Home نقدوتبصرہ ادبی صحافت کے دو سو سال-حقانی القاسمی

ادبی صحافت کے دو سو سال-حقانی القاسمی

by قندیل

(دوسری قسط)

جامعہ
1923میں علی گڑھ سے رسالہ جامعہ کا اجرا ہوا جس کے مدیر نور الرحمن تھے۔ اس میں تعلیمی و تدریسی مضامین کو ترجیحی حیثیت حاصل تھی مگر سیاسیات ، تہذیب ، تاریخ ، شخصیات، مذہب کے علاوہ ادب میں نثری اور شعری اصناف پر مشتمل مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس کا امتیاز یہ بھی ہے کہ اس رسالے میں معاشیات سے متعلق اہم مضامین شائع کئے جاتے تھے۔ اس رسالے کا اپنا الگ علمی اور ثقافتی منہج تھا۔ اس کے مشمولات پر نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں اعلیٰ علمی اور ادبی ذوق کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ تاریخ کے ذیل میں ہندو اور آریہ کی وجہ تسمیہ(اکبر شاہ نجیب آبادی)، آثارِ عرب (ابراہیم عمادی)، آثار فراعنہ مصر(سعید انصاری) جہاں بہت اہم ہیں وہیں اردو زبان کے تعلق سے اردو رسم الخط(مولانا اسلم جیراجپوری)، اردو رسم الخط(محی الدین قادری زور)، قومی زبان (مولوی بدرالحسن) ہندوستان کی مشترکہ قومی زبان(خطبہ بابو راجندر پرشاد) قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح سرقہ و توارد(سید شاکر حسین نکہت سہسوانی )، اور شمالی ہندوستانی کے دیہات کی زبان (سید مطلبی فرید آبادی)، عربی زبان عصر جاہلی میں (عبد العلیم احراری) بہت اہم ہیں۔ اس رسالے کا معیار اس لیے بھی بلندتھا کہ اس کی ادارت سے اسلم جیراجپوری، یوسف حسین خان، ڈاکٹر عابد حسین، نور الحسن ہاشمی، پروفیسر محمد عاقل، پروفیسر نجم حنفی جیسی شخصیات کی وابستگی رہی ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ خلیل نے رسالہ جامعہ کا تنقیدی اشاریہ (1923تا1947) تیار کیا ہے جو شائع ہو چکا ہے۔
نیرنگ خیال
جولائی1924میں لاہور سے حکیم محمد یوسف حسن کی ادارت میں ’نیرنگ خیال‘ جاری ہوا اور ادبی صحافت میں اس نے بہت سارے نئے تجربے کیے خاص طور پر سال ناموں کی اشاعت اس کا ایک بڑا کارنامہ ہے، یہ رسالہ بھی اپنے موضوعات اور مشمولات کی وجہ سے بہت مقبول ہوا ۔اس رسالے میں سوانح ،شخصیات کے علاوہ دیگر شعری و نثری تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔ اس کے جو خصوصی شمارے مختلف نوعیت کے ہیں ان سے ہمارے قارئین کو کچھ نئی جہتوں اور زاویوں کا علم ہوا ان میں مختصر افسانہ نمبر ، چینی افسانہ نمبر، ماہیا نمبر اور ایڈیٹر نمبر قابل ذکر ہیں۔ نیرنگ خیال کا ایک شمارہ ’’نگارش لطیف ‘‘کے نام سے جون 1932میں شائع ہوا جو خواتین قلم کاروں پر مشتمل تھا۔ اس میں نذر سجاد حیدر، سکندر خانم، زہرہ ، شیو رانی(بیگم پریم چند)، نکہت شیروانیہ، خدیجہ بیگم، خورشید اقبال حیا بیگم( مدیرہ خاتون مشرق میرٹھ) مس حجاب اسمعٰیل، یشودا دیوی (بیگم کنہیا لال کپور) کی نگارشات شامل ہیں۔ یہ شاید واحد ایسا رسالہ تھا جس نے علامہ اقبال کی زندگی میں ہی 1932میں اقبال نمبر شائع کیا تھا۔دیوان حنان خان نے’’ نیرنگ خیال کا موضوعاتی اشاریہ ‘‘کے عنوان سے کتاب مرتب کی ہے جو 2007میں شائع ہوئی۔
عالم گیر لاہور
1924 میںحافظ محمد عالم کی ادارت میں اس کی اشاعت شروع ہوئی ۔ عبد الرحیم شبلی بھی اس سے وابستہ تھے اور نجمی نگینوی کا بھی اس کی ادارت سے رشتہ رہا۔ تاریخی ناول نگاری کے فروغ میں اس مجلے کا کردار بہت نمایاں ہے۔ اس کا جوبلی نمبر ادبی حلقے میں بہت مقبول ہوا
شمع آگرہ
1925 میں آگرہ سے ماہنامہ ’شمع‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس رسالہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی ادارت سے روشن خیال دانشور اور ممتاز مورخ پروفیسر محمد حبیب (آکسن) اور حسن عابد جعفری (آکسن) کی وابستگی تھی۔ ’شمع‘ کا مقصد یہ تھا کہ یہ مجلہ محرک خیالات ثابت ہو اور لوگوں میں اس سے غور و فکر کی تحریک پیدا ہو۔ بیش قیمت علمی اور ادبی سرمائے کی بازیافت بھی اس کا مقصد تھا۔ اس میں تاریخ ،فلسفہ، سیاسیات، سائنس اور مذاہب کے متعلق مضامین کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ رسالے کے اغراض و مقاصد کے تعلق سے بڑی اہم بات یہ لکھی گئی ہے کہ:
’’ادب اردو میں ایک بڑا نقص ہے جو بدقسمتی سے ہنوز موجود ہے وہ یہ کہ زبان کو اظہار خیالات کا ذریعہ بنانے کے بجائے محض زبان کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔‘‘
یہ رسالہ بہت سے اہم تاریخی اور تہذیبی، تمدنی معلومات کی فراہمی میں بہت مفید ثابت ہوا۔ رسالہ ’معارف‘ اعظم گڑھ میں اس کے مشمولات کی تعریف کی گئی اور یہ اعتراف کیا گیا کہ:
’’لائق ایڈیٹروں کے متعلق معلوم ہے کہ رسالہ کا بلند معیار ان کے پیش نظر ہے۔ یہ یقینا خوشی کی بات ہے کہ اب اردو رسائل کا وہ دور ختم ہو رہا ہے جب ایڈیٹری کے لئے صرف ’جمع و ترتیب‘ کی صلاحیت کافی سمجھی جاتی تھی۔ اب پروفیسر اقبال، پروفیسر شفیع، پروفیسر محمد حبیب اور حسن عابد جعفری کا اردو رسالوں کی ترتیب و اشاعت میں حصہ لینا ہماری زبان کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ (بحوالہ سید اختیار جعفری، آگرہ میں اردو صحافت،ص178-179)
بہارستان لاہور
1926میں بہاررستان کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس کے مدیر مسئول اختر شیرانی اور معاون رفیع اجمیری تھے۔ سرِ ورق پر
بنام شاہد نازک خیالاں
عزیز خاطر آشفتہ حالاں
رہتا تھا۔ یہ ادارے کے مطابق اردو علم ادب کی دلچسپیوں کا ماہوار مجموعہ تھا ۔اس میں بہت سی اہم قیمتی نگارشات شائع ہوتی تھیں۔ خاص طور پر اختر شیرانی کے ناول اور اشعار شائع ہوتے تھے۔ یہ بھی ایک باتصویر رسالہ تھا۔ اسی رسالے کے شمار اکتوبر میں تحقیقِ قصہ پدمنی(مولانا احتشام الدین صاحب حقی دہولی، ایم ۔ اے۔ علیگ) شائع ہوا۔ اس کے علاوہ اختر شیرانی کا ایک مسلسل ناول ’’دنیائے شباب ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ۔ جس کا پہلا باب دہلی کی ایک سنہری رات تھا۔ اس کے علاہ صید و شکار کے تحت جہانگیر کا آخری شکار(اختر شیرانی)،ایک افغان شاعرہ یا داستان مستورہ، ایک ملعون پیغمبر ڈرامہ(اختر شیرانی) شائع ہوئے۔ حشر جذبات کے عنوان سے حضرت آغا حشر کاشمیری کی غزل شائع ہوئی۔ جس کا ایک شعر بہت مشہور ہوا
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد
در یگانہ کے عنوان سے مرزا یاس یگانہ لکھنوی اور نوائے مضطر کے عنوان سے افتخار الملک، افتخار الشعرا خان بہادر حضرت مضطر خیر آبادی کی شاعری شائع ہوئی۔ اسی شمارے میں حضرت غریب جہاں آبادی کا ترجمہ کردہ ایک ترکی افسانہ ’’اسیر حرم‘‘ شائع ہوا۔ دسمبر1926میں مصر کے آثار قدیمہ(حفیظ الدین شملہ)اور فرعون طوطخ ایمن کا مقبرہ کے عنوان سے مضامین شائع ہوئے۔ یہ رسالہ ادبی حلقے میں بہت مقبول ہوا۔ اس کے بارے میں ضیاالملک ، ملائے رموزی جرنلسٹ نے یہ لکھا تھا کہ’’بہارستان کا ہر صفحہ جہاں جمال فطرت کی گلریزیوں کا ایک جلوہ پرور منظر ہے وہاں وہ اختر ورفیعی کے عزم و ثبات عمل کا قابل تقلید اور رجسٹری شدہ قبالہ بھی ہے۔ ‘‘انھوں نے اختر شیرانی کو یہ بھی لکھا کہ’’ حقیقت میں بہارستان آپ کی سنجیدگی، سلامت ذوق اور زندہ دلی کا عدیم النظیر ثبوت ہے۔‘‘
ادبی دنیا
1929میں علامہ تاجور نجیب آبادی کی ادارت میں ادبی دنیا کا اجراہوا۔ اس کی پیشانی پر ’مشرق و مغرب کے قدیم و جدید ابیات کا ماہوار مرقع‘ کی عبارت درج تھی۔ ڈائریکٹر کی حیثیت سے آنریبل جسٹس عبدالقادر اور بطور مدیر تاجور نجیب آبادی کے نام ہیں۔ اس رسالہ میں افتتاحی حصہ، تعلیمی حصہ، تنقیدی حصہ، علمی حصہ اور تاریخی حصہ کے علاوہ نظمیں، غزلیں، دنیائے ادب جیسے عنوانات کے تحت تخلیقات کی اشاعت ہوتی تھی۔ مولانا تاجور نجیب آبادی ’حال و قال‘ کے عنوان سے اداریہ لکھتے تھے۔ اس مجلہ سے منصور احمد، حفیظ ہوشیار پوری، عاشق حسین بٹالوی مراجی، قیوم نظر، حامد علی خان، عبداللہ قریشی کی بھی ادارتی وابستگی رہی ہے۔ 1944 میں مولانا صلاح الدین احمد نے جب اس کی ادارت سنبھالی تو اس کا رنگ و روپ بھی بدل گیا۔ انور سدید نے مولانا صلاح الدین احمد اور ادبی دنیا کے حوالے سے بہت اہم بات لکھی ہے:
’’مولانا صلاح الدین احمد کے نزدیک ادب تعبیر حیات بھی تھا اور زندگی کی تفسیر بھی، یہ روشنی اور توانائی بھی فراہم کرتا تھا اور لطافت، بہجت اور مسرت بھی۔ انہوں نے ادبی دنیا کو اپنے انہی تصورات کا نقیب بنایا اور پختگی کردار نے اسے زندہ رکھا۔‘‘ (بحوالہ ڈاکٹر محمود اسیر، اوراق کی ادبی خدمات،ص۔17)
ادبی دنیا نے اپنی الگ شناخت قائم کی اور کئی نسلوں کی تربیت میں اس رسالے نے اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ادبی صحافت کی تاریخ میں ادبی دنیا کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے خصوصی شماروں میں ڈراما نمبر، اقبال نمبر اور وحشت، کلکتوی نمبر قابل ذکر ہیں۔
ساقی
1930میں ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے بشیر الدین احمد کے بیٹے شاہد احمد بی ۔ اے آنرز دہلوی نے ساقی کے نام سے ایک رسالہ دہلی سے شائع کیا جو تقسیم ہند کے بعد کراچی سے شائع ہونے لگا۔اس رسالے کا امتیاز وہ موضوعات ، مسائل اور کالم ہیں جنھیں قارئین بے حد پسند کرتے تھے۔ جھلکیاں(محمد حسن عسکری) اور باتیں(جمیل جالبی) تو ایسے کالم تھے جو قارئین میں بہت مقبول تھے۔ جمیل جالبی نے شاہد احمد دہلوی نمبر کے اداریے نگاہ اولیںمیںلکھا ہے کہ ’’ساقی کا شمار اردو کے کثیر الاشاعت ماہنامہ میں ہوتا تھا۔ اس کا حلقہ اثر کوہ ہمالہ کی چوٹیوں سے لے کر راس کماری تک پھیلا ہوا تھا اس کے سال نامے اور خصوصی شمارے بہت مقبول ہوئے ۔ جون 1964میں اس کا ناولٹ نمبر شائع ہوا جس میں احسن فاروقی کا مضمون ناولٹ اور طویل افسانہ کے علاوہ جو ناولٹ شائع ہوئے ان میں اور ریکارڈ نجتا رہا(محمد احسن فاروقی)، خیراتی اسپتال(شوکت عثمان ترجمہ سعد منیر)، طوفان حوادث(پروین سرور)، سفید عورت کالا آدمی(رشیدہ رضویہ) ، ایک شمع رہ گئی تھی(فرحت انوار)، شیطان اکیلا ہے(تقی مدرسی ترجمہ حسنین قادری) قابل ذکر ہیں۔ 1960کا سال نامہ افسانہ نگار خواتین کے لیے مختص تھا۔ جس میں نمائندہ خواتین کے افسانے شائع کیے گئے۔ پروفیسر محمد عبداللہ نے ساقی کا نذر الاسلام نمبر بھی مرتب کیا تھا۔ اگست1934کے شمارے میں پروفیسر احمد علی کا ایک وقیع مضمون ادبی چوری کے عنوان سے شائع ہوا ہے اس میں انھوں نے غالب کے ایک شعر اور پوپ کی نظم کی سطروں میں مماثلت تلاش کی ہے۔اس حوالے سے انھوں نے حالی کا یہ شعر بھی درج کیا ہے۔
پردے میں شب کے کوئی شاعر جو چور ہے
پھرتا ٹٹولتا ہوا مانند کور ہے
انھوں نے یہ لکھا ہے کہ ’’اردو کی موجودہ ادبی دنیا چوریوں سے بھری ہوئی ہے۔‘‘ مگر انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ’’ اوروں کے تجربے، مشاہدات، خیالات سے استفادہ کرنا یہ اثر قبول کرنا چوری نہیں کہلائے گا کیوں کہ ’’اگر چوری اس کا نام ہوگا تو سب سے بڑا چور شیکسپیر نکلے گاکہ اس نے اوروں کی کہانیوں کو لے کر اپنے ڈرامے بنائے مگر شیکسپئر نے صرف اوروں سے ڈھنچر لے لیے اور ان میں جان خود ڈال دی اگر وہ یہ ڈھنچر اوروں سے نہ لیتا تو ممکن تھا کہ آج انگلستان کا بلکہ دنیا کا ادب غریب ہوتا‘‘سرقہ بہت گمبھیر مسئلہ ہے اور یہ وبا ان دنوں عام ہے۔ خاص طور پر رسائل کے مدیران کو اس تعلق سے بہت سی دقتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی نے اس مضمون پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے بڑی اچھی بات کہی ہے’’پروفیسر صاحب نے مدیرین رسائل کو خاص طور سے متوجہ کیا ہے کہ ایسے مضامین رسائل میں شائع نہ کیے جائیں جن کے ماخذ کا حوالہ نہ دیا گیا ہو۔ یہ امر دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن العمل ہے۔ ایک مدیر سے یہ توقع کسی طرح نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ دنیا بھر کے لٹریچر سے کماحقہ واقف ہو۔۔۔۔ مدیرین کے لیے کیسے ممکن ہے کہ ہر مضمون کا ماخذ تلاش کر لیں۔ اگر مضمون نگار حضرات ہی خیانت سے باز رہیں تو ہماری صحافت سے یہ بے اعتدالیاںاٹھ سلتی ہیں ورنہ مدیرین کے روکے تو یہ سیلاب رکنا نہیں۔‘‘(نگاہ اولیں ، اگست1934 )
ماہنامہ شاعر
1930ہی میں شاعر کا اجرا جمعیت الشعرا ہند کے آرگن کے طور پر ’قصرالادب‘ آگرہ سے مرزا غالب کی یوم وفات پر ہوا۔ اس میں نگراں کے طور پر علامہ سیماب اکبرآبادی اور مدیر مسئول کی حیثیت سے منظر صدیقی اکبرآبادی کا درج ہوتا تھا۔ اس مجلہ کا مقصد اصلاح فن اور تجدید قواعد تھا۔ اس کے مستقل عنوانات میں اصلاح سخن، شاعرانہ معلومات، محاکات، معیار، محاورات دہلی، عام فہم عروض تھے۔ اس کا زورمناظمہ پر تھا۔ مناظمہ کی ترویج کے عنوان سے ایک مضمون میں تغزل کے بجائے مناظمہ کی وکالت یوں کی گئی ہے:
’’ہم چاہتے ہیں کہ مشاعروں سے زیادہ مناظموں کو رواج دیا جائے اور ان کے لئے ایسے عنوانات اور موضوعات بطور طرح قائم کئے جائیں جن کی ملک کو ضرورت ہو۔‘‘
(بحوالہ سید اختیار جعفری، آگرہ میں اردو صحافت، ص۔185)
اس رسالے نے بھی ادبی ذہنوں پر اہم نقوش مرتب کیے۔ افتخار امام صدیقی کے دور ادارت میں شاعر کے نئے تجربات کی وجہ سے بھی اسے بے پناہ مقبولیت ملی۔ اس کی اشاعت کا عرصہ بہت طویل ہے اور اس اشاعتی عرصے میںشاعر نے بہت سے خصوصی شمارے اور اعترافی گوشے شائع کیے اور اردو ادب کو نئے نئے موضوعات ، زاویوں اور جہات سے روشناس کرایا۔ شاعر کے جن خصوصی شماروں کو عالمی سطح پر بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ان میںہم عصر اردو ادب نمبر، عالمی اردو قلم کار خواتین نمبر، قومی یکجہتی نمبر، اقبال نمبر، ڈراما نمبر، افسانہ نمبر، منٹو نمبر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
شاہکار، لاہور
اپریل1935میںاردو مرکز لاہور کا علمی، تعلیمی و ادبی مجلہ شاہکار شائع ہوا۔ جس کے ایڈیٹر پروفیسر تاجور نجیب آبادی اور جائنٹ ایڈیٹر ن م راشد ایم۔ اے تھے۔ اس کے شذرات میں ن م راشد نے لکھا تھا کہ’’ہماری خواہش ہے کہ ہم شاہکار کے ذریعہ ایسا ادب اور ایسا فن پیدا کریں جو ہمارے نوجوانوں کی جمالی تشنگی کی تسکین کا باعث ہو۔ مولانا تاجور نجیب آبادی نے لکھا تھا کہ’’ حسب ذیل عنوانات شاہکار میں مستقل ہوں گے ۔ تاریخ ادب اردو، اردو ادب کے اہل طرز، تذکرہ معاصرین، موازنہ: ہر عہد کے حریفانِ کمال کا موازنہ۔ سوالات و جوابات: ہر قسم کے ادبی ، فنی، معاشرتی، اصلاحی مسائل پر بحث ہوگی۔ سنیما: مشاہیر عالم ، تعلیمی ادارات،تعلیمات، اصلاحات ،تنویرات۔ بزم تحقیق: اردو ادب کے اہم مسائل پر اہل الرائے اور علمائے ادب کی بحث و تمحیص اور ان کے ناتق فیصلوں کی اشاعت۔ ‘‘
شاہکار میں اسی نوع کے مضامین شائع ہوتے رہے اور یہ رسالہ ادبی حلقے میں بہت مقبول بھی ہوا۔ ڈاکٹر صفیہ مشتاق نے اپنے مضمون رسالہ شاہکار کا سرسری جائزہ مطبوعہ تحقیق نامہ جولائی 2014میں لکھا ہے۔’’یہ ایک علمی، تعلیمی، فنی اور ادبی رسالہ تھا۔ شاہکار کی معیاری تحریروں نے شائقین علم و ادب کی تشنگی علم و ادب کو کسی حدتک پورا کرنے کی کوشش کی۔
معیار، پٹنہ
1936میں بانکی پور پٹنہ سے انجمن ترقی اردو ہند شاخ پٹنہ کا مجلہ معیار شائع ہونا شروع ہوا۔ اس کے مرتب قاضی عبد الودود اور معاون محمد شرف عالم آرزو جلیلی تھے۔ معیار میں علمی،تحقیقی،ادبی نوعیت کی نگارشات شائع ہوا کرتی تھی۔ معیار کے مستقل عنوانات معروضات، تعارف، آثار ادبیہ، غالب، افسانے، تمثیل، نظم، مقالات، مطبوعات جدیدہ، اقتباسات، محکمہ اور عالم ادب تھے۔ ایک عنوان بہار بھی تھا۔ جس میں صوبہ بہار سے متعلق ادبی ، تاریخی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس میں زیاہ تر تحریریں قاضی صاحب کی ہوا کرتی تھیں۔ اس میں قاضی صاحب کا ایک افسانہ ’’ہونہارنوجوان‘‘ بھی شائع ہوا۔ رسالے کے مشمولات پر غور کرنے سے مدیر کی محنت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بہت وقیع اور قیمتی مضامین معیار میں موجود ہیں۔عابد رضا بیدار نے معیار کی مکمل فائل کی عکسی اشاعت تجزیاتی اشاریے کے ساتھ خدا بخش لائبریری سے شائع کر دیا ہے۔

(جاری)

You may also like

Leave a Comment