Home نظم پھول دشمن کو دیں مسکرا کے

پھول دشمن کو دیں مسکرا کے

by قندیل
تازہ ترین سلسلہ(12)
فضیل احمد ناصری 
استاذحدیث وفقہ جامعہ امام محمدانورشاہ دیوبند
ہم نے گوروں سے اس کو چھڑایا، جان دے کر، سروں کو کٹا کے
ہم بھی مالک تمہاری طرح ہیں، ھند کی خوب صورت فضا کے
 
اس حقیقت سے تم بھی ہو واقف، ہم ہیں اولاد ان اولیا کی
جن کا شیوہ تھا پتھر کے بدلے، پھول دشمن کو دیں مسکرا کے
 
ہم تمہارے ستاے ہوے ہیں، ہم سے احوال کیا پوچھتے ہو? 
جھک گئے سارے کاندھے ہمارے، روز ہی اپنی لاشیں اٹھا کے
 
اس تغافل کو کیا نام دیں ہم، ہم پہ یوں بھی ستم ہو رہے ہیں
خیریت پوچھتے ہیں وہ آ کر، سب کی گردن پہ چھریاں چلا کے
 
مسجدِ بابری تم نے ڈھادی، رام مندر بھی بن کر رہے گا
کب تلک ہم پہ جاری رکھوگے، سلسلے تم یہ اپنی جفا کے
 
جن کی فطرت ہے دہشت پسندی، اب محبانِ بھارت وہی ہیں
ہم پہ اسلام لانے کے باعث، سخت الزام ہیں بے وفا کے
 
حکمراں اپنے ایسے ہیں یارب! زخم دے کر لگاتے ہیں مرہم
جیسے کوئی ‘حسیں’ دل دکھا کر، ہاتھ اپنے اٹھاے دعا کے
 
حکمرانو! سدا یاد رکھنا، جان ہیں ہم ہی اس انجمن کی
ملک اپنا اجالا نہ ہوگا، قومِ مسلم کی شمعیں بجھا کے
 
امن کی فاختائیں اڑائیں، ہم نے جب حکمرانی یہاں کی
تم نے جنت سے کشمیر کو بھی، رکھ دیا ہے جہنم بنا کے
 
امن و انصاف قائم ہو کیسے، ملک کیسے ترقی کرے گا? 
بات تم سے نہ بن پائی اب تک، دیکھ لو ہم کو بھی آزما کے

You may also like

Leave a Comment