Home قومی خبریں نظیراکبرآبادی کی روایت کے شاعرتھے ندافاضلی: پروفیسرعلی احمد فاطمی

نظیراکبرآبادی کی روایت کے شاعرتھے ندافاضلی: پروفیسرعلی احمد فاطمی

by قندیل

غالب انسٹی ٹیوٹ میں محمد یوسف رضااور محمد ثناء اللہ کی کتاب پر مذاکرہ
غالب انسٹی ٹیوٹ میں شام شہریاراں کے زیر عنوان محمد یوسف رضا کی کتاب ’’ندافاضلی: حیات وجہات‘‘ اور محمد شناء اللہ کی کتاب ’’ماریشس میں اردو زبان و ادب‘‘پر ایک پروقار مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس مذاکرے کی صدارت معروف ترقی پسند نقاد پروفیسر علی احمد فاطمی نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے کہاکہ ایسے وقت میں جب نئی نسل کتابوں سے دور ہوتی جارہی ہے اور تحقیق کا معیاربھی زیادہ حوصلہ بخش نہیں ہے یہ دو کتابیں بڑی امیدو حوصلہ پیدا کرتی ہیں۔ ماریشس میں اردو نہ صرف پڑھائی جاتی ہے بلکہ وہاں اعلیٰ درجے کا ادب بھی تخلیق ہورہاہے جس کا میں خود گواہ ہوں۔ ندافاضلی پر کام کرنا بظاہر آسان ہے لیکن اس اعتبار سے مشکل ہے کہ وہ ہمارے معاصر ہیں اور ان کا فن ابھی تنقید وتجزیے کے عمل سے گزرہاہے لیکن محمد یوسف رضااور محمد ثناء اللہ نے بڑی دل جمعی سے کتابیں تصنیف کی ہیں امید ہے کہ وہ مستقبل میں بھی ایسے ہی علمی نمونے پیش کرتے رہیں گے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سیدرضاحیدرنے کہاکہ آج کی شام اس لیے بھی بہت یادگار ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ میں پہلا مذاکرہ ندافاضلی کی ہی کتاب پر ہواتھااس وقت وہ بقید حیات تھے اور پورا مذاکرہ انہوں نے فون پر سنا تھا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ ہر اچھی کتاب پریہاں مذاکرے کا انعقاد ہو، خصوصاًنئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہمارا اولین فریضہ ہے۔ محمد یوسف رضااور محمد ثناء اللہ کی کتاب کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے یہاں ابھی سنجیدہ طالب علمو ںکی کمی نہیں ہے۔ ان دونوں مصنفین نے اپنے موضوع کو پوری طرح جذب کیاہے، اس کی تفہیم کی ہے اس کے بعد تصنیف کی منزل میں داخل ہوئے ہیں اور یہ تحقیق کی اولین شرطوں میں سے ہے۔ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کہا کہ میں نے دنیا کے مختلف ملکوں کی یونیورسٹیوں میں قائم شعبۂ اردو کادورہ کیاہے اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہاں کتابوں کی عدم دستیابی کے باوجود جو علمی و تحقیقی سفر جاری ہے وہ اردو کے مراکز میں لکھی جانے والی کتابوں کے مقابل رکھا جاسکتا ہے لیکن افسوس کہ ہم اس ادب کی طرف بہت کم نگاہ کرتے ہیں۔ ماریشس بھی اردوکی نئی بستیوں میں سے ہے، جس پر ثنااللہ نے بڑی محنت اور سنجیدگی سے کام کیا ہے۔ آئندہ میری کوشش ہوگی کہ اردو کی دوسری نئی بستیوں پر بھی کتابیں شائع کی جائیں تاکہ ہم اردو زبان و ادب کی صحیح سمت و رفتار سے آشنا ہوسکیں۔ محمد یوسف رضا کی کتاب ندافاضلی کی شخصیت اور تخلیقی جہتوں کو روشن کرتی ہے میں ان دونوں نوجوانوں کو مبارکباد پیش کرتاہوں۔ پروفیسر انورپاشا نے کہاکہ ان دونوں کتابوں کی جس خوبی نے مجھے سب سے زیادہ متاثرکیاوہ یہ ہے کہ ان میں صرف تعارف پیش نہیں کیاگیابلکہ تجزیہ بھی کیا گیا ہے اور اس تجزیے میں بڑی بصیرت شامل ہے۔ پروفیسر کوثر مظہری نے کہا کہ محمد یوسف رضا کے ایم۔فل کا موضوع ندا فاضلی کی شاعری تھی لیکن بعد میں میںنے انہیں مشورہ دیا کہ اگر وہ ان کی تمام تخلیقات کو شامل کرلیں تو علاحدہ سے یہ ایک اچھی کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے میرے مشورے پر عمل کیااور بڑی محنت سے ان کی تمام تخلیقات کا تعارف و تجزیہ پیش کیا ہے۔ ماریشس میں اردو اپنے موضوع پر پہلی کتاب ہے اس وجہ سے مصنف کو جن آزمائشوں سے گزرنا پڑاہوگااس کا مجھے اندازہ ہے لیکن اس بہانے ان کی ایسی تربیت ہوگئی ہے کہ اب مشکل سے مشکل موضوع سے وہ خائف نہیں ہوں گے۔ ڈکٹر محمد کاظم نے کہاکہ ندافاضلی ہمارے عہدکے نمائندہ شاعر ہیں انہوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور ہرجگہ اپنی انفرادیت کانقش چھوڑا ہے۔ انہوں نے نئے تجربے بھی کیے لیکن ان کی بنیادی شناخت نظم کے حوالے سے ہے۔ محمد یوسف رضانے ان کے تعلق سے ایک ایسی کتاب سپردقلم کی ہے جس کے وسیلے سے ہم ان کی شخصیت اور فن کو پوری طرح سمجھ سکتے ہیں۔ محمد ثناء اللہ کی کتاب کا موضوع بھی بہت اہم ہے اور انہوں نے بڑی محنت سے یہ کتاب لکھی ہے ماریشس میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے جب بھی گفتگو کی جائے گی ان کی کتاب کو حوالے کے طورپر پیش کیاجائے گا۔ڈاکٹر جاوید حسن نے کہاکہ میں ذاتی طورپر ندا فاضلی کی شاعری سے بہت متاثر ہوں لیکن ان کے تعلق سے جب کتاب تلاش کرتا تھا تو کوئی ایسی کتاب نہیں ملتی تھی جو پوری طرح اس موضوع کا حق ادا کرتی ہو۔ محمد یوسف رضا نے بڑی دلجمعی کے ساتھ ان کی تمام کتابوں کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے صرف اپنے موضوع کی وکالت نہیں کی بلکہ خامیوں اور کوتاہیوں کو بھی نشان زد کیا ہے، لیکن متانیت کے ساتھ۔محمد ثناء اللہ نے اپنے موضوع کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ ان دونوں مصنفین کی محنت اور ان کے اساتذہ کی رہنمائی نے ان کتابوں کو وہ اعتبار بخشاکہ آئندہ کام کرنے والے ان سے روشنی حاصل کریں گے۔ محمد یوسف رضانے مختصراً اپنی کتاب کا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ جب میں نے ندافاضلی کوپڑھنا شروع کیاتو مجھے محسوس ہواکہ ان کے تعلق سے کتابیں تو موجود ہیں لیکن ان سے پوری طرح بات بنتی نہیں مثلاً ان کی شاعری کے مسائل کیا ہیں ان کی فنی خوبی و اہمیت کیا ہے اس پر زیادہ گفتگو نہیں ہوئی۔ لہٰذا میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان پر ایسی کتاب تحریر کروں گاجو تمام مسائل سے بحث کرتی ہو۔ اس سفر میں میرے استاد پروفیسر کوثر مظہری صاحب نے میری بڑی رہنمائی کی۔ محمد ثناء اللہ نے کہااردو کی نئی بستیوں کے ادب سے ہماری واقفیت نہ کے برابر ہے لیکن جب ہم ان کے ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ ہمیں کسی طرح یہاں کے ادب سے کم تر معلوم نہیں ہوتے۔ یہ بات بہت لوگوں کے لیے حیران کن ہوسکتی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ اس تعلق سے کوئی کتاب ہمارے پاس موجود نہیں۔ لہٰذااپنے استادپروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کے مشورے سے کام کا آغاز کیا۔ ان کی رہنمائی سے یہ کتاب آپ کے سامنے ہے۔ اس مذاکرے کی نظامت کے دوران ڈاکٹر نورعین علی حق نے کہاکہ غالب انسٹی کی یہ خوبی ہے کہ وہ ہمیشہ نئی نسل کی تربیت اور حوصلہ افزائی کے لیے کوشاں رہتا ہے۔یہ دونوں کتابیں جن پر آج مذاکرہ منعقدہورہاہے اپنے موضوع اور پیش کش کے اعتبار سے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان دونو ںکتابوں میں ایک متجسس ذہن کام کرتاہوا نظر آتا ہے میں اپنی جانب سے دونوں نوجوان قلم کاروں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتاہوں۔ اس موقع پر طلبا،ریسرچ اسکالرس اور اردو زبان و ادب میں دل چسپی رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد موجود تھی۔
تصویرمیں دائیں سے: ڈاکٹر نورعین علی حق،ڈاکٹر سید رضاحیدر،محمد یوسف رضا،پروفیسر کوثر مظہری،پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین، پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر انورپاشا،ڈاکٹر جاوید حسن،محمدثناء اللہ ، ڈاکٹر محمد کاظم

You may also like

Leave a Comment