فیصل صاحب
دل تماشہ ہے تماشہ گر نہیں ہے یار جی
سو زباں بھی چپ رہے بہتر نہیں ہے یار جی
ہم جہاں جس بات پر مجبور ہیں آمین ہے
آپ کو اپنے خدا کا ڈر نہیں ہے یار جی
دستکوں کے خوف تک تو بات آئے گی نہیں
ہم ہیں وہ دیوار جس کا در نہیں ہے یار جی
ایک مرکز آپ ہیں جس کا بنے ہم دائرہ
اپنا کوئی دوسرا محور نہیں ہے یار جی
راستے بے سمت ہیں سو منزلوں کی فکر کر
کارواں کا کوئی بھی رہبر نہیں ہے یار جی
غزل
previous post