Home خاص کالم مسٹر راہل گاندھی! میں آپ سے مخاطب ہوں

مسٹر راہل گاندھی! میں آپ سے مخاطب ہوں

by قندیل


مشرّف عالم ذوقی
مسٹر گاندھی!جب آپ نے مسلم دانشوروں سے ملنے کا فرمان جاری کیا،تو مجھے احساس ہوا کہ کانگریس پھر سے وہی غلطی کرنے جا رہی ہے ،جو غلطی آزادی کے بعد سے مسلسل کرتی آئی ہے،مسلمانوں کو تو کچھ حاصل نہیں ہوا؛ لیکن آپ کے مسلمان مسلمان کھیل سے آر ایس ایس کو اقتدار میں آنے کا موقع مل گیا اور بہت حد تک اکثریت یہ مان بیٹھی کہ کانگریس صرف مسلمانوں کے بارے میں سوچتی ہے،جبکہ آپ بھی جانتے ہیں مسٹر گاندھی کہ ایسا نہیں ہے،سچر کمیٹی،رنگناتھ مشرا کمیشن صرف کاغذات کے پلندے تک محدود رہے،اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں سے ہمدردی دراصل مسلمانوں کے لیے اس ملک میں سلو پوائزن ثابت ہوئی،نفرت کا کاروبار بڑھا،مسلمانوں کے مخصوص لباس کو بھی حقارت سے دیکھا گیا،گودھرا کے قاتلوں کو اقتدار ملا، تو تماشے شروع ہو گئے؛لیکن اس تماشے کے پیچھے آپ تھے،نہ آپ مسلمانوں کو ووٹ بینک بناتے، نہ مسلمان سیاسی پارٹیوں کے لیے آسان شکار ثابت ہوتے،مسٹر گاندھی! انہوں نے آپ کے کھیل کو بدل دیا،کھیل کی اس نئی پاری سے اٹل بہاری باجپایی کی ٹیم بھی واقف نہیں تھی،آپ مسلمان مسلمان چلاتے رہے، انہوں نے بدلے میں ہندو ہندو چلانا شروع کردیا،ملک کے سو کروڑ ہندوؤں کو ایک جٹ کرنا اور انتخاب میں فتح حاصل کرنا زیادہ آسان تھا۔(مسلمانوں سے ملاقات کا کام آپ کے جاوید ندیم جیسے لوگ بہتر انجام دے سکتے ہیں)
. اس میں شک نہیں کہ جب موت کے آہنی پنجے بے رحمی سے ہماری طرف بڑھ رہے تھے، ایک اچھے متبادل کے طور پر ہم نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے امید لگائے بیٹھے تھے،آزادی کے ان ستر برسوں میں سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں کو بھی دیکھا ہے کہ جب بھی موقع ملا، ان پارٹیوں نے بھی سیکولرزم کے لباس کی دھجیاں بکھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی؛لیکن مودی حکومت بالخصوص مسلمانوں کے لیے موت بن کر سامنے آئے،اخلاق،پہلو خان سے لے کر میڈیا میں مسلمانوں کی رسوائی تک لمبی کہانی ہے مسٹر گاندھی، جسے سنانے،بتانے سے کچھ حاصل نہیں،یہ آپ بھی جانتے ہیں اور اب ساری دنیا جانتی ہے کہ مودی حکومت مسلمانوں کے ساتھ کیسا کھیل کھیل رہی ہے،صرف ایک مثال کافی ہے کہ ممتا بنرجی نے اگست سے ’’بی جے پی بھارت چھوڑو !‘‘تحریک کا اعلان کیا ہے،انگریزوں بھارت چھوڑو کی کہانی ابھی بھی دھندلی نہیں ہوئی کہ بی جے پی بھارت چھوڑو کا اعلان سامنے آ گیا،اس بات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے مسٹر گاندھی کہ مودی،آر ایس ایس اور بی جے پی اب آہستہ آہستہ ہندوستان کے لیے انگریزوں سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں،یہ پارٹی آگے بھی حکومت کرتی ہے ،تو آئین، جمہوریت، گنگا جمنی تہذیب، اتحاد،امن، محبت،اخوت،بھائی چارہ ؛ سب کا جنازہ اٹھ جائے گا،رواداری،میل محبت کے پرخچے اڑ جائیں گے،ایک جیسی فکر رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کے اتحاد سے امید قائم ہوئی کہ آپ سنجیدگی سے ملک کے مسائل پر غور کر رہے ہیں،تحریکِ عدمِ اعتماد کا فیصلہ پہلے دن سے معلوم تھا؛ لیکن اس تحریک سے مودی کے پانچ برسوں کا کچا چٹھا سامنے آنے کی امید قائم ہوئی تھی،تقریر سے پہلے آپکا مودی سے گلے ملنا بچکانہ حرکت ضرور تھی؛ لیکن پھر آپ کی تقریر نے مردہ دلوں میں امید جگانے کا کام بھی کیا تھا مگر…کیا یہ سب کچھ مذاق تھا مسٹر گاندھی؟ پانچ برسوں سے ملک میں ہونے والا دہشت اور موت کا کھیل صرف ایک مذاق تھاکہ آپ نے آنکھ کے ایک اشارے سے مودی کی مخالفت میں چلنے والی شاندار مہم کو مودی کی حمایت میں کر دیا؟مسٹر گاندھی! آپ اس کے نقصان سے واقف نہیں ،مگر حقیقت ہے کہ پانچ برسوں کے ہجومی تشددکے واقعات ، ہلاکت کے افسانے، آپ کے ایک آنکھ کے اشارے سے مذاق بن گئے۔
مسٹر گاندھی!عام مسلمانوں کی مشکل یہ ہے کہ سیاست کے بدلتے منظرنامے میں وہ کس کا ساتھ دیں اور کس کے ساتھ نہ جائیں،یہ سمجھ نہیں آتا؛ کیونکہ برسوں کی بدلتی فضا میں تمام پارٹیوں کو وہ نہ صرف آزما چکے ہیں؛ بلکہ اس حقیقت کو بھی جان گئے ہیں کہ یہ پارٹیاں صرف اور صرف مسلمانوں کا سیاسی استحصال کرتی رہی ہیں۔
دیکھا جائے تو ہندوستانی مسلمانوں کا سچ یہ ہے کہ ہر سطح پر وہ آزادی اور تحفظ چاہتا ہے، وہ جانتا ہے کہ سب سے زیادہ دنگے کانگریس کی حکومت میں ہوئے، بابری مسجد میں مورتیاں راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں رکھی گئیں، بابری مسجد کے فیصلے کو لے کر بھی مسلمانوں کو بیوقوف بنایا گیا، فرضی انکاؤنٹر سے لیکر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری تک مسلمان کانگریس کے اصلی چہرے کی شناخت کرچکے ہیں، اس کے باوجود مسلمانوں کو لگتاہے کہ مسلمان کانگریس کے دور اقتدار میں ہی محفوظ ہیں۔
ملک ایک بار پھر بارود کے دہانے پر ہے،ایک زمانہ تھا جب تقسیم کی وکالت کرتے ہوئے شیخ عبداللہ نے کہا تھا کہ جو قوم مسلمانوں کے ہاتھ سے ایک گلاس پانی نہیں پیتی ،وہ مسلمانوں کو ان کا حق کیسے دے گی؟ان پانچ برسوں میں مسلمان اپنے ہی ملک میں اچھوت بن گیا، مودی حکومت ،جو پانچ برسوں میں نہیں کر سکی،وہ آنے والے پانچ برسوں میں موت کے کھلے ننگے ناچ کے ساتھ کرنا چاہتی ہے،آر ایس ایس اب ہندستان کا مستقبل ہندو راشٹر کی شکل میں لکھنا چاہتا ہے اور اس ہندو راشٹر میں مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اوریہ نہ بھولیے کہ ملک کی’’کٹرتا‘‘ کی تاریخ میں مودی کسی شخص کا نام نہیں، آئیڈیالوجی کا نام ہے، شخص مرسکتا ہے،مگر آئیڈیالوجی بندوق سے چھوٹی ہوئی طوفانی گولی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے،تاریخ اٹھا کر دیکھیے، تو مودی نہ مسلمانوں کے خلاف اپنے کسی بھی رویے سے نادم ہوا، نہ گجرات کے قتل عام کے لیے معافی مانگی، نہ ہجومی تشدد پر کوئی درد اس کے سینے میں ہے؛بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد مودی موت اور خوف کی ایسی علامت بن گیا کہ سیاسی پارٹیوں کو بھی ملک کے ساتھ اپنا مستقبل بھی خطرے میں نظر آنے لگا،آئیڈیالوجی برسوں اور صدیوں حکومت کرتی ہے؛اس لیے یہ غور کرنا ضروری ہے کہ جس شخص نے گجرات کے مسلمانوں کو اپاہج کیا ،اس نے پانچ برسوں میں مسلمانوں سے سر اٹھا کر جینے کا حق بھی چھین لیا۔
مسٹر گاندھی!سو سال پہلے امریکی آزادی کے حلف نامے پر دستخط کرنے والوں نے ایک خواب دیکھا تھا کب ختم ہوگی نا انصافی؟ غلاموں کی زندگی میں کب آئے گی امید کی کرن؟ ان پانچ برسوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی بڑھتی پھیلتی آگ بار بار ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں شاید اسی سوال کو اٹھاتی رہی ہے، کب ختم ہوگا غیر محفوظ ہونے کا احساس؟ فی الحال ملک کی بد تر ہوتی صورت حال کو دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ کسی نہ کسی کو تو آگے بڑھ کر ان ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی۔
مسٹر گاندھی! آپکا مذاق اگر2019 گنوا دیتا ہے، تو مسلمانوں کے ساتھ برا حشر تو ہوگا ہی، آپ کی کانگریس کا بھی نام و نشان مٹ جائے گا۔

You may also like

Leave a Comment