مختلف ارکان کی اپوزیشن لیڈران سے ملاقات
نئی دہلی3جنوری(قندیل نیوز)
طلاق ثلاثہ بل کے راجیہ سبھا سے منظور نہ کیے جانے کے سلسلہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی کوششیں جاری ہیں اور ارکان راجیہ سبھا سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس بات کی پوری کوششیں کی جارہی ہیں کہ یہ بل سلیٹ کمیٹی کے سپرد ہوجائے۔مسلم مخالف بل قراردیتے ہوئے بورڈمسلمانوں کے جذبات سے بھی انہیں آگاہ کرارہاہے ۔ان ملاقاتوں اوردباؤ اورمسلمانوں کے عظیم اتحادکے مظاہروں کااثرآج راجیہ سبھامیں صاف دیکھاگیاجہاں کانگریس نے اپنے موقف کوبدلاہے اوراپوزیشن کی تمام پارٹیاں بل کوسلیکٹ کمیٹی میں بھیجنے پرمتفق ہیں جس کے بعدسرکاربیک فٹ پرآگئی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے اس مسئلہ پر کی جانے والی کوششوں کے تعلق سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ دہلی دفتر کے آفس سکریٹری مولانا ڈاکٹر وقار الدین لطیفی نے اخباری بیان جاری کرکے بتایا کہ گذشتہ کئی دنوں سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر محترم حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب اور جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی ہدایت کے مطابق ملک بھر میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے قائدین سے بورڈکی طرف سے مسلسل ملاقاتوں اور گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔اوراس کے تئیں ہررکن فکرمنداورکوشاں ہے۔ بورڈکے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی بذات خوداپنے اثرات سے بھی مختلف سیاسی قائدین سے مستقل رابطے میں ہیں۔اور بل کوپاس نہ کرنے دینے کے لیے اپوزیشن پردباؤبنائے ہوئے ہیں۔ان کے علاوہ بورڈ کے سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب، ترجمان بورڈ مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب اور بورڈ کی ویمنس ونگ کی سربراہ ڈاکٹر اسماء زہرہ صاحبہ پر مشتمل مسلم پرسنل لا بورڈ کا ایک سہ رکنی مؤقر وفد نے یکم جنوری ۲۰۱۸ء کو چنئی جاکر تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ اور A.I.D.M.Kکے لیڈر سے اور D.M.K.کے ورکنگ پریسیڈینٹ ایم۔ کے۔ اسٹالن سے ملاقات کرکے انھیں مجوزہ قانون کے بارے میں اپنے موقف سے آگاہ کیا، اور ان سے یہ اپیل کی کہ وہ اس بات پر زور دیں کہ اس بل کو سلیکٹ کمیٹی میں بھیجاجائے تاکہ وہاں اس کا تفصیلی جائزہ لے کر اس کی خامیوں کو دور کیا جاسکے۔دونوں لیڈروں نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ یہی موقف اختیار کریں گے۔ ان دونوں ملاقاتوں میں چنئی کی خاتون رکن بورڈ محترمہ فاطمہ مظفر صاحبہ بھی شریک تھیں۔ یکم جنوری۲۰۱۸ء ہی کی شام بورڈ کا یہ مؤقر وفد دہلی پہنچا اور دیررات تک کچھ ممبران پارلیمنٹ سے ملاقاتیں کیں پھر ۲؍جنوری کو پارلیمنٹ ہاؤس جاکر راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر جناب غلام نبی آزاد کے دفتر میں کانگریس کے سینئر لیڈران جن میں اپوزیشن لیڈر کے علاوہ کپل سبل، احمد پٹیل، کے رحمان خان، آنند شرما اور مسلم لیگ کے عبدالوہاب بھی موجودتھے۔تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وفد کے ارکان نے بہت تفصیل کے ساتھ اس بل کی ان خامیوں کی نشان دہی کی۔جن کی وجہ سے یہ مجوزہ قانون دستور ہند کے بھی خلاف ہے نیز سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ اور خواتین کے حقوق کے بھی خلاف ہے۔ تمام لیڈروں نے وفد کے ارکان کو یقین دلایا کہ اس بل کو اس حالت میں راجیہ سبھا میں پاس نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اور اسے سلیکٹ کمیٹی میں ضرور بھیجوایا جائے گا۔ وفد نے ۲؍جنوری کو D.M.K. کی فلور لیڈر کنی موزی سے، تیلگو دیشم کے راجیہ سبھا میں فلور لیڈر سی، رمیش نائیڈو سے، ترنمول کانگریس کے فلور لیڈر ڈیرک اوبرین سے بھی گفتگو کی، R.J.D.اور سماجوادی پارٹی کے لیڈروں سے بھی رابطہ کیا گیا اور آج بھی رابطہ اور گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔اسی دن کلکتہ میں رکن بورڈ مولانا ابوطالب رحمانی کی قیادت میں بورڈ کے ۱۲؍رکنی وفد نے سینئر کابینی وزیر سے ملاقات کرکے بورڈ کے موقف سے انھیں آگاہ کیا۔ اور ان سے اپیل کی وہ وزیر اعلیٰ کو بورڈ کے موقف سے آگاہ کریں اور ان تک بورڈ کا موقف اور اپیل پہونچائیں کہ راجیہ سبھا میں ان کی پارٹی کے ممبران اس بل کو موجودہ شکل میں پاس نہ ہونے دیں اور اسے سلیکٹ کمیٹی میں بھیجوائیں۔وفد کے ارکان کے بیان کے مطابق انہیں امید ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اپنے مبینہ موقف پر قائم رہیں گی اور بی جے پی اور آر۔ ایس۔ایس کی طرف سے پڑنے والے کسی دباؤ کے زیر اثر نہ آکر پوری دیانت داری کے ساتھ راجیہ سبھا میں اپنے موقف کا اظہار کریں گی۔
3 جنوری, 2018
تین طلاق بل پرمولانا اسرارالحق قاسمی کی کانگریس سمیت کئی اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات
راجیہ سبھامیں بل کوروکوانے اورسلیکٹ کمیٹی میں بھجوانے پرزوردیا
نئی دہلی:3جنوری(قندیل نیوز)
تین طلاق مخالف بل کو سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کرنے کی تحریک کی راجیہ سبھا میں منظوری کا خیر مقدم کرتے ہوئے مولانا اسرار الحق قاسمی نےآج کہا کہ لوک سبھا میں بھی انہوں نے اس بل کی پیشی کو روکوانے اور بحث میں اس کی مخالفت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں اس کا موقع ہی نہیں دیاگیا۔
یہاں یو این آئی سے بات کرتے ہوئے کشن گنج سے کانگریس کے لوک سبھا رکن مولانا قاسمی نے کہا کہ راجیہ سبھا میں پاس نہ ہو اس کے لئے کوشش شروع کردی اور اس ضمن میں انہوں نے کانگریس صدر کانگریس راہل گاندھی، راجیہ سبھا کے اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد، احمد پٹیل، ملک ارجن کھڑگے، جیوتی رادتیہ سندھیا، نیشنلسٹ کے رکن راجیہ سبھا مجید میمن، رکن لو ک سبھا سپریہ سولے، ترنمل کانگریس کے لیڈر احمد حسن عمران، ندیم الحق، سماج وادی پارٹی کے دھرمیندر یادو(رکن راجیہ سبھا)، سی پی ایم کے رکن راجیہ سبھا مسٹر سمپت اور رکن لوک سبھا محمد سلیم سے ملاقات کی اور اس بل کی خامیوں سے آگاہ کیا اور اسی کے ساتھ مولانا نے بل کے پس منظر میں مسلمانوں میں پائے جانے والے اضطراب سے بھی آگاہ کیا۔
مولانا نے بتایا کہ ’’ 28 دسمبر کو لوک سبھا میں تین طلاق سے متعلق جو بل پاس ہو امیں اس کا سخت مخالف ہوں کیونکہ یہ بل نہ صرف آئین کے خلاف ہے بلکہ شریعت اور خواتین کے مفادات کے بھی خلاف ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ’’لوک سبھا میں اس بل کے پاس ہونے کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف پہنچی اور میں چاہتا تھا کہ جب یہ بل راجیہ سبھا میں پیش ہو تو اس کی تمام خامیوں اور کمیوں کو دور کرنے کے لئے اسے سلیکٹ کمیٹی میں بھیج دیا جائے‘‘۔
لوک سبھا میں بل کی پیشی اور منظوری کے پس منظر میں انہوں نے بتایا کہ بل جب پیش ہوہی گیا تو وہ اس کی مخالفت کی تیاری میں لگ گئے اور دیگر ممبران کو بھی آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ابھی میں بحث میں اپنا موقف رکھنےکے لئے اپنی باری کا انتظار کر ہی رہا تھا کہ پتہ چلا کہ پارٹی نے ان کا نام اسپیکر کے پاس بھیجا ہی نہیں‘‘۔
مولانا نے بتا یا کہ ووٹنگ میں وہ مخالفانہ حصہ لینے کو تیار تھے لیکن اس سے پہلے کہ وہ رائے عامہ ہموار کر کے ایوان میں لوٹتے ووٹنگ ہو چکی تھی۔واضح ہوکہ لوک سبھامیں بل کے پاس ہونے کے بعدسے ہی مولانانے اسے راجیہ سبھامیں رکوانے کے لیے کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن لیڈران سے مل کر دباوبنایا کہ وہ راجیہ سبھامیں اس بل کوپاس نہ ہونے دیں اوراسے نظرثانی کیلیے سلیکٹ کمیٹی میں بھیجاجائے، اس سلسلہ میں مولاناقاسمی کوکوششیں رنگ لاتی ہوئی محسوس ہورہیں چنانچہ آج راجیہ سبھامیں سبھی اپوزیشن پارٹیوں نے تین طلاق بل کوموجودہ شکل میں پاس نہ کرنے اورسلیکٹ کمیٹی میں بھیجنے کازوردارمطالبہ کیاہے ـ
نئی دہلی3جنوری(قندیل نیوز)
بدھ کے روزراجیہ سبھامیں ٹرپل طلاق کا بل متعارف کرایا گیا تھا۔کانگریس کی قیادت میں، حزب اختلاف نے مطالبہ کیا کہ بل کو بہتر بنانے کے لیے سلیکٹ کمیٹی میں بھیجا جائے۔تاہم مودی حکومت نے اس سے انکارکیا۔کانگریس نے بل کے بارے میں مرکزی حکومت پرحملہ کیاہے۔کانگریس نے کہا ہے کہ پارٹی سمیت پورا اپوزیشن فوری طور پر تین طلاقوں کے خلاف ہے، لیکن بی جے پی سیاسی فائدہ اٹھانے کی جلدی میں ہے۔راجیہ سبھاکے اپوزیشن لیڈرغلام نبی آزادنے ایوان کی کاروائی کے بعد ایک پریس کانفرنس منعقد کرکے مودی حکومت پرحملہ کیاہے۔ غلام نبی آزاد نے کہا کہ پہلی بات یہ ہے کہ کانگریس اور متحدہ اپوزیشن تین طلاق کے خلاف ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بل مسلم خواتین کے ساتھ انصاف نہیں کرتا ہے،ہاں یہ بی جے پی کے لیے ایک سیاسی طورپرمفید ہوسکتا ہے۔کانگریس کے رکن نے کہا کہ بی جے پی کی حکومت کی تشکیل سے متعلق قانون میں، شوہر کو 3 سال تک جیل رکھا جائے گا جبکہ شوہر عورت کے اخراجات کے ذمہ دار بھی ہیں۔انہوں نے کہاکہ یہ گمراہ کن ہے اورخواتین کو ناانصافی دیناہے۔آزادانہ طورپر بی جے پی کو نشانہ بنایاکہ یہ حکومت مشاورت، مذاکرات پریقین نہیں کرتی ہے ۔آزاد نے کہا کہ سلیکٹ کمیٹی کافیصلہ اکثریت پر مبنی ہے، ہمارے پاس اکثریت کے ساتھ سیاسی جماعتیں اور ارکان پارلیمان بھی ہیں۔وزیرقانون روی شنکر پرساد نے بدھ کوراجیہ سبھامیںیہ بل پیش کیا۔اس کے بعد کانگریس کے لیڈرآنند شرما نے تجویزکو سلیکٹ منتخب کمیٹی میں بھیجنے کی بھی تجویزپیش کی۔اس کے بعدہنگامہ کے دوران کارروائی ملتوی ہوگئی۔
نئی دہلی3 جنوری ( قندیل نیوز)
پیر کو مہاراشٹر میں نسلی تشددبرپا ہونے کے باعث حزب اختلاف کی ہنگامہ آرائی کے درمیان راجیہ سبھا میں وزیر قانون روی شنکرپرساد نے تین طلاق بل پیش کیا ۔ روی شنکر پرساد نے کہا کہ طلاق ثلاثہ سماج میں ابھی بھی جاری ہے ، وہیں غلام نبی آزاد نے اس کی مخالفت کی ہے ۔وزیرقانون روی شنکر پرسادکے راجیہ سبھامیں بل پیش کرنے کے بعدکانگریس کے لیڈرآنند شرمانے تجویزکو سلیکٹ منتخب کمیٹی میں بھیجنے کی بھی تجویزپیش کی۔اس کے بعدہنگامہ کے دوران کارروائی ملتوی ہوگئی۔لوک سبھامیں کانگریس کے ڈھل مل رویہ کے بعدمسلمان سخت ناراض تھے۔مسلم پرسنل لابورڈکی اعلیٰ قیادت اوراراکین نے ہرہراپوزیشن پارٹی سے ملاقات اوررابطہ کرکے ذہن سازی کی جس کے بعدکانگریس بھی موقف بدلنے پرمجبورہوگئی۔ادھرترنمول کانگریس جس کی لوک سبھامیں خاموشی پراسراربنی ہوئی تھی،بورڈکے اراکین کی ملاقات اورذہن سازی کے بعدوہ بھی بل کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ آگئی ہے۔حزب اختلاف نے اس بل میں2 ترمیمات پیش کی ہیں۔ حزب اختلاف کے رہنما ارون جیٹلی نے اپوزیشن کی تجویز پر اعتراضات کیا اور کہا کہ اس بابت کافی حیران ہیں کہ تجویز اچانک پیش کیا گیا ، قاعدہ کے مطابق کم از کم ایک دن قبل نہیں پیش کیا جا سکتا ۔ارون جیٹلی نے کہا کہ اس بل سے پہلے سے ہی واقف کرایا گیا تھا ۔ترمیم کا مشورہ کم از کم ایک دن قبل دیا جانا چاہیے ؛لیکن اس کو ایک دن پہلے نہیں دیا گیا۔ جیٹلی نے کہا کہ میں نے کبھی ایسی ترمیم کی تجویز نہیں دیکھی ہے جس سے کم از کم 24 گھنٹے پہلے نہیں پیش کی گئی ،ایسا ایوان میں کبھی نہیں ہوا ۔مرکزی وزیررارون جیٹلی نے کہا کہ پورا ملک اس کو دیکھ رہا ہے کہ طلاق ثلاثہ بل کو ایوان زیریں میں حمایت دی گئی تھی ؛ لیکن ایوان بالا میں اس کی مخالفت کی جا رہی ہے ۔ جیٹلی نے اپنی تقریر میں ان وجوہات کا حوالہ دیا جس کے لیے بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجا نہیں جانا چاہئے تھا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ عمل جب ’غیر آئینی‘ قرار دیا گیا تو، دو ججوں نے جو اس کو ’ ناجائز ‘ تصور کرتے تھے انہیں غیر قانونی نہیں مانتے تھے ۔جیٹلی نے کہا کہ اسی وجہ سے لوگوں کوایوان سے ایک امید قائم ہوئی تھی بنابریں ہم پر لازم ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں ۔ ارون جیٹلی نے حیران ہوتے ہوئے کہا کہ ایک پارٹی جس نے ایوان زیریں میں اس کی حمایت کی تھی اب وہ ایوان بالا میں اس کی پرزور مخالفت کر رہی ہے ، جو کہ باعث حیرانی ہے
نئی دہلی:3جنوری(قندیل نیوز)
طلاق ثلاثہ بل کے راجیہ سبھا سے منظور نہ کئے جانے کے سلسلہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی کوششیں جاری ہیں اور ارکان راجیہ سبھا سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس بات کی پوری کوششیں کی جارہی ہے کہ یہ بل سلیٹ کمیٹی کے سپرد ہوجائے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے اس مسئلہ پر کی جانے والی کوششوں کے تعلق سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ دہلی دفتر کے آفس سکریٹری مولانا ڈاکٹر وقار الدین لطیفی نے اخباری بیان جاری کرکے بتایا کہ گذشتہ کئی دنوں سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر محترم حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب اور جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی ہدایت کے مطابق ملک بھر میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے قائدین سے بورڈ کی طرف سے مسلسل ملاقاتوں اور گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔
بورڈ کے سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب، ترجمان بورڈ مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب اور بورڈ کی ویمنس ونگ کی سربراہ ڈاکٹر اسماء زہرہ صاحبہ پر مشتمل مسلم پرسنل لا بورڈ کا ایک سہ رکنی مؤقر وفد نے یکم جنوری ۲۰۱۸ء کو چنئی جاکر تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ اور A.I.D.M.Kکے لیڈر سے اور D.M.K.کے ورکنگ پریسیڈینٹ ایم۔ کے۔ اسٹالن سے ملاقات کرکے انھیں مجوزہ قانون کے بارے میں اپنے موقف سے آگاہ کیا، اور ان سے یہ اپیل کی کہ وہ اس بات پر زور دیں کہ اس بل کو سلیکٹ کمیٹی میں بھیجاجائے تاکہ وہاں اس کا تفصیلی جائزہ لے کر اس کی خامیوں کو دور کیا جاسکے۔
دونوں لیڈروں نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ یہی موقف اختیار کریں گے۔ ان دونوں ملاقاتوں میں چنئی کی خاتون رکن بورڈ محترمہ فاطمہ مظفر صاحبہ بھی شریک تھیں۔ یکم جنوری۲۰۱۸ء ہی کی شام بورڈ کا یہ مؤقر وفد دہلی پہنچا اور دیررات تک کچھ ممبران پارلیمنٹ سے ملاقاتیں کیں پھر ۲؍جنوری کو پارلیمنٹ ہاؤس جاکر راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر جناب غلام نبی آزاد کے دفتر میں کانگریس کے سینئر لیڈران جن میں اپوزیشن لیڈر کے علاوہ کپل سبل، احمد پٹیل، کے رحمان خان، آنند شرما اور مسلم لیگ کے عبدالوہاب بھی موجود تھے۔ تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وفد کے ارکان نے بہت تفصیل کے ساتھ اس بل کی ان خامیوں کی نشان دہی کی۔جن کی وجہ سے یہ مجوزہ قانون دستور ہند کے بھی خلاف ہے نیز سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ اور خواتین کے حقوق کے بھی خلاف ہے۔ تمام لیڈروں نے وفد کے ارکان کو یقین دلایا کہ اس بل کو اس حالت میں راجیہ سبھا میں پاس نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اور اسے سلیکٹ کمیٹی میں ضرور بھیجوایا جائے گا۔ وفد نے ۲؍جنوری کو D.M.K. کی فلور لیڈر کنی موزی سے، تیلگو دیشم کے راجیہ سبھا میں فلور لیڈر سی، رمیش نائیڈو سے، ترنمول کانگریس کے فلور لیڈر ڈیرک اوبرین سے بھی گفتگو کی، R.J.D.اور سماجوادی پارٹی کے لیڈروں سے بھی رابطہ کیا گیا اور آج بھی رابطہ اور گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی صاحب مختلف سیاسی قائدین سے اس سلسلہ میں براہ راست رابطہ میں ہیں۔
اسی دن کلکتہ میں رکن بورڈ مولانا ابوطالب رحمانی کی قیادت میں بورڈ کے ۱۲؍رکنی وفد نے سینئر کابینی وزیر سے ملاقات کرکے بورڈ کے موقف سے انھیں آگاہ کیا۔ اور ان سے اپیل کی وہ وزیر اعلیٰ کو بورڈ کے موقف سے آگاہ کریں اور ان تک بورڈ کا موقف اور اپیل پہونچائیں کہ راجیہ سبھا میں ان کی پارٹی کے ممبران اس بل کو موجودہ شکل میں پاس نہ ہونے دیں اور اسے سلیکٹ کمیٹی میں بھیجوائیں۔
وفد کے ارکان کے بیان کے مطابق انہیں امید ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اپنے مبینہ موقف پر قائم رہیں گی اور بی جے پی اور آر۔ ایس۔ایس کی طرف سے پڑنے والے کسی دباؤ کے زیر اثر نہ آکر پوری دیانت داری کے ساتھ راجیہ سبھا میں اپنے موقف کا اظہار کریں گی۔
بروفات انورجلال پوری
بقلم محمد رضا جاسم
ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی
خورشید کی طرح سے منور رہے انور
دنیا میں اس طرح سے بھی جی کر رہے انور
اہلِ زباں کے لب پہ ہے تعریف کا کلمہ
اردوزباں کے فن کے دلاور رہے انور
لب کھولتے تھے جب بھی تو ہر پھول برستے
دنیا میں بے مثال سخنور رہے انور
اندازِ بیاں اور وہ الفاظ کی ترتیب
یوں فنِ نظامت کے پیمبر رہے انور
کس طرح بھلائے کوئی اندازِ تکلم
ہر ایک کے دلوں میں اترکر رہے انور
وہ محفلوں ،مشاعروں ہر اک کی شان تھے
اردو ادب میں مثل غضنفر رہے انور
ہر کوئی ان کے فن سے نظامت کو سیکھتا
ہر شخص کے دماغ کے پرور رہے انور
راحت علی صدیقی قاسمی
روشنائی کا سفیر، قلم کا خادم مشاعروں کی زینت رخصت ہوگیا، مشاعروں کی فضاء تاریک ہوگئی، اہل اردو کے قلوب میں غم چہروں پر افسردگی کے آثار نمایاں ہیں، مشاعروں پر حکومت کرنے والی شخصیت، ایک عہد تک مشاعروں میں گونجنے والی آواز اب کانوں میں نہیں پڑیگی، سامعین کے قلوب پر حکومت کرتی وہ دلکش آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی، موت کے سخت ترین حملہ نے اسے بھی خاموش کر دیا، جو بولتا تو رات بھر بولتا رہتا، جس کی آواز سامعین کے قلوب پر دستک دیتی، فضا پر سکوت وجمود طاری کردیتی، لوگ گفتگو میں محو ہوجاتے، زبان سے الفاظ نکلتے تو سامعین کی آنکھیں حیرت و استعجاب سے پھٹی رہ جاتیں، ذہن اُس دلفریب لب و لہجہ کا اسیر ہو جاتا، والد محترم جب انگلی پکڑ کر مشاعرہ لے گئے، تب اس شخص کو دیکھا جو چند ہی دنوں میں مشاعروں کی دنیا کی عظیم شخصیت بن گیا، بلکہ علم وادب میں بھی قابل قدر سرمایہ چھوڑ گیا۔ رنگ گندمی، چہرہ چوڑا قدرے دارزی مائل، ناک زیادہ لمبی نہ چپٹی متوسط، چہرے پر کھلتی تھی، پیشانی کشادہ، آنکھیں سرمئی، ہونٹوں کے درمیان سے جھانکتی مسکراہٹ کلی کھلنے کا احساس دلاتی تھی، چہرے کی بشاست ایسی جیسے زندگی بھر کسی غم سے سابقہ ہی نہیں پڑا، قد میانہ جسم فربہ موٹاپے کا شائبہ ہوتا نہ دبلے پن کا احساس، البتہ عمر کے ساتھ فربہی میں اضافہ ہوتا رہا، لیکن موٹاپے کی حد تک نہیں پہنچا، زباں شیریں، لہجہ انتہائی شائستہ و شگفتہ زبان سے الفاظ جماؤ کے ساتھ نکلتے صاف ستھرے خوبصورت جیسے کپڑے پر موتی ٹانک دئے گئے ہوں، تلفظ معیاری، تمہیدی گفتگو انتہائی پرکشش ہوتی، اتحاد و اتفاق، محبت و جمہوریت، انسان اور انسانیت کا وقار، مشاعروں کی عظمت اِس تقریر کے نمایاں موضوعات ہوتے تھے، ان الفاظ نےآپ کے ذہن میں یقیناً ایک عکس ابھار دیا ہے، اسی عکس کے نقش کو انور جلال پوری کہتے ہیں، جن لوگوں نے انہیں دیکھا ان کی تقریریں سنیں وہ ان جملوں کی تائید کریں گے، البتہ ان کی تقریر کا جو انداز اور تائثر تھا اسے پورے طور سمجھانے کے لئے دامنِ الفاظ تنگ ہے، جن لوگوں نے سنا ہوگا، وہ یقیناً جانتے ہیں، کئی مرتبہ مشاہدہ ہوا، مشاعرہ کی فضا بگڑ رہی ہے، سامعین ہوش کھو بیٹھے ہیں، قوی احساس ہورہا ہیکہ مشاعرہ منزل مقصود حاصل نہیں کرپائیگا، نظام درہم برہم ہوجائیگا، انتظامیہ کو لاٹھیاں اٹھانے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے، فوراً انور جلال پوری کھڑے ہوئے، اور سامعین کو ساکت و جامد کردیا، زبان سے ہوتا لفظوں کا وار اس ہیجان انگیز کیفیت کو شکست فاش دے دیتا، ایسا لگتا تلاطم خیز دریا آسمان چومتی لہریں پل بھر میں خاموش ہوگء ہوں، انور جلال پوری مشاعروں کے وقار اور اس کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے، شعراء کی فہرست سے زیادہ ان کے نام کو تلاش کیا جاتا تھا، ڈاکٹر ملک زادہ منظور کے بعد انہوں نے بحیثیت ناظم وہ مقام حاصل کیا جو چند ہی لوگوں کے حصہ میں آیا، ایک عمدہ کپتان کی طرح انہیں شاعر کو اسٹیج پر پیش کرنے کا وقت اور انداز بخوبی معلوم تھا، جس شاعر کو مائیک پر پیش کرتے اِس خوبصورت انداز سے پیش کرتے کہ سامعین کے قلوب میں اس کی اہمیت و وقعت اور اس کا مقام واضح ہو جاتا، اس کے لب و لہجہ اور شاعری کو چند جملوں میں بحسن و خوبی متعارف کراتے، موقع کی مناسبت سے اشعار پڑھتے، انہیں بہت سے اشعار یاد ہی نہیں بلکہ ان کا استحضار تھا، موقع کے مطابق اشعار ان کی زبان پر جاری ہوجاتے، راحت اندوری عام طور پر تفریحاً ایک شعر ان کی نذر کیا کرتے تھے، اور کہتے تھے:
بہت ماہر ہے یہ آدمی جھوٹ کے فن میں
یہ آدمی ضرور سیاست میں جائیگا
انور جلال پوری اس دار فانی سے رخصت ہوگئے، سیاست میں نہیں گئے، وہ تو ادب کے خادم تھے مشاعروں کے ہیرو تھے، اس کے لوازمات سے بخوبی واقف تھے، انسانیت کے پجاری اور انسانوں کے ہمدرد تھے، ان کی گفتگو ان کے اشعار سننے والا ہر شخص بلا تامل یہ کہ سکتا ہے، بلکہ سرعام دعوی کرسکتا ہے، کہ وہ سچے انسان اور اچھے ناظم تھے، ان کی نظامت نے انہیں پوری دنیا میں عزت و شہرت عطا کی بلند مقام دیا، چاہنے والے محبت کرنے والے افراد عطاکئے، وہیں ان کی بہت سی خوبیوں کو نگاہوں سے اوجھل بھی رکھا، چونکہ جب سورج چمکتا ہے تو ارد گرد کے سیارے اوجھل ہوجاتے ہیں، اپنی خدمت وجود اور طاقت کے باوجود نظر نہیں آتے یہی صورت حال انور جلال پوری کی بھی ہے،وہ ایک اچھے شاعر معیاری انشاء پرداز، تاثراتی نقاد، ترجمہ نگار، نعت گو، سیرت نگار تھے، انہوں نے میدان شاعری میں وقیع کارنامے انجام دئے، جو ان کے وجود کا احساس کراتے رہیں گے، ان کی شاعری کی خوبی آسان الفاظ اور سہل ترکیب سے بڑے معنی پیدا کرنا ہے، ان کی شاعری میں بھاری بھرکم الفاظ کی قلت اور اور بلند تخیل کی کثرت ہے جو انہیں عمدہ شاعر اور اعلی تخلیق کار بناتی ہے، انور جلال پوری کی شاعری ہمہ جہت ہے، جس میں سماج کے پسماندہ طبقات کا درد انکی تکلیف و کڑھن، مسلمانوں کی شان و شوکت،عظمت رفتہ، محنت کشوں کی عظمت، تغزل، عورت کی قدر و منزلت، اور سماج کے چہرے کے بدنما داغ عیاں ہوتے ہیں، لیکن وہ انتہاء خوبصورتی اور چابکدستی سے کہتے ہیں تعصب و عناد ان کی شاعری کے قریب سے ہو کر بھی نہیں گذرتا، محبت کا پیغام دیتے ہیں، مسائل بیان ہی نہیں کرتے ان کا حل تلاش کرنے کی جرئت بھی کرتے ہیں، غریب و مفلس حالات سے مقابلہ آرا شخص کی کیفیت کو واضح کرتا ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے، اور ان کی خوبصورت شاعری کا اعتراف کیجئے:
مسلسل دھوپ میں چلنا چراغوں کی طرح جلنا
یہ ہنگامے تو مجھ کو وقت سے سے پہلے تھکا دیں گے
حقیقت بیاں کرتا ہوا یہ شعر ان کے لب و لہجہ کی عکاسی کرتا ہے، عمدہ اخلاق کی تعلیم، اور محبت سے کائنات کو فتح کرنے ہنر بھی ان کی شاعری عطا کرتی ہے، وہ انسان کی مشکلات پر پھبتیاں نہیں کستے بلکہ اس میں سکون و راحت کا پہلو بھی تلاش کرتے ہیں، نفرت جنگ تعصب ان کی نظر میں معاشرے کے شدید ترین مسائل ہیں، اور ان سب کا علاج محبت ہے، مشاعروں کی رنگا رنگ دنیا میں نفرت بیچ کر محبت نہیں کماتے، پیار کا پیام دیتے ہیں، ملاحظہ کیجئے:
تم پیار کی سوغات لئے گھر سے تو نکلو
رستے میں تمہیں کوئی بھی دشمن نہ ملے گا
اور اسی طرح یہ بھی دیکھئے:
میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں سدا اخلاق کا پارس
اسی پتھر سے مٹی کو چھوکر سونا بناتا ہوں
انور جلال کی شاعری میں ہمارے معاشرے کا درد بھی ہے، اس کا درماں بھی، غریب کی تکالیف مشکلات و مسائل ہیں، تو اس کے لئے حوصلہ بخش خیال بھی، وہ آنسو بہانے کے قائل نہیں ہیں، ان کی شاعری نالہ و شیون نہیں ہے بلکہ زندگی کے کئی رخوں کی خوبصورت تصویر ہے، جس کا ایک رخ کچھ اس انداز سے شعری پیکر میں ڈھلتا ہے:
سوتے ہیں بہت چین سے وہ جن کے گھروں میں
مٹی کے سوا کوئی بھی برتن نہ ملے گا
انور جلال پوری کی شاعری میں انجماد نہیں ہے، ترقی ہے رفعت و بلندی ہے، حقائق بیان کرنے کی جراتہے، قصہ گوئی نہیں صداقت ہے، خو اس کا اعتراف کرتے ہیں، اسکے علاوہ انکی شاعری کا نمایاں پہلو اسلامیات سے وابستگی ہے، رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی نعت لکھنا، اور چند نعتیں نہیں بلکہ کئی مجموعے شائع ہونا کسی بھی شاعر کے قد کو بلند کردیتا ہے، انور جلال پوری کے تین نعتیہ مجموعہ شائع ہو کے ہیں، ضرب لاالہ، بعد از خدا، حروف ابجد، جمال محمد کے نام سیرۃالنبی، انور جلال کا یہ وہ عظیم کارنامہ ہے جو ان کی قدر و منزلت کو دوبالا کرتا ہے، اور ان کے عشق نبی کا مظہر ہے، آپ صل اللہ علیہ السلم سے محبت کی دلیل ہے، اور یہ سفر یہی پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ انور جلال پوری نے خلفائے راشدین کی منظوم سیرت رہ رو رہنما تک لکھی ہے، جس سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا علم ہوتا ہے، اس کتاب میں مکمل طور پر خلفائے راشدین کی سیرت بیان نہیں کی گئی، لیکن جتنے بند لکھے گئے، وہ انتہائی معیاری قسم کی ہیں، جو موصوف کی فنی صلاحیتوں اور کہنہ مشاقی آپ صل اللہ علیہ السلم کے اصحاب سے محبت کا مظہر ہیں، ہجرت کے موقع کو بیان کرتے اشعار خوب ہیں، حضرت علی کی خلافت فتح و کامرانی کے سفر کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے، اس طرح شہادت عثمان کو جس طرح منظوم کیا گیا، وہ آبدیدہ کردیتا ہے، اور شاعر کی منظر نگاری کی جو
صلاحیتیں ہیں ان کا قائل کردیتا ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہ کی بہادری کو انتہائی عمدہ پیراییمیں بیان کیا گیا ہے، غزوہ بدر میں آپ کی شجاعت و بہادری کی خوبصورت تصویر کھینچی گئی ہے، یہ کتاب انور جلال کی شاعری اور فن کو رفعت و بلندی کے ان منازل پر لے گء جو ہر شخص کے حصہ میں نہیں ہوتی، انہوں نے بنگالی ادب کے مشہور شاعر نوبل انعام یافتہ ربیندر ناتھ ٹیگور کی کتاب گیتانجلی کا منظوم ترجمہ کیا، شریمد بھگوت گیتا کا منظوم اردو ترجمہ جو انتہائی مشکل کام ہے، اس طرح کے خیالات ہر شخص کے حصہ میں نہیں آتے، اس کوشش سے جہاں انہوں نے نفرت کی دیواروں کو پاٹنے کی کوشش کی ہے، وہی زبانوں سے وابستہ عصبیت کو کم کرنے کوشش کی ہے، اور اردو والوں کے لئے غیر اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ پیش کیا ہے، جس سے وہ استفادہ کرسکتے ہیں، اور سنسکرت و بنگالی ادب کی قدر و منزلت کے معترف ہوسکتے ہیں، انور جلال پوری شاعری تک محدود نہیں تھے، بلکہ انہوں نثر میں روشنائی کے سفیر نامی تخلیق چھوڑی ہے، اس کتاب میں انہوں نے اپنی زندگی اپنے علاقہ کی فضا ماحول ادبی حالت کے علاوہ غالب ابوالکلام اور دیگر شخصیات پر اظہار خیال کیا جسے وہ تاثراتی تنقید کے زمرے رکھتے ہیں، انور جلال پوری کی اس خوبصورت کاوش میں بہت سے ان افراد کے تذکرے موجود ہیں، جن کو انہوں نے قریب سے دیکھا ان کی شاعری سنی پرکھی، اور اس کتاب میں خوبصورتی سے بیان کردیا، نثر خوبصورت ودلکش ہے موزوں تنقیدی زبان قطعی استعمال نہیں کی ہے، کہیں خاکہ کا احساس ہوتا ہے اور کہیں انشائیہ کا لیکن قاری لطف اندوز بھی ہوتا ہے، اور شخصیت سے واقف بھی دلیل کے طور پر چند سطریں پیش خدمت ہیں، ڈاکٹر ملک زادہ منظور کے تعارف میں لکھتے ہیں’’مشاعروں سے ڈاکٹر صاحب کا تعلق وہی ہے جو تاج محل سے شاہ جہاں کا۔ جس طرح یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ تاج محل زیادہ خوبصورت ہے یا شاہ جہاں کے ذہن کی تخئیل،اسی طرح یہ بھی فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آزادی کے بعد ہمارے ملک میں مشاعرے زیادہ مقبول ہوئے یا ملک زادہ منظور احمد کا انداز تعارف‘‘ان جملوں سے میرے دعوے کی تائید ہوتی ہے، انور جلال پوری کی تخلیقی قوتوں اور خوبصورت نثر نگاری کا بھی اندازہ ہوتا ہے، ان خوبیوں کی حامل شخصیت ہمارے درمیان سے رخصت ہوء یقیناً باعث تکلیف ہے، لیکن انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے ساتھ بھرپور انصاف کیا، اور انتہائی مشغولیت کے باوجود گراں قدر سرمایہ چھوڑا جو ان کو ہمیشہ اہل ادب کے درمیان زندہ رکھیگا، ان کی چودہ مطبوعات موجود ہیں، یش بھارتی ایوارڈ سے نوازے گئے، مدرسہ بورڈواردواکیڈمی کے چیئرمین رہے، ایک عظیم فن کار دنیا سے رخصت ہوا، انہیں کے ایک شعر پر اپنی بات مکمل کرتا ہوں:
پرایاکون ہے اور کون اپنا سب بھلادیں گے
متاعِ زندگانی ایک دم ہم بھی لٹادیں گے