Home خاص کالم میرا عشق 

میرا عشق 

by قندیل

 

سیدبدرسعید

مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا تھا کہ میں اپنے والد سے عشق کرنے لگا ہوں ۔ اس عشق کی بنیاد میری والدہ نے رکھی تھی ۔ میں بہت چھوٹا تھا ، یہ وہی عمر تھی جب بچے والدہ کے قریب ہوتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ ماں جی اکثر پوچھا کرتی تھیں کہ تمہیں سب سے زیادہ پیار کس سے ہے ۔ میں گھر والوں کے نام لینے لگتا اور وہ کہتیں اس سے زیادہ پیار کس سے ہے ؟ میں پھر کسی اور کا نام لے لیتا ۔ اور پھر آخر میں کہتا ۔ سب سے زیادہ پیار آپ سے ہے ۔ ماں جی کا چہرہ جیسے بجھ سا جاتا ۔ وہ پھر سوال کرتیں ۔مجھ سے تو پیار ہے لیکن مجھ سے زیادہ پیار کس سے کرتے ہو ؟ میں کہتا نہیں سب سے زیادہ پیار آپ سے ہی ہے تو وہ کہتیں :مجھے پتا ہے سب سے زیادہ پیار تو اپنے پاپا سے ہی کرتے ہو ۔ پھر وہ بتاتیں کہ دیکھو پاپا سارا دن دفترمیں کام کرتے ہیں تاکہ آپ کے لئے فلاں فلاں کھلونے لائیں ۔ اتنی محنت آپ کے لئے ہی تو کرتے ہیں ۔ دیکھو باہر کتنی گرمی ہے لیکن وہ پھر بھی اپنے بیٹے کے لئے دفتر کام کر رہے ہیں ۔ یہ وہ پہلا احساس تھا جس کے بعد مجھے اپنے والد سے عشق ہونے لگا ۔ ماں جی ہر مرحلے پر مجھے احساس دلاتی رہیں کہ میرے والد اگر اس وقت کس وجہ سے میرے پاس نہیں ہیں تو اس کی وجہ ان کا مجھ سے پیار ہے ۔ میرے والد سول سروس میں تھے لیکن میں نے ہمیشہ انہیں پارٹ ٹائم ملازمت کرتے دیکھا ۔

دوسری جانب مجھے نہیں یاد کہ میں سکول لائف میں کسی دن پچھلے دن والا جومیٹری باکس لے کر گیا ہوں ۔ میں وہ شہزادہ تھا جو آج کی پنسل ، ربڑ اور شاپنر یا تو گما کر گھر آتا تھا یا کسی دوست کو دان کر دیتا تھا ۔ مجھے ہر روز نئی پنسل درکار ہوتی تھی ۔ ابا جی ہر ماہ تنخواہ ملنے پر پنسل ، ربڑ اور شاپنرز کے ڈبے خرید لاتے ۔ میرے لئے ہوم ورک کے لئے بھی گھر میں دو تین طرح کے کرسی ، میز اور بنچ ڈیسک موجود ہوتے تھے ۔ یہ سلسلہ میں نے ابا جی کی ریٹائرمنٹ تک دیکھا ۔ مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ ایف سی کالج کی بھاری فیس کے لئے ابا جی جون جولائی کی تپتی دوپہر میں لنچ بریک کے دوران دفتر سے کئی کلومیٹر دور جا کر ایک ادارے میں لیکچر دیا کرتے تھے ۔ انہوں نے دوپہر میں کھانا کھانا چھوڑ دیا تھا ۔ ان کے یہ لیکچر پارٹ ٹائم ملازمت کے علاوہ تھے ۔ پاکستان ٹائمز کے زمانے میں انہوں نے صبح 8 سے سے 4 کی ملازمت کے بعد سردیوں میں شام 6 سے رات 1 بجے کی دوسری ملازمت بھی کی ۔ ان کی یہ ساری جدوجہد ماں جی کسی نہ کسی بہانے ہمارے کانوں میں انڈیلتی رہیں ۔ شاید اس احساس کے تحت بھی کہ کہیں ان کا کم وقت دینا ہمیں ان سے متنفر نہ کر دے ۔ دوسری جانب یہ سوچ کر بھی حیرت ہوتی ہے کہ ہمیں کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ ابا جی ہمیں کم وقت دیتے ہیں ۔ ملازمت کے بعد ان کی تمام تر توجہ کا مرکز ہم ہوا کرتے تھے ۔ صبح قرآن پاک پڑھانے سے لے کر دوران حفظ شدید بارش میں بھی کچھ دیر انتظار کئے بنا بھیگتے ہوئے مجھے لینے آنا ان کی عادت تھی ۔اس میں دو رائے نہیں کہ مجھے اس دنیا نے جو عزت دی اس کی وجہ میرا اپنے والد سے عشق ہی بنا ۔ جب آپ کو کسی سے عشق ہو جائے تو پھر اس کی کوئی بات رد نہیں ہوتی ۔ مجھ جیسے آوارہ مزاج لڑکے کے لئے ابا جی کی نصیحتوں کو یاد رکھنے کی وجہ بھی یہی عشق تھا ۔

انہوں نے ایک بار کہا کہ: بیٹا میں نے اپنی زندگی ایسے گزاری ہے کہ اگر میرے گھر کا دروازہ کھٹکٹھایا جائے تو میرا دل نہیں دھڑکتا اور میں خود دروازے پر جاتا ہوں ، کوشش کرنا تم بھی ایسی زندگی گزارو ۔ اس نصیحت کے بعد سے آج تک میں نے کسی سے یا تو ادھار نہیں لیا یا پھر اگر کبھی لیا ہو تو ایک دو دن سے زیادہ نہیں رکھا ۔ ہاتھ پھیلانے کی بجائے ضروریات کم کر کے عزت سے جی لینے کا سبق انہوں نے سکھایا تھا ۔ انہوں نے ہی کہا تھا کہ اگر تعلیم تمہیں اچھا انسان نہ بنا سکے تو پھر ان ڈگریوں کا کوئی فائدہ نہیں ، روزگار تو ان پڑھ بھی کما لیتا ہے اور تکبر جاہل کی نشانی ہوتی ہے۔ ان کی اس بات نے مجھ سے عہدوں کا تکبر ، غرور یا دولت کی کمی زیادتی کا فرق چھین لیا ۔ مجھے ڈھابوں اور چائے خانوں سے محبت ہونے لگی ۔ آج جب میں نوجوانوں کو اپنے والدین اور خصوصا باپ سے متنفر دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ اس کی وجہ شاید کی ان والدہ بھی ہوتی ہیں ۔ ہمارے یہاں خواتین عموما بچوں کو والد سے ڈرا کر اپنی بات منواتی ہیں ۔ "آج تمہارے ابو آ جائیں تو انہیں بتائوں گی” جسے جملے بچوں کو باپ سے متنفر کر دیتے ہیں اور اس کا خمیازہ بعد میں صرف باپ ہی نہیں ماں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔ باپ بچوں کے لئے ملازمت کرتا رہتا ہے اور جب اسے احساس ہوتا ہے تب تک اس کی اپنی اولاد اس سے متنفر ہو چکی ہوتی ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ خواتین کا فرض ہوتا ہے کہ وہ بچوں کو احساس دلائیں کہ ان کا باپ اگر کسی وجہ سے ان کو وقت نہیں دے پاتا تو اس کی وجہ وہ بچے ہی ہیں۔ سچ کہوں تو شاید مجھے اتنی عزت نہ مل پاتی اگر مجھے اپنے والد سے عشق نہ ہوا ہوتا ۔ یہ عشق برکتوں اور کامیابیوں کی ضمانت بنتا ہے ، کئی مشکل مرحلے اسی کی برکت سے طے پاتے ہیں ۔ میرے اپنے والد سے عشق کی بنیاد میری والدہ نے رکھی تھی ـ

You may also like

Leave a Comment