Home نقدوتبصرہ کلاسیکیت اور جدیدیت کے پاسدار: قیصر صدیقی

کلاسیکیت اور جدیدیت کے پاسدار: قیصر صدیقی

by قندیل

ڈاکٹر مشتاق احمد
پرنسپل ، سی ایم کالج، دربھنگہ
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]
عالمی شہرت یافتہ امریکن دانشور وفلاسفرنیپولین ہِل نے لکھاہے کہ’’ نہ کوئی کل تھا ، نہ کوئی کل ہوگا، جو ہے وہ یہ حال ہے ‘‘۔غرض کہ حال اگرانصاف پسند نہیں ہے ،تو پھر ماضی اور مستقبل میں کیا ہوگا یہ طے کرنا مشکل ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مصنف کے ساتھ اگر حال میں یعنی اس کی زندگی میں انصاف نہیں ہوا، تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مستقبل میں اسے عظمت بخش دی جائے ۔ بلا شبہ فنکار کی عظمت کا اعتراف اس کی زندگی میں ہی ہونا چاہئے، جیسا کہ یورپ میں اس کی مستحکم روایت ہے؛ لیکن مشرق میں مردہ پرستی کی روایت عام رہی ہے، ہاں حالیہ دنوں میں اس کی طرف قدرے رجحان بڑھا ہے، اگر چہ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہورہا ہے کہ بونوں کو قد آوری بخشی جا رہی ہے؛لیکن اس چلن نے بہت سے گمشدہ فنکاروں کو افقِ ادب پر نمایاں بھی کیا ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ظفر انصاری ظفر نے قیصر صدیقی جیسے ایک فراموش شدہ تخلیقی فنکار کو نہ صرف دنیائے ادب سے متعارف کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے؛ بلکہ ان کے فنّی جہات اور فکری امکانات کے دروازے کھول دیے ہیں ۔راقم الحروف ذاتی طورپر قیصر صدیقی مرحوم کو چار دہائیو ں سے جانتا ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1981ء میں مدھوبنی کے ایک مشاعرے میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی ، ا ن دنو ں اردو معاشرے میں مشاعرے کو غیر معمولی ادبی اہمیت حاصل تھی ، اچھے شعر پرشعراکو خوب واہ واہی ملتی تھی اور سطحی شاعری کو ہوٹ کیا جاتا تھا، اس مشاعرہ میں مرحوم شہود عالم آفاقی ، وسیم بریلوی، ریحانہ نواب اور دیگر علاقائی شعراکی ایک لمبی قطار تھی؛ لیکن جب قیصر صدیقی اپنا کلام پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے ،تو چہار طرف سے آواز آنے لگی کہ وہ قوالی والی نظم’’اپنے ماں باپ کا تو دل نہ دُکھا‘‘ پڑھئے ؛لیکن جناب صدیقی نے معذرت کرلی اور صرف غزل سنانے کو تیار ہوئے اور جب شعر پڑھنے لگے ،توایک عجیب سا سماں بندھ گیا ۔ واضح ہو کہ ان دنوں مشاعرے میں تالیاں بجانے کی روایت پروان نہیں چڑھی تھی اور نہ حالیہ مشاعروں کی طرح شعراقلا بازیاں کھاتے تھے،ہر ایک شاعر کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنا تازہ کلام پڑھے اور سامعین کو محظوظ کرے،سامعین میں بھی اکثریت سنجیدہ ، باشعور لوگوں کی ہوتی تھی اورلوگ باگ بھی مشاعرے کی روایت کے پاسدار ہوا کرتے تھے۔ میرے ذہن میں اس مشاعرے میں ان کاپڑھا گیا یہ شعر آج بھی محفوظ ہے :
اُسے کم پیاس تھی، ایسا نہیں تھا
مگر کم ظرف وہ پیاسا نہیں تھا
سچ پوچھیے،تو اس مشاعرے میں وسیم بریلوی صاحب کے بعد قیصر صدیقی ہی چھائے رہے ۔ مشاعرہ کا دورِ اول ختم ہوا، دورِ ثانی میں وسیم بریلوی اور قیصر صدیقی کی فرمائش کا طوفان کھڑا ہوگیا اور ان دونوں شعرا کو کئی بار زحمتِ کلام اٹھانی پڑی ۔
مختصر یہ کہ قیصر صدیقی سے اس مشاعرہ میں جو آشنائی ہوئی ،وہ ان کے آخری دم تک بر قرار رہی ۔ وہ جب کبھی دربھنگہ آتے ،مطلع کرتے اور ملاقات بھی ہوتی؛ لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں ان کی زندگی میں ان پر کچھ نہیں لکھ سکا ۔اگرچہ ان کا تقاضہ بھی رہا کہ میں کچھ لکھوں؛ لیکن نہ جانے کیوں میں اکثر ان سے کہتا کہ آپ کی شاعری خود کبھی مجھ سے لکھوا لے گی، مجھے افسوس ہے کہ ان کی زندگی میں ان پر کچھ نہیں لکھ سکا،دراصل میری مجبوری یہ ہے کہ جب تک کسی فنکار کے مکمل شعری جہان کی زیریں لہروں تک نہ پہنچوں، اس وقت تک کچھ لکھنا خانہ پُری سمجھتا ہوں اور اس کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ شاعر کا بھرپور کلام سامنے ہو۔
بہر کیف! حال ہی میں ان کے برادرِ خورد آشکار احمد ایک ساتھ ان کے کئی مجموعہ ہاے کلام کے ساتھ حاضر ہوئے ،تو یہ میرے لئے باعثِ افسوس تھا کہ اب، جب کہ قیصر صدیقی اس دنیا میں نہیں رہے، تو ان کافکری اثاثہ ہاتھ آیا ہے ۔مجھے یہ دیکھ کر اور بھی دکھ ہوا کہ انہو ں نے اپنے مجموعۂ کلام ’’ڈوبتے سورج کا منظر‘‘ پر میرا نام 27-02-2012 کو لکھا تھا ۔ بقول آشکار احمد صاحب جن کے ذریعے انہوں نے مجھے یہ مجموعہ بھیجا تھا، وہ مجھے پہنچا نہیں سکے ۔ مختصر یہ کہ ایک ساتھ ان کے چھ مجموعہ ہاے کلام کی زیارت ہوئی، جس میں ’’ڈوبتے سورج کا منظر(2011)، سجدہ گاہِ فلک( 2012)، روشنی کی بات(2013)، غزل چہرہ۔دیوناگری(2014)، زنبیلِ سحر تاب(2016)، اجنبی خواب کا چہرہ‘‘(2017)اور ’’بے چراغ آنکھیں‘‘(2018)شامل ہیں۔ یوں تو اکثر ان کی زبانی بھی ان کے کلام سے محظوظ ہوتا رہا اور گاہے بگاہے مشاعروں میں بھی انہیں سنتا رہا ؛ لیکن اب جب کہ مذکورہ شعری اثاثے سے استفادہ کا موقع نصیب ہوا ہے ،تو میرے لئے یہ کہنا آسان ہوگیا ہے کہ قیصر صدیقی کی شاعری کلاسیکیت اور جدیدیت کا آمیزہ ہے۔’’ڈوبتے سورج کا منظر ‘‘ ان کی غزلیہ شاعری کا ایک نایاب نمونہ ہے ۔ واضح ہو کہ قیصر صدیقی ایک ہمہ جہت فنکار تھے ،وہ تمام شعری اصناف میں طبع آزمائی کرتے رہے۔ حمد، نعت،منقبت، سہرا، ترانۂ سحری، نظم اور غزل کے تو وہ رسیاہی تھے۔گویا انہوں نے ہر صنف کو نیا معنوی پیرہن عطا کرنے کی کوشش بھی کرنے کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے ۔ یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ وہ کل وقتی شاعر تھے۔ شاعری ان کے لئے ذریعۂ معاش تھی ، ستّر کی دہائی میں جب قوالی کا عروج تھا، تو شمالی بہار کے بیشتر شعراان کا کلام پڑھتے تھے ، اس حقیقت کا اظہار وہ اکثر کرتے بھی تھے کہ شاعری میرے لئے صرف شوق اور ذہنی آسودگی کا سامان نہیں ہے ؛بلکہ پیٹ کی آگ بجھانے کا ذریعہ ہے، ان کا یہ شعر اس حقیقت کا غمّاز ہے:
فن پاروں کا سودا کرنا ،قیصرؔ کی مجبوری ہے
غربت سے مجبور ہے قیصر ، قیصر سے کیا کہتے ہو
اسے فنکار کیوں کہتے ہو قیصرؔ
جو دل کی دھڑکنو ں کو بیچتا ہے
واضح ہو کہ قیصر صدیقی قوالوں کے کل وقتی شاعر تھے اور اس زمانے میں ریکارڈنگ پلےئر کے ذریعہ بھی ان کا کلام لوگ سنتے تھے ۔ بالخصوص ان کی تحریر کردہ قوالی ’’اپنے ماں باپ کا تو دل نہ دُکھا ، دل نہ دکھا‘‘ تو زبان زد عام وخاص تھی اور بھی کئی نظمیں ریکارڈ پر بجتی تھیں اور آل انڈیا ریڈیو پٹنہ سے بھی نشر ہوتی تھیں ، مگر افسوس صد افسوس کہ دنیائے ادب میں انہیں وہ مقام حاصل نہیں ہوا ،جس کے وہ مستحق تھے۔ دراصل ہمارے یہاں فلمی اور قوالی کی شاعری کرنے والے شعرا کو ہیچ نگاہ سے دیکھنے کی روایت رہی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ساحرؔ اور مجروحؔ کو ادبی حلقے میں بھی قبولیت کے ساتھ مقبولیت حاصل رہی ۔ اس تبصراتی مضمون میں یہ ممکن نہیں کہ ان کے تمام مجموعہ ہاے کلام پر بھرپور روشنی ڈالی جائے ،البتہ چند اشعار ملاحظہ کیجئے ،جن سے یہ اندازہ ہوجائے گا کہ قیصر صدیقی افقِ غزلیہ شاعری کے آفتاب ومہتاب تھے :
سرچڑھنے کی خواہش میں چمن سے نہیں نکلا
میں خاک ہوا پھر بھی وطن سے نہیں نکلا
بس چل رہا ہوں تھوڑ ا سا خود کو سنوار لوں
چہرے سے اپنے دوسرا چہرہ اتار لوں
یہ کیسے جانتا گر شہر میں آیا نہیں ہوتا
یہاں دیوار ہوتی ہے مگر سایہ نہیں ہوتا
آج میں یہ سمجھنے بیٹھا ہوں
تو ہی تو ہے اگر تومیں کیا ہوں
پیاس کی دھوپ میں جلتا رہا تمام عمر مگر
اپنے دریا سے بھی مانگا نہیں پانی میں نے
اندھیری رات سمندر میں غرق ہوتی رہی
میں اپنے ہاتھ میں سورج لئے ابھرتا رہا
مجموعۂ کلام ’’ڈوبتے سورج کا منظر‘‘ خالص غزلو ں کا مجموعہ ہے اور آخر میں متفرقات کے تحت اشعار درج ہیں ۔ اس مجموعۂ کلام کے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ قیصر صدیقی کی شاعری صرف داستانِ دردِ دل نہیں ہے؛ بلکہ کائنات کا مرثیہ ہے ۔ غمِ حیات کے مدھم چراغ بھی ہیں ،تو امید وبیم کے طلوع ہوتے سورج بھی دکھائی دیتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ دردوغم کی شاعری آپ بیتی ہوتے ہوئے بھی جگ بیتی کا درجہ رکھتی ہے کہ اس جہان میں اکثریت کا مقدر محرومی ہے ۔شاعر کو اس بات کا احساس ہے کہ اس کی زندگی نے اسے اتنی سہولت نہیں بخشی کہ وہ اپنے بچوں کو بازار لے جا سکے:
میں کس طرح انہیں بازار لے کے جاؤں بھلا
کھلونے دیکھ کے بچے مچل بھی سکتے ہیں
لیکن انہیں یہ یقین محکم بھی ہے کہ:
سنبھل کے آج دکھایا یہ گرنے والوں نے
کہ گرنے والے کسی دن سنبھل بھی سکتے ہیں
اور انہیں دنیا کی یہ حقیقت بھی معلوم ہے کہ :
رکھا کرتے ہیں جو دنیا میں ہنگاموں کی بنیادیں
کسی دن وہ بھی خاموشی سے دنیا چھوڑ دیتے ہیں
اس شہر میں آکر یہ معلوم ہوا مجھ کو
شیشے کے مکاں والے پتھر بھی چلاتے ہیں
جس فیصلے میں حسن غرورِ خطا کا تھا وہ فیصلہ کسی کا نہیں تھا اَنا کا تھا
*
میرے اس خواب کی تعبیر بتا دے کوئی میں نے دیکھا ہے سمندر کا فنا ہو جانا
پیشِ نظر مجموعہ کلام ’’ڈوبتے سورج کا منظر ‘‘ 452صفحات پر مشتمل ہے ۔ علمی مجلس ، بہار پٹنہ سے2011میں شائع ہوا ہے ۔ اس کی قیمت 600روپے ہے ۔ غزلیہ شاعری کا ایک عمدہ ذخیرہ اس میں موجود ہے ۔ قیصر صدیقی کا پہلا مجموعہ کلام’’صحیفہ‘‘1983ء میں شائع ہوا تھا ۔ پروفیسر وہاب اشرفی جیسے معتبر نقاد نے ان کی غزلیہ شاعری کے اوصاف کا اعتراف کرتے ہوئے بہت اچھی بات کہی ہے کہ :
’’قیصر صدیقی اچھی شاعری کے رموز سے اچھی طرح باخبر ہے ۔ اسے معلوم ہے کہ پیکر تراشی کسے کہتے ہیں ، تشبیہ واستعارے کی جدت کا کیا مفہوم ہے ، نئے پیکر کس طرح تخلیق کئے جاتے ہیں ، لفظی روابط سے مصروعوں اور شعروں کا کیا تعلق ہے ، مجموعہ اعتبار سے تلاشِ آہنگ کے کیف وکم سے شاعر واقف ہے ۔ تلمیحات کو پنہاں کرنے یا مخفی رکھنے کی پرانی وضع سے وہ صرف آشنا نہیں بلکہ اس کے استعمال پر حاوی ہے ۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ قیصر صدیقی کلاسیکی سج دھج کا ایک اچھا شاعر ہے ‘‘ ۔
بلا شبہ مجموعی طورپر قیصر صدیقی کے کلام کے سنجیدہ مطالعے کے بعد یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وہ اردو کلاسیکی شاعری کے پاسدار بھی ہیں اور جدیدیت ان کے لئے کوئی شئے مضربھی نہیں بلکہ ہر صبح ان کے لئے نئی صبح ہے اور ہر شام انہیں یہ پیغام دے جاتیہے کہ کل کا سورج ایک نیا پیام لے کر آئے گا اور وہ خندہ پیشانی سے ڈوبتے سورج کے پیغام کو حرزِ جاں بنا لیتے ہیں اور صبحِ نو کے منتظر نظر آتے ہیں ۔

You may also like

Leave a Comment