تازہ ترین سلسلہ(20)
فضیل احمد ناصری
وہ سکوں بسترِ اطلس میں، نہ کمخاب میں ہے
جو مسلمان کے اک سجدۂ بے تاب میں ہے
نوعِ انساں کی قیادت تھی، فریضہ جس کا
وہ نہ میدان میں موجود، نہ محراب میں ہے
پَو پھٹی صبح کی، اسلام کا نغمہ گونجا
قومِ مسلم ابھی خرگوش صفت خواب میں ہے
چھا گیا انفس و آفاق میں طاغوت مگر
اب بھی امت کی نگہ، عیش کے اسباب میں ہے
عالمِ کفر سمندر کی تہوں میں اترا
عالمِ حق ابھی تحقیق کے تالاب میں ہے
مار کر جذبۂ اسلام کو رکھ دیتا ہے
زہر کچھ ایسا کلیساؤں کے تیزاب میں ہے
شرط یہ ہے کہ مسلمان، مسلماں ہو جاے
اس میں وہ شے ہے جو پوشیدہ مئے ناب میں ہے
نغمۂ فتح و ظفر جس پہ ہے باطل رقصاں
اس کے سازوں میں نہیں ہے، مرے مضراب میں ہے
آنکھ کھولے تو نظر آے گا مومن میں وہ نور
جو نہ سورج میں، نہ کوکب میں، نہ مہتاب میں ہے