیر تھے، انہیں خوف تھا تو صرف خدا کا، انہیں مطلوب تھی تو صرف رضائے خداوندی، وہ جہاں جاتے فتح و کامرانی ان کے قدم چومتی،آسمان کے چمکتے تارے ان کے عروج و بلندی کے قصے سناتے،وہ شجاعت و بہادری کا سر چشمہ تھے،شہادت انہیں ایسے ہی عزیز تھی جیسا کہ آج کہ انسانوں کو زندگی عزیز ہے، ان کی نظر آخرت کی ابدی زندگی پر تھی، وہ خدا کے دین کی خاطر تن من دھن لگا دینے کو سرمایۂ حیات تصور کرتے تھے، ان کی انہی قربانیوں اور عملی جدوجہد کی بناپر خدا نے انھیں عزت و رفعت عطا کی تھی،کبھی فرشتوں کے لشکر کو نصرت کے لیے اتارا تو کبھی تیزوتند آندھیوں نے ان کے دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا،افریقہ کے جنگلوں نے انہیں ٹھکانہ فراہم کیا، تو کبھی دریاؤں میں ان کے گھوڑے دوڑنے لگے
اور آج اسی کارواں کے افراد پر عرصئہ حیات تنگ کیا جا چکا ہے،اس میں اغیار کی کرم فرمائی سے ہمیں کیا انکار ہو سکتا ہے؟ مگر ہماری بھی کچھ کم غلطیاں نہیں ہیں، ہم نے ان تمام اوصافِ حمیدہ سے رخ موڑ لیا،جوہمارے لیے وجہ امتیاز تھے،آج اسلام کی حمایت و تبلیغ کے سلسلے میں کام کرنے کے بجائے ہم اپنے ہی بھائیوں سے بر سر پیکار ہیں،تعلیم کی جتنی اہمیت ہمارے مذھب میں ہے، شاید ہی کسی اور مذھب میں ہوں؛ لیکن اس میدان میں بھی ہم پچھلی صفوں میں نظر آتے ہیں،نوجوانوں کی جماعت کا یہ حال ہے کہ وہ ایمانی غیرت و حمیت سے بے بہرہ عیش و عیاشی میں مست و مگن ہے، جنھیں آج کا ابن قاسم ہونا تھا وہ راتوں میں ایک ایک بجے تک نکڑوں اور گلیوں کی خاک چھانتے ہں،سگریٹ اور چائے کا طویل دور چلتا ہے،فلموں اور لغویات پر بحثیں ہوتی ہیں،نہ نماز کا پتہ،نہ دین کی سمجھ، کیا ایسے مجاہدوں کی نصرت کو فرشتے آئیں گے؟
ہمیں لوٹنا پڑے گا انہی اوصاف کی طرف، اسی کردار کی طرف جو ہمارا طرّۂِ امتیاز تھا، تعلیمی اور سیاسی میدان میں بھی اپنے وجود کا احساس دلانا ہوگا،ہمیں پھر ایک بار صداقت، عدالت اور شجاعت کا درس پڑھنا ہوگا، تبھی فرشتے بھی اتریں گے اور ہمیں ہمارا کھویا ہوا مقام بھی ملے گاـ
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے