Home غزل غزل

غزل

by قندیل


عارف امام
اِک لفظ ہُوں بچا ہوا دستِ اجل سے مَیں
روزِ ازَل نکالا گیا تھا غزل سے مَیں

وہ گُل ہوں جس کو راس نہیں ایک سی فضا
کِھلتا ہوں باغِ ہست میں ردّ و بدَل سے مَیں

فہرستِ کج ادایاں میں دونوں ہی فرد ہیں
کاکُل کے خم سے آپ تو ماتھے کے بل سے مَیں

دیکھا مجھے تو حلقے میں در آئی کائنات
ورنہ تو گھومتا تھا اکیلا ازل سے مَیں

آواز دے رہا تھا مجھے اک درختِ سبز
مسند پہ تیغ گاڑ کے نکلا محل سے مَیں

خود کو پکارتا تھا سرِ وادئ نفَس
خود ہی پلٹ کے آگیا دشت و جبل سے مَیں

بہروں کے درمیان تسلسل سے گفتگو
محفوظ رہ سکا نہ دماغی خلل سے مَیں

You may also like

1 comment

احمد علی برقی اعظمی 19 ستمبر, 2019 - 10:12

عارف امام کا لب و لہجہ ہے منفرد
عرض ہُنر میں ان کے ہے پُرکیف تازگی
احمد علی برقی اعظمی

Leave a Comment