Home قندیل کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا!

کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا!

by قندیل

نایاب حسن
بی جے پی کے فکری و نظریاتی سرپرست آرایس ایس کاان دنوں وگیان بھون ،دہلی میں سہ روزہ لیکچرسیریز کا پروگرام چل رہاہے،اس کا عنوان ہے "Future of Bharat: An RSS perspective”(بھارت کا مستقبل:آرایس ایس کا نظریہ)اس کا مقصد بنیادی طورپر مختلف شعبہ ہاے حیات سے وابستہ لوگوں کو آر ایس ایس سے متعارف کروانا اوراس کے مقاصد و عزائم اور سانچہ و ڈھانچہ سے روشناس کرواناہے؛یہی وجہ ہے کہ اس پروگرام میں بنیادی خطاب سنگھ سربراہ موہن بھاگوت کا ہورہاہے۔قابلِ غور ہے کہ اکثر و بیشتر اپنے متنازعہ خطابات سے میڈیا و عوام کی توجہ کھینچنے والے مسٹر بھاگوت اس مرتبہ غیر متوقع طورپر بڑی سلجھی ہوئی تقریریں کررہے ہیں،اس تقریب کے پہلے دن انھوں نے مودی کے عام نعرے کی صریح مخالفت کرتے ہوئے واضح طورپر کہاکہ ’’ہم لوگ تو یُکت بھارت والے ہیں،مکت بھارت والے نہیں ہیں‘‘،اس سے انھوں نے مودی ’’کانگریس مکت بھارت‘‘کے نعرے کی گویا تردید کی ،اتناہی نہیں،انھوں نے ماقبل آزادی کی جدوجہد پر روشنی ڈالتے ہوئے آزادی کی جنگ میں کانگریس کی جدوجہد کا اعتراف کیااور سراہا،انھوں نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی،یہ بھی کہاکہ جو ہمارے مخالفین ہیں،وہ بھی ہمارے ہیں ،ہمیں ان سے شکتی ملتی ہے،البتہ ہم یہ ضرور دیکھیں گے کہ ان کی مخالفت سے ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچے،انھوں نے کہاکہ سینٹر میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو،اس سے ہمیں کوئی مطلب نہیں،ہمارامیدانِ کار ہندوستانی سماج ہے اوراس میں ہماری محنت ہمیشہ جاری رہے گی۔دوسرے دن کا ان کا خطاب اور بھی دلچسپ ہوااور میڈیامیں اس پر خاصی حیرت کا اظہار کیاجارہاہے،دوسرے دن انھوں نے ستر منٹ تک تقریر کی،جس میں ہندوستانی سماج اور مسائل وغیرہ کے سلسلے میں آرایس ایس کے نقطۂ نظر کی وضاحت کی،اسی ضمن میں انھوں نے ایک بات یہ کہی کہ ہندوستان ایک ہندوراشٹرہے اوراس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے؛بلکہ جس دن ایسا ہواکہ ہندوستان سے مسلمانوں کا خاتمہ ہوگیا،توہندوتواکی کوئی معنویت ہی نہیں رہ جائے گی؛کیوں کہ ہر ایک کو اپنے ساتھ لے کر چلنایہی آرایس ایس کا فلسفہ ہے،ہندوتواکامطلب ہے ایک عالمی خاندان یعنی ساری دنیاایک خاندان ہے،اس تقریر میں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسیداحمد خان کا بھی ذکر کیا،ان کے تعلق سے ایک واقعے کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ جب وہ بیرسٹربنے،توپہلے مسلم بیرسٹر کی حیثیت سے آریہ سماج کی طرف سے ان کے لیے ایک اعزازی پروگرام کا انعقاد کیاگیا،جس میں انھوں نے کہاکہ’’مجھے افسوس ہواکہ آپ نے مجھے اپنوں میں نہیں شمار کیا،کیاہم مادرِ وطن کے سپوت نہیں ہیں؟ارے تاریخ میں ہماراطرزِعبادت ہی توبدلاہے اور کیابدلاہے؟‘‘،بھاگوت نے کہاکہ 1881ء سے پہلے ہندوستانی سماج ایساہی تھا،مگر پھر حالات بدل گئے،اب ہمیں دوبارہ انہی حالات پر لوٹنا ہوگا، انھوں نے یہ بھی کہاکہ اگر کسی کا کہنایہ ہے کہ اسے ہندونہ کہاجائے،بھارتیہ(ہندوستانی)کہاجائے،توٹھیک ہے،ہم آپ کے کہنے کا سمّان کرتے ہیں۔
سرسید کے حوالے سے جو بات بھاگوت نے کہی ہے،اس میں کتنی صداقت ہے اور کس پس منظر میں انھوں نے یہ کہاتھا،اس کی تحقیق سے قطعِ نظران کا جو طرزِ استدلال ہے وہ بڑا دلچسپ ہے،انھوں نے سرسید کے مبینہ واقعے سے یہ نتیجہ اخذکیاہے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے آپ کو ہندوکہلانا پسند نہیں کرتے،البتہ اس ملک کے باشندے ہونے کی حیثیت سے بھارتیہ،یعنی ہندوستانی کہلانا پسند کرتے ہیں(اوریہ حقیقت بھی ہے)تو ٹھیک ہے،ہم آپ کے اس نقطۂ نظر کا احترام کرتے ہیں اور اگرکوئی طبقہ اپنے آپ کوہندونہیں کہلوانا چاہتا،توسنگھ کو کوئی تکلیف نہیں ہے۔جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ بھی صراحت کی کہ مسلمانوں کے بغیر ہندوتوایا ہندوراشٹر کا تصور نہیں کیاجاسکتا،یعنی مسلمان اس ملک کے لیے ناگزیر ہیں۔انھوں نے سماجی تکثیریت،مساوات اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے حوالے سے وہی باتیں کہیں،جو سیکولرجماعتوں کی جانب سے کہی جاتی ہیں۔
آرایس ایس سربراہ کے اس خطاب کا مختلف ناحیوں سے تجزیہ کیاجارہاہے،ایک تجزیہ یہ ہے کہ چوں کہ اس پروگرام میں سنگھ نے ہندوستان ہی نہیں؛بلکہ بیرونِ ہند(جس میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں)کے سرکاری و غیر سرکاری اہل کاروں کو بھی دعوت دی تھی،اسی طرح مدعوحضرات و خواتین میں بہت سے ایسے لوگ تھے،جن کی غیر سنگھی نظریاتی وابستگی واضح ہے،ہندوستانی سنیماکے کئی اہم چہرے اس تقریب میں نظر آئے؛لہذاان سب کے سامنے بھاگوت نے آرایس ایس کی ایک قابلِ قبول شبیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے؛تاکہ جو لوگ آرایس ایس سے متوحش ہیںیا اس سے کٹے کٹے رہتے ہیں،وہ اسے جاننے ،سمجھنے اور اس کے قریب آنے میں دلچسپی لیں۔موہن بھاگوت کے اس بدلے ہوئے لہجے کی ایک اہم وجہ اگلے سال منعقد ہونے والے عام انتخابات کو بھی قرار دیاجارہاہے،حالاں کہ بی جے پی تو اپنے جارحانہ رویے میں کسی قسم کی کمی نہیں کررہی ہے،مودی و شاہ کی جوڑی مسلسل اپناکام کررہی ہے،مگر بھاگوت کی تقریر کچھ اور کہہ رہی ہے،کیاانھوں نے معاملے کو بیلنس کرنے کی کوشش کی ہے؟کیا الیکشن سے پہلے وہ مسلمانوں کے تعلق سے اس قسم کی باتیں کرکے انھیں بی جے پی سے قریب آنے کے اشارے دے رہے ہیں؟کیا آرایس ایس کا یہ پروگرام دراصل بی جے پی کے لیے الیکشن کمپیننگ کا حکیمانہ سر آغاز ہے؟
جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے،توبھلے ہی بھاگوت کا بیان خوش آیندہے،جس کا خیر مقدم ہونا چاہیے اور ہونے بھی لگاہے،مگر زمینی حقائق بہت کچھ الگ ہیں،اگر ہم بھاگوت کے اس خطاب کو نقطۂ تحول مان لیتے ہیں ،توکیایہ بھی مان لیں کہ اب ’’گھر واپسی‘‘کی مہم نہیں چھیڑی جائے گی؟’’لوجہاد‘‘کے ڈرامے بند ہوجائیں گے؟مسلمانوں کو آرایس ایس سے منسلک افراد اور تنظیموں کے ذریعے ہراساں کیے جانے کا سلسلہ بند ہوجائے گا؟اگر بھاگوت کا یہ خطاب واقعی ایک سیاسی گیم ہے،تب توکوئی بات ہی نہیں ؛لیکن اگر حقیقتاً ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں آرایس ایس کانظریہ و طریقۂ کاربدل رہا ہے، توپھر اس نظریے کو زمینی سطح پر اتارنے میں ابھی بہت وقت لگے گا؛کیوں کہ گزشتہ نوے سال کے عرصے میں سنگھ نے اپنے لوگوں میں جس ذہنیت کو پروان چڑھایاہے،وہ محض دوتین تقریروں سے کیسے ختم ہوسکتی ہے؟!

You may also like

Leave a Comment