Home نظم پھر آگ کا دریا ہے، برما سے فلسطیں تک

پھر آگ کا دریا ہے، برما سے فلسطیں تک

by قندیل

تازہ ترین سلسلہ(16)

فضیل احمد ناصری

دل درد سے بوجھل ہے، کیا اپنی زباں کھولیں
آؤ کہ لہو رو لیں، آؤ کہ لہو رو لیں
 
لگ جائیں گے قاتل کے پھر ہوش ٹھکانے پر
ہم کوچۂ مقتل کو، اک بار جو پر تولیں
 
پھر آگ کا دریا ہے، برما سے فلسطیں تک
لازم ہے کہ مومن بھی، اب سر بہ کفن ہو لیں
 
رنگیں ہے زمیں ساری، پھر اپنے شہیدوں سے
اٹھ جا کہ ہلا ڈالیں، طاغوت کی سب چولیں
 
کہتے ہیں جنہیں اپنا، اغیار کے خادم ہیں
مظلوم کے حق میں وہ، بولیں بھی تو کیا بولیں
 
ڈھوتے رہیں ہم لاشیں، بے جرم بھلا کب تک
میدان میں آجائیں، شمشیر کا منہ کھولیں
 
آ سینۂ باطل پر اب مونگ دلیں چل کر
فرصت ہے کہاں اتنی، نغموں کے گہر رولیں
 
دنیا تو ستم گر ہے، جی اس سے لگانا کیا
آجاؤ کہ توبہ سے، دل اور جگر دھو لیں

You may also like

Leave a Comment