Home خاص کالم ہندوستانی مسلمان اب ہندونہیں!

ہندوستانی مسلمان اب ہندونہیں!

by قندیل


سہیل حلیم
انڈیا کے مسلمان اب ہندو نہیں ہیں اور اگر وہ یہ چاہیں گے کہ انھیں ہندو نہ کہا جائے، تو بھی چلے گا۔ اور ہاں،اگر کسی مسلمان نے تھک کر پاکستان یا کسی دوسرے ملک جانے کے لیے اپنا بستر باندھ لیا ہو، تو براہ کرم اس کو کھول کر گھر میں کہیں بچھا لیں؛کیونکہ آر ایس ایس کا مزاج بدلا بدلا نظر آرہا ہے۔
اب بی جے پی کی نظریاتی سرپرست تنظیم راشٹریہ سوئیم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ ہندو راشٹر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگر مسلمان نہ ہوں گے تو ہندوتوا کا کوئی مطلب باقی نہیں رہ جاتا۔
یہ حیرت انگیز بیان تنظیم کے سربراہ موہن بھاگوت نے دیا ہے، جو آر ایس ایس کے زیر انتظام منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ تقریب کا مقصد آر ایس ایس کے نظریے کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔
آر ایس ایس کا دیرینہ موقف یہ رہا ہے کہ ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص، چاہے وہ کسی بھی مذہب پر عمل کرتا ہو، ہندو ہی ہے؛لیکن اب موہن بھاگوت کا دعوی ہے کہ جو لوگ ہندو نہیں اور خود کو بھارتیہ کہلانا پسند کرتے ہیں، تو ان کے جذبات کا بھی احترام کیا جائے گا۔
بس بات یہیں ختم نہیں ہوئی، موہن بھاگوت نے اپنی تقریر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آریہ سماج برادری نے ‘پہلا مسلمان بیرسٹر’ بننے پر خراج تحسین پیش کرنے کے لیے انھیں ایک تقریب میں مدعو کیا تھا، جہاں سر سید نے کہا کہ ‘مجھے بہت افسوس ہوا کہ آپ نے ہمیں اپنوں میں شمار نہیں کیا، کیا ہم بھارت ماتا کے لعل نہیں ہیں۔۔۔ ہمارا عبادت کا طریقہ بدل گیا، اس کے علاوہ اور کیا بدلا؟’
مجھے نہیں معلوم کہ سر سید نے یہ بات کہی تھی یا نہیں، یا کس سیاق و سباق میں کہی تھی؛لیکن اہم سوال یہ ہے کہ موہن باگھوت کیا پیغام دینا چاہ رہے تھے اور کیوں؟
موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ ہمیں اس جذبے کو واپس لانا ہے، جو وقت کے ساتھ ختم ہوگیا تھا۔ ‘اگر وہ (مسلمان) یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ہندو مت کہو، جیسا کہ ہم کہتے ہیں، ہمیں بھارتیہ کہو،تو ہم اس کا احترام کریں گے۔۔۔ جس دن یہ کہا جائے گا کہ یہاں مسلمان نہیں چاہییں، اس دن ہندوتوا کا تصور بھی ختم ہو جائے گا؛ کیونکہ ہندوتوا کا بنییادی نظریہ ہی یہ ہے کہ پوری دنیا ایک خاندان ہے۔’
تقریب میں بہت سے غیر ملکی سفیر شامل تھے،جنھیں خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ کیا یہ ان کے لیے ایک پیغام تھا؟ یا آئندہ برس کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے لیے جو بی جے پی کے دورِ اقتدار میں خود کو غیر محفوظ محسوس کر تی ہیں۔
کیا آر ایس ایس کا نظریہ بدل رہا ہے یا وہ صرف اپنا ‘پرسپشن’ یا تنظیم کے بارے میں لوگوں کی سوچ بدلنا چاہتی ہے؟ صرف ایک تقریر کی بنیاد پر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا؛ لیکن ماضی میں مسلمانوں کے لیے جو زبان استعمال کی گئی ہے، یہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس میں یہ پیغام مضمر ہے کہ مذہب کی بنیاد پر تفریق کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
لیکن پھر ہندو راشٹر کے خواب کا کیا ہوگا؟ اکھنڈ بھارت؟ تقسیم ہند؟ سوال بہت ہیں۔آر ایس ایس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ دستور ہند کو تبدیل کرنا چاہتی ہے؛ لیکن موہن بھاگوت نے کہا کہ آر ایس ایس آزادی کی تمام علامتوں کا احترام کرتی ہے اور ملک کا آئین بھی ان میں شامل ہے۔
موہن بھاگوت نے یہ اشارہ بھی دیا کہ پہلا کام ہندو معاشرے کو متحد کرنا ہے۔ ‘کسی بھی امتحان میں ہم پہلے آسان سوال حل کرتے ہیں۔۔۔پہلے ہم ان لوگوں کو منظم کریں گے،جو خود کو ہندو مانتے ہیں۔۔۔ہمارا مقصد سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔’
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انھوں نے جو سٹیج سے کہا اس کا اثر زمین پر بھی نظر آئے گا؟ کیا اب جو مسلمان ہیں، انھیں دوبارہ ہندو بنانے کی کوشش یا ان کی ‘گھر واپسی’ کا متنازع پروگرام ترک کر دیا جائے گا؟
اور اگر کسی مسلمان لڑکے کو ہندو لڑکی سے پیار ہوجائے گا،تو دونوں شادی کرکے ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار سکیں گے یا بس جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگتے رہیں گے؟ کیا لو جہاد کے دن اب پورے ہوگئے ہیں؟
آر ایس ایس کی تقریب کا عنوان تھا: ‘مستقبل کا بھارت’۔ وزیر اعظم نریندر مودی اکثر یہ کہتے ہیں کہ وہ انڈیا کو کانگریس سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ (کانگریس مکت بھارت) لیکن مسٹر بھاگوت نے آزادی کی جدو جہد میں کانگریس کے کردار کی تعریف بھی کی۔ کیا اب ‘کانگریس مکت بھارت’ کا نعرہ دوبارہ سنائی نہیں دیگا؟
انڈیا میں”سوراجیہ میگزین” دائیں بازو کے نظریات کی ترجمان مانی جاتی ہے۔ جریدے نے آج ہی ایک مضمون میں لکھا ہے کہ آر ایس ایس بدل رہاہے، ہم جنس پرستی پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو جس طرح تسلیم کیا گیا،وہ اس کی ایک مثال ہے۔مضمون کا عنوان ہے: ‘آر ایس ایس ہیز گرون اپ (تنظیم میں بالیدگی آ رہی ہے) اور اب اس کے ناقدین کو بھی بڑا (بالیدہ) ہوجانا چاہیے۔
انگریزی میں کہتے ہیں کہ ‘واک دی ٹاک’ یا جو کہا ہے اس پر عمل کر کے دکھائیے! اگر آر ایس ایس واقعی بدلنا چاہتا ہے، تب بھی دنیا کے سب سے بڑے اور شاید سب سے منظم غیر سرکاری ادارے کے لیے بھی یہ کام آسان نہیں ہوگا۔
کیونکہ یہ آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔
(بہ شکریہ بی بی سی اردوڈاٹ کام)

You may also like

Leave a Comment