تازہ ترین سلسلہ(17)
فضیل احمد ناصری
نہ میں گلشنوں کا نکھار ہوں، نہ میں بلبلوں کی پکار ہوں
جو خزاں کے جال میں پھنس گئی، وہ لٹی پٹی سی بہار ہوں
مرا گھر مکان اجڑ گیا، مرا خاندان بچھڑ گیا
ابھی گرم کوچۂ قتل ہے، میں کھڑا شریکِ قطار ہوں
کوئی ہم زباں، کوئی مہرباں، نہ مرا کوئی بھی نگاہ باں
جو شکارِ گردشِ وقت ہے، میں ہرن کی ایسی ہی ڈار ہوں
نہ میں جنگ جو، نہ کوئی عدو، نہیں مجھ میں تشنگئ لہو
ہے گناہ ان کی نظر میں یہ ، کہ نبی کا عاشقِ زار ہوں
وہ جو بے بسی کی شکار ہے، وہ جو راستے کا غبار ہے
اسی مردہ قوم کا فرد ہوں، وہ فداے گیسوے دار ہوں
جسے کام عیشِ زیاد سے، جسے ڈر ہے لفظِ جہاد سے
جسے ربط بغض و عناد سے، وہی داستانِ ہزار ہوں
مرا ساز گرچہ حرم سے ہے، مرا سوز خاکِ عجم سے ہے
جو شعارِ دیں پہ جفا کرے، اسی بت کدے پہ نثار ہوں
کوئی ہم خیال، نہ ہم سخن، کوئی بارگاہ، نہ انجمن
نہ زباں پہ کوئی گلہ فغاں، میں وہی چراغِ مزار ہوں