Home تجزیہ پیروپیگنڈوں سے دور رہیں!

پیروپیگنڈوں سے دور رہیں!

by قندیل

محمدشارب ضیاء رحمانی

جیسے ہی کورٹ کا مصالحتی فارمولہ آیا،ایک ٹولہ، آقا یوگی کے دربار میں پہونچ گیا،اجودھیا سے بیرنگ واپس بھیجاگیا، اس کے بعد جب بورڈ کی ندوہ میں میٹنگ ہونے والی تھی، فتنہ پروروں کو خطرہ لگا کہ زمین کی خیرات لینے کی ان کی محنت برباد ہوجائے گی،یہ عملہ فتنہ اندازی میں لگ گیا،لکھنوکی انتظامیہ کو گمراہ کیاگیا،وہ خط، آڈیو سب منظرعام پر آچکے ہیں، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ ذرا سا مفاد یا عناد کے لیے کتنے ارزل راستے پر جایا جاسکتاہے، پوری کوشش کی گئی کہ بورڈ کی میٹنگ ہی نہ ہو لیکن ہم سلام کرتے ہیں عاملہ کے اراکین کو کہ انھوں نے طے کیا کہ میٹنگ ہوگی اور ہرحال میں ہوگی، چنانچہ آنا فانا جلدی میں متبادل جگہ کا انتظام کیاگیا،رافضی،سنگھی بھکتوں کا پورا پلان فیل ہوگیا،ہرشخص اندازہ لگاسکتاہے کہ اس جگہ جہاں سب کی صحیح سے گنجائش نھیں تھی، کرسی آگے پیچھے کرکے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا، ایسے میں یہ سوال ہی سوائے فتنہ انگیزی کے کچھ نھیں ہے کہ کس کی کرسی کہاں تھی، اور کس کی کرسی پر کون بیٹھا، کسی کی کوئی مخصوص جگہ نھیں تھی، ہاں صدر صاحب نے کہہ رکھاتھا کہ مجھے پہونچنے میں تھوڑی تاخیر ہوگی جب تک نائب صدر کارروائی کی صدارت کریں گے،(یہ جھوٹ صرف شرانگیزی ہے کہ صدر صاحب کے بغیر میٹنگ شروع کردی گئی جب کہ صدر صاحب نے نائب صدر کی صدارت میں شروع کرنے کا حکم دیاتھا) چنانچہ مولانا جلال الدین عمری صاحب سابق امیر جماعت اسلامی ہند تشریف لے آئے اورایک کرسی جو صدر صاحب کے لیے جنرل سکریٹری کے برابر میں خالی رکھی تھی، نائب صدر تشریف فرماہوئے اور ان کی صدارت میں میٹنگ شروع ہوئی،پھر جب صدر صاحب تشریف لائے تو جنرل سیکرٹری اپنی کرسی (پھر واضح رہے کہ صدر یا کسی کے لیے وہ جگہ مخصوص نھیں تھی،بلکہ، نائب صدر کے آنے سے پہلے جنرل سکریٹری کے پاس میں ایک خالی کرسی، کئی تصویروں میں دیکھی جاسکتی ہے جس سے واضح ہوتاہے کہ جنرل سکریٹری، صدر صاحب کی کرسی پر نھیں بیٹھے تھے جیساکہ نمک، مرچ لگاکر جھوٹ پھیلایاجارہاہے) چھوڑکر کھڑے ہوئے کہ تشریف لے آئیں لیکن انھوں نے اپنی معذوری ظاہر کی کہ پیشاب کا عارضہ ہے کونے میں جہاں مولانا خالد سیف اللہ اور مولانا عمرین محفوظ صاحبان تھے وہاں اس لیے بیٹھ گئے کہ استنجا خانہ کے لیے نکلنے میں وہاں سے سہولت ہوگی، اب بتایا جائے کہ اس میں کون سی بے ادبی ہوگئی،یا کس نے ہائی جیک کرلیا؟اس میں کون سی غلط بات ہے جب کہ بدخواہوں کی شرارت کی وجہ سے جگہ بدلنے کی پریشانی ہوئی جس سے عمومی انتظامات نھیں ہوپائے،ذمے داروں کی کوشش انتظامات کی نھیں، میٹنگ کی معنویت برقرار رکھنے اور اس کے اہم مقاصد کو کامیاب بنانے کی تھی ـ
لیکن جب میٹنگ کامیاب ہوگئی تو ان شرپسندوں نے مختلف مفروضات گڑھ کر پروپیگنڈے کرنے شروع کردییے،کہتے ہیں نا کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے
دل چسپ بات یہ ہے کہ اب انھی لوگوں کو ناظم صاحب کے وقار کا خیال آنے لگا جنھوں نے خطوط کے ذریعے بھی کیا کیا بدتمیزیاں نھیں کی ہیں اور کیسی کیسی دھمکیاں نھیں دی ہیں(جب کہ بورڈ کی میٹنگ میں اصل صورت حال اوپر بیان کردی گئی ہے)بورڈ کا ہر رکن،ذمے دار، صدر بورڈ کے وقار کا پورا خیال رکھتاہےـ
دوسرا جھوٹ کہ مولانا محمودمدنی میٹنگ میں نھیں گئے، یہ رافضی بھکتی میں کہا گیا سفید جھوٹ ہے، مولانا محمود مدنی میٹنگ میں شریک ہوئےاور انھوں نے اپنے موقف یعنی ریویو پٹیشن نہ داخل کرنے کو پیش کیا اور کل بھی ان کی جمیعۃ کی میٹنگ میں یہی موقف رہا کہ ریوویو پٹیشن کو ہم صحیح نھیں سمجھتے لیکن اب جب کہ کئی اہم تنظیموں (مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمیعۃ الف) نے کورٹ جانے کا فیصلہ کرلیا ہے تو ہم اس کی مخالفت بھی نھیں کریں گے،جمیعۃ میم کی عمدہ رائے ہے، ظاہر ہے کہ کوئی کسی بات سے متفق نہ ہو لیکن رائے عامہ کا احترام کرتاہو، یہ بڑی بات ہے، ہم اس کے لیے مولانا محمود مدنی اور ان کی جمیعۃ کی تعریف کرتے ہیں
چنانچہ اگر بورڈ کی میٹنگ میں مولانا محمودمدنی یا دو چار لوگوں کی رائے ریوویو پٹیشن کی نہ بھی ہوتو اعتبار اکثریتی رائے کا ہوتا ہے، ایوان، ادارے یا تنظیموں اور کمیٹیوں میں کیا ہوتا ہے؟ کورٹ کے بھی اکثریتی ججمنٹس کا اطلاق ہوتاہے جیسا کہ طلاق پر سپریم کورٹ نے تین دو سے فیصلہ سنایاتھا، کہنا یہ تھا کہ اگر بورڈ کے دوچار لوگ اس سے متفق نہ بھی ہوں اور ہم ان کے خلوص پر بھی مطمیں ہیں لیکن پھر بھی اس پر ہنگامے کی کیا ضرورت ہے،ہر ایک کی رائے کا مستقل احترام ہے اور ایک دوسرے کے نظریات کو برداشت کرنا یہی تو اصول پسندی اور جمہوریت کی خوبصورتی ہےـ
یہ بھی یاد رہے کہ اس میٹنگ میں بورڈنے مولانا جلال الدین عمری،جسٹس قادری، مولانا خالد سیف اللہ،مولانا خالد اشرف کچھوچھوی اور ایڈووکیٹ ظفریاب جیلانی پر مشتمل پانچ رکنی کمیٹی بناکر انھیں کسی نتیجے پر پہونچنے کا اختیار دے دیا چنانچہ اس کمیٹی نے الگ میٹنگ کرکے ریوویو پٹیشن داخل کرنے کا مشورہ دیا جسے قبول کیا گیا، سوچیے کہ اتنے پراسیس اور مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ ہوا ہو تو اس میں کون سا غلط ہوگیاـ
یہ جھوٹ بھی پھیلایاجارہاہے کہ مولانا محمودمدنی میٹنگ چھوڑکر نکل گئے،اور اسے دوسرا رنگ دیاجارہاہے، شرپسندوں اور بدخواہوں کا کام ہی یہی ہے، درست بات یہ ہے کہ مولانا محمودمدنی نے میٹنگ میں اپنی تجویز پیش کی اور اور دوسرے لوگوں کی تجاویز سنیں پھرپہلے سے طے پروگرام کے لیے ان کی فلائٹ کاوقت قریب تھا چنانچہ انھوں نے عذر بیان کرتے ہوئے اجازت طلب کی، اس میں کون سی غلط بات ہوگئی کہ باتیں بنائی جانے لگیں ـ
ایک جھوٹ اور پھیلایاگیا کہ مولانا خالد سیف اللہ پٹیشن کے خلاف تھے، یہ بھی جھوٹ ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی،فیصلہ کرنے والی پانچ رکنی کمیٹی میں بھی شامل تھے اور آج سوشل میڈیا اور اخبارات میں شائع ان کے مضمون سے اندازہ لگایاجاسکتایے کہ مولانا ریویو پٹیشن کے حق میں ہیں، پھر وہی بات کہتاہوں کہ ہر شخص کو رائے دینے اور رائے رکھنے کا حق ہے لیکن ہر معاملے اور ہرادارے میں رائے عامہ کا احترام ہوتاہے اور فیصلہ کن، رائے عامہ ہوتی ہےـ
درست بات یہی ہے کہ میٹنگ نہ ہونے دینے اور میٹنگ کو ناکام بنانے کی پوری کوششوں کے بعد شرپسندوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، اب ندوہ سے نکالے جانے کے بعد جو خفت محسوس ہورہی ہوگی اس کے ہزار بہانے ڈھونڈھے جارہے ہیں ـ
امت مسلمہ پورے حقائق سمجھتی ہے کہ بغاوت، عصیان، بدعقیدگی اور راہ حق سے روگردانی کون کررہاہے،سوداگری کے لیے کون دشمن کے گھر تک دوڑرہاہے، نئے نئے فتنوں کو کون جنم دے رہاہے اور کس طرح کے لوگ اسے ہوا دے رہے ہیں اور مسلمانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کس جماعت پر اعتماد رکھنا چاہیے،خیر خواہی یہی ہے کہ ان حرکتوں سے باز آکرخدا نے جو کچھ صلاحیتیں دی ہیں، مثبت اور تعمیری کاموں میں انھیں صرف کرنا چاہیے، وہ کل بھی بڑے تھے اور ان کی تکریم آج بھی دلوں میں واپس آسکتی ہے، قوم نے کل بھی ہاتھوں پر بیٹھایا تھا، اپنے عقائد اور منفیات کو چھوڑکر راہ راست پر آجائیں تو آج بھی ملت اسلامیہ پلکوں پر بٹھانے کو تیار ہے، ان کی اہمیت وصلاحیت کا اعتراف رہا ہے، بندہ نے ان کی کتاب پر کام بھی کیا ہے
اور غائبانہ محبت وعقیدت رہی ہے، بس دلی درخواست ہے کہ مولانا،پہلے والے ہوجائیں
سمجھنے کی بات ہے کہ جب تک مولانا بورڈ کے رکن عاملہ تھے تو یہی مسلم پرسنل لاء بورڈ بہت اچھا تھا لیکن اب یہی بورڈ، ندوہ کے ذمے داران سب برے ہوگئے، کتنی مزے دار بات ہے نا؟ جسے آج ظلم اور جس کو آج مظلوم بتایا جارہاہے، دنیا حقائق سے باخبر ہے کہ ایسے حالات کیوں پیش آئے اور ظلم کیا گیا یا انصاف کے تقاضوں پرعمل کیاگیا؟چوں کہ یہ موضوع دوسرا ہوجائے گا ورنہ اس مظلومیت پر بھی بہت کچھ کہاجاسکتاہےـ
اوپر کی معروضات اس لیے پیش کی گئیں تاکہ عوام، افواہوں اور پروپیگنڈے کی شکار نہ ہوں، ابھی کئی طرح کی باتیں بنائی جائیں گی کیوں کہ ابلیس اور اس کی ذریت اپنے مشن میں مصروف ہے،امت کی بھلائی اسی میں ہے کہ مثبت راہ اختیار کی جائے، وقت اور حالات، انتشار کی اجازت نھیں دیتےـ

You may also like

Leave a Comment