1920ء کے بعد مدراس (چنئی) میں ایک امریکن عیسائی کی کوششوں سے مدراس یونیورسٹی کے طلباء کے سامنے فاضل عیسائی مقرر رین حضرتِ عیسیٰ کی سوانح پر اور مسیحی مذہب کے متعلق لیکچرس دیا کرتے تھے جو ہر سال باقاعدگی کے ساتھ منعقد کیے جاتے رہے اور جنہیں دلچسپی کے ساتھ سنا جاتا رہا۔ یہ دیکھ کر تعلیمی میدان میں سرگرم چند مخلص حضرات کے دلوں میں یہ بات آئی کہ یہاں کے انگریزی مدارس کے مسلمان طالب علموں کے لیے بھی مسلمانوں کی طرف سے اسی قسم کی کوشش کی جائے یعنی کسی مسلمان فاضل مقرر کو مدعو کیا جائے جو اسلام اور پیغمبرِ اسلام پر انگریزی میں اثر انداز لیکچرس دے۔ اِن لیکچرس کو عملی جاما پہنانے کے لیے جمال محمد صاحب نے مدراس مسلم اسوسی ایشن کو متحرک کیا اور اس کی طرف سے یہ طے کیا گیا کہ ہر سال کسی فاضل مقرر کو مدراس مدعو کیا جائے اور خطباتِ اسلامیہ مدراس (مدراس لیکچرس آن اسلام) کے نام سے لیکچرس منعقد کیے جائیں۔
اس سلسلے کا آغاز علامہ سلیمان ندوی صاحب کے لیکچرس سے ہوا۔ آپ نے مدراس کے "لالی ہال” میں اکتوبر 1925ء کے پہلے ہفتہ سے نومبر 1925ء کے اخیر ہفتہ تک آٹھ لیکچرس دیے جس میں سیرت النبیﷺ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا۔آپ نے یہ لیکچرس اردو میں دیے جس کا سیٹھ حمید حسن صاحب نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ 1926ء میں یہ لیکچرس کتاب کی شکل میں شائع ہوئے جسے "خطباتِ مدراس” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ لیکچرس عموماً ہفتہ کی شام کو منعقد ہوا کرتے تھے۔ مدراس کے اردو اخبارات کے علاوہ انگریزی اخبارات مثلاً "ہندو” اور "ڈیلی ایکپسرس” میں بھی ہر ہفتہ ان لیکچرس کا خلاصہ شائع ہوا کرتا تھا۔
اگلے سال یعنی 1927ء کے جنوری میں محمد مارماڈیوک پکتھال کو مدعو کیا گیا جنہوں نے بعد میں قرآنِ مجید کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔ پکتھال نے اسلامی تہذیب پر آٹھ لیکچرس دیے جسے “The Cultural Side of Islam” کے نام سے شائع کیا گیا۔
اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 1929ء کے آخر میں جمال محمد صاحب نے علامہ اقبال کو مدعو کیا۔ علامہ اقبال 5 جنوری 1929ء ہفتہ کے دن صبح کے ساڑھے سات بجے بمبئی میل کے ذریعہ مدراس کے سنٹرل اسٹیشن پہنچے۔ مدراس میں آپ چار دن رہے۔ مدراس کے آرمینیئن اسٹریٹ میں واقع گوکھالے ہال (Gokhale Hall)میں آپ نے انگریزی میں تین لیکچرس دیے ۔ لیکچرس کی تفصیلات حسبِ ذیل ہیں۔
5 جنوری – Knowledge and Religious Experience
6 جنوری – The Philosophical Test of the Revelations of Religious Experience
8 جنوری – The Conception of God and the Meaning of Prayer
ان مجالس کی صدارت پی۔ سبّاراین نے کی جو مدراس پریسیڈینسی کے پہلے منسٹر رہ چکے ہیں۔ یہ لیکچرس شام کے سوا چھ بجے سے خصوصاً یونیورسٹی کے طلباء کے لیے منعقد کیے گئے جس میں انڈر گریجویٹس، گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس شامل تھے ۔ اس کے علاوہ مذہب کے فلسفیانہ پہلو پر دلچسپی رکھنے والےحضرات کے لیے بھی یہ لیکچرس مفید ثابت ہوئے۔ غیر مسلم طلباء کے لیے بھی ان لیکچرس میں شامل ہونے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
ان تین لیکچرس کے علاوہ تین اور لیکچرس جو آپ نے حیدرآباد اور علی گڑھ میں دیے تھے اسے مرتب کرکے 1930ء میں ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا جس کا عنوان تھا “Six Lectures on the Reconstruction of Religious Thought in Islam”۔ 1933ء میں اس کتاب میں ایک اور لیکچر جسے آپ نے لندن میں دیا تھا شامل کرلیا گیا اور اس کتاب کے نام سے Six Lectures کو نکال دیا گیا۔تقریباً پچیس سال کے بعد 1956ء میں اس کتاب کو سید نذیر نیازی صاحب نے اردو میں ترجمہ کرکے "تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ” کے نام سے شائع کیا۔
7 جنوری کو انجمنِ ترقی اردو مدراس کی طرف سے "دعوتِ اقبال” کے نام سے ایک مجلس منعقد کی گئی جس میں مہمانوں کے لیے ضیافت کا بھی انتظام کیا گیا۔ اس نشست میں علامہ اقبال کے علاوہ سید ابوظفر صاحب ندوی، عبدالحمید حسن صاحب، مولوی محمد عبداللہ صاحب چغتائی لاہوری، حکیم سید مخدوم اشرف صاحب، حکیم محمد سعید صاحب چودہر نے بھی خطاب فرمایا۔یہ مجلس "لالی ہال” میں منعقد ہوئی۔
8 جنوری کی رات کو آپ نے مدراس سے بنگلور کا سفر کیا اور 9 جنوری کی صبح کو سوا چھ بجے کنٹون منٹ ریلوے اسٹیشن پر آپ کا استقبال کیا گیا۔ صبح کے دس بجے بمقام گلوب آپرا ہوز، بریگیڈ روڈ میں مرزا محمد اسمٰعیل سیٹھ صاحب کی صدارت میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں آپ کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا گیا۔ اسی شام کو 6 بجے بمقام گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج بنگلورسٹی میں ڈاکٹر سبرائن وزیرِ تعلیم میسور کی زیر صدارت میں ایک اور جلسے میں آپ نے لکچر دیا ۔ بنگلور میں آپ نے مسلم لائبریری کا بھی معائنہ کیا۔
امت کے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے ذیل میں درج پیغام دیا جو ایک پیمفلٹ بعنوان “Message of Iqbal”کی شکل میں آج بھی محفوظ ہے:
"مسلمان نوجوانو! اس آزمائش کی گھڑی میں آج اسلام کو آپ کی ضرورت ہے۔ دنیا کی قومیں پہلے ہی سے اپنے نقطۂ نظر کو تنگ کرچکی ہیں۔ یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ اس موقع پر اٹھیں اور عالمگیر بھائی چارگی کے پرچم کو بلند کریں۔ اسلام نسلی امتیاز اور جغرافیائی حدود کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہ اُن حدود سے بالاتر ہے۔ اسلام کے اس پیغام کو جدید دنیا کی متحارب قوموں تک دوبارہ پہنچایا جائے”۔
بنگلور سے 10 جنوری کو میسور اور 14 جنوری کو میسور سے حیدرآباد گئے۔ دونوں جگہ پر آپ کا عظیم الشان استقبال کیا گیا اور آپ کے لیکچرس کے لئے جلسے منعقد کیے گئے۔ دورانِ قیام میسور آپ نے شیرِ میسور حضرت ٹیپو سلطان کی مزار پر بھی حاضری دی۔