Home خاص کالم قصہ شعرا کے "چھچھورے پن" کا

قصہ شعرا کے "چھچھورے پن" کا

by قندیل


کامران غنی صباؔ
6 اکتوبر کو جناب ایم آر چشتی کا میسج آیا کہ کامران بھائی! بہار کے 25 شعرائے کرام کا نام چاہیے۔ مجھے لگا کہ شاید کسی طالب علم کو بتانا ہوگا یا ممکن ہے کسی امتحان کا سوال ہو۔ پھر فوراً یہ بھی خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہیں کوئی مشاعرہ ہونے والا ہو۔ وضاحت کے لیے میں نے جوابی میسج کرتے ہوئے پوچھا کہ نئے یعنی زندہ شعراکے نام چاہئیں یا پرانے (مردہ) شعرا کے؟تب انہوں نے بتایا کہ یوپی کے دادری میں ایک مشاعرہ ہونے والا ہے،جو بغیر رکے مسلسل چار دن تک چلے گا۔ چشتی بھائی میرے بہت اچھے دوستوں میں سے ہیں، وہ ان چند شعرا میں سے ایک ہیں، جن کی میں دل سے عزت کرتا ہوں۔ ان کے حکم کو ٹھکرانا میرے لیے تقریباً نا ممکن ہے۔ میں نے وعدہ کر لیا کہ اسکول سے فراغت کے بعد شعرا کے نام بھیج دوں گا۔ جیسے ہی اسکول سے چھٹی ہوئی اور ابھی گھر پہنچا بھی نہیں تھا کہ جناب جمیل اختر شفیق کا فون آ گیا ۔ انہوں نے بھی اسی مقصد سے یادکیا تھا۔ جمیل بھائی تو یوں بھی مسلسل رابطے میں رہتے ہیں، پھر ان سے ذرا بے تکلفی بھی ہے۔ سو اب دو بہت ہی خاص دوستوں کے دباؤ میں آکر میں نے بھی سوچا کہ چلو کم سے کم اسی بہانے اپنے کچھ ایسے دوستوں کو "پار” کرنے کا موقع مل جائے گا، جو کبھی کسی کو امید بھری نگاہ سےدیکھتے تک نہیں، نہ کبھی کسی مشاعرے میں بلائے جاتے ہیں۔
ابھی ان دونوں کے رابطے میں تھا ہی کہ مجاہد حسین حبیبی اور ندیم نیر صاحبان کے فون آنے شروع ہو گئے۔ندیم نیر صاحب نے بتایا کہ اس مشاعرے میں پورے ہندوستان کے 555 شعرائے کرام اپنا کلام پیش کریں گے اور یہ مشاعرہ گنیز بک آف ورلڈ رکارڈ میں درج کیا جائے گا۔ ندیم نیر صاحب نے ایک فارم بھی بھیج دیا اور کہا کہ آپ کے توسط سے جو فارم موصول ہوگا، اسے ہی قابل قبول سمجھا جائے گا۔میں نے ندیم نیر صاحب سے معذرت کر لی کہ چھٹی نہیں ہونے کی وجہ سے میں خود تو شریک نہیں ہو پاؤں گا،البتہ آپ نے جو ذمے داری دی ہے،اسے پورا کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس کے بعد چند دوستوں کو میں نے اس مشاعرے کی خبر دے کر مشاعرہ میں شامل ہونے کے سلسلے میں ان کی رضا مندی لینے کی غرض سے فون کیا۔بس پھر کیا تھا،چند گھنٹوں میں ہی فون کالز کی ایک لڑی سی لگ گئی۔ شعراے کرام فون پر اپنا اپنا قصیدہ سنانے لگے۔جنہیں اللہ نے زیادہ فہم و فراست سے نوازا ہے، انہوں نے میری قصیدہ خوانی کرنا زیادہ نفع بخش سمجھا کہ شاید اس طرح "دادری کا ٹکٹ” آسانی سے مل جائے۔ جنہوں نے زندگی میں کبھی فون یا میسج نہیں کیا تھا، وہ بھی میری نظم و نثر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگے۔ یقین جانیے مجھے اپنی اہمیت اور صلاحیتوں کا اندازہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔بہر حال! میں نے 24 شعرائے کرام کے نام ندیم نیر صاحب کو بھیج دیے؛ لیکن فون کالز کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ تنگ آکر مجھے اپنا موبائل بند کرنا پڑا، بس بوقتِ ضرورت "محبوب کے دریچے” کی طرح موبائل کھولتا اور اس سے قبل کہ کوئی منچلا کھڑکی سے جھانکنے کی گستاخی کرے، کھڑکی بند کر لیتا۔ تقریباً تین چار دن بعد تین چار گھنٹے موبائل آن رہنے کے باوجود جب کوئی کل نہیں آئی تو دل کو ذرا اطمیان سا ہوا، زندگی معمول پر آ گئی۔
چونکہ اسکول سے میرا روم بالکل قریب ہے؛اس لیے لنچ کے وقفے میں اکثر میں اپنے روم آجاتا ہوں۔ تقریباً ایک گھنٹے کے وقفے میں کھانا کھانے اور ظہر کی نماز کا اچھا خاصہ وقت مل جاتا ہے۔ ایک دن ظہر کی نماز کے لیے جیسے ہی میں نے ہاتھ باندھا، ٹیبل پر رکھا موبائل بجنے لگا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، چار رکعت مکمل ہونے تک مسلسل گھنٹی بجتی رہی۔ مجھے تشویش سی ہونے لگی کہ خدانخواستہ کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ تو نہیں ہو گیا۔ دل میں طرح طرح کے خیالات جنم لینے لگے۔سلام پھیرتے ہی میں نے موبائل اٹھایا۔ ایک ہی نمبر سے 13 مسڈ کال، کال بیک کی تو ایک ہی رنگ میں کال رسیو کر لی گئی۔
” سر !دو روز سے لگاتار آپ کا موبائل بند مل رہا ہے۔ ندیم نیر صاحب نے آپ سے رابطہ کرنے کو کہا ہے۔ پلیز میراتھن مشاعرہ میں میرا بھی نام شامل کر لیجیے”ـ
"شعراے کرام کی فہرست بھیجی جا چکی ہے۔ اب بہتر یہی ہوگا کہ آپ ندیم نیر صاحب سے رابطہ کر لیں”۔ میں نے انہیں مشورہ دیا۔ لیکن وہ تو اس طرح بضد ہو گئے گویا میرے ہاتھ میں ساری خدائی ہو۔ بڑی مشکل سے جان چھڑائی اور بچی ہوئی نماز سجدۂ سہو کے ساتھ مکمل کی۔
میں مشاعرہ اور مشاعروں کی سیاست سے بہت دور بھاگتا ہوں لیکن کبھی کبھی دوستداری نبھانے کے لیے جگر کا خون چھلنی کرنا پڑتا ہے۔کچھ ماہ قبل ایک صاحب نے فون کیا۔ موصوف پٹنہ کے ایک بینک میں ملازم ہیں۔ اردو کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنے آبائی وطن میں ایک مشاعرہ کروانا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ شوق سے کروائیے۔ وہ بضد ہو گئے کہ میں کچھ نوجوان شعرا کے نام انہیں بھیج دوں۔ میں نے نام بھیج دئیے۔ ایک دن پوچھنے لگے کہ مشاعرہ میں کس شاعر کو کتنے پیسے دینے ہیں۔ میں نے انہیں "مشاعرہ کی معاشیات” سمجھا دی کہ یہ آپ پر منحصر ہے کہ کسی کو کتنے پر راضی کریں، شعرا حضرات مفت میں بھی پڑھتے ہیں اور ہزاروں لاکھوں لے کر بھی نخرے دکھاتے ہیں۔ خیر! خدا خدا کر کے مشاعرہ ختم ہوا۔ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد کنوینر صاحب میرا ہاتھ پکڑے پکڑے مجھے تنہائی میں لے گئے۔ انتہائی معصوم سا چہرا بنا کر کہنے لگے کہ مشاعرہ میں کسی نے فائنانس نہیں کیا۔ ذاتی خرچ پر سب کچھ کرنا کرانا پڑا۔ شعرا کو دینے کے لیے زیادہ پیسے نہیں ہیں، کیا کروں؟” میں نے اپنے علاوہ اپنے دو اور شاعر دوست کا نام لے کر کہا کہ ہم تینوں کو چھوڑ دیجیے۔ باقی سے "نبٹ لیجیے”۔مزیداطمینان کے لیے میں اپنےان دونوں دوستوں کو بھی ان کے پا س لے آیا کہ کہیں وہ میری نیت پر شک نہ کرنے لگ جائیں کہ اکیلے میں کیا "سودے بازی "ہو رہی ہے۔کنوینر صاحب نے ہم تینوں کو ایک ساتھ بلا کر وعدہ کیا کہ وہ "دو چار دن” میں "ہمارا پیمنٹ” کر دیں گے۔قسم خدا کی، اس واقعے کو پورے چار مہینےگزر گئےاور ان چار مہینوں کا حساب یہ ہے کہ "دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں” ۔
شعراحضرات کی ایک بڑی بیماری جبراً اپنا کلام سنانا ہے۔کچھ لوگ تو غزل مکمل ہوتے ہی اپنے کسی شناسا کو فون ملاتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے میرے بھی کئی "شناسا” شاعر دوست ہیں۔ ایک روز میں اسکول میں بچوں کا ٹسٹ لے رہا تھا تبھی ایک شاعر دوست کا فون آ گیا۔ دوست بھی کیا کہوں، موصوف "ابا حضور” کی عمر سے کم تو نہیں ہی ہوں گے۔ علیک سلیک کے بعد پوچھنے لگے کہ "کیا آپ کا دو منٹ وقت لے سکتا ہوں؟” میں نے اپنی مجبوری بتاتے ہوئے عرض کیا کہ اگر بہت ضروری ہے تو دو کیا چار منٹ لے لیجیے۔ جنابِ والاکی تو مراد بر آئی،کہنے لگے کہ بالکل تازہ غزل ہوئی ہے۔ سب سے پہلے آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ ابھی انہوں نے مطلع کا پہلا مصرع مکمل کیا ہی تھا کہ میں نے کال "ہولڈ” میں ڈال دی اور بچوں کو سوالنامہ تقسیم کرنے لگا۔ سوالنامہ تقسیم کرنے کے بعد جب کال "ہولڈ” سے ہٹائی تو دوسری طرف سے آواز آ رہی تھی "۔۔۔جناب سن بھی رہے ہیں یا نہیں۔۔۔۔؟” میں نے "دروغ صلاح آمیز” کاسہارا لیتے ہوئے بہت اعتماد کے ساتھ کہا کہ آپ کی کال "ہولڈ” پر چلی گئی تھی۔ اتنا سننا تھا کہ دوسری طرف سے کال "ہولڈ” میں ڈال دی گئی ۔ اس واقعہ کو گزرے کئی مہینے ہو گئے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے تعلقات بھی "ہولڈ” میں چلے گئےہیں۔
(نوٹ ازمضمون نگار:اس تحریر کے سبھی کردار حقیقی ہیں، جن کا مختلف واقعات سے براہ راست تعلق ہو سکتا ہے۔ اگر کسی قاری کو اس تحریر کے کسی کردار میں اپنا عکس نظر آئے، تو اس کا ذمے دار وہ خود ہوگاـ )

You may also like

Leave a Comment