Home تجزیہ راہل گاندھی کی مانسروور یاترا: ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

راہل گاندھی کی مانسروور یاترا: ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

by قندیل

تحریر: تنویرعالم
ترجمانی: امتیاز شمیم
کانگریس صدر راہل گاندھی کی مانسروور یاترا نے بی جے پی اوران کی پارٹی کے درمیان ایک سیاسی لڑائی چھیڑ دی ہے، ہندوستانی سیاست میں مذہب کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی یہ ایک دوسری مثال ہے کہ بیشتر سیاسی پارٹیاں ان اہم مسائل پر بحث کرنے کی بہ جائے جو آج ملک کو درپیش ہیں مثلا پٹرول ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمت یا نوکری کی قلت، راہل جی کی یاترا پر بحث کررہی ہیں۔
پوری دنیا میں تکثیری، جمہوری معاشرے کو عوامی زندگی میں مذہب کے رول اور اس کی حد کے بارے میں پریشان کن صورت حال کا سامنا رہاہے، سیکولردنیا کے بہت بڑے حصیمیں روزافزوں مذہبی رجحانات نے چرچ اوراسٹیٹ کے درمیان مطلق فرق کے اس آئیڈیا کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیاہے، جس کی ابتدا یورپ سے اٹھارہویں صدی میں ہوئی تھی۔
امریکہ کے بااثر فلاسفر جان راولس(John Rawls) اپنے بعد کے کاموں میں یہ آرگیو کرتے ہیں کہ متنوع جمہوری معاشرے میں شہریوں پر ایک ہی جامع اصول کو سیاسی نظریے کی حیثیت سے تھوپنا غیر معقول ہے، وہ کہتے ہیں کہ مذہب ایک سیکولر جمہوری معاشرہ میں اس وقت کارگررول اداکرسکتا ہے، جب تک کہ اس سے آزادی ،مساوات اور رواداری جیسے آئینی اصول کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو، ہندوستانی سیکولرازم اول دن سے ہی ہر مذہب اور عقیدہ (کے لوگوں) کو مساوی قانونی عزت واحترام دینے کی بات کرتارہاہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ مذہبی تکثیریت کی بات کرتاہے ،نہ کہ مذہب کو عوامی زندگی میں کسی بھی طرح کی رول کی ادائیگی سے ممانعت کی۔
راہل گاندھی پر گجرات اور کرناٹک کی انتخابی مہم کے دوران لگاتار کھلم کھلا مندروں میں جانے کی وجہ سے چہار جانب سے حملے ہوئے ، رائٹ ونگ کے ہندوؤں کا کہنا ہے کہ صرف وہی اصل ہندو ہیں، دوسرے لوگ نہیں، لبرل لوگ راہل گاندھی کے اس قدم کو سیکولرازم کے بنیادی اصول سے سمجھوتہ کرنے کے مترادف سمجھ رہے ہیں، جب کہ کچھ مسلم طبقوں نے حقیقی معنی سے قطع نظراس کو سافٹ ہندوتوا کا نام دیا ہے ۔
بی جے پی جس سیاسی نظریے کی علم بردار ہے، وہ ہندوتوا ہے اور وی ڈی ساورکر کے بہ قول ہندوتوا ایک غیر شراکتی ہندو راشٹر بنانے کی بات کرتاہے ،جب کہ مہاتما گاندھی کی قومیت کی بنیاد مذہبی تکثیریت پر تھی اور ہندوستان کی تحریک آزادی کا نقطۂ نگاہ بھی یہی تھا، گاندھی کے لیے تمام مذاہب اچھے ہیں اور سچائی ان میں سے ہر کسی میں پائی جاسکتی ہے۔
اپنے مذہب پر عمل کرکے یا مندروں میں جاکر راہل گاندھی جی جو کچھ کررہے ہیں، وہ بنیادی طور پر گاندھی جی کے آئیڈیا آف سیکولرازم کی ہی عکاسی ہے، گاندھی، نہرو اور پٹیل یہ سب اپنی ذاتی زندگی میں مذہبی تھے، ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے طریقۂ کارمیں مضبوط قسم کے لبرل بھی رہے اور وہ لوگ ایسا ہندوستان چاہتے تھے ،جو لبرل ہو، تکثیری ہو اور جہاں ہر کسی کے لیے جگہ ہو۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسلمانوں کو کانگریس کے متعلق جو اندیشہ لاحق ہے کہ وہ سافٹ ہندوتوا پر عمل پیرا ہے یا اینٹی مائناریٹی ہوتی جارہی ہے ،وہ نامناسب اوربالکلیہ غیرمعقول ہے، ہندوتوا اور ہندوازم کے درمیان ایک واضح فرق ہے، جیسے اسلام اور اسلام ازم کے درمیان یا یہودیت اور صہیونیت کے درمیان ہے۔
اگر کوئی اپنے مذہب پر عمل کررہا ہے،تو اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ وہ کسی کا اینٹی بھی ہے؛ کیوں کہ کسی مذہب کی بنیاد نفرت پر نہیں ہے، اگر ہم قدآور مسلم قائدین (مثلا مولانا آزاد، مولانا حسین احمد مدنی، مختار احمد انصاری اور ڈاکٹر ذاکر حسین) کو دیکھیں، توسب کے سب مکمل مذہبی تھے؛ لیکن اپنے طریقۂ کارکے اعتبار سے لبرل تھے، وہ ایسے لوگ تھے جن کے اندر ہندو برادران کے تعلق سے کوئی عداوت نہیں تھی، انہوں نے جناح اورلیاقت علی خان کے مقابلے میں نہرو اور گاندھی کوچناتھا۔
ایک سوال مسلمانوں کو خود اپنے آپ سے ضرور پوچھا چاہیے ،وہ یہ کہ اگر ان ہی کے مذہب کو ماننے والا ایک فرد اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے لبرل رہ سکتا ہے، تو پھر راہل گاندھی اگر مندر جاتے ہیں، تو اس کا یہ مطلب کیوں ہے کہ وہ اینٹی مسلم ہورہے ہیں یا ہندوتوا پر عمل پیرا ہیں؟ بعض مسلم لیڈران اس کو ایک ایشو بنانے کی کوشش کررہے ہیں؛ لیکن کوئی ان سے جوابا یہ پوچھے کہ جب وہ یہ چاہتے ہیں کہ اکثریتی طبقہ کے لیڈران مسجدوں میں بھی جائیں،جیسا کہ راہل گاندھی نے کرناٹک میں کیا، تو پھر ان مسلم قائدین کو مندروں میں بھی جاناچاہیے۔
مسلمانوں کو اپنے ہی طبقہ میں موجود ایسے عناصر کے خلاف الرٹ رہنا ہے، جو مفادات کی خاطر جن کا مسلمانوں کو بہ خوبی علم ہے، مبالغے کے ساتھ خوف ووحشت پھیلانے کی کوشش میں لگے ہیں، اگر کوئی راہل جی کی تقریروں کا جائزہ لے، توایسا بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا ہے کہ وہ اینٹی مسلم ہورہے ہیں ،چاہے وہ بنگلور میں ہوئے امبیڈکر کانفرنس کا موقع ہو یا دہلی میں ہونے والا کانگریس کا پلینیری سیشن یا پھر دہلی کی جن آکروش ریلی، انہوں نے اقلیتوں کے خلاف ہورہے ظلم وفساد کا مسئلہ ہی اٹھایا ہے۔
ہندوستانی معاشرہ ایک گہرا مذہبی معاشرہ ہے اور عوامی زندگی میں مذہب کا کردار بھی فطری چیز ہے، راہل جی کے مندر اوردرگاہ جانے کے عمل کو بھی اسی سیاق وسباق میں دیکھا جاناچاہیے اور پھر یہ کہ حکمراں پارٹی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال کا کوئی بھی موقع نہیں جانے دیتی اور وہ پورا کا پورا نیریٹو مذہب (ایودھیا، گائے، بین المذاہب شادی وغیرہ) کے اردگرد تیارکرتی ہے، ایک ایسے ماحول میں اپوزیشن کی پارٹیوں سے یہ امید لگانا کہ وہ مذہب سے دوری بنائے رکھے گی، حقیقی دنیا سے پرے کی چیز ہے، کوئی بھی پارٹی جو قومی سطح پر ہندوستانی سیاست میں بنی رہنا چاہتی ہے ،اس کو مذہبی رسوم ورواج کے لیے اسپیس پیداکرناہی پڑے گا۔
ہمیں یہ بات ذہن نشیں کرلینی چاہیے کہ ہندوستان سیکولر اس لیے نہیں ہے کہ یہاں کے مسلمان اس کو سیکولر بناناچاہتے تھے ؛بلکہ اس لیے ہے کہ ہندوؤں نے اس کو ایک سیکولر ملک بنانے کا فیصلہ کیا تھا، یہ آرگیومنٹ کہ ہندوستان مسلمانوں کو جگہ دینے کے لیے سیکولربنااور یہ کہ ہندوستان کے پاس ہندو پاکستان بننے کا آپشن تھا، ہندوستانی میں سیکولرازم کا سب سے سادہ فہم ہے۔ہندوستان اسلام کی آمد سے بہت پہلے بھی ایک سیکولر معاشرہ رہا ہے، اشوکا کے دورِ حکومت میں ہندوستان ایک سیکولر معاشرہ تھااور یہ ایک پرامن طورپرحکومت کو چلانے کے لیے ضروری تھا، مسلم حکمرانوں نے بھی سیکولر اقدار وروایات کو برقرار رکھا، وہ(گرچہ) مسلمان تھے؛ لیکن انہوں نے ملک کو شرعی قانون کے تحت نہیں چلایا۔
جدید ہندوستان کے قائدین دوربیں افراد تھے، انہیں بہ خوبی علم تھا کہ بین المذاہب اوراندرونِ مذاہب بہت سی پیچیدگیاں ہیں اور سیکولرازم ہی واحد راستہ ہے، جس کے ذریعے داخلی تنوع برقرار رہ سکتا ہے، یورپ اور امریکہ کا سیکولرازم بھی کچھ ایسی ہی بنیادوں پر قائم ہے، انہوں نے سیکولر بننے کا انتخاب داخلی واندرونی طبقاتی اختلافات پر قابو پانے کے لیے کیا تھا ،نہ کہ بدھسٹوں، مسلمانوں، ہندوؤں اور یہودیوں کو جگہ دینے کے لیے۔
(اصل مضمون 14؍ستمبر کو ٹائمس آف انڈیا میں شائع ہواہے)

You may also like

Leave a Comment