Home قندیل پرنب دا کوآرایس ایس کی دعوت:ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

پرنب دا کوآرایس ایس کی دعوت:ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

by قندیل

نایاب حسن
آرایس ایس نے 7؍جون کوسابق صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی کو اپنے یہاں تربیت حاصل کرنے والوں کے اجتماع سے خطاب کرنے کے لیے ناگپور مد عو کیا ہے،جس پرقومی میڈیامیں بحث کا تازہ سلسلہ شروع ہوگیاہے،کچھ لوگ ہیں،جواس دعوت میں کانگریس اورآرایس ایس کی ’’خفیہ‘‘رشتے داری کو تلاش کررہے ہیں،جبکہ کچھ لوگ ذاتی طورپر پرنب مکھرجی اور آرایس ایس کے تعلقات کی کھوج میں مصروف ہیں،فیس بک وغیرہ سوشل سائٹس پر مجھے متعددایسی تصاویرنظرآئیں،جن میں پرنب داکوخاکی چڈی پہناکر پیش کیاگیاہے،گو یاان کا آرایس ایس سے پرانایارانہ ہے اوراسی وجہ سے انھیں آرایس ایس نے اپنے یہاں خطاب کے لیے بلایاہے،حالاں کہ دوسری جانب ایک حقیقت وہ ہے،جو سارے ہندوستان کوپتاہے کہ پرنب مکھرجی لائف ٹائم کانگریسی ہیں اور ان کی شبیہ ایک سادہ مزاج،مگر گھاگ سیاست داں کی رہی ہے،انھوں نے اپنے اب تک کے طویل تر سیاسی کریئر میں کانگریس اور حکومتِ ہند میں مختلف بڑے چھوٹے مناصب پر رہتے ہوئے کام کیاہے اور عام طورپر ان کے کام کو سراہاگیاہے۔پرنب مکھرجی عام طورپر سنجیدہ رہنے والے ایک سلجھے ہوئے انسان نظر آتے ہیں ،ان کے فکر ونظر میں کشادگی اور زبان و بیان میں سادہ بیانی وشفافیت نظر آتی ہے،وہ صدرجمہوریہ بنائے تو گئے تھے کانگریس کے دورِ حکومت میں ،مگر 2014ء میں مودی اینڈ کمپنی کے بیچ پھنس گئے تھے،مگر لگ بھگ ساڑھے تین سال کا عرصہ وہ کسی طرح نکال لے گئے،ایسانہیں کہاجاسکتا کہ انھوں نے مودی حکومت میں انجام پانے والی عوام مخالف پالیسیوں اور اقدامات کی تائید کی یاان کی حوصلہ افزائی کی؛بلکہ انھوں نے موقع بہ موقع حکومت کو ٹوکااور اس کی غلطیوں کی نشان دہی بھی کی،البتہ جمہوریۂ ہند میں چوں کہ صدرِمملکت کی طاقت ہمیں معلوم ہے؛لہذازیادہ تر ان کی باتیں نقارخانے میں طوطی کی آواز ہی ثابت ہوئیں،البتہ انھوں نے صدرجمہوریہ رہتے ہوئے اپنی ذمے داریوں کواداکرنے کی بھرپور کوشش کی اوراپنے طورپر کسی کوتاہی کامظاہرہ نہیں کیا۔
کچھ دانش ورقسم کے لوگ پرنب داکودی جانے والی اس دعوت کوخوش آیندقراردے رہے ہیں،ان کاموقف یہ ہے کہ آرایس ایس نےOut Of The Boxسوچنے اور قدم اٹھانے کی پہل کی ہے،جو قابلِ تعریف ہے اوراس کے لیے آرایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت قابلِ تحسین ہیں،ابھی دوماہ قبل مارچ میں انھوں نے پونے کے ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ بی جے پی کی جانب سے’’ لانچ ‘‘کیاگیا ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کا جملہ دراصل ایک سیاسی نعرہ تھا،اس کاحقیقت سے کوئی لینادینانہیں ہے،انھوں نے اسی موقعے پر یہ بھی کہاتھا کہ ہم سب (موافقین و مخالفین )کومل کر ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینا چاہیے۔بی جے پی کے سینئر لیڈراور سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے معاون سدھیندرکلکرنی نے کل کے روزنامہ انڈین ایکسپریس میں اپنے کالم میں لکھاہے کہ کانگریس اور راہل گاندھی کو اس دعوت پر حیرت زدہ یا پریشان ہونے کی بجاے اسے تحسین کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور خود راہل کو بھی چاہیے کہ وہ آرایس ایس سربراہ کو کانگریس آفس یا اپنی رہایش گاہ پر مدعوکرکے ملک کے موجودہ حالات پر تبادلۂ خیال کریں ،مسائل سے نمٹنے کی تدبیروں پر غوروخوض کریں اور باہمی اختلاف کے باوجود ملک کی تعمیر و خوشحالی کی منصوبہ سازی میں مشارکت کامشترکہ عہد کریں۔آرایس ایس کے حوالے سے انھوں نے لکھاہے کہ اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاسی پارٹی نہیں ہے اوراس کا سیاست سے کوئی لینا دینانہیں ہے،اپنے اس دعوے کواسے عملی طورپر ثابت کرناچاہیے،حالاں کہ میرے خیال میں ایسا ممکن ہی نہیں ہے؛کیوں کہ آرایس ایس تو وہ تربیت گاہ ہے،جہاں سے ٹریننگ حاصل کرکے لوگ بی جے پی میں داخل ہوتے اور قومی سیاست میں وارد ہوتے ہیں،اس وقت بی جے پی کے صفِ اول و دوم کے بیشتر سیاست داں ناگپور سے’’فارغ التحصیل ‘‘ ہونے کے بعد ہی قومی سیاست میں عملی حصہ لے رہے ہیں اور اس کا علم پورے ملک کوہے،کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
سدھیندرکلکرنی کی بات یہاں تک توٹھیک ہے کہ باہم متخالف جماعتوں ،اداروں اور تنظیموں کوبھی کبھی کبھی ایک ساتھ بیٹھنے اور بات چیت کرنے کی پہل کرنی چاہیے،اس سے دوریاں ختم تونہیں ہوں گی،کم ضرور ہوں گی،تعلقات کی تلخی بھی کچھ ہلکی ہوگی،ایسابھی نہیں ہوتا کہ کسی تنظیم میں صرف خامی ہی خامی ہو،اس میں بعض خوبیاں بھی ہوسکتی ہیں،اگر مکالمہ ومذاکرہ کاماحول ہوگا،توایک دوسرے کی ان خوبیوں کواپنانے کی طرف توجہ ہوسکتی ہے۔اس وقت جو کل ہند سطح پر آرایس ایس سیاسی عروج کے فقیدالمثال دور سے گزررہاہے،اس کے پیچھے اس کا نہایت منظم تنظیمی ڈھانچہ،لاثانی اتحاد،اپنے مقصد کے حصول کے تئیں فدائیت و فنائیت کاقابلِ قدر جذبہ،رضاکارانہ طرزِعمل کا وفوراور باہمی تعاون کا عمومی مزاج کارفرماہے اور اس کی ان خصوصیات سے کوئی بھی انصاف پسند شخص انکار نہیں کرسکتا،جبکہ اس کے برخلاف کانگریس میں عام طورپر اشرافیہ طبقے کا بول بالا رہاہے،جس کی خودپسندی اور عجب و غرور و نرگسیت نے ہی اس جماعت کوموجودہ سٹیج پر پہنچایاہے،تنظیمی اعتبار سے آرایس ایس کی جو خوبیاں ہیں ،ان سے ملک کی ہرتنظیم چاہے وہ سیاسی یاسماجی،رفاہی و ثقافتی؛یکسرخالی ہے،آرایس ایس تووہ تنظیم ہے،جس نے اپنی تاسیس کے بعد لگ بھگ چالیس سال انڈرگراؤنڈرہ کر کام کیاہے،اس کے پس پشت عزائم جوبھی رہے ہوں، مگر یہ توبہر حال ایک حقیقت ہے کہ اس نے بے غرضی کے ساتھ صرف کام کواپنے پیشِ نظر رکھاہے، جبکہ ہم دوسری تنظیموں کودیکھتے ہیں کہ وہ کام کرنے سے زیادہ تشہیر وایڈورٹائزنگ کے پیچھے ہلکان ہوتی رہتی ہیں۔
بہر کیف پرنب مکھرجی کا آرایس ایس کے اجتماع میں جانا تقریباً یقینی ہے،سدھیندرکلکرنی نے اپنے کالم میں پرنب داکو لکھاہے کہ انھیں اس موقعے پر ملک کو درپیش تہذیبی ،ثقافتی و سماجی چیلنجز کوبیان کرتے ہوئے ان سے نمٹنے کے لیے تمام ہندوستانیوں کی ذمے داریوں کی تشریح کرنی چاہیے،انھیں بیان کرنا چاہیے کہ جمہوریت اور تہذیبی تنوع اس ملک کی ضرورت ہے اوراس کی بقاکے لیے لازمی عنصر بھی ہے،انھیں ملک کے اکثریت کے ایک طبقے میں اٹھنے والی نفرت و زہریلے نعروں کی لہر کے نقصانات کی نشان دہی کرنی چاہیے،انھیں بتانا چاہیے کہ ہندوستان کا روشن مستقبل ہندوراشٹر میں نہیں؛بلکہ اس کے جمہوری و مشترکہ کلچر کو مضبوط کرنے میں ہے،پرنب مکھرجی کا آرایس ایس کے اجلاس میں جانا قابلِ اعتراض ہرگزنہیں ہے، دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ وہاں کیاکہتے ہیں!

You may also like

Leave a Comment