احمدبن نذر
وہ اکتیس دسمبر نہیں تھا،کوئی اور تاریخ تھی، جس کا مجھے تب پتہ تھا،نہ اب یاد ہے-میں ابوجی کے پاس بیٹھاکھیل رہاتھا،جی ہاں!کھیل رہاتھاکہ تب میری عمر دس گیارہ برس سے زائد نہ تھی-یوں ہی کھیلتے کھیلتے اچانک میری نگاہ ایک نام پر پڑی جس کے آگے”رحمۃاللہ علیہ”لکھاتھا-نام پہ بھلامجھے کیااعتراض ہوناتھا؟نام تو میری محبتوں کامحوراور عقیدتوں کامطاف تھا،مجھے اشکال اس سے آگے موجوددعائیہ جملے”رحمۃ اللہ علیہ”پرتھا-من کی دنیامیں سوال کلبلایا،توابوجی سے پوچھ لیاکہ”یہ کیسے؟حضرت کے حین حیات ہی بے وقوف کاتب نے ان کا نام مرحومین کے فہرست میں کس طرح درج کرڈالا؟ہائے بدبخت کاتب!”مگر یہ تو میری باتیں تھیں،میرا خیال تھا،میرا اندازہ تھا؛ چنانچہ ابوجی کے جواب کامنتظررہااور جب جواب ملا،تووہ میرے دماغ کی چولیں ہلادینے کیلئے کافی تھاــــــــــ ابو جی کا کہنا”نہیں بیٹا!کئی سال پہلے ان کاانتقال ہوچکاہے” مجھ پر عجیب بے یقینی کی کیفیت طاری کر رہاتھا، پھر جب رفتہ رفتہ مجھے اس کا یقین ہونے لگا، تومیرے اوپرغم واندوہ کی متاسف کن بدلی یوں چھاتی چلی گئی،گویاجانے والے نے کئی سال قبل نہیں؛ بلکہ آج،نہیں نہیں؛ بلکہ ابھی ہی رخت سفر باندھاہوــــــــــــ یہ توبات تب کی ہے، جب انہیں جانتاتھا،پہچانتانہ تھااوراب جب کہ دھیرے دھیرے ان سے تعارف میں اضافہ ہوتا چلاجارہاہے، توکاروان محبت دل کے نہاں خانوں سے نکل کران کی بلندوبالاذات کو سلام کرناچاہتاہے، ان کی یگانگت پر گلہائے عقیدت نچھاور کرنےکومتمنی رہتاہے،ان کی عبقریت کی بارگاہ میں خراج الفت پیش کرنے کو بے تاب ہواجاتاہے؛ کیونکہ وہ شخص محض”علی میاں” تھانہ صرف”ابوالحسن علی ندوی”ــــــــــ بلکہ یقینی طور پر وہ مفکرِاسلام تھا،مفکرِاسلام!
2018
مسعود جاوید
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے!
پهر بھی راجیہ سبها میں اپوزیشن کی طرف سے مخالفت اور ہنگامہ آرائی کے درمیان دو دنوں کے لئے بل پر بحث ملتوی ہو گئی ہے، اس موقع کو غنیمت جان کر رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش ہونی چاہیےـ
ہم مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی شعور کی بالیدگی کا اندازہ ان بیانات سے کر سکتے ہیں : "پانچ ریاستوں میں بی جے پی کی شکست کی اصل وجہ اس کی مسلم مخالف پالیسی ہے.”ـ مسلمانوں کے عوامی جلسوں کو مخاطب کرتے ہوئے :” تم جو چاہو قانون بنا لو،مسلمان شریعت پر چلے گا ” ! مگر حضرت اس سے انکار کس مسلمان کو ہے؟ لیکن اس سے تو کسی بهی شخص کو انکار نہیں ہونا چاہیے کہ بحیثیت ذمہ دار شہری ہم قانون مخالف حرکت سے باز رہیں؛اس لیے کوشش یہ ہو کہ ایسا کوئی بل پاس ہی نہ ہو،اس سے پہلے بهی اس طرح کی قوانین سازی کی کوشش ہوئی، جس کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور lobbying کی گئی اور بالآخر وہ قانون کالعدم قرار دیا گیا،تو بجائے مسلمانوں کو مخاطب کرنے کے کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ آپ رائے عامہ ہموار کریں، آپ تمام ممبران پارلیمنٹ تک فرداً فرداً رسائی حاصل کریں اور اپنی بات مدلل اور دستاویزات کے ساتھ رکھیں ـ
یہ دور lobbying کا ہے اور ہم اور آپ اسی سسٹم کا حصہ ہیں، تو پهر کیوں نہیں اس کا بهر پور استعمال کریں؟ یہ دور ملٹی میڈیا کا ہے، اس کے ذریعے آپ لوگوں کے دل و دماغ پر چها سکتے ہیں،جب یہی ملٹی میڈیا بعض نوجوانوں کو خود کشی کرنے پر مائل کر سکتا ہے، توکیا سفیدوسیاہ لوگوں کو سمجها نہیں سکتا؟لوک سبها میں بحث میں حصہ لینے کے لیے چند غیر مسلم مرد و خواتین ممبران ہوم ورک کرکے آتے ہیں اور قرآن و سنت کا حوالہ دیتے ہیں، تو کیا اخبارات اور چینلز والے سب کے سب متعصب ہیں جو آپ کی باتوں کو بالکل نہیں سمجھیں گے اور ذرا بهی کوریج نہیں دیں گے؟ اخبارات کا صفحہ تو رقم کے عوض لے سکتے ہیں ٹی وی کا کچھ وقت تو خرید سکتے ہیں ـ
جب حکومت کا منشا لوک سبها میں ظاہر ہو گیا کہ حکومت کی جانب سے سابقہ بل میں ترمیم کی بات محض بہلاوا ہے،تو اربابِ حل و عقد اسے میڈیا کے سامنے اجاگر کیوں نہیں کرتے؟ آج راجیہ سبها میں بل پیش ہوا، اس سے پہلے راجیہ سبها کے ممبران اور عام برادران وطن کے وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ یہ سب مسلم خواتین کے ساتھ ہمدردی کے نام پر دهروی کرن کی کوشش ہے ، کو حقیقت حال سے واقف کرانے کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی گئی؟ مجهے نہیں لگتا کہ پرسنل لا بورڈ کے ذمے داران میڈیا کی اہمیت اور افادیت سے بے خبر ہیں ! اس لیے حیرت ہوتی ہے کہ جو بهی وسائل مہیا ہیں، انھیں بروئے کار لاتے ہوئے اردو ہندی انگریزی اور دیگر علاقائی زبانوں کے اخبارات اور چینلز والوں کو پریس کانفرنس، پریس ریلیز اور بل کی کاپی کے ساتھ اپنے اعتراضات منسلک کرکے اس بل کے مضحکہ خیز نقائص کو ہائی لائٹ کر کے بهیجتے ـ
اس کام کے لیے مسلمانوں کے اس غیر علماطبقہ، جو رائے عامہ بنانے کا اہل ہو ، کی خدمات لینے کی ضرورت تهی اور ہے،دوسری طرف اس غیر علماطبقہ کو بهی اپنی رضاکارانہ خدمات کی پیش کش کرنی چاہیے؛لیکن افسوس کام بگڑنے کے بعد وہ بهی بیک زبان و قلم تنقید کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا،دونوں طبقوں کے درمیان جو خلیج ہے، اسے پاٹنے کی سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے،ہر شخص ہرکام کے لیے موزوں نہیں ہوتاـ
جب تک دونوں طبقے ایک دوسرے کی اہمیت اور افادیت کا اعتراف نہیں کریں گے، ملی مسائل مضبوطی کے ساتھ پیش کرنے میں دشواری ہوتی رہے گی ـ
پروفیسر اسلم جمشید پوری
365 دنوں پر مشتمل ایک برس نامی قطرہ2018ء وقت کے وسیع و عریض سمندر میں سمانے کو ہے،ایک نیا قطرہ 2019ہمیں بھگو نے کو تیار ہے۔ ایسے موڑ پر ہم اردو والوں کو اپنا محا سبہ کرنا چا ہیے کہ یہ زبان ہمارے لیے کیا خدمت انجام دے رہی ہے اور ہم اپنی زبان کے لیے کیا کررہے ہیں؟
ہر طرف شور ہے کہ اردو کی مقبو لیت میں اضا فہ ہو رہا ہے، پوری دنیا میں اردو کی نئی نئی بستیاں وجود میں آ رہی ہیں، امریکہ کے متعدد شہر، انگلینڈ، جرمنی، فرانس، تاشقند،ازبیکستان،روس،جاپان،چین ،برما، سودی عرب،دبئی ، کویت،مصر، سری لنکا، آ سٹریلیا، غرض پو ری دنیا میں اردوآب و تاب کے ساتھ سامنے آ رہی ہے، ان ممالک میں اردو والوں کی تعداد میں اضا فہ ہو رہا ہے، یہاں بین الاقوامی مشاعرے، شامِ غزل، جلسے، سیمینار اور کتابوں کے اجرا عمل میں آ رہے ہیں، اخبارات اور رسائل نکل رہے ہیں،ریڈیو سروسزبھی کام کررہی ہیں۔
ہندوستان،پاکستان، بنگلہ دیش میں تو اس زبان کی جڑیں مزید گہری ہوتی جارہی ہیں،ہمارے یہاں Multi Editional News Papersشائع ہو رہے ہیں،انقلاب، راشٹریہ سہارا، صحا فت، ہمارا سماج، قومی تنظیم، فاروقی تنظیم اور کئی اخبارات کئی کئی شہروں سے ایک ساتھ شا ئع ہورہے ہیں، سہ ماہی رسائل کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے،پرا نے رسائل نئی آ ب و تاب کے ساتھ اشاعت کے مراحل طے کررہے ہیں۔
کتابوں کی تعدادِ اشاعت میں اضا فہ ہوا ہے، خوبصورت اور دیدہ زیب سر ورق، ہلکے وزن کے کاغذ اور بہترین چھپائی کے ساتھ اردو میں ایسی کتابیں شائع ہو رہی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے، عرشیہ پبلی کیشنز، برا ؤن بکس،ایم آر پبلی کیشنز، کتابی دنیا، ارم پبلی کیشنز، تخلیق کار پبلشرز وغیرہ نے اردو میں اشاعت کے کارو بار کو نئی سمت عطا کی ہے ؛لیکن آج بھی اردو کا سب سے بڑا پبلشر ایجو کیشنل پبلشنگ ہا ؤس ہی ہے،ایجو کیشنل نے بھی نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے خوبصورت کتابیں شائع کی ہیں، سر کاری اداروں میں قو می کونسل،مغربی بنگال اردو اکا دمی، اتر پردیش اردو اکادمی، مدھیہ پردیش اردو اکا دمی، بہار اردو کا دمی، ساہتیہ اکا دمی، نیشنل بک ٹرسٹ وغیرہ کی کتابیں بھی شاندار گیٹ اپ کے ساتھ منظر عام پر آ رہی ہیں۔
2018ء سمیت گذشتہ برسوں میں سیمیناروں کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے، قومی، بین الا قوامی، صوبائی اور علاقائی سطح پر اردو کے سیمیناروں میں بڑھوتری ہوئی ہے،ان میں سے زیادہ تر اردو ادب اور شخصیات کے موضوع پر منعقد ہو رہے ہیں، ورک شاپ، سمپو زیم، جلسے وغیرہ کے انعقاد سے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ گویا اردو ہر طرف چھائی ہوئی ہے،اب داغ کا شعر صادق آرہا ہے:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
ایک اندا زے کے مطابق ہندوستان میں علا قائی، صوبائی، قومی اور بین الا قوامی سطح کے تقریباً2000سیمینار ہر سال منعقد ہو تے ہیں۔
ایوارڈز، انعا مات کا سلسلہ بھی خوب ترقی پر ہے،پہلے چند انعا مات کے نام سنے جاتے تھے، اب انعامات کی تعداد اتنی ہو گئی ہے کہ جس کا کوئی شمار نہیں، ساہتیہ اکا دمی ایوارڈز، غالبؔ ایوارڈز، اکا دمیوں کے انعا مات کے علاوہ متعدد انعامات شروع ہوئے ہیں، ادبی خدمات کے اعتراف میں دیے جانے والے متعدد انعا مات، جہاں بزرگ نسل کی خدمات کا حق ادا کررہے ہیں، وہیں نئی نسل کی حوصلہ افزائی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔
ادبی شخصیات، شاعر، افسا نہ نگار،ناول نگار، ناقد وغیرہ کی خد مات پر مشتمل کتب شا ئع ہو رہی ہیں، مختلف رسائل کے خصوصی شمارے، گوشے، مٹھی بھر غزلیں، اس شمارے کا شاعر ، وغیرہ کی اشاعت بھی شدو مد سے جاری ہے، یہی نہیں، سیمیناروں میں پڑھے گئے مقالات کی اشاعت کے معاملے میں بھی کا فی تیزی آ ئی ہے۔
قومی کو نسل برا ئے فروغ اردو زبان، ریاستی اکا دمیاں اور دیگر پرا ئیویٹ ادا رو ں کے اردو کوچنگ اسکول اور اردو مراکز کا ایک جال ہندو ستان میں پھیل رہا ہے،ہزاروں ایسے اردو سکھانے کے مراکز سے ہر سال لاکھوں نئے طالب علم اردو سیکھ رہے ہیں۔
لائبریریوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضا فہ ہوا ہے، قومی اردو کونسل اور اکا دمیوں نے جب سے اردو لائبریریوں کو امداد دینا شروع کیا ہے،اردو لائبریری اور کتب خا نوں میں اضا فہ ہو تا جا رہا ہے۔
سو شل میڈیا کی بات کریں، توحیرانی ہو تی ہے کہ در اصل آج کے عہد میں اسی میڈیم نے اردو کے فروغ کو قومی ہی نہیں ،بین الاقوامی سطح پر بھی تقویت عطا کی ہے۔آج فیس بک اور وہاٹس ایپ پر ہزاروں صفحات، گروپ، ادارے، رسالے، اخبارات، آڈیو خبر نامے، ویڈیو چینلس کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے، جشنِ اردو،جشنِ اردو افسانہ، عالمی اردو افسانہ میلہ، غزل مقابلہ، طرحی مشا عرہ، وغیرہ بے شمار ایسے سلسلے ہیں ،جن کی موجودگی سے اردو ہر طرف نظر آرہی ہے۔ سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا، مو بائل وغیرہ پر اردو رسم الخط کا استعمال بھی بڑھا ہے،اردو چینل نے اس سلسلے میں کافی بہتر کام انجام دیے ہیں،وہاٹس ایپ اور فیس بک پر اردو چینل نے مسلسل پورے سال ادب کی اہم معلو مات عوام تک پہنچائی ہیں۔
سوشل میڈیا کے علاوہ زمینی سطح پر اردو کی مقبو لیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ کئی برسوں کی طرح امسال بھی جشنِ اردو، جشنِ ریختہ،جشنِ ادب، جشنِ وراثت(دہلی اردو اکادمی) کراچی عالمی اردو کانفرنس نے عوامی سطح پر کافی مقبولیت حاصل کی، ان پروگراموں اور بڑے جلسوں سے اردو کی کثیر رنگی حیثیت میں اضا فہ ہو رہا ہے، ان جلسوں میں مشاعرے، گفتگو، قوالی، کتابوں کے اجرا، کتاب میلہ کے علاوہ ایک بڑا ثقافتی میلہ بھی منعقد ہو تا ہے، تین تین دن اور ایک ایک ہفتے تک چلنے وا لے یہ جشن اور ان میں محبانِ اردو کا جم غفیر دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔
گذشتہ برسوں کی طرح گذرتے ہوئے سال 2018نے ہمیں اردو کے فروغ کے لیے سنجیدگی سے غور کرنے کی طرف بھی متوجہ کیا ہے۔ اردو کی مقبو لیت کے شور وغو غا میں ہم اس کے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دے پا رہے ہیں، ہماری نئی نسل اردو سے دور ہوتی جارہی ہے، جو بچے ایم ۔اے، ایم فل تک پہنچ رہے ہیں، ان میں بھی زیا دہ تعداد مدارس اور پرائیویٹ تعلیم حاصل کرنے وا لوں کی ہے، مدارس کے طلبہ تو عربی ،فارسی پس منظر سے آ تے ہیں، تو ان کی زبان بہتر ہوتی ہے، وہ تھو ڑی سی سنجیدگی اختیار کرتے ہیں، تو بہت بہتر طا لب علم ثابت ہوتے ہیں؛لیکن پرا ئیویٹ بی اے اور ایم اے کرنے وا لے طالب علم اردو میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے، ان کی بنیاد بھی کمزور ہو تی ہے۔
در اصل اس کی جڑ پرائمری سطح کی تعلیم میں پیوست ہے، جنوب کی کچھ ریاستوں اور کشمیر، بہار، بنگال کو تھو ڑی دیر کے لیے الگ کردیا جائے، تو اردو میں پرا ئمری کی تعلیم کی صورتِ حال بہت خراب ہے۔ اتر پردیش، ہریانہ، پنجاب، اترا کھنڈ، را جستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، اڈیسہ وغیرہ ریاستوں میں پرائمری سطح پر اردو تعلیم کا نظم بہت ہی ناقص ہے،زیادہ تر ریاستوں میں اس سطح پر اردو ہے ہی نہیں، جہاں ہے، وہاں طا لب علم نہیں اور جہاں طالب علم ہیں ،وہاں اردو کے مستقل استاد کی کمی ہے،پھر سو نے پر سہا گہ یہ کہ سر کاری اسکولوں میں اردو کی کتب کی فراہمی بھی کم ہے، غیر سرکاری پرائمری اسکولوں میں اردو سرکاری سطح کے اسکولوں سے بہت اچھی صورت میں نہیں ہے، ہاں وہاں انگریزی کے انداز میں خوبصورت اور رنگین کتب کا استعمال ضرور ہو تا ہے، پرا ئمری سطح سے بی اے، ایم اے اور تحقیق تک آ تے آتے اردو کے طا لب علموں کی تعداد میں بتدریج کمی ہو تی جاتی ہے۔
غیر مسلم طلبہ و طالبات کے فی صد میں بھی کمی آئی ہے، شعرا، ادبا، ناقد و محقق میں بھی اب غیر مسلم حضرات کا فقدان ہے ؛کیو نکہ نئی نسل اس طرف نہیں آرہی ہے، پروفیسر نارنگ،رتن سنگھ، گلزاردہلوی، گلزار، کے ایل نارنگ ساقی، چندر شیکھر، بلراج بخشی، رینو بہل،دیپک بدکی،جیسے لوگ تبرک کے طور پر ہیں،ان کے بعد کی کو ئی نسل اب تک سامنے نہیں آئی ہے۔
قومی اردو کو نسل اور اکا دمیوں کے اردو مراکز اور اردو کو چنگ اسکول سے ایک امید زندہ ہو ئی تھی کہ ان کے خاطر خواہ اثرات قائم ہوں گے اور نئے لوگ اردو کی طرف آ ئیں گے، مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ ہزاروں ایسے مراکز سے فارغ ہو نے والے لا کھوں طلبہ کہاں گم ہو جاتے ہیں؟ ان میں سے زیا دہ تر کا مقصد زبان سیکھنا نہیں ہو تا؛ بلکہ سند اور اسکا لر شپ حاصل کرنا ہو تا ہے،یہی وجہ ہے کہ فرا غت کے بعدیہ زبان سے تعلق قائم نہیں رکھ پا تے۔
اردو اخبارات کے متعدد ایڈیشنز سامنے آ رہے ہیں، اخبارات کی تعداد میں اضا فہ ہو رہا ہے، مگر اردو کی ریڈرشپ میں مناسب اضا فہ نہیں ہو رہا ہے، ایک سر وے کے مطابق یوپی کے اکثر شہروں کے مسلم علا قوں میں اردو اخبارات سے زیادہ امر اجالا اور دینک جاگرن پڑھے جاتے ہیں۔
یو نیورسٹی، کالج، ریڈیو اسٹیشن، دور درشن، سرکاری ادارے، سر کاری رسائل وغیرہ میں اردواساتذہ اور دیگر آسامیاں بھری نہیں جا رہی ہیں، فخر الدین علی احمد میمو ریل کمیٹی اور ملک کی متعدد اکا دمیوں میں اردو کی جگہیں برسوں سے خالی کی خالی پڑ ی ہیں، حد تو یہ ہو گئی ہے کہ اردو اکا دمیوں اور دوسرے اداروں میں جو ممبران رکھے جا رہے ہیں، ان میں بیشتر اردو سے نا واقف ہیں، یہی نہیں ،اردو ادارے اپنا کام کاج انگریزی اور ہندی میں کررہے ہیں۔
مشاعروں کا بھی عجب حال ہو گیا ہے،واہ، واہ، کیا بات ہے، مکرر، کیا مصرعہ ہے، جواب نہیں، مصرعہ اٹھانا جیسے مشاعرہ سننے کے آ داب اب غا ئب ہو تے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ داد کی بھیک مانگنا، تالیاں بجانا، ہندی میں کلام لکھ کر لانا،کسی غیر ادبی شخص کی صدارت عام سی بات ہو تی جا رہی ہے۔ سیمیناروں کے احوال سے بھی سب واقف ہیں، روز بہ روز گرتا معیار، غیر معیاری مقا لے، سوالات سے عاری سیشن،۸۰؍ فیصد سیمیناراپنے مو ضوع کا مکمل احا طہ بھی نہیں کر پاتے۔
پو رے ملک میں اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد میں خا طر خواہ کمی واقع ہو رہی ہے، سر کاری اسکولوں میں ہندی کے ساتھ سنسکرت پڑھا ئی جا رہی ہے، یہ معاملہ کم و بیش ملک کے بڑے حصے میں ہے،ہم اردو والے حسین منظر ناموں میں کھو ئے جشن تک محدود ہو تے جا رہے ہیں، مشا عروں میں بے شمار سامعین میں سے اکثر اردو رسم الخط سے نا واقف ہیں، مشاعروں اور پرو گرا موں کے بینر، مسجدوں، قبرستانوں، شادی گھروں کے بورڈ ہندی اور انگریزی میں تیار ہورہے ہیں۔
2018ء میں ان حالات میں ہم سو رہے ہیں، نئے سال 2019میں ہمیں چا ہیے کہ ہم اردو کی جڑوں( پرائمری سطح کی تعلیم) کو پانی دیں، پرائمری سطح سے اعلی تعلیم کے ادارے اور مدارس کے ذمے داران ایک پلیٹ فارم پر بیٹھیں،مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل تلاش کریں۔ وقت آ گیا ہے کہ سیاسی سطح پربھی اردو کے لیے کام کیا جائے، سیاسی پارٹیوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ مسلم علاقوں میں اردو میں تشہیر کریں،اردو کی سوجھ بوجھ رکھنے والے امید وار میدان میں آئیں اور اردو کو ووٹ بینک بنایا جائے ؛تا کہ ایکPressure Group بن سکے،ایم پی ،ایم ایل اے حضرات کے پانچ سال کے کاموں میں اردو کے مسائل بھی ہوں،جب ایسا ہوگا ،تو اردو کے مسائل خود بخود حل ہوں گے، نئے سال 2019پر ہم اپنی زبان کے لیے ضرور کوئی منصوبہ بنائیں اور اس پر عمل کریں؛تاکہ نئے سال 2019ء کا استقبال با معنی ہو سکے۔
صدرشعبۂ اردو،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی،میرٹھ
[email protected]
09456259850
محمد عارف اقبال
7717734597
تصور میں تجھے ذوقِ ہم آغوشی نے بھینچا تھا
بہاریں کٹ گئی ہیں آج تک پہلو مہکتا ہے
اُن دنوں ہم بچے آپس میں اپنی پسندیدہ شخصیات کا انتخاب کرتے اور ایک دوسرے کی پسندیدگی پربرتری ثابت کرنے کی جی توڑ کوشش کرتے، فرصت کے اوقات میںیہی مشغلہ محبوب ہوتا ، مختلف شعبوں سے ایک ایک نمایاں شخصیات کا تذکرہ اور ان کی کارگردگی پر بحث و مباحثہ۔بچپن میں میری پسندیدہ شخصیات کچھ اس طرح ہوا کرتیں تھیں:کھیل کی دنیا سے سچن تندولکر،برائن لارا،وسیم اکرم اور بریٹ لی، موسیقی میں محمدرفیع، لتا منگیشکراور ادت نارائن، اداکاری میں امیتابھ بچن،عامر خان اور جانی لیور، سیاست دانوں میں لالوپرساداور اٹل بہاری واجپائی ،شاعروں میں بشیر بدر اور منور رانا، خطیبوں میں حضرت مولاناقاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ ،حضرت مولانا طاہر حسین گیاوی اورحضرت مولاناسید ابو اختر قاسمی یہ حضرات ہمارے ہیرو ہوا کرتے تھے۔
جب لکھنے پڑھنے سے رغبت ہوئی، کتب و اخبار مطالعے میں آئے، تو ایک نام تسلسل سے جو کم و بیش ہر اخبار کے اداراتی صفحہ کی زینت ہوتا ،بے لاگ، بے خوف اور نکیلی تحریر ،جن کا طرۂ امیتاز تھا ، انھیں مسلسل پڑھنے اور سمجھنے کے بعد میری لسٹ میں ایک اور ہیرو کا اضافہ ہوا، نام تھا’’ کلدیپ نیر‘‘۔
مذکورہ باتیں شعور کے ابتدائی زمانے کی ہیں، رفتہ رفتہ شعور بالیدہ ہوتا گیا، پسندیدگی میں تبدیلی آتی گئی ، مگر کلدیپ نیر صاحب کا نام ذہن و دماغ پر نقش رہا،آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا، وہ میرے ہیروکل تھے، آج ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جب جرنلزم کا طالب علم ہوا،تو اساتذہ کو کلدیپ نیر صاحب کانام بڑے ادب واحترام سے لیتے ہوئے سنا،طلبہ بھی ان کی صحافتی زندگی کے دلچسپ قصے ایک دوسرے سے شیئر کرتے،آہستہ آہستہ کلدیپ صاحب کو دیکھنے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی،اب یہ ہماری صحافتی زندگی کے آئیڈیل تھے،صل زندگی میں جو ہیرو ہوتے ہیں،مداح کی ان تک رسائی بڑی دشوار ہوتی ہے، انہیں صرف ٹیلی ویژن اور اخبارات کی سرخیوں میں دیکھ کر ہی صبر کرناپڑتا ہے ؛لہٰذاکلدیپ صاحب کے تعلق سے بھی یہ بات ذہن میں رہی کہ شاید ان سے کبھی ملنے کا موقع نہ ملے ۔
وقت آگے بڑھتا رہا،مگر کلدیپ صاحب سے ملاقات کا خیال دماغ سے نہیں گیا،موقع بموقع لوگوں سے کلدیپ صاحب کے تعلق سے پوچھتا رہااور ان سے ملنے کی صورت دریافت کرتا رہا، احباب بھی ان سے ملنا آسان نہیں کہہ کر ٹال دیتے،تلاش وجستجوآخر ایک دن رنگ لائی ، ان کا نمبر حاصل ہوا،بلاجھجھک فون گھما یا، ہیلو کرنے کے بعدکانوں سے ایک بھاری بھرکم آواز ٹکرائی، دعا سلام کرنے کے بعد کہا ، سر ! میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں صحافت کا طالب علم ہوں ، آپ سے ملاقات کی خواہش رکھتا ہوں ، انہوں نے بغیر لام قاف کیے مشفقانہ انداز میں کہا: کل میرے غریب خانے پر شام چھ بجے آ جائیں۔ ملاقات کا وقت ملتے ہی کھل اٹھا، اتنا معلوم کر لیا تھا کہ کلدیپ صاحب وقت کے بہت پابند ہیں ؛ لہٰذا چھ بجتے ہی ان کے گھر میں داخل ہو گیا، ملازم نے ان کے آفس میں لے جاکر بٹھا یا، آفس کیا ایک لائبریری تھی، کچھ دیر میں چائے ناشتہ لیے ملازم حاضر ہوا اور کہا :صاحب آ رہے ہیں،آپ چائے پی لیں۔ لائبریری میں موجود کلدیپ صاحب کی رکھی ہوئی ایک ایک چیزغور سے دیکھنے لگا۔ نہرو جی ، شاستری جی کے ساتھ ان کی تصویر، ان کے مطالعے میں رہنے والی کتابیں، صحافتی خدمات کے اعتراف میں ملنے والا اعزاز ۔چائے کی چسکی کے ساتھ ان تمام چیزوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہا کہ اس لائبریری میں ایک پورا عہد سمایا ہوا ہے۔ اتنی دیر میں آہستہ آہستہ قدموں کی آواز آنے لگی اور لاٹھی کے سہارے کلدیپ صاحب داخل ہوئے۔ میں فوراَ اٹھ کھڑا ہوا ، ایک تناور درخت کی طرح کلدیپ صاحب میرے سامنے کھڑے تھے ،میں نے فوراًآداب کہا، وہ بھی اپنی بھاری بارعب آواز میں جواب دیتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئے،کلدیپ صاحب کو سامنے پا کرذہن و دماغ میں یہ شعر گونجنے لگا :
آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہمعصرو!
جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراق کو دیکھا ہے
کلدیپ صاحب میرے سامنے موجودتھے، پر کشش شخصیت، آنکھوں پر موٹا گول چشمہ،سفید کرتا پاجامہ اور اس پر کالی بندی اور سر پر مخملی ٹوپی۔اس وقت کسی صحافی سے ملنے ،انہیں قریب سے دیکھنے اور بات کرنے کو ہم طالب علم بڑا اعزاز سمجھتے تھے ، پھر کلدیپ صاحب کا شمار تو ہندوپاک کے عظیم صحافیوں میں تھا؛اس لیے نگاہ جمائے کلدیپ صاحب ، ان کی ایک ایک ادا اوران کے چہرے پر نمایاں ہونے والے نقوش کو دیکھتا رہا۔
’’ ہا ں جی، بتائیں مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے اور کہاں سے آئیں ہیں؟‘‘۔
ان کی بات کا میں صرف اتنا ہی جواب دے سکا :
’’ بس آپ کو دیکھنے کی خواہش یہاں کھینچ لائی ‘‘ ۔
اتنا سنتے ہی وہ کھل کھلا کر ہنسنے لگے، کہا:
’’ مجھ میں ایسا کیا ہے جو دیکھنے چلے آئے؟‘‘
میں نے کہا:
’’ آپ میرے بچپن کے ہیرو ہیں‘‘۔
انہوں نے تجسس سے پوچھا :
’’ وہ کیسے؟‘‘
جواب میں پوری روداد سنائی۔ اب کلدیپ صاحب بڑی خوش دلی اور انہماک سے بات کر رہے تھے، ایساقطعی محسوس نہیں ہواکہ کچھ دنوں قبل تک جس شخص سے ملاقات کے خواب دیکھا کرتا تھا، وہ سامنے ہے، بالکل سادہ دل انسان، نہ آواز میں ہیبت، نہ گفتگو میں تصنع، نہ اخلاق میں پستی اورنہ چھوٹوں پر شفقت و اکرام میں بخالت۔ پھرانہوں نے جامعہ ملیہ کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھا اور اس سے جڑی اپنی یادیں بتانے لگے۔ انہوں نے کہا :مجھے بیحد خوشی ہوتی ہے جب نئی نسل اور نوعمرسے ملتا ہوں اور ان کے افکار وخیالات سے آگاہ ہوتا ہوں، وہ جدیدیت کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ اتنی ساری سہولیات ہم لوگوں کے زمانے میں نہیں تھی، آپ لو گ جدید ٹیکنالوجی سے خوب فائدہ اٹھائیں۔ پھر موجودہ حالات پر بھی باتیں کیں اور سیاست میں ہو رہے اٹھا پٹک پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ تقریبا سوا گھنٹے کی وہ پہلی ملاقات میرے حافظے میں کسی فلم کی طرح قیدہے، شروع ہوتے ہی اس کے سارے مناظر رقص کرنے لگتے ہیں۔ چلتے وقت بہت سارا دعا وپیار دیتے ہوئے کہا : آتے رہنا۔
اس کے بعد مسلسل کلدیپ صاحب کے رابطے میں رہا، ہر دو تین ماہ پر بلا جھجھک ان سے ملاقات کرنے ان کی رہائش گاہ پر چلا جاتا اور فیض پا کر واپس آتا، وہ بھی بہت خوش ہوتے۔اس پہلی ملاقات میں ہی وہ دل کو بھا گئے تھے، جتنا ان کے بارے میں سنا تھا، ا س سے کہیں زیادہ نرم دل، عاجزی وانکساری اور عزیزوں سے شفقت و محبت کرنے والا پایا۔وہ استاذ الاساتذہ تھے، دنیائے صحافت میں کئی نسلوں کی انہوں نے آبیاری کی، جو آج شہرت کے مقام پرہیں۔ میں ان کے سامنے موجودہ نسل کا سب سے چھوٹا طالب علم تھا، جب اتنے عظیم صحافی کی محبت و شفقت ملے ،تو کیوں نہ اپنی قسمت پر رشک کروں،کیوں نہ ان کی محبت کا دم بھروں، اس وقت میرے دل میں بس یہی خیال تھا کہ مجھے بھی ان کی طرح غیر جانب دارصحافی بننا ہے، ان کے جیسا بے باک لکھنا ہے، ان کے نقش قدم پر چل کر صحافت میں نام اونچا کرنا ہے۔
2018ء میں نیوز پورٹل شروع کرنے کا جب خیال آیا، تو سب سے پہلے ان سے ہی مشورہ کرنے ان کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے پوچھانام کیا سوچا ہے؟ جواب دیا:’’دی نیشن‘‘۔ سنتے ہی حامی بھر دی ، کہا اس سے بہتر اوراچھا نام نہیں ہو سکتا۔ اسی نام کو رکھو،اس نام سے تمہاری قومی محبت بھی جھلکتی ہے اور اس سے جڑنے والوں کے اندر قومی خدمت کا بھی جذبہ پیدا ہوگا۔ میں نے اور بھی کئی نام پیش کیے، مگر انہوں نے ’’ دی نیشن ‘‘ رکھنے کا ہی مشورہ دیا۔ تجویز کردہ نام قبول کرتے ہوئے کام شروع کردیا۔ 21جنوری 2018ء کو نیوز پورٹل لانچ کرنے کا وقت قریب آیا ،تو پروگرام کی صدارت کی پیشکش کی، جسے ضعف و نقاہت کے باوجود انہوں نے بخوشی قبول کرلیا اورکچھ ضروری ہدایات اور مفید مشورے دیے اور کہا: میری طبیعت اچھی رہی ،تو میں تمہارے پروگرام میں ضرور شرکت کروں گا۔ مگراس دن سخت علالت اور کمزوری کی وجہ سے وہ پروگرام میں شریک نہیں ہو سکے، تاہم انہو ں نے پروگرام کی تفصیلات فون پر معلوم کی اور کامیابی پر مبارک با د پیش کی۔ اگلے دن ہی ان کی عیادت کے لئے حاضر ہوا اور ان کے اعزاز میں پیش کیا جانے والا مومنٹو انہیں پیش کیا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور سر پر ہاتھ رکھ کر ڈھیر ساری دعائیں دیں۔پھر ویب سائٹ کھول کر دکھانے کو کہااور اس کے مشمولات دیکھے ۔ میری خواہش پر از راہِ محبت انہوں نے دوبارہ سے بٹن دبا کر’’ دی نیشن‘‘ کی رونمائی کی اور اس آغاز کو ایک مبارک قدم سے تعبیر کیا۔کلدیپ صاحب’’دی نیشن‘‘ کو پابندی سے اپنی نگارشات بھجتے تھے۔
کلدیپ نیر صاحب ہندوپاک کے درمیان امن و محبت کے سب سے بڑے سفیر تھے،دونوں ملکوں کے درمیان عوامی رشتوں کو مضبوط کرنا ان کا سب سے بڑا مشن تھا، انہوں نے ہمیشہ اس بات کی امید جگائے رکھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک نہ ایک دن رشتے بہتر ہوں گے۔ ہر سال14/15 آگست کی شب واگہہ بارڈر پر امن کا دیپ جلا کر ایک نئی صبح کا پیغام دیتے ۔ وہ جتنے ہندوستان میں مقبول تھے، اتنا ہی پاکستان کے عوام ان سے پیار کرتے تھے، ان کے پاس بیٹھیے، تو دونوں ملکوں کے بے شمار قصے سناتے اور گم ہوجاتے ۔
کلدیپ نیر صاحب بیک وقت کئی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ بے باک صحافی، سیاست داں،سماجی کارکن ،شاعر، مصنف،سفارتکار اور جمہوریت کے سب سے مضبوط محافظ تھے۔ اردو نوازتو تھے ہی ، کھلے دل کے انسان بھی تھے۔ ان کے مزاج میں پیچ و خم نہیں تھا،لوگوں سے خوش دلی سے ملتے ، ان کا یہ مقولہ مشہور تھا’’ میں نے صحافت کا آغاز ہی انجام سے کیا ہے‘‘۔ صاف ستھری بات پر توجہ دیتے ، لایعنی باتوں کی طرف نہیں دیکھتے، اپنی بات پورے وثوق اور بے باکانہ انداز میں رکھتے۔ حقیقی معنوں میں وہ صحافت کی آبرو اور باخبرصحافی تھے۔ کسی کی پرواہ کئے بغیرکانٹے بھر ے سفر میں پوری ایمانداری سے چلتے رہے ، نہ کبھی کسی کے سامنے جھکے اور نہ رکے، جو دیکھا ، بلا خوف لکھا،جبین پر کسی طرح کا نہ کوئی افسوس، نہ کسی چیز کی فکر، زندگی میں آپ نے بہت کچھ پایا ، مگر کسی کے مرہونِ منت نہیں رہے؛ بلکہ اپنی جدوجہد اور ایماندارانہ وصف کی بنیاد پرحاصل کیا؛ اس لیے موجودہ نسل کے صحافیوں کے لیے وہ ایک آئیڈیل تھے۔ بات ہی بات میں ایک بار میں نے عرض کیا : سر! آپ تو سبھی کے آئیڈیل ہیں، اس پیشے میں پوری زندگی آپ سیکولرزم کا سبق دیتے رہے،امن و بھائی چارے کی بات کرتے رہے، دو ملکوں کی سرحدی کھائی کو پاٹنے کی کوشش کرتے رہے۔ صحافت کے اصول و ضوابط کو تا عمر باقی رکھا۔ موجودہ دور میں کون ایسا صحافی ہے، جو آج کے اس پر آشوب اور دہشت زدہ ماحول میں اس وراثت کو آگے بڑھاتا دکھائی دے رہا ہے؟انہوں نے پلک جھپکتے ہی ’’رویش کمار‘‘ کا نام لیا ، پھر کچھ دیر سوچ کر ایک دو اور صحافیوں کا نام لیا۔ جس عظیم اور ایماندارانہ پیشے کو کلدیپ صاحب تا عمر سینچتے رہے ،آج کچھ ضمیر فروش میڈیا ہاوسز اور نفع پسندصحافیوں نے اسے داغدار کر دیا ہے۔
عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ
لیجیے !کتاب زندگی کا ایک اور ورق الٹنے جارہاہے ، دیوارِ حیات کی ایک اور اینٹ گرنے کے قریب ہے ،عمر مستعار کا ایک اور سال ختم ہواچاہتاہے ؛مگر نادان جشنِ سالِ نو منارہے ہیں ،ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں ،مٹھائیاں تقسیم ہورہی ہیں ،پٹاخے چھوڑے جارہے ہیں اور افسوس تو اس پر ہے کہ ان سب غیر اسلامی رسومات میں ہماری نئی نسل سب سے زیادہ پیش پیش ہے ۔غور کیا جائے ،تو وقت وہی ہے ،جو خالقِ کائنات نے روزِ اول میں بنایا، وہی دن سے رات، رات سے دن کا سفر، وہی سورج کا طلوع و غروب ہونا ، وہی چاند کی چاندنی کا رات کی تایکی میں روشنی بکھیرنا۔ پرندوں کا رزق کی تلاش میں دن بھر ایک شاخ سے دوسری شاخ پر منڈلانا اور پھر شام کے سائے پھیلنے تک اپنے گھونسلوں کی جانب رخ کرنا،غرض سارا نظام وہی ہے ؛مگرتف ہے کہ ہم لوگ بدل گئے ہیں، اپنی شناخت و پہچان بھول گئے ہیں اور وقت کے بدلنے کا رونا رورہے ہیں۔عمر رواں کے بیتے سالوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں، تو احساس ہوتا ہے کہ ہم تہی دست و خالی دامن ہیں، ہمارے پاس یقین و گمان یا امید و خوف کے وسوسوں کے سوا کچھ بھی نہیں،خالی ہاتھ دنیا میں آئے تھے اور خالی ہاتھ ہی دنیا سے لوٹناہے ۔
احتساب کیا اور کیوں؟
محاسبہ یا احتساب کا عمل، آخرت میں کامیابی کے لیے تو ضروری ہے ہی، کہ ہم اپنی اصلاح یہیں کرلیں اور آخرت کی پکڑ سے بچ جائیں، البتہ دنیا میں بھی اپنے مقاصد کے حصول اور منصوبہ بند طریقہ سے عمل درآمد کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے احتساب از حدضروری ہے ۔ محاسبہ یا احتساب دراصل اچھے سے بہت اچھے اوربہتر سے بہترین تک کا ایک سفر ہے ،ٹارگٹ، منزل یا نصب العین کو پورا کرنے کے لیے کماحقہ کوشش کرتے ہوئے جو کمی، کوتاہی ہوجائے اس کا بر وقت تدارک کرنا ہے ،جب کہیں غلطی سرزد ہوجائے اس کو متعدی ہونے سے پہلے درست کر لینا ہے ؛تاکہ جب مالک کے سامنے کام کی رپورٹ پیش کرنے حاضر ہوں تو مالک خوش ہو جائے ۔ اسی کو قرآنی زبان میں146146 تقویٰ 145145اختیار کرنا کہتے ہیں۔یہاں تو مالک رب کائنات ہے اور اس کے حضور پیشی کسی لمحے بھی متوقع ہے اور اس کی نگاہوں سے کسی لمحے بھی ہم اور ہمارے اعمال اوجھل نہیں ہو سکتے ۔ اس رب کی عظمت کا احساس، اس کی ذات کی پہچان، اس رب کی رحمت کا عرفان جس قدر دل میں جاگزیں ہوگا اُسی قدر مؤمن "ولتنظر نفس ما قدمت لغد "( ہر شخص دیکھ بھال لے کہ کل قیامت کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیاذخیرہ بھیجا ہے : الحشر18)کی حقیقت سے واقف ہوگا۔
حدیث پاک میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کارشاد ہے کہ ” عقل مند وہ ہے جو اپنا محاسبہ خود کرے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے ” (جامع ترمذی)غرض جس طرح ہم دنیا میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کا حساب رکھتے ہیں،معمولی معمولی خرچوں کوتحریرمیں لے آتے ہیں، اسی طرح دین واخلاق اور اعمال وکردار کے اعتبار سے بھی اپنا محاسبہ کریں، اپنی عبادات پر نگاہ دوڑائیں کہ گذشتہ سال کے مقابلہ میں اس سال کتنا اضافہ ہوا ہے ؟ اپنے معاملات کو دیکھیں کہ حلال وحرام او ر مستحبات ومکروہات کے جو احکام شریعت میں ہیں ، ان میں ہم سے کوتاہی تو نہیں ہورہی ہے ؟ خاص کر اپنے اخلاق وسلوک کا جائزہ لیں ، والدین کے ساتھ، شوہر وبیوی کے ساتھ، اولاد کے ساتھ، رشتہ داروں اور خاص کر غریب رشتہ داروں کے ساتھ، خاندان کی بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کے ساتھ، مسلمان اور غیر مسلم پڑوسیوں اور کاروبار اور دفاتر کے رفقاء کے ساتھ ہمارا کیا سلوک ہے ؟ ہم ان کے لئے پھول ہیں یا کانٹے ؟ وہ ہم سے راحت وسکون محسوس کرتے ہیں یا خوف ودہشت؟ ہم نے انہیں محبت کی سوغات دی ہے یا نفرت وعداوت کا تحفہ؟ غرض ہمیں اپنی زندگی کے ایک ایک عمل کا جائزہ لینا چاہئے ، اور خود اپنا حساب کرنا چاہئے؛ کیوں کہ انسان دوسرے انسانوں کی نگاہ سے اپنی کوتاہیوں کو چھپاسکتا ہے ، لیکن اپنے آپ سے نہیں چھپا سکتا، اسی لئے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس سے پہلے کہ تمہارا حساب کیا جائے خود اپنا حساب کرو!(کنز العمال)اسی طرح حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورِاکرم ﷺ نے ارشادفرمایاقیامت کے روز انسان اُس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ہٹ سکے گا جب تک اِن پانچ باتوں کے متعلق اُس سے سوال و جواب نہ ہو لے گا :
(۱) اُس کی عمرکے متعلق کہ کن کاموں میں اُس کو ختم کیا۔(۲) جوانی کے بارے میں کہ کن کاموں میں کھپائی۔(۳)مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا۔(۴) کن کاموں میں اُس کو صرف کیا ۔(۵) اپنے علم پر کتنا عمل کیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:” اپنا محاسبہ کرتے رہا کرو قبل اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے ، اپنا وزن کرتے رہا کرو، قبل اس کے کہ تمہارا وزن کیا جائے ۔جس نے دنیا میں میں اپنا محاسبہ کرلیا روز قیامت اس پر حساب آسان ہو جائے گا”
مذکورہ بالانصوص سے معلوم ہوتاہے کہ مومن ہمیشہ زندہ دل،روشن دماغ اور صاحب ادراک ہوتا ہے ، اگر اسے کچھ مل جائے تو شکر، گناہ کرے تو استغفار، مصیبت آن پڑے تو صبر کرتا ہے ۔مومن کا ضمیر غفلت سے بیدار،اور تباہی کی جگہوں سے چوکنا رہنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتا ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ایک خط مستقیم کھینچا، اور اس کی دونوں جانب خطوط کھینچے ، خط کے سرے پر ایک پکارنے والا ہے ، اور اس سے اوپر ہے واعظ ہے ، "خطِ مستقیم” سے مراد اللہ کا راستہ ہے ، اس کے سرے پر "پکارنے والے ” سے مراد : کتاب اللہ ہے ، اور اس سے اوپر نصیحت کرنے والا واعظ ، ہر مومن کے دل میں موجود نصیحت کرنے والا ضمیر ہے ، جبکہ دائیں بائیں خطوط گمراہی ، اور حرام کاموں کے راستے ہیں(اغیار کی نقالی بھی اسی کا ایک حصہ ہے )۔ علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں غیروں کی یعنی مسلمانوں کے علاوہ دوسروں کی مشابہت اختیار کرنے کے ممنوع ہونے کے بارے میں بہت سی وجوہات بیان فرمائی ہیں چند کو ذکر کیاجاتاہے ۔ غیرمسلموں کی نقل اور پیر وی کرنے سے آدمی خود بخود صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے ،کفارکی مشابہت پر، کفار کے طریقوں پر جمے رہنے سے خود ہی شریعت مطہر ہ سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور پھر یہ ہو رہاہے کہ مسلمانوں کی اس نقالی کو دیکھ کر کفار دلی خوشی محسوس کرتے ہیں اور اپنے کفر پر مضبوط سے مضبوط تر ہو تے چلے جاتے ہیں ۔ کفار کے اعمال وعقائد رسم ورواج اور جشن وتہوار سب کے سب برائیوں کا مجموعہ اور بھلا ئیوں سے بالکل خالی ہیں ۔
نئے سال کا جشن یا مغرب کی نقالی ؟
یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ آج کا مسلمان احتساب زندگی کو پس پشت ڈال کر،اسلامی تعلیمات کو دقیانوسی بتاکر،سنتوں کا مذاق اڑاتے ہوئے ، مغربی تہذیب کی رنگینیوں میں بدمست ہوکر ،نئے سال کی اس رسم بد کو غیروں کی طرح دین وشریعت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر بڑی خوش دلی کے ساتھ منارہا ہے ؛ جبکہ اسلام نے اقوام عالم میں ہماری مستقل الگ شناخت پیدا کی اور ہمیں اس پر قائم رہنے کا حکم دیا ، جب تک ہم اپنی شناخت کی حفاظت کریں گے ہمارا وجود باقی رہے گا ورنہ اہل تاریخ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جو قومیں اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہیں وہ اپنے وجود اور بقاء سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں ۔
جشن سال نو میں کیاہوتاہے ؟اخلاق باختگی اور بے ہودگی کی انتہاء پر پہنچ کر لوگ اس رات نت نئے تماشے کرتے ہیں ،چنگ و رباب کی محفلیں سجائی جاتی ہیں ، مردو عورت کا بے حجابانہ ملاپ جہاں عورت کے ماتھے سے حیاء کا زیور لوٹ کر ذلت کا داغ لگا تا ہے وہیں پر مرد کے سر سے انسانیت کا تاج اتار کر اسے شرم سے جھکا دیتا ہے اور دونوں کو انسانوں کی وادی سے نکال کر پلیدگی کے صحرا اور جنسی حیوانیت کے جنگل میں چھوڑ دیتا ہے ۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ سال نوکاجشن ایک ایسا غیر اسلامی اورغیر اخلاقی فعل ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ناراض ہوتے ہیں،یہ مغربی روش، سنجیدگی ، متانت ، عزت و وقار اور حیاء ہی نہیں ؛بل کہ انسانیت کی اولین قدروں کے بھی سراسر منافی ہے ۔ جسے کوئی بھی شریف النفس قبول نہیں کر سکتا ۔ غیروں کی تہذیب سے در آئے اس جشن کی بناء پر کئی عفت مآب بہنوں کی عزت کے آنچل تار تار ہوتے ہیں ، سینکڑوں ایسے واقعات ہیں کہ اس دن عزت و شرافت کے جنازے نکلتے ہیں اور غیور وباشعور خاندانوں میں ماتم کی صفیں بچھ جاتی ہیں ۔ غیر مسلم اقوام کے مخصوص و متعین تہوار کومنا کر ان سے مشابہت کا وبال اپنے سر لیا جاتا ہے ۔ اور ہم احکامات الہی اور فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر کے ، خود کو اللہ اور رسول کے دشمنوں کی صفوں میں شامل کرتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ مغربی تہذیب اپنانے کی یہ اندھا دھند روش ہمارے لیے کسی طور پر فائدہ مند نہیں؛بلکہ دنیا و آخرت کی تباہی و بربادی ہے ۔ یاد رکھیں کہ ہم اور ہماری آنے والی نسلوں کی عزت و حیا کا بقاء صرف اور صرف اسلام کی روشن تعلیمات میں ہے اس لیے ہمیں اپنے معاشرے سے تمام غیر اسلامی ، غیر اخلاقی اور غیر فطری رواجوں کو ختم کرنا ہوگا۔
خلاصۂ کلام :
مختصر یہ کہ ۲۰۱۸؍ اپنے رخصت ہونے کے ساتھ ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ جائے دنیا سرائے فانی ہے ، یہ ایک امتحان گاہ ہے ، جس کا ایک ایک لحمہ ہمارے لیے سونے سے زیادہ قیمتی ہے ۔ کائنات کے یہ ماہ و سال یونہی گزرتے رہیں گے صبح و شام کی آمد ہوتی رہے گی اور ہم لمحہ بہ لمحہ موت سے قریب تر ہوتے جائیں گے ۔ابھی بھی وقت ہے ہمیں چاہیے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں، اپنا احتساب کریں، اپنی دولت و جائیداد کو تمرد و سرکشی کا ذریعہ نہ بنائیں؛ بلکہ اسے صحیح مصرف میں خرچ کریں۔ اپنے اٹھنے والے قدم کو اللہ کی رضا و خوشنودی کی راہوں میں آگے بڑھائیں،رسول اللہﷺکی تعلیمات کو فروغ دیں، اپنی تہذیب وثقافت کی حفاظت کے لیے ہر ممکن سعی کریں، غیروں کی نقالی کرکے اسلامی تشخص و امتیاز کو مجروح نہ کریں۔ نئے سال کے نام پر انجام پانے والے غیر شرعی امور کے بجائے اللہ کو راضی و خوش کرنے والے کام انجام دیں۔ عیسائیوں کے طریقہ کے مطابق جو نیو ائیر کا استقبال کیا جا تا ہے ،کیک کاٹ کر اور مبارک بادیا ں دے کر اپنی تہذیب کا مذاق اڑایا جا تا ہے اسی طرح شور و شغب کے ذریعہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والی حرکتیں کی جا تی ہیں،ان تمام چیزوں سے مکمل اجتناب کریں، اور اپنے نو نہالوں کو ان تمام امور سے روکیں ، اسلامی تعلیمات سے اپنی اولادکو آگاہ کریں ،ورنہ ہماری آنے والی نسلیں دین کی تعلیمات سے بے بہرہ ہو کر، مغربی طریقۂ زندگی ہی میں کامیابی تصور کر کے پروان چڑھتی رہے گی۔اعاذنا اللہ منہ
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹادی
دوحہ قطر میں بزم صدف کے زیر اہتمام بین الا قوامی سیمینار ،تقسیم ایوارڈتقریب اور محفل مشاعرہ منعقد
دوحہ قطر:31/دسمبر(پریس ریلیز)
کم مدت کے باوجود بزم صدف کی ادبی و علمی کارگزاریاں عالمی طور پر توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہیں خاص طور پر سے مہجری ادب کی شناخت اور اردو کی نئی بستیوں میں مقیم افراد کی ادبی اور علمی سرگرمیوں سے اردو دنیا کو روشناس کرانے کے لئے بزم صدف کی سرگرمیاں متاثر کن ہیں۔یہ باتیں ڈی پی ایس آڈیٹوریم، واکرہ،قطر میں منعقدہ بزم صدف انٹرنیشنل کے عالمی سیمینار، ایوارڈ تقریب اور مشاعرہ سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
بزم صدف کے سرپرست اعلی جناب محمد صبیح بخاری کی صدارت اور معروف شاعر جناب احمد اشفاق کی نظامت میں ایوارڈ تقریب اور سیمینار کا آغاز قاری سیف الرحمن کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ تقریب کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے گفتگو کرتے ہوئے بزم صدف کے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری نے مختلف ادبی تنظیموں اور اداروں کی موجودگی میں بزم صدف کے کام کرنے کے نئے انداز اور نئے اہداف ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تنظیم عالمی طور پر اردو زبان کے حوالے سے مختلف طرح کے کام انجام دے رہی ہے، دس ممالک میں اسکی باضابطہ شاخیں سرگرم ہیں۔ ایک بین الاقوامی رسالہ صدف کی گزشتہ چار برسوں سے اشاعت ہو رہی ہے ،جس میں پندرہ ملکوں کے اردو شعرا وادبا چھپ چکے ہیں، مختلف مصنفین کی ایک سو سے زیادہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور دوحہ قطر اور ہندوستان میں ۲۵ سے زیادہ عالمی سیمینار اس ادارے نے منعقد کیے ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں جاوید دانش،مجتبی حسین اور ۲۰۱۸ء میں باصر سلطان کاظمی کو بین الاقوامی ایوارڈ پیش کئے گئے اور نئی نسل ایوارڈ ڈاکٹر واحد نظیر، عشرت معین سیما اور ۲۰۱۸ء میں ڈاکٹر راشد انور راشد کو پیش کئے گئے۔
محمد صبیح بخاری نے اپنے خطبۂ صدارت میں اس بات کا اعتراف کیا کہ اتنی قلیل مدت میں بزم صدف نے اپنی علمی سرگرمیوں سے ایک عالم کو حیرت میں ڈال رکھا ہے کیونکہ یہ صرف دوحہ قطر میں ہی سرگرم نہیں ہے، بلکہ ہندوستان اور دوسرے ممالک بھی اس ادارے کی سرگرمیاں جاری ہیں، انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ بزم صدف کا ایک عالمی پروگرام ہرسال دوحہ قطر میں لازمی طور پر ہوگا۔مہمان اعزازی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے جناب حسن عبدالکریم چوگلے نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بزم صدف کے دوحہ،بمبئی اور پٹنہ کے عالمی پروگراموں میں وہ شریک رہے ہیں اور انہیں بزم صدف کی سرگرمیوں سے پورے طور پر واقفیت ہے، انہوں نے بزم صدف کے اہالیان کو یہ مشورہ دیا کہ اردو تعلیم کے شعبے میں بھی اس بزم کو اپنی خدمات انجام دینی چاہئے کیونکہ جب تک اردو پڑھنے والوں کی تعداد نہیں بڑھے گی، تب تک شعرو ادب کا کوئی مقصد پورا نہیں ہوگا۔ مہمان اعزازی کی حیثیت سے جناب عظیم عباس بھی شریک بزم تھے اور انہوں نے بزم صدف کی ان کوششوں کو خاص طور سے سراہا کہ یہ دور دراز کے علاقوں میں ادبی تقریبات کا انعقاد کر کے ہماری زبان کے لئے ماحول سازی کا کام انجام دے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اردو کے لئے نئے نئے علاقوں میں پہنچنا اور تعلیمی و ادبی سرگرمیاں قائم کرنا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور بزم صدف اس کام کو انجام دے رہی ہے۔
بزم صدف کے چئر مین جناب شہاب الدین احمد نے دوحہ قطر اور عالمی طور پر بزم صدف کے ساتھ تعاون کرنے والے ادیبوں شاعروں اور بے لوث خدمت گاروں کا شکریہ ادا کیا کیونکہ اس معاونت کے بغیر یہ بزم اتنی کم مدت میں نہ اتنی شاخیں قائم کر سکتی تھی اور نہ ہی اتنے بڑے پیمانے پر تقریبات یا کتابوں کی اشاعت کا فریضہ ادا ہو سکتا تھا۔ شہاب الدین احمد نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ بزم صدف ادب و تہذیب کے ساتھ تعلیم اور خواندگی کے معاملات سے بے خبر نہیں ہے، اردو تعلیم کے بڑے مرکز کے قیام کے سلسلے میں اندرونی طور پر ہماری تیاریاں چل رہی ہیں ۔
برطانیہ سے تشریف فرما مشہور شاعر اور ڈرامہ نگار باصر سلطان کاظمی نے بزم صدف کا بین الاقوامی ایوارڈ لیتے ہوئے کہا کہ تخلیق کار کے دل میں لازمی طور پر یہ جذبہ ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ لکھتا پڑھتا ہے ادب کے ماہرین اور عام قارئین اسے کس طور پر قبول کرتے ہیں، اسے وہ جانے اور سمجھے، ایسے انعامات جن کے پیچھے اچھے اداروں اور ان کے کارپردازوں کی سمجھ بوجھ بھی رہتی ہے، ان کے ذریعے اعتراف کیا جانا ایک قابل اطمینان بات ہے ۔
نئی نسل ایوارڈ قبول کرتے ہوئے ڈاکٹر راشد انور راشد نے بزم صدف کا شکریہ ادا کیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اپنی آئندہ کوششوں سے ان توقعات کو ضرور پورا کرنا چاہیں گے جو ایوارڈ ملنے کے بعد ان سے اردو عوام کو پیدا ہوئی ہیں۔اس موقع پر بزم صدف کی تازہ دس کتابوں کا اجرا بھی عمل میں آیا، جس میں عرض داشت(صفدر امام قادری)،اردو کا مہجری ادب اور احمد اشفاق(نظام الدین احمد)ناز قادری کی خدمات کا تنقیدی مطالعہ(شمشاد فاطمہ)تھوڑی سی آوارگی (مہتاب قدر)، تقسیم ملک کا ادب اور دیگر مضامین (افشاں بانو) اس چہرے کے نام(طارق متین) تانیثیت چند مباحث( سعیدہ رحمن) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
بزم صدف نے ریحان خان کو انکی تنظیمی خدمات کے لئے ۲۰۱۸ء کے ایوارڈ کا علان کیا تھا، وہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر تقریب میں شامل نہ ہوسکے ،انکی غیر حاضری میں جناب احیاء الاسلام نے ان کا پیغام پڑھ کر سنایا جس میں انہوں نے بزم صدف کا شکریہ ادا کیا تھا، ریحان خان کی خدمات کے حوالے سے جناب سید شکیل احمد نے اپنا مقالہ پیش کیا۔
قبل ازاں پروگرام کے آغاز میں بزم صدف کی دوحہ اکائی کے صدر جناب عمران اسد نے دنیا کے مختلف گوشوں سے آئے اپنے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور ان کی اردو نوازی اور اپنی مادری زبان کے لئے جاں نثاری پر شکریہ ادا کیا ۔انہوں نے بزم صدف کی دوحہ اور ہندوستان بالخصوص مغربی بنگال کی شاخوں کے آئندہ اہداف کا ذکر کیا اور لوگوں سے خوش دلی کے ساتھ تعاون کرنے کی اپیل کی۔
ایوارڈ تقریب کے ساتھ بزم صدف نے حسب روایت ایک عالمی مشاعرہ کا انعقاد بھی کیاتھاجسمیں ہندوستان،پاکستان،برطانیہ،ابوظہبی، دوبئی اور دوحہ قطر کے منتخب شعرائے کرام شامل تھے، مشاعرہ کی نظامت یونیورسٹی آف حیدر آباد ( ہندوستان) کے استاد ڈاکٹر محمد زاہد الحق نے انجام دی اور مشاعرہ کی صدارت بزرگ شاعر جناب ظہورالاسلام جاوید ( ابو ظہبی) نے کی، مشاعرہ میں قطر سے ڈاکٹر ندیم جیلانی دانش، آصف شفیع،احمد اشفاق اور عتیق انظر نے شرکت کی ،ہندوستان سے پروفیسر ظفر امام،راشد انور راشد،صفدر امام قادری شریک بزم ہوئے برطانیہ سے جناب باصر سلطان کاظمی، دوبئی سے احیاء الاسلام(احیا بھوجپوری) اور محترمہ عائشہ شیخ عاشی نے شرکت کی۔
جانا بنتا ہے پر نہیں جاتا
باپ پہ اب پسر نہیں جاتا
ایک ہی بار ہجر کاٹا تھا
میرے اندر سے ڈر نہیں جاتا
وہ مجھے چھوڑ کر اگرجاتی
میں جو زندہ ہوں مر نہیں جاتا
وصل کے وقت سوچتا تھا یہ
کاش لمحہ ٹھہر نہیں جاتا
ہے ضرورت تو آکے مل مجھ سے
سایہ کرنے شجر نہیں جاتا
ایک وارفتگی سی چھائی ہے
ایک مدت سے گھر نہیں جاتا
سال بھر جھیلتا اذیت ہوں
سال یونہی گزر نہیں جاتا
بہاؤالدین اقدس
مولانا اسرارالحق قاسمی کی پچاس سالہ خدمات کے اعتراف میں ’’محسنِ ملت ‘‘ سیمینار کا انعقاد
پٹنہ:30دسمبر۔ معروف عالم دین کامیاب سیاست داں سینکڑوں مدارس و مکاتب کے سرپرست اور کشن گنج کے رکن پارلیامنٹ حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی کی ناگہانی
موت سے پوری امت صدمے میں ہے۔ پورے ملک میں انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تعزیتی نشستوں کا اہتمام ہورہا ہے اور لوگ اس مرد مجاہد کو پر جوش خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی روشن کی ہوئی شمع کو باد مخالف سے محفوظ رکھنے کا عہد بھی کررہے ہیں۔ بلا شبہ ان کی رحلت ملت اسلامیہ کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے ان کی رحلت سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔مقام افسوس ہے کہ بہار کے اس مایہ ناز سپوت کی رحلت پر بڑے پیمانے پر کوئی تعزیتی جلسہ کا اہتمام نہیں کیا گیا لیکن وژن انٹرنیشنل اسکول سہرسہ کے سربراہ شاہنواز بدر قاسمی اور نور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی دربھنگہ کے صدر معروف قلم کار اور عالم دین مولانانورالسلام ندوی نے اس جمود کو توڑتے ہوئے ان کی پچاس سالہ خدمات کے اعتراف میں محسن ملت سیمینار کا انعقاد کیا ۔ جس میں کثیر تعداد میں دانشوران ملت اور عوام نے شرکت کی ۔
تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے نورالسلام ندوی نے کہا کہ حضرت مولانا کی ہمہ جہت شخصیت اور بیش بہا خدمات پورے ملک کیلئے نا قابل فراموش ہیں اس لئے ایسی عظیم المرتبت شخصیت کے حیات و خدمات سے لوگوں کو روشناس کرانا زندہ قوم کی علامت ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم لوگوں کی دعوت پر اتنی کثیر تعداد میں دانشوران ملت اور عقیدت مندان اسرارالحق یہاں جمع ہیں۔
حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی کے معتمد خاص اور آل انڈیا تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن کے سکریٹری مولانا نوشیر احمد نے بہت ہی تفصیل سے حضرت مولانا سے متعلق اہم گوشوں پر روشنی ڈالی ۔ انہو ں نے کہا کہ مولانا محترم کو سب سے زیادہ خوشی تب ہوئی تھی جب وہ دارالعلوم دیوبندکی مجلس شوری کے رکن منتخب کئے گئے تھے ۔
حالانکہ اس سے قبل وہ رکن پارلیامنٹ منتخب ہوچکے تھے ۔ مولانا کی شخصیت باغ وبہار تھی کیا امیر کیا غریب سبھوں سے خندہ پیشانی سے ملا کرتے اور جہاں تک ممکن ہوتا ان کی حاجت روائی کرتے ۔ رکن پارلیامنٹ کی حیثیت سے کشن گنج حلقے میں جو ترقیاتی کام کئے ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں ۔انہوں نے 300مدارس و مکاتب میں بیت الخلا اور عمارت کی تعمیر کرائی ۔ وہ تمام مسلک کے لوگوں کا یکساں احترام کرتے تھے گروہ بندی مسلکی اختلاف سے ہمیشہ گریز کرتے رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کشن گنج کے لوگوں کے دلوں میں بستے تھے ۔ ان کے آخری سفر میں لاکھوں لوگوں کی موجودگی اس بات کی علامت ہے۔
مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ کے پرنسپل مولانا مشہود احمد قادری ندوی نے اپنی چالیس سالہ رفاقت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملت میں تعلیمی بیداری کیلئے ہمیشہ سرگرم عمل رہے ۔ مولانا محترم اعلی اخلاق اور اعلی کردار کے صفات سے مزین تھے ۔ ان کی رحلت سے ملت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اللہ ان کے درجات کو بلند کرے۔
مدرسہ بدرالا سلام بیگوسرائے کے ناظم تعلیمات مولانا مفتی خالد نیموی نے ان کی خوشگوار یادوں اور گراں قدر خدمات کا تفصیل سے ذکر کیا اور کہا کہ وہ عالم با عمل تھے ۔ ان کی ناگہانی موت سے مجھے ذاتی طور پر بہت قلق ہے، اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے ۔
صحافی اشرف استھانوی نے نورالسلام ندوی اور مولانا شاہنواز بدر قاسمی کے جرأت مندانہ اقدام کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں حضرات نے بہار کے اس مایہ ناز سپوت کی گراں قدر خدمات اور ان کے صحافتی و تعلیمی کارناموں سے عام لوگوں کو باخبر کرانے اور اس مرد مجاہد کو پر جوش خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جو یہ تعزیتی نشست منعقدکی ہے اس کیلئے یہ حضرات حد درجہ قابل مبارک باد ہیں۔ انہو ں نے کہا کہ میرے مراسم حضرت مولانا سے تقریباً 28سالوں کے رہے ہیں ۔ بہت ہی انکساری ،عاجزی ،ادب نوازی اور مردم شناسی ان کے اندر بدرجہ اتم تھی ۔ بلاشبہ ان کا قبل از وقت دنیا سے چلاجانا ملت کیلئے بڑا خسارہ ہے۔
روزنامہ انقلاب کے مقامی مدیر احمد جاوید نے کہا کہ مولانا محترم کی شخصیت جہد مسلسل سے عبارت تھی وہ نامساعدحالات میں بھی ہمت نہیں ہارتے تھے، بڑے ہی صابر و شاکر انسان تھے، ایسے لوگ خال خال ہی پیدا ہوتے ہیں۔
اس سے قبل وژن انٹرنیشنل سہرسہ کے سربراہ اور حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی کے قریبی رہے نوجوان عالم دین اور وژن انٹر نیشنل اسکول سہرسہ کے ڈائرکٹر شاہنواز بدر قاسمی نے سمینار کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کثیر تعداد میں دانشواران ملت اور ملی و سماجی کارکنان کی تشریف آوری پر اظہار مسرت کرتے ہوئے ان کا استقبال کیا ۔ انہو ں نے کہا کہ مولانا نے تعلیمی بیداری کیلئے جو خدمات انجام دی ہیں انھیں بھلایا نہیں جاسکتا وہ ہم جیسے لوگوں کیلئے آئیڈیل تھے،ہم لوگ ان کے مشن اور وژن کو آگے بڑھائیں گے۔ آپ لوگ دعائیں دیتے رہیں۔
دریاپور جامع مسجد کے امام اور خطیب مولانا عالم قاسمی نے اپنے 35سالہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ چار بار کشن گنج پارلیمانی حلقہ سے الیکشن میں ہارتے رہے لیکن ہمت نہیں ہارے، پانچویں بار جب وہ کامیاب ہوئے تو پھر چھٹی بار بھی کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ ان سے میرے درینہ مراسم رہے ہیں۔ان کی رحلت سے مجھے ذاتی نقصان پہنچا ہے۔ریاستی حج کمیٹی کے سابق چیئر مین الحاج الیاس حسین عرف سونو بابو اپنے درینہ مراسم کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ بہار کے نمائندہ شاعر سید حسن نواب حسن اور حافظ اسجد امینی نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ جلسہ کا آغاز حافظ محمد مقیم الدین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔
مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی کے سابق پرنسپل مولانا ابولکلام قاسمی نے مولانا موصوف کو پرخلوص خراج عقید ت پیش کرتے ہوئے کہا کہ موت العالم موت عالم ۔ اللہ ان کا نعم البدل عطا کرے۔ توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کشن گنج کے چیئر مین مولانا شیخ مطیع الرحمان سلفی نے کہا کہ مولانا کی رحلت سے سیمانچل یتیم ہوگیا ہے۔ رکن پارلیامنٹ کی حیثیت سے سیمانچل خاص کر اپنے پارلیامانی حلقہ کشن گنج کی ترقی کیلئے انھوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ اس موقع پرنایاب حسن قاسمی کے ذریعے مرتب کردہ مولانامرحوم کی حیات وخدمات پرمشتمل مضامین کامجموعہ "جادہ بہ جادہ، منزل بہ منزل "کااجرابھی عمل میں آیا ـ جلسہ سے خطاب کرنے والے اہم لوگوں میں عوامی نیوز کے مدیر عبدالواحد رحمانی ،پردیش آر جے ڈی یوتھ کے صدر قاری صہیب ، بہار پردیش کانگریس اقلیتی سیل کے صدر منت رحمانی ،کشن گنج ڈسٹرکٹ بورڈ کے رکن محمد عمران اور شہزاد کوثر کے علاوہ جامع امام ابن تیمیہ کے آصف تنویر تیمی ، بہار رابطہ کمیٹی کے جنرل سکریٹری افضل حسین کے نام قابل ذکر ہیں۔ شکریہ کی رسم نعیم صدیقی نے ادا کی۔
نایاب حسن قاسمی
جاننے والے جانتے ہوں گے کہ 2014میں عین الیکشن سے چند ماہ قبل سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے میڈیاایڈوائزرمسٹر سنجے بارو "دی ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر "نامی کتاب منظرِ عام پرلائے تھے اوربی جے پی، جواس وقت انتخابی مہم میں فراٹے سے آگے بڑھ رہی تھی، اس کی رفتارکومزیدکئی پرلگ گئے تھےـ اب جبکہ چندماہ بعدسترہواں لوک سبھاالیکشن ہونے کوہے، تواسی کتاب کوصفحاتِ قرطاس سے پردۂ سیمیں پراتاراجارہاہے اورابھی ستائیس دسمبرکواس کاٹریلرہی ریلیزہواہے کہ ہنگامے برپاہوگئے ہیں، چندمنٹوں پرمشتمل یہ ٹریلرہی ایسا "جامع "ہے کہ اس سے پوری فلم کے اندرون میں جھانکا جاسکتاہے اوراسی وجہ سے مختلف سمتوں سے مختلف آوازیں اٹھ رہی ہیں ـ بنیادی طورپرکانگریس اس پرکسی رائے کے اظہارسے دامن بچاتی نظرآتی ہے، جبکہ اس کے دوسرے درجے کے؛ بلکہ بعض اول درجے کے لیڈران بھی اس فلم کوبی جے پی "سپانسرڈ” بتا رہے ہیں ـ اس فلم پردھماچوکڑی کاسلسلہ ٹوئٹرسے شروع ہواہے، جہاں سب سے پہلے بی جے پی کے آفشیل ٹوئٹرہینڈل سے اس کے ٹریلرکالنک شیئرکیاگیا اوراس پرنوٹ بھی لکھاگیاکہ اس فلم میں اس بات کاانکشاف کیاگیاہے کہ کس طرح مسلسل دس سال تک اس ملک کوایک مخصوص خاندان نے یرغمال بنائے رکھااورمنموہن سنگھ کواس وقت تک محض دکھاوے کے لیے وزیراعظم بنائے رکھاگیا، جب تک گاندھی خاندان میں کوئی اس عہدے کے لائق نہیں ہوگیاـ اس کے بعد بی جے پی کے ٹاپ کے لیڈروں نے اسے ری ٹوئٹ کیا، گویاباضابطہ بی جے پی کی جانب سے اس فلم کوپرموٹ کیاجانے لگا، اس کی وجہ ظاہرہے کہ مجموعی طورپر اس فلم میں کانگریس کاوہ چہرہ دکھا یاگیاہے، جسے دیکھ کرفلم کے ناظرین کانگریس سے متنفرہوسکتے ہیں، دورہوسکتے ہیں اورممکن ہے اس فلم کی وجہ سے آنے والے الیکشن میں کانگریس کونقصان اٹھاناپڑے، ظاہرہے کہ اسی امیدمیں بی جے پی باقاعدہ اس فلم کے ڈیجیٹل پرموشن میں لگ گئی ہے؛ حالاں کہ اس سلسلے میں کانگریس کامجموعی ردعمل یہ بھی سامنے آرہاہے کہ اس فلم کوبی جے پی ہی پروڈیوس کررہی ہے،
بی جے پی پرشک اس وجہ سے بھی کیاجارہاہے کہ اس فلم کے ڈائریکٹروجے گٹی اسی سال اگست میں 34کروڑکے جی ایس ٹی فراڈمیں جیل ہی ہواکھاچکے ہیں،اس کے باوجودایک حکمراں پارٹی، جوبدعنوانی کے خاتمے کی قسمیں کھاتی ہے، وہ اس کی فلم کی تشہیرکررہی ہےـ کانگریس کے میڈیاترجمان رندیپ سرجے والاکاکہنایہ ہے کہ بی جے پی مختلف شعبوں میں حکومت کی بوگس کارکردگی کے خلاف اٹھنے والے سوالات سے بچنے کے لیے اس فلم کی پرموشن میں لگ گئی ہے، ابھیشیک منوسنگھوی نے بھی ٹوئٹ کیاہے کہ بی جے پی ہی اس فلم کی پروڈیوسرہےـ
ادھرانوپم کھیر فلم پرہونے والے ہنگامے پرکہتے ہیں کہ میں نے اس فلم کے لیے جتنی محنت کی ہے، اتنی اپنے پینتیس سالہ کریئرمیں پانچ سوفلموں میں کام کے دوران نہیں کی، ان کولگتاہے کہ ان کی یہ فلم اتنی بڑی اوراہم ہے کہ اسے آسکرکے لیے نامزدکیاجاناچاہیے، وہ ریلیزسے پہلے فلم کی کسی قسم کی سپیشل سکریننگ کاسختی سے انکارکرتے ہیں، ان کاکہناہے کہ فلم کے ٹریلرکے لیے اورپوری فلم کے لیے باقاعدہ قانونی طورپرسینسربورڈسے اجازت مل چکی ہے؛ اس لیے ہم کسی کوسپیشل طورپردکھانے کے پابندنہیں ہیں،حالاں کہ ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ انوپم کھیرجیسے لوگ ہی گذشتہ چندسالوں کے دوران ریلیزہونے والی کئی فلموں پربرپاہونے والے تنازعات میں دوسری انتہاپرتھے، پی کے، اے دل ہے مشکل، لویاتری، پدماوتی وغیرہ جیسی فلموں پرجواٹھاپٹک ہوئی، اس سے سب واقف ہیں ـ عدمِ برداشت کاجومسئلہ اب تک کانگریس یادوسرے اپوزیشن والے اٹھاتے رہے، وہی اب بی جے پی، انوپم کھیر،ان کی بیوی اورگودی میڈیااٹھارہاہے؛ بلکہ مدھیہ پردیش کی نئی کانگریس حکومت کوبیک فٹ پرپہنچانے کے لیے بعض چینلوں نے یہ افواہ بھی پھیلانے میں عارمحسوس نہیں کی کہ وزیراعلی کمل ناتھ نے ایم پی میں اس فلم کوبین کرنے کااعلان کیاہے، جبکہ حقیقتاً ایسی کوئی بات نہیں تھی ـ کچھ زیادہ چالاک لوگ راہل گاندھی کے پراے ٹوئٹس کے سکرین شاٹس کے حوالوں سے برداشت وعدمِ برداشت کے موضوع کوہوادیناچاہتے ہیں ـ
میرے خیال میں سب سے زیادہ موج سنجے باروکی ہے، کانگریس والوں کاکہناہے کہ یہ صاحب یوپی اے ون میں دوہزارچارسے دوہزارآٹھ تک وزیراعظم کے میڈیاایڈوائزرتھے، پھرجب الیکشن آیا، توچلے گئے اورجب دوبارہ یوپی اے کی حکومت آئی، توپھرآفس سنبھالنے پہنچ گئے، مگرانھیں ملازمت نہیں دی گئی، کانگریس کاتویہی کہناہے کہ دوبارہ کام نہ ملنے کی وجہ سے ہی انھوں نے وہ کتاب لکھی اوراس میں نادرست باتیں درج کردیں، جبکہ دوسری طرف کے لوگ اس کتاب کوایک "گھرکے بھیدی "کے انکشافات کے طورپردیکھتے ہیں اوران کامانناہے کہ اس میں درج تمام باتیں درست ہیں ـ بہرکیف باروتوفائدے میں ہیں کہ پہلے تووزیراعظم کامشیربن کر موج کرتے رہے، وہاں سے نکلے، توپانچ سال پہلے اسی وزیراعظم پر کتاب لانچ کرکے مال بنایا اوراب اس کے فلمی حقوق بیچ کرمال بنالیا،فی الجملہ سنجے باروایک انتہادرجے کے ابن الوقت، موقع پرست، طوطاچشم اور ناقابلِ اعتمادانسان نظرآتے ہیں ـ
اس پورے سیناریومیں سب سے دلچسپ کیریکٹرریئل ڈاکٹر منموہن سنگھ کاہے، بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں اور بارونے اپنی کتاب میں بھی یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھیں سونیاگاندھی نے وزیراعظم اس لیے بنایا کہ متعددوجوہ کی بناپروہ خودنہیں بن سکتی تھیں اوراس وقت اندرونِ گاندھی فیملی کوئی دوسراسیاسی جانشین اس قابل بھی نہیں تھا اور ڈاکٹرسنگھ نہایت شریف النفس اوربے ضررانسان تھے؛ اس لیے انھیں بلی کابکرابنادیاگیا؛ حالاں کہ دوسری طرف منموہن سنگھ کاکم وبیش نصف صدی کاسیاسی سفریہ تسلیم کرنے سے روکتاہے کہ وہ اس حدتک "بدھو "تھے کہ اپنے خلاف گاندھی فیملی کی سازشوں کوسمجھ ہی نہ سکے اورآسانی سے آلۂ کاربنتے چلے گئے ـ
اپنے اوپربننے والی فلم پرمیڈیاکے ذریعے پوچھے گئے سوال پرانھوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہااوران سے یہی توقع بھی کی جارہی تھی ـ مشہور صحافی راجدیپ سردیسائی نے ان کے اس رویے کو ان کے "لیجنڈ "ہونے کی علامت قراردیاہے ـ
بہرکیف اصل بات یہ ہے کہ چوں کہ بی جے پی اپنی مدتِ کارمیں بہترگورننس دینے کے معاملے میں بری طرح ناکام رہی ہے اوراسے خوداس حقیقت کاادراک ہوچلاہے؛اس لیے آنے والے چندماہ میں اسی قسم کے قطعی بیہودہ، بکواس اورعوامی مفادات سے غیرمتعلق قسم کے موضوعات پبلک ڈومین میں لانے اورانھیں برقراررکھنے کی کوشش کرے گی، 27 دسمبر کوپارلیمنٹ سے دوبارہ تین طلاق بل کاپاس کیاجانابھی اسی کاشاخسانہ تھا، اس بل کے جومقاصدواغراض حکومت بیان کرتی ہے، وہ اس صدی کااب تک کاسب سے دلچسپ "لطیفہ” قراردیاجاسکتاہے ـ ابھی جنوری میں ہی بابری مسجدکیس کی بھی سماعت شروع ہونے والی ہے، اس طرح کے دوچاراوربھی معاملے اٹھائے جاسکتے ہیں، میڈیاتومودی بھگتوں کی صف میں شامل ہے ہی؛ اس لیے رائی کوپہاڑبنانے کاعمل بڑی آسانی سے انجام دیاجاسکتااوریہ کامیاب بھی ہوسکتاہےـ
ڈاکٹر منور حسن کمال
شام خوں آشام سے صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے اپنی فوجیں واپس بلانے کے اعلان کے ساتھ ہی عالمی سیاست گرم ہوگئی ہے۔ کوئی اس کو دانش مندانہ فیصلہ قرار دے رہا ہے اور کوئی کئی برس چلنے والی اس جنگ سے امریکی فوجیوں کی واپسی کو عاجلانہ فیصلہ۔ اقوام متحدہ میں سویڈن کے سفیر اولاف اسکاگ کا خیال ہے کہ ٹرمپ کا شام سے فوج ہٹانے کا ان کا فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ناپختہ سیاست داں ہیں بلکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ شام میں سیاسی عمل کو یقینی بنایا جاتا اور تمام جماعتیں مل کر وہاں آئین میں اصلاحات کرتیں اور پھر انتخابات ہوتے۔ اس لیے کہ شام کے باشندوں کو مذکورہ عمل کے بعد ہی یہ احساس ہوگا کہ ان کا ملک جنگ کے عفریت کے چنگل سے باہر آگیا ہے۔ حالانکہ جنگ کے بعض فریق یہ مانتے ہیں کہ انہوں نے جنگ جیت لی ہے، لیکن جب تک کسی ملک میں امن بحال نہیں ہوجاتا اس وقت تک اس جنگ کو کامیاب کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے شام سے فوج ہٹانے کے فیصلے کے دفاع میں کہا تھا کہ شام میں شدت پسند تنظیم ’داعش‘کو شکست دے دی گئی ہے۔ جبکہ ناقدین سیاست کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح خانہ جنگی کا حل تلاش کرنا مزید مشکل ہوجائے گا۔
شام سے داعش کے انخلا اور اس کو شکست دینے کی خبر پر سوالیہ نشان اس لیے بھی لگ گیا ہے کہ وہاں سے امریکی فوج کی واپسی کے بعد مسلم دنیا کے مقبول ترین لیڈر اور زیرک سیاست داں رجب طیب اردغان نے کہا ہے کہ داعش کے خلاف شام میں جنگ کی کمان اب ترکی سنبھالے گا۔ ادھر ایران روز اول سے ہی شام میں امریکی فوجیوں کی موجودگی پر اعتراض کرتا رہا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس کی وجہ سے سارا علاقہ عدم استحکام کا شکار ہورہا ہے۔ دراصل شام میں امریکی فوج کی موجودگی نظریاتی کشیدگی کا سبب بھی ثابت ہوئی ہے۔
جہاں تک رجب طیب اردغان کی بات ہے تو اطلاعات یہ ہیں کہ شامی سرحد کے قریب ترک فوجی گاڑیوں کی نقل وحرکت دیکھی گئی ہے۔ فوجی ترک بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک قافلے کی شکل میں ’قلیس‘ کے سرحدی قصبہ البیلی پہنچ چکے ہیں۔ امید ہے جلد انہیں فوجی چھاؤنی میں پہنچادیا جائے گا۔ دوسری طرف آزاد شامی فوج کے بھی مستعد ہونے کی خبریں ہیں۔
رجب طیب اردغان اور ڈونالڈ ٹرمپ میں شام سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد طاقت کا توازن برقرار رکھنے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ ساتھ ہی دونوں رہنما اس بات پر بھی متفق ہوگئے ہیں کہ اپنے اپنے ملک کے فوجی، سفارتی اور دیگر اعلیٰ افسروں کے مابین تعاون کو یقینی بنانے پر بھی اتفاق قائم ہوتاکہ طاقت میں خلا باقی نہ رہے۔
واضح رہے کہ شام سے امریکی فوج کے انخلا میں 2سے 3مہینے کا وقت لگ سکتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی اس بات کا اقرار کرلیا ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں رجب طیب اردغان سے بات کرلی ہے اور شام سے فوج آہستہ آہستہ واپس بلائی جائے گی۔ صدر امریکہ کے شام سے فوجیں واپس بلانے کے فیصلے کو اسرائیل نے بھی پسند کیا ہے لیکن اسرائیل یہ سوچ کر پریشان ہے کہ ٹرمپ کے اس فیصلے سے اسرائیل کے جانی دشمن ایران کو پڑوسی ملک میں عمل دخل کی کھلی چھوٹ مل سکتی ہے۔
امریکہ بھی شام سے متعدد مرتبہ کہہ چکا ہے کہ ایرانی فوج اور ملیشیا کو شام سے باہر کردے۔ شام میں ایرانی فوج کی موجودگی پر اسرائیل سخت ناراضگی ظاہر کرچکا ہے اور شام کی زمین پر کئی مرتبہ فضائی حملے کرکے ایرانی فوج اور حزب اللہ کے ٹھکانوں کو اپنا ہدف بناچکا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہاں اسلحہ کے گودام واقع ہیں۔ شام میں تشدد کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فارہیومن رائٹس (Syrian Observatory for Human Rights) نے ان حملوں کی تصدیق کی ہے۔ تاہم اسرائیل نے ان حملوں کے بعد کسی جانی یا مالی نقصان کا دعویٰ بھی نہیں کیا ہے، ان فضائی حملوں پر روسی وزارت خارجہ کا موقف ہے کہ یہ شام کی خود مختاری پر حملے کے مترادف ہے اور یہ حملے شہری ہوابازی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ روسی وزارت خارجہ کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ حملے اشتعال انگیزی کو ہوا دے سکتے ہیں۔
جیسا کہ درج بالا سطور میں عرض کیا گیا کہ ترکی اب شام میں داعش کے خلاف مزید مضبوطی کے ساتھ جنگ لڑے گا تاہم ماہرین نے ترکی کے اس دعوے پر شکوک وشبہات ظاہر کیے ہیں اور یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا ترکی اکیلے شام سے داعش کا نام ونشان مٹا سکتا ہے؟ لیکن ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاویش اوغلو اپنے اس بیان پر مضبوطی سے قائم ہیں کہ ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ ہم داعش کا اثر توڑ سکیں۔ سیاسی گلیاروں میں یہ خبر بھی گشت کررہی ہے کہ صدر رجب طیب اردغان کا اصل نشانہ کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) ملیشیا ہے، جسے امریکہ نے ہی شام میں داعش کے خلاف جنگ کے لیے تربیت دی تھی۔ خیال رہے کہ ترکی وائی پی جی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ ترک ایک سے زیادہ مرتبہ امریکہ سے کہہ چکا ہے کہ وہ داعش کے خلاف لڑائی میں وائی پی جی ملیشیا کو اسلحہ کی فراہمی بند کردے۔
ادھر متحدہ عرب امارات نے دمشق میں اپنا سیاسی اور سفارتی مشن بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ شام میں تبدیلی کی لہر اور آنے والے وقت میں دمشق کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات اور رابطے ناگزیر ہوجائیں گے۔ اس لیے اس نے پہل کی ہے اور یہ بھی کہ امارات شامی قوم، ان کی خود مختاری اور اس بات کا حامی ہے کہ وہاں وحدت قائم رہے اور شام میں عرب ممالک کو مزید فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر تیونس نے اپنی فضائی حدود میں شام کی پروازوں کی آمدورفت اور ان کے گزرنے پر عائد پابندی ختم کردی ہے۔ یہ سلسلہ تقریباً آٹھ برس سے موقوف تھا اور تقریباً چھ برس قبل تیونس نے شام سے اپنے سفارتی تعلقات بھی منقطع کرلیے تھے۔
صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ رجب طیب اردغان ہی وہ شخص ہیں جو داعش کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے امریکی فوجیوں کے شام سے انخلا پر اپنے سخت موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے خلاف ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
شام میں اب تک لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں، لاکھوں افراد زخمی ہیں اور ہزاروں کی تعداد ایسے افراد کی ہے جو لاپتہ ہیں۔ برطانوی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شام میں مارچ 2018تک تین لاکھ 53ہزار 900افراد کی ہلاکت ہوئی ہے اور ہلاک ہونے والوں میں ایک لاکھ 6ہزار عام شہری ہیں۔ 56ہزار 900افراد ایسے ہیں جو لاپتہ ہیں۔لاکھوں اموات کے علاوہ اس جنگ میں کم وبیش پندرہ لاکھ ایسے شامی باشندے ہیں جو کسی نہ کسی طور پر معذور ہوگئے ہیں۔ جو لوگ بے گھر ہوگئے ہیں ان کی تعداد 61لاکھ ہے جب کہ 56لاکھ سے زیادہ افراد دوسرے ملکوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اب امریکی افواج کی واپسی کے بعد شام کے حالات کیا کروٹ لیتے ہیں اور وہاں قیام امن کے لیے ترکی، روس اور امریکہ کیا پیش رفت کرتے ہیں، اس کا اندازہ چند دنوں میں ہوجائے گا۔ ترکی جس کو عالم اسلام میں اس وقت قابل ذکر قوت حاصل ہے اور سیاسی اور جنگی قوت کا بھی حامل ہے، اسے چاہیے کہ شام میں قیام امن کے لیے اپنی تمام تر قوتیں صرف کرتے ہوئے اپنا قائدانہ کردار ادا کرے تاکہ شام کے باشندے بھی اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح پرامن ماحول میں پرسکون زندگی جی سکیں۔
محمد سالم سریانوی
اس وقت ہندوستانی مسلمان جن حالات ومسائل سے دوچار ہیں ،ان میں ایک بڑا مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا ہے، موجودہ حکومت نے جس انداز سے اس میں رخنہ اندازی کی کوشش کی ہے، وہ بالکل عیاں ہے، حکومت نے اس سلسلے میں جس طرح سے پہل اور ڈکٹیٹر شپ کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی نظیر میری معلومات کے مطابق ہندوستان میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ’’تین طلاق‘‘ کو اس انداز سے ہوا دی گئی کہ لگتا ہے ہندوستانی مسلم خواتین کے تمام مسائل صرف اسی سے جڑے ہوئے ہیں اور اسی کے حل کرنے سے سب حل ہوجائیں گے، اسی بنیاد پر ’’تین طلاق بل‘‘ کو ’’مسلم خواتین تحفظ بل2017ء‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جب کہ اہل بصیرت جانتے ہیں کہ یہ سب اپنے مفادات کی خاطر کیا جارہا ہے، عنوان صرف ایک بہانہ ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
۲۷؍دسمبر کو ایوان زیریں کے اندر جس انداز سے اس پر بحث ہوئی، مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے کھلم کھلا مخالفت جتائی اور اپوزیشن نے بھی ہنگامہ کیا اور اس کے لیے واک آؤٹ بھی کیا؛ لیکن ان سب کے باوجود ’’کثرت رائے‘‘ کی بنیاد پر اس بل کو ایوان زیریں میں پاس کرلیا گیا، یہ ’’ڈکٹیٹر شپ‘‘ کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟ مختلف ممبروں کی طرف سے ’’ترمیمی تجاویز‘‘بھی پیش کی گئیں؛لیکن حکومت نے سب کو یکسر مسترد کردیا اور سیشن کے ختم تک بل کو منظوری دے دی، اس کا صاف مطلب ہے کہ حکومت کو آئین وقوانین سے کوئی مطلب نہیں ہے، اسے صرف اپنی بات منوانی ہے، چاہے اس کے لیے اسے کچھ بھی کرنا پڑے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ سال گزشتہ حکومت نے ایوان زیریں میں بل کو پیش کیا تھا، جس پر اکثریت نے اتفاق رائے ظاہر کیا تھا، اسی کی بنیاد پر آئندہ کے لیے بل کی تیاری کی گئی اور ایسا لگتا تھا کہ بہت جلد حکومت اس کو ایوان بالا سے بھی منظور کرالے گی؛ لیکن ایسا نہیں ہوا؛ کیوں کہ اس میں حکومت اکثریت میں نہیں تھی، راجیہ سبھا میں اپوزیشن نے بل کی مخالفت کی اور اسے سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کی مانگ کی، جس کے سامنے حکومت مجبور ہوگئی اور حکومت کو لگا کہ شاید اب اس بل کو پاس کرانے کے راستے محدود ہوگئے ہیں، اس لیے جتنی جلدی ہوسکے ،اس کو پاس کرایا جائے؛ اسی لیے اس بل کو قانونی شکل دینے کے لیے ’’آرڈیننس‘‘ لانے کا فیصلہ کیا اور اس کو منظور بھی کرالیا، حالاں کہ ماہرین جانتے ہیں کہ اگر کوئی بل ایوان میں زیر بحث ہو، تو اس پر آرڈنینس لانے کا کوئی جواز نہیں ہوتا ہے؛ لیکن حکومت کو تو جلدی تھی، بہر حال اس سے بھی پوری بات نہیں بنی ،تو اب حالیہ سرمائی اجلاس میں اس بل کو پیش کیا گیا اور تمام مخالفتوں اور ترمیمی تجاویز کے بعد بھی کثرت رائے کی بنیاد پر پاس کرلیا گیا، اس کا صاف مطلب ہے کہ حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔
اہل نظر جانتے ہیں کہ ’’طلاق ثلاثہ بل‘‘ میں خامیاں ہی خامیاں ہیں، اس میں کوئی ایسی صورت نہیں ہے، جس کی بنیاد پر اسے اچھا کہا جا سکے، جب کہ وہ آئین ہند کی مختلف دفعات کے مخالف بھی ہے، اس بل میں جس تحفظِ خواتین کی بات کی گئی ہے، اس کا کوئی حصہ نہیں ہے، جہاں ایک طرف یہ کہا گیا ہے کہ طلاقِ ثلاثہ جرم ہے، وہیں پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی تین طلاق دیتا ہے ،تو وہ کالعدم ہوگی اور ایسا شخص قانون کی نگاہ میں فوجداری قانون کے اعتبار سے مجرم ہوگا، سوا ل یہ ہے کہ جب طلاق ثلاثہ کا وقوع ہی نہیں ہوگی اور وہ کالعدم ہوگی، تو جرم کس بات کا؟ اسی طرح اگر اس کو جرم مان بھی لیا جائے ،تو تین سال کی سزا کیوں؟ اس لیے کہ طلاق توایک سول مسئلہ ہے، جب کہ سزا کریمنل کوڈ کی دی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں کسی بھی مذہب میں طلاق جرم نہیں ہے، تو مسلم کمیونٹی کے لیے جرم کیوں؟ ایسے ہی جب شوہر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوگا، تو بیوی اور بچوں کا نان نفقہ وغیرہ کون اٹھائے گا؟ ایسے ہی جیل سے واپسی کے بعد وہ شوہر، جس کو بیوی کی وجہ سے تین سال جیل کی سزا ہوئی، وہ اس کو بیوی کے طور پرکھے گا؟ ہر گز نہیں؛ بلکہ اس کی وجہ سے سوائے نفرت وعداوت میں اضافہ کے اورکچھ نہیں ہوسکتا، اس کے علاوہ کئی ایسے سوال ہیں، جواس بل کے مختلف پہلووں پر پیدا ہوتے ہیں۔
اس بل پرگہرائی سے غور کریں، تومعلوم ہوگاکہ اس میں مسلم خواتین کا تحفظ نہیں؛ بلکہ تشدد ہے، یہ مسلم خاندانوں کو جوڑنے کا نہیں ؛بلکہ ان کو توڑنے کا راستہ ہے، اسی طرح یہ مسلم کمیونٹی کے افراد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کا آسان ذریعہ بھی ہے؛ اس لیے اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس بل کو مسلم خواتین کے حق میں تشدد سمجھتے ہیں اور اسی کے ساتھ مسلم پرسنل لامیں کھلی مداخلت بھی مانتے ہیں؛ اس لیے حکومت سے اپیل ہے کہ وہ اس پر نظرثانی کرے، ماہرین سے مشورہ کرے اور ضروری ترمیم کے بعد بل کو پاس کرائے، جس سے واقعی طور پر مسلم خواتین کا تحفظ ہو، یقیناًہم بھی طلاق ثلاثہ کے خلاف ہیں؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا قانون بنایاجائے، جس سے سارا معاشرتی نظام ہی درہم برہم ہوجائے اور مسلم خاندانوں میں دراڑ پڑ جائے۔ اس موقع پر خود اپنے بھائیوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ طلاق کے معاملے میں سنجیدگی برتیں، اسلامی شریعت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو اختیار کریں، ایسے مواقع پر علما اور دانشوروں سے مشورہ کرنے کے بعد ہی کوئی اقدام کریں اور یہ طے کریں کہ ہم بہر صورت شریعت اسلامیہ کے مطابق ہی زندگی بسر کریں گے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد
ردا ے زیست پر درد و غم کی دستکاری
عطا ے شہر یاراں ہے
جھیل سی آنکھیں خشک ہیں
انعام دور زماں
تجھے معلوم نہیں
اس خطیہ کثرت میں
جان انساں سے
عظیم تر ہے وجود حیواں
یہ منظر
دور نمرود و شداد نہیں
عطیہ جمہور ہے
کانوں میں دستک دے رہی ہے
صدا ے سرمد
چہار سمت
ہو کا عالم
دھواں دھواں منظر
تا حد نظر
تصویر ایواں
کتاب وقت
کچھ نظر نہیں آتا
آنکھوں پر بندھی کالی پٹی
ہاتھوں میں لئے ضابط حیات
کون آواز دے رہا ہے
اس صحرا میں
گل کی آمد ہے ۔۔۔
آفتاب نو کی آمد ہے !
*پرنسپل سی ایم کالج دربھنگہ بہار
تحریر:روِش تیواری
ترجمانی:نایاب حسن قاسمی
2014ء لوک سبھا الیکشن کے بعد سے اب تک متعدد مسائل و موضوعات عوامی توجہات کا مرکز رہے ہیں ،جیسے :برداشت و عدمِ برداشت،سیاسی پشت پناہی،تعلیمی اداروں میں آزادی کی حدود،پرائیویسی کا حق،مساوات(جیسے ہم جنسی اور سبری مالا مندرمیں خواتین کادخول وغیرہ)جنسی حقوق(می ٹو) آئینی و دستوری اداروں (جیسے ریزروبینک،عدلیہ،میڈیا اور سی بی آئی وغیرہ)کی خود مختاری و آزادی۔یہ وہ مسائل ہیں،جو گزشتہ انتخابات کے بنیادی تھیم کا حصہ نہیں تھے،مگر اب تازہ سیاسی ڈسکورس کا لازمی جز ہیں۔آئیے ذیل میں ہم بعض اُن اہم موضوعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں،جو2019ء کے جنرل الیکشن میں اہم انتخابی ایشوزثابت ہوسکتے ہیں۔
سیکولر؍کمیونل:
یہ توحقیقت ہے کہ دستورِہند کے دیباچے میں لفظِ’’سیکولر‘‘1976ء میں ایمرجنسی کے دوران بیالیسویں ترمیم کے ذریعے شامل کیاگیا تھا،مگر اس کے کئی عشروں کے بعد اس لفظ کے ارد گرد کی جانے والی سیاست کو اس وقت اہمیت حاصل ہوئی،جب بی جے پی نے آرایس ایس ۔ وی ایچ پی کے ذریعے چھیڑی گئی رام مندر تحریک کی حمایت کا فیصلہ کیا۔تبھی سے اس پارٹی نے وسیع پیمانے پرپورے ملک میں اپنے پاؤں پھیلانے کے لیے ہندو تواامیج اپنا نا شروع کیااور اسی کا نتیجہ2014ء کی غیر متوقع و غیر معمولی جیت کی شکل میں سامنے آیاتھا۔ایسا لگتاہے کہ یہ جیت اس ملک میں سیکولر سیاست کادم بھرنے والی جماعتوں پر بھی اثر انداز ہوئی ہے،بہ طورخاص اس کے بعد اقلیتوں کے حوالے سے کانگریس کا رویہ بدلا بدلا سانظر آرہاہے۔جہاں علاقائی پارٹیوں نے عوامی مقامات و اجتماعات میں سیکولر۔کمیونل ڈبیٹ سے گریز کیا،وہیں کانگریس نے شعوری طورپر ایسی کوششیں یا اقدامات کیے ،جن سے وہ اس الزام کا جواب دے سکے کہ وہ ایک مسلم دوست(Pro-Muslim)پارٹی ہے۔گویاایک طرف توبی جے پی ہے،جس نے علانیہ طورپر مسلمانوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے انتخابی جیت حاصل کی اور اب کسی نہ کسی عنوان سے مسلم دوستی کا دم بھی بھرتی نظر آرہی ہے،جبکہ دوسری طرف اپوزیشن ہے،جواقلیتوں کے مسائل سے اپنے آپ کوزیادہ قریب نہیں دکھاناچاہتی،اس کی وجہ سے سے اقلیت مرکو زسیاست دونوں طرف غیراہم یا منظرنامے سے تقریباًغائب ہوگئی ہے۔2019ء کے الیکشن میں خاص طورپر سیکولر پارٹیوں کے اس نئے رویے کا امتحان ہوگاکہ وہ اقلیتوں کے مسائل وحقوق کونظر انداز کرکے چلتی ہیں یاکم ازکم عوامی سطح پرہی اقلیتوں کے حقوق کا دفاع جاری رکھتی ہیں؟
نیشنل؍اینٹی نیشنل:
اگر سیکولروکمیونل کا جوڑا2014ء سے قبل کے سیاسی فیصلوں کی تایید یا تنقید کے لیے استعمال کیاجاتاتھا،تونیشنل اور اینٹی نیشنل کے جوڑے نے اس کے بعد اس کی جگہ لے لی،حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کے خلاف قوم پرستانہ دلائل کااضافہ ہوگیا،عوامی ڈسکورس میں سختی آنے کے ساتھ ایسا تاثر بھی پھیل گیاکہ حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو وطن دشمن یا اینٹی نیشنل قراردے دیاجائے گا،جہاں غلوآمیز قوم پرستی پر یقین رکھنے والوں نے اسے ایک ہمہ گیروinclusiveآئیڈیاقرار دیا،وہیں اس کے ناقدین نے اسے مبتذل اور غیر جامع قرار دیا،جے این یومیں طلبہ کا احتجاج،سرجیکل سٹرائک پر مختلف سیاسی جماعتوں کا الگ الگ موقف،بھیما کورے گاؤں تشددسے کنکشن کے الزام میں سماجی کارکنان کی گرفتاری،آسام میں این آرسی کا مسئلہ اور رافیل ڈیل میں گھپلے کے الزامات قومی بحث ونقاش میں ان دولفظوں کے اثرات کی مستقل مثالیں ہیں۔
2019ء کے انتخابات میں ووٹ اکٹھاکرنے کے لیے ’’نیشنلزم‘‘کا بھی استعمال ہوگا،اس سے پہلے نیشنلزم کارگل جنگ کے بعد 1999ء میں انتخابی سیاست کا موضوع بناتھااور بی جے پی اسی طرح واحد بڑی پارٹی کے طورپر ابھر کر سامنے آئی تھی،جیسے کارگل جنگ سے قبل1998ء کے الیکشن میں اسے کامیابی ملی تھی۔
ڈیجیٹل الیکشن:
سیاسی رابطہ کاری کے لیے سوشل میڈیاکا بڑے پیمانے پر استعمال سب سے پہلے نریندرمودی کے ذریعے 2014ء میں کیا گیا،اس وقت وہ وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار تھے،انھوں نے الیکشن کمپیننگ میں مسابقت کو ناممکن بناتے ہوئے خاص طورپرٹوئٹرکے ذریعے رائے دہندگان سے رابطہ قائم کیا۔ الیکشن میں مودی کی کامیابی کے بعدملک بھر کی سیاسی پارٹیوں نے عوامی و سیاسی رابطے کے لیے سوشل میڈیاکا استعمال شروع کردیا۔
اس کے بعد سیاسی میڈیم کا منظرنامہ تیزی سے بدلتاچلاگیا،2014ء کے بعد قیمتی سمارٹ فونزکے حصول میں مقابلہ آرائی اورانٹرنیٹ ڈاٹاکے خرچوں میں کمی کی وجہ سے انٹرنیٹ کا استعمال ہندوستان بھر میں بڑھتاگیااور موبائل پرانٹرنیٹ کا استعمال دوحوالوں سے زیادہ کیاجانے لگا:ایک واٹس ایپ میسجنگ کے لیے اور دوسرے ویڈیودیکھنے،بنانے اور پھیلانے میں ۔ایسی توقع کی جانی چاہیے کہ2019ء کے الیکشن کے دوران انٹرنیٹ زیادہ بڑے پیمانے پر استعمال ہوگا اور ڈیجیٹل ٹکنالوجی الیکشن کمپیننگ کی نئی منزلیں طے کرے گی،موبائل انٹرنیٹ کے ذریعے تیز ترین طریقے سے رابطہ کاری کاکام لیا جا سکتا ہے،جو آزادی کے بعد سے اب تک انتخابی کمپیننگ میں کبھی استعمال نہیں کیاگیا۔
2014ء کے برخلاف،جبکہ مودی ڈیجیٹل کمپیننگ کا مقدمۃ الجیش تھے،اب ان کے علاوہ اپوزیشن جماعتیں بھی اس نئے میڈیم کے چیلنجز اور امکانات سے آگاہ ہیں اور وہ بھی اسے آنے والے الیکشن میں استعمال کریں گی؛اس لیے ممکن ہے کہ اب کی بار مقابلہ برابری کاہو،2019ء کے الیکشن میں ایک متنوع الجہات ملک میں ڈیجیٹل کمپیننگ کی دلچسپ صورت سامنے آسکتی ہے۔
ملک کے نوجوان اور نوجوان لیڈرز:
ہندوستان میں نوجوانوں کی کثیرآبادی اور’’آؤٹ آف دی باکس‘‘نظریات وافکارکے ذریعے پرانے سیاسی افکار و اسالیب پرخطِ نسخ پھیرنے کی اس کی خواہش نے2014ء میں مودی کی خصوصی توجہ حاصل کی تھی،ان بے صبرنوجوانوں کوممکن ہے اب تک یہ احساس ہوگیاہوکہ تبدیلی لانے میں لمباوقت لگتاہے،محض پانچ سال اس کے لیے ناکافی ہیں،2019ء میں ڈیجیٹل طورپر خود مختار نوجوان رائے دہندگان کے ذہن میں ہوسکتاہے کوئی نئی سوچ آجائے،قومی سطح پر ابھر نے والے نئے نوجوان چہرے مثلاً ہاردک پٹیل،کنہیاکماراور چندرشیکھر آزاد راون وغیرہ نے ان نوجوانوں کے ذہن و خیال کو متاثرکیاہے،جوکچھ نیاکرنا چاہتے ہیں۔
اگر حقیقی صورتِ حال کوسامنے رکھاجائے ،تومعلوم ہوتاہے کہ آنے والے دنوں میں مرکزی حکومت کے قیام کے سلسلے میں بحث و گفتگو کا دائرہ راہل گاندھی،اکھلیش یادو،تیجسوی یادو،چراغ پاسوان،عمر عبداللہ،جگنموہن ریڈی،دشینت چوٹالا،ایچ ڈی کماراسوامی اور ایم کے سٹالن جیسے لیڈران کوہی محیط ہوگا،2019ء میں قومی سطح پرسیاسی مذاکرات و مکالمات کی صورت1996,1998,2004سے مختلف ہوگی،جب ان نوجوانوں کے بڑے بزرگ سیاسی نقشۂ عمل بنایاکرتے تھے ۔نئی نسل کے یہ رہنما (کام کے اعتبار سے)عمر کی کس منزل میں ہیں،اس کا مظاہرہ بھی2019کے الیکشن میں ہوگا۔
خواتین:
تانیثیت کی علمبردار خواتین کے عوامی احتجاج کے بعد مرکزی وزیر ایم جے اکبر کا استعفاقومی سیاست میں ایک اہم سنگ میل تھا،اس کی وجہ سے سال 2018نے ’’می ٹو‘‘تحریک حوالے سے ایک امتیازی نشان قائم کردیا،یہ تحریک’’ورکنگ وومن‘‘ کے ذریعے چلائی گئی اور سوشل میڈیاپر خصوصاً اس کی شدید گونج سنی گئی۔
خواتین کے لیے تعلیم و معاشیات میں بڑھتے مواقع اورموبائل انٹرنیٹ کی وجہ سے ان کے درمیان بڑھتی ہوئی بیداری نے ان کے لیے اپنی مرضی و خواہش ا ور فیصلہ سازی کے حوالے سے سوالات کرنے کوبھی آسان بنادیاہے۔ منظم سیاسی جماعتوں اور مین سٹریم میڈیاکے ذریعے ’’می ٹو‘‘ تحریک کو بائی پاس کیے جانے کے باوجودجس طرح موبائل انٹرنیٹ کے سہارے اس تحریک کوآرگنائز کیاگیا اور اسے مؤثر شکل دے دی گئی،اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں کسی بھی قسم کی مہم جوئی کے لیے اس کی کیااہمیت ہوگی۔2019ء میں مختلف شعبہ ہاے حیات سے تعلق رکھنے والی مزیدخواتین کواس قسم کے مواقع حاصل ہوں گے۔
بایاں محاذ:
علاقائی اثرات اور محدودرسائی کے باوجود کمیونسٹ افراد اور جماعتوں کا دہائیوں سے ملکی سیاست میں خاصا اثر رہاہے،انھوں نے مرکزمیں حکومتوں اور منصوبوں کی تشکیل و تعمیر میں بھی اہم رول اداکیااورعوامی فلاح و بہبود کے مفید ماڈل پرمضبوط دلائل پیش کیے ہیں۔
2014ء میں انتخابی شکست کے بعد لگاتارمغربی بنگال(2016)اور تری پورہ(2018)میں ملنے والی انتخابی شکستوں سے ایسا لگتاہے کہ بائیں محاذ کی جماعتیں انتخابی سیاست سے باہر ہوچکی ہیں،اسی دوران انھیں ایک کلچرل و قوم پرست حکومت کا بھی سامنا کرناپڑاہے،جس نے واضح طورپر انھیں ٹارگیٹ کیاہے،ایسے میں یہ جماعتیں 2019ء میں نئے امکانات تلاش کرنا چاہیں گی؛تاکہ اپنی کھسکی ہوئی زمین دوبارہ حاصل کرسکیں۔2018میں کسانوں اور قبائلی طبقات کے مسائل کو اٹھاکر ان جماعتوں نے قومی سطح پر توجہات حاصل کی ہیں،اس کے علاوہ 2014کے بعد سے دلتوں اور مظلوم طبقات کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش میں بھی مصروف ہیں۔
ظلم و سماجی شناخت کا مسئلہ:
سماجی ونسلی شناخت اور ناانصافی و مظلومیت کا مسئلہ ہمیشہ اس ملک کے سیاسی و سماجی ڈسکورس کا حصہ رہاہے،اس بار خصوصاً کسانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی الیکشن میں ایک اہم ایشوکے طورپر سامنے آرہی ہے؛حالاں کہ حکومت ان کے حق میں کیے گئے فلاحی اقدامات مثلاً رہایش،ایل پی جی، بجلی،ٹوائلیٹ اور بینک اکاؤنٹ وغیرہ کھلوانے جیسی چیزوں کے ذریعے ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو دور کرنے کے دعوے کررہی ہے،جبکہ جو مخالفین ہیں،وہ کسانوں کے اناجوں کی ناکافی قیمت،نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسی چیزوں کواپنی پریشانی کی وجہ بتارہے ہیں،اب آنے والے الیکشن میں پتاچلے گا کہ حکومت کے فلاحی منصوبوں سے فائدہ اٹھانے والے آیندہ پانچ سالوں کی سیاسی سمت طے کرتے ہیںیا وہ لوگ،جومعاشی مشکلات سے گزررہے ہیں اور حکومت سے نالاں ہیں۔
اقتصادی طورپرچلنے والی یہ لڑائی کسی حتمی منزل تک پہنچنے والی ہے،ایسا لگتاہے کہ معاشی توازن کے حوالے سے کیاگیادہائیوں قبل کا معاہدہ اب اپنی انتہاکو پہنچ رہاہے،لگ بھگ پوری ایک نسل ساتھ چلنے کے بعد کمنڈل(1990)اور مارکیٹ(1991کی معاشی اصلاحات)کی طاقتیں اب اپنے ہاتھوں سے صبر کا دامن چھوڑ چکی ہیں،علاقائی سطح پرغلبہ وتسلط رکھنے والی برادریاں(مثلاً ہریانہ ویوپی کے جاٹ،گجرات کے پاٹی دار،مہاراشٹر کے مراٹھا)احتجاجات کے ذریعے سیاسی قوتوں سے نئے سماجی کانٹریکٹ کا مطالبہ کررہی ہیں،اسی طرح دلت تمام تر سیاسی و قانونی چیلنجز کے بیچ اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے دوسرے طبقات کی طرف سے جارحانہ ردعمل کا اظہار ہورہاہے۔2019میں معاشی ناانصافی اور مختلف سماجی شناختوں کے بطن سے پیدا ہونے والی اس قسم کی تشویش ناک صورتِ حال بھی مستقبل کا سیاسی رخ طے کرنے میں اہم رول اداکرے گی۔
ایک نئی سردجنگ:
آخری بار ہندوستان نے1991میں سردجنگ کے خاتمے اور سویت یونین کے مرحوم ہوجانے کے بعد اپنے عالمی نقطۂ نگاہ کی تشکیلِ نوکی تھی۔ موجودہ وقت میں امریکہ وچین کے باہمی تنازعات اس سردجنگ میں تازہ برف پڑنے جیسی صورتِ حال پیدا کررہے ہیں،توایسے میں ہندوستان کو پھر سے اپنی پوزیشن صاف کرنی ہوگی۔امریکی صدرڈونالڈٹرمپ نے 2016میں اپنی انتخابی سرگرمیوں کے درمیان جوبیانات دیے تھے،ان سے وہ پیچھے ہٹتے نظر نہیں آتے،اسی طرح شی جمپنگ کی سربراہی میں چین بھی اپنی غیر انسانی و غیر اخلاقی پالیسیوں سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں،ایسے میں ہندوستان کو نہایت ہوشیاری سے کوئی موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے،خاص طورپر اس وجہ سے بھی کہ روس امریکہ اور اس کے حواریوں کو نیچادکھانے کے لیے مختلف اہم عالمی معاملات و مسائل میں چین سے ہاتھ ملاچکاہے۔امریکہ و چین کے درمیان پیدا ہونے والی کوئی بھی غیر معمولی صورتِ حال ہندوستان کے غیر جانب دارانہ رویے کے لیے موقعِ آزمایش ثابت ہوگی۔اسی طرح پاکستان کی نئی حکومت اور ہندوستان کے تئیں اس کے موقف پربھی نگاہ ہونی چاہیے۔
(اصل انگریزی مضمون روزنامہ’’انڈین ایکسپریس ‘‘میں28؍دسمبر کوشائع ہواہے)
محی الدین غازی
لمحوں کے بیان نے برسوں کے زخم تازہ کردیے۔ سترہ مارچ 2016 کو دلی میں صوفی کانفرنس ہوئی، اس کانفرنس کے ذریعے زور وشور سے یہ بات کہی گئی کہ وہابی ملک کے غدار ہیں اور ملک میں دہشت گردی کے ذمے دار ہیں۔ اس کانفرنس میں جب وہابیوں کو دہشت گرد کہا گیا،تو وہابیوں سے مراد ندوہ والے، دیوبند والے، اہل حدیث اور جماعت اسلامی وغیرہ سب ہی تھے۔ اس کانفرنس میں اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ ہم حکومت کی مدد سے ملک کے ان تمام وہابیوں کو ختم کردیں گے۔
میرے علم کی حد تک یہ ایک نہایت خطرناک کھیل کا آغاز تھا، اس سے پہلے مختلف گروہ کافر کافر کھیلا کرتے تھے۔ کافر کافر والا کھیل بھی بہت خراب ہے؛ لیکن اس کا نقصان امت کے اندر ہی رہ جاتا ہے، ایک دوسرے پر دہشت گردی کا الزام لگا کر تو امت کے دشمنوں کو یہ کھلی گواہی فراہم کی جاتی ہے کہ دہشت گرد مسلمان ہی ہیں اور مسلمانوں کے کسی نہ کسی فرقے میں چھپے ہوئے ہیں۔
صوفی کانفرنس کے دو سال بعد یکایک کچھ سلفی اس کھیل کا شوق فرمانے لگے اور انہوں نے ہندوستان کے مختلف مقامات پر جلسے کیے،جہاں سے اعلان کیا گیا کہ اخوان المسلمون اور دیگر اسلامی تحریکات دہشت گرد ہیں، دہشت گردی کے افکار کو فروغ دے رہی ہیں، اور دہشت گردوں کو تیار کررہی ہیں۔ چوبیس فروری 2018 کو شولا پور میں ہونے والا جلسہ اس کی ایک مثال ہے۔ بعد میں پھر سوشل میڈیا میں یہ الزامات اور زیادہ شدت سے بھیلائے جانے لگے۔ عام مسلمانوں کی خاموشی اور اسلامی تحریکات کی رواداری سے انہیں شہ ملتی رہی اور وہ فضا میں یہ زہر گھولتے رہے۔
اور اب حال میں ایک دیوبندی صاحب نے بھی یہ شغل فرمالیا اور ملک کی پارلیمنٹ کے اندر سلفیوں کو دہشت گرد قرار دے دیا، یہ الگ بات ہے کہ سوشل میڈیا پر ہوئے ردعمل کو دیکھتے ہوئے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد معذرت بھی کرلی۔
سوال یہ ہے کہ اس معذرت سے کیا وہ داغ دھل جائے گا، جو حضرت والا نے امت کی پیشانی پر لگا دیا ہے، پارلیمنٹ کے ریکارڈ سے آپ اسے حذف کرسکتے ہیں؛لیکن اس ملک کے سو کروڑ انسانوں نے جو آپ کی زبان سے یہ زہر بھرا جملہ سنا کہ دس فی صد مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں، کیا ان کے ذہنوں سے وہ زہر محض آپ کی معذرت خواہی سے نکل جائے گا۔ یہ داغ تو وہ ہے کہ اگر دنیا کے سارے سمندروں میں ڈال دیا جائے تو سارے سمندر زہر زہر ہوجائیں۔
ایک فرقہ دوسرے فرقے کو کافر کہے، یہ گندی بات ہے، مگر آپس کی بات ہے؛ لیکن ایک فرقہ دوسرے فرقے کو جب دہشت گرد کہتا ہے، تو وہ ملک کے عوام اور ملک کی حکومت کو اکساتا ہے کہ اس فرقے کے خلاف سخت کارروائی کر کے اسے صفحۂ ہستی سے مٹادیا جائے۔
دہشت گرد چاہے سلفیوں کو کہا جائے یا وہابیوں کو کہا جائے یا اسلامی تحریکات کو کہا جائے، اس کا نقصان راست مسلمانوں کو اور سارے مسلمانوں کو پہنچتا ہے۔ کسی ایک فرقے کو دہشت گرد کہنے کا مطلب تمام مسلمانوں کو دہشت گرد کہنا ہے۔ اور ملک کے عوام اور حکومت کو سارے مسلمانوں کے سلسلے میں بدگمان کرنا ہے۔
وقت کی نزاکت تو شدت سے تقاضا کرتی ہے کہ اگر مسلمانوں کے دشمن اور بدخواہ مسلمانوں کے کسی ایک گروہ کو دہشت گرد قرار دیں، تو سارے مسلمان مل کر اس الزام کو روکیں اور صاف صاف پوری قوت سے کہیں کہ مسلمانوں کا کوئی گروہ دہشت گرد نہیں ہوسکتا ہے، نہ یہ کہ خود مسلمان ایک دوسرے پر دہشت گردی کا الزام لگانا شروع کردیں، یہ تو نہایت نادانی کی بات ہوگی۔
اس لیے التجا ہےاور تمام مسلمانوں سے التجا ہے کہ جو ہورہا ہے، اس کی خطرناکی سمجھیں اور اس پر فوری روک لگانے کا فیصلہ کریں اور جو شخص بھی ایسی حرکت کرے سب مل کر اس کا ہاتھ پکڑیں اور اعلان کردیں کہ ملت کی کشتی میں چھید کرنےاور ملت کے خرمن میں چنگاری پھینکنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔
راحت علی صدیقی قاسمی
اکیسوی صدی ایجادات و اختراعات کی صدی ہے، انقلاب کے سورج کی تمازت نے کائنات میں بسے افراد کے قلوب کو برانگیختہ کردیا ہے، اس کی سنہری شعاعیں کائنات کو نورانی ضوفشانی عطا کررہی ہیں، مادہ کی حکومت و بادشاہت قائم ہی نہیں ،لا زوال محسوس ہوتی ہے ، تسخیر کائنات کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا جاچکا ہے، تسخیر ذات سے دنیا آگے نکل چکی ہے، انسان مادہ کا پرستار ،حسن کا دیوانہ، آزاد خیال ہونے کے ساتھ ساتھ مادی ترقی کے اوج ثریا پر پہنچ چکا ہے، ترقی کی زعفران زار کرنوں سے کائنات ادب کے کچھ گوشے اب بھی پوشیدہ ہیں، جن پر محرومی وپژمردگی کے سیاہ پردے پڑے ہوئے ہیں، ترقی کی روشنی ان گوشوں کو میسر نہیں آسکی، ان کے مقدر کا ستارہ ابھی بلند نہیں ہوا، ان گوشوں میں ادب اطفال بھی ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین نے ہندوستان کے ان ادیبوں کو جن کا تعلق ادب اطفال سے ہے ،درخواست کی، انہیں دعوت دی گئی کہ اپنی طبع زاد تخلیقات ارسال کردیں، ملک بھر میں 75ادیبوں کو دعوت دی گئی تھی؛ لیکن تکلیف کی بات یہ ہے کہ صرف 34؍ادیبوں کی تخلیقات میسر آسکیں ،وہ بھی انتہائی قلیل مقدار میں ، اس صورت حال سے ادب اطفال کی تیرہ بختی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے، لکھنے والوں کی قلت ہے، بچوں کے معیار پر کھرا اترنے والا ادب انتہائی قلیل مقدار میں تخلیق ہو پارہا ہے، بہت سی کہانیاں پڑھ کر افسوس بھی ہوتا ہے اور تعجب بھی اور عقل پیہم سوالات جنم دیتی ہے کہ آخر کیا سوچ کر انہیں ادب اطفال کے زمرے میں شامل کرلیا گیا؟ اگر چہ تنقید و تحقیق میں بھی یہ شکوہ زبان زدِ عام ہے؛ لیکن ادب اطفال کچھ زیادہ ہی نزاکت کا حامل ہے، بچے ملک و ملت کا مستقبل ہیں، ہمارا کل ان ہی پر منحصر ہے، ان کی اصلاح نہ ہوئی، تو ملک کو مشکل ترین حالات کا سامنا ہوگا، زبان و ادب کے خوگر و دل دادہ میسر نہیں آئیں گے، قوم کا مستقبل پڑھنے لکھنے کے بجائے، مخرب اخلاق چیزوں کا دلدادہ ہوجائے گا ، اس کے شب و روز کتابوں کے مطالعے میں نہیں؛ بلکہ موبائل کی اسکرین کو دیکھتے ہوئے، ٹی وی پر تضییع اوقات کرتے ہوئے گزریں گے، حالاتِ حاضرہ کی نبض پر ہاتھ رکھ کر دیکھا جائے ،تو شدت کے ساتھ معیاری ادب اطفال کی تخلیق کی ضرورت محسوس ہوگی، جو سینے میں دھڑکتا ہوا دل رکھتے ہیں، وہ ضرور اس درد کا احساس کرتے ہیں، اس کا مداوا تلاش کرتے ہیں، اس کے ازالے کی تدبیر کرتے ہیں، ان احوال و کوائف کی بنا پر ان شخصیات کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے، جو ادب اطفال کے فروغ میں اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں۔
ان ہی شخصیات میں سے ایک مناظر عاشق ہرگانوی بھی ہیں، جن کا تعلق بھاگلپور کی سرزمین سے ہے، ننھے ننھے قلوب پر حکمرانی کرنا ان کا نصیبہ ہے، بچوں کے لئے لکھتے ہیں، بچہ بن کر لکھتے ہیں، انتہائی سادہ اسلوب، دلکش طرز بیان ،ان کے الفاظ بچوں کے قلب میں پیوست ہوتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں، کرداروں کے نام اس طرح کے رکھتے ہیں کہ بچوں کو ان میں دلچسپی محسوس ہونے لگتی ہے، بچوں کی نازک طبیعت پر ان کے کردار گراں بار نہیں ہوتے؛ بلکہ ان میں اپنا پن، انسیت ،محبت اور سادگی کا بھرپور احساس ہوتا ہے، ان کے کردار بچوں کی نفسیات پر کھرے اترتے ہیں، ایمان دار کسان کلوا، شبانہ، مغرور گیدڑ، شہیر، ڈولی، سوداگر، منصف، بچوں کے لگاؤ کی تمام خوبیاں اپنے دامن میں رکھتے ہیں، ان کی طبیعت کو موہ لیتے ہیں، بچوں کو کہانی سے جوڑے رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ مناظر عاشق ہرگانوی کی خوبی یہ ہے کہ وہ اکیسوی صدی کے بچوں کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے کہانی لکھتے ہیں اور ہر طرز پر کہانی لکھتے ہیں، اساطیری کہانیاں ،دیومالائی کہانیاں، مہماتی کہانیاں، البتہ ان کا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے بچوں کی اصلاح کا پہلو ہمیشہ پیش نظر رکھا ہے، ان کی کہانیوں میں بچوں کی اصلاح کا پیغام ہوتا ہے، وہ بچوں کو ترقی کی دوڑ میں بھی یہ تلقین کرتے ہیں کہ انسان اخلاق، کردار، عادت مزاج کا اچھا نہیں تو سب کچھ ہیچ ہے، اس کی یہ خوبیاں ہی اسے اچھا کامیاب اور ترقی یافتہ انسان بناتی ہیں، ان کی کہانیوں میں لالچ کی قباحت، ایمانداری کا انعام ،بے ایمانی کے نقصانات ،اچھی عادتوں کی پذیرائی، سماج کی برائیوں سے بچوں کا اثر پذیر ہونا اور اس اثر کا زوال پذیر ہونا، اس کے نقصانات اور برائی کا برا انجام، ان تمام کیفیات کو انہوں نے بھرپور انداز میں ابھارا ہے اور صالح معاشرہ کی بنیاد رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جس کے ثمرات و نتائج وقت کے دریا میں مثل چاند دیکھے جائیں گے، ان کی پیدائش کردہ خوبیاں عمل میں تیرتی نظر آئیں گی، جو پیغام وہ بچوں کے قلب پر نقش کر رہے ہیں، وہ دیدہ زیب تحریر کی شکل میں لوگوں کی نگاہوں کا ضرور استقبال کریں گے، وہ ایک خشک مزاج واعظ نہیں ہیں، جس کی نصیحتیں آنکھوں کو بند اور ذہن کو پژمردہ کردے؛ بلکہ وہ کہانی کے فن میں ماہر ہیں، اس کے نازک ترین پہلوؤں سے بھرپور واقفیت رکھتے ہیں؛اس لیے جب ان کاقلم کہانی کے سفر پر نکلتا ہے ، تو اپنے قارئین کے لئے دلچسپی و دلجمعی کے سارے حربے ساتھ رکھتا ہے، کہانی کے لئے وہ لعل و جواہر تلاش کرتے ہیں کہ وہ ایک قیمتی ہار کی مانند ہوجاتی ہے، قاری مزہ کے ساتھ ساتھ ایک پیغام بھی اپنے قلب پر محسوس کرتا ہے، اس کے مقام کا معترف اور اس کی خوبیوں کا اسیر ہوجاتا ہے اور کہانی سے مرتسم ہونے والا قلبی اثراس کے مستقبل کی تعمیر میں انتہائی اہم رول ادا کرتا ہے، چند جملے ان کی کہانیوں سے پیش کرتا ہوں، جو میرے دعوے کی دلیل اور ان کہانیوں کے رنگ کو مزید سمجھنے میں آسانی پیدا کریں گے، ایماندار کسان کی بیوی جب قیمتی ہار دیکھ کر مچل جاتی ہے، اسے اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے، تو کلوا کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو کس خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے، ملاحظہ کیجیے، مکالمہ اور کہانی کے حسن ظاہر و باطن کی لذت محسوس کیجیے:
’’کسان نے بیوی کے ہاتھ سے زنجیر لے لی اور بولا: جلدی سے دو چار روٹیاں بنا دو، میں ابھی شاہی محل جانا چاہتا ہوں۔
کیوں؟
آئی ہوئی دولت کو کیوں ٹھکراتے ہو؟ اس کی بیوی بولی۔ ’’ہم نے کوئی چوری تھوڑے ہی کی ہے۔اسے بیچ کر آرام کی۔۔۔۔۔۔
کلوا نے زنجیر کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا ،اس میں ایک چمک دار ہیرا بھی لگا ہوا تھا۔ بیوی کی بات سن کر وہ غصے سے بولا: اپنی زبان کو لگام دو، یہ زنجیر تیری محنت کی کمائی کی ہے یا میری محنت کی کمائی ہے؟ میں اسے ضرور واپس کرنے جاؤں گا۔ اب مزید کچھ بولنے کی ضرورت نہیں۔ چُپ چاپ روٹیاں بنا دو‘‘۔اُن جملوں سے احساس ہوتا ہے کہ کس طرح مناظر عاشق ہرگانوی بچوں کے قلوب میں ایمانداری کے پودے لگا رہے ہیں، اس ایمانداری کے عوض کلوا کو بادشاہ کا خزانچی بنا کر اس پودے کو ضروری غذا بھی مہیا کررہے ہیں، اس کے علاوہ ان کی تمام کہانیوں میں اصلاحِ اطفال کا پہلو غالب ہے، انہوں بہت سی کہانیاں لکھی ہیں، ان کی تیس کہانیوں کا مجموعہ شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکا ہے، انہوں نے سائنس کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے، اس عنوان کو بہت خوبی و خوبصورتی سے اپنی کہانیوں میں جگہ دی ہے، اردو کے طلبہ کی معلومات میں وسعت بخشی ہے، انہیں موجودہ حالات سے مطلع کیا ہے، انہوں نے سسپنس کہانیاں بھی لکھیں، ہر جملے میں تجسس پیدا کیا اور اختتام پر طلبہ کے لئے اصلاحی پیغام چھوڑا، اسی طرز پر انکا ناول خونی پنجہ انتہائی عمدہ ہے، جو بچوں کو حسد، جلن اور کینہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے جرائم اور ان کے انجام سے باخبر کرتا ہے، حالانکہ اس کہانی میں قاتل قتل کرنے کے لئے ایک گدھ کا استعمال کرتا ہے اور اس کے پنجوں پر زہر لگا کر پانچ قتل کرتا ہے؛ لیکن مناظر عاشق کی خوبی یہاں پر بھی ظاہر ہوتی ہے اور یہاں بھی وہ بچوں کی اصلاح سے چشم پوشی نہیں کرتے، مخرب اخلاق پیغام نہیں دیتے؛ بلکہ قاتل کو سزا تک پہنچاتے ہیں، یہ باور کراتے ہیں کہ جب اتنی چالاکی کے باوجود بھی قاتل بچ نہ سکا، تو ہر مجرم کو جان لینا چاہئے کہ جرم کبھی نہیں چھپتا، ہمیشہ ظاہر ہوکررہتاہے،مجرم سزا کا مستحق قرار پاتا ہے؛ لہٰذا جرائم کا ارتکاب نہ کیا جائے، دوسری خوبی اس کہانی کا کرکٹ سے تعلق ہے، جس سے بچوں کی دلچسپی ظاہر ہے،اس سے بہت سے بچوں کے قلوب میں جرائم کی نفرت بیٹھ جائے گی اور وہ زندگی کے ہر موڑ پر جرم سے احتراز کریں گے۔ علاوہ ازیں انہوں نے بچوں کی کہانیوں کا ترجمہ بھی کیا ہے، ان کے فن کے تمام پہلوؤں پر نگاہ ڈالی جائے ،تو یقین ہوجاتا ہے کہ اکیسوی صدی میں ادب کاوہ بڑا معیاری ذخیرہ تخلیق کررہے ہیں، جو وقت کے گذر نے کے ساتھ اوربھی قیمتی ہوگا، ان کی اصلاحِ اطفال کی یہ کوششیں رنگ لائیں گی، ان کی محنتیں ثمربار ہو ں گی۔
دہلی سے گرفتار دس ملزمین کو عدالت نے ۱۲؍دنوں کے لیئے پولیس تحویل میں بھیجا
جمعیۃ علماء ہند نے قانونی امداد فراہم کی،ملزمین کی طبی رپورٹ عدالت میں بھیجنے کی درخواست
دہلی:۲۷؍ دسمبر(پریس ریلیز)
ممنوع تنظیم داعش (ISIS)کے ہم خیال ہونے اور ملک میں دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے کے الزمات کے تحت دہلی سے گرفتار دس مسلم نوجوانوں کو آج سخت حفاظتی بندوبست میں دہلی کی مشہور پٹیالہ ہاؤس عدالت میں پیش کیا گیا جہاں انہیں عدالت نے ۱۲؍ دنوں کے لیئے پولس تحویل میں دیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔ اسی درمیان ملزمین کے اہل خانہ کی درخواسست پر ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ملزمین کے دفاع میں مقر رکردہ وکیل ایم ایس خان نے عدالت میں عرضداشت داخل کرتے ہو ئے عدالت سے گذارش کی کہ دوران پولس تحویل ملزمین کو وکلاء اور ان کے اہل خانہ سے دن میں کم از کم ایک بار ملاقات کرنے کی اجازت دی جائے نیز روزانہ ملزمین کو طبی معائنہ کرکے میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کیا جائے۔خصوصی جج(ایڈیشنل سیشن جج) اجئے پانڈے نے دفاعی وکیل کی درخواست پر ملزمین کے اہل خانہ کو احاطہ عدالت میں پانچ منٹ تک ملاقات کرنے کا موقع دیااور اس کے بعد اپنی سماعت ۸؍ جنوری تک ملتوی کردی۔
حالانکہ آج وکیل استغاثہ نے ملزمین کی ۱۵؍ دنوں کی پولس تحویل طلب کی تھی لیکن دفاعی وکیل کی مخالفت کے بعد عدالت نے اسے ۱۲؍ دن کردیا ، دوران بحث دفاعی وکیل ایم ایس خان نے عدالت کو بتایا کہ این آئی اے نے ملزمین کے قبضوں سے ہتھیار اور دیگر ممنوع اشیاء ضبط کرنے کا دعوی کیا ہے لہذا اب ملزمین کو پولس تحویل میں نہیں دیا جانا چاہئے جس کے جواب میں وکیل استغاثہ نے کہا کہ ملزمین سے انہیں تفتیش کرنا ہے کہ ان کے پاس یہ ہتھیار کہاں سے آئے اور ان کے ہم خیال اور کون کون ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ملزمین مفتی محمد سہیل، انس یونس، راشد ظفر، سعید احمد، رئیس احمد، زبیر ملک، زید ملک،ثاقب افتخار، محمد ارشاد اور محمد اعظم کو عدالت میں منہ ڈھک کر پیش کیا گیا اور دران کارروائی عدالت میں وکلاء اور ملزمین کے علاوہ کسی کو بھی آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی جس کی وجہ سے کچھ دیر کے لیئے احاطہ عدالت میں افراتفری کا ماحول ہوگیا تھا۔ملزمین کا تعلق امروہہ، سیلمپور، جعفرآباد و دیگر علاقوں سے ہے اور ان کے قبضوں سے پولس نے دیشی راکٹ لانچر، آلارم ٹائمر گھڑی وغیرہ ضبط کرنے کا دعوی کیا اورمزید کہا کہ ملزمین ’’حرکت الحرب اسلام‘‘ نامی تنظیم کے رکن ہیں جو داعش کی مقامی شاخ کا نام ہے ۔متذکرہ ملزمین کے اہل خانہ اور مقامی جمعیۃعلماء کے ذمہ داران کی درخواست پر جمعیۃ علماء ہندکے صدر حضرت مولانا سید ارشد مدنی نے ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ۔
زین شمسی
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گٸیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گٸیں
شاید غالب نے یہ بات کبھی شعر کی صورت میں کہی تھی۔اب یہ یقین کے ساتھ تو نہیں کہاجاسکتا کہ خود غالب کس چمن میں لالہ و گل کی صورت میں نمایاں ہو ئے؛ لیکن ہاں کبھی حضرت نظام الدین کی پرہجوم سڑک سے گزر ہوا،تو ان کے مزار سے آواز آتی ہے:
ہوئےمر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
ان کے نام کی ایک اکیڈمی اسی جگہ نظر آتی ہے،جہاں عقیل صاحب مسکراتے نظر آ جاتے ہیں اور رضا حیدر صاحب ماتا سندری لین میں غالب کی فاقہ مستی کے رنگ لانے کی امید میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے رنگ و روغن میں مصروف نظر آتے ہیں اور جب غالب کی حویلی کی طرف جائیے تو آواز آٸے گی کہ: آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
27 دسمبر یعنی آج کے دن پیدا ہوتے ہی انہیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ:
ڈبویا مجھ کو ہونے نے،نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
غالب کے نام پر اتنےمذاکرے ، مشاعرے ہوئے کہ ان کے تمام پہلووں کو اجاگر کر کے رکھ دیا گیا۔
لیکن ان کے اس بہترین پہلو کو اجاگر کرنے اور اس پر عمل کرنے سے ماہرین غالبیات اور ماہرین ادبیات نے پتہ نہں کیوں گریز کیا اور وہ پہلو تھا ان کا اختصار۔
غالب غالباپہلے شاعر تھے،جنہوں نے مشکل ترین اشعار کو اپنے دیوان سے نکال پھینکااور ان کی اسی فکر یعنی مختصر دیوان نے غالب کو غالب بنادیا۔ آج ان پر لکھی ہوئی کتابیں ان کے دیوان سے دس گنی موٹی ہوتی ہیں ، پھر بھی وہ غالب کو سمجھا نہیں پاتیں۔
گہری باتیں ، اچھی باتیں ، بامعنی باتیں کم لفظوں میں زیادہ متاثر کن ہوتی ہیں۔
26کتابوں کے مصنف ، نمازی اور شاعر و نقاد حامدی کاشمیری کو آج نہیں مرنا چاہیے تھا۔ کہتے ہیں کہ غالب سے جب پوچھا گیا کہ آپ موت کے بارے میں کیا کہنا چاہتے ہیں،تو انہوں نے کہا کہ میں اس دن مروں، جس دن کوئی نہ مرے؛تاکہ میرے مرنے کے چرچے سب جگہ ہوں۔ حامدی کاشمیری سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ اس دن مرے، جس دن غالب پیدا ہوٸے۔ اب ہم ان کے مرنے کا سوگ کریں یا غالب کی پیدایش کا جشن منائیں؟!
محبوب عالم عبدالسلام
سدھارتھ نگر، یوپی
دین کی دعوت و تبلیغ انبیائی مشن اور حاملینِ کتاب و سنت کا لازمی فریضہ ہے۔ میدانِ دعوت و تبلیغ اور کتاب و سنت کی تعلیم و تعلم سے جڑے ہوئے وہ لوگ قابلِ مبارکباد اور لائقِ رشک ہیں /جو اپنے قول و عمل اور کردار و گفتار کے ذریعے اللہ کے بندوں تک اُس کے احکام و فرامین کو پہنچانے کا مہتم بالشان فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ دین کی تبلیغ و اشاعت اور اُس کی تعلیم و تعلم کے لیے داعی و معلم کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ داعی و معلم کے لیے سیرت و کردار کی درستی، بلند اخلاقی اور لہو و عبث چیزوں سے اجتناب و دوری بہت ضروری ہے،اگر معلم و داعی بازاری بن جائیں، سیرت و کردار کی عمدگی کے بجائے اپنے وقار اور حیثیت کو پس پشت ڈال دیں، سرِ عام سوشل میڈیا پر رکیک مذاق، سوقیانہ گفتگو اور بیہودہ حرکتیں کرتے پھریں ،تو وہ سب کچھ ہوسکتے ہیں، مگر اسلام کے داعی، حق کے راہی اور کتاب و سنت کے معلم ہر گز نہیں ہوسکتے، خواہ اُن کی ٹوپی ساتویں آسمان پر نظر آئے یا پھر اُن کے نام کے ساتھ لواحق و سوابق کی کثرت و بہتات ہی کیوں نہ ہو!! اگر بازاری قسم کا مداری ہی بننا ہے، تو پھر دین کے داعی و معلم کا لیبل چہ معنی دارد؟!
ذرا آپ معلمِ اعظم اور داعیِ برحق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کو دیکھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کریں، تو معلوم ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی کوئی ناشائستہ حرکت نہیں کی اور نہ ایسے لوگوں کو پسند فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کریم کا عملی نمونہ تھے، مخالفین و معاندین نے اپنی لاکھ دشمنی کے باوجود کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت و کردار پر انگشت نمائی نہیں کی۔ حدیثوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں آتا ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم نہ بدزبان تھے اور نہ بد زبانی کو پسند فرماتے تھے، نہ آپ نے کبھی فحش گوئی کی اور نہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت تھی۔ (بخاری و مسلم) آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے: تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے ،جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو۔ یعنی کہ جن کے عادات و اطوار اور اخلاق و کردار سب سے اچھے ہوں، وہی لوگ سب سے بہتر اور محبوب و پسندیدہ ہوتے ہیں۔
گویا ایک اچھا انسان بننے کے لیے سیرت و کردار کی بلندی نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح دین کا داعی و معلم بننے کے لیے خود میں داعی کے اوصاف و خصائص کا پیدا کرنا ازحد ضروری ہے، ورنہ پھر معلم و داعی اور تماش بین و مسخرہ باز میں کوئی فرق نہیں ہوگا اور نہ دعوت کے مثبت نتائج اور دیر پا اثرات ہی مرتب ہوں گے۔ اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں پیغام رسانی اور آپسی روابط کے لیے سوشل میڈیا جیسا مؤثر ہتھیار موجود ہے ،جس کے ذریعے ہم بآسانی خود مسلمانوں میں موجود ناخواندہ طبقہ اور ساتھ ہی غیر مسلموں تک بھی اسلام کے امتیازات و خصائص اور اس کے احکام و مسائل پہنچا سکتے ہیں، نیز اسلام سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں اور شکوک و شبہات کو دور کر سکتے ہیں؛ لیکن افسوس کہ میڈیا، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے بجائے آج ہمارے معاشرے میں دعوت و تعلیم کے نام پر مسخرہ بازی اور سفلہ پنی کا رواج کچھ زیادہ ہی عام ہوچکا ہے۔ برساتی مینڈکوں کی طرح شوشل میڈیائی نام نہاد داعیان کی بھرمار ہے۔ ہر جگہ نئے نئے پوز میں ایسے لوگ نظر آتے رہتے ہیں۔ یاد رکھیں! مختلف زاویوں سے بے ہنگم انداز میں جسمانی اعضا و جوارح اور خد و خال کی نمائش سے دین کی تبلیغ نہیں ہوتی، نہ اس سے لوگ دین کے قریب ہوتے ہیں؛ بلکہ بسااوقات ایسے داعیوں کو دین سے متنفر کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں اور عوام و خواص میں اپنی وقعت و حیثیت کا قیمہ بناکر خود کی اور دینِ اسلام کی جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔
درحقیقت ایسے نام نہاد داعی دعوت و تبلیغِ دین سے یتیم و تہی داماں ہوتے ہیں اور اُن کا مقصود فقط اپنی دکان کی تشہیر، سستی شہرت کا حصول اور خود اپنی ذات کو نمایاں کرنے کا ہوسِ بے جا ہوا کرتا ہے۔ ایسے لوگ دن رات یہ بتانے میں مشغول رہتے ہیں کہ مَیں یہاں ہوں، میں وہاں ہوں، میں فلاں مجلس کا میرِ کارواں ہوں، میں یہاں سے نکل رہا ہوں، میں وہاں سے آرہا ہوں، میں فلاں تقریب میں فلاں وقت پہنچ رہا ہوں، میں نے آج فلاں لباس زیب تن کیا ہے وغیرہ اور اس طرح کی بہتیرے طفلانہ باتوں کی رٹ لگا کر ماحول کو پراگندہ اور اپنی وقعت و حیثیت کا کباڑا کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں، اُنھیں دین سے قریب کرنے کے بجائے اپنی ذات کے قریب کرتے ہیں اور بدقسمتی سے ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اگر یہ لوگ اپنی ذات کی تشہیر کے بجائے دین کی تبلیغ و اشاعت پر اپنا وقت اور انرجی صرف کریں، تو جہالت و ضلالت کا قلعہ قمع ہوجائے، معاشرے کے اندر انقلاب آجائے، معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے اور لوگ دین بیزار ہونے کے بجائے دین پسند ہو جائیں، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
خود کو ثابت کرنا اور اپنی جائز و حقیقی حیثیت کو منوانا کوئی معیوب بات نہیں ہے، اُس کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے ایسے حقیقی کارناموں کو بیان کرے ،جو خوشنودیِ الٰہی کا باعث اور کارِ دعوت میں لگے لوگوں کے لیے ممد و معاون اور حوصلہ افزا ثابت ہوں۔ اُن کارہاے نمایاں کی تشہیر سے تعلّی و تکبر اور حسد و بغض کی بو نہ آتی ہو، وہ بے کار و عبث اور خلافِ شرع نہ ہوں، اُن میں عوام و خواص کے لیے کوئی دینی و دعوتی پیغام مضمر ہو۔ اب تو ہمارے یہاں یہ چیز عام ہو چکی ہے کہ بہت سے سرپھرے لوگ خود کو اسلام کا داعی و مبلغ اور معلم کہتے ہیں، مگر اُن کے کرتوت اور سرگرمیاں قول و گفتار کے بالکل برعکس ہوتی ہیں۔ ہر جگہ انا کی جنگ چھیڑ کر تصنع و تکلف کے ذریعے ہوسِ تشہیر کے پجاری بن بیٹھے ہیں اور تمام معاملاتِ زندگی میں اسلامی تعلیمات کے خلاف تکلفات و تصنعات کو اپنا شیوہ و وطیرہ بنا لیا ہے، جب کہ عام معاملاتِ زندگی میں تکلف و تصنع سے اجتناب و دوری اختیار کرنا نبوی طریقہ ہے، فرمانِ الٰہی ہے:آپ کہہ دیں کہ اس پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والے لوگوں میں سے ہوں۔ (سورہ ص: 86) یعنی اے نبی! آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ اس دعوت و تبلیغ پر نہ تو میں تم سے کسی صلہ کا طلب گار ہوں اور نہ ان لوگوں میں سے ہوں، جو اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے بناوٹ و تکلف کا سہارا لیتے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ پردہ و حجاب کے موضوع پر لچھے دار گفتگو کرتے ہیں، مگر مراہقہ قسم کی بھولی بھالی بچیوں کی تصویروں کی نشر و اشاعت میں کوئی قباحت نہیں محسوس کرتے، حیا و شرم کو ایمان کا جزو مانتے تو ہیں، مگر خود کی شرمناک تصویروں کی تشہیر اپنا دعوتی فریضہ سمجھتے ہیں اور فرمان نبوی:جب تم میں حیا نہ رہے، تو جو چاہے وہ کرو۔ (صحیح بخاری) کا عملی نمونہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
دعوتی مشن کو مؤثر و کارگر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے اندر کسی طرح کا تضاد اور عملی نفاق نہ پایا جائے، ریا و نمود اور شہرت و جاہ طلبی کے شائبے سے بھی دور رہا جائے؛ کیوں کہ ہماری نیتوں میں اگر خلوص کا فقدان اور کسی طرح کا فتور پایا جاتا ہے، تو ہماری ساری تگ و دو بے کار و رائیگاں جائے گی اور آخرت میں سوائے خسارہ کے اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح سمجھ اور اخلاصِ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
سلیم شوق پورنوی
دلِ ناداں کو کوئی شخص یہ سمجھا جاتا
باب الفت کا ہر اک پر نہیں کھولا جاتا
قبل از تشنہ لبی اتنی فراوانی تھی
میں جہاں جاتا،مرےساتھ میں دریاجاتا
جز محبت کےمرے پاس تو کچھ تھا ہی نہیں
تو مرے پاس سے، کیسے نہ نکارا جاتا
اس قدر فکرِ یزیدی تھی وہاں پر غالب
حق کا اظہار جو کردیتا وہ مارا جاتا
عمر بھر لوٹ کے میں اس لیے واپس نہ گیا
میں اگر جاتا تو پھر ساتھ یہ صحرا جاتا
اس قدر شہر کی مٹی میں زہر پھیلا تھا
پھول الفت کا کھلاتا بھی تو مرجھا جاتا
شوق کا شوقِ جنوں دیکھ لیا دنیا نے
اس سے مڑ کر کبھی پیچھے نہیں دیکھا جاتا
ابھیشیک شکلا
شجر امکان زمینوں کے ہرے دکھ ہیں ہم
بعض ذہنوں کے تصور سے پرے دکھ ہیں ہم
عشق آنگن میں برستا ہے ورہ کا بادل
آس برتن ہے کوئی جس میں بھرے دکھ ہیں ہم
کھول دروازۂ جاں، دل میں جگہ دے اپنے
تو نے پہچانا نہیں ہم کو ! ارے دکھ ہیں ہم
کوئی امید جگاتا ہے تو دکھ ہوتا ہے
طاقِ امید پہ مدت سے دھرے دکھ ہیں ہم
کچھ نہ کرنا بھی اس آشوب میں کچھ کم تو نہیں
اس سے کہیو کہ بس اب کچھ نہ کرے دکھ ہیں ہم
کوئی بھی عہد ہو بازار تمنا میں چلا
رائج الوقت ہیں اے دوست کھرے دکھ ہیں ہم
تھا ہ ملتی ہی نہیں ڈوبنے والے کی یہاں
ہم میں اترے جو سمجھ لے "گہرے” دکھ ہیں ہم
انجیل صحیفہ
چہچہاتی چڑیوں کو بولنا سکھا دوں کیا؟
شور کرتے جھرنوں کو اور بھی ہوا دوں کیا؟
قید ہے جو مٹھی میں، سانس کیوں نہیں لیتا
وقت گر پرندہ ہے میں اِسے اڑا دوں کیا؟
رات پینٹ کردی ہے میں نے اپنے کمرے میں
آسماں بنا کر اب، چاند بھی بنا دوں کیا؟
زندگی کے مرگھٹ پر چھوڑ آؤں خواہش کو
جلدی سونے والوں کو نیند سے جگا دوں کیا؟
میں نے اپنےخوابوں کے تیل سے جلایا ہے
نیند آگئی ہو تو اب دیا بجھا دوں کیا؟
جھیل میں ملا دی ہے چاندنی بھی تھوڑی سی
اب میں تیرے کاندھے پر اپنا سر جھکا دوں کیا؟
جتنے پھول ہیں انجیل مجھ سے رنگ لیتے ہیں
تم کہو توتتلی کو بات یہ بتا دوں کیا؟
تصورسمیع
بعض لوگوں کا مزاج فطری طور پر ناقدانہ ہوتاہے، ایسے لوگ تقریبا تمام شعبوں میں پائے جاتے ہیں ـ مذہب، فلسفہ، سائنس، تعلیم وادبیات کے میدانوں میں ایسے افراد کا وجود غنیمت سے کم نہیں بشرطیکہ کہ ان کی تنقیدات علمیت و تعمیر سے معمور ہوں ـ
تخلیقی میدان میں ان حضرات کی ضرورت، اہمیت اور افادیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا؛ کیوں کہ تخلیقات کو نکھارنے اور بہتر بنانے کےلیے تنقید کی ضرورت ہر حوالے سے ہر عہد اور ہر زمانے میں موجود رہی ہےـ سطحی ذہن رکھنے والے لوگ عموما تنقید نگاروں سے بیزار رہتے ہیں؛ حالانکہ یہ لوگ تخلیقی عمل کو جاری رکھنے اور بہتر سے بہترین کی طرف لےجانے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتے ہیں ـ
تنقیدی مزاج رکھنے والے لوگ عموما اپنی ناقدری یا لوگوں کی بیزاری وبےرغبتی کا گلہ کرتے پائے جاتے ہیں ـ اس میں شک نہیں کہ تخلیق کاروں کی طرف سے بعض اوقات نازیبا رویہ اپنایا جاتاہے؛لیکن بسا اوقات تنقید نگاروں کا مزاج بھی اس بیزاری کا سبب بنتاہے دراصل اس وقت ہم ان سطور کےذریعے اسی رویے کی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں ـ تنقید کا اصل مطلب کسی بھی تخلیق کی خوبیاں اور خامیاں دونوں کو واضح کرنا ہے؛ لیکن ہمارے ہاں تنقید کا مطلب محض خامیاں بیان کرنا سمجھ لیاگیاہے اور تنقید نگار عموما اسی رویے کا شکار نظر آتے ہیں ـ
بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہےکہ وہ کسی بھی تخلیق کو ہمیشہ مخصوص عینک سے دیکھنے میں مگن رہتے ہیں، مجال ہے کسی بےعیب تخلیق کودیکھ کر ان کے منہ سے دوجملے تخلیق کار کی تحسین یا حوصلہ افزائی کے نکلتے ہوں، جو حضرات کسی خوبی کی حوصلہ افزائی یا تعریف وتحسین کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں، انہیں کسی خامی پر لب کشائی کا حق بھی نہیں دیا جاسکتا؛کیونکہ محض خامیوں کو موضوع بنالینا منصبِ تنقید کی خلاف ورزی ہےـ
تنقید کرتے ہوئے تنقیص سے بچنا انتہائی ضروری؛لیکن بہت مشکل کام ہے،جبکہ بہت سارے لوگ تنقید وتنقیص کےآپسی فرق سے بھی آگاہ نہیں ہوتے، یہ رویہ بھی ناقابل تحسین ہے ـ
تنقید کرتے ہوئے مناسب مواقع پر ہلکے پھلکے طنزیہ الفاظ وانداز اختیار کرنا جہاں تنقید کےحسن کو دوبالا کردیتا ہے، وہیں قارئین کو محظوظ کرنے کا سبب بھی بنتا ہے؛لیکن طنز کےنام پر بازاری جگتیں مارنا یا استہزاکرنا نہایت نازیبا عمل ہے، اس چیز سے تنقید نگار کو بصد کوشش بچنا چاہیے، ہاں اس میں شک نہیں کہ طنزو استہزا کے باریک فرق سے بہت سارے لوگ ناواقف نظر آتے یا پھر اس فرق کو درخورِ اعتنانہیں سمجھتےـ
تنقید کرتے ہوئے خواہ مخواہ کی نکتہ چینیوں سے بچنا بھی تنقید نگار کےلیے انتہائی ضروری ہے،تنقید نگار کو چاہیے کہ اپنے علم اور فن کےمطابق تخلیق میں پنہاں خوبیوں اور خامیوں کوبیان کرے اور اپنے دلائل دے، جبکہ فریق بننے سے گریز کرے، اگر وہ فریق بن کر تنقید کرےگا، تو تخلیق پر نکتہ چینی کرنا یا طعن و تشنیع سے بچنا بہت مشکل ہوجائےگا اور بسا اوقات یہ رویہ تنقید کے مثبت پہلوؤں کو اوجھل کردیتا ہے، جس سے تنقید کی افادیت نہ ہونے کےبرابر رہ جاتی ہے اور یہ ضیاعِ وقت کے سوا کچھ نہیں رہتاـ
تنقید نگار کےلیے غیر جانبدار رہنا بہت ضروری ہے، غیر جانبدار ہوئے بغیر تخلیقات میں موجود خوبیوں اور خامیوں کےساتھ انصاف نہیں برتا جاسکتا،جبکہ یہ انصاف برتنا منصبِ تنقید کی اولین شرطوں میں سے ایک ہے،
اگر تنقیدات میں جانبداری کا عنصر پیدا ہونے لگے، تو اس سے نہ صرف بہتری کا عمل موقوف ہوجاتاہے؛بلکہ تنقید کےغیرمؤثر ہونے کےساتھ ساتھ تنقید نگار کی شخصیت بھی نہایت حد تک مجروح ہونے لگتی ہے اور اگر ایک مرتبہ یہ ٹھپہ لگ جائے، تو اسے ختم کرنے کےلیے طویل وقت درکار ہوتاہے؛
لہذا تنقید نگار کو چاہیے کہ بادلیل اور علمی تنقید ضرور کرے؛ لیکن منصب تنقید کو مجروح ہونے سے بچائے، تخلیق کے معاملے میں غیر جانبداری کا عنصر واضح ہو یعنی اس کی تنقید تخلیق پر ہو، ناکہ تخلیق کار پر، تنقید اور تنقیص کا فرق ہمہ وقت ملحوظِ خاطر رہے ، طنز کےنام پر طعن وتشنیع اور استہزا نہ کیا جائے، نیز یہ تنقیدی عمل تعمیری اور مثبت انداز میں فریق بنے بغیر روا رکھا جائے،ناکہ فریق یا مدعی بن کرـ
اگر تنقید نگار ایسا نہیں کرسکتا، تو اسے تنقید سے بچنا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ یہ میدان اس کی شخصیت اور مزاج کےمطابق نہیں ہے اور اس کھیل میں اس کےلیے سوائےنقصان اور شکست کےاور کچھ موجود نہیں ہےـ
نوٹ: یہ تحریر تنقید کےمتعلق ناچیز کا باقاعدہ موقف ہے اس کا کسی شخصیت یا کسی تنقید نگار سے کوئی تعلق نہیں؛ لہذا اسے کسی پس منظر کےساتھ نہ جوڑا جائے اور نہ کسی پر تنقید سمجھا جائے ـ
پٹنہ:26/دسمبر(پریس ریلیز)
گذشتہ نصف صدی کے دوران جن علما ودانشوران کی خدمات ملی وحدت،قومی ترقی،سماجی فلاح وبہبود اور مسلمانوں کی تعلیمی ومعاشی ترقی کی جدوجہد کے لئے وقف رہی ہیں ان میں مولانامحمداسرارالحق قاسمی کا ایک نمایاں نام ہے۔مولانا مرحوم متنوع خوبیوں اور صلاحیتوں کے حامل تھے، ان کے خدمات کئی جہتوں سے قابل التفات ہیں،اور ان کی خدمت کی ہر جہت فکر وعمل کی شمع سے روشن ومنور ہے۔انہوں نے سیاسی، سماجی، فلاحی، تعلیمی، صحافتی اور تصنیفی ہر میدان میں انمٹ نقوش ثبت کئے ہیں، ملک وملت کے لئے انہوں نے گراں قدر کارنامے انجام دیے ہیں۔ مرحوم کی 50سالہ دینی،علمی،سماجی ،سیاسی،صحافتی اورتعلیمی خدمات کے اعتراف میں وژن انٹرنیشنل اسکول سہرسہ کے زیراہتمام اورنورایجوکیشنل اینڈویلفئرسوسائٹی،جمالپور دربھنگہ کے اشتراک سے ’’محسنِ ملت سیمینار‘‘مورخہ :30دسمبر2018،بروز اتوار ،10:30AMبہاراردواکادمی،اشوک راج پتھ، پٹنہ کے سیمینار ہال میں منعقد کیا جائے گا۔یہ اطلاع نورا لسلام ندوی نے دی۔انہوں نے کہا کہ سیمینار کی صدارت حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ،پٹنہ کریں گے،سیمینار میں مولانا ابو طالب رحمانی رکن مسلم پرسنل لا بورڈ،مولانا مشہوداحمد قادری ندوی،پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ ،مولانا خالد نیموی قاسمی،احمد اشفاق کریم رکن راجیہ سبھا،محبوب علی قیصررکن پالیمنٹ،سرفراز عالم رکن پالیمنٹ،مولانا مطیع الرحمن سلفی،چیئر مین توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ، کشن گنج،الحاج محمد ارشاد اللہ چیرمین بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈ پٹنہ،مولانا سعودعالم ازہری ندوی،ڈائرکٹر ملی گرلز اسکول کشن گنج،امتیاز احمد کریمی ڈائرکٹراردو ڈائرکٹوریٹ،محکمہ کابینہ سکریٹریٹ،پٹنہ،مولانا نوشیر احمد سکریٹری آل انڈیا ملی وتعلیمی فاؤنڈیشن،قاری صہیب صدر آر جے ڈی یوتھ،بہار،ڈاکٹر عبد الرحمن تیمی،جامعہ امام ابن تیمیہ،چمپارن، مولانا شاہنواز بدر قاسمی ڈائرکٹر وژن انٹر نیشنل اسکول،سہرسہ شرکت کریں گے اور اپنے مقالے اور تقاریر پیش کریں گے۔ نورالسلام ندوی نے مزید کہا کہ سیمینار میں مولانامحمد اسرارالحق قاسمی ؒ کی زندگی اور کارناموں کے علاوہ ان کے فکر وعمل کے بعض وہ گوشے جن سے عموما لوگ نا آشنا ہیں ان پر بطور خاص روشنی ڈالی جائے گی۔یہ سیمینار مولانا کی شخصیت اور خدمات سے نئی نسل کو متعارف کرانے میں سنگ میل ثابت ہوگا ۔انہوں نے تمام علم دوست ،ادب نواز،اور ملی وسماجی شخصیات سے سیمینار میں شرکت کی گزارش کی ہے۔سیمینار کی تیاری آخری مرحلے میں ہے۔
ملت کے بے لوث قائد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کثیرتعداد میں پہنچیں:مفتی ابوالخیر
کولکاتا:26/دسمبر(پریس ریلیز)
ملت کے بے لوث قائداور ممبر پارلیمنٹ ورکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند مولانا اسرارالحق قاسمی کی وفات پر آج صبح دس بجے مدرسہ عربیہ حنفیہ قاسم العلوم تیلنی پاڑہ میں ایک تعزیتی جلسہ کا انعقاد کیاجارہاہے۔مدرسہ کے مہتمم مفتی ابوالخیر نے بتایاکہ پروگرام میں مولانا مرحوم کی حیات و خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی اور نئی نسل کو ان کی قربانیوں سے روشناس کروایاجائے گا۔انہوں نے کہاکہ مولانا مرحوم نے ملت کی تعلیمی پسماندگی کودور کرنے اور مسلمانوں کوتعلیم کے ساتھ ہر سطح پر بیدار کرنے کے لئے بیشمار خدمات انجام دی ہیں ،جن کے لئے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ،یہی وجہ ہے کہ آج ان کی وفات پر پورا ملک غم میں ڈوباہواہے، مولاناکی انہی خدمات کے اعتراف میں یہ پروگرام منعقد کیاجارہاہے۔انہوں نے عوام و خواص سے اس اجلاس میں شرکت کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ اس موقع پر حضرت کے خادم خاص اوردارالعلوم اسراریہ سنتوشپور کے مہتمم مولانا نوشیر احمد،مدرسہ ابی حنیفہ راجہ بازارکے مہتمم مولانا شرافت ابرار،مسجد ابراہیم چاندنی کے امام مولانا ریحان قاسمی ،برئی پاڑہ جامع مسجد کے امام مولانا سعد مظاہری،تیلنی پاڑہ جامع مسجد کے امام مفتی ابوشحمہ اور اے ایم اولڈبوائز کے جنرل سکریٹری انجینئر وقار احمد خان کی شرکت بھی یقینی ہے۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اور جماعت اسلامی ہند کے اشتراک سے’’ ملک کی تعمیر کیلئے نظام تعلیم: صورت حال،موانع اور روڈ میپ‘‘ کے موضوع پر پروگرام منعقد
نئی دہلی:۲۶/دسمبر(پریس ریلیز)
موجودہ دور میں جو نظام تعلیم رائج ہے اس میں مغربی فلاسفر کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ اب کسی قوم کو تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم اور میزائل کی ضرورت نہیں ہے، بس اس قوم کے نظام تعلیم کو گرادو کیوں کہ تعلیم کی بربادی دراصل ملک و ملت کی بربادی ہے،تعلیم بہترین ذریعۂ انقلاب ہے۔اسی طرح تعلیم اورفلسفے کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ان خیالات کا اظہار انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز نئی دہلی اور اسٹڈی سرکل جماعت اسلامی ہند دہلی کے اشتراک سے’’ ملک کی تعمیر کے لئے نظام تعلیم: صورت حال،موانع اور روڈ میپ‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر محمود صدیقی صدر شعبۂ تعلیم مولانا آزاد نیشنل اردو یو نیورسیٹی حیدرآباد نے کیا۔انہوں نے موجودہ تعلیمی ماحول کے تئیں تشویش کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ موجودہ دور میں طلبہ اور اساتذہ کا رشتہ بہت خراب ہو چکا ہے، تعلیم بے مقصدیت کا شکار ہو چکی ہے۔لہذا طلبہ اور اساتذہ کے درمیان تعلق مضبوط کر نا چا ہیے ۔ انہوں نے زور دے کر یہ بات کہی کہ تعلیم کا مقصد صرف اچھی نوکری کا حصول نہیں ہے ،بلکہ اس کا اصل مقصد وطن کی تعمیر اور انسانیت کی خدمت ہے۔ اس کے بعدماہر تعلیم جاوید اقبال نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ اگر ہم منصوبہ بند طریقے سے کام کریں ،اساتذہ اور طلبہ نظم و نسق اور پابندی وقت کا خیال رکھیں، تو اس مایوس کن صورت حال میں بھی انقلاب آسکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اساتذہ اور طلبہ کے درمیان ادب و احترام اور شفقت و محبت کا معاملہ ہونا چاہئے،تب ایک خوبصورت تعلیمی ماحول کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔اس اہم پروگرام کی نظامت ڈاکٹر وقار انور نے کی، جبکہ کلماتِ تشکر محمد انیس الرحمن ندوی نے پیش کئے۔اس موقع پر درجنوں اساتذہ،طلبہ اوراسکالرس کے علاوہ ڈاکٹر حسن رضا، ڈاکٹر محمد رفعت (جامعہ ملیہ اسلامیہ) اعجاز اسلم ، ڈاکٹر فیضان شاہد اور انعام الرحمن بطور خاص موجود تھے۔
برکت اللہ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی میں عالمی یوم عربی زبان کے موقع پر منعقدہ تقریب میں پروفیسر محمد نعمان خان کا خطاب
بھوپال:25/دسمبر(پریس ریلیز)
عالمی یوم عربی زبان کے موقع پر برکت اللہ یونیورسٹی ،بھوپال میں شعبۂ عربی کے زیراہتمام ایک پروگرام منعقد ہوا۔وائس چانسلر آر جے راؤ نے صدارتی خطاب میں زبانوں کی تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عربی اور اردو زبان بڑی شیریں زبان ہے، سب کے سیکھنے اور پڑھانے سے فائدہ ہوتا ہے ۔ اس موقع پر دہلی سے آئے ہوئے پروفیسر محمد نعمان خان صدر شعبہ عربی دہلی یونیورسٹی کو صدارتی ایوارڈ ملنے پر مبارکباد دی گئی۔ محفل کے مہمان خصوصی پروفیسر نعمان خان نے اپنے خطاب میں ہندوستان میں عربی زبان کے ارتقا پر تفصیلی روشنی ڈالی،انھوں نے بتایا کہ عربی زبان اور ہندوستان کا رشتہ صدیوں پرانا ہے، عربی زبان ہندوستان میں علمی اور تحقیقی زبان کی حیثیت سے ہمیشہ جانی گئی ہے اور تمام مذاہب اور فرقوں کے لوگوں نے اس کے ارتقا اور خدمت میں بھرپور حصہ لیا ہے۔انھوں نے مزید کہاکہ تعجب کی بات یہ ہے کہ عربی زبان ا و ادب اور قرآن و تفسیر کی خدمت کرنے والے غیر مسلم اسکالرس کی تعداد اس قدرزیادہ ہے کہ کئی تصنیفیں اس موضوع پر آچکی ہیں۔ کناڈا سے آئے ہوئے مہمان ڈاکٹر اقبال مسعود ندوی نے اپنے خطاب کے دوران عربی زبان کی اہمیت اور اس کے آفاقی اور عالمی ہونے پر روشنی ڈالی۔انھوں نے کہاکہ عربی وہ واحد زبان ہے، جس کے الفاظ و تعبیرات چودہ سو سال سے ابھی تک نہیں بدلے ۔انھوں نے عربی زبان کے انسانی اخوت میں رول ادا کرنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اس کے سیکھنے پر زور دیا۔ شعبہ کے سابق صدر مولانا حسان خان نے عالمی یومِ عربی زبان کے موقع پر شعبہ کے طلبا اور اساتذہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ بڑے خوش قسمت ہیں کہ آپ کی یونیورسٹی کا نام عالمی شہرت یافتہ مجاہد آزادی کے نام پر ہے،انھوں نے کابل میں قائم جلا وطن آزاد حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ برکت اللہ بھوپالی ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ اس موقع پرانھوں نے شعبۂ عربی کی مزید ترقی کے منصوبے بنانے پر زور دیا اور یہ امید جتائی کہ وائس چانسلر اپنے مادر علمی کی ترقی میں فعال اور موثر رول ادا کریں گے۔ ایڈوکیٹ حاجی ہارون نے وسط ہند بھوپال میں قائم برکت اللہ یونیورسٹی کو ایک بین الاقوامی ادارہ بنانے کی طرف توجہ دلائی ،اس ضمن میں انہوں نے وائس چانسلر کی موجودگی میں متعدد تجاویز پیش کیں، سنسکرت کے پروفیسر کے بی پنڈا نے اس موقع پر کہا کہ عربی سنسکرت اور فارسی کا بڑا ہی قدیم رشتہ ہے اور یہ قدیم زبانیں انسانی تہذیب کا بہترین ورثہ ہیں ۔پروگرام کے آغاز میں صدر شعبہ عربی پروفیسر عائشہ رئیس کمال نے اس پروگرام کا تعارف کراتے ہوئے عالمی یوم عربی دن کی اہمیت اور عربی زبان کی ترویج و اشاعت پر زور دیا۔ اس موقع پر انہوں نے عربی زبان کے فعال اسکالر پروفیسر محمد نعمان خاں کو صدارتی ایوارڈ ملنے پر مبارکباد دیتے ہوئے ان کی خدمت میں ایک سپاس نامہ بھی پیش کیا ۔پروگرام میں شعبۂ عربی کے اساتذہ اور طلبہ کے علاوہ عمائدین شہر نے بھی شرکت کی۔
تاشقند:25/دسمبر(پریس ریلیز)
تاشقند انسٹیٹوٹ برائے مشرقیات اور لال بہادر شاستری سینٹر برائے ہندوستانی ثقافت کے باہمی اشتراک سے مذکورہ انسٹیٹوٹ میں”غالب اور ان کی اردو شاعری ” کے عنوان سے ایک روزہ سیمینار کا انعقاد عمل میں آیا۔سیمینار کا افتتاح ہندوستانی ثقافتی مرکز کے صدر پروفیسر چندر شیکھر نے کیا۔ اس موقع پر انہوں نے غالب اور عہد غالب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ غالب کے اپنے نوشتہ خط کے مطابق ان کے اجداد شاہ عالم کے زمانہ میں دہلی گئے تھے۔ غالب کی شاعری ہمہ وقتی ، ہر دور اور ہر نسل کے خیالات کی عکاسی کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ غالب ہر شخص کا دمساز و ہمراز ہے۔ انہوں نے غالب اور اسلوب غالب کی توضیح کرتے ہوئے غالب کی اردو شاعری سے کئی نمونے پیش کیے۔ اس موقع پر پروفیسر چندر شیکھر نے انسٹیٹوٹ کے جنوبی ایشیائی شعبوں کی صدر پروفیسر الفت مخیبوا جو خود ہندی کی مشہور محقق ہیں کو ایوان غالب سے شایع ہوئی کتاب "غالب اور ان کا عہد” تحفتاً پیش کیا۔
سیمینار میں ازبیکستان میں ہندی کی استاد اور مشہور محقق محترمہ تامرہ خودیجوا نے اپنے پر مغز مقالے میں ازبیکستان میں غالب شناسی کی روایت پر روشنی ڈالی ۔ اردو ادب کی استاد اورغالب شناس ڈاکٹر محیہ عبدالرحموا نے بھی تفصیل سے غالب، ان کے عہد اور ان کی شاعری پر تفصیلی گفتگو کی۔ محترمہ محیہ صاحبہ غالب کی غزلوں کو ازبیکی زبان میں ترجمہ کر چکی ہیں، جس کو لال بہادر شاستری سینٹر برائے ہندوستانی ثقافت جلد ہی شائع کرنے جارہا ہے۔
اس موقع پر مذکورہ انسٹیٹوٹ کے طلبا نے غالب کے اردو اشعار ان کا ازبکی زبان میں ترجمہ بھی سنایا۔ اس سیمینار میں شاستری اسکول اور لایسم (پری یونیورسٹی) اسکول کے مدرسین نے بھی شرکت کی۔ سیمینار کا اختتام کرتے ہوئے لعل بہادر شاستری سینٹر برائے ہندوستانی ثقافت کے صدر نے ازبیکستان میں غالب پر ایک انٹرنیشنل کانفرنس کے انعقاد کی اہمیت پر زور دیا۔
پروفیسرچندر شیکھر نے یقین دلایا کہ وہ اس ضمن میں حتیٰ الامکان کوشش کریں گے۔
لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اسلامی تعلیمات پرعمل کرکے دورکی جاسکتی ہے
جماعت اسلامی کی جانب سے ’’رحمِ مادر میں بچیوں کا قتل:اسباب اور تدارک ‘‘کے موضوع پر پروپروگرام کا انعقاد
نئی دہلی:25دسمبر(پریس ریلیز)
جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی و ہریانہ کی جانب سے گروگرام میں ’’رحم مادر میں بچیوں کا قتل ،اسباب اور تدارک ‘‘کے موضوع پر پروگرام کا انعقاد کیا گیا ۔جس میں بڑی تعداد میں مرد ،خواتین اور بچوں نے شرکت کی ۔پروگرام کی صدار ت سہ روزہ ’’دعوت‘‘کے چیف اڈیٹر پرواز رحمانی نے کی ۔ افتتاح آصف اقبال کی تلاوت و ترجمہ قرآن پاک سے ہوا۔وارث حسین نے پروگرام کا تعارف کرایا۔صدارتی خطاب میں پرواز رحمانی نے کہا کہ رحمِ مادر میں بچیوں کا قتل عصر حاضر کے ان نازک اور سنگین مسائل میں سے ہے، جن سے نہ صرف ہمارا ملک، بلکہ پوری دنیا دوچار ہے۔ اس کی وجہ سے صنفی توازن بگڑ رہا ہے اور لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔اس برائی کے انسداد کے لیے قوانین بنائے جا رہے ہیں، مگر وہ موثر ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔لڑکیوں کے ساتھ غیرمنصفانہ رویہ ہندوستان میں نہیں، دنیا کے اور ملکوں میں بھی ہو رہا ہے۔ چین دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھی اس وبا سے پوری طرح متاثر ہے اور دنیا کے دیگر خطوں میں بھی یہ وبا موجود ہے۔ جہاں اس کے اثرات نہیں ہیں ،وہاں بھی عورتوں کی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے؛ بلکہ مرد کی ہوسناکی کا عفریت وہاں دوسری وبا کھڑی کیے ہوئے ہے۔لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کا حل اگر کہیں ہے ،تو اسلام کے جلو میں ہے اور جہاں جہاں اسلام کی برکات ہیں ،وہاں یہ وبا کم ہو گئی ہے۔ اسلام کا سب سے پہلا تجربہ عرب میں کیا گیا اور وہاں قرآن مجید کی آیات اور احادیث مبارکہ کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی کی گئی کہ وہ اس گھناؤنے جرم کو ترک کر دیں اور اسلام اس میں پوری طرح کامیاب رہا۔ لڑکیوں کی پیدائش جن کے لیے ننگ و عار تھی ان کے لیے خیر و برکت اور حصول جنت کا ذریعہ بن گئی۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلام نے مجموعی طور پر اولاد کے قتل کو حرام قرار دیا۔ قرآن مجید میں تین مقامات پر اولاد کو قتل کرنے کی ممانعت کی گئی۔ دو جگہ سورہ انعام میں اور ایک جگہ سورہ بنی اسرائیل میں، ایک آیت میں ہے : اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے۔اسلام کی تعلیمات نے آج سے ڈیڑھ ہزار برس قبل بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم اور ناانصافی کا حل نکالا تھا جس کے اثرات آج تک موجود ہیں اور اسلام کی روشن ہدایات ہی آج بھی اس مسئلہ کا پائیدار حل تلاش کر سکتی ہیں جس نے بہت سے معاشروں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کی سنگینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔علاقے کے پارشد سنجئے پردھان بھی پروگرام میں شامل ہوئے اور اسی موضوع پر تقریر کی ۔پروگرام کی نظامت امیر مقامی گلزار احمد نے کی ۔پروگرام کے بعد محمد اشتیاق ناظم علاقہ ہریانہ نے پارشد سنجئے کمار کو قرآن مجید کا ہندی ترجمہ تحفہ میں دیا ۔
ممبئی:۲۵؍ دسمبر(پریس ریلیز)
امریکی صدر اور ہندوستانی وزیر اعظم کی سوچ ایک جیسی ہے اور وہ اقلیتوں کا اعتماد جیتنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں نیز دنیا بھر میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تئیں ماضی اور آج کی امریکی پالیسیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ، ان بے لاگ خیالات کا اظہار جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے ممبئی میں واقع امریکی سفارتخانہ کے نمائندوں سے دوران ملاقات کیا۔گذشتہ کل دفتر جمعیۃ علماء میں رابرٹ پولسن ہاؤسر (وائس قونصل برائے سیاسی امور) اور عائشہ خان (پالیٹیکل صلاح کار )نے گلزار اعظمی، ایڈوکیٹ انصار تنبولی، ایڈوکیٹ شاہدندیم و دیگر سے ملاقات کی اور حالات حاضرہ پر سیر حاصل گفتگو کی جس کے دوان گلزار اعظمی نے امریکی نمائندوں کو بتایا کہ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرم کی پالیسیوں کی نقل موجودہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کرتے ہیں اور نریندر مودی کو امریکہ سے سپورٹ ملتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص مسلم اور کریسچن کو نشانہ بناتے ہیں ، ان کے عائلی قوانین میں ترمیم کرنے کی گھناؤنی سازش کرتے ہیں نیز انہیں ترقی کے مواقع میسر کرانے کی بجائے انہیں مزید پسماندگی کی طرف ڈھکیلا جارہا ہے ۔دوان گفتگو گلزار اعظمی نے کہا کہ ماضی میں اقلیتوں پر ہونے والی زیادتی کے خلاف امریکہ سے آواز بلند ہوتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہوتا ہے ، امریکہ نے بھی آنکھ موند لی ہے نیز ہندوستانی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے تعصبانہ رویہ پر اس کی خاموشی ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے۔وفد کو گلزار اعظمی نے بتایا کہ چین میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے لیئے ہندوستانی مسلمان فکر مند ہے لیکن وہ ایسا کوئی بھی قدم نہیں اٹھائے گا جس سے دو نوں ملکوں کے تعلقات مزید خراب ہوں اور ملک کے نسق امن میں خلل پڑے نیز امریکی حکومت کو اس مسئلہ کو اقوام متحدہ میں پوری شدت کے ساتھ اٹھانا چاہئے ۔گلزار اعظمی نے وفد کو جمعیۃ علماء ہند کی خدمات اور اس کے قائم ہونے کے پس منظر کے تعلق سے تفصیل سے بتایا اور دیگر موضوعات پر گفتگو کی جس کے بعد وفد نے گلزار اعظمی صاحب کو یقین دلایا کہ وہ ان کے اعتراضات و خدشات اعلی حکام تک پہنچائیں گے۔
حمادخان
ہمارا زخم پہلے کی طرح تازہ نہیں ہے
ہمیں اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہے
بکھرتا جارہا ہے سارا سرمایہ ہمارا
ہمارے ہاتھ میں اس گھر کا شیرازہ نہیں ہے
ہمیں دیوار نے گھیرا ہوا ہے ہر طرف سے
جہاں سے ہوکے آئے تھے وہ دروازہ نہیں ہے
تکلف کی ضرورت کیا تم اتنی خوبرو ہو
تمہارا روپ محتاجِ گل و غازہ نہیں ہے
یہ شعرو شاعری تو عشق سے پہلے کی شے ہے
ہماری شاعری ہجرت کا خمیازہ نہیں ہے
بہت آرام سے رہتا ہے اب حمادؔ تنہا
غموں کا پیار ہے خوشیوں کا آوازہ نہیں ہے