حقانی القاسمی
عظمتیں بھی ہجر ت کرتی رہتی ہیں ۔
اس لئے اگر مغرب کا اندلس اجڑ گیا ، مشرق کا اعظم گڑھ آباد ہوگیا تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ دلی نہ اجڑتی تو لکھنؤ آباد نہ ہوتا۔ڈ علوم و فنون، تہذیب و تمدن کو بھی نئے مکانوں ، نئے زمانوں ا ور نئے قدر دانوں کی تلاش رہتی ہے اور اسی تلاش کے نتیجے میں یہ اپنا مستقر بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی مغرب تو کبھی مشرق کبھی شمال کبھی جنوب ۔علوم و فنون کی محافظت نہ ہو تو مہاجرت مجبور ی بن جاتی ہے۔یہ ایک فطری عمل ہے۔ علوم و فنون کا ارتقائی سفر ٹھہر جائے تو کائنات ایک تاریک خلا میں تبدیل ہو جائے گی۔
اعظم گڑھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا ہر قصبہ مانک مول ہے۔ اگر علم سونا ہے تو اعظم گڑھ یقیناًسونا اگلنے والی زمین ہے جسے راجہ بکرما جیت سنگھ کے بیٹے راجہ اعظم خان نے 1665میں آباد کیاتھا۔ اسکی دلچسپ تفصیل حاجی شاہ افضال اللہ قادری نے اپنی کتاب’ تاریخ اعظم گڑھ‘ میں لکھی ہے:
’’شہنشاہ جہانگیر کے دور میں قصبہ مینہ نگر کے متصل موضع کھجوری کے معزز گوتم چھتری خاندان سے شری راجہ ابھیمن سنگھ نے آگرہ جا کر اسلام قبول کر لیا، دولت خاں اسلامی نام سے موسوم ہوئے اور اپنی خدادادقابلیت و صلاحیت سے کافی شہرت پائی، شہنشاہ جہانگیر نے راجہ ابھیمن سنگھ ( دولت خاں) کو سر کار جونپور و الہ آباد کا صوبہ دار مقرر کیا، تزک جہانگیری کی عبارت درج ذیل ہے:‘‘
’’دولت خاں فوجداری بہ صوبہ جونپور و صوبہ الہ آباد متعین یا فتہ بود، آمدہ ملازمت نمود منصب اوکہ ہزاری بود پانصد افزود شد۔‘‘
دولت خاں کی حیثیت قبول اسلام کے قبل بھی نہایت شاندار پر شکوہ تھی، وہ دولت و ریاست کے لحاظ سے بھی ممتاز تھے، جونپور و الہ آباد کی گورنری کے بعد شہنشاہ جہانگیر نے ان کو اعظم گڑھ میں بائیس پر گنہ جات جاگیر میں دیے تھے، اب ان بائیس پرگنہ جات میں کچھ ضلع غازیپور ، بلیا اور فیض آباد کے ضلعوں میں شامل ہو گئے ہیں۔
دولت خاں لا ولد فوت ہوئے، انھوں نے اپنی حیات ہی میں ساری ریاست اپنے بھتیجے راجہ ہر بنس سنگھ کو عطا کردی تھی، اعظم گڑھ کے شاہی پل( بڑا پل) سے پچھم ایس۔ ایس۔پی اعظم گڑھ کے بنگلہ سے دکھن جانب ان کی کوٹ یا چھاؤنی تھی، انہیں کے نام سے موضع ہر بنس پوروتپہ ہربنس پور آباد اور اب تک موجود مشہور ہے، راجہ ہر بنس سنگھ کے لڑکے راجہ بکر ما جیت سنگھ تھے، جنہوں نے اپنے حقیقی بھائی کو قتل کر دیا تھا، اس اقدام جرم کی پاداش میں اورنگ زیب کی فوج نے راجہ بکرما جیت سنگھ کو گرفتار کر کے دارالخلافہ دہلی پہنچایا، وہاں جا کر انھوں نے اسلام قبول کر لیا، بعد رہائی واپس ہوئے اور انھوں نے ایک مسلم خاتون سے شادی کر لی، ان کے بطن سے دو لڑکے پیدا ہوئے جن کا نام راجہ اعظم خاں، راجہ عظمت خاں تھا، اپنے قلعہ میں اقامت گزیں ہوئے، راجہ اعظم خاں نے 1665میں اس جگہ کا نام اپنے نام کی نسبت سے اعظم گڑھ رکھا اور بسایا، راجہ عظمت خاں نے اپنے نام کی نسبت سے موضع کو نڈر عظمت پور بسایا، دوسرا قصبہ عظمت گڑھ آباد کیا۔ (تاریخ اعظم گڑھ ص 35)
عہد تیموریہ میں بسنے والا یہ وہ شہر ہے جس کے چھوٹے چھوٹے قصبات نے ایسے ایسے آفتاب و مہتاب کوجنم دیا ہے جنکی ضوفشانی پوری علمی کائنات میں ہے ۔مبدا فیاض کے الطاف و عنایات کی مظہر یہ وہ سر زمین ہے جس کی عظمتوں کے نقوش پوری علمی کائنات میں مر تسم ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہاں کے چھوٹے چھوٹے قصبا ت سے آفاقی اور عالمگیر شہرت کی حامل شخصیتوں نے جنم لیا اور نظام افکار و اقدار پر اپنے گہرے اثرات مرتب کئے۔
چریا کوٹ ایک معمولی سا قصبہ رہا ہو گا۔ مگر وہاں سے قاضی عنایت رسول عباسی چریاکوٹی ، مولانا فاروق چریا کوٹی جیسی شخصیتوں کا تعلق ہے۔
حضرت راجہ سید مبارک شاہ (م 965ھ)کے نام پر بسا ہوا مبارکپورچھوٹا قصبہ ہے جو پہلے قاسم آباد کہلاتا تھا۔ اس قدر زرخیز ہے کہ وہاں کی زمین سے مولانا عبدالرحمن مبارکپوری(صاحب تحفۃ الاحوذی) ، مولانا عبدالسلام مبارکپوری (تاریخ المنوال کے مصنف)، مولانا عبید اللہ مبارکپوری( مرعاۃ المفاتیح کے مصنف)، مولانا صفی الرحمن مبارکپوری (سیرت پر سب سے اچھی تصنیف الرحیق المختوم کے مصنف)، اور قاضی اطہر مبارکپوری جیسے ذی علم آفاقی شہر ت یافتہ افراد نے جنم لیا، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جن کی عظمت کا اعتراف بلا لحاظ مسلک و ملت پوری علمی دنیا نہ کرتی ہو۔ ایک چھوٹے سے قصبے میں ایسی بڑی بڑی شخصیتوں کی موجودگی اس کی عظمت پر مہرثبت کرنے کے لئے کافی ہے ۔[ اس قصبے پر رشک کرنے کے لئے قاضی اطہر مبارکپوری کی دیار پورب میں علم و علماء اور تذکرہ علماء مبارکپور کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔]
بندول چھوٹا سا قصبہ ہے مگر اس نے ایک ایسی شخصیت کو جنم دیا جس کی فکر نے پور ے عالم اسلام میں انقلا ب بر پا کیا ہے ، وہ شخصیت شبلی نعمانی کی ہے جو اردو کے عناصر خمسہ میں سے ایک ہیں باقی چار سر سید ، ڈپٹی نذیر احمد ، مولانا حالی اور مولوی محمد حسین آزادہیں۔ دنیا انھیں مورخ ،سیرت نگار ، نقاد، اور مورخ کی حیثیت سے جانتی ہے۔جن کے بارے میں پروفیسر خورشید الاسلام نے لکھا تھا کہ شبلی پہلا یونانی ہے جس نے ہندوستا ن میں جنم لیا۔
اسی طرح اعظم گڑھ کے اور بھی قصبات اور دیہات ہیں جہاں سے عظمتوں کو معتبر نام ملے ہیں۔ میجواں نے کیفی اعظمی جیسے ممتاز ترقی پسند اور معتبر شاعر کو جنم دیا تو پھریہا مفسر قرآن حمید الدین فراہی جیسی عظیم شخصیت کی زاد گاہ ہے۔یہیں کی تحصیل گھوسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سیتا کنڈ ہے ، زمانۂ بن باس میں رام چندرجی یہاں تشریف لائے تھے اور یہاں ارجن و بھیم بھی آئے تھے۔(بحوالہ تاریخ اعظم گڑھ) اسی اعظم گڑھ میں سونر ہڑی بھی ہے جہاں سے آلہا اودل کا تعلق ہے جو بہار ،بنگال کے دیہاتوں میں بہت مشہور ہے۔ اعظم گڑھ کا ماہل بھی بہت معروف ہیں جو یہیں سے پروفیسر احتشام حسین جیسے نقاد اور شاہد ماہلی جیسے شاعر کا تعلق ۔ اسکے علاوہ اس کی شناخت وہ شخصیت بھی ہے جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں ان کانام حسن علی ماہلی ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے قائم کردہ فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس میں شعبہ فارسی کے مدرس تھے۔ اور ان کے رفقا میں تراب علی نامی شمس الدین احمد ، محمد مہدی واصف اور مرزا عبدالباقی وفا جیسی شخصیتیں تھیں جن کے علمی کارنامے کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ خاص طور پر محمد مہدی واصف 300کتابوں کے مصنف تھے جن کا سب سے بڑا کارنامہ انگریزی ، فارسی ہندوستانی لغت کی ترتیب اس کے علاوہ دلیل ساطع کے نام سے سنسکرت ہندی فارسی لغت تصنیف کی اور مناظراللغات کے نام سے فارسی اردو لغت مدون کیا۔ یہاں کی زمین کا ذرہ ذرہ آفتاب و مہتا ب ہے ۔ ہر طرف علم کی بہار ہے ۔اور اسی علم نے اس کے نصیب میں عظمت جاوداں لکھ دی ہے۔
علوم وفنون کی مختلف شاخوں میں یہاں کے مکینوں نے بلند مقام حاصل کیا ہے۔ ہر شعبۂ حیات میں اسے سبقت حاصل ہے۔ مذہبیات ہو یا ادبیات ، نثر ہو یا شاعری، فکشن ہو یا تنقید، تاریخ ہو یا تہذیب ، اعظم گڑھ نے عظمتوں کی روشن عبارتیں تحریر کی ہیں۔ اقبال سہیل نے یہاں کے ہر ذرے کو نیر اعظم کہا تھا۔ اور غلط نہیں کہا تھا کہ یہاں ہر شخصیت کے دروں میں ایک آفتاب پنہاں ہے۔
شاہ عبدالغنی پھولپوری خلیفۂ اجل مولانا اشر ف علی تھانوی، صاحب بہار شریعت مولانا شاہ امجد علی گھوسوی، مولانا ابواللیث ندوی( چاند پٹی) مولانا صدر الدین اصلاحی( سیدھا سلطان پور) ، مولانا امین احسن اصلاحی ( بمہور) ، مولانا عبدالسلام ندوی ( علاؤ الدین پٹی) ، سر شاہ سلیمان (مسلم یونیور سٹی علی گڑھ کے چھٹے وائس چانسلر ، ساکن ولید پور بھیرا، مولانا عبدالرحمن پرواز اصلاحی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، مولانا مجیب اللہ ندوی، بریگیڈ یئر عثمان ، پنڈت اجودھیا سنگھ ہر یودھ ،عالمی شہرت یافتہ سائنسداں پروفیسر شمیم جیراج پوری (مولانا اسلم جیراجپوری کے پوتے اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد کے پہلے وائس چانسلر) ان میں سے ہر شخصیت اپنی ذات میں انجمن ہے۔ انہیں جیسی شخصیات نے اعظم گڑھ کو چشم و چراغ عالم بنایا ہے۔ دارالمصنفین اعظم گڑھ ،جامعہ اشرفیہ مبارکپور، جامعۃ الفلاح بلریا گنج ، احیاء علوم مبارکپور اور مدرسۃ الاصلاح سرائے میر جیسے اداروں کی وجہ سے اسکی روشنی کا دائرہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔
راہل سانکرتاین
اسی مٹی کے مہتاب راہل سانکرتیاین تھے جن کا وطن پنداہا اعظم گڑھ تھا۔جنہوں نے اپنے وطن ہی نہیں پوری دنیا میں اپنے دانش کے چراغ سے روشنی پھیلائی اور ایسے کارنامے انجام دیئے کہ دنیا نے انہیں ایک دانشور اور مفکر کی حیثیت سے تسلیم کیا۔ ادب ، سماج ا ور سیاست میں ایک ایسی لہر پیدا کی کہ دنیا عش عش کرنے لگی۔تقریبا وہ تیس زبانوں کے ماہر تھے۔مگر اردو زبان نے ان کی شخصیت کو ایک نئی جہت دی۔ اور ان کی متحرک شخصیت کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا ۔ اردو کے ہی ایک شعر نے ان کی دنیا بد ل دی۔ پر بھاکر ماچوے نے لکھا ہے کہ’’
جب وہ اپنے آبائی گاؤں کے مدرسے میں اردو سیکھ رہے تھے تو ’’ نوازندہ‘‘ کی ایک کہانی ’’ خود آرائی کا نتیجہ‘‘ میں ایک شعر ان کو بہت بھا گیا تھا اور وہ ان کے دل پر نقش ہو گیا تھا۔ اپنی خود نوشتہ سوانح میں انھوں نے اسے کئی بار دہرایا ہے:
سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھرکہاں
زندگانی گر کچھ رہی تو نوجوانی پھر کہاں
او رشاید یہ اسی کا اثر تھا کہ ’’ ہمیشہ حرکت میں رہو‘‘ ایک جگہ مت رکو‘‘ ان کی زندگی کا اصول بن گیا۔ یہ شوق سفر و حرکت انھیں اندر ہی اندر اکساتا اور ترغیب دیتا رہا کہ گھر گرہستی کی آسودہ و مطمئن پھیکی زندگی سے دور رہیں چنانچہ وہ کبھی کہیں ایک مقام پر جم کر نہیں رہے، ہمیشہ حرکت میں رہے اور خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزار دی۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ ، ایک ملک سے دوسرے ملک ایک لسانی علاقے سے دوسرے لسانی علاقے ، انسانی تلاش کے ایک میدان سے دوسرے میدان میں پیہم چلا چل ۔ وہ کبھی کچھ جمع کر کے رکھنے کے قائل نہیں رہے ،تلاش علم ان کی کبھی نہ بجھنے والی پیاس تھی‘‘
اردو کے اسی ایک شعر نے ان کے بحر کی موجوں میں اتنا اضطراب پیدا کیا کہ ان کے قدم کہیں ٹھہرے نہیں ،وہ جمنوتری گنگوتری تک پہنچے ،ہمالیہ کا درشن کیا، لداخ ، انورادھا پور، پولنا مرو ، کولمبو، لندن ، پیرس ، جرمنی، لاہسہ، چانگ، ساکیہ، ننام ، نیپال ، سنگاپور، ہانگ کانگ، شنگھائی، کوبے، ٹوکیو، کویاسان ، تہران ، اصفہان ، شیراز کے نہ صرف اسفار کئے بلکہ سفر نامے بھی لکھے ۔
اسی سیاحت نے ان کی ذہنی رومیں تبدیلیا ں پیدا کیں اور نئے افکار سے ان کا ذہن آشنا ہوا۔ کھلی آنکھوں سے انھوں نے پوری دنیا کے تہذیبی ، لسانی اور فکری و علمی منظر نامے کو دیکھا جس سے ان کے قلب و نظر کو نئی وسعتیں ملیں ۔ اور عرفان وآگہی کا دائرہ وسیع ہوا ۔ سیاحتی تجربات نے ان کے افکار او ر اقدا رمیں تبدیلی بھی پیدا کی ۔ وہ ایسے اشخاص سے متاثر ہوئے جو سماجی مسلمات اور مذہبی مفروضات کے مخالف تھے۔ راہل، پنڈت رام اوتار شر ما سے بھی فکر ی طور پر متاثر ہوئے جو ویدوں کو نہیں مانتے تھے اور نہ ہی ان کا دیوی دیوتاؤں پر یقین تھا۔ایک راسخ العقیدہ بر ہمن گھرانے میں پیدا ہونے والے راہل بھی انہی کی روش پر چل پڑے اور مختلف مذہبی نظریات اور عقائد کے تجربات کرتے ہوئے آخر میں مارکسسٹ ہو گئے۔ اور سوشلزم پر ان کا یقین پکا ہو گیا۔
راہل سانکرتیاین عربی ، فارسی کے علاوہ تیس اور زبانیں بھی جانتے تھے۔ انھوں نے سب سے بڑا کارنامہ جو انجام دیا وہ یہ کہ سنسکرت میں تبتی زبان کا قاعدہ مرتب کیا۔ اور اس طرح عالمی سطح پر اپنی علمیت اور قابلیت کے جوہر دکھائے۔ پر بھاکر ماچوے نے لکھا ہے کہ :
راہل نے سنسکرت میں تبتی زبان کا قاعدہ اور اس کی گرامر لکھ کر ایک بہت اہم کام انجام دیا کہ اس کی مدد سے دھرماکرتی ، سو باندھو اور دسنگا جیسے بدھسٹ منطق دانوں کے کارناموں کی ازسر نوترتیب و تد وین ہو سکی اور ان کو محفوظ رکھا جا سکا۔ شیر بالٹسکی بدھسٹ منطق کے عالم و ماہر روسی مصنف اپنی لینن یونی ور سٹی کی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ’’ خود ان کے علاوہ دنیا میں صرف ایک ہی شخص اور ہے جو اس موضوع پر مہارت رکھتا ہے اور وہ راہل سنکر تیاین تھے۔ ایک بدھسٹ اسکالر کی حیثیت سے سوویت روس نے ان کو لینن گراڈیونی ور سٹی میں پڑھانے کی دعوت دی اور اپنے آخری ایام زندگی میں انھوں نے سری لنکا و دیا لنکا ر یونیورسٹی میں بھی بدھ ازم اور فلاسفی پر لکچر ر دیے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان کی کسی یونیورسٹی نے دعوت دینا تو در کنار ، ان کو پڑھانے کی اجازت بھی نہیں دی اس لئے کہ ان کے پاس کوئی باقاعدہ ڈگری نہیں تھی، یہ ہماری تنگ نظر اکیڈمک بیورو کریسی کا کتنا بڑا المیہ ہے۔‘‘
تنگ نظر اکیڈمیک بیورو کویسی نے کتنے جوہر قابل کو تباہ و برباد کیا، یہ الگ داستان ہے۔ یہاں صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود دانش اپنے اعتراف کی راہ خود تلاش کر لیتی ہے جس کی نمایاں مثال راہل سنسکر تائین تھے۔
’گنگا سے اولگا‘ تک لکھنے والے راہل سچے انسان دوست تھے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔ سفرنامہ، تاریخ، فلسفہ ، لسانیات ، عمرانیات، سیاسیات، ان کی دلچسپی کے موضوعات تھے او ر ان موضوعا ت پر کتابیں بھی ہیں ۔ وہ ایک روشن ضمیر دانشور او ر مورخ تھے جنہوں نے اپنے پورے عہد کی سماجی ، سیاسی اور علمی تاریخ مرتب کر د ی ہے۔مدھیہ ایشیا کا اتہاس، رگ ویدک آریہ ، اکبر، بھارت کے انگریز ی راج کے سنستھاپک، رامائن اور مارکسواد، ان کی وہ کتابیں ہیں جن سے ہمارے عہد کو روشنی مل سکتی ہے۔
انھوں نے اعظم گڑھ کی برا کتھا بھی لکھی ہے اور بدھا چاریہ ، دھما پد، ما جھما نکایا، درگا نکایا، اسلام دھرم کی روپ ریکھا جیسی کتابیں بھی لکھیں اور خاکے لکھے تو ڈاکٹر کے ایم اشرف، محمد شاہد، سید جمال الدین بخاری، مبارک ساگر، ڈاکٹر زیڈ اے احمد، محمود الظفر ، اور فضل الٰہی قربان کو فراموش نہیں کیا۔ کیدار ناتھ پانڈے پوری دنیاکا سفر کرتے کرتے راہل سانکرتیاین بن گئے۔ اسفار نے انھیںآفاقی وژن بھی عطا کیا اور عالمی بصیرت سے بہرہ ور کیا مگر ان کا اصرار مقامیت اور علاقائیت پر رہا۔یہ بہت نقطے کی بات ہے خاص طور پر آج کے تنقیدی ڈسکورس کے تعلق سے راہل کی یہ روش ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے ۔ شاید پیراڈائم شفٹ کی راہ بھی دکھا رہی ہے۔ پر بھاکر ماچوے نے لکھا ہے:
’’ وہ ایسے آرٹ اور ادب کے سخت مخالف تھے جو صرف سنگ مر مر کے اونچے میناروں میں بند رہے اور صرف معززین اور شرفا کے لئے لکھا جائے۔ ایک موقعہ پر شاعری میں مقامی اور علاقائی رنگ پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے راہل لکھتے ہیں:
’’ ہندی ادب میں تنوع کی کمی ہے اس لئے ایسا لگتا ہے جیسے ہندی ادیب خواہ ان کا تعلق بہار کے میدانوں سے ہو یا پہاڑی علاقوں سے مار واڑ کے ریگستانوں سے ہو یا جبل پور کے وندھیا چل کے جنگلوں سے ، سب نے جیسے آپس میں سازش کر رکھی ہے کہ کوئی کبھی اپنی شاعری میں کسی مقامی منظر کو داخل نہیں ہو نے دیگا۔‘‘
جس مٹی نے ایسے سپوت کوجنم دیاہوبھلا وہ مٹی کیوں نہ ناز کرے۔اعظم گڑھ کے ناز کرنے کو حوالوں کی کمی نہیں ہے۔
کیفی اعظمی
اعظم گڑھ کا ایک روشن حوالہ کیفی اعظمی بھی تھے جنہوں نے
زندگی بھر انسانیت کے درد کو اپنے سینے میں محسوس کیا اور اس درد کی ترسیل کی۔ وہ ترقی پسند تحریک کے آخری سپہ سالار تھے۔ ان کی آنکھوں میں جو خواب تھے بہت مقدس تھے۔ وہ سچ مچ ایک عظیم انسان تھے اور اس انسانی تحریک سے جڑے ہوئے تھے جس نے بحر ظلمات میں اپنی روشنی فکر کے گھوڑے دوڑائے اور انسانی شعور اور احساس کو ایک ایسا وژن دیا جس میں انسانیت کی فلاح و بہبود مضمر تھی۔
کیفی اعظمی نے اس ہندوستان میں 1929میں جنم لیا جو غلام تھا، جوانگریزوں کی قید میں تھا اور پھر اپنے انقلابی نغموں سے تحریک آزادی کی جد و جہد میں حصہ لیا۔ ملک آزاد ہوا تو ان کی آنکھوں میں ایک ہی سپنا تھا ، سوشلسٹ ہندوستان کا سپنا۔ یہ سپنا تو پورا نہیں ہوا مگر انھوں نے اس ہندوستان کو ضرور دیکھا جس نے ان کے پورے وجود کو دکھوں میں تحلیل کر دیا اور جب ملک کا سماجی، سیاسی جغرافیہ بدلا اور فرقہ واریت، فسطائیت ،مذہبی تشدد پسندی کی لہر پھیلنے لگی، ہندوستان جلنے لگا، ہر طرف خون کی ندیاں بہنے لگیں، بے گناہ مارے جانے لگے اور انسانیت کا قتل عام ہونے لگا تو کیفی اعظمی کے قلب سوزاں میں تیز انی سی لگی اور انھوں نے محسوس کیا کہ اب یہ ان کے خوابوں کا ہندوستان نہیں رہا۔ جس ہندوستان کی آزادی کے لئے انھوں نے آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ وہ ہندوستان تو عالمی نقشے سے غائب ہے۔ وہ کوئی اور ہندوستان ہے جو رام اور کرشن، نانک اور چشتی کی دھرتی میں مدغم ہو گیا ہے اور ہندستان کی مشترکہ تہذیب کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، جن آنکھوں نے یہاں بھگت سنگھ، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، پنڈت جواہر لال نہرو اور نہ جانے کیسے کیسے انقلابیوں کو دیکھا تھا۔ انہیں آنکھوں نے جب چھ دسمبر کو بابری مسجد کے انہدام کا منظر دیکھا تو ان کا پورا تخلیقی ذہنی وجود، اس سانحہ سے لرزہ بر اندام ہو گیا۔ انھوں نے رام جی کے ہندوستان کو مرتے اور نئے ہندوستان کو جنم لیتے ہوئے دیکھا تو وہ پکار اٹھے:
رام بن باس سے لوٹ کے جب گھر میں آئے
یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے
رقص دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہو گا
چھ دسمبر کو سری رام نے سو چا ہو گا
اتنے دیوانے میرے گھر میں کیسے آئے
پاؤں سر جو میں ابھی رام نے دھوئے بھی نہ تھے
کہ نظرآئے وہاں خون کے گہرے دھبے
پاؤں دھوئے بنا سر جو کنارے سے اٹھے
راجدھانی کی فضا آئی نہ راس مجھے
چھ دسمبر کو ملا دوسرا بن باس مجھے
امام الہندرام کے ہندوستان کی موت ، دراصل ہندوستان کی آتما کی موت تھی
اور جس دھرتی کی آتما مر جاتی ہے اس دھرتی میں زندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا ۔ کیفی اعظمی کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ وہ ملک جسے اس کے سپوتوں نے اپنے خون سے سینچا اور سنواراتھا۔ اب وہی خونی ملک بن گیا ہے۔ وہ ہر طرف لہو کا منظر دیکھتے تھے او ر ان کی حساس آنکھیں لہو رونے لگتی تھیں۔ چاہے وہ لہو کسی بھی سطح پر بہتا ہو، ان کے لئے بہت ہی دردناک تھا۔ وہ مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کے آدمی تھے۔ ان کے دل میں انسانی محبتیں تھیں۔ اس لئے جہاں کہیں بھی منافرت کے منظر دیکھتے وہ اداس ہو جاتے اور کیفی اعظمی کے ذہن و احساس کی تختی پر یہ اشعار یوں ابھرتے:
عزا میں بہتے تھے آنسو یہاں لہو تو نہیں
یہ کوئی اور جگہ ہو گی لکھنؤ تو نہیں
یہاں تو چلتی ہیں چھریاں زبان سے پہلے
یہ میر انیس کی آتش کی گفتگو تو نہیں
ٹپک رہا ہے جو زخموں سے دونوں فرقوں کے
بغور دیکھو یہ اسلام کا لہو تو نہیں
کیفی اعظمی کی شاعری میں انسانی درد مندی کے چراغ روشن ہیں اور یہ دردمندی فیضان ہے اس نظریئے سے وابستگی کا جس نے انسانی مساوات، معاشی برابری کا علم لہرایا۔ کیفی اعظمی مولوی بننے کے بجائے اس لئے مارکسی بن گئے کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے جبر و ستم کے مناظر دیکھے تھے، جا گیر داروں کے مظالم دیکھے تھے، سرمایہ داروں کی ستم رانی دیکھی تھی ۔ اس وقت ان کے لئے مارکسی نظریہ حیات ہی واحد ذریعہ نجات نظر آیا۔ اس لئے انھوں نے زندگی بھر اس تحریک کی ترجمانی کی جس نے مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کیلئے لڑائیاں لڑیں اور ان کی آنکھوں کو وہ سپنے دیئے جس سے وہ بہتر اور با عزت زندگی جی سکیں۔ کیفی اعظمی کی شاعری میں ان محنت کشوں کا درد بھی موجزن ہے۔ یہ ان کی انسانیت پسندی کا ایک روشن ثبوت ہے۔ سقوط ماسکو کے بعد جہاں بہت سے مارکسی اس درد سے دور ہو گئے وہیں کیفی اعظمی نے اپنے نظریئے پر استقامت کا ثبوت دیا۔ سیاسی زوال کو جن لوگوں نے نظریاتی موت سے تعبیر کیا، وہ آج اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ مارکسی ازم کا تصور ایسا تھا جو کبھی مرنے والا نہیں ہے بلکہ ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہے گا اور کیفی اعظمی نے اس ایقان اور ایمان کے ساتھ آخر تک اس نظریئے کے ساتھ وفاداری نبھائی اور جب آخری وقت آیا تو ان کے بدن سے لپٹا ہوا سرخ پرچم بھی تھا۔ کیفی اعظمی کی شاعری منافرت کے سینوں کو چیر کر اس میں محبتوں کے بیچ بونے والی شاعری ہے۔ ان کی شاعری ہمیشہ زندہ رہنے والی شاعری ہے۔ کیونکہ اس شاعری میں مقد س خواب ہیں اور خواب ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
کیفی اعظمی کا تعلق اس انقلابی قافلے سے رہا ہے، جس کی آنکھوں میں نئے انسان کے خواب ، نئے عہد کی بشارتیں تھیں۔ یہ شاید وہی قافلہ تھا جس نے یوسف بے کارواں کو’’ غیابتہ الجب ‘‘ سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔ ’ہیومنزم‘ کیفی اعظمی کا شعر ی شناس نامہ ہے۔ اس تمام انسانی سلسلے سے ان
کا ذہنی و فکری رشتہ جڑ اہے جس کا مبدا حضرت آدم ہیں تو منتہا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور اہل بیت ہیں۔
ایک دو بھی نہیں چھیس دیئے
ایک ایک کر کے جلائے میں نے
ایک دیا نام کا ایک جہتی کے
روشنی اس کی جہاں تک پہنچی
قوم کو لڑتے جھگڑتے دیکھا
ماں کے آنچل میں ہیں جتنے پیوند
سب کو ایک ساتھ ادھیڑ تے دیکھا
دور سے بیوی نے جھلا کر کہا
تیل مہنگا بھی ہے، ملتا بھی نہیں
کیوں دیئے اتنے جلا رکھے ہیں
اپنے گھر میں نہ جھروکہ نہ منڈیر
طاق سپنوں کے سجارکھے ہیں
آیا غصہ کا ایک ایسا جھونکا
بجھ گئے سارئے دیئے
ہاں مگر ایک دیا نام ہے جس کا امید
جھلملاتا ہی چلا جاتاہے
ان کے یہاں یہی رجائیت روشن تھی، انہیں احساس تھا کہ ہر رات کے نصیب میں سحر ہے اور یہ کہ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔
معین احسن جذبی
مبارک پور کے معین احسن جذبی( 21اگست 1912، 13فروری 2005) ایسے شاعر ہیں جن کے شعروں کی گونج ایوان اقتدار میں سنائی دیتی ہے۔ ان کے یہ چند شعر تو زبا ن زد خلائق ہیں اور ضرب الامثال کی حیثیت رکھتے ہیں:
جب کشتی ثابت و سالم تھی ، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی کو ساحل کی تمنا کون کرے
اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
مرنے کی دعائیں کیوں مانگو ں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا ، اب خواہش دنیا کون کرے
فروزاں ، سخن مختصر اور کداز شب ان کے شعر ی مجموعے ہیں ۔ حالی کا سیاسی شعور ان کا تحقیقی مقالہ ہے ۔وہ آجکل نئی دہلی کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔ اور مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ریڈر بھی ۔ پہلے ملال تخلص تھا بعد میں جذبی ہوئے ۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے، بعد میں بیزار بھی ہوئے اور یہ ایک فطری رد عمل ہے۔
کسی بھی نظر یاتی نظام سے وابستگی یا بر گشتگی عصری دنیا میں اب کوئی معنی نہیں رکھتی۔ کیونکہ نظریے سے بر ہمی، بیزاری یا دل بستگی پیوستگی میں اپنی ذاتی پسند اور نا پسند بھی شامل ہوتی ہے اور ماحول فضا کابھی کچھ دخل ہوتا ہے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ محض کوئی بھی فکر یاتی نظام کسی بھی تخلیقی فن پارے کو دوام عطا نہیں کر سکتا۔ یا کوئی بھی نظریاتی نظام کسی تخلیقی فن پارے کے عروج یا تنزل، ارتقاء، و انحطاط کافیصلہ نہیں کر سکتا کہ جتنی بھی نظریاتی تحریکیں اور رجحانات ہیں، سب پر خود نزع کی کیفیت طاری ہے۔ نظریے، مرتے اور جنم لیتے رہتے ہیں مگر سچی تخلیق ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ کسی بھی تخلیق کی حرکیت ہی اسے حیات عطا کرتی ہے۔ معین احسن جذبی کا کسی نظریاتی تحریک سے انسلاک و اتصال ہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ آج کی دنیا میں زیادہ اہمیت کا حامل نہیں رہا۔ اصل بات ان کے تخلیقی نظام، اس کے درو بست اور اس کے توازن اور تناسب کی ہے۔ جذبی اس لحاظ سے ایک اہم شاعر ہیں کہ ان کا فن یا آرٹ کسی نظریے کی بیساکھی کے سہارے بلند نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ان کی تخلیق کی بلند قامتی میں ان کے سوز دروں ، آتش نہانی اور خون جگر کا حصہ ہے۔ ان کا تخلیقی رنگ و�آہنگ الگ سے ہی پہچانا جاتاہے۔ انھوں نے زندگی کے رنگا رنگ تجربات اور بو قلموں مشاہدات کو اپنے احساس و اظہار کا پیر ہن عطا کیا ہے۔ صر ف یاس آگیں تخیل یا حزنیہ لے کسی شاعر کو ابدیت کی معراج نہیں عطا کرسکتی۔ اس لئے معین احسن جذبی کی شاعری میں صرف انہی چیزوں کے حوالے تلاش کرنا ایک کار بے مصرف ہی کہلائے گا۔ جذبی کی شعری انفرادیت کی تلاش کے لئے زیادہ پیچ و تاب کھانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ان کے شعری مجموعے ان کی انفرادیت کا اظہار نامہ ہیں۔
ہر بڑا تخلیق کار نظریاتی، مکانی و زمانی محدودات و تعینات سے ماورا ہوتا ہے۔ جذبی بھی ایسے ہی شاعر ہیں جنہیں کسی خاص زمانی مکانی، نظریاتی حصار میں قید نہیں کیا جا سکتا کہ تخلیق اسیر ی نہیں، آزادی کا نام ہے۔ ترقی پسند آواں گا رد غزلیہ شاعری کے افق پر جذبی ایک مہ کامل اور ماہتاب درخشاں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جذبی نے جذبہ ، احساس ، اظہار ، تخیل، بیان کی سطح پر اپنی انفرادیت اور علیحدہ شناخت بر قرار رکھی ہے۔ وہ ہجوم بیکراں کا حصہ نہیں بنے ہیں۔ لیکن المیہ اور وقت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی اعلیٰ معیاری شاعری کے باوجود انہیں Underrattedکیا گیا۔ اور ان سے کم تر درجے کے شاعروں کو عظمتوں کے فلک الافلاک پر بٹھا دیا گیا۔ جب کہ ان کی شاعری میں ابدیت کی قوت موجود ہے اور ان کا شعری سر مایہ اجتماعی حوالے کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ ان کی شاعری ہمیشہ قدر و قیمت کی نقاہ سے دیکھی جائے گی اور ان کا تخلیقی استمرار بھی بر قرار رہے گا۔ ان کی شاعری کا حسن و انبساط کبھی کم نہیں ہو سکتا:
یہ پھول وہ ہیں کہ شاید کبھی نہ مر جھائیں
جذبی نے بالکل صحیح کہا ہے۔ ان کا نغمہ وقتی فغاں نہیںَ بلکہ ابدی نغمہ ہے جو ساز حیات پر ہمیشہ تھرکتار ہے گا۔ ان کی شاعری کے چمن میں جو پھول ہیں اس کی خوشبو ہمیشہ مشام جاں کو معطر کرتی رہے گی۔
رحمت الٰہی برق اعظمی
اعظم گڑھ کے ممتاز سخن وروں میں ان کا بھی شمار ہے ۔ انہوں نے مختلف اصناف سخن وطبع آزمائی کی۔ان کی شاعری پڑھتے ہوئے ممتاز ناقد محمد حسن عسکری کی وہ بات ذہن میں گونجنے لگتی ہے جو انہوں نے فراق گورکھپوری کے تعلق سے کہی تھی۔ کہ فراق کی شاعری کی خوبی یہ ہے کہ بھر پور سانس کی شاعری ہے ان کی شاعری کی سانسیں چھوٹی اور بڑی نہیں ہیں۔ اور عسکری صاحب نے بھی شاعری کے سانس کے اثرات کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سانس کا نظام درست نہ ہوتو شاعری اچھی نہیں ہو سکتی۔ برق اعظمی کی شاعری کی بھی وہ خوبی ہے کہ اس میں سانس یا سارس کی پروبلم نہیں ہے ۔انھوں نے تضمینیں بھی لکھی ہیں اور تاریخی قطعات بھی لکھے ہیں اور دونوں مشکل معرکیں ہیں وہ یقینی طورپر ان یک لسانی شاعروں سے مختلف ہیں جو چند بحور و اوزان تک ہی موقوف و محدود ہیں۔ مگر برق اعظمی کا دائرہ سخن صحرا کی طرح وسیع اور بسیط ہے ۔ ان کی تخلیقی شعلگی اور شعری آتش فشانی کا اندازہ مختلف اسالیب اور اصناف میں لکھی گئی شاعری سے ہوتا ہے۔ انھوں نے لکھنو اور دہلی دونوں دبستانوں سے استفادہ کیا ہے ۔ تنویر سخن ان کا مجموعہ کلام ہے جس میں انھوں نے عالم خواب و خیال میں عارف رومی اقبال اور غالب سے گفتگو کی ہے۔ حضرت عبدالرحمن جامی ، خواجہ عثمان ہارونی ، حضرت امیر خسرو، نصیر الدین چراغ دہلوی، اور فخر الدین عراقی،کی غزلوں پر جو تضمین انھوں نے لکھی ہیں وہ بہت کامیا ب ہیں اور اس بات کی دلیل برق اعظمی کا مطالعہ مختلف ادبیات کو محیط ہے۔ خواجہ عثمان ہارونی کی غزل پر ان کی تضمین کچھ یوں ہے۔
میر سینہ رہے کب تک امین راز ہمرازاں
سہی جاتی نہیں اب تو سخن چینئ غمازاں
خبر لے اب طبیب حالت نا ساز نا سازاں
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم
برق اعظمی ( 1911-1983) کے کلام میں جو سادگی ، شیرینی، سوز اور ساز ہے وہ انہیں زندہ رکھیں گے۔ شاعر مشک بار ہو ، مثل گل اور گلاب ہوتو اس کی خوشبو دور دور تک پھیلتی ہے۔
اعجاز اعظمی
نئے نکات اور جزیروں کی جستجو اعظم گڑھ کی سر شت میں شامل ہے۔ نئی رہگذر اور نئے امکان کی تلاش ہی انفرادیت کے نقوش مرتسم کرتی ہے۔ یا انبوہ میں اختصاص عطا کرتی ہے۔سخن کے بیچ اعجاز اعظمی کا معاملہ بھی یہی ہے کہ انھوں نے خود کو مروجہ لفظوں یا شبدوں کے حصار میں قید نہیں رکھا اورنہ ہی اپنی فکر کو کسی ازم سے زنجیر کیا ۔ وہ آزادہ روی کے ساتھ لفظ و خیال کے سلسلے جوڑتے گئے اور اس طر ح محسوسات کی ایک نئی دنیا خلق ہوتی گئی۔اور لسانی سطح پر تجربوں سے شاعری بھی ایک نئی لذت سے ہمکنار ہوئی۔ دوسری زبان کے لفظوں کے وصال سے نظم نکھر نکھر سی گئی اور قاری ایک نئے منطقے سے محظوظ بھی ہوا ۔ ایسی بہت سی نظمیں ہیں جن میں اعجاز اعظمی نے اپنی لسانی ہنر مندی سے نئی کیفیت پیدا کر دی ہے :
راسا سائنگ (۱) کی دھن پر
اک انّا ڈارا(۲) ڈانس کرے
جیسے گاؤں کی گوری چھپ کر
پیتم سے رومانس کرے
جنگل میں منگل کامنظر
نو آبا د علاقوں میں
نئی نئی سڑکوں پر ابھرے
نئے نئے شاپنگ سنٹر
نیو اکنامک پالیسی میں
جنتا کا وشواس بڑھا
نئی نئی آشائیں جا گیں
نئی دشا کا باب کھلا
روزی روٹی کے رستے کی
سب بادھائیں دور ہوئیں
قد م قدم دور ہوئیں
قد م قدم منزل کی خوشبو
سب کے من کو بھائے
جو جاگے سو پائے بھائی
جو سوئے پچھتائے
یہی دعا ہے شاعر کی
ان دو لفظوں کے دیپ جلیں
دو شہروں کی بھٹکی روحیں
پھر آپس میں گلے ملیں
مدھر ملن کے لاگیں میلے
اعظم گڑھ سے پورٹ ڈکسن تک
من بھاون یادوں کے ریلے
اعظم گڑھ سے پورٹ ڈکسن تک
اعجاز اعظمی نے راسا سائنگ (ملائی لفظ جو احساس محبت کے معنی میں ہے) اورانّا ڈارا(بمعنی کنواری) جیسے نا مانوس لفظ سے قرب و انسیت کی کتنی اچھی فضا پیدا کی ہے۔ اس طرح کے لسانی تجربوں سے زبان کی وسعتوں میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ ہمارے احساسات اور جذبا ت کو بھی نئی تعبیر ملتی ہے۔ اعجاز اعظمی کے یہاں اجنبیت سے مانوسیت کا ماحول خلق کرنے کا شعری رویہ بہت سی نظموں میں ملتا ہے۔ کنی پوٹا دنگ گا اور موت کا کھیل ایسی ہی نظمیں ہیں جن میں نامانوس لفظوں کے باوجود تر سیلیت کسی بھی سطح پر مجروح نہیں ہوئی ہے:
کرو نینوں سے بات
رکھو تن پر نہ ہاتھ
کہے مدراسی نار
کنی پوٹا دنگ گا
(کنی پوٹا دنگ گا)
میرے احساسات کے ٹینکر پر
ہائیلی انفلیم ایبل (ا) کی تختی آویزاں ہے
پھر بھی تم ادھر
جلتے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑے
پھینک رہے ہو
کہیںیہ مذاق موت کا کھیل نہ بن جائے
کہیں تمہیں بھی اپنے دامن کو
بچانے کاموقع نہ مل پائے
تو پھر کیا ہوگا
لفظیات کی سطح پر تولید اور تجدد کا یہ عمل تو انہیں منفرد قرار دیتا ہی ہے موضوعات کی سطح پر بھی ان کے یہاں مشاہداتی اور تجرباتی تنوع ہے انھیں بھیڑ سے الگ کرنے کے لئے کافی ہے۔دوسرے ملک کے آسمانوں میں اپنی زمین کے شبد سورج اور فکر ستاروں کی تلاش بھی انھیں ایک نئی شناخت اور نقطۂ اتصال سے آشنا کرتی ہے۔ اور یہی شناخت کی وحدت انہیں اس تقسیم سے بچاتی ہے جو اکثر ذہنوں میں کلچر اور تہذیب کے تعلق سے بہت سے واہموں میں مبتلا کرتی ہے۔ اعجاز اعظمی نے شناخت کی اس مصنوعیت کومسترد کر کے اجنبی نقطوں میں قربت اور مماثلت تلاش کر لی ہے:
اپنے کمراواں کے کھیتوں کی مہک
ارضِ ڈکسن کے ہر اک دانے میں ہے
اعجاز اعظمی کی نظموں سے ان کے حساس تخلیق وجود کا پیکر ابھرتا ہے۔ایک ایسا وجود جس کے دل میں سارے جہاں کے در د کی آگ سلگ رہی ہے۔ اور وہ دل اپنے کینوس پر اپنے عصر کے واردات واقعات ، اور سانحات کو نقش کر رہا ہے۔شاعر کی بیدار نگہی اسے عالمی گاؤں سے جوڑ دیتی ہے۔اعجاز کی نظموں میں عصر ی واردات کی ایسی بہت سی تصویریں نمایاں ہیں جن میں ان کا ذہنی کرب بھی اپنی پوری شدت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ایک نظم کا یہ انقلابی اور احتجاجی لہجہ دیکھئے :
یہ لبنان میں آج کیا ہو رہاہے
جدھر دیکھئے صرف بم گر رہا ہے
میں جل رہے ہیں مکاں جل رہے ہیں
سیاست زدہ جسم و جاں جل رہے ہیں
یہ مظلومیت کے نشاں جل رہے ہیں
ہے فینٹم لڑاکو جہازوں کے ذریعہ
کئی دن سے عربی محلوں پر یورش
جو عربوں کے پٹرول سے چل رہے ہیں
یہا ں شرقِ اوسط میں صد ہا برس سے
یہ بازی گراں سامراجی درندے
سدا کشت و خوں میں ملوث رہے ہیں
وہی سامر اجی درندے جواب بھی
صیہونیت کے لبادے پہن کر
فلسطینیوں کو ذبح کر رہے ہیں
نئے شرق اوسط کی تاریک راتوں
کے بوجھل افق سے
نہا یا ہوا خون میں سرخ سورج
ابھرنے لگا ہے
ابھر کر رہے گا
شہیدوں کا خوں
رنگ لا کر رہے گا
عالمی سامراجی سیاست کی سفاکی کے ساتھ ساتھ انہیں سماجی اقدار کی زبونی اور زوال کا بھی احساس ہے۔ جس کی شکلیں سیکس فار سیل اور تہذیب ڈالر جیسی نظموں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
کہیں چھلکتی ہے میکدوں میں
کہیں سر عام ڈھل رہی ہے
نئی گپھاؤں میں۔۔۔۔۔۔
حرم سراؤں۔۔۔۔۔۔
نگار خانوں میں چشم و لب سے
کشید ہو کر پگھل رہی ہے
دبی دبی خواہشوں کے کوندے
لپک رہے ہیں دل جواں میں
حصول نان جویں کی چاہت
رباب دل میں شرر فشاں ہے
مہکتے گلزار جسم و جاں میں
گداز و شیریں
جوان و نغمہ نواز گوشے
حدیث آدم سنا رہے ہیں
ازل سے اب تک
خدا کے بندے
خد ا کی اس پاک سر زمیں پر
گناہ آدم اگا رہے ہیں
(سیکس فار سیل)
یہ ڈالر کیا ہے؟
میرا حال و مستقبل
اسی ڈالر کی نسبت سے
مری پہچان ہوتی ہے
یہ نمبر دو کے دھندے کی کرامت ہے
تقاضا ہے یہی تہذیب نو کا
سابقہ قدر یں بدل ڈالو
زمانہ جب بدلتا ہے
تو قدریں بھی بدلتی ہیں
سمجھ کر وقت کے تیور
نئی تہذیب میں ڈھل جا
اسی میں سر خروئی ہے
یہی معیار ہستی ہے
یہی تہذیب ڈالر ہے
اعجاز اعظمی نے گویا کہ نظم اور غزل دونوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ مگر ان کے نظمیہ اظہار میں نئی دشائیں ملتی ہیں۔ جبکہ غزلیہ شاعری کلاسیکیت کی سمت میں سفر کرتی نظر آتی ہے۔ غز ل میں بھی انھوں نے کہیں کہیں ذولسانی تجرے کئے ہیں۔ جو ان کی لسانی مہارت کا ثبوت ہیں جیسے غزل کایہ شعر:
کرتے ہو ڈس گریس مجھے کیوں گلی گلی
دس ایٹی چیوڈ از ان فرینڈلی
ان کی کئی غزلیں داخلی احساسات اور تجربات کی عکاسی کرتی ہیں۔غزل کے یہ چند شعر ان کے باطنی ارتعاشات کی خوبصورت ترجمانی
کرتے ہیں۔
برہ کی آگ میں میرا کنوارا پن سلگتا ہے
کہ تجھ بن اے ساجن میرا جیون سلگتا ہے
تمہار ی جب مدھر یادیں مجھے آکر ستاتی ہیں
میر ی انگڑائیوں کی آنچ سے درپن سلگتا ہے
اعجاز کی شاعری میں طنز کی نشتریت اور مزاح بھی ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کو نئے تجربوں سے سجایا اور سنوارا ہے۔ ان کا مجموعہ کلام’’ اعجاز سخن‘‘ ان کی تخلیقی ہنر مندی کا مکمل اظہاریہ ہے۔ان کے لفظیاتی اور فکریاتی نظام پر گفتگو طوالت چاہتی ہے المختصر یہ کہ اعجاز اعظمی ہمارے عہد کے ان شاعروں میں ہیں جنہیں سنجیدگی سے پڑھا جائے تو سخن کے بہت سے نکتے اور تخلیقی فکر و اسلوب کے جوہر تابدار سامنے آئیں گے۔
عزم سہر یاوی
اعظم گڑھ کی زمین شہر سخن کا ایک کا اہم نام ابوالفیض عزم سہریاوی کا بھی ہے جن کے اشعار ندرت فکر اور جدت اظہار کی گواہی دیتے ہیں اور جنہوں نے خود کو مخصوص موضوعات میں مرتکز نہیں کیا ہے۔ان کے طائر خیال کی پرواز بھی بلند ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے سخن کو آسماں کیا ہے اور شبد ستاروں سے ایک خوبصورت کہکشاں سجائی ہے۔
ان کی فکر کا ئنات سے رشتہ جوڑتے ہوئے ذہن پر بہت سی حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں بالخصوص وہ حقائق جو ذہن رسا سے ہی معرض وجود میں آتے ہیں۔ عزم سہریاوی نے حیات اور کائنات کے اسرار کو اظہار کا پیکر عطا کیاہے۔ ان کے یہاں زندگی اپنی مختلف شکلوں میں رونما ہوتی ہے۔ان کے چند اشعار سے ان کے فکری کینوس کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
کبھی مندر میں پروہت،کبھی گرودوارے میں سنت
ہم نے دیکھا ہے اسے روزاک ہر مٹ کی طرح
اس پہ اے عزم بھروسہ بھی کریں تو کیسے
رنگ ہر روز بدلتا ہے جو گرگٹ کی طرح
…………………
دیے جلاؤ ذرا روشنی تو ہونے دو
کبھی یہ ختم غم زندگی تو ہونے دو
اب ایک ساتھ ہی مل جل کے بیٹھ لیں ہم تم
اس انجمن میں ذرا دل لگی تو ہونے دو
…………………
یہ بستی ہے نئے لوگوں کی شاید
یہاں پہچانتا کوئی نہیں ہے
مری باتوں کے قائل تو سبھی ہیں
مگر اب مانتا کوئی نہیں ہے
…………………
وہ سنپولے ہیں زہر میں ڈوبے
موقع ملتے ہی کاٹ لیتے ہیں
ہم میں ایسے بھی لوگ ہیں کتنے
غم جو اوروں کے بانٹ لیتے ہیں
…………………
یہ معاشرے کے وہ مشاہدے ہیں جو شاعری میں ڈھل گئے ہیں۔ایسے ہی مشاہدوں سے تخلیق میں تنوع پیدا ہوتا ہے اور تازگی آتی ہے۔عزم کے یہاں موضوعی سطح پر ایسا ہی تنوع نظر آتا ہے۔ان کی شاعری میں طنز کی زیریں لہر ملتی ہے۔خاص طور پر عصری واردات اور وقوعات کے حوالے سے ان کے یہاں ایسے اشعار ملتے ہیں۔ان اشعار میں ان کے طنز کے نشتر کو ہر حساس دل محسوس کر سکتا ہے۔
دین و ملت خاک سب نام و نسب
فہم سے کچھ کام لے اے بے ادب
ہے کسی شئے کو ثبات دائمی؟
کام لے گا عقل سے تو اور کب
ہو گئے اطفال نو سارے کے سارے بے ادب
مسئلہ علم و ادب کا ملت بیضا ہے اب
دین و مذہب کچھ نہیں نام و نسب سے فائدہ
منفعل ہے آسمان دل زمیں ہے مضطرب
عزم سہریاوی نے لسانی سطح پر بھی کچھ الگ تجربے کئے ہیں جو دوہے کی شکل میں سامنے آئے ہیں،یہ دوہے ان کی فکری جزالت اور لسانی لطافت کا خوبصورت نمونہ ہیں۔
ہے مورکھ نادان تو سوکھے پیڑ سمان
پات،پشپ جس پر نہیں پھل سے بھی اگیان
پشپ بھانت ادھروں پر سائیں سجی رہے مسکان
مانو شریسٹھ یہی ہے جس کا جیون دیپ سمان
جدید معاشرے کی نفسیات اور تہذیبی تبدیلی سے آگاہ عزم سہریاوی معاشرے کے انتشار اور انارکی سے متفکر ہیں اسی لئے وہ معاشرے میں صالح قدروں کی بات کرتے ہیں اور ہر اس نظر اور نظریے کو مسترد کرتے ہیں جس سے معاشرے کی ساخت مجروح ہوتی ہے۔فسادات،نفرتیں ،دوریاں جس سے معاشرتی اکائی متاثر ہوتی ہے ان کے خلاف ،ان کی شاعری شمشیر برہنہ ہو جاتی ہے۔چند اشعار سے ان کی فکر مندی کے آثار نمایاں ہیں۔
کوبہ کو سارے نگر میں مفلسی کا راج ہے
روز و شب کیسے غریبوں کے بسر ہوتے رہے
تھے سبھی مرعوب دہشت گردوں کے شہر میں
ہر طرف ظلم و تشدد سر بہ سر ہوتے رہے
رقص میں تھیں اپسرائیں لوگ تھے نوحہ کناں
حاکم جابر کے سب زیر اثر ہوتے رہے
قصر میں اغیار کے تھا رقص کا عالم ہنوز
اور سارے شہر میں دنگے ادھر ہوتے رہے
عزم سہریاوی کہنہ مشق شاعر ہیں اور ان کی شعری حسیت کی تشکیل میں اس مردم خیز خطے کا عمل دخل ہے جہاں سے جانے کتنے آفتاب و مہتاب نے جنم لیا،علامہ شبلی،علامہ فراہی اور علامہ اقبال سہیل کی سر زمیں اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے عزم سہریاوی کا یہ دوسرا مجموعہ ہے۔ اس سے قبل’ سحاب رحمت ‘کے نام سے حمد و نعت کا مجموعہ مقبول ہو چکا ہے۔’طلوع سحر‘ان کی غزلیات کا مجموعہ ہے،جس میں وہ اپنے غزلیہ آہنگ میں مختلف اور معتبر انداز میں سامنے آتے ہیں۔انہوں نے اپنے مجموعے کے حوالے سے جو کہا ہے اس میں شاید کچھ لوگوں کو تعلی نظر آئے،مگر ان کی شاعری کی سطریں ان کی صداقت کا ثبوت پیش ہیں۔وہ اشعار یہ ہیں:
ملیں گے اور بھی مجموعۂ سخن لیکن
کوئی بھی ان میں ’طلوع سحر‘ نہیں ہوگا
تمام لفظ و معانی ہیں جس کے لعل و گہر
کہ لفظ لفظ کوئی بے اثر نہیں ہوگا
فکری اعتبار سے یہ اردو شاعری کی نئی سحر ہے کہ ہماری شاعری بہت دنوں تک رات کی قید میں رہی ہے۔
y
اعظم گڑھ کی سر زمین میں ادبی تنقید کو بھی کئی معتبر نام دیے ہیں۔ جن کے بغیر اردو تنقید کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ شبلی تو تنقید کا ایک بڑا نام ہے ہی بعد میں خلیل الرحمن اعظمی، پروفیسر احتشام حسین جیسی شخصیتوں نے تنقیدی افق کو تابانی عطا کی اور اپنی تنقیدی نظریات سے اردو کے سرمایہ نقد میں گراں بہا اضافے کئے۔ پروفیسر خلیل الرحمن اعظمی کی کتاب اردو میں ترقی پسند تحریک ایک حوالہ جاتی حیثیت رکھتی ہے ۔ تومارکسی نقاد احتشام حسین کی کئی تنقیدی کتابیں ہیں جن میں وہ اپنے تنقیدی تشخص کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ تنقیدی جائزے ، روایت اور بغاوت ، ادب اور سماج، تنقید اور عملی تنقید ، ذوق ادب اور شعور، اردو دب کی تنقیدی تاریخ، یہ وہ کتابیں ہیں جن سے احتشام حسین کی سماجی تنقیدکے زاویے روشن ہوتے ہیں اور ان کی انفرادیت بھی واضح ہوتی ہے۔ انھوں نے ایک بہت اچھی بات لکھی ہے کہ قدیم ادب ہمارے لئے صرف ایک مقدس ترکے کی حیثیت سے قابل احترام نہیں ہے بلکہ اس میں فطرت اورسماج کی رجعت پسند طاقتوں پر قابو پانے کی جس جد وجہد کا مظاہر ہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ہوتا ہے اس سے انسانی شعور کی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔
منظر اعظمی بھی تنقید کا ایک بڑانام ہے۔ جن کی کتاب اردو ادب کے ارتقاء میں تحریکوں ا و رجحانوں کا حصہ عصری دانش گاہوں میں ماخذ اور مرجع کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر افغان اللہ خان(خالص پور) بھی اردو کے اہم ناقد ہیں۔ کورکھپور یونیور سٹی کے صدر شعبہ اردو سے انھوں نے فراق کی شاعری پر بہت وقیع کام کیا ہے۔طراز ظہیری ( غدر کے چشم دیدہ حالات) بھی ایک اہم کارنامہ ہے۔
y
اعظم گڑھ کی کچھ ایسی شخصیتیں بھی ہیں جنہوں نے دوسرے ملکوں کی زمین سخن کو آسماں کیا۔ ایسی شخصیتوں میں سبط حسن ، فہیم اعظمی، نجم الحسن رضوی، اور فضا اعظمی کے نام نمایاں ہیں۔
سبط حسن
سبط حسن 31جولائی 1916، 20اپریل 1986 ، اعظم گڑھ کے موضع انباری میں پیدا ہوئے تھے۔ جنہوں نے صحافت کی دنیا میں ایک الگ شناخت قائم کی اور ترقی پسند تحریک کے اہم ستون کی حیثیت سے انھوں نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ نا قابل فراموش ہیں ۔ مختلف اخبارات اور رسائل سے ان کی وابستگی رہی ۔ بمبئی کرانیکل ، نیشنل ہیرالڈ، نیا پرچم، نیا ادب، پائنیر لکھنؤ، پیوسلس وار، قومی جنگ سے وابستہ رہے۔ امروز اور پاکستان ٹائمز کے کالم نگار کی حیثیت سے عوامی سطح پر مقبول ہوئے ہیں۔ سبط حسن لیل و نہا کے ایدیٹر بھی رہے۔ وہ مکمل طور پر ترقی پسند انہ نظریات کے حامل تھے۔ ان کی کتابوں میں موسی سے مارکس تک بہت مشہور ہوئی۔ اسکے علاوہ ماضی کے مزار کو بے پناہ مقبولیت ملی۔ ان کے علاوہ شہر نگار اں پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء،انقلاب ایران ، افکار تازہ، ادب اور روشن خیالی ، سخن در سخن ،ان کی اہم کتابیں ہیں۔ سبط حسن کی حیثیت ایک دانشور صحافی کی حیثیت سے مسلم ہے۔ ان کی کتابوں سے جو روشنی کی کرنیں پھوٹی ہیں وہ تاریک زدہ معاشرے کوروشن کرنے کی قوت رکھتی ہیں۔
فضا اعظمی
فضا اعظمی ہندوستا ن سے ہجرت کر گئے مگر ان کا دل اعظم گڑھ کی فضاؤں میں اٹکا رہا ، جسمانی ہجرت ذہنی ہجرت میں تبدیل نہ ہو سکی۔ اپنے وطن سے محبت کا احساس قائم رہا۔ انھوں نے تخلیقی سطح پر جو امتیازات نقش کئے ہیں۔ اسکا اعتراف سبھی کرتے ہیں۔ جو دل پہ گذری ہے، کرسی نامہ پاکستان ، مرثیہ مرگ ضمیر، تیری شباہت کے دائرے میں، آواز شکستگی ، خاک میں صورتیں، مثنوی زوا ل آدم، شاعر محبوب اور فلسفی، مثنوی عذاب و ثواب ان کی اہم تخلیقات ہیں۔ خاک میں صورتیں ان کی ایک طویل نظم ہے جو عورتوں پر ہونے والی زیادتیوں کے خلاف ایک احتجاجیہ ہے۔ پروفیسر انور سدید نے لکھا ہے کہ ایسی پر اثر طغیانی نظم اردو ادب میں پہلے نہیں لکھی گئی ہے اور اب منظر عام پر آ گئی ہے تو حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ خود اس کی تلاوت کریں اور اسکولوں ، کالجوں میں اسکی باقاعدہ تدریس کا انتظام بھی کریں۔( بحوالہ شازیہ ناہید عامر، فضا اعظمی کی طویل نظم، خاک میں صورتیں، مشمولہ، عالم رنگ ادب کراچی،17-18)
مگر ان سب میں سب سے زیادہ مشہور اور مقبول ان کی کتاب عذاب ہمسائیگی ہے۔ جو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔ یہ کتاب برصغیر کے ماضی کے میٹا مورفوسس(Metamorphosis) کا تخلیقی اکتشاف ہے۔اس برصغیر کا، جو دوحصوں میں بٹ چکا ہے اور اپنے تہذیبی، تاریخی،فکری محور سے انحراف اور انقطاع کے عمل میں جنون کی حد تک منہمک ہے۔
یہ مثنوی ایک ایسے تخلیق کار کے ذہنی اضطراب کا اظہار ہے جس نے استبعادی طریق کا ر(Paradoxical Technique)سے پوری صورتِ حال واضح کردی ہے۔یہ انتشار اور افتراق کے تعلق سے لکھی گئی یہ ایک ایسی مثنوی ہے جس میں برصغیر کے ڈائلماکو فنکارانہ ہنرمندی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
فضااعظمی کا تعلق گوکہ پاکستان کی سرزمین سے ہے مگر ان کی اساس ہندوستان ہے۔ یہاں کی تاریخی،تہذیبی،ثقافتی روایت سے وہ نہ صرف آگا ہ ہیں بلکہ یہاں کی اساطیریت اور تاریخیت کے بھی رمزشناس ہیں۔انھیں ہندوستان کی وِشال سبھیتا،سنسکرتی اور تہذیبی وحدت واشتراک کا بھی پورا گیان ہے۔ انھوں نے اس ملک کے شناس نامے کو اس کے مکمل تہذیبی، تاریخی سیاق وسباق میں پیش کرتے ہوئے معاصر احوال اور سلسلہ واقعات کی تصویر دورنگوں سے بنائی ہے۔ منفی اور مثبت151 ان دونوں رنگوں سے انھوں نے برصغیر کے موجودہ سماجی، سیاسی منظرنامے کو منقش کیاہے۔
عذاب ہمسائیگی، ایک تخلیقی انتفاضہ بھی ہے کہ تخلیق کار نے جنگ اور مذہبی جنون کے انہدام اور امن کے استحکام کے لیے آواز بلند کی ہے۔ یہ پوئٹری برصغیر کےPharisaic Politicsکے خلاف ایک نہایت شدید حسّیاتی تخلیقی ردِّ عمل ہے۔ فضا اعظمی نے ماضی کو نقطۂ حوالہ بناکر برصغیر کی سچویشن کا اظہار کیاہے۔یہ ایک طرح سے Juxapositional Poetryہے جس میں Poetic Personaنے مختلف Tonesکا استعمال کیاہے اور جذبات کے اعتبار سے لفظیات اور لہجے کا انتخاب کیاہے:
کرو تم یاد اس دن کوکہ جب اس کے نتیجے میں/جنونِ مذہبی کی ایک ایسی آگ بھڑکی تھی/کہ جس سے فرقہ وارانہ فسادوں کا/وہ خونیں سلسلہ جاری ہوا جس نے/ہزاروں ماؤں بیٹوں کو،ہزاروں بھائی بہنوں کو/ہزاروں بے گنہ، معصوم لوگوں کو/تہِ شمشیرِ ظلم وبربریت قتل کرڈالا/مکانوں کو جلاڈالا/کہ جس نے مسجدوں، گرجاگھروں کو گردواروں کے تقدّس کو مٹاڈالا/انھیں مسمار کرڈالا/اور اس بھٹّی کے شعلوں نے جلا کر خاک کرڈالا/تمھارے دعوئ جمہوریت کو/تمھارے دعوئ سیکولرحکومت کو/تمھارے دعوئ منشورِ اعلی کو/ اور دستور میں محفوظ بنیادی حقوقِ آدمیّت کو /تمھاری فکر کی، وحدت کو اورقومی تصوّر کو
یہ شاعری ایک سوال نامہ بھی ہے جو اس انسانی عدالت میں پیش کیاگیاہے جس کی بنیاد پنج شیل، بقائے باہم اور جمہوریت پر رکھی گئی ہے اور جہاں کا معاشرہ کثیرالعناصر ہے۔ فضا اعظمی نے اس مثنوی کے ذریعے تضادات کے امتزاج کا تصور پیش کیاہے۔ اور اجتماع ضدین کو سالمیت اور کائنات کے استحکام اور مستقبل کی بقا کے لیے ضروری قرار دیاہے۔ فضا اعظمی کی یہ مثنوی ہندوہیومنزم کی ہسٹری سے نکات پیش کرتے ہوئے ہیومنزم اوررواداری سے انحراف کے منطقی انجام کو بھی اُجاگر کرتی ہے۔ جو بابری مسجد کے انہدام یا گجرات کے فسادات کی شکل میں سامنے آیا۔ انھوں نے روشن حوالوں سے آج کے عہد کی تاریکی اورچیرہ دستی کو اپنی مثنوی کا موضوع بنایاہے۔
’عذاب ہمسائیگی‘ ہندوستان اور پاکستان کے رشتوں کے حوالے سے امن کی پہل بھی ہے اور دونوں متحارب اور متصادم ملکوں کومفاہمت کی دعوت دینے کی کوشش بھی:
چلوآؤ، بڑھاؤ ہاتھ تم اپنا/ہمارا ہاتھ حاضر ہے/بڑھو اک قدم،ہم دوقدم بڑھنے کو حاضر ہیں/نظر ہم سے ملاؤ، ہم گلے ملنے کو حاضر ہیں
فضا اعظمی نے گوکہ اس مثنوی میں ہندوستان کو ہدف بنایاہے اور تہذیبی،تاریخی سیاق و سباق سے انحراف پر نکتہ چینی کی ہے مگر پاکستان کی پالیسیوں پر بھی نکتہ چینی کی ہے:
ہمیں اقرار ہے، ہم میں بھی کچھ ایسے عناصر ہیں
جنونِ برتری جن کی رگ وپے میں سرایت ہے
جنونِ مذہبی اعصاب پر جن کے مسلّط ہے
مگر ہم نے کبھی اپنی زمامِ سلطنت سونپی نہیں ان کو
کبھی ہم نے انھیں حاوی نہیں ہونے دیا خود پر
کبھی بھی انتخابی مرحلوں سے وہ نہیں اُبھرے
کبھی بھی فوقیّت ان کو نہیں حاصل ہوئی ایوان و مجلس میں
فضا اعظمی نے کسی ایک خاص ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک امن پسند انسان ہونے کی حیثیت سے اپنا مدعا دونوں ملکوں کے اربابِ سیاست اور اہلِ دانش وبینش کے درمیان رکھاہے۔یہ ایک انسانی اظہار (Human Utterence)ہے۔ یہ اُس ہیومن کلچر کی وکالت ہے جو کائنات کو مربوط اور منظم رکھتاہے۔یہ دو ملکوں کے غیرمصالحانہ اور جارحانہ رویّے کے خلاف ایک انسانی ضمیر کی آواز ہے۔
’عذابِ ہمسائیگی‘ فضا اعظمی کے جذباتی تموج اور فکری طغیان کی ایک بہترین مثال ہے۔ اس میں امن کا ایک خواب نامہ ہے ۔اس مثنوی کا نام انھوں نے عذاب ہمسائیگی رکھاہے۔ خوابِ ہمسائیگی ہوتا تواس کی معنویت مختلف ہوتی کہ ہمسائیگی کے خواب، دکھ، درد، آنسو مشترک ہوتے ہیں۔ مگرالمیہ یہ ہے کہ ہمارے خواب ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں، اب صرف عذاب ہی مشترک ہے۔
فضا اعظمی نے اس کشمکش کو مثنوی کا مرکزی کردار بنایاہے جو دو ملکوں کے درمیان جاری ہے۔ یہ Conflictہی ان کی شاعری کا بنیادی او رمرکزی نقطہ ہے اور اسی کنفلکٹ کی وجہ سے برصغیر میں سیاسی بحران اور کرائسس ہے۔اعظمی صاحب نے برصغیر کو اسی بحران سے نجات دلانے کی تخلیقی سطح پر کوشش کی ہے۔ اب یہ اہلِ سیاست پر منحصر ہے کہ وہ ایک تخلیق کار کے ردعمل کو کس طور پر محسوس کرتے ہیں اور اس سے ان کے باطن میں ارتعاش پیدا ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ دراصل اسی ارتعاش اور Vibrationکی کمی کی وجہ سے انسانی ذہنوں میں جنگ جاری رہتی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے مابین ایک تصوراتی جنگ ہے۔ حقیقی جنگ کا خاتمہ ہوبھی جائے توتصوراتی جنگ کا خاتمہ مشکل ہے۔ دونوں ملکوں کے امن پسندوں کو چاہیے کہ حقیقی جنگ کے خلاف آواز بلند کرنے کے بجائے ذہنوں کے مابین جاری جنگ کے خاتمے پر زور دیں۔ اور میرا خیال ہے کہ فضا اعظمی نے اس مثنوی کے ذریعے اسی نظریاتی اور تصوراتی جنگ کے خاتمے اورامن کے قیام پر زور دیاہے۔
فضا اعظمی کی یہ مثنوی اتنہا پسندانہ مذہبی جنون اور سیاسی جارحیت کے خلاف ایک غیرمصالحانہ شاعری (Intransigeant Poetry) ہے۔ امن کے لیے یہ غیرمفاہمانہ رویہ، اپنے اندر ایک مثبت پہلو رکھتاہے کہ جارحیت پسندوں کے خلاف غیرمصالحانہ اور قدرے جارحانہ رویہ اختیار کرنا بھی ایک طرح سے جہاد ہے۔ اسے ہی شاید اعلاء کلمۂ حق عند سلطان جائر کہا جاتاہے۔
فضا اعظمی کی یہ مثنوی تمام تر شعری لوازمات (Poetic Paraphernalia) سے مزین ہے۔ اس میں رجزیہ آہنگ بھی ہے اور عنتری مرحبی لہجہ بھی۔ دیکھا جائے توصحیح معنوں میں فضا اعظمی کی مثنوی عذابِ ہمسائیگی بانگِ درا بھی ہے اور ضربِ کلیم بھی:
تمہارا دل بھی گھائل ہے، ہمارا دل بھی زخمی ہے
یہ ہم پر ہے اسے مرہم کریں یا پھر لہوکرلیں
سرتسلیم بھی ہے، پنجہ رزم ودغا بھی ہے
جو چاہو سر کو خم کرلیں جو چاہو دوبدو کرلیں
***
فہیم اعظمی
فہیم اعظمی میں پاکستان کی مجلاتی صحافت میں نہ صرف اپنے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں بلکہ صریر نامی رسالے کے ذریعہ ادب کے نئے مباحث کا آغاز کیا اور ادبی جمود کو توڑا۔ نئے تجربے کئے ۔ فکشن میں بھی ان کا تجربہ جنم کنڈلی جیسے ناول کی شکل میں سامنے آیا جسے ا ینٹی ناول قرار دیا گیا ۔ کیونکہ اس میں علامتی تجربے کئے گئے اور ناول کی عمومی روش کے خلاف ایک نیا ٹکنیکی تجربہ کیا گیا۔ فہیم اعظمی ایک ناقد کی حیثیت سے شناخت رکھتے ہیں۔ ان کا مولد چما نوا ں اعظم گڑھ ہے اور مدفن کراچی۔ نجم الحسن رضوی
نجم الحسن رضوی انگریزی کے صحافی ہیں خلیج ٹائمز سے وابستہ مگر اردو فکشن میں بھی ان کا نام اعتبار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ چشم تماشا ، ہاتھ بیچنے والے ان کے مشہور افسانوی مجموعے ہیں۔انھوں نے فکشن کو عصری مسائل اور حالات سے جوڑ کر فکشن کی معنویت کو اور مستحکم کیاہے۔ ان کے افسانوی اسلوب اور مواد کے حوالے سے ناقدین کی رائے بہت اچھی ہے۔
y
عصری صحافت میں بھی اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے افرا د کی کثرت ہے جنہوں صحافت کو نئے نشانات دیے اور اس کے مجموعی اسلوب اور انداز کو بھی تبدیل کیا ہے۔ایسے صحافیوں میں محفوظ الرحمن ، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان (ملی گزٹ انگریزی) کے نام نمایاں ہیں ۔
محفوظ الرحمن
ان کا شمار ان صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو صحافت کو وژن(Vision)اور وزن عطا کیا، جنہوں نے آخری سانس تک قلم کی آبرو او ر آن کو قائم رکھااو راپنی تحریروں سے اس معاشرے کو بیدار کیا جو برسو ں سے ’آدھی نیند‘ میں تھا ۔وہ ایک ایسی شخصیت تھے جن کا باطن بیدار تھا اور جنہوں نے ہمیشہ صحافتی اخلاقیات Codes and Canons of Journalism کا پاس رکھا ۔ان کی قناعت پسندی ،ایثار ، خلوص او رمہر ووفا کو دیکھتے ہوئے ایسا محسو س ہوتا ہے کہ جیسے وہ ہمارے عہد میں صحافت کے خیالی کردارہوں جو داستانوں، ناولوں اور افسانوں میں تو مل جاتے ہیں مگر حقیقی زندگی میں چراغ رخ زیبا لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل پاتے۔ مادیت ،صارفیت اور بازاری معیشت کے اس دور میں مادی آسائش کی چھاؤں کے بجائے قناعت کی کڑی دھوپ میں جو شخص کھڑا نظر آئے، وہ آدمی نہیں، فرشتہ ہو گا اور یقیناًمحفوظ الرحمن میں وہ ساری خوبیاں تھیں جو انہیں سب سے مختلف اور ممتاز بناتی ہیں۔ جلال الدین اسلم نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ ’’آج جب کہ شعبہ زندگی کو تاجرانہ سوچ نے پوری طرح مسخر کر رکھا ہے اور زرد صحافت لوگوں کی رگوں میں خون کی طرح رواں دواں ہے ،ایسے میں مشنری صحافت کا لرزہ براندام ہونا یقیناًتعجب وحیرت کی بات نہیں ۔ایسے طوفان بلا خیز حالات میں بھی آبروئے صحافت محفوظ الرحمن نے جنھیں مرحوم کہتے اور لکھتے کلیجہ منہ کو آتا ہے کبھی بھی اور کسی حال میں بھی پیشہ صحافت کی حرمت وتقدس پر آنچ نہیںآنے دی اور نہ ہی کسی بڑی شخصیت کے سامنے اپنے قلم کو سرنگوں ہونے دیا ۔‘‘
محفوظ الرحمن کی تحریروں سے ہمارے معاشرے میں ایک نیا تحرک اور ارتعاش پیدا ہوا اور ان کی معروضی اور غیر متعصبانہ طرز فکر سے ایک بڑا حلقہ متاثر ہوا۔ ان کی سیاسی تحریروں میں دانش و آگہی کی موجیں رواں تھیں۔جب کہ آج کے صحافی مطالعات اور تمرین ہائے بیانی کے باب میں نہات کوتاہ دست واقع ہو ئے ہیں ۔ معصو م مرادآبادی نے شاید اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’محفوظ الرحمن صاحب نے ایک ایسے وقت میں آنکھیں موندی ہیں جب وسیع تجربہ ،زبان دانی ،تحریر کے حسن اور تسلسل کے علاوہ مقصد سے وابستگی رکھنے والے صحافیوں کا اردو میں زبردست قحط پیدا ہوگیا ہے ۔آج اردو صحافت ذہن ،ضمیر اور زبان کے پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے اور ان موذی امراض کا علاج ڈھونڈنے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔‘‘
محفوظ الرحمن اردو صحافت کے قطب مینار تھے جو مسلم مجلس کے ترجمان روزنامہ ’قائد، لکھنؤ‘ اور جماعت اسلامی ہند کے اخبار ’دعوت، دہلی‘ کے چیف ایڈیٹر رہے، ہفت روزہ ’جمعہ‘ اور ’بادبانِ جدید‘ کے مدیر رہے، جن کی کئی کتابیں منظرعام پر آئیں، جن میں ’سرخ یلغار‘، ’کسان کا بیٹا سب کا دوست‘، ’معاہدہ عمرانی‘، ’بھٹو دوست یا دشمن‘ اور ’جدید سیاسی اصلاحات‘ اہم ہیں۔ انھوں نے پولینڈ کے سفارت خانہ میں بھی کام کیا اور سوویت انفارمیشن سینٹر کے اردو جریدہ ’سوویت جائزہ‘ سے وابستگی رہی اور مختلف اخبارات میں وہ کالم لکھتے رہے۔ روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ میں ہفتہ وار کالم لکھتے تھے جو نہایت مقبول تھا اور ان کی سیاسی بصیرت اور شعور کا جیتا جاگتا ثبوت بھی۔اعظم گڑھ کے موضع نوناری سے ان کا تعلق تھا۔ 4 جنوری 1938 کو ان کی پیدائش ہوئی اور 6 فروری 2010 کو دہلی میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی وفات سے اردو صحافت کو ناقابل تلافی نقصان ہوا جس کا اعتراف پوری صحافتی برادری کو ہے۔
محفوظ الرحمن کی بیشتر تحریریں ایسی ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے ذہن کے بند دریچے کھل جاتے ہیں اور سماجی اور سیاسی شعور کو بھی روشنی ملتی ہے۔ ایسی منتخب تحریروں میں ’یہ رونا دھونا، یہ سینہ کوبی کب تک‘، ’دریوزہ گری کے سوا اور راستے بھی ہیں‘، ’کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں‘، ’یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں‘، ’مطالبات اور اپیلوں کا زنگ خوردہ آہنی حصار‘، ’سیاسی تنظیم ہی واحد راستہ ہے‘، ’مسلمانوں کی سیاسی جماعت: امکانات اور اندیشے‘، ’ضرورت نئے سیاسی تجربے کی‘، ’سول سروسز کے نتائج پر سینہ کوبی کب تک‘، ’دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ‘، ’یہ کالکھ چھوٹنے والی نہیں ہے‘، ’جوش کے بجائے ہوش سے کام لیجئے‘، ’گودھرا کے اسیران پوٹاکو انصاف کب ملے گا؟‘، ’خواتین کے لیے زریزرویشن تو مسلمانوں کے لیے کیوں نہیں؟‘، ’رنگ ناتھ مشرا کمیشن کا اچوک نسخہ‘، ’مذہب کی آزادی پر چور دروازے سے حملہ‘، ’دوسری شادی کے لیے اسلام کا سہارا‘، ’ذات پات، اسلام اور مسلم سماج‘، ’سارے دہشت گرد مسلمان نہیں ہیں‘، ’بول کہ سچ اب تک زندہ ہے‘، ’اپنے گریبان میں بھی جھانکئے‘، ’مسکراتی، گنگناتی صبح آپ کی منتظرہے‘، ’اب مسجدوں کے مینار بھی چبھنے لگے‘ اور آخری تحریر‘امریکہ میں اسلام اور مسلمانوں کی منفی شبیہ‘ جو ’راشٹریہ سہارا‘ 5فروری 2010 کے شمارے میں ان کی وفات سے صرف ایک دن قبل شائع ہوئی، اہم ہیں، یہ تمام مضامین ان کی ذہنی معروضیت کی شہادت دیتے ہیں۔
مرحوم محفوظ الرحمن کا صحافتی اسلوب نہایت عمدہ تھا۔ اس تعلق سے محمد عارف اقبال مدیر اردو بک ریویو، نئی دہلی نے بہت اچھی بات لکھی ہے کہ ’’ان کی تحریروں میں عامیانہ صحافتی رنگ ڈھونڈنے سے بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ان کی ہر تحریر میں فکر و دانش کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ وہ لفظ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے۔ لہٰذا بعد کی تحریروں میں ان کی زبان ذرا سہل ہوگئی تھی کیونکہ نئی نسل کی دشواریوں کو وہ بخوبی محسوس کرتے تھے۔‘‘ ایک اقتباس سے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے ’’تحفظات ذہنی کے تیرۂ و تار اندھیروں میں سچائی کے چمکتے دمکتے موتی تلاش کرنے والے حوصلہ مند لوگوں کو اکثر و بیشتر اغیار سے کہیں زیادہ اپنوں کے سنگ ملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بنی بنائی لیک سے ہٹ کر چلنے، بنے بنائے پیمانوں سے الگ ہٹ کر نئے پیمانے تراشنے یا تلاش کرنے کی سزا انھیں بیشتر حالات میں ان کے پاؤں کے نیچے کی سخت زمین کھینچ کردی جاتی ہے۔ انھیں بے دست و پا بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے تاکہ انھیں دیکھ کر دوسرے عبرت حاصل کریں۔ لیکن سچائی ہے کہ اپنے آپ کو منوا کر ہی رہتی ہے۔ کل بھی یہی ہورہا ہے اور کل بھی یہی کچھ ہوگا۔ نہ سچ کو پابند زنجیر کیا جاسکے گا، نہ سچائی کی راہ میں کوئی ایسی دیوار کھڑی کی جاسکے گی جو ناقابل عبور ہو۔‘‘
محفوظ الرحمن ایک بلند اور باکردار صحافی تھے۔ آج جب کہ ہر شعبۂ حیات میں بونوں کو بلندی عطا کرنے کی روش اور رسم چل پڑی ہے، تو ایسے میں محفوظ الرحمن جیسے بلند قامت صحافی کی اہمیت اور عظمت دلوں پر اور نقش ہوجاتی ہے کہ انھوں نے واقعتا اپنی خاکساری اور کسرنفسی سے اردو صحافت کو بلندی عطا کی جبکہ آج باستثنائے چند بیشتر صحافی میگلومینیا (خبطِ عظمت) کے مریض ہیں۔ اظہرندوی مرحوم نے ان کی قلندری کے تعلق سے صحیح لکھا ہے کہ ’’محفوظ صاحب قلندرانہ مزاج رکھتے تھے اور انھوں نے کبھی مال و دولت یا جاہ و منصب کے حصول کی کوشش نہیں کی۔ ایک صحافی کی حیثیت سے ان کے سامنے جتنے مواقع آئے اتنے شاید ہی اردو کے کسی صحافی کے سامنے آئے ہوں اور کوئی دوسرا ہوتا تو ان مواقع سے فائدہ اٹھاکر کروڑوں روپے کماسکتا تھا لیکن ان کی قلندری نے کبھی اس طرف تاکنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی اور پوری زندگی بڑی حد تک فاقہ مستی ہی میں گزار دی۔‘‘
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
ان کا شمار ان دانشوروں اور صحافیوں میں ہوتا ہے جو مسلمانوں کے مسائل پر نہایت سنجیدگی اور معروضیت کے ساتھ سوچتے ہیں۔ یہ عربی ، انگریزی اور اردو کی بہت سے کتابوں کے مصنف اور مترجم بھی ہیں ۔ عربی کے مقتدر مجلات میں ان کے مضامین اہتمام سے چھپتے ہیں۔ ان کا اخبار ملی گزٹ انگریزی میں شاید پہلا اخبار ہے جو عالم اسلام بالخصوص ہندوستانی اقلیت کے مسائل کے لئے وقف ہے۔ جنوری 2000میں اس پندرہ روزہ انگریزی اخبار کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی مو ثر آواز اور ترجمان میں تبدیل ہو گیا۔ اس کے لکھنے والوں میں ہندوستان کے وہ مشاہیر شامل ہیں جن کی سوچ نہات مثبت ہے اور جو مسائل کے تمام زاویوں پر گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔یہ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کا واحد انگریزی اخبار ہے جسے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ جیسے معارف کے مدیر شاہ معین الدین احمد ندوی کے خوابوں کو تعبیر مل گئی ہو۔ لا شعوری طور پر شا یدیہ ان کے آرزو کی تکمیل ہے۔ انھوں نے دارالمصنفین اعظم گڑھ کے علمی رسالے معار ف کے شدرات میں لکھا تھا کہ :
’’آج دنیا میں سب بڑی قوت پریس کی ہے اس کے بغیر کوئی آواز موثر نہیں ہو سکتی اور ہندوستان کے مسلمانوں کا کوئی انگریزی اخبا ر نہیں ہے۔ اردو کے اخبارا ت کی کوئی آواز نہیں ۔ ان کی آواز ہندوستا ن کے بڑے طبقے تک نہیں پہنچتی ۔ بیرونی دنیا کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے جو سب سے زیادہ ضروری اور موثر چیز ہے۔ ‘‘انھوں نے 1952میں جمیعۃ علماء ہند کی طرف سے نکلنے والے پندرہ روزہ انگریزی اخبار Messageکا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ہندوستا ن کے 4کروڑ مسلمانوں کے لئے ایک انگریزی اخبار کا چلانا کیا مشکل ہے۔ وہ اپنی شکایتوں کے لئے زبانی شو رو غوغا تو بہت کرتے ہیں مگر ان کے ازالے کی صحیح تدبیر اختیار نہیں کرتے۔ اگر وہ صرف اتنا کریں کہ پیسہ خرچ کر کے انگریزی کے زہریلے فرقہ پرست اخبارات کی گالیاں سننے کے بجائے Messageکے خریدار بن جائیں تو کسی اور امداد کے بغیر وہ آسانی سے روزآنہ بن سکتا ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر ظفر الاسلام نے ایک بڑا اچھا کام کیا جو ملی گزٹ نکال کر مسلمانوں کی بے زبانی کو زبا ن عطا کی۔ ملی گزٹ کا آن لائن ایڈیشن ہے جس سے اسکا دائرہ ہندوستان سے باہر تک پھیلاہواہے۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں مولانا م وحید الدین خان کے فرزند ہیں ۔ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے علاوہ انھوں نے ازہر یونیور سٹی مصر سے بھی فیض حاصل کیا ہے انھوں نے مانسچسٹڑ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔ وہ اس وقت سیاسی تنظیم سے بھی وابستہ ہیں مگران کی بنیادی پہنچان ایک دانشور اور صحافی کے طور پر ہے۔
y
اعظم گڑھ نے جہاں قدیم علوم و فنون کا تحفظ کیا اور اپنے تہذیبی ورثے اور روایت سے اپنا رشتہ مستحکم رکھا ۔ وہیں یہ سر زمین نئے نظریات کی تولید اور تخلیق میں بھی بہت آگے رہی ہے۔ بہت سے مسلمات کو یہاں کے ذہین دانشوروں نے مسترد کیا ہے اور اپنی تحقیق اور تفحص سے نئے نظریات قائم کئے ہیں۔ تحریم ربا کا مسئلہ ہو یا رجم کا یہاں کے بعض دانشوروں نے اپنے نظریات سے ایک بڑے طبقے کو مشتعل بھی کیا ہے مگر نئے زاویوں کی جستجو اور تحقیق و تفتیش میں غیر مقلدانہ طرز عمل میں اعظم گڑھ کو امتیاز عطا کیاہے۔ ایسی شخصیات میں علامہ اقبال سہیل اور مولانا وحید الدین خان کے نام لئے جا سکتے ہیں جن کی تصنیفات ، بہت سے نزاعات کا محور بنیں ۔
مولانا اقبال حمد سہیل
اقبال سہیل کا شمار اعظم گڑھ کی ان شخصیتوں میں ہوتا ہے جن سے اس سر زمین کو ایک نئی پہچان ملی۔ وہ متنوع شخصیت کے حامل تھے۔ شعر و ادب کے علاوہ دیگر مسائل و موضوعات پر بھی ان کی گہر ی نظر تھی۔ انھوں نے ایک نہایت متنازعہ فیہ کتاب لکھی تھی جو 1936میں ’’ حقیقت الربا‘‘ کے نام سے علی گڑھ سے شائع ہوئی تھی۔ مولانا شبلی نعمانی اور علامہ حمید الدین فراہی کے شاگرد رشید اور مشہور شاعر ’مجاہد آزادی ‘ قانون داں کی اس کتاب کا دو سرا ایڈیشن ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کی تحقیق و تخریج کے ساتھ 1999میں شائع ہوا ہے اور اس کتاب کا عربی اور انگریزی میں تر جمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔
یہ کتاب مسئلہ سود پر ہے اور بقول مولانا طفیل احمد مصنف ’’ مسلمانوں کا روشن مستقبل‘‘ مسئلہ سود پر سب سے جامع اور مکمل کتا ب ہے۔ اس کتاب میں مصنف کا بنیادی نقطہ نظر یہ ہے کہ ’’ ادلہ اربعہ‘‘ سے ربا کے مفہوم کچھ اس طرح کھو گیا ہے کہ ربا کی حت اور حرمت پر بحث کا ایک لا متناہی سلسلہ چل پڑا ہے۔ مولانا اقبال سہیل نے اسی مسئلہ کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے مسلمانوں کے معاشی منظر نامہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ فقہاء نے ربا کو بیع مرا ملت (Barter)اور بیع صرف (Exchange) سے خلط ملط کر دیا ہے ۔ جب کہ اس کا تعلق صرف بیع سلف (نسیہ) یعنی ادھار سے ہے۔ مصنف نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ربا شرعی اور سود مروجہ باہم مترادف نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر اسلامی ہند میں سود کو ربا کا مترادف خیال کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام سودی کا روبار کو خواہ ان کی نوعیت کچھ بھی ہو، اہل اسلام عموما حرام سمجھتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔ ’’ ربا‘‘ کی کوئی تحدید و تشریح نہیں کی گئی ہے۔ فقہاء نے اپنے اپنے طور پر اس کی تعریف بیان کی ہے اور اس کے مختلف اقسام پر بحث بھی کی ہے مگر فقہاء بھی کسی واضح مفہوم تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
مولانا نے ربا کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ۔
’’ لغتاً ربا کے معنی زیادتی یا اضافہ کے ہیں لیکن یہ مسلم ہے کہ مطلق زیادتی یا اضافہ وہ ربا نہیں ہے جو شر عا حرام ہے چنانچہ قرآن کریم کی وہ آیات جو حرمت ربا کی نسبت نا زل ہوئی ہیں ان میں ہر جگہ لفظ ربا ’’الربوا‘‘ یعنی الف لام کے ساتھ مستحمل ہوا ہے اور یہ بھی مسلم ہے کہ الف لام استغراق کا نہیں ہے ورنہ اضافہ مالی کی ہر صورت مثلاً نفع تجارت بھی حرام ہوتی اس لئے الف الا م عہد ذہنی ہے اور کوئی خاص قسم کا اضافہ مراد ہے جو شرعا حرام کیا گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ خاص قسم کیا ہے؟ کلام الٰہی میں کہیں بھی اس خاص قسم کے اضافہ کی صراحت یا لفظ ربا کی تعریف بہ الفاظ صریح و ارد نہیں ہے۔
مولانا نے حسب نصوص شرعیہ ربا کی منطقی تعریف کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ دور حاضر کے کن معاملات پر لفظ ربا کا اطلاق ہو سکتا ہے اور یہ بھی بتا یا ہے کہ شریعت نے حرمت ربا کو کن شرائط کے ساتھ مشروط کیا ہے اور ہندوستان میں شرائط پائے جاتے ہیں یا نہیں ؟
ربا کی تمام جزئیات کاجائزہ لیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ حرمت ربا کا حکم دارالاسلام سے مشروط ہے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضور کے 23سالہ عہد رسالت میں یہ حکم سب سے آخر میں اس وقت نازل ہوا جب کہ مکہ فتح ہو چکا تھا اور اسلام کی حکومت عرب میں با لا ستقلال قائم ہو چکی تھی اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ربا کی حرمت دارالاسلام سے مشروط ہے۔
مولانا وحید الدین خاں
Dynamism of Expression(اظہار کی حرکیت) مولانا وحید الدین خاں کی وہ خوبی ہے جو انہیں عہد حاضر کے اسلامی دانشوروں اور مفکر وں سے ممتاز کرتی ہے۔ گلوبلائزیشن جس طرزاظہار اور احساس کا تقاضا کرتا ہے اس کی تکمیل مولانا وحید الدین خاں کی تحریروں سے ہوتی ہے۔ انھوں نے عصری اسلوب میں اسلامی تعلیمات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ علم و دانش کی ایک نئی کائنات ذہنوں میں روشن ہو جاتی ہے۔ایسوپ کی طرح ان کے جملے مختصر اور معنی خیز ہوتے ہیں جس میں آگہی کا دریا موجیں مارتا رہتا ہے۔ فکر ی سطح پر ان کے یہاں جو معروضیت،منطقیت اورحقیقت پسندی ملتی ہے وہ بہت کم تحریروں میں نظر آتی ہے ۔ انھوں نے فکری تشدد اور نظری جارحیت سے گریز کر کے افہام وتفہیم کی روش اختیار کی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے قائین کا حلقہ بہت وسیع ہے خاص طور پر اسلامی تعلیمات پر طنز و تشینع کرنے والے بھی ان کی تحریروں کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔ ان کی کسی تحریر میں نہ مذہبی نرگسیت ہے اور نہ ادعائیت اور نہ ہی اس طرح کی فکری شدت پسندی جس کی وجہ سے اسلام سے منحرف دانشوروں اور اسلام مخالف مصنفوں کو اسلامی فاشزم کی اصطلاح وضع کرنی پڑتی ہے۔ ان کی تحریروں میں تفقہ ، تدبر اور تفکر کے عناصر ہیں، انھوں نے ایسی تحریروں سے مکمل طور پر اجتناب کیا ہے جو انسانی ذہن ضمیر، اور روح کو مضمحلیا بیمار کردیتی ہیں۔ مولانا وحیدا لدین خاں نے اس محبوس اور محصور ذہنیت (Ghetto mentality)کے خلاف بھی مجاہدہ کیا ہے جو عالمی سطح پر مسلمانوں کی شناخت بنا دی گئی ہے۔ مولانا کا دائرہ فکر بہت وسیع ہے۔ انگریزی عربی جیسی زبانوں پر درک کامل حاصل ہے اس لئے ان کی سوچ کا منہج عام علماء سے مختلف ہے اور اس قدر مختلف کہ بہت سے علماء ان کی زد افروزی سے خائف نظر آتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آج اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لئے جس اسلوب فکر اور طرز اظہار کی ضرورت ہے، وہ مولانا وحید الدین خاں کی تحریروں میں نمایاں ہے۔ ان کا علمی اسلوب قاری کو متاثر کرتا ہے۔
انھوں نے روایتی اسلوب سے الگ نیا اسلوب وضع کیا ہے ۔ ان کی منطق یہ ہے کہ قدیم روایتی اسلوب جدید سائنسی ذہن کو ایڈریس کرنے میں نا کام رہا ہے ۔ مولانا وحید الدین خان بعد سائنسی دور(Post Scientific era)کے مطالبات اور چیلنجیز سے آگاہ تھے اسی لئے انہوں نے اسلامی تعلیمات کو عصری اسلوب میں پیش کیا۔ انگریزی ،عربی میں ان کی سیکڑوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ تذکیرالقران ان کی ایک اہم کتاب ہے۔ مولانا وحیدالدین خان بہت دنوں تک الجمیعۃ کے مدیر رہے۔ اور پھر ماہنامہ الرسالہ نکالا جواب تک شائع ہو رہا ہے ۔ ان کا تعلق اعظم گڑھ کے موضع بدہریا سے ہے۔ انہیں نے مدرسۃ الاصلاح سرائے میر سے فیض حاصل کیا ۔ اس کے بعد گریجویشن کیا۔
y
نئی نسل نے بھی اعظم گڑھ کے تہذ یبی ورثے کی توسیع اور تخلیقی تسلسل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جو افراد تخلیقی ، تنقیدی اور تحقیقی سطح پر متحرک ہیں۔ان میں الیا س الاعظمی ، احمد علی برقی اعظمی، انوار الوفا اعظمی، جگدمبا دوبے، سعید اختر اعظمی، نیاز جیراجپوری، سرفراز نواز، سالم سلیم اورمعروف مصور شاہد اعظمی وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ اور بھی نام ہوں گے مگر ان کی جستجو محال ہے کہ نہ تو ایسی کوئی ڈائرکٹری ہے اور نہ ہی ہر کے بایوڈاٹا پر نگاہ رکھنا آسان ہے۔ یوں بھی اب ناموں سے ضلعی نسبتیں معدوم ہونے لگی ہیں۔ اس لئے یہ کام تو واقعتا دقت طلب ہے ۔مگر اب بھی کچھ ایسے افراد ہیں جن کے لاحقہ سے وطن کا پتہ مل جاتا ہے۔ سعید اختر اعظمی بھی ایسا ہی ایک نام ہے جو بہت سے ذہنوں میں ادبی ذوق و شوق اور لگن کی وجہ سے نقش ہے۔ تبصراتی مضامین سے سعید اختر نے ہندوستان گیر سطح پر اپنی پہچان بنا لی ہے۔اردو بک ریویو نئی دہلی میں ان کے تبصرے اب قارئین کے ذہن کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔نہایت محنتی متجسس اور ادب کے معاملات میں مضطرب سعید اختر اعظمی کی معلومات فزا مضامین کی کتا ب ’’تلاش‘‘ شائع ہو چکی ہے۔جو بقول ڈاکٹر فیروز دہلوی اپنی نوعیت کے اعتبار سے انسائیکلو پیڈیائی نوشتے ہیں جن سے بچے ہی نہیں بڑے بھی بھر پور استفادہ کر سکتے ہیں۔ انداز بیان دلچسپ ہے۔ ان مضامین میں موضوع سے متعلق معلومات کے ساتھ ساتھ کچھ باتیں ایسی بھی شامل کی گئی ہیں جن کا متن کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہے مگر وہ معلومات عامہ کا ایک حصہ ہیں۔(اردو بک ریویو، اپریل ، مئی 2010)
Email: [email protected]
Cell: 9873747593
جنوری 2018
نئی دہلی، 31 جنوری(قندیل نیوز)
وزیر اعظم نریندر مودی نے آج گرو روی داس کی جینتی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ان کی حکومت گرو روی داس جی کی تعلیم کے مطابق ’’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کے جذبے کے ساتھ کام کرہی ہے۔اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم نے گرو روی داس کی تعلیم کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک تصویر بھی جاری کی۔مودی نے ٹویٹ کیا کہ گرو روی داس کسی کے بھی ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف تھے اور ہم تمام لوگوں خاص طور پر غریبوں کی خدمت کی ان کی تعلیم پرعمل کرکے کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں روی داس کی سالگرہ پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، وہ زمین پر پیدا ہونے والے سب سے بڑے سنتوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے ایک منصفانہ اور ہمدردانہ معاشرے کے قیام کے لئے کام کیا، ان کی تعلیم اب بھی ابدی اور سماج کے تمام طبقات سے متعلق ہے۔مودی نے کہا کہ گرو روی داس نے ہمارے معاشرے میں بہت سی مثبت تبدیلیوں کے لیے کام کیاہے۔ انہوں نے غربت اور پسماندگی بنانے والی رسم پرسوال اٹھایااورلوگوں کووقت کے ساتھ بدلنے کی حوصلہ افزائی کی۔ایک اور ٹوئٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ گرو روی داس جی ہم آہنگی اوربھائی چارہ کے اقدار پر اٹوٹ یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کسی کے ساتھ امتیازی سلوک پر یقین نہیں کیا، جب ہم ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کے جذبے کے ساتھ کام کرتے ہیں تو یہ گرو روی داس کے تمام لوگوں خاص طور پر غریبوں کی خدمت کی تعلیم پر مبنی ہوتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ گرو روی داس جی کی قیمتی تعلیمات کے مطابق ہم مضبوط، خوشحال اور جامع ہندوستان کی تعمیر کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں جہاں ترقی کا فائدہ غریبوں سمیت معاشرے کے ہر طبقے کو حاصل ہو۔
تازہ ترین، سلسلہ 99
فضیل احمد ناصری
ان کی ہی ذاتِ قدس ہے برتر خدا کےبعد
کوئی نہیں عظیم مرے مصطفیٰ کے بعد
بتلا رہی ہے مہرِ نبوت یہ صاف صاف
پیغمبـــــری ہے ختم، شہِ انبیا کے بعد
ان کے قدم سے آئی جہاں میں وہ روشنی
تاریکیوں کو جا نہ ملی، جس ضیا کے بعد
تفسیر جس کی ذات کی، ام الکتاب ہے
عالم تمام ہے اسی خیرالوریٰ کے بعد
جس کو بھی دیکھیے وہی اس پر نثار ہے
آیا نہ آشنا کوئی، اس آشنا کے بعد
کعبے کے بت گئے تو پلٹ کر نہ آسکے
ایسے گریز پا ہوئے ان کی صدا کے بعد
ان کا وجود قیصر و کسریٰ پہ برق تھا
دنیا نے پھر نوا نہ سنی، اس نوا کے بعد
صحرا کو سبزہ زار بنایا حضورؑ نے
منظــــــــربدل گیا نگہِ کیمیا کے بعد
دونوں جہاں کی سروری زیبا ہے آپؑ کو
رفعت ہے آپؑ ہی کے لیے اس فضا کے بعد
بجٹ: 2018ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے ’پٹارے‘سے نئے تحفوں کی توقع
نئی دہلی،31؍جنوری (قندیل نیوز)
مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی ایک فروری کو عام بجٹ پیش کریں گے۔باقی شعبے کی طرح ملک کے ریئل اسٹیٹ کے بھی وزیر خزانہ کے بجٹ کے پٹارے سے نئے اعلانات کی توقع ہے۔نوٹ بندی کے اثرات اور رئیل اسٹیٹ قانون 2016 کی فراہمی کو نافذکئے جانے سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر ابھی تک مکمل طور پرنکل نہیں سکاہے۔ایسے میں کاروبار کا یہ شعبہ نئے بجٹ سے نئی امیدیں لگائے بیٹھا ہے۔ملک کے ذاتی رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز کے ٹاپ کنفیڈریشن آف رئیل اسٹیٹ ڈیویلپرس ایسوسی ایشن آف انڈیا (کریڈای، مغربی یوپی)کے نائب صدر امت مودی کا خیال ہے کہ 2017 کی آخری سہ ماہی ریئل اسٹیٹ کے لئے حوصلہ افزا رہی ہے اور 2018 میں اس سیکٹر میں مطالبہ بڑھنے کی امید ہے۔انہیں امید ہے کہ بجٹ -2018 اس سیکٹر کے لئے زیادہ سہولیت ،سرمایہ کاری اور ٹیکسیشن کے نظام کو بہتربنانے جیسی کچھ بڑی خبرلے کر آئے گا۔انہوں نے بتایاکہرئیل اسٹیٹ ڈویلپرز طویل وقت سے رہائشی اور تجارتی منصوبوں کے لئے سنگل ونڈو کلیئرنس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔فی الحال سنگل ویڈیو کلیئرنس کی وجہ سے ڈویلپرز کو کئی قسم کی منظوری اور منظوریاں لینی ہوتی ہیں۔انہیں کئی محکموں میں چکر لگانے پڑتے ہیں۔اس منصوبے کو شروع ہونے میں 18 سے 36 ماہ کا وقت لگ جاتا ہے۔حکومت کو منظوری کو آسان بنانے کے لئے سنگل ویڈیو کلیئرنس نظام نافذکرنا چاہئے تاکہ آسان منظوری کے عمل سے منصوبوں کی ترسیل وقت پر دی جا سکے۔اس سیکٹر میں تعمیراتی کام کی رفتار اور رقم بھی اہم ہے جو ایک گھر کی مناسب قیمت اور منصوبے کی اقتصادی امکانات کو یقینی بناتے ہیں۔نوٹ بندی کے سال بھر بعد ریئل اسٹیٹ کفایتی رہائش زمرے کے دائرے کو بڑھائے جانے اور اس سیکٹرپر ایک اپریل سے نافذ ہو رہی جی ایس ٹی کی موجودہ شرح کو 18فیصد سے کم کرکے 12فیصد کئے جانے کی توقع کر رہا ہے۔امت کہتے ہیں کہ رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز جی ایس ٹی کی شرح کو 18 فیصد سے کم کرکے 12 فیصد کا مطالبہ کر رہے ۔اس کے ساتھ ساتھ گھر کی قیمت میں زمین کی قیمت کی چھوٹ کو 33فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کرنے کا مطالبہ ہے۔ ملک بھر کے رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز آئی ٹی ایکٹ 1961 کی دفعہ 80 آئی اے کے تحت تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
نئی دہلی،31؍جنوری (قندیل نیوز)
قصہ پارینہ میں ہندوستانی لیڈر صرف سادہ دھوتی کرتے اور سوتی ساڑیوں میں نظر آتے تھے۔لیکن اب وقت بدل چکا ہے آج کے سیاستداں کسی بالی ووڈ ستارے سے کم نہیں ہیں۔وہ اب مہنگی کپڑے اور ایکسیسریز میں نظر آتے ہیں۔لاکھوں کروڑوں کے زیورات اور کپڑے پہنتے ہیں۔حال ہی میں راہل گاندھی ایک بلیو ونٹر جیکٹ میں نظر آئے، جس کی قیمت 63 ہزار 400 روپے ہے۔یہ جیکٹ کو لے کر بی جے پی نے ان پر طنز بھی کیا۔لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی اپنے نام سے بنے گئے ایک سوٹ میں نظر آئے تھے جو 4.31کروڑ میں نیلام ہوا تھا۔ان دونوں کے ساتھ ہی یہاں دیکھئے کہ کون سے اور ایسے سیاستدارں ہیں جو مہنگے کپڑے پہنتے ہیں۔یہ ہمیشہ سادہ دھوتی ،کرتا کی ساڑیوں میں نظر آئیں لیکن وہ بہت مہنگی اور خاص ہوتی ہیں۔سونیا گاندھی کی بیشتر ساڑیاں دہلی کی ڈیزائنر،نیرو کمار ہی بناتی ہیں۔ان کاٹن اور کھادی کی ساڑیوں کی سونیا گاندھی ہی نہیں بلکہ بالی وڈ ڈیوا ریکھا بھی فین ہیں۔
عظیم راز قاسمی
مجھ پہ تو کردے اتنا کرم
دل میں بسا لے مجھ کو صنم
جب بھی تیری یاد آتی ہے
ہو جاتی ہے آنکھیں نم
اب تو مجھ سےنظریں ملا
اب تو رکھ لے میرا بھرم
زلف ہے تیری کالی گھٹا
ہوش ربا ہے پیچ و خم
اشک کا تیرے کیا کہنا
جیسے پھولوں پہ شبنم
تیرے سوا اب کون یہاں
جس کو سناؤں درد و غم
تو ہی میری اول و آخر
زندگی میری ہےتجھ پہ ختم
راز کو تو بس اتنا بتا
کرتا ہے تجھ سے پیار کیا کم
حقانی القاسمی
شہر بنارس مابعد الطبیعاتی شعور کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ تقدیسی مرکزیت نے اسے روحانی وجود کا روشن محور بنادیا ہے۔ یہ شہر مشرق کی ایک بڑی آبادی کے رگ وپے میں شامل ہے۔ نجات دیدہ و دل کا شہر، عرفان و آگہی کے نور سے اتنا سرشار تھا کہ غالب نے بھی اس کی مرجعیت کو محسوس کیا۔ یہ ایک مقدس شہر ہے جسے ہندو کاسمولوجی میں قلب ارض یا مرکز زمین کا شرف حاصل ہے۔ ساحل گنگا پہ واقع یہ سرزمین روشنیوں کا شہر کہلاتی ہے۔
شیو کا بسایا ہوا پانچ ہزار سال پرانا یہ وہ شہر ہے جس کا ذکر ہندوؤں کے مقدس صحیفوں رگ وید، اسکند پران، رامائن اور مہا بھارت میں بھی ہے۔ شاد عباسی نے نبی احمد سندیلوی کی کتاب مرقع بنارس کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک انگریز کا خیال ہے کہ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ بنارس کب آباد ہوا تھا تو ہمالیہ پہاڑ کے عالم وجود میں آنے کا زمانہ معلوم کرنا آسان ہو گا اور یہ بھی کہ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ طوفان نوح میں اس شہر کو وشو ناتھ جی نے اپنے ترشول پر اٹھا لیا تھا اور جب قیامت آئے گی تو یہ شہر محفوظ رہے گا۔
سات مقدس شہروں میں سے ایک شہر بنارس شیو کا شاہی محل تھا جس کے کئی نام ہیں۔ اوی مکتک، آنندکنن، مہاس مسن، سرن دھن، سدرسن، برہما وردھ۔ اس کے ہر نام میں ایک مذہبی رمزیت اور اسطوری معنویت ہے۔
وارانسی میں بھی ایک رمزہے، رمزاتصال کہ یہ دو دریاؤں ورن اور اسی کا سنگم ہے۔ اور صرف دریاؤں نہیں بلکہ دو دھاراؤں شیو ازم اور وشنو ازم کا بھی امتزاج ہے۔ مذہبی لسانی امتزاجیت کا مظہر یہ شہر ہندوؤں کے لئے ہی نہیں، جین اور بودھ دھرم کے ماننے والوں کے لئے بھی مقدس ہے کہ بودھ ازم کا نقطہ آغاز یہی مقام ہے۔ گوتم بدھ نے پہلا خطاب یہیں سارناتھ میں کیا تھا اور یہ بودھ کی چار زیارت گاہوں (کشی نگر، بودھ گیا، لمبنی، سارناتھ ) میں سے ایک ہے۔ سپر شیو ناتھ، شرینسناتھ، اور پرشوناتھ کی جنم بھومی ہونے کی وجہ سے جین دھرم ماننے والوں کی نگاہوں میں بھی یہ متبرک مقام ہے۔
وشوناتھ مندر کے اس شہر میں ڈھائی کنگورہ کی قدیم مسجد، عالم گیری گیان واپی مسجدیں بھی ہیں۔
کبیر، روی داس، سوامی رامانند، تریلنگا سوامی جیسے صوفی سنتوں کی اس سرزمین پر علوم و فنون اور ادب و آرٹ کی تمام دیویاں مہر بان رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے فنون لطیفہ کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ رائے کرشن داس، روی شنکر، گرجا دیوی، سدھیشوری دیوی، نینا دیوی، کشن مہاراج، بسم اﷲ خاں اور وہ کتھک ڈانسر ستارہ دیوی نرتیہ سم راگنی جس کے رقص پہ کائنات بھی ایک لمحے کے لئے ٹھہر جاتی ہے ۔
اسطوری اور استعاراتی گھاٹوں کا شہر بنارس شکتی پیٹھ بھی ہے یہاں گنگا میں نہانے سے گناہ دھل جاتے ہیں اور روح کو تسکین ملتی ہے یہ ہندوؤں کا شہر نجات ہے۔ کے کے کھلر نے لکھا ہے کہ ’’اپنی طویل نظم لائٹ آف ایشیا‘‘ میں آرنالڈ کہتا ہے کہ ہندوؤں کے نزدیک بنارس کی وہی اہمیت ہے جو یہودیوں کے نزدیک یروشلم اور مسلمانوں کے لیے مکہ مدینہ کی (دائمی گنگا غیر ملکی سیاحوں کی نظر میں‘ ہندوستانی تناظر نئی دہلی، اپریل2002)
روشنی کا شہر ہے کاشی جہاں بارہ جیوتی لنگوں میں سے ایک جیوتی لنگ ہے، جس کا انعکاس مختلف شکلوں میں ہوا ہے کبھی یہ جیوتی تلسی داس کے رام چرت مانس کی صورت میں سامنے آئی ہے تو کبھی ان پانڈولیپیوں کی شکل میں جن میں حکمت و دانش کا خزانہ عامرہ ہے۔ سنسکرت کا ایک ایسا مرجع و مرکز کہ جہاں ابو ریحان البیرونی نے اس زبان کے رموز و نکات سیکھے۔ ہندوستانی علوم سے آگہی حاصل کی۔ فیضی نے بھی یہیں سے فیض پایا اور اپنے لسانی دائرے کو وسعت بخشی۔
پریم چند، منو سمرتی کے مفسر کلوکا بھٹ،بھار تیندو ہرش چندر، جے شنکر پرشاد،اچاریہ شکلا، ہزاری پرساد دیویدی، دیویکی نندن کھتری کی تخلیقی عظمتوں سے یہاں کی صبح درخشاں ہے۔
یہی وہ سرزمین ہے جس کی دامن گیر مٹی سے للا پورہ فاطمان میں مدفون شیخ علی حزیں کی مودت اتنی بڑھ گئی کہ انہوں نے اپنی عقیدت کا اس طرح اظہار کیا :
از بنارس نروم معبد عام است اینجا
ہر برہمن پسرے لچھمن و رام است اینجا
اور یہی وہ ’’فردوس معمور‘’ ہے جس کے تقدس کا چراغ غالب نے دلوں میں یوں روشن کردیا :
تعالی اللہ بنارس چشم بد دور
بہشت خرم و فردوس معمور
اسی سرزمین میں منڈواڈیہہ میں شاہ طیب بنارسی کا مزار، خانقاہ شریعت آباد اور سارناتھ کے بودھی کھنڈرات میں روحانیت کی قندیلیں روشن ہیں۔ اور اسی شہر کے بارے میں Mark Twain نے کہا تھا :
older than history ‘older than tradition ‘older even than legend
عظیم ہندوستانی رزمیہ مہابھارت کے خالق وید ویاس نے کچھ دنوں کے لئے یہیں کے رام نگر قلعہ میں قیام کیا تھا۔جسے کاشی نریش مہاراجہ بلونت سنگھ نے اٹھارویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔ اسی قلعے کے سرسوتی بھون میں نادر اور بیش بہا مخطوطات بھی ہیں خاص طور پر تلسی داس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی پانڈولیپی یہاں محفوظ ہے۔
یہ دانش گاہوں کا بھی شہر ہے کہ یہیں بنارس ہندو یونیورسٹی ہے جس کی تاسیس ۶۱۹۱ میں مدن موہن مالویہ نے کی تھی، جس میں اردو کے پہلے لکچرر مرزا محمد حسن فائز بنارسی تھے۔ اس کے عربی، فارسی، اردو کے شعبوں سے خطوط غالب کے مرتب مولوی مہیش پرساد، پروفیسر بدر الحسن عابدی، حکم چند نیر، نسیمہ فاروقی، حنیف نقوی جیسی شخصیتیں وابستہ رہی ہیں۔ سمپورنانند سنسکرت یونیورسٹی ہے جسے گورنر جنرل لارڈکارن ویلس نے ۱۹۷۱ میں قائم کیا تھا۔ مہاتما گاندھی کاشی ودیا پیٹھ بھی یہاں کا مشہور ادارہ ہے اسکے علاوہ جامعہ سلفیہ ریوڑی تالاب، جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب، جامعہ مظہر العلوم پیلی کوٹھی، مدرسہ مطلع العلوم کمن گڈھا، جامعہ فاروقیہ، جوادیہ، ایمانیہ وہاں کے مشہور دینی ادارے ہیں۔ فلسفہ، سنسکرت، نجوم کی تعلیم کے لئے یہاں تشنگان علوم کا قافلہ آتا تھا اسی لئے یہ شہر سرو ودیا کی راجدھانی بھی کہلاتا تھا۔ عرب سے ابومعشر فلکی بھی ہےئت و نجوم اور سنسکرت سیکھنے کے لئے یہاں آئے۔ مولوی مہیش پرساد، امرت لال عشرت اور حکم چند نیر جیسی شخصیتوں کے شہر میں اردو کی شمع روشن تھی جس کے پروانوں میں نظیر اکبر آبادی کے شاگرد راجہ بلوان تھے، فارسی اور اردو کے قادر الکلام شاعر، ونائک پرشاد طالب بنارسی، اردو تہذیب کی یہ وہ روشن علامتیں تھیں جہاں لسانی تفریق کی ساری منطقیں دم توڑ دیتی تھیں۔ ذہنوں میں زبانوں کی تقسیم نہیں تھی اور نہ ہی زبانیں مذہب سے مشروط تھیں۔
موضع مڑھوا لمہی متصل پانڈے پور کے پریم چند کا تعلق بھی ہندی ساہتیہ کے مرکز بنارس سے تھا مگر ان کی ذہنی مناسبت اردو سے زیادہ تھی جس کا اظہار انہوں نے مدراس میں منعقدہ ہندی پرچار سبھا کے چوتھے سالانہ اجلاس مورخہ ۹۲ نومبر ۴۳۹۱ میں کیا تھا :
’’۔۔نہ میں نے ہندی ادب پڑھا ہے اور نہ اس کا اتہاس نہ اس کی رفتار ترقی کے بارے میں جانتا ہوں۔ ۔میری ساری زندگی اردو کی خدمت کرتے گزری ہے اور آج بھی میں جتنی اردو لکھتا ہوں اتنی ہندی نہیں لکھتا۔ اور کائستھ ہونے اور بچپن سے فارسی کی مشق کرنے کے باعث اردو میرے لئے جتنی فطری ہے اتنی ہندی نہیں ‘‘ صفدر آہ مرحوم کے مضمون سے بھی کچھ ایسا ہی اندازہ ہوتا ہے :
’’پریم چند اول سے آخر تک صرف اردو کے ادیب رہے۔ اردو کے علاوہ کوئی دوسری زبان ادیب کی طرح نہیں لکھ سکتے تھے۔ اقتصادی ضروریات اور ماحول کے اثرات سے انہوں نے ہندی سیکھی۔ لیکن ان کی ہندی ہمیشہ ناقص رہی۔ بہت دن ہوئے ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک ناگری مسودہ میں نے بنارس میں دیکھا تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس مسودے میں املے کی غلطیاں موجود تھیں۔ وہ بہت سے بہت ہندی کے ایک خواندہ آدمی تھے ادیب وہ صرف اردو کے تھے ‘’(بحوالہ مانک ٹالا، پریم چند کا سیکولر کردار اور دیگر مضامین ص۰۳)
اردو فکشن کے بنیاد گزار یہ وہی پریم چند تھے جنہوں نے نبی کا نیتی نرواہ جیسا افسانہ اور اسلامی تہذیب جیسا مضمون لکھا۔ اور ببانگ دہل یہ بھی لکھا کہ ’’یہ بالکل غلط ہے کہ اسلام تلوار کی طاقت سے پھیلا۔ تلوار کی طاقت سے کوئی مذہب نہیں پھیلتا۔ بھارت میں اسلام پھیلنے کی وجہ اونچی جاتیوں کے ہندؤوں کا نیچی جاتی کے ہندؤوں پر مظالم تھے۔ ‘‘
پریم چند کے بہت بعد اردو فکشن کو بنارس کا ایک گوہر ملا۔ علیم مسرور جن کے ناول ’بہت دیر کر دی‘ پر طوائف نامی فلم بھی بنی مگر ہندی فکشن میں بہت سے نام تھے، دویدی اور جے شنکر جیسی شخصیتیں بھی تھیں۔
ہزاری پرساد دویدی
بنارس کی ثقافت کی ایک روشن علامت ہزاری پرساد دویدی بھی تھے جن کی جنم بھومی تو بلیا کا گاؤں اوجھولیا ہے مگر انہیں گیان کی روشنی کاشی سے ملی ہے۔ کاشی ہندو وشوودیالیہ سے سنسکرت اور جیوتش کی تعلیم حاصل کی۔ وہ ایک کثیر الجہات ادیب تھے جنہوں نے تنقید، تخلیق اور تحقیق کو وسعتوں کے نئے آسماں عطا کئے ہیں۔ کبیر اور سور ساہتیہ جیسی کتابیں لکھنے والا معمولی فہم و ادراک کا انسان نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے تاریخی ثقافت کو بنیاد بناکر بان بھٹ کی آتم کتھا، چارو چند لیکھ، پنروا، انام داس کا پوتھا جیسے ناول لکھے جس میں تاریخ کے کئی اہم ادوار اور تہذیبی نقوش محفوظ ہو گئے ہیں۔ دویدی جی کا ایک اہم کام ہے کبیر کا نئی نظر، نظریے سے مطالعہ اور کبیر کی ایک نئی شخصیت کا اکتشاف۔ اس تعلق سے وشوناتھ پرساد تواری لکھتے ہیں :
’’دویدی جی پہلی بار کبیر کی شخصیت کو ان کی شاعری کو ان کی زبان کو اور ان کے طنزو مزاح کو سامنے لائے اور انہیں ہندی ادب میں نمایاں کیا کہ وہ آج کے نئے سے نئے شاعر کے بھی آدرش بنے ہوئے ہیں۔ کبیر کے انقلابی روپ کو سب سے پہلے ہزاری پرساد دویدی نے ہی پہچانا۔ یہ کبیر لٹریچر کو ان کی دین ہے ‘‘(وشوناتھ پرساد تواری، ہزاری پرساد دویدی مترجم ایس اے رحمن مطبوعہ ساہتیہ اکیڈمی نئی دہلی )
اس کے علاوہ تلسی داس، کالی داس، رویندر ناتھ ٹھاکر پر ان کا تنقیدی کام مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ سور داس کی رادھا کا تجزیہ بھی انہوں نے نئے زاوئے سے کیا ہے تواری جی کے بقول ’’دویدی جی نے جے دیو، ودیاپتی اور چنڈی داس کی رادھا کے ساتھ سور داس کی رادھا کو رکھ کر عشق و محبت کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہندوستان کے کسی بھی شاعر نے رادھا کا تذکرہ اتنی تفصیل سے نہیں کیا ہے عالمی ادب میں سور کی رادھا جیسی محبوبہ نہیں ہے۔ دویدی جی کے ہی لفظوں میں : ’’سور ساگر کی دو تصویریں عالمی ادب میں بے مثل ہیں۔ ۔۔یشودھا اور رادھا۔ یشودھا کی شخصیت میں وہ سب کچھ ہے جو ماں لفظ کو با عظمت بنائے ہوئے ہے رادھا کے کردار میں محبت کے سب ہی روپ نہاں ہیں ‘‘(ہزاری پرساد دویدی ص ۳۸۔۴۸)۔
جے شنکر پرساد
غیر معمولی ذہانت اور عبقری صفات کے حامل جے شنکر پرساد (۹۸۸۱۔۷۳۹۱) کا تعلق بھی بنارس کے ’’سنگھنی ساہو ‘’خاندان سے تھا۔ انہوں نے ہندی کو چھایا واد کی حسیت سے متعارف کرایا۔ آنند واد ان کا مخصوص فلسفہ حیات تھا۔ نشاط فی الوجود کے اس طرز فکر کے حوالے سے رمیش چندر شاہ نے لکھا ہے کہ ’’پرساد کی زندگی المناک واقعات سے پر تھی۔ وہ المیہ سے ہی شروع ہوئی اور المیہ پر ہی ختم ہو گئی۔ جب وہ اپنی تخلیقی قوتوں کی معراج پر تھے تو ایک مہلک مرض نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور انہوں نے راضی برضا ہو کر خود کو اس کے حوالے کر دیا اور علاج کی غرض سے کسی سینی ٹوریم میں جانے کے لئے اپنے محبوب وطن کاشی کو چھوڑنا گوارہ نہ کیا۔ جب ہم اس شاعر کی پر آلام زندگی کے بارے میں غور کرتے ہیں تو کیٹس کے بارے میں ایٹس کا یہ قول ہمارے دماغ میں گونجنے لگتا ہے ’’اس کا فن نشاطیہ ہے لیکن اس کے دل کا حال کون جانتا ہے ‘‘جہاں تک پرساد کے دل کا تعلق ہے تو اس کی کچھ جھلک ہمیں ضرور نظر آسکتی ہے بشرطیکہ ہم نہ صرف ان کی شاعری کو اس کے نشاطیہ فن کی سطح کے نیچے اتر کر دیکھیں بلکہ ان کے نثری افسانوی ادب کا بھی، جو اتنا نشاطیہ نہیں ہے گہرائی میں جا کر مطالعہ کریں‘‘(رمیش چندر شاہ، جے شنکر پرساد مترجم حنیف کیفی ص۶۲)
آستھا اور عقیدے کی سر زمین سے رشتہ ہونے کے باوجود ان کے یہاں عقلیت اور تشکیک کی رو نمایاں تھی۔ رمیش چندر کے مطابق ’’پرساد نے کبھی کسی شے کے آگے سر نہیں جھکایا۔ انہوں نے ہر مفروضے کو، چاہے وہ اخلاقی ہو، مذہبی ہو، فلسفیانہ ہو، یا سیاسی ہو ایک بڑے سوالیہ نشان کے ساتھ قبول کیا۔ ان کی نظر میں کوئی بھی شے حتمی اور بدیہی نہیں تھی۔ ‘‘
کامائنی، کانن کسم، پریم پتھک، کے شاعر، کنکال، تتلی، اراوتی کے ناول نگار، آکاش دیپ، اندر جال، آندھی کے افسانہ نگار، اجات شترو، اسکند گپت، چندر گپت، دھرو سوامنی کے ڈرامہ نگار جے شنکر پرساد نے ہندی کو نئے آفاق عطا کئے۔
آغاحشر کاشمیری
لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں مدفون ہندوستان کے شکسپیر آغا حشر کاشمیری (م۸۲ اپریل ۵۳۹۱) کی زاد گاہ یہی بنارس ہے۔ ناریل بازار گوبند کلاں بنارس میں یکم اپریل۹۷۸۱میں پیدا ہوئے، نام محمد شاہ رکھا گیا۔ جنہوں نے، ڈرامہ کی دنیا میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔ آفتاب محبت (۷۹۸۱) یہودی کی لڑکی (۵۱۹۱)، خوبصورت بلا (۹۰۹۱)، شہید ناز، رستم و سہراب (۰۳۹۱)، سفید خون، سلور کنگ عرف نیک پروین (۰۱۹۱)،جیسے ڈرامے اردو دنیا کو دئے۔
شاعری کے باب میں بھی ذہانت کے جوہر دکھائے۔ فائز بنارسی کے شاگرد آغا حشر کا یہ شعر تو اتنا مشہور ہے کہ ہر خاص و عام کی زبان پر ہے :
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد
اور انہی کی نظم کے یہ بند بھی ہیں :
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے
حق پرستوں کی اگر کی تونے دلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں
(بحوالہ انجمن آرا انجم، آغاحشر کاشمیری ص۶۲)
بے پناہ قوت اظہار کے حامل آغا حشر کاشمیری نے ڈرامہ کو نئے نقش و نگار عطا کئے۔ مگر پاکستان کے معروف ناقد ڈاکٹر سلیم اختر کا خیال اس سے ذرا مختلف ہے۔ وہ آغا حشر کو انڈین شکسپیر ماننے سے انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’آغا حشر کو عقیدت یا تنقیدی بصیرت کے فقدان کی بنا پر انڈین شکسپیر کہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حشر کا شکسپیر تو کجا یورپ کے بعض اور چھوٹے ڈرامہ نگاروں سے بھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے ہاں اس گہرائی اور ژرف نگاہی کا فقدان ہے جو کسی بھی عظیم ڈرامہ نگار کے لئے ضروری ہے۔ ‘‘(اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ۔ کتابی دنیا دہلی ص۷۹۳ )
شیخ محمود احمد رونق بنارسی (۵۲۸۱۔۶۸۸۱)اور طالب بنارسی (۲۵۸۱۔۲۲۹۱) کا شمار اہم ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ رونق پارسی تھیٹر سے وابستہ تھے۔ ان کے والدین دکن میں اقامت پذیر ہو گئے تھے۔ انہوں نے بمبئی کے کاٹن مل میں بھی کام کیا پھر وکٹوریہ کمپنی سے وابستگی رہی۔ ان کا اہم شاہکار بے نظیر و بدر منیر ہے۔ لیلیٰ مجنوں، عاشق کا خون، بہارستان اشک، خوابگاہ عشق ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔ امتیاز علی تاج نے ان کے ڈرامے مرتب کر کے شائع کیے تھے۔ انہوں نے عاشق کا خون میں ایک المیہ کردار ادا کرتے ہوئے خود کشی کر لی تھی۔ طالب نے لیل و نہار، ہریش چندر، نگاہ غفلت، وکرم ولاس، دلیر دل شیر، نازاں جیسے ڈرامے لکھے شعر وادب کا عمدہ مذاق رکھتے تھے، ان کے مضامین مخزن میں اشاعت پذیر ہوتے تھے۔ طالب بنارسی کے تعلق سے عشرت رحمانی کا خیال ہے کہ ’’ان کی زبان فصیح و شستہ ہے۔ گو ڈراموں کے پلاٹ عام روش سے ہٹ کر نہیں اور ان میں سماجی زندگی کے کسی پہلو کی موثر عکاسی نظر نہیں آتی۔‘‘ (اردو ڈرامہ کا ارتقا۔ ص172)
کچھ اسی طرح کا تاثر ڈاکٹر عطیہ نشاط کا بھی ہے ’’طالب کے ڈراموں کے پلاٹ ڈھیلے ڈھالے ہیں اور کم و بیش وہی طرز ہے جو حافظ عبداﷲ اور نظیر بیگ وغیرہ کا ہے۔ ان کے زیادہ تر ڈرامے پرانے قصوں پر مبنی ہیں۔‘‘ (اردو ڈرامہ: روایت اور تجربہ۔ ص 150)
امتیاز علی تاج نے 1975 میں لاہور سے طالب بنارسی کے ڈرامے کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کر کے شائع کی تھی۔ طالب بنارسی کے بارے میں ڈاکٹر محمد قمر تبریز صدیقی نے بہت پتے کی بات کہی ہے کہ ’’طالب بنارسی کے متعلق جس نقاد نے بھی خامہ فرسائی کی ہے سب سے صرف ایک ہی بات پر زور دیا ہے کہ اردو ڈرامے میں پہلی بار طالب نے سادہ اور قافیہ سے پاک زبان استعمال کی۔ اس سے زیادہ ان کا اور کوئی کارنامہ نہیں ہے۔‘‘ (اردو ڈرامے کی تنقید کا تجزیاتی مطالعہ۔ ص 93)
بنارس کی شعری فضا بھی تابناک تھی۔ خوش گو، فائز بنارسی، بھارتیندو ہریش چندر رسا، نظیر، حفیظ، مسلم الحریری، ناظم جعفری، تاج الدین اشعر، طرب صدیقی، شمیم طارق، راشد بنارسی، شاد عباسی، روشن لال روشن، نرائن سریواستو، کبیر اجمل، غفران امجد، جوہر صدیقی، آزر حفیظ، خالد جمال، عارف ہندی، جاوید انور جیسے شاعروں کی موجودگی سے وہاں تخلیقی توانائی ہے۔ مرزا مظہر تاجدار ضمیری بھی قدیم شعرا میں سے ہیں۔ گلستان سخن میں یہ چند اشعار درج ہیں:
ہم نہ کہتے تھے ضمیری بے وفاؤں سے نہ مل
اپنے کاموں کا نتیجہ تجھ کو حاصل ہو گیا
یوں عادتوں کو تیرے کیا کیا نہ جانتے تھے
لیکن تجھے ستمگر ایسا نہ جانتے تھے
ہائے مطعون شیخ و شاب ہوئے
تجھ سے مل کر بہت خراب ہوئے
اسی کعبہ ہندوستان میں محبت کی اذان دینے والا شاعر نذیر بنارسی تھا شیو کی راجدھانی کا سفیر، جس کی رگوں میں لہو کی جگہ شیوشنکر کی جٹاؤں کی حسینہ گنگا کی لہریں تھیں۔ جس کی شاعری میں ایک ہی راگ تھا۔ ۔دیش راگ، منافرت کی آندھی بھی جسے بے اثر نہ کرسکی۔ بنارس کی بانسری کا یہی راگ شعروں میں ڈھلتا ہے تو محبت اور عقیدت کا شبنمی احساس بہت سے ذہنوں کا حصہ بن جاتا ہے اور خیمہ منافرت کو خس و خاشاک کر ڈالتا ہے۔ کاشی، نذیر کی آتما میں اس طرح تحلیل ہو گئی تھی کہ اپنے احساس کی ہر خوشبو کاشی کی سانسوں کے حوالے کردی :
میں بنارس کا نواسی کاشی نگری کا فقیر
ہند کا شاعر ہوں شیو کی راجدھانی کا سفیر
لے کے اپنی گود میں گنگا نے پالا ہے مجھے
نام ہے میرا نذیر اور میری نگری بے نظیر
نذیر نے مذہب اور عقیدے سے جڑی ہوئی ساری زنجیروں کو توڑتے ہوئے اس وحدت کا نغمہ الاپا جو تمام مذاہب کی اساس میں نہاں ہے :
میرے بعد اے بتان شہر کاشی
مجھ ایسا اہل ایماں کون ہوگا
کرے ہے سجدہ حق بتکدے میں
نذیر ایسا مسلماں کون ہوگا
ہم نے تو نمازیں بھی پڑھی ہیں اکثر
گنگا ترے پانی سے وضو کرکر کے
نذیر جیسے کشادہ ذہن میں ہی یہ اشعار جنم لے سکتے ہیں :
آواز گم ہے مسجد و مندر کے شور میں
اب سوچتے ہیں ان کو پکاریں کہاں سے ہم
مندر بنا بنا کے مسجد بنا بنا کے
سب گھیرتے ہیں اس کو دیوار اٹھا اٹھا کے
آدرنیہ مہاراج اور اے شیخ مکرم
جے ہند اجازت ہو تو کچھ عرض کریں ہم
مذہب کی حرارت کو ذرا کیجئے اب کم
ہے ایکتا بھارت کی بری طرح سے برہم
نذیر نے اتحاد اور یکجہتی کے لئے پوری زندگی وقف کردی مگر انہیں بھی فرقہ پرستی کے عفریت نے نہیں بخشا، جو یہ کہتا رہا کہ
خون اب کسی انسان کا پینے نہیں دوں گا
اے فرقہ پرستی تجھے جینے نہیں دوں گا
خود ہی فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
نذیر، اس کبیر کی توسیع تھے جنہوں نے گنگا کی سیڑھیوں پہ بیٹھ کر اور مسجد کے مناروں کو دیکھ کر یہ شعر کہے تھے
نہائے دھوئے کیا بھیا جو من میل نے جائے
من سدا جل میں رہے دھوئے باس نہ جائے
کانکر پاتھر جوڑ کے مسجد لئے چنائے
تا چڑھ ملا بانگ دے کیا بہرا ہوا خدائے
برہم دیو مدھر کے تخلیقی مزاج کی تشکیل میں ہندی شعریات کا عمل دخل زیادہ ہے مگر اردو کی تہذیبی روایت اور بوطیقا سے والہانہ شیفتگی نے ان کے تخلیقی ذہن کو نیا تحرک بخشا اور ان کے تخلیقی نظام کو تازگی، رعنائی، نزاکت اور نفاست عطا کی ہے۔ اردو غزلیہ شاعری کی ایمائیت، رمزیت اور تہ داری نے ان کے تخلیقی باطن کو مہمیز کیا ہے۔
’’اور بھی غم ہیں ‘‘مدھر جی کا خوبصورت شعری مجموعہ ہے۔ اشعار کی قراْت کے طریق کار اور تفہیمی تناظر کو ذرا بدل کر دیکھیں اور ایک نئے نہج سے نظر ڈالیں تو اس شعری مجموعہ میں بہت سی معنوی خوبیاں نظر آئیں گی۔ اردو ہندی کا تہذیبی، لسانی وصال خوش جمال آنکھوں کو بھائے گا اور شاعری کے باطن میں جو زیریں لہریں ہیں وہ ذہنی وجود کو تابندگی بخشیں گی۔
برہم دیو مدھر کے تخلیقی باطن میں گنگا، جمنا، سرسوتی، گداوری، نرمدا، سندھو، اور کاویری جیسی مقدس ندیاں بہتی نظر آتی ہیں اور ان دریاؤں کی لہروں کا ملن بھی۔ اسی نقطہ وصال سے ان کے تخلیقی جمال کا چشمہ پھوٹتا ہے۔ ان سات دریاؤں کے ساتھ ان کی تخلیقی کائنات میں ایودھیا، متھرا، ہری دوار، کاشی، کانچی، اونتیکا (اجین )دوارکا جیسے شہر اپنے تہذیبی استعاروں اور امیجز کے ساتھ آباد نظر آتے ہیں۔ انسان کے باطن میں یہی سات مقامات بستے ہیں اور انہی مقامات سے انسانی جذبات، احساسات، تخیلات و تحیرات کا انسلاک ہے۔ سات کے طلسمی حصار ہی میں سارے جذبے، احساس اور اظہار قید ہیں۔
ہری دوار جو تلاش ذات کا نقطہ آغاز ہے، وہ شہر اپنے اسطوری تخیل اور تہذیبی تفاعل کے ساتھ اس شعر میں ہے :
تری تلاش میں نکلا تو کھو گیا ہوں میں
عجیب بات ہے اب خود کو ڈھونڈتا ہوں میں
متھرا اپنے تقدیسی صفات کے ساتھ کرشن کے لئے گوپیکاؤں کی محبت اور کنس کے لئے نفرت اور خوف کے جذبات سمیت ان کی شاعری میں یوں منور نظر آتا ہے :
بچوں کو ماں کی کوکھ ہی میں چن دیا گیا
چارہ گروں کو قاتلوں کا گن دیا گیا
آئے مدھر کو یاد نہ کیوں اپنی رادھکا
بنسی میں کوئی درد جو ٹیرے کبھی کبھی
ایودھیا امن، عدل، فراق و وصال، رام کے ایثار اور کیکئی کی سازش کی علامتوں کے ساتھ ان کے بہت سے شعروں میں نمایاں ہے :
ملن بھی اک اوستھا ہے ورہ بھی اک اوستھا ہے
پھر اس کے بعد دل سنتا ہے انہد ناد جیون
ذہن بن باسی بنا ہے سارے رشتے توڑ کر
میرے سائے کے نکٹ پھر جنگلوں میں کون تھا
کاشی اپنے دھیان، گیان اور روحانی ریاضت کے ساتھ مدھر جی کے ان شعروں میں نظر آتا ہے :
جانے کتنے جنم کے ہیں بھٹکے ہوئے
ہم نے بدلے تیرے واسطے تن کئی
باہر ندی کی پھیلی ہوئی ریت کال ہے
پانی بھی مچھلیوں کے لئے ایک جال ہے
اسے اچھی طرح معلوم ہے آنند پیڑا کا
دیکھا ہے پیار میں جس نے ورہ کا سواد آجیون
کانچی نشاط زیست کے تصور اور کام دیوی کامکشی کے ساتھ ان اشعار میں مصور ہے :
خواہشوں کے سانپ مجھ سے لپٹے رہتے ہیں مدھر
آپ نے ناحق بنایا نیم سے صندل مجھے
وصل کے لمحات میری سوچ میں آتے ہیں جب
ایسا لگتا ہے کھجراہو کے بت خانے میں ہوں
کالی داس اور وکرمادتیہ کی سرزمین اجین اپنے ارفع تخیل، تہذیب، ثقافت اور آرٹ کے امیج کے ساتھ مدھر جی کے ان ان شعروں میں روشن ہے :
کبھی تو آئے گی تیرے بدن کو چھوکے ادھر
کھلا کواڑ میں رکھتا ہوں اس پون کے لئے
جو خود ہے آگ اس کو جلائے گی آگ کیا
مجھ کو ڈر ہے کہ وہ کہیں پانی سے جل نہ جائے
دوارکا جو آزادی اور نجات کا نقطہ اختتام ہے۔ جہاں کرشن جی نے اپنا جسم تیاگ دیا تھا۔ ان شعروں میں کتنی خوبصورتی کے ساتھ visualiseہوا ہے :
زندگی گر نہ ہوتی شو سادھنا
ہم کو مرگھٹ کے سائے نگلتے نہیں
موت جب آئی نظر مجھ کو دکھی
میں نے اپنی زندگانی سونپ دی
آتما سے ملی آتما اس طرح
خود ہی درشن ہوا خود نین ہو گیا
یہ ساتوں شہر اپنے تمدنی تلمیحات، تہذیبی اشارات کے ساتھ مدھر جی کے شعروں میں نظر آتے ہیں۔ بس تلاش و جستجو شرط ہے۔ یہ شاعری ان کے شخصی اکتشاف کی اوڈیسی ہے۔ انہوں نے کچھ نئی تلمیحات، علامتیں اور تراکیب بھی استعمال کی ہیں اور اظہار و احساس کے نئے در وا کئے ہیں :
میٹنی شو دیکھ کر آئی ہوا
گاؤں میں کرتی ہے ڈسکو رات بھر
جگنوؤں نے لے لیا بن باس اب
ٹیوب لائٹ کے لگے جب سے شجر
ان کی غزلوں میں ہندی تلمیحات اور استعارات کا حسن بھی ہے اور لفظیات کا جمال بھی :
بھسم جیون کا ہر آورن ہو گیا
آگ من میں لگی تن ہون ہو گیا
دیکھا ہے اپنے آپ کو درپن میں نروسن
ٹوٹے ہیں جب بھی عکس کے گھیرے کبھی کبھی
عصری صورت حال، مذہبی جنون و تشدد، منافقت مکاری، عیاری، آتنک واد کے تعلق سے بھی بہت سے اشعار ان کے یہاں ملتے ہیں جن سے ان کے انقلابی تیور کا پتہ چلتا ہے اور ان کی آتما کی خوبصورتی کا بھی :
ہر سمت ایک غول ہے آتنک واد کا
مجھ کو کہیں بھی پیار کا سنسد نہیں ملا
اس شعری مجموعہ میں برہم دیو مدھر جی کی پوئٹک جینئس کے ڈائمنشن منور ہیں۔ ان کی شعری قوت اور تخیل کی بلندی سے انکار کسی طور پر ممکن نہیں۔ مدھر کی شاعری کومل، نرمل، شفاف اور سوکچھ ہے۔ اس شعری تخلیق کے باطن کی سیر کریں تو اس میں تلسی داس، رادھا، رے داس، رحیم، رس کھان، رمن، سدامہ، شبری، میرا اور کبیر کی آنکھیں نظر آئیں گی۔ اور یہ آنکھیں بہت ہی پاک و صاف، پر سوز اور درد مند ہیں اور یہی شفافیت اور درد مندی مدھر جی کی تخلیق کے آئینہ خانہ میں تمام تر جمالیاتی زاویوں کے ساتھ روشن ہیں۔
فریاد آزر بھی بنارس کے ہیں جن کا امتیاز یہ ہے کہ وہ تخلیق کو نیا سیاق وسباق، نیا مفہوم اور نیا تناظرعطا کرنے کی جدو جہد میں اس فکری اور اظہاری منطقہ تک رسائی میں کامیاب ہوئے ہیں جو بہت حد تک کنوارا اورقدرے غیرمستعمل ہے۔ ان کی تخلیق میں وہ مرکزی نقطہ اور محوری نکتہ بھی موجود ہے جو عصرِ حا ضر کی بیشتر تخلیق سے غائب ہوگیاہے۔
آزر کا تعلق تخلیق کے اس تلازماتی نظام اور تناظر سے ہے جس سے تخلیق میں تازگی، تحیر اور تابندگی آتی ہے۔ انہوں نے’ تخلیقی اجتہاد‘سے کام لیا ہے اور تقلیدِ جامد سے گریز کیا ہے اور ایک نئی تخلیقی سمت کی تلاش نے ان کی شاعری کو اس بھیڑسے بھی بچالیا ہے جس میں اکثر فن پارے اپنے نام و پتہ کی تلاش میں مدتوں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ ولی دکنی نے بہت پہلے کہا تھا ‘‘ تاقیا مت کھلا ہے باب سخن……….فریاد آزر کی شاعری میں بابِ سخن کے نئے نئے در کھلے جا تے ہیں اور ہمیں تحیرات سے ہم کنار کرتے ہیں۔ خوشی ہوتی ہے کہ صنعتی ومشینی عہد میںآزر کے اندر کا احساس اور اضطراب زندہ ہے اور اس کی لہریں ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہیں۔فریاد آزر کی شاعری میں جو احساس و اظہار ہے، وہ ’آج‘ سے عبارت ہے جس میں‘گذشتہ‘مکمل طور پر نہ شریک ہے اور نہ ہی مکمل طور پر متروک کہ ان کا حال ماضی سے مستعار نہیں مگر مستنیر ضرور ہے۔ آزر کا تخلیقی احساس منفرد اور مختلف ہے۔ زندگی کے تعلق سے ان کا Dynamic Approachہے۔ آج کی زندگی کی صورت حال اور انسانی متعلقات کے حوالے سے ان کا زاویہ نظر جداگانہ ہے۔ ان کے یہاں اس انسان کی جستجو ملتی ہے جو ‘گلوبل گاؤں‘ میں اپنی شناخت کھو چکاہے اور بے چہرگی جس کی پہچان ہے۔بنیادی انسانی اقدار سے منحرف اور ٹکڑوں میں بٹے ہوئے انسانی وجود کے ذہنی و فکری بحران اور انتشار و اختلال کو انہوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی شاعری کے ذریعہ انسان کی دا خلی ‘ خارجی صورتحال سے آگہی ہوتی ہے۔ Globalised Society اور ملٹی کلچر ایج میں سماجی، سیاسی اقدار میں تبدیلیاں آئی ہیں اور انسانوں کے ذہنی زاویے بھی بدلے ہیں۔ ایسی بدلتی ہوئی صورتحال میں ان کی تخلیق نہ صرف آج کے مسائل پر نگاہ ڈالتی ہے بلکہ آج کے معاشی‘ اقتصادی‘ سماجی‘تہذیبی نظام سے بھی بے خوف مکالمہ کرتی ہے۔
جدید غزل کے منظر نامے پر فریاد آزر کا نام اس اعتبار سے بھی اہمیت کاحامل ہے کہ روایتی حصار سے باہر نکل کر عصری حالات‘ تغیرات اور تموجات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ اور آج کے عہد کی تفہیم بالکل نئے زاویے سے کی ہے اور اس انسانی ضمیر اور روح کی بازیافت بھی کی ہے جو تینوں زمانوں پر محیط ہے۔
فریاد آزر کی تخلیقی اڑان کے زاویے الگ ہیں انہوں نے احساس و اظہار کے جو صنم کدے تعمیر کئے ہیں‘ اس میں ان کے خونِ جگر کی نمود ہے۔ وہ اپنی ذات میں گم نہیں ہیں بلکہ گردو پیش پہ ان کی گہری نظر ہے:
۔۔۔
اچھا ہو ا کہ لوگ بیاں سے مکر گئے
بھن جاتے ورنہ وہ بھی کسی ’بیکری‘کے ساتھ
۔۔۔
خون مشرق کے بہاتے ہی رہیں گے ناحق
اور کرسکتے ہیں کیامغربی آقاؤں کے لوگ
۔۔۔
ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے
سطحِ’ اوزون‘ کو فضلات سے آزادی دے
۔۔۔
فضائے آتشِ گجرات سے جوبچ نکلے
پرندے پھرنہ گئے لوٹ کر جہنم میں
۔۔۔
دفن کردیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں ماردیتا ہے اسے دورِ جدید
۔۔۔
رواج گاؤں میں پردے کا اس قدر نہ تھا
مگر مزاج میں بے پردگی بہت کم تھی
۔۔۔
یہ اور بات کہ سب جنگلوں میں رہتے تھے
مگر فضاؤں میں آلودگی بہت کم تھی
۔۔۔
یہ ان کے تخلیقی ذہن کی ارتعاشی لہریں ہیں۔ سیاست ‘سماج اور دیگر مختلف سطحوں پر ان کے ذہنی تحرک کے ثبوت کے لئے یہ اشعار کافی ہیں۔ ان کی نگاہ کسی خاص نقطہ پر محدود نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری ایک طرح سے ’جامِ جہاں نما‘ ہے جس میں پوری انسانی کائنات کا عکس نظر آتا ہے۔ وہ اکثر شعروں میں حیرتوں کی نئی قندیل جلاتے ہیں‘ ان کی شاعری کی مجموعی قرأت سے پتہ چلتا ہے ان کے یہاں تخلیق کی علمی ‘عرفانی ‘وجدانی سطح بہت بلند ہے اور سماجی ‘ سیاسی‘سائنسی شعور بالیدہ۔
فکریات کی سطحُ پر جہاں انہوں نے بہت سے نئے تجربے کئے ہیںیا پرانے تجربوں کی ’تقلیب ‘کی ہے ‘وہیں لفظیات کی سطح پر بھی وہ ایک نئے آب و رنگ میں نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں لسانی جبر کا وجود نہیں ہے۔ ہر وہ لفظ جو ان کے احساس کی ترسیل کردے خواہ اس کا تعلق کسی زبان ‘ مذہب‘ملک سے ہو اس کے استعمال سے حذر نہیں کرتے‘ یہی لسانی اور فکری جمہوریت فریاد آزر کا فکری شناس نامہ ہے۔ ان کی شاعری میں وہ جمہوری آوازیں ہیں جو جلجا میش‘ سقراط‘ سرمد‘ اور منصور کے’ حلق بریدہ‘ سے بلند ہوتی رہی ہیں۔ انہوں نے سیاسی ‘سماجی ‘سفاکیت‘آمریت‘ مطلق العنانیت کے خلاف اپنی شاعری کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے اور عالمی استعماری نظام کے خلاف آواز بھی بلند کی ہے۔ فرقہ واریت‘فسطائیت کے خلاف بھی انہوں نے اپنی تخلیقی توانائی کا استعمال کیا ہے:
بھر رہا تھا زہر وہ معصوم ذہنوں میں مگر
ہم پہ نفرت گھولنے کا جرم عائد ہوگیا
۔۔۔
ہندو کوئی تو کوئی مسلمان بن گیا
انسانیت بھی مذہبی خانہ میں بٹ گئی
۔۔۔
بچوں پہ ایسا جادو چلا ہے نصاب کا
اکبر کا نام لینے لگے غزنوی کے ساتھ
۔۔۔
کہیں بھی قتل ہو کیسی عجیب سازش ہے
لہو میں ڈوبی ہوئی مری آستین لگے
ان کی تخلیق کا توانائی نظام انتہائی متحرک اور فعال ہے۔ ان کے یہاں بصیرت اور آگہی کی وہ بلند سطح ہے جو ماضی اور مستقبل پر نگاہ رکھتی ہے۔ ان کا آئینہ ادراک روشن ہے جس میں وہ ماضی کے کے ساتھ مستقبل کی آہٹوں کو بھی محسوس کرتے ہیں۔
فریاد آزر کی شاعری میں عصر حاضر کے مسائل کا اظہار ادراک ہے اور یہی عصری حسیت اور آگہی ان کی شاعری کو نقطہ انفراد یت عطا کرتی ہے۔ اس میں ایک آفاقی شعوربھی ہے‘ ژرف نگاہی اور باطنی روشنی(Inner Light)بھی جو آج کی تخلیق میں کم نظر آتی ہے۔ معاشرہ کی تمام متضاد اور متخالف لہروں کو انہوں نے اپنی شاعری میں سمولیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں ایسے نقوش مرتسم کردئے ہیں جو سماج اورسیاست کی راہوں میں بھٹکنے والوں کو بھی صحیح سمت کا اشارہ دیں گے اور انہیں منزل مراد تک پہنچادیں گے۔
فریاد آزر کا تہذیبی ‘سماجی ‘ سیاسی‘شعور پختہ ہے اور شعور کی مختلف سطحیں ان کے تخلیقی نظام سے مربوط اور منسلک ہیں۔ اسکا ئی اسکر یپر کلچر کے اس عہد میں چھوٹی چھوٹی زمینی حقیقتوں اور ارضی صداقتوں کو فنکارانہ انداز میں پیش کرنا اور قاری کے احساس و ضمیر کو مرتعش کرنا بہت بڑی بات ہے:
۔۔۔
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
۔۔۔
مجھے اب اور سیاروں پہ لے چل
میں گلو بل گانوں سے اکتا گیاہوں
۔۔۔
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہوگئے
۔۔۔
اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا
۔۔۔
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
۔۔۔
سب حقائق مجھ سے بھی پہلے کہیں موجود تھے
میں سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ مری ایجاد ہے
۔۔۔
تخلیق کی سطح پر ایقاظ اور بیداری کا جو فریضہ فریاد آزر انجام دے رہے ہیں، آج کی بے حسی کے دور میں بہت سے فنکار اپنی ذ مہ داری کے احساس تک سے محروم ہیں۔ انہیں’احساسِ زیاں‘ ہی نہیں تو پھر معاشرتی ‘ سماجی‘ اقدار کے تحفظ کا خیال کہاں سے آئے گا۔ فریاد آزر تخلیق کے منصب سے باخبر ہیں اور اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ۔ اس لئے وہ اپنی تخلیق کے ذریعہ ہر سطح پر ابنِ آدم کو کائنات کے مسائل اور اس کی پیچید گیوں سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ان کی پوری شاعری مقصدیت سے معمور ہے وہ گل و بلبل کی داستاں‘یا فسانہء شب ہائے دراز‘پر یقین نہیں رکھتے بلکہ آج کی سفاک جاں گسل حقیقتوں کو اپنی شاعری کا موضوع اور تخلیق کا مرکزی نقطہ قرار دیتے ہیں اور اسی محور پر ان کی شاعری حیات و کائنات کے مختلف مسائل اور موضوعات کا طواف کرتی رہتی ہے’۔ طوافِ کوچہء جاناں‘کے بجائے’ غم دوراں‘ سے ہی آج کی شاعری معتبر اور منفرد قرار پاتی ہے۔
فریاد آزر کی شاعری میںیہی ’’ غم دوراں‘ عذاب جاں‘ آشوب عصر اپنی تمام تر تخلیقی منطق‘معروضیت اور فنی ‘فکری ہنر مندی کے ساتھ موجود ہے۔
عتیق انظر
بنارس سے تعلق رکھنے والے عتیق انظر اپنے مختلف تیور کی وجہ سے معاصر شعری منظرنامہ میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ ان کی تخلیق میں تازگی، اچھوتاپن اور ندرت ہے۔ ان کا جو طرز اظہار ہے اس میں کلاسیکی رنگ کے ساتھ جدت کا بھی امتزاج ہے۔ انہیں زبان و بیان پر عبور ہے اور فقہ اللسان سے بھی باخبر ہیں۔ اس لئے لسانی ندرتوں کے اعتبار سے بھی ان کی غزلیہ شاعری مختلف ہے۔ جہاں تک فکر کی بات ہے تو ان کی فکر میں قدیم و جدید دونوں دنیائیں ہیں اور دونوں کے بحران سے بھی وہ آشنا ہیں۔ جدید انسان کے بحران، وجودیاتی کشمکش اور انسانی اضطراب و التہاب کو انہوں نے اپنے تخلیقی قالب میں ڈھالا ہے اور آج کے انسان کے مسائل و مشکلات، دکھ، درد کی لہروں کو مس کیا ہے۔ عتیق انظر کا شعری مجموعہ ’’پہچان‘‘کے عنوان سے ادبی حلقہ میں اعتبار حاصل کر چکا ہے۔ راشد آذر نے ان کے اظہاری اختصاص کا اعتراف یوں کیا ہے :
’’بڑی خوشی کی بات ہے کہ عتیق انظر اپنے لہجے کی شناخت بنانے کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ ان کو ان کے انداز بیاں کی تازگی اور اچھوتے پن سے پہچانا جا سکتا ہے۔ آگے چل کر یہ وصف ان کے انفرادی لہجے کی تشکیل میں معاون ثابت ہوگا ‘‘(ماہنامہ سب رس حیدر آباد، جنوری ۶۹۹۱)
عتیق انظر کے تخلیقی جلال و جزالت کا جلوہ اس غزل میں موجود ہے :
سب کو نفرت میں تری جوڑ دیا ہے میں نے
تجھ کو دنیا میں الگ چھوڑ دیا ہے میں نے
جس کی ہیبت سے سبھی سہمے ہوئے رہتے ہیں
ایک تیر اس کی طرف چھوڑ دیا ہے میں نے
میں رہوں یا نہ رہوں تیرے مقابل آکر
تیری طاقت کا بھرم توڑدیا ہے میں نے
ڈال کر ہاتھ گریباں پہ اک ظالم کے
آج تاریخ کو ایک موڑ دیا ہے میں نے
میری تلوار کی زد میں مرا دشمن تھا مگر
یاد کچھ کرکے اسے چھوڑ دیا ہے میں نے
اس غزل میں عصری شعور کی گونج ہے اور اس میں جرات مندی اور پامردی کا جو جذبہ ہے، وہ قابل ستائش ہے۔ خلیجی جنگ کے پس منظر میں اس غزل کی تفہیم کئی زاویوں کو روشن کر سکتی ہے۔ غزل کا لہجہ اور اس کا آہنگ بھی اس کیفیت سے ہم آہنگ ہے جس سے مسلم دنیا دوچار ہے۔ تخلیقی جرات اور حوصلہ مندی کی یہ ایک نمایاں مثال ہے۔ غزل کے ہر ایک شعر میں ایک رجزیہ کیفیت، عنتری، مرحبی لہجہ ہے اور اس تخلیقی پیرہن سے بوئے اسد اللہی بھی آرہی ہے۔ ستم کی سیاہ رات میں سروں کے جلتے چراغ کا منظر اس غزل میں منور ہے۔ یہ ہم عصری صداقت کا جرات مندانہ اظہار ہے۔
سیاسی، عصری رمزیت سے بھر پور اس غزل کا سیاق و سباق ہر با شعور قاری پر فورا واضح ہو جاتا ہے۔ غزل کا ڈکشن اور اس کا ethosفیضاحمد فیض، مجروح اور ناظم حکمت کی یاددلاتا ہے۔
نسیم اختر
نسیم اختر کا وطنی تعلق تو اس شہر سے نہیں ہے مگر ان کا میدان عمل وہ شہر ہے، جس سے میری پہلی شناسائی ہوئی
عبادت خانہ ناقوسیاں است
ہمناں کعبہ ہندوستاں است
قیامت قامتاں مژگاں درازاں
ز مژگاں برصف خوں بندہ بازاں
بیاباں در بیاباں لالہ زارش
گلستاں در گلستاں نو بہارش
اس شہر میں پہلی بار میں نے دریادیکھا۔ نہایت وسیع اور وشال151151!
برسوں بعد نسیم اختر کی شاعری میں مجھے وہی دریا موجزن نظر آیا، جس کے طرز دلربائی اور جاں فزائی کے سحر میں اب تک گم ہوں۔ نسیم اختر کی شاعری اس گنگاسے وصال کا سبب بنی، جو میری آنکھوں میں جانے کب سے بہ رہی تھی۔
مجھے محسوس ہوا کہ گنگا کے گھاٹ کی جس سیڑھی پہ کبیر نے گیان پراپت کیاتھا، اس سیڑھی سے اس شاعری کا کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور ہے۔ اُس سیڑھی کی سرشاری اور سکر،اِس شاعری میں شامل ہے، تبھی تو نسیم اختر کے شعروں میں کبیر کی آتما کی سگندھ اور گنگا کا سوندریہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں گیان دھیان کی بڑی بڑی باتیں ہیں۔قونیہ کے مولانا رومی،یونان کے ایسوپ کی تمثیلی حکایات اور شیخ سعدی کے نصیحت آموز واقعات کی طرح اس میں بھی بڑی گہری اخلاقیات ہے۔ وہی صوفیانہ راگ، سہاگ اور آگہی کی آگ ہے جو صوفیوں، سنتوں کے دلوں میں روشن ہے۔ نسیم اختر نے اسی ’نروان جل‘ کی انگیٹھی میں اپنے احساس کو سلگایا ہے:
نہ ترانے کی اور نہ کہانی کی طرح
میری باتیں ہیں کسی سنت کی بانی کی طرح
میرے نغمے بھی ہیں پیغام محبت اختر
دیونانک کی طرح، شیخ جیلانی کی طرح
انہی ابرار واخیار کی طرح نسیم اختر کی محبت میں پوری دنیا شامل ہے۔ ان کی سوچ ایک Cosmic Citizenکی طرح ہے۔ ان کی دردمندی اور نظام اخلاقیات میں حافظ شیرازی کی فکر جلیل کا نور وجمال بھی ہے۔ حافظ شیرازی کہتے ہیں:
مباش در پئے آزار دہر چہ خواہی کن
کہ در شریعت ما غیر ازیں گناہے نیست
درخت دوستی بنشاں کہ کام دل ببار آرد
نہال دشمنی برکن کہ رنج بے شمار آرد
تونسیم اختر بھی کچھ اس طرح سے شبدوں کے چراغ جلاتے ہیں:
پھول سی باتوں سے بن جاتی ہیں بگڑی باتیں
یہ ضروری تو نہیں لفظوں میں نشتر رکھئے
جلائیں مل کے چلو یوں مسرتوں کے چراغ
کہ رہ نہ جائیں کسی در پہ بھی غموں کے چراغ
یہی تو وہ شاعری ہے جو تزکیہ نفس اور تطہیر جذبات کرتی ہے۔ ایسی شاعری میں وہ قوت تاثیر ہوتی ہے کہ دل کی دنیا بدلتے دیر نہیں لگتی۔ فوائد الفوائد میں مرقوم ہے کہ حضرت شیخ شرف الدین باخزری فرماتے تھے کہ میں خواجہ حکیم سنائی طیب اللہ ثراہ کے ایک قصیدے کا مسلمان کیا ہوا ہوں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جس شاعری میں داخلی جذبے کی آمیزش ہوتی ہے، وہ باطن کو مرتعش کردیتی ہے۔
نسیم اختر کی شاعری میں بھی ویسی ہی تاثیر ہے کہ اس میں حافظ کی حلاوت اور کبیر کی صبوحی شامل ہے۔ یہ شاعری منقذ من الضلال اور مسبعات عشر(وہ دس دُعائیں جو روزانہ سات بار پڑھی جاتی ہیں) کی طرح ڈھال ہے۔ اس شاعری کی آنکھوں میں وہ ’’اشک عنابی‘‘ بھی ہے جس کی ایک کلچرل ہسٹری ہے، اور وہ درد بھی، کائنات کے جگر کا درد، جس کا ایک قطرہ پہاڑوں پہ رکھ دیا جائے تو پہاڑ پگھل کرریزہ ریزہ ہوجائیں، ایک انسان یا تخلیق کار کا سینہ ہی ایسے درد کو سہار سکتا ہے۔ انسانی وجود کا یہی درد ہے جو قطرہ قطرہ دریا بن جاتاہے اور پھر اسی درد اور آگ کے دریا کو ڈوب کر پار کرنا ہوتاہے۔
نسیم اختر کی شاعری میں آگ کا یہی دریا ہے جسے اہل دل عشق کہتے ہیں اور عشق نہایت جلیل وجمیل ہوتاہے۔ ان کی شاعری میں اسی عشق کی آگ کا سہاگ ہے۔ انہی عشق لہروں سے ان کی شاعری کی تشکیل ہوئی ہے اور اسی سے ان کے لہجے کو شناخت ملی ہے۔ ایک دردمند، مدھم، معصوم لہجہ، دریا کے آب رواں کی طرح صاف، شفاف۔ ان کی سوچ کی شفافیت، خیال کی معصومیت اور لہجے کی محبوبیت، ان شعروں میں منور ہے:
برہمن کرتا ہے پوجا یہاں اور شیخ وضو
کس کو کب غیر سمجھتا ہے ہمارا دریا
موج قرآں بھی ہے گیتا کا دھارا بھی ہے
گاہے نانک کا ہے بانی کبھی گرجا دریا
یہی دریا، اپنے تلازمات کے ساتھ نسیم اختر کا فکری اور تخلیقی شناس نامہ ہے۔
دریا، جس طرح تازہ لہروں کے امتزاج سے رواں دواں ہے، اسی طرح نسیم اختر کی شاعری بھی تازہ لہروں کے ساتھ مسلسل سفر میں ہے۔ زندگی اور سماج کے چہرے سے لپٹی ہوئی، فسطائیت، تنگ نظری، انسانیت کشی اور تنگ نظری کی تاریک لہروں سے جہاں ان کی شاعری برسرپیکار ہے، وہیں زندگی کے ’’ریگ سوزاں‘‘ کو بھی انہوں نے اپنے تخلیقی اظہار میں شامل رکھاہے۔ سیلف اور سچویشن کے امتزاج سے ان کے تخلیقی بیانیہ کا دریا، اس انسانی وجود کے سمندر میں مدغم ہوگیاہے، جہاں بے کراں مسائل اور موجوں کا انبوہ ہے:
محافظ قتل کی خاطر ہمارے
یہاں ترشول خنجر بانٹتا ہے
اہل گجرات سے ملے ہو میاں!
ہاں! فسردہ مزار کی صورت
ہاں فلسطین کا بدن ہوں میں
ہاں وطن میں بھی بے وطن ہوں میں
پھر یزیدوں نے کاٹ لی گردن
پھر سے مقتل میں بے کفن ہوں میں
انہی عصری سفّاک لہروں سے ہمارا وجود لرزاں ہے۔ اور انہی سے کائنات کے مستقبل کو خطرہ درپیش ہے۔
ڈاکٹر نسیم اختر نے اپنی شاعری میں اس Pathosاور Passionکو پیش کیاہے جو انسانی وجود کا لازمہ ہیں۔
نسیم اختر سہل شعر کہتے ہیں، قاری کے شعور سے ان کے شعور کا مخاطبہ بآسانی ممکن ہے۔ ان کے لہجے کا جمال وکمال اکثر شعروں میں نہاں ہے۔ کبیر اور نظیر کے امتزاجی لہروں کا یہ ایک خوب صورت تخلیقی طنبورہ ہے۔
ان کے اسلوب کی طرح ان کا شعری کردار بھی پاکیزہ اور صاف ستھرا ہے۔ ان کے ہاں کامنی، کنہیا کے جذبوں کا مدھ ملن تو ہے مگر رمبھا، بھانومتی اور وروتھنی جیسی روپ وتی ماوک اداؤں والی اپسراؤں کا زہد شکن جذبہ نہیں ہے۔ یہ تمجید فضائل اور تندید بالرذائل کی شاعری ہے۔ اس میں نرگس، یاسمن، چمیلی،موگرا جوہی کی وہ خوشبو ہے جو انسانی روح کو معطر کرتی ہے۔ یہ شریں طلعت شاعری، ایسی ہے جیسے پانی میں آگ جل رہی ہو یا آگ میں پانی بہ رہا ہو151151!
نسیم اختر کی شاعری مثل دریاہے مگر اس میں وہ بنات البحر (سمندر کی بیٹیاں) نہیں ہیں جن کی خوش آوازی سے راستے بھول کر ملاح، موجوں میں مدغم ہوجاتے تھے بلکہ یہ توخواب گراں سے خیز کرنے والی شاعری ہے۔ یہ انسانی جذبوں کو بیدار اور حواس خمسہ میں ارتعاش پیدا کرنے والی شاعری ہے۔
نسیم اختر کے پاؤں یقیناًتحت الثریٰ میں ہیں مگر ان کے ارادوں کی چوٹی ثریا کو چھوتی ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ یہ گنگا جمال شاعری سات مقدّس دریاؤں کے سنسرگ سے زندہ وتابندہ رہے گی کہ برہما نے گنگا کو سداسہاگن کا وردان دیاہے اور یہ شاعری بھی تو گنگا کی طرح اپنے اندر تقدیسی شعور اور نسخہ نجات سموئے ہوئے ہے۔
سحر ہندوستانی
سحر ہندوستانی بنارس کے ایسے شاعر ہیں جو ہندی اور انگریزی ادبیات میں ڈاکٹریٹ یافتہ ہیں، اردو میں اچھی شاعری کرتے ہیں مگر نہ اردو لکھنا جانتے ہیں اور نہ ہی پڑھنا۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ’’حسرت کی نظر ‘’کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس پر عالمی رنگ ادب کتابی سلسلہ ۷۱۔ ۸۱ میں تبصرہ کرتے ہوئے شاعر علی شاعر نے لکھا ہے :
’’جدید تر علوم سے واقفیت رکھنے والا ایک شخص اردو شاعری کا نہ صرف دلدادہ ہے بلکہ اس کے اندر جمالیاتی ذوق کی فراوانی ہے اور وہ اردو میں شعر کہتا ہے۔ جبکہ وہ اردو پڑھ سکتا ہے اور نہ لکھ سکتا ہے۔ ۔ یہ حیرانی کی بات ضرور ہے مگر ممکنات میں شامل ہے کیونکہ دنیائے ادب میں بے شمار ایسے شعراء گزرے ہیں جو پڑھے لکھے نہیں تھے مگر شعروادب میں انہوں نے نہ صرف اپنا نام پیدا کیا بلکہ ایک منفرد مقام بھی بنایا۔ امی شعراء کے نام سے ایک ایک کتاب بھی مرتب ہو چکی ہے جس میں ایسے سینکڑوں شعراء کے نام شامل ہیں جو پڑھے لکھے نہیں تھے۔ مگر ہم سحر ہندوستانی کو امی شاعر نہیں کہیں گے کیونکہ وہ اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ بس انہیں اردو زبان لکھنا اور پڑھنا نہیں آتی۔ مگر ان کے اشعار میں نہ صرف اردو کا تاریخی پس منظر ملتا ہے بلکہ اردو زبان کا تہذیبی ارتقاء بھی نظر آتا ہے اور زبان کی چاشنی بھی۔ یہ شعر ملاحظہ کیجئے:
بس تمہاری وفا کے طلب گار ہیں
عشق ہوگا نہ کامل تمہارے بغیر
عالمی رنگ ادب کراچی
بنارس میں ایسے شاعروں کی تعداد رہی ہے جو امی تھے، فدا علی خنجر نے انجمن ترقی اردو ہند کے رسالہ اردو میں اردو کے ان پڑھ شعراء کے عنوان سے جو مضامین لکھے ہیں، ان میں شیخ سبحان علی طالب بنارسی اور کبیر داس بنارسی کے نام لکھے ہیں۔ طالب کا تذکرہ جنوری ۲۳۹۱ اور کبیر داس کا جولائی ۲۳۹۱ کے شمارے میں ہے۔
بنارس کے کچھ شعراء جن کے نام رسائل و جرائد کے وسیلے سے سامنے آئے ہیں ان میں سلام اللہ صدیقی بنارسی بھی ہیں جن کی نظم ترانہ اردو ہماری زبان یکم اگست ۶۴۹۱ میں شائع ہوئی ہے اور دوسرے شاعر عبد الرفیق زاہد بنارسی ہیں جن کی نظم ہماری زبان ۶۱ دسمبر ۵۴۹۱ میں دشمنان اردو سے خطاب کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ سید واجد علی فرخ بنارسی بھی قابل ذکر ہیں جن کی کتاب تجلیات فرخ پر رسالہ اردو جنوری ۲۳۹۱ میں تبصرہ چھپا ہے۔
علمی و فکری سطح پر بنارس کو جن شخصیات نے اعتبار و وقار عطا کیاان میں حافظ ابو محمد امام الدین رام نگری کا نام نمایاں ہے۔ انہوں نے نہ صرف عربی، ہندی، سنسکرت کا گیان حاصل کیا بلکہ ہندو ازم کا خاص طور پر مطالعہ کیا۔ سوامی دیانند سرسوتی کے اعتراضات کے جوابات لکھے اور اسلامی ساہتیہ سدن کی ہندی مطبوعات کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ کی۔ ان کا ایک اہم کارنامہ ’ہندی۔اردو شبدکوش‘ ہے جو شاید سب سے پہلا ہندی لغت ہے، جس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ’ہر طبقہ کی ضرورتوں کے مطابق پارلیمنٹری، دفتری، عدالتی، سیاسی، صنعتی، علمی، ادبی، تعلیمی، مذہبی، سائینٹیفک غرض تمام اصناف کے الفاظ موجود ہیں۔‘‘
یہاں نواب عنایت حسین خاں مہجور بنارسی کا ذکر بھی ضروری ہے جن کا تذکرہ ’مداح الشعرا‘ پاکستان سے افسر امروہوی نے اپنی تعلیقات اور مقدمہ کے ساتھ شائع کیا۔ بنارس کے قدیم تذکرہ نگاروں میں بنداربن داس خوشگو کا نام نہایت اہمیت کا حامل ہے جو بارہویں صدی کے اوائل کے ہیں۔ مرزا عبدالقادر بیدل، شیخ سعد اﷲ گلشن سے اکتساب فیض کا شرف حاصل ہے ان کا تذکرہ ’سفینہ خوشگو‘ تین جلدوں پر محیط ہے۔ یہ تذکرہ 1147ھ میں مکمل ہوا تھا۔
شمیم طارق
نئے موضوعاتی جزیروں کی جستجو شمیم طارق کا وصف خاص ہے۔ انہوں نے جن موضوعات کو مس کیا ہے ان پر لکھنے کے لیے گہرے علم و عرفان کی ضرورت پڑتی ہے۔ تقابلی مطالعے اور حوالے پر مشتمل تخلیقی اور تنقیدی مضامین کے مجموعہ ’تقابل اور تناظر‘ میں شامل لسانی دہشت گردی، شعر و ادب میں سریت کے نفوذ و اثرات، غزل میں سائنس کے اشارے، کلاسیکی غزل میں شہر جیسی تحریروں سے اس کی تائید و توثیق ہو سکتی ہے۔ اسی کتاب میں شبلی اور اقبال کا مشترکہ عطیہ بھی ایک ایسا مضمون ہے جس کی ستائش یوں بھی کی جانی چاہئے کہ شمیم طارق نے دونوں کے مابین تفاوت عمر کے باوجود بہت سی مشترکات ہیں۔ ان مماثلتوں میں بعض یہ ہیں:
(الف) دونوں کے جد اعلیٰ غیر مسلم تھے۔ شبلی راجپوت نسل سے تھے اور اقبال کشمیری برہمن۔ (ب) دونوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں تھی۔ شبلی نے دو شادیاں کیں اور اقبال نے تین بیویوں سے چار نکاح کئے۔۔۔ (ت) دونوں اپنے بڑے بیٹوں سے نالاں تھے۔ شبلی کے بڑے بیٹے حامد نے ناخوشگوار ماحول سے تنگ آکر ایک خانقاہ میں پناہ لی تھی۔ اقبال نے اپنے بڑے بیٹے آفتاب کو عاق کر دیا تھا۔
اور یہ کہ شبلی اور اقبال دونوں کی جمالیاتی حس بہت بیدار تھی۔ عطیہ کے لیے ان دونوں کے دلوں میں محبت کی جو چنگاری تھی‘ اس سے انکار ممکن نہیں۔
غالب اور ہماری تحریک آزادی، صوفیہ کی شعری بصیرت میں شری کرشن اور صوفیا کا بھگتی راگ ان کی اہم تصنیفات ہیں۔ آخر الذکر کتاب تو موضوعی اعتبار سے نہایت اہم ہے کہ تصوف اور بھگتی کا موضوع نیا تو نہیں ہے مگرمحنت اور مشقت طلب ضرور ہے۔ تصوف اور بھگتی کے تعلق سے مختلف تناظرات ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ کون سا تناظر صحیح ہے، اس کا تعین بھی دشوار ہے۔ یہ موضوع اس قدر ژولیدہ ہے کہ ذرا سی لغزش اسفل سافلین تک پہچادیتی ہے۔ ایسے موضوع پر قلم اٹھانے کے لئے حد درجہ حزم و احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لئے جنون، جدوجہد اور کڑی ریاضت درکار ہے۔
ادھر کچھ عرصے سے تصوف پر مطالعاتی سلسلے کا جو آغاز ہوا ہے اس سے کچھ گرہیں ضرور کھلی ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ تصوف کی بنیادی ماہیت اور مزاج کی تفہیم میں بہتوں سے لغزشیں بھی سر زد ہوئی ہیں۔ مستشرقین نے بھی تصوف کے تئیں خاصی دلچسپی دکھائی ہے اور کچھ نئے انکشافاف بھی کئے ہیں۔ ای اچہامر، ایم اسمتھ، تور آندرائی، آرہارٹ مان، ایم ہارٹن، اسکائڈر، ایچ ریٹر نکلسن اور دیگر مستشرقین نے تصوف کے منبع، مصدر، اور ماہیت بہت سی اہم باتیں تحریر کی ہیں تاہم مسئلہ تصوف اس قدر گہرے اسرار و رموز میں گتھا ہوا ہے کہ ایک سرا ہاتھ آتا ہے تو دوسرا چھوٹ جاتا ہے۔
شمیم طارق کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے تصوف کے موضوع پر مستند اور معتبر مصادر و مراجع سے رجوع کیا ہے اور مشرقی تصوف کے تمام تر پہلوؤں پر تدبر و تفکر کیا ہے اور تقابلی مطالعہ کی بنیاد پر نتائج کا استخراج کیا ہے۔ ان کے اندر وہ قیسیت اور فرہادیت ہے کہ وہ موضوع کے مالہ و ما علیہ کا کلی عرفان حاصل کرتے ہیں تب اپنے تصور یا فکر کی ایک مضبوط اساس تشکیل دیتے ہیں۔
سلسلہ تصوف اور بھگتی پر لکھے گئے ان مضامین سے بھی ان کی عرق ریزی اور محنت مترشح ہے۔ انہوں نے شیخ محمد غوث گوالیاری، مجدد الف ثانی، امام قشیری، شاہ ولی اللہ، جنید بغدادی، شیخ عبد القادر جیلانی، شیخ شہاب الدین سہر وردی، خواجہ بہاء الدین نقشبندی، شرف الدین یحیی منیری، شیخ عبد الواحد بلگرامی، فرید الدین عطار اور دیگر ارباب علم و تصوف کے حوالے سے تصوف کے مفہوم کو آئینہ کر دیا ہے، اس کی تشکیلی صورتوں اور اس کے مثبت پہلوؤں پر مبسوط روشنی ڈالی ہے۔
بھگتی :مزاج و پس منظرمیں انہوں نے مکمل آگہی اور عرفان کا ثبوت دیا ہے اور بھگتی کے مزاج کی تفہیم شریمد بھگوت گیتا، رامانج اچاریہ اور دیگر مفکرین کے حوالے سے کی ہے۔ بھگتی کال کے بارے میں بہت سی انکشافی معلومات بھی درج کی ہیں۔ کبیر، سرمد، کرشن، مرزا مظہر جان جاناں، تلسی داس، کے بارے میں وہ معلومات بہم پہچائی ہیں کہ ان کی علمیت پہ رشک آتا ہے۔ سرمد کے یہودی اور ملحد ہونے کی بات اور پھر ان کے عشق باطن کی کیفیت کا ادراک بھی کرایا ہے۔ کبیر کی ہندو بھگتی کے حوالے سے یہ معلومات بھی دلچسپ ہے کہ وہ حضرت تقی سہروردی کے خلیفہ تھے۔ اور حضرت ہیکا چشتی سے خرقہ خلافت حاصل کیا تھا۔ بھگتی کا باب بہت عالمانہ اور عارفانہ ہے۔ اس باب کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے تو ذہن کی بہت سی گرہیں کھل جائیں گی۔
تصوف اور بھگتی :مماثلت اور مغائرت میں انہوں نے بڑی دیدہ ریزی اور دقیقہ سنجی کے ساتھ دونوں پہلو تلاش کئے ہیں اور دونوں کے مابین ایک حد فاصل بھی قائم کیا ہے۔ جمع، جمع الجمع، اور عین الجمع کی کیفیات کے حوالے سے بھی روشنی ڈالی ہے۔ سکر اور صحو کی کیفیت کا بھی عرفان کرایا ہے۔ شطحیات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مجموعی طور پر اس انتہائی ادق مسئلہ پر بہت اچھی گفتگو کی ہے۔
صاحب سر شاہ محمد کاظم قلندر کے حوالے سے مولانا شاہ مجتبی حیدر قلندر کے مضامین بھی علم و معرفت کے باب وا کرتے ہیں۔
شمیم طارق کا مطالعہ وسیع ہے، انہوں نے ان موضوعات کو اپنی تحقیق کا مطاف بنایا ہے جن کے بارے میں ہمارے سہل طلب ناقدین اور تساہل پسند ادباء سوچ بھی نہیں سکتے۔
شمیم طارق اردو ادب کے وہ کوکب دری ہیں جس کی قدر مابعد کے زمانوں میں بھی ہوگی۔ شمیم طارق کا علمی انہماک، لگن اور مطالعہ بہتوں کے لئے قابل رشک ہے۔ اس علمی زوال کے دور میں شمیم طارق کا دم غنیمت ہے بالخصوص اردو زبان جس زوال کی گھڑی میں ہے اس میں شمیم طارق جیسے جید عالم، فاضل ادیب لبیب کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
یونس غازی
اونچی حویلیوں میں بھی ہیں بے قرار لوگ
اور دولت سکون مری جھونپڑی میں ہے
شاید اشکوں میں آگ بہتی ہے
میرے چہرے کے آبلے دیکھو
یہاں سے گزرے گا کیسے بچا کے سر کوئی
ہر ایک ہاتھ میں پتھر دکھائی دیتا ہے
سرشار ان کی یاد سے غازی ہے دل مرا
صحرا کو پر بہار کئے جا رہا ہوں میں
صحرا کو پر بہار بنانے والے اس شاعر کا تعلق بھی بنارس کے موضع نودر سے ہے۔ جن کا میدان عمل اب میرٹھ ہے :
ہے میرٹھ شہر جو علم و ادب کا گہوارہ
جناب غازی اسی مستقر میں رہتے ہیں
لمحات ان کا شعری مجموعہ ہے جس میں وہ ماضی کی آہٹوں اور حال کی اشارتوں کے ساتھ ذہنوں پر دستک دیتے نظر آتے ہیں۔
بھوکے بچوں نے سمندر رو دیا اور سو گئے
ہاں مگر چہرے پہ ماں کے درد کی لہریں ملیں
وہ خشک پھول دیکھ کے یاد آگیا کوئی
ماضی نے جس کو رکھا تھا میری کتاب میں
اس دور الم خیز میں سچ بولنے والے
تونے ابھی شاید در زنداں نہیں دیکھا
ان کو بھولے ہوئے زمانہ ہوا
پھر یہ پہلو میں درد سا کیا ہے
بھول جاتے اپنی صناعی کا وہ سارا ہنر
اس بت کافر کو گر اک بار آزر دیکھتے
اساتذہ کے زمین شعر میں گل کھلانے والے غازی کے یہاں فکری اور لسانی سطح پر جدتیں بھی نمایاں ہیں۔
ہر گل کو چومتا ہوں بصد شوق بار بار
یوں شغل وصل یار کئے جا رہا ہوں میں
شاعری ان کی داخلی شخصیت کا اظہار ہے تو تحقیق ان کے فاعلی عنصر کا شناس نامہ ہے۔انجمن ترقی اردو ہند تاریخ اور خدمات (۷۴۹۱ تک )ان کی اہم تحقیقی کتاب ہے جو کتابوں کی بھیڑ میں اپنی امتیازی شناخت کے ساتھ نمایاں نظر آتی ہے۔ کتاب کی سطروں سے محنت شاقہ مترشح ہے۔ اپنی تلاش اور جستجو سے اس منزل تک رسائی حاصل کی ہے جو تحقیق کا مطلوب و مقصود ہے۔ یہ ایک دشوار گزار راہ تھی۔ جس میں لہو لہان ہوئے بغیر قدم بڑھانا ناممکن تھا۔ مگر یہ آبلہ پا وادی پرخار سے گل افشانی میں کامیاب رہا۔ صعوبتوں کا یہ سفر کیسے طے ہوا، اس کی بابت یونس غازی خود لکھتے ہیں :
’’کسی انجمن کی کار گزاری کی روداد مرتب کرنا آسان بھی ہے اور دشوار بھی۔ اگر انجمن کا اپنا کوئی مستحکم دفتر ہوتا اور سارے ریکارڈ کہیں ایک جگہ محفوظ ہوتے تو یہ کام سہل سے سہل تر ہو جاتا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ صورت حال برعکس ہے۔ ایک طرف انجمن کی کار گزاریوں کا دائرہ نصف صدی کو محیط ہے اور دوسری جانب اس کی تفصیلات منتشر اور پراگندہ ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ میں نے جب کام کا آغاز کیا تو مجھے دریا کی گہرائیوں کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ لیکن جب کشتی موجوں کے حوالے کی تو سمجھ میں آیا کہ کشتی کا ساحل تک پہنچنا کچھ آسان نہیں تاہم میں مایوس و دل شکستہ نہیں ہوا بلکہ امنگوں اور حوصلوں کے سائے میں سفر کا آغاز کیا ’’
یونس غازی نے اس تحقیقی کتاب میں انجمن کی تاریخ، مطبوعات اور اخبار ہماری زبان کے حوالے سے جو معلومات فراہم کی ہیں وہ بیش قیمت ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کی ترویج و توسیع کیلئے ہمارے اکابر نے کتنی جدو جہد کی ہے اور اردو کے علمی سرمایہ میں گراں قدراضافہ کیا ہے۔ ان کی کوششیں نہ ہوتیں تو اردو ایک سمٹی اور سکڑی ہوئی زبان ہوتی۔ انجمن ترقی اردو کی وجہ سے اردو کا رشتہ مختلف علوم و فنون سے جڑا۔ دوسری زبانوں کا اہم علمی و ثقافتی سرمایہ اردو میں منتقل ہوا۔ بالخصوص سائنسی علوم کے جو ترجمے ہوئے، اس سے اردو کا ایک بڑا طبقہ مستفید ہوا۔ طبیعات، طبقات الارض، کیمیا، حیوانات، ریاضیات پر باضابطہ اردو میں کتابیں مرتب کی گئیں۔ مولوی مرزا مہدی خاں کوکب کی مقدمات الطبیعات، طبقات الارض، محمد یوسف صدیقی کا رسالہ علم نباتات، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کی اضافیت، داستان ریاضی، ابرار حسین قادری کی فرہنگ اصطلاحات جغرافیہ اور رضی الدین صدیقی، اکبر علی کی فرہنگ اصطلاحات علم فلکیات ایسی کتابیں ہیں جو سائنس کے جملہ جہات اور زاویوں سے روشناس کراتی ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ فلسفہ، نفسیات، معاشیات پر بھی انجمن نے نہایت مفید کتابیں شائع کی ہیں۔ مشاہیر یونان و رومہ (سید ہاشمی فرید آبادی)علم المعیشت ( محمد الیاس برنی )تاریخ ملل قدیمہ (سید محمود اعظم فہمی )۔ انجمن کا ایک بڑا کارنامہ ان تذکروں کی اشاعت بھی ہے جن سے اردو ادب کی تاریخ کی تدوین میں بڑی مدد ملی، ایسے تذکروں میں نکات الشعراء(میر تقی میر مرتبہ مولانا حبیب الرحمن خان شروانی )تذکرہ شعرائے اردو (میر حسن دہلوی ) تذکرہ ہندی ( غلام ہمدانی مصحفی )مخزن شعراء یعنی تذکرہ شعراء گجرات (قاضی نور الدین حسین خاں رضوی فائق )تذکرہ گلزار ابراہیم ( علی ابراہیم خاں خلیل، مرزا علی لطف )تذکرہ ریختہ گویاں (سید فتح علی حسینی گر ویزی ) ریاض الفصحاء (غلام ہمدانی مصحفی ) عقد ثریا (مصحفی) گل عجائب (اسد علی خان تمنا ) چمنستان شعراء ( رائے لچھمی نراین شفیق ) مخزن نکات ( شیخ محمد قیام الدین قائم ) قابل ذکر ہیں۔ مختلف ادبیات، موضوعات پر محیط انجمن کی مطبوعات سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ انجمن کس قدر متحرک اور مستعد تھی اور اس نے تاسیسی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے موانع کی پرواہ نہیں کی۔ مطبوعات کی سطح پر انجمن کی اہمیت اور معنویت کا ادراک بھی یونس صاحب کی اسی کتاب سے ہوا کہ انہوں نے بڑی محنت سے دستیاب مطبوعات کی پوری تفصیل درج کردی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام عرق ریزی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ اور یہی محنت دیگر ابواب میں بھی نظر آتی ہے۔ خاص طور پر انجمن کے تین رسالوں اردو، سائنس اور معاشیات کی فہرست سازی میں ان کی ریاضت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
انجمن ترقی اردو ہند کے رسالہ اردو کا پہلا شمارہ تعویق کی وجہ سے اکتوبر ۰۲۹۱ کے بجائے جنوری ۱۲۹۱ میں شائع ہوا اور پہلے ہی شمارے سے اس نے اپنی جو منفرد شناخت قائم کی، اس کی نظیر ادبی مجلاتی صحافت میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین اتنے بلند پایہ ہوتے تھے کہ مولوی غلام ربانی نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ’’ہندوستان کا تو ذکر کیا ہے یورپ اور امریکہ میں بھی بہت کم رسالے ہیں جن کا معیار اتنا بلند اور مذاق اتنا پاکیزہ ہو جیسا اردو کا ہے ‘‘رسالہ اردو نے ہمیشہ اہم گوشے ہی روشن کئے خاص طور پر بعض سلسلہ مضامین تو نہایت مفید اور معلوماتی تھے۔ اس ذیل میں مرزا فدا علی خنجر کے مضامین ’’اردو کے ان پڑھ شعراء‘‘قابل ذکر ہے۔ منظوم و منثور تخلیقات اور تبصرے اتنے جامع ہوتے تھے کہ آج کے رسائل نہایت پھیکے نظر آنے لگتے ہیں اور یہ خیال بھی سر اٹھانے لگتا ہے کہ آجکل کے نئے مضامین کے بجائے رسالہ اردو کے مقالات بازدید کے طور پر شائع کئے جائیں تو آگہی میں تخفیف اور گمرہی کے بجائے معلومات میں اضافہ ہی ہو گا۔ موضوعاتی ترتیب کے اعتبار سے رسالہ اردو کا انتخاب شائع ہوجائے تو اردو کے طلباء کے لئے مفید ثابت ہوگا۔ ڈاکٹر یونس نے مشتملات کی فہرست پیش کرکے رسالہ اردو میں موجود خزینے سے نہ صرف واقف کرادیا ہے بلکہ یہ احساس کرادیا ہے کہ آج کے رسالوں کی حیثیت کشکول سے زیادہ نہیں ہے۔
انجمن کا دائرہ صرف ادبیات تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس نے سائنس سے بھی اردو کا رشتہ جوڑ دیا۔ اور اس رشتہ کی مضبوط شکل سہ ماہی سائنس کی صورت میں سامنے آئی۔جس کا پہلا شمارہ ڈاکٹر مظفر الدین قریشی صدر شعبہ کیمیا جامعہ عثمانیہ کی ادارت میں جنوری ۸۲۹۱ میں شائع ہوا۔ اس میں نہایت اعلی پائے کے سائنسی مضامین کی شمولیت ہوتی تھی۔ ڈاکٹر یونس نے ان مضامین کی فہرست درج کی ہے۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سائنسی علوم کا کوئی بھی زاویہ ایسا نہیں ہے جس کا احاطہ کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ سائنسی رسائل آج بھی نکل رہے ہیں، مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔
انجمن نے جنوری ۶۴۹۱ میں طفیل احمد خاں کی ادارت میں رسالہ معاشیات بھی شائع کیا جس کی مجلس نظارت میں ماہرین معاشیات کے علاوہ دیگر اہم شخصیات شامل تھیں۔ اس میں معیشت سے متعلق گراں قدر تحریریں اور تبصرے شائع ہوتے تھے
انجمن نے اپنے دائرہ کار کو وسعت دیتے ہوئے ہماری زبان کے نام سے پندرہ روزہ اخبار یکم اپریل ۹۳۹۱ سے ریاض الحسن کی ادارت میں جاری کیا۔ بعد میں اس کی ادارت سے رفیق الدین اور پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی وابستہ رہے۔ ڈاکٹر یونس نے اس اخبار کے مضامین کی بھی فہرست سازی کی ہے جو یقیناًدشوار طلب کام تھا۔
ڈاکٹر یونس نے اس انجمن ترقی اردو ہند کی ۵۴ سالہ تاریخ کا پورا منظرنامہ ہماری آنکھوں کے روبرو کردیا ہے۔ جس کا قیام ۴ جنوری ۳۰۹۱ میں عمل میں آیا تھا، جس کے پہلے صدر پروفیسر ٹامس آرنلڈ (۹۱ اپریل ۴۶۸۱۔۰۱ جون ۰۳۹۱ ) اور سکریٹری مولوی محمد شبلی نعمانی (۷۵۸۱۔۴۱۹۱) تھے بعد میں ڈبلیو بیل، نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی (۴۴۸۱۔۶۲۹۱)سرسید راس مسعود جنگ بہادر (۵۱ فروری ۹۸۸۱۔۰۳ جولائی ۷۳۹۱)سر تیج بہادر سپرو (۲۷۸۱۔ ۹۴۹۱)جیسے عمائدین بحیثیت صدور، مولوی نذیر احمد (۶ دسمبر ۱۳۸۱۔ ۲۱۹۱ )مولوی ذکا ء اللہ ( یکم اپریل ۲۳۸۱۔ ۷نومبر ۰۱۹۱ )مولانا الطاف حسین حالی ( ۷۳۸۱۔ ۴۱۹۱ )نائب صدور، مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی (۵ جنوری ۶۴۸۱۔ ۱۱اگست ۰۵۹۱ )مولوی عزیز مرزا ( ۴۶۸۱۔۲۱۹۱) اور۔ مولوی عبد الحق (۰۲اگست ۰۷۸۱۔۶۱ اگست ۱۶۹۱)اس کے معتمد رہے جن کے زمانے میں انجمن نے خوب ترقی کی۔ انجمن کے دور کمال کی یہ وہ تصویر ہے جو ہمیں حالیہ زوال پر آنسو بہانے کے لئے مجبور کر رہی ہے۔ ماضی اور حال کا موازنہ کرتے ہوئے بس ایک شعر ذہن میں آتا ہے :
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
ہوگئے خاک انتہا یہ ہے
بنارس کا صحافتی افق
یہاں صحافت کا افق بھی درخشاں رہا ہے۔ ۷۳۸۱ میں پادری شرسن کی ادارت میں خیر خواہ ہند شائع ہوتا تھا۔ ۹۴۸۱ میں ہربنس لال کی ادارت میں مراۃ العلوم نکلتا تھا۔ راجہ شو پرشاد ستارہ ہند کا بنارس اخبار دیو ناگری میں چھپتا تھا مگر اس کی خوبی یہ تھی کہ الفاظ فارسی کے ہوتے تھے اور اس کے پیچھے مدیر کی منطق بحوالہ مانک ٹالا یہ تھی کہ ’ راجہ کے خیال میں ’ہندی ایک گنوارو زبان تھی اور اسے زیادہ شائستہ بنانے کے لئے عربی، فارسی الفاظ کے دخول کی ضرورت تھی ‘’(پریم چند کا سیکولر کردار اور دیگر مضامین ص ۶۱۲)
ہفت روزہ آواز خلق بھی بنارس کا اخبار تھا،جس میں پریم چند کا ناول’اسرار معابد‘8 اکتوبر1903 سے یکم فروری1905 تک قسط وار چھپتا رہا۔
جاگرن ونود شنکر ویاس کا پندرہ روزہ اخبار تھا جسے پریم چند نے ہفت روزہ کی شکل میں نکالا۔ ۲۲اگست ۲۳۹۱ میں اس کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ ہنس کا بھی نقطہ آغاز بنارس ہی ہے۔ ’آفتاب ہند‘ بابو کاشی داس مشر کا رسالہ تھا۔ ایک رسالہ اضطراب بھی نکلتا تھا جس کے جولائی اگست 1941 کے مشترکہ شمارے پر رسالہ اردو اکتوبر 1941 میں تبصرہ شائع ہوئے۔ قومی مورچہ اور آواز ملک یہاں کے اہم اخبارات ہیں۔
قومی مورچہ بنارس کا مشہور و مقبول اخبار ہے جس کی ادارت سے تاج الدین اشعر رام نگری جیسی علمی، ادبی شخصیت وابستہ رہی ہے، جو صاحب نظر صحافی کے علاوہ صاحب سوز شاعر بھی ہیں، جن کے کئے شعری مجموعے شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں اور صاحبان علم و دانش نے ان کی ستائش بھی کی ہے۔ نالہ ساز (1972)، متاع عقیدت (1997)، موج نسیم حجاز (2009) ان کے مجموعے ہیں۔ ان کے تعارف کے لیے پروفیسر ایم اے حفیظ بنارسی مرحوم سابق صدر شعبہ انگریزی مہاراجہ کالج آگرہ کی یہ سطریں زیادہ موزوں ہوں گی۔ اشعر کی تخلیقی شخصیت کے پس منظر کو جاننا بھی ضروری ہے:
’’تاج الدین اشعر رام نگری بنارس کے اس خاندان کے چشم و چراغ ہیں جو ایک عرصہ دراز سے جہاں ایک طرف علم دین کی تبلیغ و اشاعت میں سرگرم عمل ہے وہیں شعر و سخن اور ادب و صحافت کی بھی گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ جناب اشعر، حضرت مولانا ابومحمد امام الدین رام نگری کے صاحبزادے، آسی رام نگری کے بھتیجے اور شاہد رام نگری کے برادر خورد ہیں۔ یہ تمام حضرات علمی، ادبی دنیا میں اس قدر مشہور و معروف ہیں کہ ان کے متعلق کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گا۔‘‘
نعت گوئی جیسی مشکل صنف سخن میں اشعر نے اپنے تخلیقی جوہر دکھائے ہیں۔ چند نعتیہ اشعار سے ان کی فکری طلعت اور اظہاری ندرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
دکھوں کی ماری ہوئی خستہ آدمیت کو
نوید امن و سکون و سلام آپ کا نام
غموں کی دھند میں امید کی چمکتی کرن
بشارت دل ناشاد کام آپ کا نام
سواد لشکر شب سے میں ڈر رہا تھا معاً
چمک اٹھا سر سیمائے شام آپ کا نام
فتح مبین کا نہیں کثرت پہ انحصار
اس کا ثبوت بدر کے میدان سے ملا
ہے بزم تصور میں ضیا بار وہ ہستی
آنکھوں نے جمال رخ انور نہیں دیکھا
ادبی مجلاتی صحافت میں نئی صدی، تحریک ادب اور سبق اردو بھدوئی، سابق ضلع بنارس کے نام لئے جا سکتے ہیں۔
نئی صدی نے عارف ہندی کی ادارت میں جہاں نئی بلندیاں طے کی ہیں وہیں جاوید انور نے تحریک ادب کو اپنی مسلسل محنت سے نیا تحرک بخشا ہے۔ دانش الہ آبادی نے ’سبق اردو‘ کو نئی شناخت عطا کی ہے۔ پہلے یہ رسالہ جدیدیت کے زیر سایہ تھا مگر اب تحویل قبلہ کر کے مابعد جدیدیت کی آغوش میں چلا گیا ہے۔ یہ تمام رسالے ادب کے نئے مسائل و موضوعات کے ذریعہ قاری کے دلوں میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ بنارس جیسی سرزمین میں جو ادبی جمود و تعطل تھا ان رسالوں کی وجہ سے وہ ٹوٹا ہے اور بنارس صحافتی منظرنامے پر اپنی تخلیقی رعنائیاں بکھیرنے میں اب کامیاب نظر آتا ہے۔
بنارس میں جانے کیسی مقناطیسی کشش تھی کہ علی حزیں کی طرح بہتوں نے اس کو اپنی کرم بھومی بنایا اور یہاں کی شام و سحر سے اپنے قلب و نظر کا رشتہ جوڑا ایسی شخصیتوں میں منشی غلام غوث بے خبر بھی تھے جو مرزا غالب کے دوستوں میں تھے۔ فغان بے خبر اور خوننابہ جگر جن کی اہم تصنیفات میں سے ہیں۔ رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ ’’یہ اپنے والدین کے ساتھ بہت کمسنی میں، جبکہ ان کی عمر چار برس کی تھی، بنارس آئے۔‘‘
تذکرہ گلزار ابراہیم کے مصنف نواب علی ابراہیم خاں خلیل اسی شہر میں جج کے منصب پر فائز تھے۔ حیدر بخش حیدری کی پرورش بھی اسی شہر میں ہوئی، جنہوں نے ’’قصہ مہر و ماہ‘‘ لکھا۔
’فسانہ عجائب‘ والے رجب علی بیگ سرور مہاراجہ ایشور پرساد نارائن سنگھ کی طلبی پر بنارس آئے اور یہیں شبستان سرور، فسانہ عبرت، گلزار سرور (فارسی کتاب حدائق العشاق) جیسی کتابیں لکھیں اور بنارس ہی میں 1867 میں فاطمان میں دفن ہوئے۔
بنارس وہ شہر ہے جس کی عظمتوں کو مثنویوں اور فلموں کی شکل میں بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ غالب نے چراغ دیر، لالہ متن لال آفریں نے کاشی استت اور ہدایت نے طویل مثنوی لکھی۔
Banaras A Mystic Love story کے نام سے ایک فلم بھی بنائی گئی جس میں ارملا ماتونڈکر نے ایک مالدار برہمن والدین کی بیٹی کا کردار ادا کیا ہے جو نچلی ذات کے ایک لڑکے کی محبت میں گرفتار ہے۔
Cell : 9873747593
[email protected]
ہلال احمد سلفی؍ایڈیٹرماہنامہ ’الاتحاد‘ممبئی
مسلمان کا ایمان اور عقیدہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ خاتم النبیین ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والاہے۔اللہ اور رسول نے خود اس کی خبردی ہے اس لیے یقین جازم ہے کہ اب اگر کوئی شخص نبوت کادعویٰ کرتا ہے تووہ اپنے دعوی میں جھوٹا اورکذاب ہے،اس کے برخلاف اگر کوئی شخص نبی کی آمد کا عقیدہ رکھتا ہے تو بلا تردد وہ مشرک اور کافر ہے۔اللہ نے آپ کوخاتم النبیین بناکر بھیجا،سرورکائنات کویہ اعزاز وامتیاز اور عظمت وشوکت اللہ تعالی کا خصوصی عطیہ ہے فرمایا:’’محمدﷺ تم میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اورسب سے آخری نبی ہیں‘‘ (سورۃ الاحزاب:۴۰)۔اللہ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایا’’أنا خاتم الأنبیاء‘‘ترجمہ:میں سب سے آخری نبی ہوں(بخاری: ۳۵۳۵،مسلم: ۲۲۸۶.)دوسری جگہ فرمایا’’لانبی بعدی‘‘میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والاہے(بخاری:۳۴۵۵،مسلم:۱۸۴۲)ختم نبوت کاعقیدہ مسلمانوں کے تمام مسالک رکھتے ہیں،اسی وجہ سے جب مرزاغلام احمدقادیانی نے انگریز حکمرانوں کی ایماء پر نبوت کا دعوی کیا اور اپنے معتقدین کو اس کی جانب دعوت بھی دی توہندوستان میں موجود تمام مسالک کے علماء کرام نے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر اس کے خلاف آواز بلندکی اور عوام کو اس کے فتنہ سے آگاہ کیا،کیونکہ اللہ کے رسول ﷺکی ذات پر اس کااثر پڑتاہے اورامت محمدیہ کے آخری امت ہونے پر حرف آتاہے۔اللہ کے رسول ﷺکاارشادہے:’’:میری امت میں تیس جھوٹے نبوت کے دعویدار پید ا ہوں گے وہ خود نبی ہونے کاگمان کریں گے اورجان لو!کہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا‘‘(مسلم)
’’ہندوستان میں تحریک ختم نبوت اس وقت شروع ہوئی جب مرزاقادیانی نے مسیح یعنی ایک نبی ہونے کادعوی کیا،یہ جنوری۱۸۹۱ء کی بات ہے۔ اس سے پہلے اس کادعوی ایک مصنف، ایک مناظراسلام ، ایک پیرطریقت ، ایک مجدد، ایک صاحب الہام اور ایک امام ہونے کاتھا۔تحریک ختم نبوت کے آغاز کرنے کاسہراشیخ الاسلام محمدحسین بٹالوی ؒ کے سرجاتاہے ، جنہوں نے ۳۱؍جنوری ۱۸۹۱ء کولاہورکی چینیانوالی مسجد سے مرزاقادیانی کویہ خط لکھا،آپ کارسالہ امرتسر میں چھپ رہاتھا کہ میں اتفاقاًامرتسرپہنچا۔ میں نے اس رسالہ کاپروف مطبع ریاض ہندسے منگواکردیکھااور پڑھواکرسنا۔ اس رسالہ کے دیکھنے اور سننے سے مجھے یہ سمجھ آیاکہ آپ نے اس میں یہ دعوی کیاہے کہ مسیح موعود جس کے قیامت سے پہلے آنے کاخداتعالی نے اپنے کلام میں اشارۃً اوررسول اللہ ﷺ نے اپنے کلام مبارک میں صراحۃًوعدہ دیاوہ آپ ہی ہیں جومسیح ابن مریم کہلاتے ہیں ۔ اگراس دعوی سے کچھ اورمراد ہے تواس کی توضیح کریں۔
مرزاقادیانی نے ۵؍فروری ۱۸۹۱ء کوا س کے جواب میں لکھاکہ آپ کے استفسار کے جواب میں صرف ’’ہاں‘‘کافی سمجھتا ہوں۔
جواباًمولانامحمدحسین ؒ نے مرزاقادیانی کولکھا:’مجھے کمال افسوس ہے کہ مجھے آپ کے اس دعوی کا’’مسیح موعودہوں‘‘ خلاف مشتہر کرناپڑا۔ اس الہام کوآپ خداتعالی کی طرف سے سمجھتے ہیں توخداکی جناب میں دعاکریں کہ مجھے اس خلاف سے روکے۔‘
یہ تحریک ختم نبوت کاآغازہے،پھر ۳۱؍دسمبر۱۸۹۲ء میں ایک خط قادیان سے مرزاقادیانی نے مولانا محمدحسین بٹالوی ؒ کولکھا:
’میں افسوس سے لکھتاہوں کہ میں آپ کے فتویٰ تکفیر کی وجہ سے جس کایقینی نتیجہ احدالفریقین کاکافرہوناہے، اس خط میں سلام مسنون یعنی السلام علیکم سے ابتداء نہیں کرسکا۔‘ یعنی جوفتوی تم نے دے دیاہے اس کی وجہ سے یامیں کافرہوں یاتم۔‘‘ (اختصارمن ترجمان اہل حدیث:۲۶؍جنوری تایکم فروری ۲۰۱۸ء)
اس اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ نبوت کادعوی مرزاغلام احمدقادیانی نے جنوری ۱۸۹۱ء میں کیاتھااور اس کے خلاف کفر کافتوی بھی اسی وقت لگایاگیاجب اس کے مدعی نبوت کاعلم علماء کرام کوہوا۔اس تاریخی حقیقت سے یہ بات پتاچلتی ہے کہ قادیانیت کے خلاف سب سے پہلے فتویٰ شیخ الکل فی الکل سیدنذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے دیااور ہراول دستے کی نگرانی علامہ محمدحسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ نے کی۔تحریک ختم نبوت کی مفصل اور جامع تاریخ جمع کررہے ہیں جس میں تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں علماء کی کاوشوں اور ان کے کارناموں احسن اندازمیں ذکرکررہے ۔ڈاکٹرصاحب فی الحال برطانیہ میں مقیم ہیں اور برصغیرمیں آج سے ایک صدی قبل پیش آئے اس واقعے کو بڑی عرق ریزی اور دیانت داری کے ساتھ حوالۂ قرطاس کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے تحریک ختم نبوت پر اب تک ۵۵؍ہزارسے زائد صفحات ۷۵؍ضخیم جلدوں کامواد جمع کرلیاہے ،جس کی ۳۸؍جلدیں منظر عام آچکی ہیں۔یہ ایک مکمل اورجامع انسائیکلوپیڈیاہے جس سے دنیاکو حقائق سے متعارف کروانے میں مددملے گی۔ختم نبوت کے سلسلے میں یہ ایک فریضہ ہے جس کو تن تنہادیوانہ وار وہ ایک مرد مجاہددیارغیر میں بحسن وخوبی اداکررہاہے جس کے لیے مسلمانوں کو ان کاممنو ن ہونی چاہیے کہ قحط الرجال کے دورمیں ایسا دقیق کام انگریزوں کے سینے میں بیٹھ کرکررہے ہیں کہ جس فتنہ کوانہیں کی ایماء پر متحدہ ہندوستان میں بویاگیااور جس کی شجرکاری وآبیاری میں انگریزوں ہی کاپورا ہاتھ تھایہ بندہ اس کی بیخ کنی میں لگاہوا ہے۔کمال کی بات تویہ ہے ڈاکٹرصاحب اپنے ہی صرفے سے کتابیں شائع کرتے ہیں جس میں جمعیت وجماعت کاکوئی عمل دخل نہیں ہے۔ڈاکٹر صاحب نے تاریخی حقائق کوبیان کرنے میں مسلکی تعصب سے کام نہیں لیاہے بلکہ وسیع القلبی کامظاہرہ کرتے ہوئے اس دورکے بزرگان کی خدمات کو بہترین اسلوب میں ذکرکیاہے، جن میں مولاناغلام دستگیرقصوری،مولانارشیداحمدگنگوہی، مولانامحمدلدھیانوی،مولانا محمودحسن دیوبندی، مولانااحمدرضاخان بریلوی ، مولاناانورشاہ کاشمیری رحمہم اللہ وغیرہ بطورخاص شامل ہیں۔مجھے لگتاہے تمام مکتب فکر کو ان کی کتابوں کو پڑھنی چاہیے تاکہ حقیقت حال کا اندازہ ہوکہ کس عرق ریزی اور کوہ کنی کے ذریعہ تحفظ ختم نبوت کے فریضہ کو اسلاف نے انجام دیاہے۔ ان کی کتابوں کو لائبریریوں کی زینت بنانی نہایت ضروری ہے کیونکہ یہ ہماری دستاویز ہے۔
ابتدائی حالات:
محرردافع وجرنیل تحریک ختم نبوت ،مؤرخ اہلحدیث، محسن ملت ڈاکٹر محمدبہاء الدین حفظہ اللہ کاشمار عصر حاضر کے نامورقلمکاروں میں ہوتاہے ۔ پروفیسرڈاکٹرمحمدبہاء الدین کااصل نام ڈاکٹرمحمدسلیمان اظہربن محمدعبداللہ ہے جواپنے قلمی نام محمدبہاء الدین سے معروف ومشہورہیں،انہوں نے اپنی تصنیف وتالیف کے ذریعہ تاریخ اسلام کو دنیاکے سامنے پیش کیاہے۔ ضعیف العمری اورپیرانہ سالی کے باوجود عزم عالی رکھتے ہیں ،گفتگومیں الفت ومحبت کے موتی پروتے ہیں ۔ آپ نے بابائے تبلیغ مولانامحمد عبداللہ گورداسپوری رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں آنکھ کھولی،جومولانا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد اور فاتح قادیان شیخ الاسلام مولاناثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ سے فیض یافتہ تھے۔ماحول ومعاشرہ اسلامی ہونے کی بنا پر بچپن ہی سے اسلام کی محبت آپ کے دل میں موجزن ہوگئی۔آزادی سے چندعرصہ قبل ۱۹۴۷ء میں متحدہ ہندوستان کے دھاریوال ضلع گورداسپورپنجاب کے ایک گاؤں وڑائچ میں پیداہوئے۔پھرکچھ عرصہ رائے ونڈمیں رہنے کے بعد بورے والاضلع ملتان میں مستقل قیام پذیرہوگئے۔ بورے والا( جو اب ضلع وہاڑی) ہے میں حلم وشعورکی آنکھیں کھولی اوروہیں سے کسب علم کاسلسلہ شروع کیا۔
تعلیمی اسفار:
محسن ملت ڈاکٹرمحمدبہاء الدین حفظہ اللہ نے ناظرہ قرآن قاری خدابخش سہارپوری سے پڑھا۔اس کے بعد صرف ونحو، قرآن مجیدکاترجمہ، بلوغ المرام ،مشکوٰۃ اوردیگر اسلامی وابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی بابائے تبلیغ مولانامحمد عبداللہ گورداسپوری رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ دینی وعصری تعلیم کے مراحل ایک ساتھ مکمل کیے ۔بورے والاڈگری کالج میں ۱۹۶۸ء میں فرسٹ پوزیشن لاکر گولڈ میڈل کے حقدارہوئے۔پنجاب یونیورسٹی میں دوسال پڑھ کر علوم اسلامیہ میں ایم اے مکمل کیا۔چنانچہ دینیات میں یونیورسٹی ٹاپ کرکے یونیورسٹی سطح کے گولڈ میڈل کو اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔پنجاب یونیورسٹی میں ہی ایک سال عربی کاکورس مکمل کرکے پہلی پوزیشن حاصل کی اور ڈبل ایم اے ہوگئے۔ ۱۹۸۳ء میں برطانیہ کے اڈنبرایونیورسٹی اسکاٹ لینڈسے آپ کو پی ایچ ڈی کے ڈگری تفویض کی گئی۔لیسٹر یونیورسٹی سے ۱۹۹۰ء کے دہے میں سوشل ورک میں ایم اے کیا۔
تصنیف وتالیف:
آپ کی تصنیف کردہ ’’تحریک ختم نبوت‘‘ اور’’ تاریخ اہل حدیث ‘‘قاموسی انداز کے کام کو دیکھیں تو حیرت و استعجاب میں اضافہ ہوتا ہے کہ کوئی انسان تن تنہا بھی ایسا اور اتنا بڑا کام کر سکتا ہے جس کے لئے انجمنیں، ادارے اور اکیڈمیاں قائم کی جاتی ہیں !!آپ ایک اچھے قلمکاراور محقق ہیں ،علمی وتحقیقی مضامین معروف ومشاہیرجرائدو مجلات میں قلم بند کرتے رہتے ہیں۔برطانیہ میں پوسٹ ڈاکٹورل فیلوکی حیثیت سے تحقیق وتمحیص کے دوران اپنے ہم عصر مولانامحمودمیرپوری سابق ناظم اعلی مرکزی جمعیت اہلحدیث برطانیہ کے بہت اصرار پر جمعیت کے انگریزی منتھلی آرگن سٹریٹ پاتھ کی بطورایڈیٹنگ فرائض انجام دیتے رہے۔اورمرکزی جمعیت اہلحدیث برطانیہ کے اردوترجمان ماہنامہ ’’صراط مستقیم ‘‘برمنگھم کے لیے مضامین لکھنا شروع کیا۔ ان کے انہیں مضامین کودیکھتے ہوئے ہندوستان سے جامعہ سلفیہ بنارس کے سابق ریکٹر ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ نے کتابی شکل دینے اور اس پر مزیدکام کرنے کامشورہ دیا،بحمدللہ جس کی ۷۵؍جلدوں کاموادجمع ہوگیا ہے۔جس میں سے تادم تحریر۳۸؍جلدیں منظرعام پرآچکی ہیں۔ اسی طرح مرکزی جمعیت اہلحدیث ہندکے مطبع مکتبہ ترجمان دہلی سے ’تاریخ اہلحدیث‘ کی سات جلدیں شائع ہوچکی ہیں،آپ کو یہ سن کریقیناخوشی ہوگی کہ تاریخ اہلحدیث کی ۱۵؍جلدوں کا مواد جمع ہوچکاہے۔ ان شاء اللہ آٹھویں جلد کااجراء مرکزی جمعیت اہلحدیث ہندکے زیر اہتمام ہونے والے چونتیسویں آل انڈیااہلحدیث کانفرنس کے موقع پرہونے کی قوی امیدہے۔
جب ’’تحریک ختم نبوت ‘‘کی کچھ جلدیں برصغیرہندوپاک میں شائع ہوئیں تو ڈاکٹر صاحب سے لوگوں نے مطالبہ شروع کیا کہ اب اس چلتے قلم کو روکانہ جائے بلکہ اسی کے ساتھ تاریخ اہلحدیث پر بھی خامہ فرسائی فرمائیں ۔یہ عظیم کارنامہ ڈاکٹرصاحب نے مولاناشیرخان جمیل احمد صاحب کے تعاون سے انجام دیا ہے ۔کرم خوردہ کتابوں ،مدفون رسائل اور نادرونایاب مخطوطات کو جمع کیااور پھر جس خوبصورتی کے ساتھ قارئین کے نظر کیاہے اس کو کرامات خداوندی ہی کہاجاسکتاہے۔ اللہ جملہ معاونین کے عمل کو شرف قبولیت بخشے۔
ایوارڈ،توصیفی اسناداور شیلڈ:
محسن ملت،مؤرخ اہلحدیث پروفیسرڈاکٹر بہاء الدین حفظہ اللہ نے جوکارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ خود اپنے آپ میں ایک اعزاز ہے ،ڈاکٹرصاحب کے بقول ’اللہ تعالی نے مجھے منبرومحراب سے متعلق ذمہ داریاں سونپنے کے بجائے حضورسرور کونین ﷺ کی چوکھٹ کی جانب معاندانہ عزائم سے بڑھنے والوں کی راہ میں سدسکندری تعمیرکرنے والوں کی کاوشوں کوآئندہ نسلوں کے لیے محفوظ ومرتب کردینے کے کام پرلگارکھاہے۔اس خدمت کے لیے اللہ تعالی نے مجھے وقت بھی عطافرمایاہے اور فرصت بھی ،اورموضوع سے کماحقہ واقفیت بھی، اورہمت واستقلال بھی۔ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء‘
*مؤرخ عصر کاخطاب: محسن ملت کے ان عظیم خدمات کااعتراف کرتے ہوئے مرکزی جمعیت اہلحدیث ہندنے اگست ۲۰۰۵ء میں’’ مؤرخ عصر ‘‘ کے خطاب سے نوازا۔
*عبدالجبارفریوائی ایوارڈ: ۲۰۰۸ء میں فریوائی اکیڈمی الہ آباد ہندنے ڈاکٹرصاحب کی خدمات کے اعتراف میں ’’عبدالجبارفریوائی ایوارڈ‘‘سے نوازا ہے۔
*محسن ملت کاخطاب: مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان نے تحریک ختم نبوت اورتاریخ اہلحدیث کی تاریخ کی تدوینی کام کے اعتراف میں لاہورمیں ۲۴؍ستمبر۲۰۱۷ء کومنعقد ہونے والے ایک سیمینار میں قرارداد کے ذریعہ ڈاکٹربہاء الدین صاحب کو’’ محسن ملت‘‘ کے خطاب سے نوازاگیا۔
*شیلڈ: محسن ملت ،مؤرخ اہلحدیث،ڈاکٹر بہاء الدین صاحب کی تحریک ختم نبوت ،تاریخ اہلحدیث پربے پناہ تصنیفی خدمات کے اعتراف میں ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ ۵؍نومبر۲۰۱۷ء بروز اتوار شام چھ بجے ایسٹرن پویلین ہال اولڈھم میں مولاناشفیق الرحمن شاہین کی جانب سے دیاگیا۔ جس میں ڈاکٹر صاحب کو مولاناشفیق الرحمن شاہین اولڈھم نے شیلڈپیش کیا۔ اس تقریب میں ڈاکٹر صاحب کے دست راست حیدرجماعت شیخ شیرخان جمیل احمدعمری صاحب بھی موجود رہے۔
*شیلڈ: بریدفورڈ برطانیہ میں ۳۱؍دسمبر۲۰۱۷ء کو محسن ملت ڈاکٹر بہاء الدین حفظہ اللہ کی تحریک ختم نبوت کے مقدس اور بابرکت موضوع پر لکھی گئی ۷۵؍ سے زائد جلدوں کے مکمل ہونے پر ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی،جس میں مرکزی جمعیت اہلحدیث برطانیہ کی جانب سے اس بے مثال خدمات پر شیلڈپیش کیا۔
*شیلڈاورخصوصی نشست: ۱۴؍جنوری ۲۰۱۸ء کو مہسلہ، کوکن (انڈیا) میں ایک روزہ ’’عالمی ختم نبوت کانفرنس‘‘کے انعقاد کے موقع پرڈاکٹر صاحب کے اعزاز اور ان کی عظیم خدمات کے اعتراف میں خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔جس میں مولاناشیر خان جمیل احمد عمری نائب ناظم مرکزی جمعیت اہلحدیث برطانیہ نے محسن ملت، مؤرخ ڈاکٹر بہاء الدین صاحب کاتعارف پیش کیا،بعدازیں کانفرنس میں ڈاکٹرصاحب کاخصوصی پیغام پڑھ کرسنایا۔اس کے بعد ڈاکٹرصاحب کو ان کے بے مثل کارناموں کے اعتراف میں امیر جماعت المسلمین مہسلہ اورمولاناعبدالسلام سلفی امیرصوبائی جمعیت اہلحدیث ممبئی کے ہاتھوں ڈاکٹر صاحب کو Memento of Honour پیش کیاگیا، جس کو ڈاکٹر صاحب کے دست راست اور معاونِ خاص شیخ شیرخان جمیل احمد عمری حفظہ اللہ نے وصول کیا۔
ڈاکٹرصاحب حفظہ اللہ نے راقم کوایک گفتگو کے دوران بتایاکہ آج میں جہاں موجودہوں یہاں نہ کتابوں کاانبار ہے ،نہ ہی جامعہ سلفیہ بنارس جیسی لائبریری اور ناہی نذیریہ دہلی کاکتب خانہ،ناہی آج تک ہندوستان آسکا ہوں ۔برصغیر سے دوربرطانیہ میں ایک کمرے میں بیٹھاہوں جسے آپ کبھی کبھار فیس بک پر دیکھتے ہوں گے جس میں تن تنہا رہتاہوں،خود کھانا پکاتاہوں ،چائے بناتاہوں یہاں تک کہ برتن میں خود ہی صاف کرتاہوں،دوائیں خود کھاتاہوں۔گفتگو کے دوران محترم نے کہاکہ کتابوں کی ٹائپنگ، پروف ریڈنگ اورنظر ثانی کاکام بھی میں خود ہی کرتاہوں۔اوریہیں سے تمام کام بفضل اللہ کررہاہوں ،یہ اللہ کاخاص کرم ہی ہے جس کی بنا پر کتابوں کی کمیابی کے باوجود بآسانی کام ہورہاہے۔ جس میں ہمارے خاص معاون کار مولاناشیرخان جمیل احمدعمری حفظہ اللہ ہیں۔ وہ دنیاکے کونے کونے سے مواد اکٹھا کرکے فراہم کرتے ہیں،انہیں کی کاوش سے تحریک ختم نبوت اورتاریخ اہلحدیث کی تدوین کا کام جاری ہے۔
نایاب حسن
آج کادن سیاسی اعتبارسے ایک نئے انقلاب کادن کہاجاسکتاہے، ملک کے اعلی سطح کے سیاست داں، ڈپلومیٹس اوردانشور افرادکی ایک جماعت نے مل کر باباے قوم کے یومِ شہادت کے موقعے پرایک عہدلیاہے،جس کاتعلق ملک کے عوامی مسائل ومشکلات، قومی سلامتی، ملکی معیشت سے جڑاہواہے ـ سابق وزیرخزانہ وخارجہ یشونت سنہانے جس سیاسی فورم کی تشکیل کاعزم واعلان کیاتھا، آج اس کاافتتاح ہوگیاہے اوران کے دوش بہ دوش ملک کی مین سٹریم سیاسی جماعتوں کے نمایندہ افراد آگئے ہیں ـ شتروگھن سنہاتو دست وبازوکے طورپران کے ساتھ ہیں، مگران کے علاوہ کانگریس، این سی پی، ٹی ایم سی، جے ڈی یو، لوک دل، عام آدمی پارٹی وغیرہ جیسی جماعتوں کے صفِ اول کے لیڈران، ممبرانِ پارلیمنٹ بھی ان کے ساتھ نظرآرہے ہیں ـ
یشونت سنہانے "راشٹرمنچ "(راشٹریہ منچ نہیں ? )کی اس تاسیسی مجلس میں چنداہم باتیں کہی ہیں، جومیرے خیال میں آیندہ اس فورم کا نقشۂ عمل ہوناچاہیے، انھوں نے ملک میں کسانوں کی بدحالی کاذکرکرتے ہوئے کہاکہ مودی حکومت نے انھیں بھکاریوں کی صف میں کھڑاکردیاہے؛ لہذاوہ ان کے لیے جدوجہدکریں گے، ملک میں پھیلے ہوئے عدمِ برداشت اورغیراعلانیہ خوف وہراس کے حوالے سے کہاکہ باہمی تبادلۂ خیال، بحث مباحثے کی کوئی گنجایش نہیں رہ گئی ہے، حتی کہ خود بی جے پی کے اندر بہت سے نیتاڈرے ہوئے ہیں اوروہ جوکچھ محسوس کرتے ہیں، اپنے اندراس کے اظہارکایارانہیں پاتے،ایک بات انھوں نے یہ بھی کہی کہ اس حکومت میں سماجی انصاف کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے اور عوامی بھیڑ موت وحیات کافیصلہ کررہی ہے، سب سے بڑی بات انھوں نے یہ کہی کہ جس طرح آج سے سترسال قبل مہاتماگاندھی کے مظلومانہ قتل سے ملک بھرمیں افراتفری پھیل گئی تھی اورجمہوریت کوخطرات لاحق ہوگئے تھے، آج بھی ٹھیک وہی حالت ہے اورجمہوریت وآئینی ادارے شکست وریخت کے دہانے پرہیں ـ
یشونت سنہاگزشتہ کئی ماہ قبل اپنے ایک مضمون کے ذریعے اپنی ہی پارٹی اورحکومت کے جارح نقادکے طورپرملکی منظرنامے پرابھرے تھے، اس کے بعدبھی حکومت کی مختلف پالیسیوں پرکھل کرنقدکرتے رہے، ایسانہیں ہے کہ وہ پارٹی میں کسی مقام کی تلاش میں ہیں، کہ وہ تواعلی سے اعلی "مقامات "سے دس پندرہ سال پہلے گزرچکے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ وہ واقعی یہ محسوس کرتے ہیں کہ مودی وامیت شاہ کی سربراہی میں ہندوستان جس سمت میں جارہاہے، وہ تاریکیوں، ناکامیوں، اندرونی وبیرونی خساروں اورقومی سلامتی وہم آہنگی کے لیے تشویشناک ہے، سوانھوں نے اپنی ذمے داری کومحسوس کرتے ہوئے موجودہ پولٹیکل سسٹم کوکھل کرچیلنج کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم بنایاہے اور ملک بھرکے باشعورافرادکواس سے جڑنے کی دعوت دی ہے ـ ان کایہ بھی کہناہے کہ "راشٹرمنچ "کسی پارٹی کی مخالفت کے لیے تشکیل نہیں دیاگیاہے؛بلکہ اس کامقصد قومی مفادمیں اپنی آوازبلندکرنااورحکومتِ وقت کی ملک مخالف پالیسیوں کوعوام کے سامنے اجاگرکرناہے ـ
اس فورم کے نتائج کیاہوں گے، اس کی پیش قیاسی تونہیں کی جاسکتی، البتہ چوں کہ اس کابیڑا ہندوستان کے نہایت باشعور، دانش مند، تجربہ کارسیاست دانوں نے اٹھایاہے اورپہلے ہی کسی بھی قسم کی حزبی سیاست سے کنارہ کش رہنے کاعہدکیاگیاہے؛ لہذااس فورم کے نتیجہ خیزہونے کی امیدتوکی ہی جاسکتی ہے اوریہ کہاجاسکتاہے کہ یشونت سنہانے اپنے ہم خیال افرادکے ساتھ مل کر ایک ایسے "متبادل اپوزیشن "کو تشکیل دیاہے، جوموجودہ عاجزولاچاراپوزیشن سے زیادہ بااثرثابت ہوسکتاہے ـ
نئی دہلی: 30 ؍جنوری(قندیل نیوز)
2019 کے لوک سبھا انتخابات کی سیاسی بساط بچھائی جانے لگی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی کی اتحادی پارٹیاں جہاں ایک ایک کرکے بغاوتی تیوراختیارکررہے ہیں۔وہیں حزب اختلاف کی جماعتیں متحد ہونے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو ایک ساتھ لا کر مودی کے لیے مشکلات کھڑا کرنے کا بیڑا ان دنوں این سی پی صدرشردپوار نے اٹھایا ہے اور ان کے معاون جے ڈی یو کے باغی لیڈر شرد یادو بنے ہیں۔شرد یادو نے کہا کہ مرکز کی مودی اور تمام ریاستوں میں حکمراں بی جے پی حکومتوں کی عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف عوام میں مسلسل بڑھتے ہوئے غصے کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن کی یکجہتی کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کسانوں اور نوجوانوں کی بدحالی اور فرقہ واریت کے خطرے مسئلہ کو سنجیدگی سے لینے کے لئے اپوزیشن کا استحکام ضروری ہے۔ آج کی میٹنگ میں حزب اختلاف کی پارٹیوں نے ملکی سطح پر بی جے پی حکومتوں کی غلط پالیسیوں پر روشنی ڈالنے کے لئے ابتدائی غوروفکرکیاگیا۔انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ 2019 میں حزب اختلاف مودی کے خلاف متحد ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں حزب اختلاف کے لیڈران اگلے ہفتے دوبارہ ملاقات کریں گے۔ یادو نے کہا کہ جلدہی میٹنگ کی تاریخ طے کرلی جائے گی۔بتا دیں کہ پوار کی دہلی رہائش گاہ پر ہوئی میٹنگ میں کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد، نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ، سی پی آئی کے ڈی راجہ اور جے ڈی یو کے باغی لیڈر شرد یادو شامل ہوئے تھے۔ شرد پوار نے اپوزیشن کی یکجہتی کے معاملے پر اجلاس سے پہلے کانگریس صدر راہل گاندھی اور سونیا گاندھی سے بات چیت کی تھی۔ اس کے بعد ہی اجلاس کا اعلان کیاتھا۔بتادیں کہ 26 جنوری کو ممبئی میں پوور کی قیادت میں ’’آئین بچاؤ‘‘کے نعرے کے ساتھ احتجاج کیا گیا تھا۔ اس میں شرد یادو، ڈی راجہ، ہاردک پٹیل، کانگریس کے سشیل کمار شندے، نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ اور ٹی ایم سی کے دنیش ترویدی سمیت دیگر رہنما شامل ہوئے تھے۔ اس دوران ہی پوار نے اپوزیشن یکجہتی کی منصوبہ طے کرنے کے لئے ذہن رکھنے والی جماعتوں کے رہنماؤں کی 29 جنوری کو دہلی میں میٹنگ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تازہ ترین، سلسلہ 98
فضیل احمد ناصری
آہوں کا اک دور ہے جاری، عالم ہے ناشادی کا
یارو! جاؤ! جشن مناؤ آج مری بربادی کا
قیدِ مسلسل،فرقہ پرستی،دینِ متیں پرپابندی
تحفے ہیں یہ آزادی کے، نام نہ لو آزادی کا
اب تو دن کے نور پہ ہرسو،شب کی پہرےداری ہے
قاتل طبقہ مالک ٹھہرا، انسانی آبادی کا
ان کا وظیفہ دل آزاری، اپنا وظیفہ آہ و فغاں
اہلِ ستم کے گاؤں میں گویا، آیا موسم شادی کا
مسند ان کے ہاتھ لگی تو ہم پر ہی غراتے ہیں
ملنے لگا ہے شاگردوں سے ہم کو صلہ استادی کا
کون سنے گا پیار کے نغمے، ان جیسے ہنگاموں میں
منظر پیش کرے ہے گلشن، آتش و خون کی وادی کا
تم سب مل کر ملک کولوٹو، پھر بھی سچےشہری ہو
ملک پہ قرباں ہونے والا ممبر ہے بغدادی کا
جمہوری اقدار کو مل کر آج بچالو ہم وطنو!
ورنہ جنازہ اٹھّے گا، آزادی کی شہزادی کا
کام میں لاؤ، ملت والو! فاروقی کرداروں کو
خواب سے اٹھّو! وقت آیا ہے، پھر عزمِ فولادی کا
نئی دہلی، 29 جنوری (قندیل نیوز)
پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن آج شروع ہو گیا ہے۔ صدر رام ناتھ کووند کے خطاب کے ساتھ ہی سیشن شروع ہوگیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بجٹ سیشن سے پہلے میڈیا کو خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس بجٹ سیشن میں میں تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کروں گا کہ وہ تین طلاق بل منظور کرائیں اور مسلمان خواتین کو نئے سال تحفہ دیں۔بجٹ سیشن کے بارے میں وزیراعظم مودی نے کہا کہ یہ سیشن اہم ہے، پوری دنیا ہندوستانی معیشت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے، دنیا کے تمام اداروں نے ہندوستان کی ترقی پر مہر لگا دی ہے۔ مودی نے کہا کہ یہ بجٹ ملک کی تیز رفتار سے بڑھ رہی ترقی کواوربھی طاقت دے گا۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ کے بعد یہ مختلف کمیٹیوں میں اس تبادلہ خیال کیا جائے گا، جس میں حزب اختلاف کمیاں بتائے گا اور حکمراں پارٹی تعریف کرے گی، بجٹ پر اچھی بحث کی امید ہے، ہم نے تمام پارٹیوں کی میٹنگ میں بھی اس پر تبادلہ خیال کیاتھا۔بتادیں کہ ایک حالیہ انٹرویو کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے بتایا تھا کہ یہ بجٹ لبھانے والا نہیں ہوگا۔ وزیراعظم مودی نے کہا تھا کہ آئندہ عام بجٹ عوامی بجٹ ہوگا اور حکومت اصلاحات کے ایجنڈے پرکام کرے گی۔ وزیرخزانہ ارون جیٹلی یکم فروری بروز جمعرات عام بجٹ پیش کریں گے، بہت سے لوگ وزیرخزانہ کے ساتھ اس بجٹ کی تیاری میں مصروف ہیں۔ ہنس مکھ ادھیا فنانس سکریٹری ہیں۔1981 گجرات کیڈرکے آئی اے ایس آفیسر ہیں، بجٹ ٹیم میں ادھیا سب سے زیادہ تجربہ کار افسر ہیں، وہ اس سال ٹیم کی قیادت کررہے ہیں۔
نئی دہلی، 29 جنوری (قندیل نیوز)
سننداپشکر کی موت کے معاملے میں سپریم کورٹ نے بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی سے کہا کہ کورٹ پہلے یہ طے کرے گا کہ درخواست سماعت کے قابل ہے یا نہیں؟ عدالت نے سوامی سے پہلے اس معاملے کو قانونی بنیاد پر مطمئن کرنے کوکہا۔پیر کو سماعت کے دوران کورٹ نے کہا کہ میرٹ کی بنیاد پر بعد میں عرضی پر سماعت کی جائے گی، پہلے یہ طے کریں گے کہ معاملہ سماعت کے قابل ہے یا نہیں۔غورطلب ہے کہ سابق مرکزی وزیر اور کانگریس لیڈر ششی تھرور کی اہلیہ سنندا پشکر کی موت کی تحقیقات ایس آئی ٹی سے کرانے کی مانگ کو لے بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی ہے۔ سوامی نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاتھا۔ہائی کورٹ نے سوامی کی درخواست مسترد کردی تھی۔ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ سبرامنیم سوامی کی یہ درخواست مفاد عامہ کی عرضی نہیں بلکہ سیاسی عرضی ہے اور کورٹ کو اس طرح کے معاملات میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ عدالت کو یہ نہیں لگتاکہ اس معاملہ کو عوامی مفاد کی درخواست کے طور پر سنا جانا چاہئے۔ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ کہ یہ کافی پریشان کن ہے کہ سبرامنیم سوامی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے درخواست کی کاپی پوسٹ کر دی، جبکہ اس پر ہائی کورٹ میں پہلے سماعت بھی نہیں ہوئی تھی اور یہ بھی طے نہیں تھا کہ کورٹ اس پر سماعت کرے گا یا نہیں۔ عدالت کوتوقع ہے کہ سوامی کے ساتھ ساتھ پی آئی ایل لگانے والے آگے اس کاخیال رکھیں گے۔سننداپشکرکے بیٹے نے بھی اس معاملے میں کورٹ میں عرضی لگائی تھی کہ اس پٹیشن کو خارج کیا جانا چاہئے۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ اس معاملے کی جانچ میں پولیس نے بغیر اہم وجہ کے وقت لگایا ہے۔
حکومت کی تعریفوں کے پل باندھے
نئی دہلی، 29 جنوری (قندیل نیوز)
صدرجمہوریہ رام ناتھ کووندکے خطاب سے آج پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کا آغاز ہوا۔ صدر نے اس خطاب میں نریندر مودی حکومت کی گزشتہ تقریباََچارسال کی کامیابیوں کوسلسلہ وار طریقے سے ملک کے سامنے رکھا۔ اس دوران کووند نے جوباتیں ملک کے سامنے رکھیں ان میں نریندرمودی حکومت کا2019 کا ایجنڈا بھی جھلکا۔پی ایم مودی کی کئی ایسی اسکیمیں ہیں،جنہیں2019 تک مکمل کرنے کا ہدف حکومت نے رکھا ہے۔ صدرجمہوریہ نے خطاب میں کہاہے کہ حکومت سماج کے ہر طبقے تک ترقی پہنچانے کی سوچ کے ساتھ’ وزیر اعظم دیہی سڑک منصوبہ ‘کا کام تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے۔2014 میں گاؤں کے صرف 56 فیصد سڑکیں کنکٹوٹی سے منسلک تھے۔ابھی 82فیصد سے زیادہ گاؤں سڑکوں سے جڑ چکے ہیں جن میں سے بیشتر دور دراز علاقوں میں ہیں ۔حکومت اگر اسے کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یقینی طور پر 2019 میں اس کا سیاسی فائدہ ملے گا۔ خاص طور پر تب جبکہ گجرات انتخابات کے بعد یہ کہا جا رہا ہو کہ دیہی ووٹر بی جے پی سے روٹھے ہوئے ہیں۔صدر نے خطاب میں کہا کہ ملک میں سب کے سر پر چھت ہو اور انہیں پانی۔بجلی ٹوائلٹ کی سہولت ملے، اس ذمہ دارانہ سوچ کے ساتھ میری حکومت ملک کے ہر بے گھر غریب خاندان کو سال 2022 تک گھر فراہم کرنے کے مقصد پر کام کر رہی ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں شہری اور دیہی علاقوں میں 93 لاکھ سے زیادہ گھروں کی تعمیر کی گئی ہے۔’’وزیر اعظم رہائش گاہ منصوبہ۔ شہری‘‘ کے تحت غریبوں کو گھر بنانے کے لئے سود کی شرح میں 6 فیصد راحت دی جا رہی ہے۔ بجلی، پانی جیسے مسائل ہمیشہ سے انتخابات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اگر حکومت 2022 کے اپنے ہدف کا نصف بھی 2019 تک مکمل کرتی ہے تو اس سے اس غریب اور متوسط طبقہ کے خاندانوں کے ووٹ بٹورنے میں آسانی ہوگی۔صدر نے اپنے خطاب میں کہاکہ ہر غریب کو بھرپیٹ کھانے کے لئے بنائے گئے نیشنل فوڈ سیکورٹی قانون کے تحت ملک کی تمام ریاستوں میں سستی شرح پر اناج دینے کا بندوبست ہے۔غریبوں کو ایک روپے فی مہینہ اور 90 پیسے روزانہ کے پریمیم پر، انشورنس اسکیمیں بھی قابل رسائی کرائی گئی ہیں، اب تک 18 کروڑ سے زائد غریب ’وزیر اعظم سیکورٹی انشورنس سکیم‘ اور’وزیراعظم جیون جیوتی بیمہ منصوبہ‘ میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ فوڈ سیکوریٹی قانون یو پی اے حکومت کی دین ہے لیکن اس کا فائدہ عوام تک پہنچتا اس سے پہلے ہی منموہن حکومت چلی گئی، غریبوں کا انشورنس مودی حکومت کااہم منصوبہ ہے۔ اس قانون اور منصوبہ بندی کا فائدہ غریبوں کو ملا تو بی جے پی کو بھی اس کا انتخابی فائدہ ملے گا۔
صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ میری حکومت نے’ ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘منصوبہ بندی شروع کی تھی۔ اس سکیم کے مثبت نتائج کو دیکھ کر اب 161 اضلاع سے بڑھاکر 640 اضلاع تک کردیاگیاہے۔ اس کے علاوہ غریب خواتین کو ’’وزیر اعظم اججولا منصوبہ ‘‘ کے تحت 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ گیس کنکشن دئے جا چکے ہیں ۔ اججولا منصوبہ بندی کے فوائد بی جے پی یوپی کے اسمبلی انتخابات میں دیکھ چکی ہے۔ اس کا دائرہ بڑھاکربی جے پی اپنے ووٹ کا دائرہ بھی بڑھا سکتی ہے کیونکہ اس اسکیم سے دیہی خواتین کے درمیان اس کی رسائی ہوئی ہے۔صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ میری حکومت نے غریبوں اور درمیانے طبقے کے لئے خاص طور خودکارروزگار کو فروغ دینے کے لئے بغیر بینک گارنٹی قرض دینے پر زور دیا ہے۔’’پردھان منتری مدرایوجنا‘‘ کے تحت اب تک تقریباََ10 کروڑ قرض منظور کیے گئے ہیں اور 4 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض دیا گیا ہے۔ تقریبا 3 کروڑ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس منصوبہ بندی کا فائدہ اٹھایا ہے اور سیلف ایمپلائڈ شروع کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ مدرایوجنا کو وزیر اعظم مودی اپنی بڑی کامیابی قرار دیتے رہے ہیں، اس منصوبہ کے ذریعے نوجوانوں کو لبھایا جا سکتا ہے جو کہ پہلے ہی پی ایم مودی کا بڑا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں روزگارکی کمی کو لے کر پوچھے گئے سوال کا جواب بھی کابینہ وزیرروی شنکر پرساد نے مدرایوجنا سے پیدا سیلف ایمپلائڈ پر دیا تھا۔صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت کسانوں کی آمدنی کو2022 تک دوگنا کرنے کے لئے مصروف عمل ہے۔ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے جہاں ایک طرف یوریا کی پیداوار بڑھی ہے۔ وہیں 100 فیصد نیم کوٹنگ کے بعد یوریا کی کالابازاری بھی رکی ہے۔’وزیر اعظم فصل انشورنس منصوبہ بندی‘ کے تحت کسانوں کو سستی اور آسان انشورنس سروس فراہم کی جا رہی ہے۔سرکاری پالیسیوں میں بھلے ہی کسان نظرانداز رہا ہو لیکن انتخابی حکمت عملی میں اسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ مودی حکومت نے بھی کسانوں کو یہ صاف پیغام دے دیا ہے کہ وہ ان کی فکر مند ہے اور اگر کسانوں نے حکومت کے اس دعوے پر اعتماد کیا تو انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی طے ہے۔صدر نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کے لیے تقسیم نہیں بلکہ با اختیار بنانے کی بات کہی ہے۔ تین طلاق، محرم، حج سبسڈی کو لے کر مودی حکومت کا رخ اسے مسلم خواتین کا ساتھ دلا سکتا ہے، ساتھ ہی کانگریس پر تقسیم کرنے کا الزام لگا کر بی جے پی کو بااختیار بنانے کے اپنے فارمولے سے ہندو ووٹروں کو بھی اپنے حق میں ایک جٹ کر سکتی ہے۔
پارلیمنٹ میں جمہوریت میں کمی آئی ہے:ملکاارجن کھڑگے
پرانی شراب کونیالیبل لگاکرپیش کیاگیا،صدرجمہوریہ کے خطاب پرکانگریس کاطنز
نئی دہلی، 29 جنوری (قندیل نیوز)
صدر رام ناتھ کووند کے خطاب کے ساتھ بجٹ سیشن شروع ہو چکا ہے۔ صدر نے اپنے خطاب میں حکومت کی کامیابیوں کی جھڑی لگادی ہے اوربی جے پی حکومت کے نظریے کی حمایت کرتے ہوئے مستقبل کے ایجنڈے کو پیش کیا ہے۔خطاب کے بعد حزب اختلاف نے مرکزی حکومت پر حملہ کیا۔ لوک سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر ملکاارجن کھڑگے نے کہا کہ خطاب میں کچھ بھی نیا نہیں ہے، تمام پرانے منصوبوں کا ذکر کیا گیا ہے، کھڑگے نے کہا کہ پرانے شراب ایک نیا لیبل کے ساتھ متعارف کرایا گیا ہے۔کھڑگے نے کہا کہ اس بجٹ سیشن میں بحث کے لیے کوئی وقت ہی نہیں ملے گا، حکومت کی طرف سے بلوں کو آخری لمحے میں پیش کیاجارہاہے۔ اس سے پارلیمنٹ میں جمہوریت میں کمی آئی ہے، حکومت چیزوں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔آپ کو بتادیں کہ صدر رام ناتھ کووند نے تین طلاق بل، سماجی انصاف، خواتین کے لئے حکومت کی پالیسی، کسانوں کے لئے حکومتی کام وغیرہ کے بارے میں بات کی۔ کووند نے خطاب میں ڈیجیٹل انڈیا کی دیہی ترقی کے بارے میں بات کی۔
عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
یوں تو ہندوستان بھر میں آئے دن زنی بالجبراورجنسی درندگی کے بیسیوں واقعات پیش آتے رہتے ہیں اوراپنے وقت کے اس جنت نشاں میں اب یہ کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے ۔ ہماراملک تاریخ کے تمام ادوار میں عظیم الشان تہذیبوں کا گہوارا رہا ہے ، ہردور میں یہاں کی گنگا جمنی تہذیب اقوام عالم کے لیے حیر ت اور دل چسپی کی چیز رہی ہے؛ لیکن افسوس آج مغرب کی اندھی تقلید اور اباحیت پسندی کے سیلاب نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے تقدس کو پو ری طرح پامال کر دیاہے ، جدیدیت اور فیشن کے نام پر فحاشیت کا فروغ عام ہو تا جا رہا ہے ، زنا کا ری اور عصمت دری کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔ہندوستان میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور جنسی آوار گی کے اس سیلاب بلاخیز پر قابو نہیں پا یا گیا تو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا حال بھی یو نان و روم سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔
آج ایک طرف چیختی ،چلاتی عورتوں،سسکتی، بلکتی دوشیزاؤوں، معصوم ونابالغ بچیوں کے دامن عفت کو تار تار کردیاجاتاہے اوردوسری طرف رسمی تعزیتی الفاظ اور روایتی قانونی کارروائی کے علاوہ کوئی دادرسی کے لئے تیارنہیں ہوتا۔انفرادی عصمت دری کے علاوہ اجتماعی آبروریزی کے لرزہ خیز واقعات نے تو دلوں کو دہلا کررکھ دیا ہے ،بالخصوص ابھی حال ہی میں پیش آمدہ ملک وبیرون ملک کے متعددسانحات نے تو شرم وحیا کی ساری حدوں کو پارکردیاہے:مجبوروبے کس حاملہ عورت کی اجتماعی آبرو ریزی،خود باپ اوربھائی کا اپنی حقیقی بیٹی اور سگی بہن کے ساتھ درندگی کا ننگا ناچ، معصوم نابالغ لڑکی کے ساتھ جنسی تشدداور تعلیم کے نام پرایسابہیمانہ سلوک کہ چشم فلک بھی نم ناک ہوجائے ۔
ائے کاش کہ یہ واقعات صرف افسانے ہوتے ،دورجاہلیت میں پیش آمدہ قصۂ پارینہ ہوتے،کاش کہ ان سب کا حقیقت واقعہ سے کوئی دور کا تعلق بھی نہ ہوتا ؛مگر
کلیجہ تھام لو رودادِ غم ہم کو سنانے دو!
تفصیلات کے مطابق 20 ؍جنوری : اترپردیش بدایوں کے اجھانی علاقہ میں ایک حاملہ خاتون کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کا معاملہ پیش آیا ،سینئر پولیس سپرنٹنڈنٹ چندر پرکاش نے بتایا کہ کٹر ی گاؤں کی ایک حاملہ خاتون کل رفع حاجت کے لئے گئی تھی، تبھی کچھ لوگ اس خاتون کو دبوچ کر سرسوں کے کھیت میں لے گئے ، وہاں ان لوگوں نے اس کے ہاتھ پیر باندھ دیئے ، اس کے بعد اس کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی اور بے ہوش اور برہنہ حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔
اسی طرح ایک ماہ قبل اترپردیش ضلع مظفر نگر کے دھنیدا نامی گاؤں میں پسند کے لڑکے سے شادی کے لیے بھاگ جانے والی لڑکی کو باپ نے اپنے بیٹے اور رشتہ داروں کے ساتھ مل کراجتماعی آبروریزی کی۔ انسانیت کو شرمسار کرنے والا یہ گھناؤنا واقعہ اس وقت پیش آیاجب 21 سالہ لڑکی اپنی پسند کی شادی کے لیے گھر سے بھاگ گئی تھی، لڑکی کے باپ نے اسے سزا کے طور پر اپنے بیٹے اور دو دیگر رشتے داروں کے ساتھ مل کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔متعلقہ پولیس اسٹیشن کے انسپکٹرکے مطابق لڑکی انصاف کے لیے عدالت سے رجوع ہوئی، الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پر مقدمہ درج کرلیا گیا ۔
علاوہ ازیں 21جنوری :اتر پردیش میں پرتاپگڑھ ضلع کے تھانہ مانک پور میں پولیس نے ہفتہ کی دیر شام نابالغہ کے اغوا ور اسکے ساتھ اجتماعی آبروریزی کے الزام میں تین نوجوانوں اور تعاون کرنی والی دو خواتین سمیت پانچ ملزمان کے خلاف کیس درج کیاہے ۔تفصیلات کے مطابق ایس ایچ او بال کرشن شکل نے بتایا کہ موضع بسہیا کی ایک خاتوں نے اپنی شکایت میں الزام عائد کیا ہے کہ اس کے پڑوس کی دو خواتین نے 18/ جنوری کی شب 9 بجے اسکی 14 سالہ بیٹی کو اپنے گھر بلایا۔ جہاں پہلے سے شارق شیخ اور دو نامعلوم نوجوان موجود تھے جنہوں نے اسکے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی نیز بیہوش ہونے پر نواب گنج ہائی وے پر لے جا کر چھوڑ دیا اور فرار ہوگئے ۔
ان سب کے علاوہ چندہفتوں قبل پڑوسی ملک کے قصورنامی علاقے میں سات سالہ معصوم زینب کے ساتھے جنسی زیادتی کے بعد بہیمانہ قتل کے دلخراش سانحے کی وجہ سے پورا عالم سوگوار اور اشکبار ہوگیا ،اس المناک واقعے پر ہرآنکھ پرنم اور ہر دل درد بے چین ہوگیا ۔اور یہ بات آشکاراہوگئی کہ آج ہمارا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کی اس انتہا کو پہونچ چکاہے ، جہاں معصوم بچیوں کی عزتیں اور زندگیاں بھی اپنے محلوں اور گلیوں میں محفوظ نہیں رہیں، ہوس کے پچاری انسان نما جانور اتنے آزاد ہوگئے کہ اب ان کی حیوانیت سے معصوم بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔
ہم نے دیکھی ہیں عصمتیں لٹتی
ہم نے بکتا شباب دیکھا ہے
چشمِ قاتل کی یورشیں دیکھیں
اہل دل پرعتاب دیکھا ہے
ان واقعات کو پڑھ کر یا سن کرہم ہیں کہ صرف کڑھتے ہیں، کلبلاتے ہیں اور ٹھنڈی آہ بھر کے رہ جاتے ہیں؛جب کہ یہ ایک اجتماعی افتاد ہے جو اجتماعی کوششوں سے ہی ٹالی جا سکتی ہے ۔ درج ذیل تحریر اگرچہ حالیہ پیش آمدہ واقعات کے پس منظر میں لکھی گئی ہے؛ مگر ہمارے یہاں بھی ہر روز اسی طرح کے دلخراش اور دل سوز واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں،لہذا ہمیں ان جرائم کے اصل اسباب کو سمجھنا ہوگا اور ان کے سدباب کی کوشش کرنی ہوگی۔قبل اس کے کہ ان دل دوز سانحات کے اسباب و سد باب پر روشنی ڈالی جائے اس حوالے سے دنیابھر کے مختلف ممالک کے اعدادو شمار بھی ملاحظہ فرمائیں !
اعداد وشمار:
میرے پیش نظر آبروریزی اور جنسی تشدد کے حوالے سے ٹاپ 10 ملکوں کی ایک فہرست ہے ؛جس میں دسویں نمبر پر ملک ایتھوپیا ہے جہاں کی ساٹھ فیصد خواتین کو سیکسوئیل وائلنس کا سامنا کرنا پڑتاہے اور ہر سترہ میں سے ایک خاتون ریپ کا شکار ہوتی ہے۔عصمت دری کے حوالے سے نوواں بڑا ملک سری لنکا ہے جہاں زنی کے تعلق سے پیش آنے والے صرف چارفیصد معاملات کی شنوائی ہوتی ہے؛ جب کہ ۹۶ ؍فیصدمعاملات سردخانہ میں ڈال دیے جاتے ہیں۔خواتین سے بدسلوکی اور بے حرمتی کی فہرست میں آٹھواں بڑا ملک کینیڈا ہے جہاں 2,516,918 ریپ کیسز دو ہزار ایک سے اب تک رجسٹرڈ ہوئے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہاں کے سرکاری محکموں کا یہ مانناہے کہ یہ رجسٹرڈ کیسز ٹوٹل کا چھ فیصد بھی نہیں ۔ساتواں نمبر فحاشی و زناکاری میں سرفہرست ملک فرانس کا ہے، معلوم ہوناچاہیے کہ 1980 سے پہلے تک تو یہاں ریپ کوئی جرم ہی نہیں سمجھا جاتا تھا ، اس کے سدباب کا کوئی قانون سرے سے موجودہی نہیں تھا، عورت پر جنسی اور جسمانی تشدد پہ قانون بنایا ہی 1992 کے بعد گیا،فرانس جیسے لبرل ملک میں سالانہ 75000 ریپ کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں۔چھٹے پر ٹیکنالوجی کے بادشاہ جرمنی کا نمبر آتا ہے جہاں اب تک 6505468 کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں یاد رہے ان میں سے 240000 سے زیادہ متاثرہ خواتین خودکشی و تشدد سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں ، ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرتے اس ملک میں انسانیت اتنی ہی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے ۔پانچواں نمبر انگلینڈ کا ہے جہاں ہر 16 سے 56 سال کی عمر کی ہر پانچ میں سے ایک عورت کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس طرح سالانہ چار لاکھ خواتین انگلینڈ میں اپنا وقار کھو بیٹھتی ہیں ۔چوتھے نمبر پر ہندوستان آتا ہے , جہاں ہر بائیس منٹ بعد ریپ کا ایک کیس رجسٹرڈ کیا جاتا ہے، یاد رہے اعداد و شمار کے ماہرین کے نزدیک یہ تعداد اصل تعداد کا دس فیصد بھی نہیں؛ کیوں کہ پسماندگی کی وجہ سے نوے فیصد خواتین رپورٹ درج ہی نہیں کرواتیں ،تیسرے نمبر پہ سویڈن ہے جہاں ہر چار میں سے ایک عورت ریپ اور ہر دو میں سے ایک عورت جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہے ۔دوسرے نمبر پرساؤتھ افریقہ کاہے جہاں بلحاظ آبادی سالانہ 65000 سے زائد کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں ۔ پہلے نمبر پر دنیاکا مہذب ترین ملک امریکہ ہے جہاں ہر چھ میں سے ایک عورت تو ریپ کا لازمی شکار ہوتی ہے پر ہر 33 میں سے ایک مرد بھی عورتوں کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہوتا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق عصمت دری کا شکار ہونے والی خواتین میں چھ سا ل کی بچی سے لے کر ساٹھ سال تک کی بزرگ خواتین بھی شامل ہیں،ان میں سب سے زیادہ تعداد ہمسایوں اور رشتہ داروں کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کی ہے ۔
نیشنل کرائم ریکارڈز بیوروکی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں خواتین کے خلاف جرائم کے مجموعی طور پر تین لاکھ ستائیس ہزار تین سو چورانوے معاملات درج کرائے گئے ؛جن میں عصمت دری کی کوشش کے چار ہزار چارسو سینتیس معاملات شامل تھے ۔رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم کی شرح کے لحاظ سے قومی دارالحکومت نئی دہلی سر فہرست رہا، جب کہ آسام دوسرے نمبر پر ہے۔
ہندوستان کی دیگرریاستوں سے قطع نظرصرف مدھیہ پردیش میں یکم فروری 2016 سے اب تک مجموعی طورپر چار ہزار 527 خواتین انفرادی یا اجتماعی آبروریزی کا شکار ہوئیں۔اسی طرح محکمہ پولیس کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق آندھرا پردیش کے تین مقامات خواتین کے خلاف جرائم میں سرفہرست ہیں جن میں گنٹور، کرشنا اور گوداوری کے نام سامنے آرہے ہیں۔
عمومی اسباب:
عام طور پر دین سے دوری اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت ایسے واقعات کے وجود میں آنے کا سبب ہوتی ہے ۔نگرانی اور تربیت کے حوالے سے والدین کی بے توجہی اور لاپرواہی بھی اس کی اہم ترین وجہ ہے،علاوہ ازیں نکاح جیسی آسان سنت کو ایک مشکل مسئلہ بنادینابھی اس کی بنیادی وجوہ میں سے ہے ۔جہیز اور گھوڑے جوڑے کے اخراجات سے گھبراکر والدین شادی میں تاخیر کرتے جاتے ہیں؛جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ نوجوان نسل ناجائزراستوں سے اپنی ضروریات کی تکمیل پر مجبورہوجاتی ہے، حالانکہ دین نے بچوں کی شادی کی جو عمر مقرر کی ہے اگر اسی عمر کو سامنے رکھ کر شادی کردی جائے تو بہت سے جنسی مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔
ان کے علاوہ زنا کا ری اور عصمت دری کے اسبا ب و محر کات کا اجمالی خاکہ بھی پیش کیاجاتاہے ۔چناں چہ فحش اور عریاں فلمیں، ٹی وی سیریل،گندی اور مخرب اخلا ق کتب اور رسائل،نائٹ کلبوں اور ہو ٹلوں میں نیم عریاں رقص، شہوت انگیز سنیما پوسٹراور تصاویر،جنسی اشتعال پیدا کر نے والے اشتہارات، جسم کی ساخت کو نما یاں اور عریاں کر نے والے مختصر اور تنگ زنانہ لباس، مخلوط تعلیم،بازاروں، کلبوں، کالجوں، اسکولوں اور تفریح گا ہوں میں مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل ملاپ، نیز شراب اور دیگر منشیات کا بے دریغ استعمال۔وغیرہ
عصمت دری اور زنا کاری کے بڑھتے واقعات پر قا بو پانے کے لیے ان امور پر کنٹرول کی سخت ضروت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم اور ضروری اقدام یہ بھی ہونا چاہیے کہ معاشرے میں شادی کو آسان اور سہل بنا یا جا ئے ، تاکہ جنسی تسکین کا جائز ذریعہ مہیا ہو۔
عام طور پر زانی کے تعلق سے سزائے موت یا عمر قید کا پرزور مطالبہ کیاجاتاہے ؛مگرغورکرنے کا مقام ہے کہ اگر صرف سزائیں ہی مسئلہ کا حل ہوتیں تو مجرمین کو پھانسی چڑھانے کے بعدجرائم میں نمایاں کمی واقع ہوجانی چاہیے تھی؛ جبکہ جرائم کی رفتار میں بھیانک اضافہ ہورہا ہے ۔ اسی لئے اسلام نے سب سے پہلے معاشرہ کی تطہیر اور مناسب تعلیم پر زور دیا ہے تاکہ خواتین کو صرف جنسی تسکین کا ذریعہ نہ سمجھتے ہوئے انہیں ماں، بہن اور بیٹی کے روپ میں عزت دی جائے ،پھر جنسی جرائم کے تدارک کے لئے حجاب کو لازم قرار دیا ہے جو عورت کی عزت و حرمت کی بہترین علامت ہے ۔ ساتھ ہی اسلامی اصولوں کے مطابق جنسی جذبات کو برانگیختہ کرنے والا لٹریچر، فلمیں، وہ تمام پیشے اور ذرائع جن میں عورت کی بے حرمتی ہوتی ہے ممنوع ہیں۔ اس کے بعد آخری تدبیر کے طور پر سخت سزاؤں کا مرحلہ آتا ہے تاکہ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی جو لوگ جرم کے مرتکب ہوں انہیں سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ دیگر ساری احتیاطی تدبیروں کو بالائے طاق رکھ کر صرف سخت ترین سزا کا مطالبہ ایک واردات کے مجرم کو کیفرِ کردار تک تو پہونچا سکتا ہے ، مشتعل عوام کے جذبات کی تسکین بھی کر سکتا ہے لیکن اس نوعیت کے سنگین جرائم کے دوبارہ ارتکاب کو روک نہیں سکتا۔
سدباب:
آج کی اس بڑھتی ہوئی درندگی کے روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ اسلام کے دامن عفت میں پناہ لی جائے ؛کیوں کہ عورت کی عصمت وعفت کے تحفظ کے لیے دین اسلام نے جو نقطہ نظر پیش کیا ہے اور جو قوانین وضع کئے ہیں وہ ہرقوم و ملت کے لئے قابل دید اور لائق تقلید ہیں ۔چناں چہ خانہ نشینی سے لے کرپردہ وحجاب تک ،مردو زن کے مابین تقسیم کار سے لے کرادائے فرائض وواجبات تک سب میں خواتین کی عزت وآبرو کا تحفظ کیا گیا اور گام بہ گام انہیں پاکدامنی کی تعلیم دی گئی ؛تاکہ صنف نازک کے شکاریوں کو شکار کا پتہ نہ چلے بلکہ اس کی بھنک بھی معلوم نہ ہو۔
اسے زیوروں کی جھنکار کے ساتھ سڑکوں پر چلنے سے منع کیاگیا، بے ضرورت باہر نکلنے اور کمانے کے لیے بازاروں کا رخ کرنے سے روک دیاگیاکہ کہیں کسب معاش کے پردے میں درندہ صفت انسان اس کی آبرو کا سودانہ کرلے ، بال بچوں کے اخراجات؛ بلکہ خود اپنی کفالت اور کسب معاش سے اسے آزاد رکھا گیا تاکہ باہر نکلنے کی ضرورت ہی نہ پڑے ،اگر کسی بھی اہم ضرورت کے پیش نظر نکلنے کی ضرورت ہی آپڑے تو اپنے چہرے کو ڈھانکنے کی تاکیدکی گئی تاکہ 146146چہرے کی رونق کا اظہار145145 اس کی اپنی زندگی کو 146146بے رونق145145 نہ بنادے ، اس کی 146146بے لباسی145145 اقربا ورشتہ داروں کو 146146ذلت کالباس145145 نہ پہنادے ، اگر اپنے سماج اور سوسائٹی سے باہر جانے کی ضرورت پیش آجائے تو اپنی عزت کا سب سے بڑا محافظ ، باپ ، بیٹا ، بھائی، شوہر اور محرم کو ساتھ رکھنے کا حکم فرمایاگیا۔ دوسری طرف مردوں کو بھی نظر یں جھکاکر چلنے کا حکم دیا گیا۔ اجنبیہ کو دیکھنے پر عذاب آخرت اور دہکتی ہوئی آگ سے ڈرایاگیا، انہیں نکاح کی طرف شوق ورغبت دلائی گئی، سن بلوغ کے فوراً بعد نکاح پر ابھارا گیا ، تاکہ پاکدامنی اس کا شیوہ رہے اورجنسی جذبات کووہ اپنے کنٹرول میں رکھ سکے ۔
مہر اور نفقہ کے علاوہ نکاح کو بھاری بھرکم اخراجات اور من مانی خواہشات کے ذریعہ بارگراں نہیں بنایاگیا، نہ تو لمبی چوڑی مجلس اوربڑے مجمع کی نکاح کے انعقاد میں شرط رکھی گئی، نہ ہی محفل عقدمیں قاضی اور جج کی حاضری کو ضروری قراردیاگیا؛بل کہ بہ شرط وسعت ایک بیوی سے اگر تسکین نہ ہوتو چارتک کی اجازت دی گئی، ناموافق حالات پیدا ہوں اور پہلی بیویوں کے ساتھ رہنا دوبھر ہوجائے اور مصالحت بھی رشتہ کو استوار نہ کرسکے تو مردوں کو طلاق اور عورتوں کو خلع کا اختیار دیاگیا۔
یہ اور ان کے علاوہ پچاسوں ایسے احکام ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر عصمت دری کے واقعات پر قابو پایاجاسکتا ہے ۔
عافیت چاہو تو آؤ دامن اسلام میں
یہ وہ دریا ہے کہ جس میں ڈوبتا کو ئی نہیں
محمد ابوبکر عابدی، سیتامڑھی
جدید وسائل ابلاغ کے ذریعے عوامی معلومات، رائے عامہ اور عوامی تفریحات کی باضابطہ اشاعت کا فریضہ انجام دینا صحافت کہلاتا ہے۔
صحافت ایسا فن ہے جس کے ذریعے قوموں اور ملکوں کے مابین باہمی رابطہ ہوتا ہے، اسی کے ذریعے لوگوں کو دنیا بھر کے بدلتے حالات سے واقفیت حاصل ہوتی ہے، قومی ملکی، بل کہ عالمی سطح پر برپا ہونے والے حادثات، سانحات اور واقعات، نیز انسانوں کے سماجی، سیاسی اور اخلاقی صورت حال سے آگاہی ہوتی ہے، صحافت چونکہ تہذیب وتمدن کی اشاعت او ر منصوبوں کی تکمیل کا اہم وسیلہ ہے، آج کل صحافت بہت ترقی کر چکی ہے، اس کا میدان بہت وسیع ہوچکا ہے ، ہر ملک اور ہر زبان میں صحافت پروان چڑھ رہی ہے، ہمارے ملک ہندوستان میں بھی اس پر بہت اہمیت کے ساتھ توجہ دی جاتی ہے، اور مختلف زبانوں میں اس کی تعلیم کا انتظام ہے، اس کی مضبوطی کو نظم وانتظام کی مضبوطی تصور کیا جاتا ہے ، حکومتیں اپنے اقتدار کی بقاء وبالادستی کے لئے صحافت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اس لئے اپنے زیر اقتدار باشندگان کی تمام زبانوں میں صحافت کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے، پھر باشندگان ملک بھی اپنی آواز حکمراں طبقہ تک پہنچانے اور دنیا بھر میں پھیلاکر اس میں مضبوطی لانے کے لئے صحافت کو وسیلہ بناتے ہیں، چونکہ اردو بھی ایک زندہ اور معتبر زبان ہے اوراس زمانے میں برصغیر کے ایک بہت بڑے طبقے کی زبان اردو ہے وہ اپنے روز مرہ کی ضروریات بات چیت درس وتدریس کے لئے اردو زبان ہی کو وسیلہ بناتے ہیں اس لئے اردو میں بھی صحافت نے بلندی کے منازل طے کئے ہیں، عوام وخواص بالخصوص علماء کرا م کی توجہ کی بدولت اردو صحافت مستحکم ہوئی ہے بلکہ اپنے وطن ہندوستان کے بدلتے حالات پہ گہری نظر ڈالنے اور بدلتے حالات کے پیش نظر محسوس ہوتا ہے کہ اس دور میں فضلائے مدارس کا صحافت کی طرف قدم بڑھانا وقت کی اہم ضرورت، اور عصر حاضر کے ایک اہم فریضہ کو انجام دینا ہے، ماضی میں جہاں مدرسوں نے اسلامی ومذہبی صحافت کی ترویج وترقی کے لئے رسائل ومجلات نکالے، وہیں ایسے فضلاء کی بھی ایک بڑی کھیپ تیار ہوئی جنہوں نے اخباری صحافت میں بڑانام کمایا، اور اپنے قلم کی تیغ رانی سے باطل کی پنپتی ہوئی قوتوں کو دھول چٹائی۔
ویسے ہندوستان میں مذہبی صحافت کا آغاز تو بیسوی صدی عیسوی سے شروع ہوا۔ لیکن انیسوی صدی کو چوتھی دہائی سے لے کر اخیر تک ایسے متعدد رسائل ومجلات جاری ہوتے رہے ہیں، جن کا رنگ وآہنگ مذہبی تھا۔ ایک عرصے کے بعد ہندوستان کے مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں باہمی کشاکش شروع ہوگئی؛ چنانچہ ہندوستان میں برہمن سماج اور آریہ سماج والے ایک دوسرے سے بھڑ گئے، اسی طرح مسلمانوں میں طرح طرح کے فرقے وجود میں آئے، جو ہر وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہمہ دم کوشاں رہتے ہیں، کبھی فریق مقابل کو مناظر ے کا چیلینج کرتے، تو کبھی خطابی رزم آرائیاں ہوتیں، اور کبھی رسائل، کتابچے پمفلٹ شائع کئے جاتے، اس طرح سے بھی ہندوستان میں اردو صحافت ترقی کے منازل طے کرتی رہی۔
۱۸۹۷ ء کا وہ پہلا رسالہ ہے جس میں ایک بڑے بریلوی عالم قاضی عبدالواحد عظیم آبادی نے مدرسہ حنفیہ پٹنہ سے سب سے پہلے ایک مذہبی رسالہ تحفۂ حنفیہ کے نام سے جاری کیا، اسی طرح اہل تشیع کے رسائل وجرائد کا آغاز بھی صوبۂ بہار کے ضلع سیوان کے شیعہ مرکز ’’کھجوا‘‘ سے ہوا، ان کا سب سے پہلا رسالہ’’الاصلاح‘‘ ۱۸۹۸ ء میں جاری ہوا۔ اردو کی مجلاتی ومذہبی صحافت کے ارتقا میں مکتب اہل حدیث کے رسائل وجرائد کا اہم کردار رہا ہے، اس مسلک کے ایک بڑے عالم مولانا ثناء اللہ امر تسری نے امرتسر سے ۱۹۰۳ ء میں ’’اخبارِ اہل حدیث‘‘ جاری کیا ، جو ۱۹۴۸ ء تک جاری رہا۔
۱۸۵۷ ء کے معرکہ میں ناکامی کے بعد جب علماء دیوبند نے اپنے طریقۂ کار میں تبدیلی کو اختیار کیا اور دارالعلوم کی داغ بیل ڈالی تو حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگی کا اس میں پورا خیال رکھا گیا اور موقع بموقع مناسب فیصلے لئے گئے،چنانچہ صحافت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اردو زبان میں رسالہ نکالنے کا فیصلہ کیا گیا اور مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ ’’مہتمم دارالعلوم دیوبند کی ادارت میں پہلا پرچہ ’’القاسم‘‘ بہ طور نمونہ کے ربیع الاول ۱۳۲۸ ھ ۔ ۱۹۱۰ ء میں شائع ہوا، اس کے مدیر اعلیٰ مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ نائب مدیر مولانا سید اصغر حسینؒ ، اور سرپرست حضرت شیخ الہندؒ اور حضرت حکیم الامت قرار پائے۔ اس پرچے کا حجم ۳۲/ صفحات کا تھا اور اس میں اداریہ حضرت شیخ الہندؒ اور علامہ شبیر احمد عثمانیؒ وغیرہ کے مضامین کا ہوتا تھا۔ اس شمارے کا مقصد اصلی مسلمانوں کے لئے مذہبی، علمی اور تاریخی معلومات کا صحیح محققانہ ذخیرہ بہم پہچانا اور غلط خیالات کو مٹانا تھا، القاسم کے مقاصد میں یہ بھی تھا کہ اسلام کے نام پر مختلف فرقِ باطلہ کے پھیلائی ہوئی لغویات کا صحیح جواب دیا جائے؛ تاکہ سیدھے سادھے مسلمان ان کی گمراہیوں اور زہر ناکیوں سے محفوظ رہ سکیں اس کے دین وایمان کی حفاظت ہوسکے۔ رسالہ ’’القاسم‘‘ ۱۳۲۸ ھ سے ۱۳۳۹ ھ تک گیارہ سال جاری رہا۔ اور مختلف وجوہات کی بناء پر موقوف ہوگیا۔ پھر دوسری بار یہ رسالہ ۱۳۴۳ ھ سے ۱۳۴۷ ھ تک جاری ہوا۔ اور۱۳۴۷ ھ میں دوبارہ موقوف ہوگیا۔
اسی طرح دوسرا رسالہ (بہ یاد گار حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ) ’’الرشید‘‘ کے نام سے رجب ۱۳۳۲ ھ مئی ۱۹۱۴ ء میں جاری کیا گیا، اس رسالہ کے مدیر اعلیٰ حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ نائب مدیر مولانا سید اصغر حسینؒ تھے، او ریہ رسالہ سات سال تک پابندی سے شائع ہوتا رہا اور جمادی الآخر ۱۳۲۹ ھ ۔ مارچ ۱۹۲۰ ء میں بند ہوگیا ان رسائل کے علاوہ حاملین فکر دیوبند کے اور بھی کئی رسالہ شائع ہوتے رہے اور صحافت کو فروغ دیتے رہے،۔
اردو صحافت کے فروغ وارتقا میں ندوۃ العلماء کا رول بھی انتہائی اہم اور قابل قدر ہے، ندوے نے اپنے قیام کے بعد پے در پے کئی ایک اردو عربی رسالے نکالے، اور ۲۲/ جولائی ۱۹۰۲ ء ۔ ربیع الاول ۱۳۲۰ ھ میں ندوے سے سب سے پہلا رسالہ ’’الندوہ‘‘ شائع ہوا،یہ رسالہ بنیادی طور پر ان تمام اصولوں اور افکار وخیالات کا آئینہ دار تھا، جو ندوۃ العلماء کے بانیین کے ذہنوں میں کار فرما تھا۔ ’’الندوہ‘‘ کی کل مدت اشاعت تقریباً ۱۴/سال کے عرصے کو محیط ہے۔ ’’الندوہ‘‘ کو بند ہوئے جب ایک زمانہ بیت چکا تھا تو ۱۰/ نومبر ۱۹۶۳ ء کو ایک پندرہ روزہ رسالہ ’’تعمیر حیات‘‘ کے نام سے شروع کیا گیا اور اس کی ادارت مولانا محمد الحسنی کے سپرد کی گئی، اور آج یہ اپنی گونا گوں خصوصیات کی وجہ سے بر صغیر کے مشہور ومقبول ترین رسالوں کی صفِ اول میں رکھے جانے کے قابل ہے۔
فی الوقت ایسے مجلات ورسائل کی تعداد اچھی خاصی ہے، جو دارالعلوم دیوبند کے فکر ومزاج کے مطابق سرگرم عمل ہیں، اور ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے مدارسِ اسلامیہ سے شائع ہورہے ہیں،لیکن ان میں سب سے قدیم رسالہ ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘ ہے۔ یہ رسالہ ماہ وسال کی طویل ترین مسافت طے کرچکا ہے، لیکن اس سے پہلے دارالعلوم دیوبند سے دو رسالے’’القاسم‘‘ اور ’’الرشید‘‘ نکل چکے تھے،جو اپنے مشمولات اور مضامین کی جامعیت کی وجہ سے عوام وخواص میں قبول عام حاصل کرچکے تھے ،بالآخر بیس سالہ وقفہ کے بعد حضرت مولانا محمد قاری طیب صاحب نوراللہ مرقدہ (سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند) کے زیر نگرانی ’’دارالعلوم‘‘ کے نا م سے پھر ایک ماہنامہ کا اجرا کیا گیا۔ جس کا پہلا شمارہ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۰ ھ۔ مئی ۔ جون ۱۹۴۱ ء کو منظر عام پر آیا۔ موقع بموقع مختلف حضرات اس کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے فی الحال اس کی ذمہ داری حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری کے سپرد ہے، اور مہتمم صاحب کی نگرانی میں یہ رسالہ پابندی سے شائع ہورہا ہے۔
ویسے تو اب متعدد اداروں سے اردو زبان میں سیکڑوں ہزاروں رسائل واخبارات طبع ہوتے ہیں اور صحافت کے فروغ، اصلاحی کردار، تمدن کی تہذیب میں ان کا اہم کردار ہے، نیز ان سے شائع ہونے والی رسائل ومجلات میں عالمی وملکی سطح کے سیاسی مسائل اور دیگر عصری موضوعات پر بھی انتہائی بصیرت مندانہ تجزیے ہوتے ہیں، جن سے فضلائے مدارس کی عصری آگہی اور ان کے فکری افق کی وسعت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، اور ہندوستان کی اخباری صحافت میں فضلائے مدارس کی کثیر تعداد نظر آرہی ہے، جس کی وجہ سے اردو صحافت’’زعفرانی اثرات‘‘ لسانی، فحش کاریوں‘‘ اور فکری انحرافات سے کچھ حد تک پاک نظر آتی ہے، مگر چوں کہ موجودہ زمانہ میں اسلام دشمن عناصراور بالخصوص اہل مغرب نے اس کے ذریعہ کے سے پوری دنیا میں منفی اثرات کو فروغ دینے او راپنے عزائم کی تکمیل کے لئے پورے عالم کی گھیرا بندی کرلی ہے، نیز عالم اسلام کے باشندوں کے دلوں سے روحِ محمدی کو نکالنے میں مصروف ہے، چنانچہ آج عالم اسلام پوری طرح مغرب کی تہذیبی وثقافتی یلغار کی زد میں ہے، اسی لئے موجودہ زمانے میں اس کی زہر ناکیوں سے نمٹنے کے لئے صحافت کا عمومی ارتکاز مذہبی امور پر دینا حد درجہ ضروری ہوگیا ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ فرزندانِ مدارس کا میدان صحافت میں آکر کام کرنا وقت حاضر کی بہت اہم ضرورت بن گیاہے۔
خلاصہ یہ کہ دور حاضر میں ملک وبیرون ملک میں اردو صحافت کی ترقی اور ترویج واشاعت میں مدارس اسلامیہ کا اہم رول ہے، جس کا انکار آفتاب نیم روز کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔
متعلم شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند
8218206330
توصیف القاسمیؔ، پیراگپوری، سہارن پور
محترمہ!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ سپریم کورٹ کی وکیل ہیں اور ’’مسئلہ تین طلاق ‘‘ میں موجودہ مودی گورنمنٹ کی اُن کی اُمیدوں سے بڑھ کراُن کی حمایتی ہیں آپ اس مسئلہ میں دارالعلوم دیوبند ، مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیت علماء ہند کے موقف کی سخت مخالف ہیں۔
یوٹیوب پر موجود ویڈیوز میں آپ نےدارالافتاء، دارالقضاء کوبین کرنے کی مانگ کی ہے۔ آزادیٔ اظہار رائے (Freedom of Expression)کے اس زمانے میں کسی بھی انسان کو حق حاصل ہے کہ اپنی رائے کا اظہار کرے۔ لیکن عقل مند انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اختیارکردہ رائے صحیح ہے یا غلط ؟ اس کامدار زبان زوری، قانونی اور ٹیکنیکل الفاظ کے مجموعے پر نہیں ہوتا بلکہ رائے کا صحیح اور غلط ہونا مکمل طورپر ’’نتائج ‘‘ پر منحصر ہے۔ بعد کے نتائج اگر صحیح ہیں تو رائے بھی صحیح تھی اور اگر نتائج برعکس طورپر غلط اور نقصان دہ ہیں تو ’’رائے ‘‘ بھی غلط تھی اسی لیے بڑے آدمی کہتے ہیں کہ ’’ہوشیار آدمی کو لازم ہے۔ کام کا پہلے سوچ لے انجام۔‘‘
اسلام کا عائلی نظام (Islamic Family Law)اس قدر مضبوط بنیادوں پر استوار کیاگیاہے کہ وہ 14سوسال سے دنیا کے 1/3 حصے پر قائم ہے۔ رہی بات طلاق بدعت کی؟ جس پر آپ کو اعتراض ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ طلاق بدعت کی ذیلی تشریحات و تعبیرات میں مختلف احوال کے مطابق نفاذ اور عدم نفاذ کی گنجائش روز اوّل سے ہی رکھی گئی ہے۔ کاش کہ تم زبان کھولنے سے پہلے مختلف اسلامی مفکرین کی کتابوں کا مطالعہ کرلیتی!
محترمہ مسلم کاز کے خلاف زبان کھولتے ہوئے آپ نے کئی اہم تفصیلات و حقائق Facts & Figuresکو نظرانداز کردیا (1)مسلمانوں میں طلاق کی شرح دوسری کسی بھی کمیونٹی سے کم ہے (2) طلاق و نکاح ایک مذہبی معاملہ ہونے کی وجہ سے عبادت ہے، حکومت کی ادنیٰ سی بھی دخل اندازی دین خداوندی میں شکوک و شبہات کا دروازہ کھول دے گی (3) طلاق کی کثرت جن مسلمانوں میں ہے وہ تمام کے تمام مذہب بیزار ہیں یا دین سے صرف عید کے دن کا واسطہ ہے (4)طلاق کے 99فیصد کیسز کی بنیاد میں زوجین کی طرف سے کوئی نہ کوئی بڑا گناہ ضرور ہوتاہے اور وہی گناہ طلاق کا سبب بن جاتاہے مثلاً : شراب، ناجائز تعلقات ، بچوں کی کفالت نہ کرنا، مارپیٹ، عورت کا زبان زور ہونا وغیرہ۔ محترمہ فرحہ فیض اِن تمام گھریلو حرام کاریوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے ناکہ اسلامی فیملی لاء کو شراب وخنزیر سے تیار شدہ عقل کے ہاتھوں میں دینے کی۔ میری بہن فرحہ فیض صاحبہ آپ نے دارالقضاء کو بین کرنے کا بھی مطالبہ کیاہے جنھوں نے مسلمانوں کے عائلی مسائل کو آسان اور مفت میں حل کرنے کا بیڑہ اُٹھایا ہوا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے قائم دارالقضاء میں تبدیلی اور کچھ حذف و اضافہ کرکے ان کو مزید متحرک کرنے کا خواہش مند میں بھی ہوں لیکن ان کو Ban کرنے کی بات کرنا اور عائلی کیسز کو سیکولر عدالتوں میں دائرکرنے کی نمائندگی کرنا مسلم مردوں اور مسلم عورتوں کو زناکاری کی طرف دھکیلنا ہے۔ مسلم فیملی شرعی ومذہبی بندھن کی وجہ سے جن مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں ، ان کی چولیں ہلادینا ہے۔ ہماری مائیں اور بہنیں دولت کے پجاری نظام عدالت کے کل پرزوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جائیںگی؟؟؟ سوچئے تو سہی۔
فرحہ فیض آپ نے مسلم کاز کی مخالفت کرتے ہوئے عدالتوں کے نظام کو غور سے دیکھا ہوتا اور انجام کو دیکھ کر رائے قائم کی ہوتی؟ آپ سوچئے تو سہی کیا سیکولر عدالتوں سے انصاف مل پانا اتنا ہی آسان ہے؟ کیا آج بھی دس دس سال ٹھوکریںکھانی نہیںپڑتی؟ کیا موجودہ عدالتی نظام صرف اور صرف دولت مندوں کی گزرگاہ نہیں ہے؟ کیا آج بھی اپنا ہی حق وصول کرنے کے لیے مقبوضہ حق کی قیمت سے زیادہ دولت عدالتی کارروائی کے نام پر کالے کوٹ اور خاکی وردی والوں کو نہیں دینی پڑتی؟ کیا آج بھی عدالتی کارروائی اور تحقیق و تفتیش کے نام پر بے گناہوں کو بیس بیس سال سلاخوں کے پیچھے نہیں رکھاجاتا؟
محترمہ ! کس بنیاد پر آپ دارالقضاء و دارالافتاء کو بین کروانا چاہتی ہیں؟ محترمہ اگر ایسا ہوجائے اور تمام فیملی کیسز سیکولر عدالتوں میں پہنچنے شروع ہوجائیں تو انصاف تو بیس سال بعد ملے گا تب تک یہ تمام فیملی اپنا ایمان ، اپنی دولت، اپنی پاک دامنی سب کچھ دائوں پر لگاچکی ہوںگی۔ دولت اور طاقت پرایک فرقے کے قابض ہونے کی موجودہ صورت میں انجام کیا ہوگا؟ محترمہ بیرون عدالت مصالحت کرادینا نہ صرف قرآن کا واضح حکم ہے بلکہ بابائے قوم مہاتما گاندھی بھی بیرون عدالت مفاہمت اور مصالحت کے زبردست حامی تھے۔
میری بہن! تم انسانی دماغ کے تیار کردہ وہ قوانین، جن کی ابتدا مذہب بیزاری ہے تو انتہا 3136956کی شکل میں سپریم کورٹ میں پینڈنگ میں پڑے ہوئے مقدمات ہیں، __ کے پیچھے نہ پڑکر بیرون عدالت مسلم فیملیوں کے کیسز حل کرانے کی کوشش کرو جہاں تم دنیامیں انبیائے کرام کے مشن کو زندہ کرنے والی بنوگی اور آخرت میں حضرت فاطمہؓ اور حضرت خدیجہؓ کی ہم رکابی کا شرف حاصل ہوگا۔
میری بہن! آپ کو حقیقت میں اگر مسلم عورتوں کی فکر ہے تو آپ ’’طلاق کیوں ہوتی ہے؟‘‘ اس سوال کی گہرائی میں جائیے ، آپ دیکھیںگی کہ خاوند کی شراب نوشی، خاوند کے ناجائز تعلقات جس کو سیکولرعدالتیں جائز کہتی ہیں اور اسلام حرام۔عورتوں کی ہائی پروفائل لائف اسٹائل کی خواہش، جہیز کی زیادتی، برداشت کا نہ ہونا، ایک دوسرے کے ساتھ ذلّت آمیز رویہ وغیرہ یہ سب وہ اسباب ہیں جو بڑھتے بڑھتے طلاق تک پہنچ جاتے ہیں۔
میری بہن! آپ اپنی تمام تر طاقت ان تمام بیماریوں سے پاک معاشرے کی تشکیل میں لگادیجیے، کسی بھی مسلم بہن کا سہاگ نہ اجڑے ، اس کے لیے 7سال کی قیدنہیں بلکہ 70سال کی زمینی محنت کی ضرورت ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ آدھا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتاہے۔ ہمارا مسلم سماج اسی کہاوت کا مظہر ہے۔ مسلم سماج کو ’’اسلام ‘‘ عید کے دن یا طلاق دیتے وقت ہی یاد آتا ہے، باقی 364 دن اسلام طاق نسیان میں قید ہے۔ یہی دورنگی پالیسی ہمارے مسائل کی اصل بنیاد ہے نہ ہم ایمان کی حلاوت کا ذائقہ چکھتے ہیں اور نہ کفر کی بے قید و بے لگام مستیاں ہمارے حصے میں آتی ہیں ہمارا مسلم سماج ایمان و کفر کے درمیان جھوجتا رہتا ہے۔
فرحہ فیض! کتنا اچھا ہوکہ آپ اسلام کو ’’عید ‘‘کے دن کے محدود وقت سے نکال کر پورے 365دن تک اس کا دائرہ وسیع کردیں، کتنا اچھا ہو کہ آپ مسلم خواتین کو فلمی دنیا کی پیدا کردہ ’’مصنوعی دنیائے حسن و جمال ‘‘ سے نکال کر حقائق کی دنیا میں زندگی گزارنے کے طور طریقے سکھائیں۔
فرحہ فیض! مسلم سماج میں طلاق کا فیصد بہت کم ہے، کتنا اچھا ہو کہ آپ محنت کرکے زیرو فیصد تک پہنچادیں۔
میری بہن فرحہ فیض! آج آپ مسلم کاز کو نقصان پہنچاکر اپنی ہی قوم کے دانشوروں کے خلاف کھڑی ہوگئیں، جن علماء نے ،آپ کے کانوں میں اذان اور تکبیر دی ہوگی، ان ہی کے منھ پر طمانچہ دے مارا۔
فرحہ فیض! کتنا اچھاہوتاکہ آ%
موبائل:8860931450
نایاب حسن
چھوڑگیامجھ کو علوی
شاید وہ جلدی میں تھا
یہ شعراردوکے نابغہ شاعرمحمد علوی کاہے،جوآج مرحوم ہوگئے،ویسے تو علوی صاحب جلدی نہیں گئے،کہ 1927سے2018کی مدت یقیناً کم نہیں ہے،مگر ان کے جیسے زرخیزذہن،خلاق طبیعت اور قطرے میں دجلہ دیکھ لینے کی صلاحیت سے لیس شاعر کاجانایقیناً جلدی ہی جانا ہے۔انھیں پہلی بار دوسال قبل جشنِ ریختہ میں سنا،پھرپڑھا،ان کے شعروں میں بڑی واقعیت اور حقائقِ زندگی کی سچی تصویریں ہیں،سادے لفظوں ،چھوٹی بحروں،ہلکی پھلکی تعبیروں میں بڑی سے بڑی بات کہہ دیتے ہیں،مثال کے طورپراوپرکاشعرجس غزل کاہے،اس کے بقیہ اشعار دیکھ لیجیے:
کیا کہتے کیا جی میں تھا
شور بہت بستی میں تھا
پہلی بوند گری ٹپ سے
پھر سب کچھ پانی میں تھا
چھتیں گریں گھر بیٹھ گئے
زور ایسا آندھی میں تھا
موجیں ساحل پھاند گئیں
دریا گلی گلی میں تھا
میری لاش نہیں ہے یہ
کیا اتنا بھاری مَیں تھا
آخر طوفاں گزر گیا
دیکھا تو باقی مَیں تھا
محمودایازنے محمد علوی کے پہلے شعری مجموعہ’’خالی مکان‘‘کے پیش لفظ میں لکھاتھاکہ’’علوی بچوں کی طرح شاعری کرتے ہیں‘‘،جس کی تشریح شمس الرحمن فاروقی نے ان کے دوسرے شعری مجموعہ’’آخری دن کی تلاش‘‘کے پیش لفظ میں یوں کی کہ’’ ان کا ذوقِ تجسس وتحیر آج بھی اتناہی تازہ ہے،جتناننھے بچوں کا ہوتا ہے،جو ہرنئی چیزکو شوق اور دلچسپی سے دیکھتے ہیں اور اس سے ایک معصوم اور بے غرض مسرت حاصل کرتے ہیں‘‘۔محمودصاحب نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’علوی احساس اور آنکھ کے شاعرہیں‘‘۔اول الذکرکتاب کا سنِ اشاعت1963ہے اور ثانی الذکرکا1968،ہم نے انھیں جب پہلی بارعلوی صاحب کو شعرپڑھتے اور انھیں محسوس کرتے ہوئے دیکھا،تو یقین ساہوگیا کہ سترپچہترسال بعدبھی وہ بچوں ہی کی طرح معصوم،متجسس اور بے غرض ہیں،مولانا دریابادی کی تعبیر’’پیرِ نابالغ‘‘کے مصداق!مذکورہ مجموعوں کے علاوہ’’تیسری کتاب‘‘،’’چوتھاآسمان‘‘،’’خالی مکان‘‘،’’رات ادھرادھرروشن‘‘بھی ان کے اہم شعری مجموعے ہیں،آخرالذکرکتاب کی ضخامت لگ بھگ پونے چھ سوصفحات ہے۔محمد علوی کے فکر و فن پر اسی کی دہائی میں ہی ایک دلچسپ کتاب’’محمد علوی:ایک مطالعہ‘‘کے نام سے کمارپاشی نے مرتب کی تھی،جس میں مجتبیٰ حسین،زبیر رضوی،مخمورسعیدی،شمیم حنفی،شمس الرحمن فاروقی،وزیر آغا،حامدی کاشمیری،عتیق اللہ،ابوالکلام قاسمی ،وارث علوی،مغنی تبسم،بلراج کومل وغیرہم کے مضامین ،تجزیے ،تاثرات وغیرہ شامل تھے۔اس کے علاوہ بھی ان کی شخصیت و شاعری پر کافی کچھ لکھا گیا ہے۔
بہرکیف وہ اس وقت ہندوستان ہی نہیں ،پوری اردودنیاے ادب و شعرکے نابغہ وممتازشاعر تھے،خداے پاک انھیں اپنی رحمتوں سے نوازے۔
تازہ ترین، سلسلہ 97
فضیل احمد ناصری
ہر سمت اپنے خون کا نیل و فرات ہے
اپنا وطن ہے یا کوئی دشمن کی گھات ہے
پھیلی ہوئی ہے ملک میں اندھیر اس قدر
کھلتا نہیں کسی پہ، یہ دن ہے کہ رات ہے
ہم نے تو دل تمہاری ہتھیلی پہ رکھ دیا
مانو نہ تم ہنوز تو یہ اور بات ہے
لازم ہے تم پہ رہروو! ہر گام احتیاط
ہر ہر قدم بلائے کثیر الجہات ہے
چیخیں ہیں،اشکِ غم ہیں،لہو کی ہیں ندیاں
بھر پور مشکلات سے کل کائنات ہے
ہر وہ ستم شعار ہے، قاتل بنا ہوا
جس کی بھی دست رس میں قلم اور دوات ہے
اپنے جواں مشاعرہ گاہوں میں کیوں نہ جائیں
شعری نشست جلوہ گہِ شاعرات ہے
مسلم ہیں کفروفسق کی طغیانیوں میں گم
عالم میں آج غلبۂ لات و منات ہے
اے مومنو! رسولؑ کے دامن کو تھام لو
ان کی ہی ذات مشعلِ راہِ نجات ہے
مودی نے غیر مقیم ہندوستانیوں کو شناخت دینے پر یورپی یونین کا شکریہ ادا کیا
نئی دہلی، 28 جنوری (قندیل نیوز)
وزیراعظم نریندر مودی نے یورپ کے مختلف حصوں میں رہ رہے غیر مقیم ہندوستانیوں کو الگ شناخت دینے پر یورپی یونین کاشکریہ ادا کیا ہے۔مسٹر مودی نے آکاشوانی پر اپنے پروگرام من کی بات کے 40ویں ایڈیشن میں ملک کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بار یورپی یونین نے ایک کیلینڈر بھیجا ہے،جس میں انہوں نے یورپ کے مختلف ملکوں میں رہ رہے ہندوستانیوں کے ذریعہ مختلف علاقوں میں ان کے تعاون کو ظاہر کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہندوستانی نژاد کے لوگوں کو شناخت دینے کے لیے اوران کے ذریعہ سے دنیا بھر کے لوگوں کو اطلاع دینے کیلئے بھی میں اس قابل ذکر کام کے لیے یورپی یونین کاشکریہ ادا کرنا چاہوں گا ۔
نئی دہلی،28؍جنوری (قندیل نیوز)
سابق وزیر خزانہ اور کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے اتوار کو روزگار کے معاملے پر مودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔چدمبرم نے ٹویٹ کرتے ہوئے مودی حکومت پر نئے روزگار پیدا کرنے کے وعدے کو پورا نہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔پی چدمبرم نے اس بیان پر بھی طنز کیاجس میں پی ایم مودی نے پکوڑہ بیچنے کو بھی روزگار بتایا تھا۔چدمبرم نے ٹویٹ کیاکہ اگر پکوڑے فروخت کرنا بھی کام ہے تو پی ایم کے اس دلیل کے مطابق بھیک مانگنابھی کام ہے۔پھر تو زندگی بسر کرنے کے لئے غریب اور بے سہارا لوگوں کو بھی نوکری پیشہ سمجھا جانا چاہئے۔واضح رہے کہ مودی نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر کوئی کسی دفتر کے باہر پکوڑے بھی فروخت کرتا ہے تو کیا اسے روزگار نہ مانا جائے؟ پی ایم مودی کے اس بیان کا اپوزیشن کے رہنماؤں سمیت سوشل میڈیا پر خوب مذاق بھی بنایا گیا تھا۔چدمبرم نے منریگا، کرنسی منصوبہ بندی اور حکومت کے دیگر منصوبوں کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں ناکام قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کرنسی کی منصوبہ بندی میں 43ہزار کا لون لے کر ایک شخص کو روزگار پیداکرنے کا دعوی کیا گیا تھا لیکن ایسا کوئی شخص نہیں لگتا جس نے اتنے سرمایہ کاری میں ایک بھی روزگار پیدا کیا ہو۔منریگا میں روزگار دینے کے وعدے پر چدمبرم نے کہا کہ ایک مرکزی وزیر چاہتے ہیں کہ منریگا مزدوروں کو نوکری پیشہ سمجھا جائے، اس کے مطابق تو وہ مزدور 100دن تک نوکری پیشہ ہیں جبکہ باقی 265دن بے روزگار۔سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ فی الحال ملک میں ملازمت نہیں ہے، حکومت بھی روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے میں ناکام ہے۔
نئی دہلی،28؍جنوری (قندیل نیوز)
ہندوستانی ریل کی کنونشن کمیٹی نے بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کی ایک اعداد و شمار تیار کی ہے۔اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ گزشتہ سال دو کروڑ سے زیادہ مسافروں نے بغیر ٹکٹ سفر کیا۔کنونشن کمیٹی نے گزشتہ دسمبر میں’ہندوستانی ریلوے محتاط رپورٹ‘کے تحت یہ معلومات لوک سبھا میں پیش کی تھی۔واضح رہے کہ بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کو پکڑے جانے پر 935.64کروڑ روپے کی رقم بھی حاصل ہوئی۔ حالانکہ کمیٹی سال 2016-17 کے دوران ہندوستانی ریل میں بغیر ٹکٹ یا غلط ٹکٹوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے پکڑے گئے افراد کی ضرورت سے زیادہ تعداد سے فکر مند ہے۔قابل ذکر ہے کہ 2015-16 میں 1.9 کروڑ لوگ بغیر ٹکٹ یا غلط ٹکٹوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ بغیر ٹکٹ مسافر شمالی ریلوے میں پکڑے گئے جن کی تعداد 26.40 لاکھ تھی۔اس کے بعد جنوبی وسطی ریلوے میں 25.86 لاکھ، وسطی ریلوے میں 24.24 لاکھ، مغربی ریلوے میں 20.24 لاکھ، مشرقی وسطی ریلوے 18.62 لاکھ، شمالی وسطی ریلوے 16.56 ملین اور شمال مشرق ریلوے میں 12 ملین بغیر ٹکٹ مسافر پکڑے گئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں تک گزشتہ سال بغیر ٹکٹ مسافروں سے وصولی کا تعلق ہے، 125.13 کروڑ روپے کی وصولی کے ساتھ وسطی ریلوے اس فہرست میں سب سے اوپر ہے۔اس کے بعد 116.52 کروڑ روپے کی وصولی کے ساتھ شمالی ریلوے کا نمبر آتا ہے۔
اس کے بعد مغربی ریلوے میں 95.86 کروڑ روپے، شمالی وسطی ریلوے میں 84.09 کروڑ روپے، مشرقی وسطی ریلوے 72.52 کروڑ روپے اور شمال مشرق ریلوے سے 60.80 کروڑ روپے وصول کئے گئے۔دیگر تمام زونل ریلوے سے 50 کروڑ روپے سے کم کی وصولی کی گئی ہے۔واضح رہے کہ ہندوستان میں روزانہ 12 ہزار ٹرینوں سے تقریباً 2.5 کروڑ لوگ سفر کرتے ہیں۔ ہندوستانی ریلوے کے تحت تقریبا65 ہزار کلومیٹر روٹ احاطہ ہوتا ہے۔لوک سبھا میں حکومت کی جانب سے پیش اعداد و شمار کے مطابق ریل ٹکٹوں سے ہندوستانی ریلوے کو سال 2015-16 میں 45,324 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی جو 2016-17 میں بڑھ کر 47,678 کروڑ روپے ہو گئی۔
مسلم پرسنل لابورڈکی خواتین ونگ کے زیراہتمام اجلاس عام کاانعقاد!
نئی دہلی: ۲۸؍جنوری (قندیل نیوز)
ویمنس ونگ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی جانب سے خواتین و طالبات کیلئے ’’تین طلاق بل کی مخالفت میں‘‘ ایک عظیم الشان اجلاس عام مؤرخہ ۲۸؍ جنوری۲۰۱۸ء بروز : اتوار، بمقام : ملی ماڈل اسکول، نئی دہلی ،اوکھلا، ۲؍ بجے دن ، زیر صدارت : ڈاکٹر اسماء زہرہ صاحبہ، مسؤلہ ویمنس ونگ آل آنڈیا مسلم پرسنل لا بورڈمنعقد ہوا۔اس عظیم الشان اجلاس عام کا آغاز محترمہ آمنہ رضوان مومناتی صاحبہ رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔محترمہ ممدوحہ ماجد صاحبہ، رکن عاملہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ طلاق کے واقعات مسلمانوں میں بہت کم ہیں ،یہ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں بلکہ اس کو سوچی سمجھی سازش کے تحت مسئلہ بنایا جارہا ہے۔میڈیا میں اسے غیر ضروری بڑھا چڑھا کر اچھالا جارہا ہے۔تین طلاق بل بچوں او ر عورتوں کیلئے ایک مصیبت ہے۔شوہر جب جیل چلاجائیگا تو انکے نان و نفقہ کا ذمہ دار کون ہوگا۔ یہ بل سراسر ناقص اور کمزور ہے اور اس بل میں کئی تضاد ہے، یہ بل مسلمانوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔ڈاکٹر آصفہ نثار صاحبہ، کونسلر مسلم ویمن ہلپ لائن ،بنگلور ،کرناٹک نے اجلاس عام میں خواتین و طالبات کو مسلم ویمن ہلپ لائن کی کارکردگی سے واقف کروایا اور اسکا تعارف پیش کرتے ہوئے اب تک جو خدمات اسکی رہی ہیں خواتین کو اس سے واقف کرایا۔لکھنؤ سے تشریف لائیں مسلم پرسنل لا بورڈ کی اہم رکن محترمہ آمنہ رضوان مومناتی صاحبہ نے اجلاس عام کو مخاطب کرتے ہوئے ’’ مسلم پرسنل لا کے تعارف اور تاریخ پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ہمارا مسلم پرسنل لا بورڈ اس وقت ہند میں سرمایہ ملت کے نگہبان کی حیثیت رکھتا ہے، اس ادارہ کا قیام ہی تحفظ شریعت کی خاطر ہواہے، ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم مسلم پرسنل لا بورڈ کی ا ٓواز پر لبیک کہیں اور اپنے گرمجوشانہ تعاون کے ساتھ اس ادارہ کے ذمہ دار جو اس وقت اس ملک کی سسکتی و بلکتی ملت کے نبض شناس قائدین ہیں، ان پر بھروسہ رکھیں اور کاندھے سے کاندھا ملا کر بورڈ کی آواز پر لبیک کہیں ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریںگی اس ملک میں شریعت کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے اور ایمانی فریضہ بھی ہے۔ڈاکٹر مہہ جبیں ناز صاحبہ پٹنہ بہار سے تشریف لائیں انہوں نے اجلاس عام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن پا ک میں اللہ تعالیٰ نے نکاح ، طلاق، وراثت اور ازدواجی زندگی کے بارے میں بہت کھول کر احکام بیان کئے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہیکہ اس کا غور سے مطالعہ کریںاور سمجھیں اور اس پر خود بھی عمل کریں، گھروالوں کو عمل کرانے کے ساتھ ساتھ اپنے سماج گائوں اور محلوں میں اسکی کوشش کریں جب تک ہم شریعت پر خود مضبوطی سے عمل نہیں کریںگے اس وقت تک شریعت کا بچائو ممکن نہ ہوگا۔محترمہ نگہت پروین خان صاحبہ نے کہا کے ہماری ہمدردی کی اتنی باتیں کہیں جارہی ہیں ذرا ملک کی صورتحال کا بھی جائزہ لیں۔ خواتین کے خلاف کتنے مظالم ہورہے ہیں، ریپ ہورہے ہیں مرڈر ہور ہے ہیں، ہریانہ میں بچیوں کی کیا صورتحال ہے کیا اس کی فکر نہیںہے، خواتین کی مجموعی فکر چھوڑ کر صرف مسلم خواتین کی ہمدردی کی بات کہہ کر یہ حکومت کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں اور اس وقت ہمارے ملک میں ایک بڑی تعداد ان بہنوں کی ہے جن کے شوہروں نے انہیں الگ کررکھا ہے نہ طلاق دیتے ہیں نہ نان و نفقہ دیتے ہیں، ان کے لئے پہلے حکومت کو اقدام کرنا چاہئے۔
محترمہ عطیہ صدیقہ صاحبہ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اللہ کا بنایا ہوا قانون ہر طرح سے متوازن، مرد اور عورت دونوں کے لیے رحمت جن ممالک میں empowerment کے نام پر قوانین بدلے جارہے ہیں عورت مزید مصیبت کا شکار ہو رہی ہیں۔اجلاس سے خطاب کرتی ہوئی محترمہ مہرالنساء صاحبہ نے کہا کہ دستورمیں دیئے گئے مذہبی حقوق کی آزادی کے مطابق ہم شریعت اسلامی میں کسی قسم کی مداخلت کو برداشت نہیں کریںگے، یہ ہمارا دستوری اور جمہوری حق ہے اور اس حق کو ہم ہرحال میں لے کر رہیںگے۔صدر جلسہ محترمہ ڈاکٹر اسماء زہرہ صاحبہ ،مسؤلہ ویمنس ونگ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مسلمانوں کی تعلیم و ترقی سے زیادہ حکومت کو مسلمانوں کے ایمان و عقائد اور اصول شریعت میں مداخلت کرنے ،مسلمانوں کے خاندانی نظام کو تہس نہس کرنے میں دلچسپی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دوسرے سماج اور خاندانوں میں اس وقت جو تباہی مچی ہوئی ہے۔ اسی طرح حکومت چاہتی ہے کہ مسلم سماج اور خاندانوں کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچادیاجائے۔انھوں نے کہا کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ ہورہا ہیکہ ایک سول کنٹراکٹ کو کریمنل ایکٹ بنایا جارہا ہے۔ کہا تو یہ جارہا ہیکہ مسلم خواتین کو مسائل سے آزادی دلائینگے۔ بے تکی، بے ڈھنگی لاقانونیت کے قانون کو لاکرمسلمانوں پر مسلط کرنے کی کوشش ہے۔ اس ملک کے مسلمانوں نے 5 کروڑ دستخطیں مسلم پرسنل لا کی تائید میں دئیے اور واضح انداز میںکہا کہ شریعت اسلامی میں کسی بھی طرح کی مداخلت برداشت نہیں کرینگے۔ انھوں نے کہا کہ بغیر علماء کرام سے پوچھے عجلت میںپارلیمنٹ میں تین طلاق بل کو لایا گیا۔ جس کیلئے قانون بنایاجارہا ہے ان سے پوچھا بھی نہیں جارہا ہیکہ ان کی رائے کیا ہے۔ پریس و میڈیامیں ایسی نام نہاد مرتد خواتین کو لاکرہوّا کھڑاکرکے جھوٹے پروپگنڈے کئے جارہے ہیں۔ایسے وقت ہم مسلم خواتین کی ذمہ داری ہیکہ شریعت کی تائید میں اور تین طلاق بل کی مخالفت میں جمہوری طریقہ پر احتجاج کریں۔شریعت ہماری پسند ہے۔ مجبور ی نہیں۔اسلام کی اس نعمت کا ہم آخری دم تک حفاظت کریںگے۔اس اجلاس میںاتر پردیش، ویسٹ بنگال، ٹاملناڈو، کرناٹک،تلنگانہ،مہارشٹرا،مدھیہ پردیش،بہار، پٹنہ،اور دیگر ریاستوں کی خواتین نے بھی شرکت کیں۔ڈھائی ہزار سے زائد خواتین و طالبات اس اجلاس عام میںشریک ہوئیں اور متفقہ طور پردرج ذیل قرارادادمنظور کی گئی:۱۔ہم مسلم خواتین مسلم پرسنل لا میں کسی بھی قسم کی مداخلت کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔۲۔ہم مسلم خواتین راجیہ سبھا میں زیر بحث تین طلاق بل کو غیر دستور ی ، غیر قانونی نیز عورتوں اور بچوں پر ظلم و زیادتی قرار دیتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے فوری واپس لیا جائے۔۳۔ہم مسلم خواتین صرف اور صرف اپنے تمام معاملات و مسائل میں مسلم پرسنل لا چاہتی ہے اور ہم سب مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہیں۔ اور یہ اجلاس کامیابی کے ساتھ شام پانچ بجے اختتام پذیر ہوا۔
[7:19 PM, 1/28/2018] Nayab Hasan:
تازہ ترین، سلسلہ 96
فضیل احمد ناصری
صحرا نہ رہے گا، یہ گلستاں نہ رہے گا
دنیا میں اگر صاحبِ ایماں نہ رہے گا
حالات کا طوفان رکا ہے، نہ رکے گا
مسلم ہی اگر حاملِ قراں نہ رہے گا
بیزارئ مذہب نے اگر ساتھ نہ چھوڑا
دنیا میں کہیں عیش کا ساماں نہ رہے گا
بن جائے طبیعت تری، یوسف کی طبیعت
تاریک ترے واسطے کنعاں نہ رہے گا
اٹھّے نہ اگر خوابِ گراں سے یہ مسلماں
اسلام کا پرچم بھی نمایاں نہ رہے گا
مسند بھی تمہاری ہے ہمارے ہی کرم سے
عالَم نہ رہے گا، جو مسلماں نہ رہے گا
اے دوستو! اس آتشِ نفرت کو بجھاؤ
ورنہ یہ محبت کا دبستاں نہ رہے گا
وابستۂ اســــــــلام جو ہو جائے زمانہ
عالم کا کوئی فرد پریشاں نہ رہے گا
کردار کشی یوں ہی ادیبوں کی اگر ہو
محفل میں سخن فہم و سخن داں نہ رہےگا
اس شمع کو یارو کبھی بجھنے نہیں دینا
دل ورنہ تمہارا بھی فروزاں نہ رہے گا
ڈاکٹرمولانا ابوالکلام قاسمی شمسی
آزادی ہر قوم کا پیدائشی حق ہے اور یہ انسانی فطرت کا خاصہ بھی ہے۔ اس حق اور فطرت کا تقاضہ ہر ملک کے انسانوں میں ہے۔ اسی تقاضہ کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان کی تحریک آز ادی میں ہر طبقہ کے لوگوں نے حصہ لیا۔ لیکن ہندوستا ن کے علماء تاریخ عالم کے خلاف جذبہ آزادی سے خاص طور پر سرشار تھے۔ دنیا کی تاریخ میں عام طور پر مذہبی لوگوں نے ہر آنے والے انقلاب اور آزادی کا راستہ روکا ہے، مگر ہندوستان کا حال مختلف ہے۔ یہاں کے علماء نے انقلاب اور آزادی کے لئے ہراول دستہ کے طور پر کام کیا ہے۔مفتی انتظام اللہ شہابی تحریر کرتے ہیں:
’’ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں علماء کا جس طرح شاندار کارنامہ اور جذبہ وطنیت کا مظاہرہ ہے،اس کی مثال کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار،تغلب اور استیلاکے خلاف سب سے پہلے علماء ہی کی آواز مخالف اٹھی۔‘‘(۱)
علمائے کرام میں جذبہ آزادی کی وجہ بیان کر تے ہوئے شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمدمدنیؒ تحریر کرتے ہیں:
’’ انگریزوں کے سفاکانہ مظالم نے عام مسلمان بالخصوص علمی طبقہ میں آزادی کی عام تڑپ پیدا کی۔‘‘(۲)
۱۸۰۳ء میں ملکی غلامی کے پروانے پر شاہ عالم کے دستخط کے بعد ہندوستان کی آزادی کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار اور غلبہ کے خلاف کسی میں کچھ بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ اسی وقت ایک عالم اٹھا اور اس نے انگریز کے خلاف پہلا نعرہ بلند کیا،اور اس کے خلاف جہاد کا فتوی صادر کیا،وہ شخصیت تھی حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی کی، جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے فرزند ارجمند تھے۔ ساتھ ہی شاہ عبدالعزیز ؒ کے داماد حضرت مولانا سیدعبدالحئ ؒ نے حکم دیا کہ دہلی سے کلکتہ تک انگریز کے خلاف جنگ کرنا خدائی فیصلہ ہے۔ یہی وہ اعلان جہاد اور فتوی تھا جس کے مطابق ہندوستان کے علمائے کرام ہندوستان کی آزادی کے لئے آگے بڑھے۔ اور اس اعلان نے تو علماء کی ایک جماعت کو میدان جنگ میں کھڑا کر دیا، جس کی تفصیل آئندہ صفحات میں مذکور ہے۔
ڈاکٹر ہنٹر نے لکھا ہے:
’’علماء میں سے جو لوگ زیادہ زیرک (عقلمند)تھے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی حیثیت میں آنے والے تغیر کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا۔ یہ تغیر اب ایک حقیقت بن چکا ہے ۔ وقتاً فوقتاً شائع ہونے والے فتوؤں سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے۔ ‘‘(۳)
ڈاکٹر اقبال حسین خاں تحریر کرتے ہیں:
’’پوری جنگ آزادی میں مسلم علماء نے بہت اہم کردار ادا کیا ۔اس لئے انگریز ایک طرف ان سے خائف بھی رہتے تھے، دوسری طرف درپردہ انہیں زک پہنچانے کے لئے کو شش کرتے رہتے۔ انگریزوں نے بڑی کوشش کی کہ علماء کی توجہ اپنی طرف سے ہٹا کر ان کو داخلی مسائل میں الجھا دیں۔اس سلسلہ میں انہوں نے کثرت سے مذہبی اختلافات پیدا کرا دئیے، جو بیشتر بے بنیاد یا انتہائی سطحی بنیادوں والے تھے۔ علماء کے لئے روز افزوں داخلی انتشار سد راہ ضرور بنا۔ لیکن اصل مرکز انگریز ہی رہے۔ ‘‘(۴)
مزید تحریرکرتے ہیں۔
’’علماء نے اپنے وقار و منزلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قوم کو غیر ملکی اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لئے آمادہ کیا ۔اس مقصد سے انہوں نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا۔(۵)
مسٹر ہمفرے نے جو برطانوی جاسوس تھا ،لکھا ہے:
’’مسلمان علماء بھی ہماری تشویش کا باعث تھے۔ یہ لوگ اس قدر متعصب تھے کہ اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔بادشاہ اور امراء تمام افراد ان کے آگے جھوٹے تھے۔ ‘‘(۶)
ہنری ہملٹن تھامس (Henry Hemilton Thomes)نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ غدر ۱۸۵۷ء کے بانی اور اصل محرک ہندو نہ تھے۔ اور اب میں یہ دکھانے کی کوشش کرونگا کہ یہ غدر مسلمانوں کی سازش کا نتیجہ تھا۔ہندو اگر اپنی مرضی اور خواہشات تک محدود ہوں تو وہ کسی ایسی سازش میں شرکت نہیں کر سکتے تھے، نہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘(۷)
پنجاب میں سکھ انگریزوں سے معاہدے کر رہے تھے۔ اس سے آزادی کی تحریک کے لئے خطرات تھے۔اس لئے علماء نے سرحد بالاکوٹ میں پہلے سکھوں اور پھر انگریزوں کے خلاف لڑائی کی۔اس جنگ کے رہنما حضرت سید احمد شہیدؒ اورمولانا اسمٰعیل شہید ؒ تھے۔ حضرت سید احمد شہید ؒ نے شروع میں نواب امیر خان والی ٹونک کو مدد پہنچائی۔لیکن جب نواب صاحب نے انگریزوں سے صلح کا فیصلہ کیا، تو حضرت سید احمد شہید ؒ نے ان کے سامنے ان الفاظ میں اپنی برہمی کا اعلان کیا:
’’ نصاریٰ(انگریزوں) سے نہ ملیں بلکہ لڑیں ۔خدائے تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے۔‘‘(۸)
پھر جب وہ نہ مانے تو فرمایا:
’’اگر آپ نصاریٰ (انگریزوں) سے ملنے جاتے ہیں تو میں آپ سے رخصت ہوتا ہوں۔‘‘(۹)
اپنی تحریک کو مضبوط کر نے کے لئے علمائے کرام نے ہر اس شخص کو دعوت دی، جو انگریز وں کے خلاف لڑنے کے لئے تیار تھا۔ چنانچہ انہوں نے سرحد کی انقلابی تحریک میں مہاراجہ گوالیار کو بھی شرکت کی دعوت دی۔
۱۸۲۰ء میں حضرت سید احمد شہیدؒ اور مولانا اسمٰعیل شہیدؒ کی قیادت میں آزاد حکومت بھی قائم ہوئی۔ مگر انگریزوں کی سازش اور اپنوں کی بے وفائی سے یہ حکومت نا کام ہو گئی ۔ با لآخر ۱۸۳۱ء میں دونوں مجاہد بالا کوٹ میں شہید کر دےئے گئے۔ مگر یہ تحریک ’’تحریک مجاہدین‘‘ کے نام سے جاری رہی ۔
حضرت سید احمد شہید ؒ اور مولانا اسمٰعیل دہلوی کی شہادت کے بعد تحریک مجاہدین کی قیادت علمائے صادقپور کے حصہ میں آئی۔ علمائے صادقپور نے اس تحریک کو آگے بڑھا یا۔اس تحریک کے قائد مولانا ولایت علیؒ نے سرحد ی علاقوں کے مرکزکی کمان اپنے ہاتھ میں لیا۔مولانا ولایت علی ؒ اور مولانا عنایت علیؒ دونوں حضرات سرحد پار انگریزوں سے لڑائی کر تے ہوئے گرفتار کر لئے گئے۔اور انہیں پٹنہ بھیج دیا گیا۔ مولانا عنایت علی نے ۱۸۵۴ء میں انگریزوں کے حلیف نواب امب پر حملہ کیا۔ اوران کی سر سڈنی کاٹن کی فوج سے ٹکر ہوئی۔آخر انگریزی فوج کے محاصرہ میں بھوک پیاس اور بیماری سے جان دیدی۔اس تحریک میں علمائے صادقپور( عظیم آباد) نے نہایت اہم رول ادا کیا۔ مولانا عبداللہ صادقپوریؒ نے ۱۲۰۰ مجاہدین کی فوج تیار کی اور انگریزوں سے مقابلہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں مولانا یحیے علیؒ اور مولانا احمداللہؒ پر انبالہ اور پٹنہ میں مقدمہ سازش چلایا گیا۔ ان حضرات کی خانہ تلاشی ہوئی۔ ۱۸۵۷ء کی ۱۸؍جون کو مولانا احمد اللہ صادقپوریؒ ، مولانا شاہ محمد حسین صادقپوریؒ اور مولانا واعظ الحقؒ ساکن بخشی محلہ نظر بند کر دےئے گئے۔انہیں ویلیم ٹیلر کمشنر پٹنہ نے تین مہینہ نظر بند رکھا۔ ان واقعات کے بعد ۱۸۵۷ء کا عذر ہوا ۔
۱۸۶۳ء میں پھر مجاہدین کا انگریزوں سے مقابلہ ہوا۔ جس کے نتیجہ میں صادقپور کے علماء میں سے مولانا احمداللہ کے چھوٹے بھائی مولانا یحیے علی اور مولانا عبد الرحیم صادقپوریؒ گرفتار کر لئے گئے۔اسی موقع پر مولانا جعفر تھا نیسریؒ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔اور یہ سبھی حضرات انبالہ بھیج دےئے گئے۔ اور انہیں مقدمہ کے بعد کالا پانی میں عمر قید کی سزا ملی۔پھر ۱۸۸۵ء میں مولانا احمداللہ پر بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا۔اور انہیں بھی عمر قید کی سزا ملی۔ ان کی ساری جائدادیں ضبط کر لی گئیں۔ مولانا احمداللہؒ نے ۱۸۸۲ء میں اور مولانا یحیے علیؒ نے ۱۸۸۶ء میں جزیرہ انڈمان میں وفات پائی ۔اسی سلسلہ میں مولانا محمد حسن کو بھی ۱۸۶۸ء میں گرفتار کیا گیا۔ اور ان پر اتنا ظلم ڈھایا گیا کہ وہ شہید ہوگئے۔
۱۸۵۷ء میں شاملی کے میدان میں علمائے کرام نے انگریزوں کے خلاف جنگ شروع کی۔ جس کی امامت حضرت حاجی امداداللہؒ اور قیادت مولانا محمدقاسم نانوتویؒ ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، مولانا منیر اور حافظ ضامن شہید کررہے تھے۔ان قائدین کے پیچھے مسلمانوں کی ایک بڑی فوج تھی۔ اس فوج کا ایک دستہ مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کی قیادت میں ہتھیار اور بندوق سے لیس ہوکر باغ میں چھپ گیا۔ جب انگریزی فوج وہاں سے گذری، تو اس دستہ نے فائر شروع کر دیا۔ جس سے انگریزی فوج توپخانہ چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ اس کے بعد مجاہدین نے شاملی کے فوجی کیمپ پر حملہ کردیا۔ وہاں فوج نے ہتھیار ڈال دےئے۔ یہ جنگ جاری ہی تھی کہ دہلی پرانگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔ اس جنگ میں حافظ ضامن شہید ہو گئے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ مظفرنگر جیل میں ڈال دےئے گئے۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ تہہ خانہ میں چھپ گئے۔ انگریز فوج ان کی تلاش کر تی رہی۔ حضرت حاجی امداداللہؒ ہجرت کرکے مکہ معظمہ چلے گئے۔ شاملی کے محاذ کے پس منظر میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ۱۸۵۷ء کے دس سال بعد ۱۸۶۶ء میں دارلعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔اور انقلابیوں کی ایک جماعت پیدا ہونے لگی۔ اس انقلابی مرکزکی قیادت حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے ہاتھوں میں تھی۔ چنانچہ حضرت شیخ الہند ؒ نے آزادی کے لئے ایک خفیہ محاذ ۱۹۰۵ء میں قائم کیا۔اور پھر اندرونی اور بیرونی دونوں ہی طریقوں پر ملک کی آزادی کے لئے جدوجہد شروع کی ۔ بیرونی ملک کا کمان مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے حوالہ کیا گیا۔ مولانا سندھی نے اس سلسلہ میں قابل قدر خدمات انجام دےئے۔ اور بہت حد تک آزادی کے لئے راستہ ہموار کرلیا۔ انہوں نے کابل پہنچ کر ۱۹۱۹ء میں کانگریس کمیٹی کی بنیاد بھی رکھی ، جس کے الحاق کی منظوری آل انڈیا کانگریس نے اپنے سیشن میں دیدی ۔اس طرح ۱۹۰۵ء سے۱۹۱۵ء تک حضرت شیخ الہند ؒ کی قیادت میں ریشمی خطوط کی سازش چلتی رہی۔ اس تحریک کے دوسرے قائد مولانا منصور انصاریؒ تھے۔ مولاناسندھیؒ اور مولانا منصور انصاریؒ اس سازش کے سلسلہ میں تیس سال افغانستان،روس، ترکی، آذر بائیجان اوریاغستان کے پہاڑوں میں دربدر پھر تے رہے۔ یہاں تک کہ جنوری ۱۹۴۶ء میں بحالت جلاوطنی مولانا منصور انصاری ؒ کا کابل میں انتقال بھی ہوگیا۔ اسی ریشمی خطوط سازش کے نتیجہ میں حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ حجاز میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کرلئے گئے ۔گرفتار ہونے والوں میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ، حکیم نصرت حسین، سید ہاشم اور مولانا عزیز گل سرحدی بھی شامل تھے۔ یہ مجاہدین تین سال دو ماہ تک مالٹا میں انگریز حکومت کے قید کی سختیاں برداشت کر نے کے بعد رہا ہو کر وطن واپس ہوئے ۔ اور پھر ۱۹۱۹ء میں جمعیتہ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا ۔ اور ملک کی آزادی کے لئے مسلسل کوشش شروع ہو گئی۔ ملک کی آزادی کے سلسلہ میں جمعےۃ علماء ہند نے جو کام کیا،وہ ہندوستان کی تاریخ کا اہم باب ہے۔ جمعےۃ علماء ہند نے تحریک مجاہدین اور ریشمی رومال تحریک کے تجربہ کی بنیاد پر اس کو محسوس کیا کہ تنہا ملک کی آزادی حاصل کر نا آسان نہیں ہے۔ چنانچہ جمعےۃ علماء ہند نے ۱۹۲۰ء میں ہندو اور مسلمان دونوں کے باہمی اتحاد سے جنگ آزادی میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اور اس فتوی پر علماء نے دستخط کئے۔ اس فتوی کے نتیجہ میں تقریباً پچاس ہزار مسلمان یا تو جیل گئے یا وطن سے بے وطن کر دےئے گئے ۔ ۱۹۲۰ء سے ۱۹۳۰ء تک جمعےۃ علماء ہند کی قیادت حضرت مولانا ابوالکلام آزاد، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ اور حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی نے فرمائی۔۱۹۳۰ء کے بعد جمعےۃ علماء ہند میں قابل ذکر علماء کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ جن میں مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن ،مولانا احمد سعید، مولانا سید محمد میاں، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری ،مولانا شاہد فاخری، مولانا عبد الحلیم صدیقی، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد، مولانا ابوالوفاء شاہجہاں پوری،مولانا قاسم شاہجہاں پوری اور مولانانورالدین بہاری کے نام شامل ہیں۔ پھر۱۹۴۲ء میں مولانا آزاد کی صدارت میں ہندوستان چھوڑو تحریک شروع ہوئی، تو جمعےۃ علماء ہند اور کانگریس نے اس میں بھر پور حصہ لیا۔آخر ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کی پیشین گوئی جو ۱۸۵۷ء میں محاذ شاملی کے بعد کی تھی، وہ پیشین گوئی سچ ہو کر سامنے آئی ’’ ہمارے جسم غلام سہی ،مگر ہماری روح کوآزاد رہنا چاہئے۔ اس طرح ہم اگلے ۵۷ء سے پہلے غیر ملکی غلامی کا خاتمہ کر دیں گے‘‘
نئی دہلی:27؍جنوری (قندیل نیوز)
ہر طرف سے تنازعات میں گھری سنجے لیلا بھنسالی کی’پدماوت‘نے دو دنوں میں باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا ہے۔تنازعات میں گھری اس فلم کو ناظرین کی بھرپور حمایت مل رہی ہے۔ فلم کی جتنی مخالفت ہو رہی ہے لوگ اتنا ہی اس فلم کو لے کر بے قرار ہو رہے ہیں، یہ باکس آفس کے اعداد و شمار بتلارہے ہیں۔دو دنوں میں اس فلم نے 56کروڑ کمائی کا ہندسہ پار کر لیا ہے۔جب کہ یہ فلم چار ریاستوں میں ریلیز ہی نہیں ہوئی تب ایسی کمائی ہو رہی ہے، اگر یہ فلم پورے ملک میں ریلیز ہوتی پھر تو اعداد و شمار کچھ اور ہی ہوتے۔مارکیٹ اینالسٹ ترن آدرش نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس فلم کی کمائی کو شیئر کیا ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ پدماوت نے جمعہ کو 26جنوری کے دن تقریبا 32کروڑ کی کمائی کی ہے۔اس طرح ریلیز کے دو دن کے اندر ہی اس فلم کی کل کمائی 56 کروڑ ہو گئی ہے واضح رہے کہ فلم نے پہلے دن باکس آفس پر 19کروڑ روپے کی کمائی کی ہے۔اس سے ایک دن پہلے 24 جنوری کو پیڈ اسکریننگ رکھی گئی تھی جس میں اس فلم نے 5کروڑ روپے کما لئے تھے۔اس طرح فلم نے پہلے دن 24 کروڑ کی کمائی کی اور دوسرے دن 32کروڑ کما ئے۔اب دو دنوں میں 56کروڑ کا اعدادوشماراس فلم نے پار کر لیا ہے۔
نئی دہلی:27؍جنوری (قندیل نیوز)
ڈاؤس میں منعقد ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے جمہوری اور ترقی پذیر ہندوستان کی جھلک پیش کی تو ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے سوال اٹھا دئیے۔ای ٹی سے بات چیت میں راجن نے اس بات پر شک ظاہر کیا کہ مودی حکومت کے کام کاج کے طریقے واقعی جمہوری ہیں۔راجن نے کہا کہ مودی حکومت میں صرف ایک چھوٹا سا گروہ ہے جو سارے فیصلے لے رہا ہے جبکہ افسرشاہوں کو درکنار کر دیا گیا ہے۔دراصل راجن نے ڈیووس میں پی ایم کے اس بیان پر سوال اٹھایا جس میں مودی نے کہا تھاکہ ہندوستان میں جمہوریت، سارنگ آبادی اور نقل و حرکت (ڈیموکریسی )ملک کی قسمت طے کر رہے ہیں اور اس کو ترقی کے راستے پر گامزن کررہے ہیں۔انفراسٹرکچر پروجیکٹس کا حوالہ دیتے ہوئے راجن نے کہا کہ انہیں زور شور سے پورا کرنے کی سیاسی قوت ارادی دکھانے کی ضرورت تھی۔انہوں نے کہاکہ میں فکر مند ہوں کہ بیوروکریسی کے فیصلوں پر کام نہیں ہو رہا ہے۔(وزیر خزانہ) جیٹلی رکاوٹوں کو دور کرنے کے عزم کئی بار دہرا چکے ہیں۔مثلاافسرشاہ اس بات سے ڈرے ہیں کہ کہیں ان پر بدعنوانی کا الزام نہ لگ جائے، لیکن ہم ایسا کر کیوں رہے ہیں؟
راجن نے مزید کہاکہ ہمیں یہ کہنے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا چیزیں بہت زیادہ مرکوز ہو رہی ہیں اور کیا ہم لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کی طرف سے معیشت کو چلانا چاہتے ہیں اور کیا ہمارے پاس 2.5 ٹریلین ڈالر کی معیشت کو پورا کرنے کی کافی صلاحیت ہے؟ ۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اس نقطہ نظر پر کہ ’ہندوستان کی معیشت دنیا میں سب سے تیز رفتار سے بڑھے گی‘ راجن نے کہاکہ ہمیں خود سے یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں ترقی کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ دراصل ہمیں ترقی کرنے کی ضرورت نوکری فراہم کرنے کے لئے ہے جن کی نوجوانوں کو ضرورت ہے۔کیا اس سطح کی ترقی پر بھی ہم وہ روزگار پیدا کر پا رہے ہیں؟ اگر ہمیں واقعی میں ملازمتیں پیدا کرنی ہیں تو انفراسٹرکچر، تعمیراتی وغیرہ جیسی بڑے پیمانے پر روزگار دینے والی سرگرمیوں میں بڑی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی۔
نئی دہلی:27؍جنوری (قندیل نیوز)
ہندوستان کے چھوٹے صنعت یعنی ایم ایس ایم ای سیکٹر میں تقریباً3.60 کروڑ یونٹ رجسٹرڈ ہیں۔اگر غیر رجسٹرڈ یونٹ کو بھی شامل کر دیں تو ان یونٹس کی تعداد تقریبا چار کروڑ بتائی جاتی ہے۔ان میں 12 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو روزگار ملا ہوا ہے۔یہ ایک ایسا سیکٹر ہے جو گزشتہ کچھ سالوں میں ایک مقرر رفتار سے بڑھا ہے۔لیکن گزشتہ ایک سال میں ان صنعتوں کاروں کو کئی دشواریوں کا سامناکرنا پڑا ہے۔بجٹ کے وقت ان تاجروں کی وزیر خزانہ سے کچھ مطالبے ہیں۔پہلا مطالبہ ہے کہ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کم کر دی جائے۔تاجر کہتے ہیں کہ گزشتہ بجٹ میں وزیر خزانہ نے کارپوریٹ ٹیکس آہستہ آہستہ کم کرنے کی بات کہی تھی لیکن اس سمت میں قدم نہیں اٹھائے گئے ہیں۔دہلی کے نارائنا علاقے میں ایس کے این بینک ٹیکس کے ایم ڈی کپل چوپڑا کا کہنا کہ کارپوریٹ ٹیکس آج بھی 30فیصد ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے گزشتہ بجٹ میں کارپوریٹ ٹیکس میں کمی کی بات ضرور کہی تھی لیکن شاید وہ اس سمت میں آغاز کرنے سے پہلے جی ایس ٹی سے ٹیکس وصولی کو تسلی بخش سطح پر لانا چاہتی ہے۔ویسے جی ایس ٹی کو لے کر بھی ایم ایس ایم ای سیکٹر میں بھی تاجروں کے لئے ابھی پریشان کا سبب بنا ہوا ہے۔جیسے شملہ میں کام کر رہے کاسمیٹک مصنوعات کے کاروباری کلدیپ سنگھ بگا جنہیں اب بھی اپنے کاروبار کے لئے ویٹ کے ساتھ الکوحل خریدنا پڑتا ہے۔ان کا کہنا کہ اگر جی ایس ٹی کو نافذ کرنا ہے تو جی ایس ٹی کو مکمل طور پر نافذ کریں اور ویٹ کو ہٹادیں۔انہوں نے کہا کہ ایک مثال دیتا ہوں۔ہم لوگ کاسمیٹک انڈسٹری سے الکوحل خریدتے ہیں۔الکوحل ویٹ میں کور ہے۔ہمیں ویٹ پہ کرکے خریدنا پڑتا ہے، جو کہ ہمیں اس کا ان پٹ کریڈٹ نہیں ملتا کیونکہ آگے ہماری سیل جی ایس ٹی کے انڈر ہوتی تو لاگت ایڈیشن ہو جاتی ہے۔ایم ایس ایم ای سیکٹر کا مینوفیکچرنگ جی ڈی پی میں 6.11 فیصد شراکت ہے اور سروس جی ڈی پی کا 24.63 فیصد اس سیکٹر سے آتا ہے۔کل مینوفیکچرنگ میں اس سیکٹر کی شراکت ایک تہائی ہے جس کا ملک کے کل برآمدات میں تقریبا 45فیصد شراکت ہے۔ پھر بھی پرنٹنگ کے کاروبار سے منسلک سرندر بنسل جیسے لوگوں کی پریشانیاں کم نہیں ہورہی ہیں ۔
بل پیش کرنے سے بازآئے حکومت
شریعت کے علاوہ کوئی قانون منظورنہیں، طلاق بل کے خلاف خواتین کی تاریخی ریلی ، ایک لاکھ سے زائد خواتین کی شرکت
مونگیر :27/جنوری(بلال احمد،سرفراز عالم/قندیل نیوز)
آج تحفظ شریعت کمیٹی مونگیر کے زیر اہتمام خواتین کی خاموش ریلی نکلی جس میں تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ شہر اور مضافات شہرکی خواتین نے حصہ لیا، ریلی کی ابتداء سے پہلے ایم ڈبلو گر اسکول نزد مفصل تھانہ مونگیر میں احتجاجی اجلاس سے خطاب کرتی ہوئیں جویریہ شمشیرصدر شعبہ خواتین تحفظ شریعت کمیٹی مونگیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم تمام خواتین پوری قوت کے ساتھ ایک آواز ہوکر سرکار پر واضح کرتی ہیں کہ تمہارے جھوٹے طلاق بل کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے، ہم ہر حال میں شریعت اسلامی پر چلیں گے، اور ہر مرحلہ میں مسلم پرسنل لابور ڈ کی آواز پر لبیک کہیں گے، طلاق ثلاثہ کی شرعی حیثیت سپریم کورٹ کے فیصلے اور موجود ہ بل پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طلاق ثلاثہ بل بالکل غیر ضروری ، اسلامی شریعت اور ملکی آئین کے بالکل خلاف ہے، جو ملت اسلامیہ کے لیے کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم شریعت اسلامیہ پر عمل کریں ، حکمت اور تدبیر کے ساتھ موجودہ حالات کا مقابلہ کریں اوراس بل کے خلاف اپنی ناراضگی کا خاموشی اور حکمت کے ساتھ اظہار کریں ، اسی لیے لاکھوں خواتین کی یہ ریلی آج یہاں نکالی جارہی ہے،
اس موقعہ پر محترمہ حبیبہ بخاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شریعت کے خلاف کوئی بھی قانون ہمیں تسلیم نہیں ہے، ہماری شریعت ہمیں جان سے بھی زیادہ عزیز ہے، سرکار کا تین طلاق بل ایک دھوکہ ہے، ہمیں سرکار اس کے ذریعہ سوائے بیوقوف بنانے کے اور کچھ نہیں کررہی ہے، اگر مرکزی سرکار واقعی مسلم عورتوں کی ہمدرد ہے، توو ہ مسلمان عوتوں کو اس ملک میں ہر جگہ برابری کا حصہ دے ، تاکہ مسلم عورتیں خوشگوار زندگی گذار سکیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے شوہروں کو جیل بھیج کر ہمیں فائدہ پہونچانے کی بات سرکار کرہی ہے، یہ کیسا فائدہ ہے، سمجھ سے باہرکی بات ہے۔ خواتین کی یہ ریلی بحسن وخوبی کلکٹریٹ مونگیر پہونچی اور خواتین پرمشتمل ایک نمائندہ وفد اپنے مطالبات کو میمورنڈم کی شکل میں ڈی ایم مونگیر جناب اودے کمار سنگھ کوپیش کیا اور ان سے گذارش کی کہ وہ خواتین کے مطالبات کو صدر جمہوریہ ، وزیر اعظم ہند، وزیر قانون اور سربراہان حکومت تک پہونچا دیں۔عورتوں نے اپنے میمورنڈم میں مندرجہ ذیل چیزوں کا مطالبہ کیا۔ہم تمام مسلم خواتین متفقہ طور پر تین طلاق بل کی مخالفت کرتے ہیں، اور اسے اپنے مذہب، معاشرہ اور خاندان کے لیے مضر پاتے ہیں، کیونکہ۔۱۔سپریم کورٹ نے تین طلاق کو کالعدم کہا ہے، اور کالعدم کام پر کوئی سزا یا قانون نہیں بنا کرتاہے۔۲۔آئین ہند نے مذہبی معاملات میں مداخلت سے روکا ہے اور یہ بل براہ راست مذہب میں مداخلت ہے۔۳۔طلاق سول معاملہ ہے، اور یہ بل اسے جرم میں شامل کررہا ہے۔۴۔قانون سازی کے لیے کئی طریقے اور مرحلے بنے ہوئے ہیں،اسے طلاق بل کے معاملے میں نہیں اپنایا گیا ہے۔۵۔بل میں طلاق کو جس طرح جرم بناکر پیش کیا گیا ہے، وہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔۶۔طلاق دینے کے بعد سزا کی جو نوعیت اس میں درج ہے، وہ غیر اخلاقی ، بے بنیاد اورغیر عقلی ہے۔۷۔یہ بل اپنے آپ میںآئین ہند،سپریم کورٹ کے دیگر ججمینٹ اور دوسرے قوانین کے خلاف ہے۔۸۔یہ بل سماج، معاشرہ اور خاندان کو برباد کردے گا، بل کی روشنی میں عورت کے لیے طلاق کا ثابت کرنا اور مرد کا جیل میں رہ کر نفقہ کی ادائے گی اور تین سال کے بعد خانگی معاملات کی دشواریاں، یہ مذکورہ ساری باتیں بہت عجیب اور پیچیدہ ہیں۔ اس لیے ہم جمہوری طور پر پورے امن وشانتی کے ساتھ اس بل کی پرزورمخالفت کرتے ہیں اور اپنے ملک کے باہوش شخصیتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اسے روکا جائے، ورنہ ملک کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اور مذہب کے مداخلت بند کیا جائے۔اسلئے حکومت وقت سے درخواست ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت ،آئین ہند اور قانونی نظام کے مخالف اقدام نہ کریں۔ریلی کو کامیاب بنانے میں مونگیر کے ہر محلہ کے نوجوان ، سماجی کارکنان اور تحفظ شریعت کی حفاظت کے لیے بڑی تعدادمیں لوگوں نے تعاون کیا۔
طلاق مخالف بل مسلم عورتوں کے حقوق و ناموس پر حملہ : مولانا محمد شبلی القاسمی
امارت شرعیہ کی اپیل پر ضلع نوادہ میں مردو خواتین کا تاریخی اجلاس و مظاہرہ
نوادہ:27/جنوری(قندیل نیوز/عادل فریدی)
ہمارے تمام مسائل کا حل ہماری شریعت میں موجود ہے ، ہمیں اسلام سے ہٹ کر کسی کے سہارے اورکسی قانون کی ضرورت نہیں ، کوئی ہماری فکر نہ کرے ،لوگ اپنے اپنے گھروں کی فکر کریں ، ہمارے لیے ہماری شریعت کا ہر قانون رحمت ہے ، طلاق کا قانون بھی ہماری قیمتی جان اور عزت و ناموس کی حفاظت کا ذریعہ ہے ، حکومت نے جس قدر جلد بازی میں یہ بل پاس کیا ہے ۔ ہم خواتین اسلام کو خوب احساس ہے کہ یہ ہمارے فائدہ کے لیے نہیں بلکہ اپنے ناپاک سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ہے ، جو ہمیں کسی بھی حال میں منظور نہیں ، ہم خواتین اسلام یہ بتا دینا چاہتی ہیں کہ اسلام اور اس کے قوانین کی حفاظت کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو ہم تیار ہیں ۔
مودی جی ! بس کیجئے ، مسلم پرسنل لا ء میں مداخلت نہ کیجئے ، ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ کی اپیل پر تحریک اصلاح معاشرہ آ ل آنڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ضلع نوادہ کے تعاون سے مدرسہ عظمتیہ کے زیر اہتمام اجلاس سے خواتین مقررین نے کیا ۔ اجلاس اور مظاہرہ میں کئی ہزار مردوں اور خواتین نے اپنے ایمانی ولولہ کے ساتھ شرکت کی ، نوادہ ضلع کی تاریخ میں اتنا بڑا اجلاس پہلی بار منعقد ہوا ، ہزاروں کی تعداد میں جلوس میں شامل خواتین نے اپنے ہاتھوں میں تختیاں اٹھا رکھی تھیں ، جس پر لکھا تھا ، مسلم پرسنل لا میں مداخلت برداشت نہیں ، مسلم پرسنل لا بورڈ زندہ باد،، قرآن و حدیث زندہ باد، ملک بچاؤ ، دستور بچاؤ، مودی حکومت اپنا بل واپس لو، عورتوں کے ناموس سے کھلواڑ بند کرو وغیرہ ، خواتین کے ہمراہ ہزاروں مردوں کا بھی جلوس ان سے آگے تھا۔جلوس سے قبل منعقد تاریخی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے مولانا محمد شبلی القاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ دنیا یہ جان لے کہ مسلمان اسی قوم کو کہتے ہیں ، جو اسلام کے قانون کو مانے اور اس پر چلے ، قرآن اور رسول اللہ کی احادیث و تشریحات ہی مسلمانوں کا دستور العمل ہے ، جس سے مسلمانوں کبھی بھی اور کسی بھی حالت میں بال کے برابر بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا ہے ۔ا سکے جانتے ہوئے بھی کوئی شخص یا حکومت مسلمانوں پر قرآن و حدیث کے خلاف کوئی قانون مسلط کرے تو یہ اس کی حماقت اور بے وقوفی ہے ، ضلع نوادہ کے گاؤں گاؤں سے آئے ہوئے مسلم مرد و خواتین کو مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی امیر شریعت بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ ، و جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی فکر مندیوں سے آگاہ کیا ، مولانا نے بتایا کہ حکومت ہند کا طلاق مخالف قانون در حقیقت مسلم خاندان کو تباہ و برباد کرنے کی ناپاک سازش کا حصہ ہے ، مسلمان مرد اور مسلمان عورت جس طرح نکاح سے پہلے ایک اجنبیہ عورت اور ایک اجنبی مرد کو اپنے لیے حرام سمجھتے ہیں، اسی طرح طلاق کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کے لیے حرام ہو جاتے ہیں ، حکومت یہ چاہتی ہے کہ مسلمان جوڑے حرام کاری میں مبتلا ہو کر اپنا امتیاز اور تشخص اور اپنا دین کھو بیٹھیں اور مسلم معاشرہ سے عفت و حیاء اور پاکیزگی کا تصور ختم ہو جائے ۔جسے مسلمان کسی بھی حال میں کبھی قبول نہیں کر سکتے ۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا قاری شعیب احمد صاحب مہتمم مدرسہ عظمتیہ نوادہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے فرمایا کہ حضرت امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہ کی ہدایت پر اور امارت شرعیہ کی اپیل پر مدرسہ عظمتیہ کے زیر اہتمام یہ اجلاس مسلمانوں کے اسلام سے عقیدت اور محبت کا عملی نمونہ پیش کر رہا ہے ۔ اسلام کسی حکومت اور کسی بادشاہ کی جا گیر نہیں ہے کہ جو کوئی چاہے ، اسے ردو بدل کر سکتا ہے ۔ اسلام آسمانی اور خدائی قانون کا نام ہے ، جسے دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی ہے ۔ مولانا منت اللہ حیدری امارت شرعیہ پھلواری شریف نے اپنے خطاب میں لوگوں کو اسلام اور اس کے قوانین پر مضبوطی سے عمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلام کا تحفظ ہمارے اندر کی بیداری اور اسلام پر عمل کرنے سے ہو گا ۔خطاب کرنے والوں میں سید مسیح الدین سینئر لیڈر جنتا دل یو ، ضلع نوادہ، کئی معتبر علماء و ائمہ کے علاوہ محترمہ قمرالنساء ، محترمہ شمع پروین اور محترمہ شبنم پروین کے نام اہم ہیں ۔ اجلاس اور مظاہرہ کو کامیاب بنانے میں ضلع کے نوجوان عوام و خواص کے علاوہ سبھی مکتبۂ فکر کے علماء اورائمہ شب و روز لگے ہوئے رہے۔مظاہرہ کے اختتام پر مرکزی وزیر جناب گری راج سنگھ اور ضلع مجسٹریٹ نوادہ کو مسلم خواتین کی طرف سے میمورنڈم سونپا گیا ، جس میں مرکزی حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے طلاق مخالف قانون کو اسلام مخالف قانون اور عورتوں کے حقوق و ناموس پر حملہ قرار دیتے ہوئے ، حکومت ہند سے اسے بلا تاخیر واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ۔