Home تجزیہ مسلم نوجوانوں کو تباہ کرنے کا منصوبہ

مسلم نوجوانوں کو تباہ کرنے کا منصوبہ

by قندیل

محفوظ الرحمن انصاری
حال ہی ہونے والی گرفتاریوں پر گفتگو کرنے سے پہلے اگر گذشتوں برسوں اور دہائیوں میں تفتیشی و خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے ہونے والی گرفتاریوں پر نظر ڈالی جائے ،تو حج ہاؤس ممبئی کے امام غلام یحیٰ،پڑگھا کے ثاقب ناچن،گھاٹ کوپر ممبئی بلاسٹ میں ڈاکٹر متین اور ممبئی لوکل ٹرین بم بلاسٹ میں عبد الواحد کوئی ثبوت نہ ملنے پر عدالت سے باعزت بری کردیے گئے۔اکشر دھام مندر حملے میں خونخوار دہشت گرد قرار دے کر گرفتار کیے گئے اور نچلی عدالت اور ہائی کورٹ سے سزائے موت پانے والے لوگوں تک کو سپریم کورٹ نے باعزت بری کردیا۔ اسی طرح مالیگاؤں میں 2006 کے بم بلاسٹ میں پہلے تو بے قصوروں کو گرفتار کیا گیا اور دو سال بعد2008 میں ہیمنت کرکرے کے ذریعے اصل قصور وار گرفتار کیے گئے۔ دوردرشن سے وابستہ رہے صحافی محمد احمد کاظمی نیز مولانا انظر شاہ اور افتخار گیلانی سمیت درجنوں افراد بھی باعزت بری کیے گئے۔ ان تمام معاملات میں مسلمانوں کو گرفتار کرتے وقت جو موقعِ واردات سے خطرناک چیزیں ضبط کی گئی تھیں ،وہ کہیں کھانا پکانے والا پریشر کوکر،ٹریکٹر کا کوئی پرزہ،مسالہ پیسنے کی سِل اور دینی کتابیں تھیں،جن کو بنیاد بنا کر فرضی کہانی بنائی گئی۔ان تمام کی پول عدالت میں کھُل گئی۔
یہ بھی ہوا کہ بچوں کی طرح کہانیاں گھڑ کر انکاؤنٹر کرکے نوجوانوں کا قتل کیا گیا۔جیسے تلنگانہ میں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنے ہوئے نوجوانوں کا پولس پر اسلحہ کے ساتھ قاتلانہ حملہ یا پھر بھوپال جیل سے چودہ فٹ اونچی دیوار پھاند کر لکڑی کی چابی سے لوہے کا تالا کھولنے کی کہانی گھڑ گھڑ کر نوجوانوں کا قتل کیا گیا۔اب مسلمانوں کو برباد کرنے کیلئے ایک نئے پیٹرن پر کام ہو رہاہے۔ پہلے کسی فساد کی آڑ میں مسلمانوں کی دکانوں کو جلا کر صرف مسلمانوں کو وقتی نقصان پہنچایا جاتا تھا،اب منصوبہ یہ ہے کہ دین سے دور اور بے روزگار مسلم نوجوانوں کو نشے کی لت لگاکر نشے کی موت مارو اور ان کے خاندان کا مستقبل برباد کردو۔ یہی سبب ہے کہ مسلم علاقوں میں نشے کا کاروبار رکنے کا نام نہیں لے رہاہے، دوسری طرف پڑھے لکھے دیندار مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرکے ایک تیر سے کئی شکار کیے جارہے ہیں۔
(۱) اس نوجوان کی زندگی کے قیمتی سال جیلوں میں سڑا کر برباد کر ڈالو،دس پندرہ سال بعد وہ رہا بھی ہو جائے ،تو اپنے خاندان اور قوم کے کسی کام کا نہیں رہے گا۔(۲) گرفتار شدگان کے خاندان کا نہ صرف مستقبل تباہ ہو جائے ؛بلکہ وہ دانے دانے کو محتاج ہو کر دردر بھیک مانگیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ فساد میں تباہ ہونے والے مسلمانوں سے تو لوگ ہمدردی رکھتے ہوئے امداد و ریلیف میں بھی دلچسپی لیتے ہیں ،مگر دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں گرفتار ہونے والے مسلمانوں سے قوم، حتیٰ کہ رشتے دار تک ملنے سے پرہیز کرتے ہیں، ان کے بچوں تک کو کوئی ملازمت نہیں دیتا۔یہ دردناک حقیقت رہا ہونے والے کئی بے قصور بیان کرچکے ہیں۔ (۳) دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں کو خونخوار دہشت گرد کے طور پر میڈیا کے ذریعے مشتہر کرکے ملک کے تمام مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔(4) ان بے گناہ مسلمانوں کو رہائی دلانے کیلئے مقدمات میں کروڑوں روپئے خرچ ہوتے ہیں ،جو کہ قوم کے ہی ہوتے ہیں۔اگر یہ دہشت گردی کا من گھڑت مسئلہ کھڑا نہ ہوتا اور فرضی طور سے مسلم نوجوانوں کو اس میں نہ گھسیٹا جاتا، تو یہ رقوم مسلمانوں کی تعلیم و روزگار یا دیگر سماجی و فلاحی کاموں میں خرچ کی جاتیں ،تو قوم کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا تھا؛اس لیے قوم مسلم کا پیسہ عدالتی جھمیلوں میں خرچ کروا کر انہیں پسماندہ رکھنے کا یہ بھی ایک منصوبہ ہے۔
مذکورہ بالا حقائق پر یقین نہ آئے تو جمعیتہ العلما کی سالانہ روداد پڑھ لیں، اس میں مسلم نوجوانوں کے زیر سماعت مقدمات پر کروڑوں خرچ ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے دیگر فلاحی کاموں کے لیے رقم کافی کم بچتی ہے۔ان تمام معاملات کو سمجھنے کیلئے اکشر دھام مندر حملہ الزام سے بری ہونے والے مفتی عبد القیوم کی کتاب ’’گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے‘‘،ممبئی لوکل ٹرین بلاسٹ سے بری ہونے والے عبد الواحد کی کتاب ’’بے گناہ قیدی‘‘ اور رعنا ایوب کی ’’گجرات فائلس‘‘ کا مطالعہ ضروری ہے، جو بہت ہی بھیانک انکشاف کرتی ہیں؛لہٰذا ان تمام معاملات کو معمولی نہ سمجھتے ہوئے ،انھیں قوم کیلئے ایک چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہوئے سبھی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان کیلئے سیاسی،قانونی یا سماجی حکمت عملی بنائیں۔ ورنہ اب بیشتر مسلم والدین اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ ان کا بچہ اگر دین سے دور اور غلط صحبت کا شکار ہے، تو کہیں نشے کی لعنت کا شکار نہ ہوجائے اور اگر دین دار،تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہے ،تو ملک کی خفیہ ایجنسی آئی بی یا تفتیشی ایجنسی اے ٹی ایس کا شکار نہ ہو جائے! کیا خواجہ یونس کے سانحہ کو ہم اتنی جلدی بھول گئے؟ یا ہمیں مزید کسی خواجہ یونس کا انتظار ہے؟

You may also like

Leave a Comment