Home ستاروں کےدرمیاں مؤرخ و مجاہدِ آزادی مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ

مؤرخ و مجاہدِ آزادی مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ

by قندیل

(یومِ پیدایش پر خاص مضمون)
محمد توصیف صدیقی قاسمی
مؤرخِ اسلام، مجاہدِ آزادی ،تحریکِ شیخ الہند کے بے لوث کارکن، محدث، فقیہ، مؤلفِ کتبِ کثیرہ حضرت مولانا سید محمد میاں صاحبؒ (سابق شیخ الحدیث و مفتیِ اعظم مدرسہ امینیہ دہلی و ناظم اعلیٰ جمعیت علماے ہند)کی ولادت 12رجب،1321ھ بمطابق 4 اکتوبر 1903ء کو دیوبند کے محلہ ’’سرائے پیرزادگان‘‘ میں ہوئی،تاریخی نام ’’مظفرمیاں‘‘ رکھا گیا۔
خاندان اور نسب:
آپ دیوبند کے مشہور خاندان‘‘سادات رضویہ‘‘ سے تعلق رکھتے تھے۔دیوبند160میں سادات کے خاندانوں میں یہی خاندان سب سے قدیم ہے۔ گیارہویں صدی کے اوائل میں جد امجد سید ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ دیوبند قیام فرماہوئے تھے، یہ جہانگیر کا دور تھا، ان کی وفات 1034ھ میں ہوئی اور محلہ’’سرائے پیرزادگان‘‘ میں ہی مدفون ہوئے۔
اس خاندان کے حالات ’’تاریخِ دیوبند‘‘ میں بھی دیے گئے ہیں، نیز دیوبند سے ایک رسالہ’’تذکرہ سادات رضویہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے، اس میں شجرۂ نسب بھی ہے،میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان چالیس واسطے ہیں۔
تعلیم:
تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا، قرآن شریف ضلع مظفر نگر کے ایک میاں جی سے پڑھا۔
دارالعلوم دیوبند میں داخلہ اور فراغت:
1331ھ (مطابق 1912ء) کو دارالعلوم دیوبند کے درجہ فارسی میں (بعمر 10 سال) داخل ہوئے، 1343ھ (مطابق 1925ء) کو سندِ فراغت حاصل کی، آپ کا شمار رئیس المحدثین علامہ انور شاہ کشمیر یؒ ، شیخ الادب مولانا محمد اعزاز علی امروہویؒ اور جامع المعقول والمنقول حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ کے ارشد تلامذہ میں ہوتا ہے۔
تدریس کا آغاز:
شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ کے مشورہ سے1926ء میں مدرسہ حنفیہ، آرہ (شاہ آباد) صوبہ بہار میں تدریس کا آغاز کیا اور تین سال وہاں قیام کرنے کے بعد اس لیے دل برادشتہ ہوئے کہ اس مدرسہ کو سرکاری ایڈ (امداد) ملتی تھی ،جو دارالعلوم دیوبند کے اصول کے خلاف تھی؛ لہذا آپ نے مدرسہ حنفیہ چھوڑ دیا۔
تصنیفی خدمات:
مولانا سید محمد میاں صاحب بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں، فقہ اور تاریخ پران کی گہری نظر تھی، وہ نامور مصنف اور مؤرخ تھے، جمعیت علماے ہند کی تاریخ میں ان کی سیا سی اور تصنیفی خدمات ہمیشہ یاد گار رہیں گی، مختلف موضوعات پر لکھی ہوئی تقریبا 90 کتابیں آپ کی علمی یادگار ہیں، ان میں سے بعض کتابیں مدارس کے نصاب میں شامل ہیں اور بعض کو تاریخی مراجع کی حیثیت حاصل ہے۔
آپ کی شاندار اور شہرہ آفاق تصنیفات میں سے چند مشہور کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:
(۱) علماے ہند کا شاندار ماضی (چار حصے)
(۲) علماے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے (دو حصے)
(۳)جمعیت علماے ہند کیا ہے؟ (دو حصے)
(۴) سیرت محمد رسول اللہﷺ
(۵) عہدِ زریں (دو جلدیں)
(۶) صالح جمہوریت اور تعمیرِ جمہوریت
(۷) نور الاصباح شرح نور الایضاح (اردو)
(۸) مشکوٰۃ الآثار و مصباح الابرار (جو دارالعلوم دیوبنداوراس سے وابستہ سیکڑوں مدارس کے نصاب میں شامل ہے)
(۹) جمہوریت اپنے آئینے میں
(۱۰) اسلام اور انسان کی حفاظت و عزت
(۱۱) ہماری اور ہمارے وطن کی حیثیت اور ترکِ وطن کا شرعی حکم
(۱۲) دینِ کامل
(۱۳) حیاتِ مسلم
(۱۴) چاند تارے اور آسمان
(۱۵) آنے والے انقلاب کی تصویر
(۱۶) خطر ناک نعرے اور جمیعت علماے ہند کا160صراط مستقیم
(۱۷) تحریکِ شیخ الہند
(۱۸) حیات شیخ الاسلام
(۱۹) اسیرانِ مالٹا
(۲۰) مختصر تذکرہ خدماتِ جمعیۃ علماے ہند (چار حصے)
(۲۱) ہندوستان شاہانِ مغلیہ کے عہد میں
(۲۲) سیاسی و اقتصادی مسائل اور اسلامی تعلیمات و اشارات
(۲۳) مسئلۂ تعلیم اور طریقۂ تعلیم (معلمین کے لیے)
(۲۴) پانی پت اور بزرگانِ پانی پت
(۲۵) شواہدِ تقدسِ حضرت عثمان غنیؓ
(۲۶) روزہ و زکوٰۃ
(۲۷) تاریخ اسلام(تین حصے)
(۲۸) دینی تعلیم کے رسائل (بارہ حصے)
(۲۹) ہمارے پیغمبرﷺ
آخرالذکر تین کتابیں اکثر مدراسِ اسلامیہ و مکاتبِ دینیہ میں پڑھائی جاتی ہیں۔
ہندوستان اور جمعیت علماے کی تاریخ پر گہری نظر:
جمعیت علماے ہند کی سیاسی تاریخ اور اس کے ریکارڈ پر ان کی نظر بڑی وسیع تھی، علماے ہند کی سیاسی خدمات سے عوام کو روشناس کرانے کے لیے انہوں نے عظیم تصنیفی کارنامہ انجام دیا ہے۔ہندوستان کے آخری عہدِ اسلامی کی تاریخ پربھی ان کی بڑی گہری نظر تھی، خاندانِ حضرت شاہ ولی اللہؒ اور اکابرِ دیوبند کی علمی و سیاسی اور دینی و تبلیغی جدّ و جہد پر ان کی تحریریں بڑی مستند سمجھی جاتی ہیں، امریکہ اور یورپ کے مصنفین بھی ان کے حوالے دیتے ہیں، ان کی تصانیف کو قبولِ عام حاصل ہے۔
مولانا محمد میاںؒ سیاست میں:
جمعیت علماے ہند کا اجلاس 1929ء میں قصبہ امروہہ ضلع مرادآباد میں ہورہاتھا، مولانا سید محمد میاںؒ اس زمانہ میں مرادآباد کی مشہور درس گاہ جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد میں درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے تھے ،شہر مرادآباد پورے ضلع کا صدر مقام ہے اور قصبہ امروہہ مرادآباد سے تقریباً اٹھارہ میل کے فاصلے پر ہے؛ اس لیے مرادآباد کے حضرات بھی اس اجلاس کے داعی اور ذمہ داروں میں شامل تھے، مگر مولانا محمد میاں صاحبؒ اس وقت تک صرف ایک مدرس تھے، جن کو حضرت مولانا حبیب الرحمن رحمۃ اللہ علیہ (سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند) اور شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحبؒ (سابق شیخ الفقہ والادب دارالعلوم دیوبند) نے چند ماہ پہلے مدرسہ حنفیہ، آرہ، شاہ آباد (صوبہ بہار) سے وہاں بھیجا تھا۔
البتہ جذبۂ صادق نے میاں صاحبؒ کو حضرت مولانا سید فخر الدین احمد صاحب اور حضرت مولانا قاری عبداللہ صاحب مرحوم کی پارٹی کا ایک رکن یا ایک رضا کار بنادیا تھا اور اس بنا پر اس اجلاس سے مولانا میاں صاحبؒ کا تعلق صرف وزیٹر یا تماشائی کا نہیں تھا؛ بلکہ یہ حیثیت ہوگئی تھی کہ ایک مبصر کی طرح قریب سے قریب ہو کر حالات کا جائزہ لے سکیں۔(مجاہدملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی: ایک سیاسی مطالعہ:132، مرتب: ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری)
مولانا محمد میاں کی خدمات:
ابتداء اً مولانا میاں صاحبؒ مدرسہ شاہی مرادآباد کے مدرس اور جمعیت علما شہر مرادآباد کے ناظم تھے، اس موقع پر لفظ لیڈر استعمال کرنا درست ہو، تو مختصر تعبیر یہ ہے کہ مولانا مقامی لیڈر تھے اور مجاہد ملت (مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ ) آل انڈیا لیڈر تھے، مگر خوش قسمتی سے میاں صاحبؒ ایک مرتبہ جیل کاٹ چکے تھے، اس بنا پر ایک خاص امتیازحاصل ہوگیا تھا۔
دوسرا امتیاز یہ تھا کہ مولانا کو جمعیۃ علماے ہند کا نواں ڈکٹیٹر نامزد کیا جاچکا تھا، اس کی تشریح یہ ہے کہ اس زمانہ میں کانگریس خلافِ قانون جماعت قرار دی جاچکی تھی اور جمعیت علماے ہند کو اگرچہ انگریزی ڈپلومیسی نے خلافِ قانون جماعت قرار نہیں دیا تھا (تاکہ خود انگریزی حکومت کے عمل سے اس کے دعوے کی تردید نہ ہو جائے کہ مسلمان تحریک آزادی میں شریک نہیں ہیں) مگر عمل جمعیت علماے ہند کے ساتھ معاملہ ایسا ہی تھا، جیسا کسی خلافِ قانون جماعت کے ساتھ ہوسکتا ہے،اس کے دفتر پر پولیس کے چھاپے پڑتے رہتے تھے،نمایاں کارکنوں کو گرفتار کرلیا جاتا تھا وغیرہ وغیرہ۔(مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ ص: 142، مرتب: ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری)
علماے ہند کا شاندار ماضی کی ضبطی:
یوپی حکومت نے مولانا سید محمد میاں کی مایہ ناز کتاب ’’علماے ہند کا شاندار ماضی‘‘ کی ضبطی کے احکام جاری کیے، جس پر جمعیت علماے ہند کی مجلس عاملہ نے 13؍14جولائی 1940ء کے اجلاس میں اس بات کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ جمعیت اس کو صریح تشدد اورقانون کا بے جا استعمال سمجھتی ہے؛ کیونکہ وہ کتاب محض ایک تاریخی کتاب ہے، جس میں گذشتہ واقعات کو تاریخ کی کتابوں کے حوالے اور اسانید کے ساتھ جمع کیاگیا ہے، اس ضبطی کا علوم وتصنیفاتِ جدیدہ کی تدوین و اشاعت پر نہایت ناگوار اورناقابل برداشت اثر پڑے گا۔ (جمعیۃ العلما کیا ہے؟، ص: 314)
جمعیت کے ناظم عمومی:
1945ء میں جمعیت علماے ہند کے ناظم عمومی مقرر ہوئے اور سیاسی و جماعتی جد و جہد کے لیے دہلی میں مستقل سکونت اختیار کی۔
بھاگل پور کے فسادات میں مولانا میاں صاحب کا کردار:
27ستمبر 1950ء کو چلمل ضلع بھاگل پور میں فساد ہوا، جہاں حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب اور حضرت مولانا نور الدین صاحب بہاری بشکلِ وفد پہنچے اور مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن صاحب نے وزیراعظم بہارمسٹر سری کرشن سنہا کو تار دے کر متوجہ کیا، پھر 11 ستمبر کو دہلی میں وزیراعظم ہند سے دوبارہ ملاقات کی۔ (مجاہدملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ، ص: 311)
بھوپال کے فسادات میں میاں صاحب کا کردار:
سب سے پہلے یکم مارچ 1953کو عین ہولی کے دن اور پھر ۵ مارچ کو(رنگ پنچمی کے روز) بھوپال میں شدید فساد ہوا، جہاں حضرت مولانا محمد میاں صاحب نے مسٹر یوسف فیروزی اور مولانا فقیہ الدین پر مشتمل وفد کے ساتھ پہنچ کر اصلاحِ حال کی پوری کوششیں فرمائیں، 16اپریل کو چومو(ضلع جے پور) میں گڑبڑ ہوئی اور وہاں مسٹر سلطان یار خان وکیل کو بھیجا۔
شدھی فتنے کی سرکوبی:
اسی زمانے میں گجرات کے نواح میں شدھی تحریک نے پوری قوت کے ساتھ سر اٹھایا، تو اس کے مقابلے اور روک تھام کے لیے ناظم جمعیت علما حضرت مولانا محمد میاں صاحبؒ گجرات پہنچے اور مولانا شمس الدین صاحب بڑودویؒ کے ساتھ انہوں نے نہایت مؤثر مفید اور خاموش خدمات انجام دیں ،جن سے اس فتنہ کی سرکوبی ہوسکی۔
(مجاہدملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی: ایک سیاسی مطالعہ، ص: 312)
درس و تدریس سے دوبارہ وابستگی:
تقریبا 34 سال بعد سیاست کی پرخار وادی سے نکل کر 1963ء میں جمعیت علماے ہند کی نظامت سے دستبردار ہوگئے اور مدرسہ امینیہ (کشمیری گیٹ)دہلی میں درسِ حدیث پر مامور ہوئے اور آخر عمر تک مدرسہ میں شیخ الحدیث اور صدر مفتی کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
وفات:
16 شوال المکرم 1395ھ، 22/ اکتوبر 1975ء کو 74 سال کی عمر میں اس دارفانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرمائی، دہلی میں آسُودۂ خواب ہیں۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے!

You may also like

Leave a Comment