Home اسلامیات معاشرے کو امن کاگہوارہ بنانے میں اسلام کا کردار

معاشرے کو امن کاگہوارہ بنانے میں اسلام کا کردار

by قندیل


دین ِاسلام ان کاموں سے روکتا ہے جو معاشرتی امن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور وہ کام کرنے کا حکم دیتا ہے جن سے معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنے ،جیسے کہ قرآن پاک میں اس کا اصول بتایا گیا ہے،اگرہم آج کل کے دَورمیں رب تبارک و تعالٰی کے حکم کو پیش ِنظر رکھیں توہمارامعاشرہ امن کاگہوارہ بن سکتاہے کیونکہ ہمارے ہاں لڑائی جھگڑے اورفسادات ہوتے ہی اسی وجہ سے ہیں کہ جب کسی کوکوئی اطلاع دی جاتی ہے تووہ اس کی تصدیق نہیں کرتابلکہ فوراًغصہ میں آجاتاہے اوروہ کام کربیٹھتاہے جس کے بعد ساری زندگی پریشان رہتاہے ۔اسی طرح ہمارے ہاں خاندانی طورپرجوجھگڑے ہوتے ہیں وہ اسی نَوعیَّت کے ہوتے ہیں ۔چاہے وہ ساس بہوکامعاملہ ہویاشوہروبیوی کاکہ تصدیق نہیں کی جاتی اورلڑائیاں شروع کردی جاتی ہیں ۔ قرآن پاک نے اس کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے,
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا: اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو۔ ارشاد فرمایا:اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے جس میں کسی کی شکایت ہو تو صرف اس کی بات پر اعتماد نہ کرو بلکہ تحقیق کرلو کہ وہ صحیح ہے یا نہیں کیونکہ جو فسق سے نہیں بچا وہ جھوٹ سے بھی نہ بچے گا تاکہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر ان کی براء ت ظاہر ہونے کی صورت میں تمہیں اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔
مفسرین نے اس آیت کا شانِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ولید بن عقبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو بنی مُصطلق سے صدقات وصول کرنے بھیجا ،زمانۂ جاہلیَّت میں اِن کے اور اُن کے درمیان دشمنی تھی، جب حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اُن کے علاقے کے قریب پہنچے اور اُن لوگوں کوخبر ہوئی تواس خیال سے کہ حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بھیجے ہوئے ہیں ، بہت سے لوگ ان کی تعظیم کے لئے ان کا استقبال کرنے آئے ، لیکن حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے گمان کیا کہ یہ پرانی دشمنی کی وجہ سے مجھے قتل کرنے آرہے ہیں ، یہ خیال کرکے حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ واپس ہوگئے اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ سے (اپنے گمان کے مطابق) عرض کردیا کہ حضور! ان لوگوں نے صدقہ دینے سے منع کردیا اور مجھے قتل کرنے کے درپے ہوگئے ہیں ۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو حالات کی تحقیق کے لئے بھیجا،حضرت خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیکھا کہ وہ لوگ اذانیں کہتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں اور ان لوگوں نے صدقات پیش کردیئے۔ حضرت خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ یہ صدقات لے کر خدمت ِاَقدس میں حاضر ہوئے اور واقعہ عرض کیا، اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔(خازن،الحجرات49، الآیۃ6، مدارک،الحجرات،تحت الآیۃ:6،ص1152، روح البیان، الحجرات، تحت الآیۃ:,
*نوٹ*
حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ صحابی ہیں اور صحابہ میں کوئی فاسق نہیں :
یاد رہے کہ اس آیت میں بطورِ خاص حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو فاسق نہیں کہا گیا بلکہ ایک اسلامی قانون بیان کیا گیا ہے لہٰذا اس آیت کی بنا پر انہیں فاسق نہیں کہہ سکتے، جیسا کہ علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت کے نزول کا سبب اگرچہ حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا واقعہ ہے لیکن فاسق سے مرادبطورِ خاص حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نہیں ہیں کیونکہ آپ فاسق نہیں بلکہ عظیم صحابی ہیں ۔
صاوی، الحجرات، تحت الآیۃ، 6
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (اِس آیت کے پیش ِنظر کسی شخص کا) حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ پر فاسق کا اطلاق کرنابڑی خطا ہے کیونکہ انہوں نے وہم اور گمان کیا جس میں خطا کر گئے اور خطا کرنے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا۔( تفسیرکبیر، الحجرات، تحت الآیۃ:, 6
اس آیت سے چار باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… ایک شخص اگر عادل ہو تو اس کی خبر معتبر ہے۔
(2)… حاکم یک طرفہ بیان پر فیصلہ نہ کرے بلکہ فریقَین کا بیان سن کر ہی کوئی فیصلہ کرے۔
(3)… غیبت کرنے والے اور چغل خور کی بات ہر گز قبول نہ کی جائے۔
(4)… کسی کام میں جلدی نہ کی جائے ورنہ بعد میں پچھتانا پڑسکتا ہے۔ اسلام میں انسانی عظمت کا احترام وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ:اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی۔ یعنی انسان کوعقل ، علم، قوت ِ گویائی، پاکیزہ صورت، مُعْتَدَل قد و قامت عطا کئے گئے ، جانوروں سے لے کر جہازوں تک کی سواریاں عطا فرمائیں ، نیز اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں دنیا و آخرت سنوارنے کی تدبیریں سکھائیں اور تمام چیزوں پر غلبہ عطا فرمایا، قوت ِ تسخیر بخشی کہ آج انسان زمین اور اس سے نیچے یونہی ہواؤں بلکہ چاند تک کو تسخیر کرچکا ہے اور مریخ تک کی معلومات حاصل کرچکا ہے، بَحر و بَر میں انسان نے اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں ۔ یہ چند ایک مثالیں ہیں ورنہ اس کے علاوہ لاکھوں چیزیں اولادِ آدم کو عطا فرما کر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے عزت دی ہے اور انسان کو بقیہ تمام مخلوقات سے افضل بنایا ہے۔
وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠(القرآن، سورہ بنی اسرائیل 17 ،آیت 70) ترجمہ:اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بہت سی برتری دی۔ مذہب اسلام تمام انسانوں کے ساتھ، بھائی چارہ، برابری، اور سماجی، و معاشی انصاف کے ساتھ تکریم انسانیت اور احترام آدمیت جیسی اعلیٰ قدروں پر زور دیتا ہے-لیکن افسوس آج ہمارے ملک میں اقتدار میں رہنے والے سخت گیر عناصر، مسلمانوں، دلتوں، کمزوروں کے ساتھ جارہانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں، عدل وانصاف کا خون کیا جارہا ہے-مختصر یہ کہ انسانیت کی عزت کے بجائے انسانیت کی تذلیل کی جارہی ہے اور موب لنچنگ جیسے خطر ناک طریقوں سے لوگوں خاص کر مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے،
ہجومی قتل کا بڑھتا گراف، ذمہ دار کون؟
اللہ رب ا لعز ت نے دنیا تخلیق فر مائی اور انسانوں کو اشرف ا لمخلو قات کا شرف بخشااور علم و دماغ جیسی نعمت بھی عطا فر مائی( یہ رب کریم کا احسان عظیم ہے) علم اور دماغ سے انسان نے ترقی کی سیڑ ھیاں طے کرتے کرتے مریخ کا سفر ،چاند پر کمند اور ان گنت نئی نئی ایجاد کرتے جا رہا ہے جس میں فائدے اور نقصانات کی ایجاد بھی شامل ہے۔ جہاں آرام دہ اورتیز رفتارسفر کے لئے ہوائی جہاز بنائے، وہیں اویکس (Ovix)میراج29 اور ڈرون(Drone) جیسے حملہ آور بمبار طیار ے بھی بنا کر انسانیت پر ظلم کے پہاڑ گرا کر ساری حدیں پار کر دی ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں مہلک ہتھیا روں کی اتنی مقدار(Quantity) مو جود ہے کہ پوری دنیا 29بار ان ہتھیا روں سے نیست ونا بود ہو سکتی ہے ،اس میں روز بروز اضا فہ ہی ہو رہا ہے اللہ رب ا لعزت نے انسانوں کو زینہ بزینہ ترقی دینے کا وعدہ فر مایا۔( القرآن، سورہ نحل16،آیت8) تر جمہ : اسی نے گھوڑے اور خچر پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمھاری رونق بنیں۔ وہ اور بہت سی چیزیں(تمھارے فائدے کے لیے) پیدا کرتا ہے جن کا تمھیں علم تک نہیں ہے۔ رب تبارک و تعا لیٰ نے انسانوں کو بتد ریج، رفتہ رفتہ، زینہ بزینہ، در جہ بدر جہ، ترقی دینے کا وعدہ فر مایا اللہ ہی کی دی ہو ئی نعمت علم وعقل سے انسان نے ایسی ایجادات کی ہیں جن سے فائدے ہیں لیکن یقیناًاس میں بے شمار نقصا نات بھی ہیں۔
بڑ ھتے ہوئے جرائم کا ذمہ دارسوشل میڈیااورحکومت: دور جدید کی حیرت انگیز ایجاد مو بائل ہے جو کہ موجودہ زمانہ کی ناگزیر چیز بن گئی ہے امیر، غریب ،بچہ، جوان، بوڑھا، کسان سے لے کر پائلٹ تک اس کا گر ویدہ بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ اس کا غلام بن گیا ہے، نو جوان نسل کی بر بادی میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے جدید مواصلاتی نظام نے جہاں انقلاب بر پا کیا ہے وہیں سیکڑوں مسائل بھی پیدا کر دیئے ہیں جن کا حل ڈھونڈنا انتہائی ضرو ری ہے اگر ان مسائل کا حل ڈھونڈھانہ گیا تو آگے اور زیادہ تباہی آئے گی اور اس سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔آج واٹس ایپ، انسٹا گرام، یو ٹیوب، ٹیلیگرام وغیرہ وغیرہ کے ذریعہ جہاں اپنی بات دوسروں تک جلد پہچانا بہت آسان اور فائدے مند ہے،وہیں یہ ذرائع انسانی موتوں کے بھی ذمہ دار ہیں اسی سے حضرت انسان جو اشرف المخلوق ہے وہ قدم قدم پر لمحہ بہ لمحہ جھوٹی خبریں گندی چیزیں پھیلا رہا ہے، اسی میں موب لنچنگ جیسا خطر ناک معا ملہ ہے اس میں حکو مت کی بھی شہ ہے جب سے سنٹرل اور صوبوں میں بی جی پی کی حکو متیں بنی ہیں پورے ملک میں اقلیتوں پر طرح طرح کے بہانوں سے حملہ کرکے جا ن سے مار دینا ایک فیشن بن گیا ہے ڈھٹا ئی ،بے شر می، بے خوفی،ہٹ دھر می کا یہ حال ہے کہ مار نے کے بعد خود مجرمین ویڈیو بناکرسوشل میڈیا پر جاری کرتے ہیں تاکہ پورے بھارت کو ڈرا یا جاسکے۔ ان کو یہ زعم پیدا ہو گیا ہے ’’سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کا ہے کا‘‘قا نون کے رکھ والے ان کے چہیتے ہیں ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے گائے کے نام پر، بچہ چوری کے نام پر ،ٹرینوں میں سیٹ کے جھگڑے میں طرح سے مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے ابتک موب لنچنگ (بھیڑ کے ذریعہ جان مارنا)میں 100 سے زیادہ موتیں ہو چکی ہیں جس میں80 فیصد مسلمان ہیں۔سوشل میڈیانے تو ساری حدیں پار کر دی ہیں کوئی خبر آئی یا پھر غلط خبر ہی کیوں نہ ہو فوراً بھیجنا(Share) کر نا دل و ماغ سے بغیر سوچے سمجھے ایک سکنڈ بھی ضائع کئے بغیر ڈاکیہ کا کام کر نے لگتے ہیں ۔واضع رہے ڈاکیئے کا کام ہے جو چیز اسے پہچا نے کے لیے دی جائے وہ اس چیز کو اسی کو دے جسے دینا ہے نہ کہ وہ ساری دنیا کو بانٹتا پھرے کو ئی خبر کوئی اطلاع کسی بھی انسان کے پاس آئی تو سب سے پہلے اطلاع پانے والے انسان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہ پتہ لگا ئے کی یہ اطلا ع (information ) صحیح ہے یا جھوٹ ہے اس کی تحقیق کرے اگر غلط ہے تو سب سے پہلے اطلاع بھیجنے والے سے بات کرے اور سختی سے منع کرے کہ آئندہ قطعی ہم تک جھوٹی باتیں نہ بھیجیں۔حضرت سلیمان علیہ ا لسلام کے پاس جب ان کا پرندہ ھُدْھُدْ جو انکی خد مت پر معمور تھا اطلاع لا یا جس کا ذکر قرآن مجید میں اسطرح ہے۔ ھُدْ ھُدْ پرندہ بھی خبروں کو بیان کر نے میں اصول وضوابط کا پابند تھا چنانچہ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے کہا: ( القر آن، سورہ نمل27،آیت22) ترجمہ: میں سبا کے متعلق ایک یقینی خبر لایاہوں۔ یہا ں ھُدْ ھُدْ نے یہ نہیں کہا کہ میں نے یہ سنا ہے یا ایسا پڑھا ہے یا مجھے ایسی خبر پہنچی ہے۔ اسی طرح ھُدْ ھُدْ کی خبر کے تئیں حضرت سلیمان علیہ ا لسلام کا موقف بھی آج کے لوگوں یا ہماری طرح نہیں تھا کہ کوئی خبر ملنے کے بعد فورً اسے آگے ( Forward ) کردیں یا اسے (copy paste) کر نے لگیں بلکہ ھُدْھد کی خبر سننے کے بعد حضرت سلیمان علیہ ا لسلام نے فر مایا:( القرآن،سورہ نمل27،آیت27)سلیمان (علیہ ا لسلام) نے کہا’’ ابھی ہم دیکھے لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔ قر آن کریم سے یہ معلوم ہوا کہ خبر کی تحقیق کرنا اور اس کی سچائی یا جھوٹ کا پتہ لگانا یہ انبیائے کرام کا طریقہ رہا ہے۔ اس لیے ہم کو آپ کو بھی چا ہیے کوئی بھی ایسی خبر ادھر ادھر نہ پھیلائیں جس کی سچائی کا علم اور یقین آپ کو نہ ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ خبر سچ بھی ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خبر اس پیغام کو دیکھے سمجھے کہ اس پیغام(Massage) کو دوسروں کو پہنچا نا فائدہ مند ہے یا نہیں، کہیں اس خبر سے فتنہ فساد نہ پھیل جائے خوب اچھی طرح سوچے۔سوشل میڈیا میں جو پیغام آتے ہیں اس کے یوزر زیا دہ تر جلد باز ہو تے ہیں ادھر میسیج آیا اور لگے ادھر فاروڈ کرنے سب سے پہلے بھیج کراپنے کو بڑا تیس مار سمجھتے ہیں اور اس کا کر یڈٹ اپنے نام کر نا چاہتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ یہ پیغام آن کے آن سکنڈوں میں تمام دنیا میں پہنچ جا تا ہے اور پھر یہی نہیں جن تک یہ پیغام پہنچتا ہے وہ بھی دوسروں تک پہنچانے میں ذر ادیر نہیں لگا تے دوسروں تک آگے(forward) کر نے میں اور آپ کا بھیجا ہوا پیغام سیکڑوں، ہزا روں لو گوں تک پہنچ جاتا ہے پھر اس جھوٹی خبر سے کتنے مسائل پیدا ہو رہے ہیں کیا کبھی آپ نے سو چا ہے، کتنا گناہ ہو تا ہے معلوم ہے آپ کو ذرا سوچئے ،قرآن کریم میں رب
ذو الجلال کا فر مان ہے۔ (القر آن ، سورہ نمل27،آیت105 ) تر جمہ: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی وہی جھو ٹے ہیں،(کنز الایمان) ایک جگہ ہے لعنۃ اللہ علی الکذ بین۔ جھو ٹوں پر اللہ کی لعنت ہے ، جس پر اللہ کی لعنت ہو گی وہ کیسے فلاح پائے گا۔ حدیث پاک ہے۔یحیٰ بن یحیٰ، سلیمان تیمی، ابو عثمان ہدی ، کی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر مایا: آ دمی کے لیے جھو ٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے( جس کی بنا پر وہ جھوٹا قرار دیاجاسکتا ہے) کہ ہر سنی ہوئی بات بیان کردے۔(صحیح مسلم،باب ہر سنی ہوئی بات بیان کر نے کی مما نعت ،حدیث 9)دوسری حدیث حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ آپ نے فر مایا:آدمی کے جھو ٹے ہونے میں یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے۔ ( صحیح مسلم، حدیث 11،) جھوٹ اتنا بڑا گناہ ہے کہ ربِ ذوالجلال کی اس پر لعنت ہے۔ جھوٹ ایک ایسا متعدی مرض ہے و ائرس(virus ) زہریلا مادہ کی طرح تیزی سے پھیلتا ہے جھوٹ بھی سائبر کرائم کی طرح ایک جرم ہے ،واٹس ایپ کے جھوٹے میسیجوں نے کتنے معصوموں کی جان لے لی ہے سوشل(social media) کے ذریعہ جھوٹ کو بری طرح سے بڑھا وا مل رہاہے آپ دیکھیں جھوٹے میسیج بھیج کر بھیڑ اکٹھا کرنا ماب لنچنگ ، جنو نی بھیڑ کے ذریعہ کہیں بچہ چوری کے نام پر، کہیں گؤ ہتھیا کے بہانے، کہیں گائے کے گوشت کے زیا دہ تر مسلمانوں کو مارا جارہا ہے حکو متیں ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کے مصداق اندھی بہری بنی ہوئی ہیں یہ ظلم و نا انصافی اب ساری حدیں پار کر گئی ہے یہ ہمارے ملک ہندوستان کی گنگا جمنی تہذ یب کو بر باد کر رہی ہے جو سب کے لیے نقصان ہو گا ۔حالیہ واقعہ ہا پوڑ ضلع کے پلکھوا علاقے کے بچھیڑا گاؤں میں ایک مسلمان اپنے کھیت میں گھسی گائے کو کھیت سے با ہر کر رہا تھا اور کسی نے فوٹو لیکر واٹس ایپ کر دیا کہ گائے کی تسکری کر رہا ہے آن واحد میں بھیڑ جمع ہو گئی اور قا سم اور اس کے ساتھی کو مار مار کر شدید زخمی کر دیا قاسم کی موت کھیت میں ہی ہوگئی اور دوسرا ساتھی سیریس ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ہندو دہشت گردی کا، ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ جرائم کا بڑھتا گراف ارباب حکو مت کے لیے چیلنج ہے۔ مو بائل چلانے والوں کو بہت احتیاط اور سوچ سمجھ کر پیغام فار وڈ کر نا چاہیئے کہ اس غلط خبر سے سماج پر کیا اثر ہو گا؟ افسوس کوئی سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے جس کے ہاتھ میں دیکھوموبائل چیٹنگ میں لگا ہے بغیر سوچے سمجھے میسیج بھیجنے میں لگا ہے ضرورت ہے کہ لوگ ایسے فالتو کا سے باز آئیں اور دوسروں کو بھی سنجید گی سے، پیار سے سمجھائیں گناہ بے لذت کی فہرست بہت لمبی ہے جھوٹ پھیلا نا، جھوٹی گواہی دینا، فحش گو ئی، فحش گندی تصویریں دیکھنا یہ سب گناہِ کبیرہ ہیں ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فر مایا: جھوٹ گنا ہوں کی جڑ ہے اور جھوٹ گناہوں کی کھیتی کو ہرا بھرا کر دیتا ہے، اتنے بڑے گناہ کر نے والے کو کیا ملتا ہے؟ کچھ نہیں ایسے ہی گناہ کو بے لذت گناہ کہا جاتا ہے۔۔ خون کا قطرہ نہ آستین پہ ہے، نہ دھبہ زیر دامن میں۔ آپ کی حر کت سے کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھری۔ اللہ ہم سب کو بچنے کی تو فیق عطا فر مائے آ مین ثم آمین_
( Mob.:09386379632) e-mail: [email protected] حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی اما م و خطیب مسجد ھا جرہ رضویہ اسلام نگر کپا لی وایا مانگو جمشید پور پن کوڈ 831020 جھاڑ کھنڈ

You may also like

Leave a Comment