Home نظم آنکھوں سے پلانا بھول گئے

آنکھوں سے پلانا بھول گئے

by قندیل

تازہ ترین سلسلہ(14)

فضیل احمد ناصری

استاذحدیث وفقہ جامعہ امام محمدانورشاہ دیوبند

مسرور بنانا بھول گئے، آنکھوں سے پلانا بھول گئے
افسوس ہمارے ساقی ہی، مے خانہ چلانا بھول گئے
 
صدحیف کہ مغرب کا چولا قائد بھی پہن کر بیٹھے ہیں
جس رنگ سے مذہب پھیلا تھا، وہ رنگ دکھانا بھول گئے
 
جس عزم و وفا سے فرعونی ایوان پہ لرزش طاری تھی
اس عزم و وفا کی تلواریں، ہم لوگ اٹھانا بھول گئے
 
اسلاف رہے اصنام شکن، اَخلاف پرانے بت گر ہیں
مغرب کا فسوں تو یاد رہا، ملت کا ترانہ بھول گئے
 
جس سمت نگاہیں دوڑائیں، اندھیر کے بڑھتے ساے ہیں
تاریک ہے دل، تاریک نظر، اور شمع جلانا بھول گئے
 
گفتار عنادل کی صورت، کردار اداکاروں جیسا
تھیٹر پہ فدا ہیں روح و بدن، باطل کو مٹانا بھول گئے
 
تحریر مسالے دار سہی، تقریر دھماکے دار، مگر
خود اپنے گھروں کو واعظ ہی، اسلام سکھانا بھول گئے
 
دل قومِ مسلماں کا یارب! دولت کی ہوس میں ڈوبا ہے
قرآن سے ناطہ ٹوٹ گیا، محراب کو جانا بھول گئے
 
اخلاق کے ٹکڑے ہوتے رہے، بہتا ہی رہا پہلو کا لہو
جاگے رہے سب ایماں والے، بھائی کو بچانا بھول گئے
 
خلوت میں گزر کرنے والے، تقدیر کا شکوہ کرتے ہیں
مذہب کے تحفظ کی خاطر، سر اپنا کٹانا بھول گئے

You may also like

2 comments

ابو العلماء اندرپتی 11 دسمبر, 2017 - 14:30

خلوت میں گزر کرنے والے، تقدیر کا شکوہ کرتے ہیں
مذہب کے تحفظ کی خاطر، سر اپنا کٹانا بھول گئے

ABDULBARI QASMI 11 دسمبر, 2017 - 19:47

بہت خوب

Leave a Comment