نئی دہلی، 06 فروری(قندیل نیوز)
دنیا میں خام تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بھی بڑھتی جارہی ہیں لیکن پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں جلد آپ کوراحت ملتے ہوئے نہیں دکھ رہی ہے ۔ بجٹ کے بعدجی ایس ایس کونسل سے راحت کی امید کررہے عام آدمی یہاں بھی خالی ہاتھ ہی لوٹیں گے۔ وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے منگل کواس بات کولے کربتایا کہ ریاست گیس اور ڈیزل کو جی ایس ٹی کے دائرے میں لانے کو تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستوں کا ذہن فی الحال یہ ہے پیٹرولیم اور ڈیزل کو جی ایس ایس کے دائرے میں نہیں لایاجائے۔اگرچہ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ قدرتی گیس، رئیل اسٹیٹ سب سے پہلے جی ایس ایس کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے۔ اس ن بعدکہیں جاکر پٹرول اور ڈیزل کانمبرلگ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہم اپنے پیٹرول ، ڈیزل، پینے والاپانی اور شراب کو لانے کی کوشش کریں گے۔ بین الاقوامی سطح پرجب بھی خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، تواس سے ریاستوں کی آمدنی بھی بڑھتی ہے، ریاستوں کو ریاست کی ایک بڑی رقم پیٹرول اور ڈیزل پر لگنے والے ویٹ سے آتی ہے۔اس کے ساتھ ہی کم ویٹ لگانے والی ریاستی حکومتیں اپنے سیاسی فائدے کودیکھتے ہوئے پٹرول اورڈیزل کو جی ایس ایس کے تحت لانے پر متفق نہیں ہوں گی،کیونکہ ان کے سامنے جی ایس ٹی کی وجہ سے قیمتیں بڑھنے کاخطرہ ہوگا۔جی ایس ٹی کونسل کے اعلی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پٹرول ڈیزل جی ایس ٹی کے دائرے میں کیا جائے تو ملک بھر میں مختلف سیلز ٹیکس کے بجائے صرف ایک ٹیکس ہوجائے گا۔اس سے بھلے ہی مہاراشٹر کی طرح کچھ ریاستیں کچھ راحت ملے گی لیکن کم ویٹ وصول کرنے والی ریاستوں میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا، ایسی صورت حال میں کوئی سیاسی پارٹی نہیں چاہے گی کہ ایساقدم اٹھایاجائے۔
6 فروری, 2018
نئی دہلی، 06 فروری(قندیل نیوز )
بجٹ سے پہلے چیف اقتصادی مشیر اروند سبرا منیم نے شیئر مارکیٹ کے ریکارڈ سطح پر پہنچنے کو لے کر کہا تھا کہ اس سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تشویش ظاہر کی تھی کہ مارکیٹ میں یہ تیزی صرف کچھ دنوں کیلئے ہی ہے۔ ان کی یہ تشویش صرف 5 دن کے اندر ہی سچ ثابت ہوگئی ہے ۔ پہلے تو بجٹ میں طویل مدتی سرمایہ کاری کے حصول پر ٹیکس لگائے جانے سے مارکیٹ نیچے آگیا۔ دوسری طرف امریکی مارکیٹ میں آئی 6 سال میں سب سے بڑی گراوٹ نے بھی مارکیٹ کو لال ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔جنوری مہینے کے اختتام تک نفٹی جہاں 11 ہزار سے زائد کی سطح پربنارہا تھا۔ وہیں سنسیکس بھی 36 ہزار کے اعداد و شمار کو پار کر چکا تھا لیکن اس مزاج کو یکم فروری کو پیش ہوئے بجٹ نے بگاڑ دیا۔ شیئرمارکیٹ میں مسلسل آرہی اس گراوٹ کیلئے بجٹ سمیت 5 اہم وجوہات ذمہ دار ہیں۔شیئر مارکیٹ اس سال کے بجٹ سے بہت زیادہ توقع رکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شیئر مارکیٹ یکم فروری کو شیئرمارکیٹ نے اضافے کے ساتھ شروعات کی ،حالانکہ بجٹ ختم ہوتے ہوتے یہ اضافہ گراوٹ میں تبدیل ہوگیا۔دراصل وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے بجٹ میں طویل مدتی کیپٹل گینس پر ٹیکس لگانے کا اعلان کیا۔ اس نے سرمایہ کاروں کے جذبے کو کمزور کردیا ہے، بجٹ کے دن سے شیئر مارکیٹ مسلسل گراوٹ جاری ہے۔اس تجارتی ہفتے کے دوسرے دن منگل سے سینسیکس نے جہاں 1200 پوائنٹس کے ساتھ شروعات کی۔وہیں نفٹی بھی 300 پوائنٹس کھل کرٹوٹا۔ اس کی اہم وجہ بنی بجٹ کے ساتھ امریکی مارکیٹ میں آئی کمی ۔
ٹی ڈی پی نے پارپارلی کے اندراورباہراحتجاج کیا
خصوصی پیکیج کی مانگ پرکیاہنگامہ،وعدہ پورانہ کرنے کالگایاالزام
نئی دہلی، 06 فروری(قندیل نیوز )
مودی حکومت نے 2019 لوک سبھا انتخابات سے پہلے اپناآخری بجٹ پیش کیاہے لیکن بجٹ سے اپوزیشن کے ساتھ مودی حکومت کی اتحادی پارٹیاں بھی خوش نہیں ہیں ۔ اپوزیشن پارٹیاں توبجٹ کوبیکاربتارہی ہیں۔وہیں تیلگو دیشم پارٹی بھی بجٹ کولے کرمودی حکومت سے ناراض ہے۔ منگل کو ٹی ڈی پی نے پارلیمنٹ کے باہر واقع گاندھی مجسمہ پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ احتجاجی مظاہرہ کیا۔ منگل کوپارلیمنٹ شروع ہونے سے پہلے ہی تیلگو دیشم پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کی سیڑھیوں پر مظاہرہ کیااور نعرے لگائے۔ ان ارکان پارلیمنٹ نے یہ دعوی کیا ہے کہ آندھرا پردیش کی تقسیم کے وقت ریاست سے جو وعدے کئے گئے تھے ،وہ پورے نہیں کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ ریاست کے قیام کے دوران آندھرا پردیش کی تقسیم کے باعث ہوئے نقصانات کی بھرپائی کیلئے جس پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے وہ ابھی تک نہیں ملا ہے اور بجٹ میں بھی اس معاملے میں انہیں مایوسی ہوئی ہے۔ٹی ڈی پی ارکان پارلیمنٹ نے لوک سبھا میں بھیاس مسئلے کو زوردارطریقے سے اٹھایا اور پارلیمنٹ کی کاروائی شروع ہوتے ہی ان کے احتجاج کے باعث کارروائی ملتوی کرنی پڑی۔ تیلگو دیشم پارٹی ویسے تو این ڈی اے میں ہے لیکن بی جے پی کے ساتھ اس کے تعلقات مسلسل خراب ہوتے جارہے ہیں اور یہ سمجھا جارہا ہے کہ وہ بی جے پی سے ناطہ توڑلے گی۔
دوسری طرف ترنمول کانگریس نے بھی منگل کو پارلیمنٹ کے گاندھی مجسمے کے سامنے بجٹ کے خلاف ایک زبردست احتجاج کیا۔ترنمول کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ نے ہاتھوں میں جو پوسٹرلے رکھے تھے اس میں کہاگیا تھا کہ کیسے مسلسل خام تیل کی قیمتوں کے کم ہونے کے باوجود حکومت اس کافائدہ عام لوگوں تک نہیں پہنچارہی ہے، پیٹرول اور ڈیزل سستے ہونے کے بجائے مہنگے ہی ہوتے جارہے ہیں۔ ممتا بنرجی نے پہلے ہی کہا ہے کہ یہ بجٹ عام لوگوں کے خلاف ہے۔ترنمول کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ نے یہ بھی الزام لگایاکہ اسکولی بچوں کوفری میں ملنے والے مڈڈے۔میل میں بجٹ کم کردیاگیاہے جبکہ ترنمول کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ کو بڑھایا جائے۔ترنمول کانگریس کے ارکان پارلیمان نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ میں بھی اس مسئلہ کو اٹھائیں گے اور عوام کو بتائیں گے کہ حکومت تیل کاکھیل کس طرح کر رہی ہے۔ایم پی سردپ بندوپادھیائے نے کہا کہ اگر یہ اچھے دن ہیں، تو لوگوں کو اس طرح کے اچھے دن نہیں چاہئے۔
’
ایک طرف بی جے پی لیڈران یہ دعوے کرتے ہیں کہ بی جے پی کے اقتدارمیں آنے کے بعدلاء اینڈرآرڈردرست ہوئے۔بی جے پی مذہب کی سیاست نہیں کرتی ،وہ سب کاساتھ سب کاوکاس کررہی ہے اورفرقہ وارانہ فسادات یاتشددنہیں ہوئے دوسری طرف حکومت نے کہاہے کہ گزشتہ سال ملک بھر میں 822فرقہ وارانہ واقعات ہوئے جن میں111افرادہلاک ہو گئے اور 2,384 افراد زخمی ہو گئے۔لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ ہنس راج اہیرنے کہاہے کہ 2017میں فرقہ وارانہ تشدد کے سب سے زیادہ 195 واقعات اتر پردیش میں ہوئے جہاں44افرادہلاک اور542زخمی ہوئے۔انہوں نے کہاہے کہ کرناٹک میں گزشتہ سال 100فرقہ وارانہ واقعات ہوئے جن میں نوافراد ہلاک اور 229زخمی ہوگئے۔راجستھان میں ایسے 91واقعات ہوئے جن میں 12 افراد ہلاک اور175زخمی ہوگئے۔وزیر نے کہا کہ 2017میں بہار میں 85فرقہ وارانہ واقعات ہوئے جن میں تین لوگوں کی موت ہوگئی اور 321زخمی ہوئے۔مدھیہ پردیش میں 60 واقعات ہوئے اور ان میں نو افراد ہلاک اور 191زخمی ہوئے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ تشدد کے 58واقعات ہوئے جن میں نو افراد ہلاک اور 230زخمی ہوگئے۔گجرات میں 50 واقعات ہوئے اور آٹھ افراد ہلاک اور 125 زخمی ہو گئے۔
ریسرچ اسکالر،شعبئہ اردو دہلی یونیورسٹی دہلی
اردو لوک ادب کیا ہے اس کی مکمل تفہیم اور تدارک کے لیے سب سے پہلے ادب کیا ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے.یہاں بنیادی طور پر دو ہی الفاظ کلیدی ہیں۔ایک لوک ہے اور دوسرا ادب. میرے خیال میں ان دونوں کی تعریف سے لوک ادب کا مطلب بھی بہت حد تک واضح ہو جائے گا۔ادب کیا ہے اس حوالے سے ہمارے ادیبوں نے مختلف آرا اور خیالات پیش کئے ہیں اس لیےاس کی مختلف تعریفیں سامنے آئی ہیں۔ کسی نے کہا کہ ادب سماج کا آئنہ ہوتا ہے۔کسی نے کہا کہ یہ خیالات و احساسات کی ترجمانی کا ذریعہ ہے کسی نے اس کو خوبصورت الفاظ کے مناسب استعمال کا نام دیا تو کسی نے اسے سکون کا باعث قرار دیا۔اور کبھی تحریرکی شکل میں دریافت ہر متن کو ادب سے تشبیہ دی گئی.بزرگوں کی مانیں تو ادب کی تخلیق کے پسِ پردہ کوئی نہ کوئی خواہش پنہاں ہوتی ہے۔ اکثر و بیشتر جب کو ئی فن پارہ تخلیق پاتا ہے تو در اصل اس کی وجہ کوئی دیرینہ امید و نامیدی کی کشمکش کا ملا جلا ایک حسین امتزاج ہوتا ہے۔ بیشتر ادب شدید خواہش کے زیر اثر وجود میں آتا ہے. تخلیق کی خواہش انسان کی فطرت ہے۔ اسی جبلی خواہش سے آرٹ پیدا ہوتا ہے۔ آرٹ اور دوسرے علوم میں یہی فرق ہے کہ اس میں کوئی مادی فائدہ مقصود نہیں ہوتا۔ یہ بے غرض مسرت ہے۔ ادب آرٹ کی ایک شاخ ہے جسے "فن لطیف” بھی کہہ سکتے ہیں۔ میتھو آرنلڈ کے نزدیک وہ تمام علم جو کتب کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، ادب کہلاتا ہے۔کارڈ ڈینل نیومین کہتا ہے "انسانی افکار ، خیالات اور احساسات کا اظہار زبان اور الفاظ کے ذریعے ادب کہلاتا ہے”۔ نارمن جودک کہتا ہے کہ "ادب مراد ہے اس تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔”
یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب اپنی تمام تر جزوئیات مثلا لفظیات، نحویات ، ساختیات اور دیگر اعتبار سے معیاری ہوتا ہے اور جس کو ادبی معیار کی سخت سے سخت کسوٹی پر بھی پرکھا جا سکتا ہے۔ لوک ادب کیا ہے؟ لوک ادب میں بھی کسی نہ کسی احساس اور خیال کو ہی بیان کیا جاتا ہے لیکن یہ ادب تسلیم شدہ معیار کے مطابق نہیں ہوتا ہے۔
در اصل قاری کی مختلف کیٹگریز ہوتی ہیں.لفظ "لوک” سے بھی ایک خاص قسم کے قاری کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے.ہر انسان بنیادی طور پر باذوق ہوتا ہے۔ اپنے ادبی ذوق کی تسکین کےلیے ہر انسان اپنے اپنے معیار اور ماحول کے مطابق یا تو ادب تخلیق کرتا ہے یا پھر تخلیق شدہ ادب سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
لوک ادب کی تعریف اب تک واضح ہوگئی ہے تقریبا ً سب ہی مقالہ نگاران اور صدور صاحبان نے مکمل طور پر اس پر روشنی ڈالی ہے لیکن میرا نظریہ زرا سا الگ ہے ممکن ہے قابل قبول نہ ہو لیکن اپنے خیالات کو آپ کے سامنے رکھ کر شاید کچھ میری معلومات میں بھی اضافہ ہو جائے۔
پروفیسر محمد حسن کے الفاظ میں
” وہ ادب جس کو عوام نے جنم دیا ہولوک ادب ہے. ”
پروفیسر محمد حسن کو یہاں واضح کرنا چاہیے تھا کہ عوام سے انھوں نے کیا مراد لیا ہے کیا معیاری ادب تخلیق کر نے والے مصنف عوام میں شامل نہیں ہیں؟ اس لیے میرا یہ ماننا ہے کہ صرف عوام کہہ دینے سے بات واضح نہیں ہوتی. بلکہ اس کے ساتھ یہ اضافہ کرنا بھی ضروری ہے کہ وہ عوام جو زبان کے اصول یا ہم کہہ سکتے ہیں لفظیات سے ناواقف ہو۔
یعنی لوک ادب وہ ادب ہے جو کسی بھی خاص علاقہ کی عوام، انپڑھ عوام جو ملک کی معیاری زبان سے ناواقف ہوتے ہیں کے ذریعہ وجود میں آتا ہے۔
لوک ادب پہ بات کرتے ہوئے ہمیں کچھ بنیادی چیزوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے وہ یہ کہ لوک ادب اور وہ ادب جس کا مطالعہ متعلقہ زبان کے ماہرین کرتے ہیں ان میں بہت فرق ہے.یہ جو لوک ادب ہے اس کی لفظیات،نحویات، اس کے محاورے ،استعارے، اسلوب اور ساخت بہت مقامی ہوتے ہیں.لیکن وہ ادب جو میر اور غالب کے ہاتھوں پرورش پاکر ہم تک پہنچا ہےوہ اپنی ساخت اور زبان کے اعتبار سےمقامی نہیں ہوتا ہے .ہر علاقہ اور ہر طبقہ اور ہر سماج کے لوگ اس کی چاشنی اس کی آفاقیت محسوس کر سکتے ہیں.جب کہ لوک ادب کی معنویت ایک مخصوص طبقہ تک ہی محدود رہتی ہے۔اس کی رسائی عالمی ادب تک نہیں ہو سکتی.اس کو ہم آسان زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ میر غالب، اقبال اورپریم چند کو سنبھل کے قاری بھی اتنی ہی دلچسپی سے پڑھتے ہیں جتنا ہندوستان کے کسی دوسرے صوبہ کے کسی بھی چھوٹے شہر کا قاری سمجھتا ہے۔لوک ادب سے ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئےکہ اس کی معنویت کو میر ،غالب ،پریم چند اور ان جیسے دوسرے ادیبوں کے شہ پاروں کے مد مقابل سمجھا جائے۔
اردو ادب میں روز بہ روز عوامی ادب کو شامل کرنے کی روش عام ہوتی جارہی ہےایک عرصہ تک پاپولر ادب کو ادب سے الگ رکھا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ابن صفی اور ان جیسے مقبول مصنفین کو ادب کے مین اسٹریم میں لانے کی کوشش ہوتی رہی ۔کچھ عرصہ قبل تک ابن صفی کو ادب میں گنا جانا اشتعال کا باعث تھا۔لیکن آج باضابطہ پی ایچ ڈی کی جارہی ہے۔عوامی ادب کے زمرے میں ایسی بہت سی چیزیں داخل کر دی گئی ہیں جن کو ادب کہنا بھی ادب کی بے ادبی ہے۔لیکن ابھی بھی کچھ لوگ باحیات ہیں جو اس نظریہ کو بالکل غلط سمجھتے ہیں۔عوامی ادب کی زبان اورادب کی عمومی طرزِ تحریر دریا کے دو الگ الگ کنارے ہیں انھیں ملانا وہ بھی ایک دو چیزوں کی مناسبت کی وجہ سے بالکل بے بنیاد بات ہے۔لوک ادب پڑھنے اور اس پر تحقیق کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس پر ریسرچ کرنا ایک الگ بات ہے لیکن تحقیق کرتے ہوئے جذبات کی رو میں بہہ کر اس کو ادب سے نہ جوڑا جائے۔مجھے یہ خدشہ اس لئے لاحق ہےمجھے یہ خدشہ اس لیے لاحق ہے کہ عام طور جب کسی موضوع پر تحقیق کی جاتی ہے تو اس کے ساتھ ایک انجانی سی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور اس محبت میں زمین کو آسمان اور آسمان کو زمین کہہ دیا جاتا ہے۔
لوک گیت کا مطالعہ کرنا اور اس کا شمار ادب کے زمرے میں کرنا دو بالکل مختلف زاویے ہیں۔مجھے اس سے سراسر اختلاف ہے کہ ہر اس چیز کو ادب کے زمرے میں رکھ دیا جائے جس کا ہم مطالعہ کرتے ہیں یا جس پر ہم گفتگو کرتے ہیں۔زبان و بیان کی بنیاد پر ایک حد فاصل ہمیشہ قائم رہنی چاہیے۔لوک ادب یا عوامی ادب وغیرہ یہ کیا ہے اس میں بے حد گنجائش ہے کہ اس کو ادب کے زمرے میں نہ رکھا جائے۔ ادب کی تعریف میں دریافت بعض نشانیوں کے لوک ادب میں ہونے کے باوجود بھی یہ ہضم نہیں ہوتا کہ اس کو اٹھا کر سر کا تاج بنایا جائے۔ الا یہ کہ اس میں خود ادب کے زمرے میں شامل ہونے کے امکانات پوشیدہ ہوں۔ اس تعلق سے یہاں نظیر اکبر آبادی کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ایک عرصے تک ان کے کلام کو عوامی ادب کا نام دیکر ادب سے دور رکھا گیا۔ ان پر گفتگو کرنا بے ادبی سمجھی گئی۔ لیکن مرور ایام نے ان کے کلام کو ادب کا بہترین سرمایہ قرار دیا۔ایسا اس لیے ممکن ہو سکا کہ ان کا کلام عوامی ہونے کے باوجود ادب کے بنیادی تقاضوں سے لبریز تھا۔ ایک وقت تھا کہ نظیر اکبر آبادی کو کوئی نہیں جانتا تھا لیکن جب ادبی نقطئہ نظر سے ان کے سرمائے کو سراہا گیا تو ان سے آج پوری ادبی دنیا واقف ہے۔اسی طرح لوک گیت کو ہم ادب میں شمار کر سکتے ہیں اس میں سماج کی عکاسی ملتی ہے.لوک گیت ہر موقع محل کے اعتبار سےپڑ ھے جاتے ہیں اور اسی اعتبار سے ان میں بیانیہ پایا جا تاہے۔اس کی دریافت نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان نیپال بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں بھی کی گئی ہے بالخصوص ہندوستان میں گیتوں کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ہر دو چار کلو میٹر کے بعد لوک گیت کی زبان اور بیانیہ میں فرق ملتا ہے.ہر اسٹیٹ صوبہ کی تاریخ ہم اس کے ذریعہ حاصل کر سکتے ہیں۔لوک گیت کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ اس میں عام طور وہ باریک اور چھوٹے چھوٹے مگر اہم حقائق بیان ہوتے ہیں جہاں تک ایک ایک مستند مصنف کی رسائی نہیں ہو پاتی۔خواتین جو شادی بیاہ،بچوں کی پیدائش اور دوسرے مواقع کی مناسبت سے جو گیت گاتی ہیں ان میں واقعات کے نہایت ہی باریک پہلووں کو سمو لیتی ہیں جن کا نمونہ کسی افسانے اور ناول میں نہیں ملتا۔لیکن ان سب کے باوجود ہم پھر بھی کہیں گے کہ ادب میں لوک گیت کو شامل کرنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں.اس راہ میں مانع گیت کی زبان ہے جس کی حیثیت بہت سطحی ہوتی ہے۔ کیوں کہ ان کی زبان قصائد سے بھی زیادہ مشکل اور نابلد ہوتی ہے۔لوک گیت میں زبان تو مشکل استعمال ہوتی ہی ہے ساتھ ہی اس میں الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔لوک ادب اور گیت کی ایک چیز بہت اچھی اور قابل تعریف ہے اس میں سلینگ الفاظ زندہ رہتے ہیں۔
اردو میں لوک ادب کی روایت سب سے قدیم رہی ہے اردو کے اولین نمونے انھیں گیتوں میں دریافت کئے گئے۔ دکنی اردو میں صوفیاء کی تحریریں مثلاً خواجہ بندہ نواز کی مثنویاں لوک گیت کے زمرے میں شامل کی جاسکتی ہیں اور بھی اسی طرح کی تحریریں لوک ادب سے نسبت رکھتی ہیں۔
شادی کے موقع پر گائے جانے والے گیت اپنے اندر مکمل سماج اور رسوم و عقائد کو سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں۔اس موقع پر دو سے تین مہینہ پہلے سے گھروں میں عورتیں ان گیتوں کو ڈھولک کی تھاپ پر گانا شروع کردیتی ہیں۔ منگنی میں گائے جانے والے گیت ابٹن میں گائے جانے والے مہندی کی رسم اور منڈھے کی رسم پھر آرسی مصحف رسم کے گیت پھر دلہن کے دوسرے گھر پہنچنے پر گائے جانے والے گیت وغیرہ اپنے ساتھ ایک تہذیب سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں۔
چمن میں کس کی شادی ہے خوشی سے لوگ آتے ہیں
سونے روپے کے تھالوں میں بھرائی کھیر کے پیالے
لے جاو اس مجالس میں خوشی سے کھاتے ہیں
اس کے جیسے ہزاروں گیت پڑھے اور کچھ اشعار یہاں کوٹ کرنے کے لیے تلاش کیے لیکن معاف کیجئے گا میری نظر میں کوئی بھی شعر نہ جچا کہ یہاں پیش کر سکوں
حال ہی میں دیوندر ستیارتھی کی اہلیہ نے ان کی ایک کتاب شائع کی ہے۔اس کتاب میں ہندوستان کے مختلف علاقے کی گیتوں کو اکٹھا کیاگیا ہے۔ انہوں نے ملک کے دور دراز علاقوں کا سفر کرکے نہ صرف گاوں گرام سے گیتوں کو نکال کر پیش کیا بلکہ شہروں میں دبے ہوئے ذخیرے کو بھی یکجا کیا۔جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا لوک ادب پہ گفتگو کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے.محدود دائرے میں اس کی معنویت سے بھی کوئی انکار نہیں ہو کر سکتا
سینئر وکلاء ڈاکٹر راجیو دھون، ڈاکٹر راجو رام چندرن کی خدمات حاصل کی گئیں:ارشدمدنی
نئی دہلی ، ۶؍ فروری(قندیل نیوز)
بابری مسجدکی ملکیت کے مقدمہ میں 8فروری سے سپریم کورٹ میں روزانہ سماعت ہوگی،جس میں فریق اول یعنی جمعیۃ علماء علماء ہند کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں مضبوط دلائل پیش کرنے کیلئے وکلاء کی ٹیم پوری طرح مستعد ہوگئی ہے۔ کل سے شروع ہونے والی مقدمہ جاتی کارروائی کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے مقرر کردہ سینئر وکلاء ڈاکٹر راجیو دھون اور ڈاکٹر راجو رام چندرن عدالت میں اپناموقف رکھیں گے۔یہ اطلاع آج جمعیۃ علماء کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی نے ذرائع ابلاغ کو دی ہے۔
بابری مسجدکی اراضی کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ تین حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلہ کے خلاف دائر اپیل میں قانونی محاذ پرجاری لڑائی اب اِس لحاظ سے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے کہ عدالت عظمیٰ یومیہ بنیاد پر اس مقدمہ کی سماعت کرے گی۔چنانچہ صدرِ جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند نے اس ضمن میں قانونی تیاری مکمل کرلی ہے۔
چیف جسٹس دیپک مشراء کی سربراہی والی سہ رکنی بنچ جس میں جسٹس عبدالنظیراور جسٹس بھوشن شامل ہیں، کے روبرو کل سے معاملے کی سماعت ہوگی جس کی تیاری کو حتمی شکل دینے میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول سینئر وکلاء سے مسلسل رابطہ میں ہیں تاکہ مقدمہ کی سماعت کے وقت جمعیۃعلماء ہند عدالت کے سامنے اپنے مضبوط دلائل پیش کرسکے۔عدالت کے حکم کے مطابق ہندی،اردو،فارسی،سنسکرت ودیگر زبانوں میں موجود دستاویزات کے ترجمے بھی تکمیل کے مراحل میں ہیں ۔
ذہن نشیں رہے کہ بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمہ میں سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 پر بحث میں جمعیۃ علماء کی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجو دھون، ڈاکٹر راجو رام چندرن بحث کریں گے جبکہ ان کی معاونت کیلئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ طاہر، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ جارج، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے ، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگربھی موجود ہوں گے ۔
خیال رہے کہ۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ء کی شب میں بابری مسجدکے اندر رام للا کے مبینہ ظہور کے بعد حکومت اتر پردیش نے بابری مسجد کو دفعہ ۱۴۵؍ کے تحت اپنے قبضہ میں کرلیا تھا جس کے خلاف اس وقت جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیرالدین فیض آبادی اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد قاسم شاہجاں پوری نے فیض آباد کی عدالت سے رجوع کیا تھا جس کافیصلہ ۳۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء؍ کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے کردیا گیا تھا ۔اسی فیصلے کے خلاف جمعیۃ علماء نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جس پر جمعرات سے سماعت عمل میں آئے گی ۔
یاد رہے کہ اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند اول دن سے فریق ہے اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد دائر مقدمہ میں جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیرالدین فیض آبادی اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد قاسم شاہجاں پوری نچلی عدالت میں فریق بنے تھے۔ان کے انتقال کے بعد حافظ محمد صدیق (جنرل سیکریٹری جمعیۃ علماء اترپردیش) فریق بنے ۔ دوران سماعت ان کی رحلت کے بعدپھر صدر جمعیۃ علماء اتر پردیش مولانا اشہد رشیدی فریق بنے ۔فی الوقت جواپیل عدالت عظمی میں زیر سماعت،اس میں بھی موصوف بطور فریق شامل ہیں ۔
بتادیں کہ جمعیۃ علماء ہند نے صدرجمعیۃعلماء مولانا سیدارشد مدنی کی ہدایت پر ۳۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء؍ کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو جس میں ا س نے ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا تھا کہ خلاف سب سے پہلے سپریم کورٹ سے رجوع کیاتھا ۔
راحت علی صدیقی قاسمی
بھارت دنیا کا عظیم ترین ملک ہے، اس کا رقبہ اور اس کی آبادی دنیا کے اکثر ممالک سے زیادہ ہے۔ بے شمار کمپنیاں، زراعت، تجارت اس کے معاشی ذرائع ہیں، آزادی کے بعد سے اب تک ملک نے ہر شعبے میں قابل ذکر ترقی کی ہے، شعبۂ تعلیم بھی اسی میں سے ایک ہے، آزادی کے وقت ہندوستان کی تعلیمی شرح 18 فی صد تھی، جو 2011 تک بڑھ کر 75 فی صد ہوگئی ہے، یہ ترقی بظاہر معیاری نظر آتی ہے، لیکن دنیا کے دیگر ممالک کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہماری نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ چند نام ذکر کردوں تاکہ اس احساس سے آپ بھی دو چار ہوجائیں، امریکہ کی تعلیمی شرح 99 فی صد ہے، آسٹریلیا کی تعلیمی شرح 96 فی صد ہے، آسٹریا کی تعلیمی شرح 98 فی صد ہے، کناڈا کی تعلیمی شرح 99 فی صد ہے۔ آپ کے ذہنوں میں ایک سوال پیدا ہورہا ہوگا، یہ تمام ملک چھوٹے ہیں، ان کا رقبہ اور آبادی انتہائی کم ہے، وہاں انتظام و انصرام کرنا دشوار نہیں ہے، تو آپ کے اس سوال کو تشنۂ جواب کیوں چھوڑا جائے، ہمارے ملک سے زیادہ آبادی رکھنے والے ملک چین کی تعلیمی شرح 95.1 فی صد ہے، ہمارے ملک میں 2001 سے 2011 تک پچھلے دس سالوں میں تعلیمی شرح صرف 9 فی صد بڑھی ہے اور آج بھی اس ملک میں دنیا کی سب زیادہ غیر تعلیم یافتہ آبادی قیام پذیر ہے، دنیا کی غیر تعلیم یافتہ آبادی کا 37 فی صد حصہ سرزمین ہند پر آباد ہے اور لڑکیوں کی جہالت بھی نمایاں ہے، لڑکیوں کی تعلیمی شرح. 65 فی صد ہے جو ہائی اسکول کے بعد انتہائی کم ہو جاتی ہے ، حالانکہ جہالت کے نقصانات ڈھکے چھپے نہیں ہیں، علم کا وقار ہر شخص کے ذہن میں عیاں ہے، پھر بھی متحدہ ممالک کی ایک رپورٹ پیش کردی جائے تاکہ مادیت کے پجاریوں کو علم کی وقعت و اہمیت کا اندازہ ہوجائے، متحدہ ممالک کی ایک رپورٹ کے مطابق جہالت کی وجہ سے دنیا بھر کی سرکاروں کو 129 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، جس کا 37 فی صد حصہ ہندوستان جھیل رہا ہے، جہاں غربت و افلاس کی آگ میں ہزاروں لوگ جل رہے ہیں، وہاں یہ دوہرا نقصان انتہائی تکلیف دہ ہے ۔
اس صورت حال کو دیکھئے اور غور کیجئے، دنیا کا ایک ضابطہ ہے جو چیز قلیل ہوتی ہے، اس کی وقعت و اہمیت ہوتی ہے، اس سے وابستہ افراد کو پلکوں پر بٹھایا جاتا ہے، ان کی قدردانی ہوتی ہے، عہدہ و منصب سپرد کئے جاتے ہیں تاکہ یہ عزت و توقیر دیکھ کر آنے والی نسلیں اس راہ کو اپنے لئے منتخب کریں اور قلت کثرت میں تبدیل ہوجائے، ہمارے ملک کی تعلیمی صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں بھی طلبہ اور علماء کے ساتھ یہی طرزِ عمل ہوگا، ان کی عزت و توقیر کی جاتی ہوگی، ان پر دولت لٹائی جاتی ہوگی، ان کا مقام بلند ہوگا، اسکالرز کو مختلف طریقوں سے نوازا جاتا ہوگا، طالبات پر خصوصی رعایت کی جاتی ہوگی، کچھ چیزوں کو دیکھا جائے تو لگتا ہے یہ سب ایک حد تک ہورہا ہے، مثلا اسکالرز کے لئے فیلوشپ اور چند رعایتیں ہیں، لیکن در حقیقت صورت حال کچھ اور ہی ہے، اسی فیلوشپ کے لئے اسکالرز کو مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور بہت سے مسائل کا انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے علاوہ موجودہ صورت حال میں طلبہ کی جان کا تحفظ، ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ایک بڑا مسئلہ ہے، جس نے ہمارے ذہنوں میں سوالات پیدا کردئے ہیں اور خاص طور پر اقلیتوں سے وابستہ طلبہ اور دلت طبقات سے متعلق طلبہ کے ساتھ ملک بھر میں جو طرز رائج ہے، وہ ہندوستان کے تعلیمی مستقبل پر سوالیہ نشان لگاتا ہے، ملک میں دلت اور مسلمانوں کی تعلیمی شرح پہلے سے ہی بہت کم ہے، اب وہ ترقی کررہے ہیں، حصول تعلیم میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہے ہیں ، انہیں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، اگر ہم ان کی راہ میں دیوار حائل کریں گے تو کیا یہ ملک کے لئے نقصان دہ نہیں ہوگا،چونکہ ہندوستان کی کثیر آبادی دلت اور مسلمان ہے، اگر یہ تعلیم سے دور رہتے ہیں تو ہندوستان کا ترقی کرنا ممکن نہیں ہے، واقعات اس بات کی شہادت دے رہے ہیں، کس طرح سے مسلم طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، انہیں نفرت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے، جملے کسے جاتے ہیں، گذشتہ جمعہ کو ہریانہ کے مہندر گڑھ میں ایک کشمیری طالب علم جمعہ کی نماز پڑھ کر لوٹ رہا تھا، اس کے ساتھ مارپیٹ کی گئی، اس نے کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو ٹوئیٹ کرکے اس واقعہ کی خبر دی اس کے بعد رپورٹ درج کرلی گئی، اس کے علاوہ حد درجہ تکلیف دہ واقعہ اور ہمارے ملک کی تہذیب و ثقافت کو مسمار کرنے والا حادثہ پیش آیا، دارالعلوم ندوۃ العلماء کے دو غیر ملکی طلباء کی اس وقت پٹائی کردی گئی جب وہ بازار میں خریداری کررہے تھے، معمولی سی بات پر انہیں زدو کوب کیا گیا، اس سے ملک کی شبیہ پر حرف آتا ہے اور ہمارے طلبہ جو دوسرے ممالک میں مقیم ہیں، ان کے لئے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے اور یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے دروازہ پر بم پھوڑا گیا تھا، دارالعلوم دیوبند کے طلبہ کی ٹرینوں میں پٹائی کرنا، انہیں گالیاں دینا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ، جو اقلیتوں سے متعلق طلبہ کی راہ میں دیوار حائل کرنے کے مثل ہے، حالانکہ مدارس ہندوستان کی ترقی اور تعلیمی شرح کو بلند کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور یہ شدت اس وقت تکلیف دہ ہوتی ہے، جب یونیورسٹیز میں کسی طالب علم کو محض ذات برادری مذہب و مسلک کی بنیاد پرستایا جاتا ہے، اذیت دی جاتی ہے، تو یقینی طور پر طلبہ کے حوصلہ پست ہوتے ہیں اور یونیورسٹیز کی طرف ان کا اقدام سرد ہوتا ہے، وہ ڈرتے ہیں اور تعلیمی سفر منقطع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، عدم تحفظ کا ہمیشہ ان کے ذہن میں گھر کئے رہتا ہے اور اس طرز کے بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں، پھبتیاں کسنے کے واقعات کا شمار کرنا تو ممکن ہی نہیں ہے، اس کے علاوہ دو چند واقعات ایسے ہیں جنہوں نے طلبہ اور ان کے اہل خانہ کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، دہلی کا مشہور ادارہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی جس کی پہچان ہی یہی تھی کہ وہاں مذہب کی بناء پر امتیاز نہیں کیا جاتا سب کو ایک سمجھا جاتا ہے، وہاں سے ایک طالب علم نجیب غائب ہوا ہے، اس کا کوئی علم نہیں ہے، خفیہ محکمہ ناکام ہے، مشہور دہلی پولیس ناکام ہے، ایک بھی گرفتاری نہیں ہے، کوئی ثبوت پولیس تلاش نہیں کر پائی ہے تو طلبہ کے تحفظ کا مسئلہ کیوں نہ اٹھایا جائے، روہت وومیلا کا درد بھرا خط آج تک اس کے قتل کی کہانی بیان کرتا ہے، کون ہے جس کو اس جرم کی پاداش میں سزا دی گئی؟ کس کو سولی پر لٹکایا گیا؟ پھر کیوں طلبہ خوف محسوس نہ کریں، اسی طرح لڑکیوں کے ساتھ جو معاملات پیش آتے ہیں وہ انتہائی تکلیف دہ ہیں، ان کا استحصال کیا جاتا ہے، عزت سے کھیلا جاتا ہے، فیل کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے، دہلی یونیورسٹی کے کالج میں پیش آنے والا واقعہ اس کی مثال ہے، اور بھی بہت سے واقعات ہیں جو خدشات کو وجود بخشتے ہیں، آخر کب تک طلبہ کے ساتھ اس طرح کے معاملے پیش آتے رہیں گے؟ پولیس گناہ گاروں کو پکڑنے میں کیوں ناکام ہے؟نجیب کہاں ہے انتظامیہ کو کیوں نہیں معلوم؟ اس کے گناہ گار کہاں ہیں؟ کیا پوری دہلی میں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں جس سے نجیب کا کوئی سراغ لگتا؟ کیا لکھنو کی اس مارکیٹ میں کوئی موجود نہیں تھا جہاں طلبہ کو پیٹا گیا، کیا مجرموں کو تلاش کرنا ممکن نہیں ہے؟?کیا وہاں کیمرے نہیں تھے؟طلبہ کے ساتھ یہ معاملہ آخر کیوں، کیا ہندوستان کے تعلیمی معیار کی کوئی فکر نہیں ہے؟?کیا اس بڑھتی صورت حال پر قابو پانا ممکن نہیں ہے؟جب ریگنگ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، تو اس صورت حال پر شکنجہ کیوں نہیں کسا جاسکتا ہے، طلبہ کی حفاظت کے لئے سخت ترین اقدامات کرنے ہوں گے اور ان پر ظلم کرنے والوں اور پھبتیاں کسنے والوں کو سخت سزا دینی ہوگی اور اہل مدارس کو بھی اس بات کا
لحاظ رکھنا ہوگا کہ وہ کسی بھی معاملہ میں یہ کہہ کر پلہ نہ جھاڑیں کہ یہ ہمارا طالب علم نہیں ہے، بلکہ قانونی چارہ جوئی کریں طلبہ کا تعاون کریں حقائق کا سراغ لگائیں اور طلبہ پر آنے والی مشکلات کا ازالہ کریں، حکومت ہند بھی اس جانب سنجیدہ اقدامات کرے، ورنہ تعلیمی شرح کم ہوگی، حکومت ہند کو بھاری نقصان ہوگا، جہالت اپنا سایہ دراز کرنے لگے گی، ملک پر جہالت کے سیاہ دبیز پردے تن جائیں گے، متوجہ ہوجائیے ملک کو بچائیے جہل کی تاریکی کو ختم کیجئے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گرفتار
کولمبو :(قندیل نیوز)
مالدیپ میں صدر عبداللہ یامین کی جانب سے ایمرجنسی نافذ کئے جانے کے بعد پولس نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبداللہ سعید اور ایک دیگر جج کو آج گرفتار کرلیا۔ پولیس نے ٹویٹ کرکے بتایا کہ چیف جسٹس عبداللہ سعید اور سپریم کورٹ کے ایک دوسرے جج علی حمید کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم، پولس نے دونوں ججوں کے خلاف الزامات کے بارے میں کوئی تفصیلی معلومات نہیں دی ہے۔
مالدیپ کے صدر عبد اللہ یامین کی جانب سے 15 دنوں کے لئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کرنے کے چند گھنٹے کے بعد دونوں ججوں کو گرفتار کیا گیا۔ اس سے پہلے سابق صدر مامون عبدالقیوم کو بھی گرفتار کیا گیا ہے ۔
ایمرجنسی کے اعلان کے ساتھ ہی مالدیپ میں پہلے سے جاری سیاسی بحران مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ نے سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا جسے صدر نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔